چاندنی راتوں کا وعدہ

ازقلم؛ داؤد آبان حیدر

قسط نمبر 24 




چاندنی رات کی روشنی میں شازیہ چھت پر کھڑی تھی


چاند کی روشنی اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کررہی تھی


اس کا دل بے چین اور بوجھل تھا


باہر کی ہوا میں خنکی تھی


لیکن اس کے اندر کی دنیا ایک طوفان بن چکی تھی


وہ اپنے دکھوں کو دل میں چھپائے ہوئے کس سے اپنا حال کہے؟


اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ اس کے اپنے دکھ و تکلیف میں ہے


اور وہ کسی سے اپنے دکھ کی داستان شیئر نہیں کر سکتی تھی کیونکہ

اس نے تو یہاں آ کر سب کو یقین دلایا تھا

کہ اس کا کوئی نہیں


جس کی وجہ سے لوگ اسے بے سہارا اور لاوارث سمجھ کر گھر لے آئے تھے۔


اتنے میں آرزم وہاں آیا


شازیہ اسے دیکھتے ہی شرما گئی

جیسے کوئی راز افشا ہونے والا ہو۔


 

آرزم نے اُس کی بے چینی محسوس کی


کیا بات ہے؟


تم پریشان لگ رہی ہو؟


 

شازیہ نے جھجھکتے ہوئے جواب دیا


کچھ نہیں بس وہ۔


شازیہ کا دل چاہتا کہ وہ اپنی تکلیف بیان کرے لیکن الفاظ اس کی زبان سے پھسل جاتے ہیں۔


 

آرزم کی curiosity اور بڑھ گئی


"وہ کیا؟"


شازیہ نے چند لمحے سوچا

پھر کہا


'وہ میں اپنے بچے کے بارے میں سوچ رہی تھی '


آرزم نے ایک لمحے کے لیے توقف کیا


پھر خود کو سنبھالتے ہوئے کہا


 'ایک بات پوچھوں اگر برا نہ مانو؟'


شازیہ نے غمگین مسکراہٹ کے ساتھ کہا


'جی کیوں نہیں؟


آرزم نے بحانتاً شازیہ کا ہاتھ اپنی ہاتھوں کی گرفت میں لیا


اور اپنی آنکھوں میں سچائی کے ساتھ کہا


'"Will you marry me?'


 میں تم سے محبت کرتا ہوں


شازیہ کا دل زور سے دھڑکنا شروع ہوا۔


'جب میں نے تمہیں پہلی بار ہسپتال میں دیکھا تھا


تو پہلی نظر میں میرا دل تمہاری طرف کھنچ گیا تھا


میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اور تمہارے بچے کو اپناوں گا


اور تمہیں بہت خوش رکھوں گا '_


شازیہ ک دل کی دھڑکن تیز ہو گئی


جیسے دل کی دھڑکنوں نے اسے بیدار کر دیا ہو


وہ جھٹ سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر اپنے روم کی طرف بھاگ گئی۔


کمرے میں آ کر اس نے اپنے دل کو سنبھالنے کی کوشش کی


'یہ میں نے کیا کردیا؟


مجھے سب کچھ سچ بتانا چاہیے تھا

یہ کیا ہوگیا؟


 

اس کی دھڑکن تیز ہو گئی ہے


اور وہ سوچوں میں گم ہوگئی


اتنے میں بینی کمرے میں داخل ہوئی


'کیا بات ہے شازیہ

تم پریشان لگ رہی ہو؟


بینی نے بے چینی سے پوچھا۔


شازیہ کا دل ایک بار پھر ہچکچاہٹ میں آ جاتا ہے


شازیہ نے بینی سے کہا


'کچھ نہیں ہوا۔'


لیکن بینی نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں غم دیکھی


'مجھے بتاؤ کیوں پریشان ہو؟


 میں محسوس کر رہی ہوں کہ تم کچھ چھپا رہی ہو '


