چاندنی راتوں کا وعدہ
ازقلم؛ داؤد آبان حیدر
قسط نمبر 23
رات کی سیاہی میں
نشے کی تاریکی میں ڈوبا ذیشان بے ہوشی کی حالت میں بستر پر پڑا تھا
عارف بے تابی سے اسے جگانے کی کوشش کر رہا تھا
لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل رہا تھا
مہالال کی نظر الماری پر پڑی
الماری کھلی ہوئی تھی اور شازیہ کا سامان غائب تھا
وہاں صرف ذیشان کے کپڑے تھے
اس کا مطلب تھا
شازیہ اپنا سب کچھ لے کر چلی گئی تھی۔
عارف نے سامنے پڑا جگ اٹھایا اور سارا پانی ذیشان کے اوپر انڈیل دیا
ذیشان گہری نیند سے چونک کر اٹھا
اس نے غصے سے عارف کو گھورا۔
مہالال صاحب آگے بڑھے
اور ذیشان کو گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا
پھر انہوں نے اسے تین چار زوردار تھپڑ رسید کیے_
'سچ بتاؤ میری بیٹی کہاں ہے؟ تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ بولو ورنہ یہی حشر کر دوں گا'
ذیشان خوف سے کانپ اٹھا
اور نشے کی حالت میں سب اگل دیا اور کہا
"شازیہ بھاگ گئی ہے
مجھے نہیں معلوم کہاں گئی"
مہالال ساکت رہ گئے
انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ انہوں نے اپنی معصوم بیٹی کو ذیشان جیسے درندے کے حوالے کر دیا تھا
اور انہیں خبر ہی نہیں ہوئی کہ یہ درندہ ان کی بیٹی کے ساتھ کیا بھیانک سلوک کرتا رہا
اور ان کی بیٹی نے سب کچھ برداشت کیا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔
عارف کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا
اس نے ذیشان پر وحشیانہ تشدد کیا
اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے
ایک لمحے کے لیے بھی اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ اس کے باپ کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے اور وہ زمین پر گر چکے ہیں۔
عارف پر ایک جنون سوار تھا
وہ ذیشان پر چڑھ بیٹھا
اور مکوں کی برسات کرنے لگا
ملازمہ جس نے دروازہ کھولا تھا دروازے پر کھڑی ہو کر سب کچھ دیکھ رہی تھی
خوف سے کانپ گئی
پھر اس نے ہمت کر کے عارف کو روکا
"بیٹا اسے چھوڑو! اپنے بابا کو ہسپتال لے جاؤ_
عارف نے ملازمہ کی بات سنی اور مڑ کر دیکھا
اس کی چیخ نکل گئی
"بابا"
وہ ذیشان کو چھوڑ کر مہالال کی طرف بھاگا
اس نے مہالال کا سر اپنی گود میں رکھا
اور انہیں جگانے کی کوشش کی۔
'بابا اٹھو کیا ہوا آپ کو'
پھر وہ مہالال کو اٹھا کر گاڑی میں بٹھا کر ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔
ذیشان خون سے لت پت ہو گیا تھا
وہ زمین سے اٹھا اور اپنے انگوٹھے سے ہونٹوں سے بہتا خون صاف کرنے لگا۔
ملازمہ نے اسے پانی لا کر دیا پھر وہ بھاگ گئی
کیونکہ اسے ڈر تھا کہ ذیشان سارا غصہ اس پر نکالے گا۔
مگر ملازمہ کی وجہ سے ہی تو ذیشان بچ گیا تھا
ورنہ عارف کا ارادہ تو آج اسے ختم کرنے کا تھا
اگر ملازمہ عارف کو نہ روکتی تو
یقیناً ذیشان موت کی وادی میں جا چکا ہوتا__
🔥🔥
