چاندنی راتوں کا وعدہ
قسط 25
رائٹر داؤد آبان حیدر
چاندنی راتوں کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی
شازیہ اپنی بہترین دوست بینی کے ساتھ شاپنگ کر رہی تھی
دونوں خوشیاں بانٹتی ہنستے کھلکھلاتے پورے مال میں گھوم رہی تھیں
کہ اچانک شازیہ ایک خاتون سے ٹکرائی۔
"سوری آنٹی مجھے معلوم نہیں تھا…"
شازیہ نے ڈرتے ہوئے کہا
جب خاتون نے شازیہ کو پہچانا تو اس کے چہرے پر حیرت بھری مسکراہٹ اتر آئی
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا
"شازیہ تم یہاں؟"
شازیہ نے غور سے اس خاتون کا چہرہ دیکھا
اور لمحے بھر میں اس کو پہچان گئی
یہ خاتون کوئی اور نہیں
بلکہ ان کی بچپن کی پڑوسی زبیدہ آنٹی تھیں
جن کی بیٹیوں کے ساتھ وہ بچپن میں کھیلتی رہتی تھی
ان کے گھر آنا جانا بھی تھا
شازیہ کے دل میں ماضی کی یادیں تازہ ہوگئیں
جب وہ زبیدہ آنٹی کی بیٹیوں کے ساتھ کھیلتی تھی۔
بینی نے فوراََ سوال کیا
"آپ جانتی ہیں شازیہ کو؟"
شازیہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی
"ہاں یہ میری پڑوس والی زبیدہ آنٹی ہیں
آپ کیسے ہیں آنٹی؟"
زبیدہ آنٹی نے شازیہ کو ایک فکر مند نگاہ سے دیکھا
"بیٹا میں ٹھیک ہوں
تم کیسی ہےمو؟
تمہیں پتا ھےکہ تمہارے گھر والے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
تمہارے پاپا کو جب ذیشان کی حقیقت کا پتا چلا تو اس کا دل خود کو نہیں سنبھال سکے
اور وہ اس جہاں فانی سے رخصت ہوگئے
تمہاری نانی اور ماں بےحد پریشان ہیں
سب تمہیں تلاش کر رہے ہیں
عارف اور عمران نے پولیس کے پاس بھی جا کر تمہیں ڈھونڈنے کی درخواست کی تھی۔"
شازیہ کے دل میں ایک عجیب سا درد اُٹھا
جیسے کسی نے اس کے دل پر وزنی پتھر پھینک دیا ہو
ایک پل میں اس کے دماغ میں منڈلانے لگیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
زبیدہ آنٹی نے مزید کہا
"محلے والے کہتے ہیں کہ ذیشان نے نشے کی حالت میں شازیہ کو مار کر اس کی لاش کہیں ویرانے میں پھینک دی تھی
لیکن خوش قسمتی سے تم زندہ ہو بیٹا
تمہیں زندہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔"
بینی نے فوراََ حیرت سے پوچھا
' کیا؟
شازیہ کے گھر والے اسے ڈھونڈ رہے ہیں؟؟؟
مگر اس نے تو کہا تھا کہ اس کا کوئی نہیں ہے '.
