چاندنی راتوں کا وعدہ

ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

قسط نمبر 18


سب ناشتہ کی میز پر بیٹھے ہوئے ناشتہ کر رہے تھے


رخسانہ بیگم نے عمران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا


بیٹا تم سمیرا کو میکے بھی لے جاؤ کافی دن ہو گئے ہیں

سمیرا اپنے گھر والوں سے نہیں ملی۔


سمیرا نے فوراً کہا 

نہیں مما میری کال پہ سب سے بات ہوتی رہتی ہے۔


رخسانہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا

سمیرا پھر بھی جاؤ۔

عمران آفس جاتا ہے

صائبہ اور فرینہ بھی یونیورسٹی جا رہی ہیں

اور تم اکیلی بیٹھ جاؤ گی۔


تمہیں پتا ہوگا نانی اور پاپا تمہیں یاد کرتے ہیں

تو جاؤ اور مل کے آؤ۔


سمیرا کچھ سوچتے ہوئے آخرکار راضی ہو گئی اور ناشتہ کر کے تیار ہونے لگی۔


🌷🌷🌷


دوسری طرف شازیہ بیڈ پر بیٹھی تھی اور خیالات کی دنیا میں گم تھی۔


اچانک اس کے فون کی آواز آئی اس نے نظریں سکرین پر ڈالی اور فون اٹھایا

اس پر ماریہ بیگم کا فون تھا۔


ہیلو بہو کیسی ہو؟

 ماریہ بیگم نے خوش دلی سے کہا


شازیہ نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا

میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں؟


ماریہ بیگم نے پھر پوچھا

کیا بات ہے؟

میں جب سے گئی ہوں تم نے کال بھی نہیں کی

اور تم پریشان سی لگتی ہو


ذیشان نے کچھ کہا تو نہیں


شازیہ نے فوراً کہا

نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس اکیلی بیٹھی رہتی ہوں تو تھوڑا ڈر لگتا ہے اس لئے پریشان ہوں۔


ماریہ بیگم نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا


شازیہ پریشان مت ہو ہم دو دن میں واپس آ جائیں گے اور تم دو دن کے لیے میکے جا کر آرام کر لو۔

میں ذیشان کو بتا دوں گی تم بے فکر ہو کر میکے جاؤ اماں تمہیں یاد کر رہی ہوں گی۔


شازیہ نے شکرگزاری کے انداز میں کہا

"جی ٹھیک ہے"

اور کال کاٹ دی وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ وہ کیا بتاتی کہ اس کا شوہر ذیشان نشے کی حالت میں کتنی بار اس پر تشدد کرتا ہے

وہ اس سب سے پریشان ہو چکی تھی۔

تاہم، میکے جانا اس کے لیے ایک اچھا موقع تھا تاکہ وہ ذیشان کی زیادتیوں سے بچ سکے شازیہ نے جلدی سے تیاری شروع کر دی۔


🌷🌷🌷🌷


دوسری طرف بینی آرزم اور عائشہ تینوں گپ شپ میں مصروف تھے۔

زینب پھوپھی اور مہوش بیگم باتیں کر رہی تھیں۔

اچانک مہوش بیگم نے کہا

 "آپ بیٹھیں میں آتی ہوں۔"


اور وہ کچن کی طرف چلی گئیں۔

کچھ دیر کے بعد ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہیں چکر آنا شروع ہو گئے

وہ کچن سے باہر نکلیں اور اچانک نیچے گر گئیں۔


کسی چیز کے گرنے کی آواز سن کر سب بھاگتے ہوئے آئے

آرزم اور زینب پھوپھی نے فوری طور پر مہوش بیگم کو ہسپتال لے گئے

یہ منظر سب گھر والوں کے لیے تشویش کا باعث بن گیا تھا


سب کے چہرے پر فکر اور پریشانی کی جھلک نظر آ رہی تھی۔


🌷🌷🌷


سمیرا میکے پہنچی اور دروازے پر کھڑی ہو کر دیر تک دستک دیتی رہی

لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھولا غصے میں آ کر وہ بڑبڑاتی ہوئی بولی

یہ سب کہاں مر گئے ہیں؟

اتنی دیر سے بیل بجا رہی ہوں لگتا ہے سب نے کانوں میں روئی ڈال رکھی ہے 😡


اسی دوران ملازمہ نے آ کر دروازہ کھولا

سیمیرا کا غصہ مزید بڑھ گیا اور وہ ملازمہ پر پھٹ پڑی کہاں مر گئی تھی؟ اتنی دیر سے دروازے پر کھڑی ہوں


ملازمہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا

سوری بی بی میں اوپر جھاڑو لگا رہی تھی

آواز اوپر پہنچی تو آہستہ آہستہ سیڑھیوں سے نیچے آئی ورنہ گر جاتی کیونکہ سیڑھیوں پر پانی گر گیا تھا۔


سمیرا نے ملازمہ کی باتوں کو نظر انداز کیا اور اندر آ کر صوفے پر بیٹھ گئی۔

وہ غصے میں تھی اور کچھ زیادہ متوجہ نہیں ہوئی۔

پھر اس نے ملازمہ سے پوچھا 


یہ سب کہاں ہیں؟


ملازمہ نے بتایا

وہ سب ہسپتال گئے ہیں پڑوسیوں کی عیادت کرنے ان کے جانے کے بعد ہی آپ آگئیں۔


سیمیرا نے غصے کو پیچھے چھوڑا اور ملازمہ کو کافی بنانے کا حکم دے کر موبائل نکال کر فیس بک پر مصروف ہو گئی۔


اتنے میں شازیہ بھی پہنچ گئی سیمیرا خوش ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور شازیہ کو گلے لگا لیا لیکن شازیہ کی حالت کچھ عجیب تھی

وہ پہلی جیسی خوش نظر نہیں آ رہی تھی

نہ زیادہ ہنس رہی تھی نہ مسکرا رہی تھی

سیمیرا نے فوراً نوٹ کیا کہ کچھ تو ہے جو شازیہ چھپا رہی ہے۔


دونوں بہنیں گپ شپ میں مشغول ہو گئیں

لیکن اچانک شازیہ کو الٹی آ گئی

وہ فوراً اُٹھ کر واشروم کی طرف دوڑی

سیمیرا پریشان ہو گئی کہ ابھی تو وہ بالکل ٹھیک تھی

پھر یہ کیا ہوا؟

وہ فوراً شازیہ کے پیچھے بھاگ کر گئی اور پوچھا

کیا ہوا؟

ابھی تو تم ٹھیک تھیں؟


شازیہ باہر آ کر بولی

کچھ نہیں بس گھر میں کچھ کھا لیا تھا

اس وجہ سے الٹی آئی۔


سیمیرا کو شازیہ کا جواب کچھ عجیب لگا اور وہ فوراً اسے ہسپتال لے جانے پر بضد ہو گئی


 


شازیہ نے بہت انکار کیا

لیکن سیمیرا نے اس کی بات نہ سنی اور کہا

چلو تمہیں ہسپتال لے کر چلنا ہی ہوگا

کہیں کچھ غلط نہ ہوجائے


🌷🌷🌷🌷🌷🌷


ہسپتال پہنچ کر شازیہ کی طبیعت کا جائزہ لیا گیا اور ڈاکٹروں نے چند ٹیسٹ تجویز کیے

شازیہ تھوڑی بے چین تھی لیکن سیمیرا نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا

سب ٹھیک ہو جائے گا

بس تم فکر نہ کرو۔


جیسے ہی ڈاکٹر نے شازیہ کا معائنہ کیا تو اس نے بتایا کہ شازیہ ماں بننے والی ہے سمیرا کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی لیکن شازیہ پریشان نظر آئی


سمیرا نے شازیہ سے پوچھا کہ تم پریشان کیوں ہو یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ 

شازیہ نے مصنوعی مسکراہٹ لیے کہا ایسی کوئی بات نہیں۔

میں خوش ہوں۔


ڈاکٹر نے شازیہ کے لیے چند میڈیسن لکھ کر دیئے۔

سمیرا شازیہ کو لےکر باہر نکلی اور شازیہ کو کہا کہ تم یہی کرسی پہ بیٹھو میں میڈیسن لےکر آتی ہوں اسٹور میں تھوڑا رش ھے شازیہ نے بہت ضد کی کہ میڈیسن گھر جاکر ذیشان کے ذریعے منگوا لونگی ابھی گھر چلو۔

لیکن سمیرا نے ایک نہ سنی۔

بالآخر شازیہ وہیں کرسی پہ بیٹھ گئی۔

 


اسی دوران ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ سے آرزم باہر آیا آرزم زینب پھوپھی کے ساتھ مہوش بیگم کو ہسپتال لایا تھا وہ ایک نرم دل سمجھدار نوجوان تھا اس کی نظر کرسی پہ بیٹھی شازیہ پر پڑی اور پہلی بار اس نے ایک دلکشی محسوس کی آرزم وہی ساکت کھڑا شازیہ کو ہی دیکھتا رہا شازیہ کی پریشانی اور غم زدہ چہرہ آرزم کے دل کو چھو گیا______



جاری ہے