صبح کا سنہرا آغاز ہوا تھا مہوش بیگم بینی اور شازیہ ناشتے کی میز پر جمع تھے
باتوں کا سلسلہ چل رہا تھا
اور سب خوشگوار ماحول میں تھے
مہوش بیگم نے شازیہ کو محبت سے مخاطب ہو کر کہا
شازیہ اب تم یہیں رہو گی
یہی تمہارا اپنا گھر ہے
کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک مانگ لینا
مجھے اپنی ماں ہی سمجھنا۔
شازیہ نے شائستگی سے جواب دیا
شکریہ۔
آرزم نے شازیہ سے کہا
"بینی آج شاپنگ کرنے جائے گی تم بھی اس کے ساتھ چلی جانا
اپنی اور اپنے ہونے والے ننھے بچے کے لیے بھی شاپنگ کر لینا"
بینی نے بھی فوراً اس کی حمایت کی۔
'ہاں شازیہ تم ساتھ چلو گی ویسے میں اکیلی بور ہو جاتی ہوں
اچھا ہوا کہ تم آگئی ہو
اب میں ہر وقت کہیں بھی جاؤں گی تو تمہیں ساتھ لے جاؤں گی
اگر تم نے انکار کیا تو میں ناراض ہو جاؤں گی
اور پھر مجھے منانے میں صدیاں لگ جائیں گی'
بینی کی باتوں پر سب مسکرا دیے۔
شازیہ بھی انکار نہ کر سکی اور مان گئی۔
🔥🔥🔥
ادھر سمیرا نانی اماں اور سعدیہ ہسپتال پہنچ گئے تھے
نانی اماں پریشانی کی حالت میں ہاتھ میں تسبیح پڑھ رہی تھیں
اور سعدیہ بے چین تھی
اس نے کہا
'شازیہ آخر گئی کہاں؟'
اتنے میں ڈاکٹر آیا
اس نے سعدیہ کو بلایا کہ مہالال صاحب اسے بلانا چاہتے ہیں
سعدیہ اندر گئی تو مہالال نے آکسیجن ماسک اتار کر سعدیہ سے آہستہ سے کہا
میری بیٹی شازیہ آئے تو اس سے میری طرف سے معافی مانگ لینا۔
مہالال صاحب کی بات ابھی مکمل نہیں ہو پائی تھی کہ وہ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے۔
سعدیہ بیگم کی چیخیں بلند ہوئیں
مہالال۔۔مہالال
ڈاکٹر بھی چیخیں سن کر بھاگ آئے سعدیہ کو باہر بھیج کر چیک اپ کرنے لگے
مہالال کی سانسیں بند ہوچکی تھی ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کردی۔
آئی ایم سوری۔
ان کا انتقال ہوچکا۔
ڈاکٹر نے افسوس سے کہہ کر گیا
سعدیہ بیگم وہی پھوٹ کر رونے لگی
سمیرا سعدیہ کو سنبھالنے لگی
نانی اماں نے تسبیح چھوڑ دی اور اپنے ہاتھوں سے دوپٹہ اٹھا کر اس سے چہرہ چھپاتے ہوئے رونے لگیں
ان کی عمر اور صحت کے پیش نظر یہ صدمہ ان کے لیے بہت ہی شدید تھا
کہ ان کا بیٹا مصطفیٰ اور ماری بہو کی وفات کے بعد آج ان کی بیٹی سعدیہ بیوہ ہو گئی__
😭😭
آج پھر پورے گھر میں عورتوں کی رونے کی آوازیں عروج پر تھیں
محلے کی خواتین بھی جمع تھیں
اور مرد حضرات بھی تعزیت کے لیے آ چکے تھے
ہر طرف ماتم کی فضا چھائی ہوئی تھی
یہ وہ لمحے تھے جب موت اور غم کا سایہ ہر طرف چھا چکا تھا۔
نانی اماں سعدیہ اور سمیرا مہالال کی لاش کے درمیان بیٹھیں ہوئیں بے پناہ غم میں اپنے اپنے سینے پیٹنے لگیں تھیں
تنیوں زور و شور سے رو رہے تھے
ان کی آواز میں اتنا دکھ تھا کہ ہر دل میں درد اٹھنے لگا
محلے کی عورتیں سعدیہ بیگم نانی اماں اور سمیرا کو سنبھالنے کی کوشش کررہی تھیں
مگر تینوں کے آنسوں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی___
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment