چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم؛ داؤد آبان حیدر
قسط نمبر 20
رات کا وقت تھا
اور آرزم چھت پر کھڑا چاند کو دیکھ رہا تھا
چاند کی روشنی میں اُس کی نظریں ایک لمحے کے لیے شازیہ کے چہرے کو تلاش کرنے لگیں
جب سے شازیہ نے اُس کی زندگی میں قدم رکھا تھا
وہ خوشی سے بھر گیا تھا
اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اُسے حاصل کرے
چاہے جو بھی ہو جائے۔
تم میری ہو صرف میری ہو اور میں تمہیں ہر حال میں حاصل کروں گا
آرزم نے دل ہی دل میں خود سے کہا۔
🌷🌷🌷
ماریہ بیگم اور مصطفیٰ کی وفات کے بعد پورے گھر میں ایک غمگین خاموشی چھائی ہوئی تھی
ہر شخص ماضی کی یادوں میں گم تھا
اور سب اپنے دکھوں کا بوجھ دل میں سمیٹے ہوئے تھے
شازیہ بھی افسردہ حالت میں بیٹھی تھی
یاد کر رہی تھی کہ ماریہ بیگم اُس سے بہت محبت کرتی تھیں
کیونکہ ماریہ بیگم کی کوئی بیٹی نہ تھی
اس لیے اُس نے شازیہ کو اپنی بیٹی کی طرح محبت دی تھی۔
گھر کی فضا غم سے بھری ہوئی تھی
سعدیہ بیگم نے نانی اماں کو نیند کی گولی دے کر اُنہیں روم میں سلا دیا تھا
اور آدھی رات ہوچکی تھی۔
سب سو رہے تھے
اور ذیشان دل میں خوش تھا کہ اب وہ اپنے والدین کی ساری جائیداد کا مالک بن چکا ہے۔
اُسے لگتا تھا کہ اب اُسے کسی چیز کی فکر نہیں رہی
اور وہ آزاد ہے
جہاں چاہے نشہ کرے جوا کھیلے
اور طوائفوں کے ساتھ وقت گزارے۔
🌷🌷🌷
ایک ماہ بعد، سب ناشتہ کر رہے تھے
شازیہ اپنی سوچوں میں گم تھی
سمیرا نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا
شازیہ تم بہت کم کھاتی ہو۔
ڈاکٹر نے بھی کہا تھا کہ خوراک کا خیال رکھو زیادہ کھایا کرو۔
شازیہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سمیرا نے نانی سے کہا
آپ کو پتا ہے کہ شازیہ ماں بننے والی ہے؟
یہ خبر سن کر مہالال اور سعدیہ نے حیرت سے شازیہ کی طرف دیکھا
نانی اماں تو خوشی سے جھوم اُٹھی جیسے وہ ماریہ بیگم اور مصطفیٰ کی موت کو بھول چکی ہوں۔
کیا؟؟؟ تم سچ کہہ رہی ہو؟
نانی نے بےچینی سے پوچھا۔
ہاں، نانی پوچھیں شازیہ سے۔
سعدیہ نے کہا
مگر شازیہ نے ہمیں یہ بات نہیں بتائی۔
یہ خبر ذیشان کے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھی
اُس نے شازیہ کی طرف دیکھا اور کچھ لمحوں کے لیے اُسے گھومتا ہوا محسوس کیا
شازیہ شرم سے وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
سمیرا نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے سعدیہ سے کہا
امی آپ تو نانی بننے والی ہو 😂
سب ہنس پڑے اور سمیرا نے ذیشان کی طرف دیکھ کر کہا
اوہ مسٹر شریبن کیا ہوا؟ لگتا ہے بیوی کی غیر موجودگی میں ناشتہ نہیں کر پا رہے؟
سب ہنستے ہوئے اپنی جگہ پر بیٹھے کھانے لگئے لیکن ذیشان کے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ تھی
اُس نے نانی سے کہا
دادی اب میں چلتا ہوں کام ہے۔
یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا لیکن اُس کے ذہن میں ایک سوال تھا
شازیہ تو مجھ سے دور رہتی ہے پھر یہ کس کے بچے کی ماں بننے والی ہے؟ کہیں شازیہ کا چکر کسی اور مرد کے ساتھ تو نہیں چل رہا؟
ذیشان کی ذہنی کیفیت تھی کہ وہ اپنی تمام تر بےحسی اور نشے کی حالت میں شازیہ کی قربت سے بےخبر تھا
اور اب وہ اپنی ہراسانی کو دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا۔
نشئی ذیشان یہ تو بھول گیا کہ وہ ہر رات نشت کی حالت میں شازیہ کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتا تھا۔
ماریہ بیگم اور مصطفیٰ کی وفات والے دن سے نانی سمیرا سعدیہ اور مہالال سب ذیشان کے گھر رکے ہوئے تھے۔
اس لیے ذیشان رات جو شراب پی کر وہی باہر دوستوں کے ساتھ کسی فلیٹ میں سوتا تھا تاکہ نشے کی حالت میں شازیہ پہ تشدد کرنے سے کو شک نہ ہو جائے۔
🌷🌷🌷🌷
شام کا وقت تھا اور سمیرا عمران کے ساتھ اپنے گھر واپس جا چکی تھی
مہالالٰ صاحب نے نانی سے کہا
اماں ہمیں یہاں آئے ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے اب ہمیں اپنے گھر واپس جانا ہوگا
سعدیہ بیگم نے بھی ان کی بات پر ہامی بھری۔
نانی نے سوچا
ہاں کب تک یہاں رکے رہیں گے؟
نانی سعدیہ اور مہالالٰ صاحب نے شازیہ اور ذیشان کو دعائیں دیں اور اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے
اور خوشیاں بھی اپنے ساتھ لے گئے لیکن کسی کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ آگے ایک نئی مصیبت ان کے منتظر تھی
رات کا وقت تھا اور شازیہ نماز پڑھ رہی تھی
اتنے میں ذیشان کمرے میں داخل ہوا
اس کی آنکھوں میں غصہ اور پاگل پن تھا
وہ بگڑے ہوئے لہجے میں شازیہ سے بولا
کس کا گناہ پال رہی ہو؟ کس کے بچے کی ماں بننے والی ہو؟ بولو!
شازیہ کی آنکھوں میں خوف تھا
اور وہ جانتی تھی کہ وہ لمحہ آ ہی گیا جس کا اسے ڈر تھا۔
یہ بچہ میرا نہیں ہے؟ ذیشان کی آواز میں سختی تھی اور اس کا غصہ بڑھ رہا تھا۔
ڈرتے ہوئے شازیہ نے کہا
تمہارا بچہ ہو یا نہ ھو لیکن یہ بچہ میرا ہے کیوں ظلم کر رہے ہو مجھ پر؟
میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟ خدا کا واسطہ یہ ظلم بند کردو!
ذیشان نے اس کی باتوں کو نظر انداز کیا اور اس کے بالوں کو زور سے پکڑ کر اُسے بیڈ کی طرف دھکیل دیا
یہ بچہ کسی کا بھی ہو تم اسے ختم کردو ورنہ تمہیں اور تمہارے بچے کو جان سے مار ڈالوں گا
ذیشان نے دھمکی دی پھر وہ غصے میں کمرے سے نکل گیا
شراب پینے اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا
شازیہ کی حالت بہت خراب تھی دل میں خوف اور پریشانی تھی
ذیشان کا رویہ ہمیشہ کی طرح بےرحم تھا اور اب شازیہ کو اپنے بچے کے بارے میں خطرہ محسوس ہو رہا تھا
اس کا ذہن بےچینی سے کام کر رہا تھا وہ بے چین تھی کہ آخرکار کیا کرے تاکہ اپنے بچے کی زندگی بچا سکے۔
شازیہ کا دل تڑپ رہا تھا
اس کے جسم میں درد تھا
لیکن اس کا ذہن ایک ہی سوال پر مرکوز تھا
اب کیا کروں؟ کیسے اپنے بچے کو بچاؤں؟
وہ جانتی تھی کہ اگر وہ کچھ نہ کرے تو ذیشان اسے اور اس کے بچے کو تباہ کر ڈالے گا۔
درد اور خوف کے درمیان شازیہ نے کچھ فیصلہ کرنے کی کوشش کی۔
مجھے کچھ کرنا ہوگا ورنہ یہ نشئی درندہ میرے بچے کو مار ڈالے گا
اس کی آنکھوں میں عزم کی ایک لہر دوڑ گئی
اس کا دل اللہ کے سامنے دعائیں کر رہا تھا کہ کوئی حل نکلے۔
اور پھر اچانک شازیہ کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا
اس نے فوراً اپنے بیگ کو کھولا الماری سے کپڑے نکالے اور جلدی سے بیگ میں ڈالنے لگی__
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment