چاندنی راتوں کا وعدہ

ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

 قسط نمبر 21


جلدی سے کپڑے بیگ میں ڈال کر

پھر وہ بغیر وقت ضائع کیے گھر سے نکل پڑی


اس کا دل تیز دھڑک رہا تھا لیکن اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے بچے کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گی۔


اس رات شازیہ ایک نئی راہ پر قدم رکھنے جا رہی تھی

جہاں اسے خطرات کا سامنا ہوگا لیکن اس کے لیے یہ راہ بچاؤ کی واحد اُمید تھی۔


اس کا ارادہ کچھ ایسا تھا جو اس کے لیے نیا تھا

لیکن شاید یہی واحد راستہ تھا جو اس کے بچے کو بچا سکتا تھا۔

وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی کا یہ سب سے مشکل فیصلہ ہوگا لیکن اسے اپنے بچے کی زندگی بچانی تھی اور وہ کچھ بھی کر کے اسے بچائے گی۔


شازیہ نے اپنے قدموں کو تیز کرتے ہوئے بس اسٹاپ تک پہنچا


جہاں اس کا دل دھڑک رہا تھا وہ جانتی تھی کہ اس وقت اس کا شہر چھوڑنا ضروری تھا کیونکہ ذیشان کا ظلم اور دھمکیاں اب اس کے لیے مزید برداشت کرنا ممکن نہیں تھا


 اس کی طبیعت پہلے ہی خراب تھی

اور وہ تھک چکی تھی

مگر اس کے دل میں ایک ہی جذبہ تھا

 اپنے بچے کو بچانے کا۔


بس کا انتظار کرتے ہوئے اچانک شازیہ کو چکر آنا شروع ہوئے


اس کا سر چکرانے لگا اور وہ تھوڑی دیر کے لیے توازن برقرار نہ رکھ پائی

اس کی حالت اتنی بگڑ چکی تھی کہ وہ بے قابو ہو کر نیچے گر گئی۔


اسی دوران آرزم جو اپنے گھر جا رہا تھا


بس اسٹاپ کے قریب سے گزرا


اس کی نظریں فوراً شازیہ پر پڑیں

وہ ایک لمحے کے لیے رک کر اُس لڑکی کو دیکھنے لگا جو زمین پر گرے ہوئے تھی


آرزم کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور اُس نے بغیر وقت ضائع کیے گاڑی کی اسپیڈ تیز کی اور فوراً اس کے پاس پہنچا۔


کیا ہوا؟ آرزم نے پریشانی کے عالم میں شازیہ کی حالت دیکھتے ہوئے کہا۔


شازیہ کچھ نہیں کہہ پائی

اس کی حالت زیادہ خراب ہوچکی تھی اور وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔


آرزم نے فوراً شازیہ کو اٹھایا اور اپنی گاڑی میں بیٹھا کر ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا

وہ جانتا تھا کہ وقت بہت قیمتی ہے اور اُسے شازیہ کو فوراً علاج کے لیے لے جانا ہوگا۔


ڈاکٹر نے فوراً شازیہ کا معائنہ کیا اور کہا


یہ لڑکی بہت کمزور ہوچکی ہے اسے فوری طور پر سیال دیا جائے گا اور ہم اس کا مکمل چیک اپ کریں گے اس کی ذہنی حالت بھی تھیک نہیں۔


آرزم نے ایک طویل سانس لی


 اس کا دل شازیہ کی حالت دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا کہ آخر کون ظالم ھے جو اس کو پریشان کرتا ھے میں تو اس شخص کو جان سے ماردو گا مگر اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

وہ جانتا تھا کہ اس وقت شازیہ کو اس کی مدد کی ضرورت ہے اور وہ کچھ بھی کرے گا تاکہ وہ جلد ٹھیک ہو جائے۔


ہسپتال کے کمرے میں شازیہ کی حالت بہتر ہوئی اور جب وہ آنکھیں کھولتی ہے تو آرزم اس کے پاس موجود تھا۔


تم ٹھیک ہو؟ آرزم نے پوچھا اس کے چہرے پر تشویش کا غم تھا۔


شازیہ نے دھیرے سے کہا

ہاں... میں ٹھیک ہوں آپ کون؟؟


آرزم نے شازیہ سے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں تمہیں ہسپتال لے آیا تھا تم بےہوش ہوگئی تھی بس اسٹاپ پہ


آرزم نے تسلی دیتے ہوئے کہا تمہیں کسی بھی چیز کی فکر نہیں کرنی چاہیے

اب تم یہاں ہو اور میں تمہاری ہر مدد کروں گا۔


شازیہ کا دل تھوڑا سا سکون میں آیا

وہ جانتی تھی کہ اس وقت اس کا راستہ اور بھی مشکل ہو سکتا تھا مگر اب جب ایک اجنبی کی مدد مل رہی تھی تو وہ سوچنے لگی کہ کیا یہ تقدیر کا ایک نیا رخ ہے؟ کیا یہ راستہ واقعی اس کے لیے بہتر ہوگا؟

کیا واقعی یہ شخص اس کی مدد کرسکےگا؟


اس لمحے میں شازیہ نے اپنے دل میں ایک نیا حوصلہ پایا وہ اپنے بچے کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کرے گی اور اب شاید اسے اس راستے پر چلتے ہوئے ایک نیا مددگار مل چکا تھا جو اسے اس مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔


شازیہ سوچتی رہی کہ اسے کسی اجنبی کی مدد مل رہی ھے تو موقع ظائع نہیں کرنا چاہیے۔


آرزم نے شازیہ سے پوچھا تمہارا گھر کہاں ہے تاکہ میں تمہارے گھر والوں کو اطلاع دے سکو کہ تم یہاں ہو


شازیہ کی آنکھوں سے آنسوں نکل پڑے 

اس نے کہا میرا کوئی گھر نہیں۔

میں بچے کی ماں بننے والی ہوں

آپ مجھے کسی یتیم خانے میں بھیج دے تو آپ کی مہربانی ہوگی۔


شازیہ کی آنکھوں میں بے پناہ درد تھا اور اس کی حالت دیکھ کر آرزم کی دل میں ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

وہ جانتا تھا کہ اس کا دل بہت پریشان ہے اور وہ اس وقت ایک اجنبی کے سامنے اپنا دل کھول کر کہہ رہی تھی کہ اس کا کوئی گھر نہیں

اور وہ یتیم خانہ جانے کی بات کر رہی تھی

وہ اس کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا

آرزم نے حیرت سے شازیہ سے پوچھا 

تم ماں بننے والی ھو تو تمہارا شوہر کہاں ہے؟؟


شازیہ کی نظریں جھک گئیں اور اس نے ایک لمحے کے لیے گہری سانس لی

وہ نہیں چاہتی تھی کہ آرزم کو اس کی حقیقت کا پتا چلے اس لیے اس نے جھوٹ بولا

میرا شوہر نشہ کرتا تھا اور وہ فوت ہو گیا۔


آرزم نے شازیہ سے پوچھا کہ تم اگر برا نہ مانو تو میرے ساتھ چل سکتی ہو میرے گھر میں میری امی اور سسٹر رہتے ہیں وہ تمہارا بہت خیال رکھے گے اور تمہارے بچے کا بھی۔


آرزم کی نظریں غمگین ہو گئیں اور اس نے سوچا کہ شازیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بہت افسوسناک تھا اس کی تکلیف کو سمجھ سکا تھا وہ جانتا تھا کہ کسی بھی انسان کو ایسی تکلیف میں زندگی گزارنے کا حق نہیں تھا


شازیہ ایک لمحے کے لیے سوچنے لگی

دل میں گہری کشمکش محسوس ہوئی اسے آرزم کے الفاظ میں کوئی جھوٹ نہیں لگا تھا

اس کا دل یہی چاہتا تھا کہ وہ اپنے بچے کی حفاظت کے لیے ایک قدم آگے بڑھے

پھر دل میں ایک آواز آئی


اگر تم بچہ بچانا چاہتی ہو تو تمہیں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔


پھر شازیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس نئے راستے پر چل کر ایک نیا آغاز کرے گی

اس نے آرزم کی طرف دیکھا اور ہمت پکڑ کر کہا


میں آپ کے ساتھ چلوں گی مگر مجھے بچہ کی حفاظت سب سے اہم لگتی ہے۔


آرزم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا

تم فکر نہ کرو تم دونوں محفوظ رہو گے۔


شازیہ کے دل میں ایک نیا جذبہ بیدار ہوا وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی زندگی میں اب ایک نیا باب شروع ہونے جا رہا تھا____



جاری ہے