شازیہ نے دل کی گہرائیوں میں ایک دھچکا محسوس کیا
اور اس کی آنکھوں میں ماضی کے سائے
اور کرب کی جھلک سی آئی۔
وہ آنکھوں میں دھیما سا دھندلا منظر دیکھ رہی تھی
جس میں اس کے ساتھ کیے گئے ظلم کا عکس تھا۔
بینی کے دماغ میں سوالات کی جھرمٹ بن چکی تھی
اس نے چیخ کر زبیدہ آنٹی سے پوچھا
"کیا؟
شازیہ کے گھر والے اسے ڈھونڈ رہے ہیں؟؟؟
لیکن شازیہ نے تو کہا تھا کہ اس کا کوئی نہیں
اور یہ محلے والی بات کیا ہے میں سمجھی نہیں؟"
زبیدہ آنٹی نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے جلدی تفصیل سے ساری بات بتائی اور کہا
"بیٹا ذیشان ایک نشئی درندہ تھا
اور ہر روز شازیہ پر تشدد کرتا تھا
لیکن شازیہ نے کبھی کسی سے یہ بات شیئر نہیں کی۔
ایک رات جب ذیشان نے شازیہ اور اس کے بچے کو مار کر ختم کرنے کی دھمکی دی
تو شازیہ نے اپنی جان بچانے کے لیے گھر چھوڑ کر بھاگ گئی تھی
خدا کا شکر ہے کہ وہ بچ گئی
اور ذیشان جیسے درندے کا انجام بہت برا بھیانک ہوا
ایک ٹرک نے آدھی رات کے وقت اسے کچل دیا
اور اس کی لاش سڑکوں پر پڑی رہی۔
صبح کے وقت کتے اس کی لاش کو نوچ نوچ کر کھارہے تھے "
یہ سن کر شازیہ کے اندر میں آہستہ آہستہ سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔
اس کی دعائیں قبول ہو چکی تھیں
اللہ تعالیٰ نے اس کو ظالم شوہر سے نجات دی
جیسے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو فرعون اور اسکے لشکروں سے نجات دی تھی۔
بےشک ظالموں کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔
اب شازیہ اس ظالم شوہر سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو چکی تھی۔
شازیہ نے اپنے گھر والوں کا دھیان رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اب وہ واپس اپنے گھر جائے گی
وہ اپنی ماں اور نانی سے معافی مانگے گی
اور ان کے دلوں میں جو دکھ اور خالی پن تھا اسے پورا کرے گی۔
اس نے اپنے دل میں سوچا
"اب میں کبھی بھی اپنی زندگی کو ماضی کی قید میں نہیں رہنے دوں گی۔"
🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥
گھر میں ایک عجیب سا ماحول تھا
محلے کی عورتیں قرآن خوانی کے لیے آئی ہوئی تھیں
اور سمیرا اپنے دوستوں کے ساتھ محوِ عبادت تھی
سورہ یاسین کی تلاوت سے پورا گھر گونج رہا تھا
دوسری طرف نانی اماں اپنے روم میں مصلے پر بیٹھی ظہر کی نماز پڑھ رہی تھیں
اور پھر ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔
نماز پڑھ کر وہ دل سے اللہ کے سامنے رو رو کر شازیہ کی واپسی کی دعائیں مانگ رہی تھیں
جیسے اللہ سے اپنی سب سے بڑی خواہش کی التجا کر رہی ہوں۔
نانی اماں کی وہ دعائیں دل کی گہرائیوں سے نکل کر آسمان تک پہنچنے کو تڑپ رہی تھیں
اسی لمحے آسمان کو نانی اماں کی درد بھری حالت پر ترس آیا۔
پھر اچانک ایسا ہوا کہ آسمان کا دروازہ کھلا اور
ان کی دعائیں اعلیٰ بلندیوں کی طرف رواں دواں ہو گئیں۔
گویا خدا نے نانی اماں کی دل کی گہرائیوں سے اُٹھتی دعاؤں کو سن لیا۔
نانی اماں نے اپنے مصلے سے اٹھ کر تسبیح تھام لی
اور باہر لان میں بیٹھ کر اللہ کے ذکر میں مگن ہو گئیں
جیسے اپنی دعاؤں کے جواب کا انتظار کرنے لگی ہے.
اچانک دوپہر کی چمکتی دھوپ میں ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں
جیسے یہ ہوائیں شازیہ کا استقبال کرنے آئی ہوں یا پھر
شازیہ کی آمد کی خوشی کا پیغام لے کر آئی ہو۔
اور پھر اچانک ٹرن ٹرن ٹرن! دروازے کی بیل بجی
ملازمہ دوڑ دوڑ کر آئی اور دروازہ کھولا
دروازہ کھول کر دیکھا تو ملازمہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی
نانی اماں نے تجسّس بھری آواز میں پوچھا
"کون آیا ہے؟"
پھر ایک دم دروازے سے ایک نوجوان مرد ایک لڑکی ایک خاتون اور ان کےساتھ شازیہ اندر آتی ہوئی نظر آئیں۔
نانی اماں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں
یہ لمحہ خواب کی طرح تھا
جیسے کہ کوئی معجزہ ہوا ہو__
جاري ہے
0 Comments
Post a Comment