شازیہ کی خاموشی نے بینی کی بات کو درست ثابت کر دیا


اور شازیہ کی سوچوں کی گرداب میں دبے راز ایک اور گہرائی میں چلے گئے


اور سوچتی رہی کہ آخر کب تک وہ اپنی کہانی کو سینے میں چھپائے رکھے گی یا اُس نئی امید کا سامنا کرے گی جو آرزم کی محبت کے ساتھ آئی ہے۔


(کیا شازیہ آرزم کی محبت کو قبول کرے گی؟

کیا وہ اپنی ماضی کی سچائی کو سب کے سامنے رکھ پائے گی؟)


🔥🔥🔥🔥


آدھی رات کا وقت تھا


سارا شہر سویا ہوا تھا


لیکن ذیشان کی حالت کسی خواب سے کم نہ تھی


وہ نشے کی حالت میں ہمہ وقت جھومتا اور ہنسکتا اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا


ہاتھ میں شراب کی بوتل لیے۔


ہر قدم کے ساتھ وہ بوتل کا ڈھکن کھول کر چسکیاں لیتا


جیسے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی صرف اسی لمحے میں اس پر نچھاور ہو رہی ہو۔


آج اس کا دل شازیہ کی یاد میں دھڑک رہا تھا


ایک عجیب سی جنسی بھوک اس کی روح میں سرایت کر گئی تھی


الکحل کا نشہ اس کے دماغ میں چکر لگا رہا تھا


اسے امید تھی کہ شاید جھوٹی معافی مانگنے کے ساتھ وہ شازیہ کو دوبارہ اپنی زندگی میں واپس لا سکے گا


وہ سوچتا رہا کہ اگر شازیہ کو سڑکوں پر کہیں دکھائی دے گئی تو وہ اسے بہا کر لے جائے گا


جیسے وہ ایک زخم کی مرہم ہو۔


 


لیکن اس لمحے وہ یہ حقیقت بھول گیا تھا کہ خدا کی پکڑ کبھی نرم نہیں ہوتی۔


اپنی دولت کے غرور میں اس نے ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ظلم کرنا سیکھا تھا


اُس کی سوچ میں صرف وہ خود سب سے بہتر تھا


اس نے ماں باپ کے بعد ساری جائیدادوں کی چابیاں اپنے ہاتھوں میں لے لی تھیں


وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا


جس پر دنیا کی کوئی قید نہیں


لیکن خدا کی منصوبہ بندی کبھی بھی اٹل ہوگی۔


جیسے ہی ذیشان سڑکوں پر چلتے چلتے اپنی نشے کی حالت میں مدہوش رہا


اچانک ایک تیز رفتار ٹرک نے دھاوا بول دیا


وہ اپنی دنیا کی فکر میں اتنا محو تھا کہ اس نے خطرے کو محسوس نہیں کیا


اور اس لمحے تیز رفتار سے آتی ہوئی ٹرک نے اسے اچھال کر کہیں دور پھینک دیا کہ وہ کچھ دیر کے لیے زمین پر پڑا بے ہوش ہو گیا


دوسروں پر ظلم کرتے وقت انسان موت کو کیوں بھول جاتا ہے؟؟؟


جب وہ افاقہ کرنے لگا تو اپنے خون سے لٹ پت زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑ گیا


سڑکوں پر اندھیری رات کا سناٹا چھایا ہوا تھا


کوئی بھی نہیں تھا جو اُسے اٹھائے یا مدد کے لیے ہسپتال لے جائے


ٹرک کا ڈرائیور تو پہلے ہی فرار ہو چکا تھا اور ذیشان کی چیختی گونجتی آوازیں سڑک کے کنارے بڑھتی چلی گئیں


زندگی کی حقیقت نے اُس کے رگ و پے میں خوف طاری کر دیا


اس وقت اُسے اپنی بادشاہی کی حقیقت کھل کر سامنے آئی۔


اور سارا غرور خاک میں مل گیا


 کیا اُس کی دولت جائیداد اور نشے کی حالت اُس کی جان کی قیمت چکانے کے لیے کافی ہوگی؟؟؟