چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم؛ داؤد آبان حیدر
قسط نمبر 19
پورے گھر میں عورتوں کی رونے کی آوازیں عروج پر تھیں
محلے کی خواتینبھی جمع تھیں اور مرد حضرات بھی تعزیت کے لیے آ چکے تھے۔
ہر طرف ماتم کی فضا چھائی ہوئی تھی
یہ وہ لمحے تھے جب موت اور غم کا سایہ ہر طرف چھا چکا تھا۔
نانی اماں دو لاشوں کے درمیان بیٹھی ہوئی بے پناہ غم میں سینہ پیٹ رہی تھیں اور بار بار اپنے منہ سے یہی الفاظ نکال رہی تھی
ہائے رے ہائے ہائے اللہ ہائے 😭
اس کی آواز میں اتنا دکھ تھا کہ ہر دل میں درد اٹھنے لگا
سعدیہ بیگم جو خود بھی غم میں ڈوبی ہوئی تھی نانی اماں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی
لیکن اس کا دل بھی ٹوٹا ہوا تھا
اس کے اپنے دل میں بھی غم کا ایک پہاڑ تھا
نانی اماں کے آنسو رک ہی نہیں رہے تھے جیسے وقت بھی روتا ہو۔
پورے گھر میں ماتم کا سماں تھا
محلے اور خاندان کی عورتوں نے اپنی موجودگی سے دکھ اور غم کو بڑھا دیا تھا
ہر طرف گہرے دکھ کی لہر دوڑ رہی تھی
اتنے میں ایک نیک بوڑھی عورت جو محلے میں رہتی تھی بچوں کو مفت میں قرآن پڑھاتی تھی وہ اٹھ کر نانی اماں کے پاس آئی وہ ان کے قریب جا کر
انہیں گلے لگاتی ہے اور بڑی محبت سے کہتی ہے
بہن حوصلہ رکھو! شہید کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ اللہ کی رضا سے زندہ رہتے ہیں۔
جو کچھ ہوا وہ اللہ کی مرضی تھی اور اللہ ہر حال میں ہمارے لیے بہترین سوچتا ہے۔
وہ بوڑھی عورت نانی اماں کو تسلی دینے کی کوشش کرتی ہے اور پھر قرآن مجید کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہے
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ
شہید کو مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں۔
انہیں صبح و شام اپنے رب کی طرف سے رزق ملتا ہے۔
اسی دوران شازیہ بھی روتی ہوئی نظر آتی ہے
اس کے آنکھوں سے بھی آنسو رک ہی نہیں رہے تھے
سیمیرا اس وقت بھی اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھی سیمیرا نے شازیہ کو گلے لگا کر کہا
بس اب رو مت ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔
لیکن شازیہ کا دل ٹوٹ چکا تھا
کیونکہ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دو قریبی رشتہ داروں کو کھو دیا تھا
شازیہ کو جب ماں بننے کی خبر ملی تھی تو وہ پریشان تھی کہ اب بچے کا کیا ہوگا کیا ذیشان اس کو بخشش دینگے انہیں اپنا تسلیم کرلیں گے یا اسکو بھی تشدد کا نشانہ بنائے گا۔
بالآخر شازیہ نے سوچ لیا تھا کہ ماریہ بیگم اور مصطفیٰ ماموں ذیشان کو سمجھادینگے وہ بچے کو نہیں مارےگا اور مجھ پہ بھی تشدد نہیں کریگا۔
دل میں امید تھی لیکن وہ امید بھی ٹوٹ گئی بےچاری شازیہ اب تنہا رہ گئی تھی اس لیے ماریہ بیگم اور مصطفیٰ صاحب کے مرنے پہ زور و شور سے رو رہی تھی ماتم کررہی تھی
سب سمجھ رہے تھے کہ ساس اور سسر کی موت پہ رو رہی ہے لیکن وہ تو اپنے بچے کے لیے ماریہ اور مصطفیٰ سے امیدیں لگائے بیٹھی تھی اسی امید کے ٹوٹنے پہ ماتم کررہی تھی دل میں طرح طرح کے وسوسے جنم لے رہے تھے کہ ذیشان کے ظلم سے اب اس کے بچے کو کون بچائےگا۔۔
سمیرا انہیں سنبھالنے کی کوشش کررہی تھی۔۔
دن کی روشنی میں سورج کی کرنیں آہستہ آہستہ چمک رہی تھیں
مگر ابھی یہ کرنیں بھی جیسے شازیہ کی حالت پر روتی دکھائی دے رہی تھیں
شازیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے
جیسے سمندر سے تیرتے ہوئے پانی کے قطرے۔
آسمان پر بادل چھا گئے تھے
جیسے آسمان بھی ان کے دکھ میں شریک ہو گیا ہو
وہ گہرے سرمئی بادل جو آہستہ آہستہ زمین کی جانب جھک رہے تھے
شازیہ کی آنکھوں میں اک نئے درد کی کہانی سنا رہے تھے
ان بادلوں کی گہرائی میں چھپی ایک خاموشی تھی
نانی شازیہ اور دیگر خواتین کی چیخ و پکار جیسے آسمان کی گہرائی میں جا کر گم ہو گئی ہو
سمیرا خاموشی سے بیٹھی نانی اور شازیہ اور سعدیہ بیگم کو روتی دیکھ رہی تھی۔
جب بادلوں نے اچانک کڑکنا شروع کیا
جیسے وہ بھی اس دردناک موقع پر اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہ رہے ہوں
ایک زور دار گڑگڑاہٹ کے ساتھ بارش کی پہلی بوندیں زمین پر گری جیسے آسمان بھی ان کا غم بانٹنے آ گیا ہو
بارش کی بوندیں جب زمین کو چھوتی تھیں
تو ایک الگ ہی سرگوشی پیدا کرتی تھیں جیسے آسمانی مخلوق بھی شازیہ کے درد کو سمجھ کر ان کی دل کی بات سننا چاہ رہی ہو۔
ہر بوند کے ساتھ شازیہ کے دل میں ایک نئی شدت پیدا ہورہی تھی اور وہ آہستہ آہستہ اپنے غم کی گہرائیوں میں جا رہی تھی
ہائے کتنا دکھ ہے کتنا دکھ
نانی اماں کی آواز میں بھی اب بارش کی پتلی پتلی بوندوں کی سی رقت تھی
وہ زمین پر بیٹھی اپنی گزری ہوئی زندگی کی کہانی کا تذکرہ کر رہی تھیں
اور آسمان کے بادل بھی ان کی آنکھوں کا پانی دیکھ کر کڑکنے لگے
شازیہ روتی ہوئی اٹھ کر چھت پہ چلی آئی۔
شازیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں
اور آسمان کی گہرائی میں جھانکتے ہوئے
خیالوں کے دریچے کھول دیے۔
شاید یہ بارش بھی ایک طرح سے ہمارے لیے ہے ایک نیا آغاز ایک نئی خوشبو!
یہ سوچ کر اس کے دل میں ایک چنگاری سی جلی۔
شاید آسمان بھی جانتا تھا کہ غم کے بعد خوشی کی ہوا آتی ہے
اور بادلوں کے یہ آنسو کہیں نہ کہیں ان کے زندگی کے مسکراہٹوں میں بدلنے والے ہیں
شازیہ نے بارش کی بوندوں کو اپنی چہرے پر محسوس کیا جیسے یہ بوندیں اس کے درد کو دھوئے جانے کا وعدہ کر رہی ہوں۔
اور یوں آسمان کی یہ بوندیں شازیہ کے دل کے زخموں پر مرہم رکھنے میں مشغول تھیں۔
آسمان نے جیسے اپنے آپ کو ان کے دکھ میں شریک کر لیا اور ساتھ ہی ایک نئی امید کی چنگاری بھی جلتی رہی۔
اچانک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جیسے زمین بھی ان کے دکھ میں شریک ہونے کا احساس دلا رہی ہو۔ شازیہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے اردگرد دیکھا
زمین نے اپنی جگہ پر ایک زوردار جھٹکا دیا
اور ہر چیز لرزنے لگی
جیسے ہر شے میں چھپا ہوا درد ایک دم باہر آ گیا ہو۔
نانی اماں کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی خواتین میں گھبراہٹ پھیل گئی۔۔
زمین کی یہ حرکت جیسے ایک دم بکھری ہوئی زندگی کی داستان کو ایک نئے موڑ پر لے آئی تھی___
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment