چاندنی راتوں کا وعدہ

ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

 قسط نمبر 22


چاندنی رات کی روشنی میں بینی اور مہوش بیگم لان میں براجمان چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں کہ


اچانک ایک گاڑی گیٹ سے داخل ہوئی


گاڑی سے آرزم اور شازیہ باہر نکلے


شازیہ کے چہرے پہ ایک عجیب سی بے چینی اور خوف تھا


 دونوں کو دیکھ کر بینی اور مہوش بیگم اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے


مہوش بیگم اور بینی نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظر سے دیکھا


مہوش بیگم نے بینی سے سرگوشی کی


ارے بینی! یہ لڑکی کون ہے؟


بینی نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا


مجھے کیا معلوم مما؟

لگتا ہے بھائی نے چپکے سے شادی رچا لی اور ہمیں خبر تک نہ ہونے دی۔


آرزم شازیہ کو لیے لان میں داخل ہوا

تو شازیہ قدرے گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی


بینی نے موقع غنیمت جانا اور آرزم کو ٹوک دیا


بھائی! آپ نے ہم سے چھپ کر شادی کر لی؟

میں تو آپ سے ناراض ہوں

اب تم سے بات نہیں کروں گی۔


آرزم نے ہنستے ہوئے بینی کی طرف دیکھا

جبکہ شازیہ بینی کی بات پر حیران و شرمندہ ہو کر نظریں جھکا گئی۔


(آرزم کے دل نے بینی کی بات سن کر کہا کاش ایسا ہوتا)


ارے نہیں بینی ایسی بات نہیں


بینی نے پوچھا


پھر یہ لڑکی کون؟؟


آرزم نے مہوش بیگم سے مخاطب ہو کر اصل صورتحال بیان کی


امی! یہ ایک بے سہارا لڑکی ہے جو بس اسٹاپ پر بے ہوش ملی تھی

میں اسے ہسپتال لے گیاتھا

پھر سوچا کہ اسے یہاں لے آؤں


یہ امید سے ہے اور اس کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔


مہوش بیگم نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا

اور شازیہ کو ہمدردی سے دیکھا

انہیں شازیہ پر بے حد ترس آیا۔


انہوں نے بینی کو مخاطب ہو کر کہا


بینی تم اسے اپنے روم میں لے جاؤ

اسے آرام کی ضرورت ہے۔


بینی نے اثبات میں سر ہلایا


اور فوراً شازیہ کو اپنے کمرے میں لے گئی


بینی شازیہ کو اپنے کمرے میں لے آئی

جو کہ رنگ برنگے غباروں اور شوخ رنگوں سے سجا ہوا تھا


شازیہ نے کمرے پر ایک نظر ڈالی اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی


بینی نے نرمی سے پوچھا


آپ کا نام کیا ہے؟


شازیہ نے آہستہ سے جواب دیا


 شازیہ۔


بینی نے اپنا نام بھی بتایا " میرا نام بینی ہے"


شازیہ کا چہرہ اب بھی کچھ غمگین اور پریشان تھا


لیکن بینی نے اسے پیار سے بیٹھنے کا اشارہ کیا


تمہیں آرام کی ضرورت ہے

کچھ پینا چاہوگی؟

بینی نے نرمی سے پوچھا


شازیہ نے سر ہلا دیا


شکریہ بس پانی پلاؤ


بینی پانی لے کر آئی اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئیں


شازیہ کی آنکھوں میں ایک عجیب سا اضطراب تھا

ااور وہ جلدی سے اپنا سر جھکائے بیٹھی تھی


بینی نے ایک ہنسی ہنستے ہوئے شازیہ کو دیکھتے ہوئے کہا


تم گھبرا کیوں رہی ھو میں کوئی بھوت یا جن زادی تھوڑی ہوں

اچھا تم آرام کرو پھر بات ہوگی

یہ کہہ کر بینی چلی گئی۔


❤‍🔥💘💘❤‍🔥


ذیشان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک سناٹا چھایا ہوا تھا


شازیہ کا کہیں نام و نشان نہ تھا


الماریوں کے دروازے کھلے تھے


تکیے بکھرے ہوئے اور ہر چیز گویا


شازیہ کی غیر موجودگی کا ماتم کر رہی تھی


اس نے واش روم کھنگالا


الماریاں چھان ماریں


یہاں تک کہ باورچی خانے کے کونے کھدرے بھی دیکھ لیے


لیکن شازیہ کا کوئی سراغ نہ ملا


اس نے ملازمہ سے پوچھا


ملازمہ نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ شازیہ انہیں بتائے بغیر چلی گئی تھی


نشے کی حالت میں اس کے دماغ نے ایک نتیجہ اخذ کیا


 

شازیہ میکے گئی ہوگی


وہ بستر پر دھپ سے بیٹھا


اور وہسکی کی بوتل اٹھا لی


 گھونٹ پر گھونٹ بھرتا رہا


اور پھر نشے کی تاریکی میں ڈوب گیا


👀👀👀


ادھر نانی اماں گہری نیند میں تھیں


اچانک

ایک خوفناک خواب نے ان کی نیند اڑا دی

انہوں نے خواب دیکھا کہ ذیشان شازیہ پر وحشیانہ تشدد کر رہا ہے


شازیہ درد سے چیخ رہی تھی


التجا کر رہی تھی


لیکن ذیشان جیسے درندے کے چہرے پر رحم کا کوئی نشان نہ تھا


اس نے شازیہ کو بالوں سے گھسیٹا اور بستر پر پھینک دیا


 پھر اس نے اپنی جیب سے ایک چمکتی ہوئی گن نکالی

اور

اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی

تین چار گولیاں شازیہ کو لگیں


نانی اماں خوف سے چیختی ہوئی جاگیں


ان کی چیخیں گھر میں گونجیں

سعدیہ مہالال اور عارف فوراً ان کے روم کے پاس پہنچے

ان کی حالت دیکھ کر گھبرا گئے


سعدیہ نے نانی کو پانی پلایا

اور پوچھا


امی کیا ہوا؟

کوئی برا خواب دیکھا کیا؟


نانی نے کانپتے ہوئے لہجے میں خواب کا سارا منظر بیان کیا


سعدیہ نے انہیں تسلی دی


امی ایسا کچھ نہیں ہے


شازیہ ٹھیک ہوگی

زیشان ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔


عارف نے فوراً شازیہ کو فون ملایا

لیکن کوئی جواب نہیں ملا

پھر اس نے ذیشان کا نمبر ملایا گھنٹی بجتی رہی

لیکن کوئی فون اٹھانے والا نہیں تھا

نانی اماں کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی


مہالال تم عارف کے ساتھ جاؤ اور دیکھو

میری بچی نہ جانے کس حال میں ہے

مجھے اس کی فکر ہو رہی ہے نانی نے التجا کی۔


🔥🔥🔥


مہالال اور عارف فوراً ذیشان کے گھر کی طرف روانہ ہوئے


دروازے پر دستک دینے پر ایک گھریلو ملازمہ نے دروازہ کھولا


اندر کا منظر دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہو گئے


شازیہ غائب تھی اور ذیشان بستر پر بے ہوش پڑا تھا


اس کے ہاتھ میں وہسکی کی خالی بوتل تھی


مہالال اور عارف کی آنکھوں میں خوف جھلکنے لگا


کیا نشے کی حالت میں ذیشان نے کوئی خوفناک کام تو نہیں کر دیا؟

کیا نانی اماں کا خواب سچ ثابت ہونے والا تھا

ان کے دل دھڑک رہے تھے اور اب وہ دونوں اس اندیشے میں مبتلا تھے کہ شازیہ کی زندگی خطرے میں ہے۔


🔥🔥🔥


آرزم چھت پہ کھڑا مسکراتے ہوئے چاند کو دیکھ رہا تھا


آئے گا وہ دن جب ہم ایک ہوں گے


چاندنی راتوں میں پیار سے ملیں گے


وعدہ ہے میرا تجھ سے نبھاؤں گا


تیری محبت میں ہمیشہ جیوں گا


چھت سے نیچے روم میں شازیہ کو نیند نہیں آرہی تھی اس نے ایک نظر اپنے قریب بینی پہ ڈالی

بینی اتنی سکون سے سو رہی تھی شازیہ کو لگا جیسے سمیرا سو رہی ہے


شازیہ اٹھ کر کھڑکی کے قریب آئی چاند کو دیکھنے لگی۔


راتوں کی خاموشی میں اپنوں کی جدائی کا طوفاں


چاندنی راتوں کا وعدہ اور ٹوٹے ہوئے ارمان


جاری ہے