چاندنی راتوں کا وعدہ
قسط 26 سیکنڈ لاسٹ
رائٹر داؤد آبان حیدرو
دروازہ کھول کر دیکھا تو ملازمہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی
نانی اماں نے تجسّس بھری آواز میں پوچھا
"کون آیا ہے؟"
پھر ایک دم دروازے سے ایک نوجوان مرد ایک لڑکی ایک خاتون اور ان کے ساتھ شازیہ اندر آتی ہوئی نظر آئیں۔
نانی اماں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں
یہ لمحہ خواب کی طرح تھا
جیسے کہ کوئی معجزہ ہوا ہو۔
ملازمہ نے فوراً بھاگ کر سعدیہ کو اطلاع دی اور سمیرا اور سعدیہ بیگم دونوں تیزی سے دوڑییں۔
شازیہ نانی کے گلے لگ کر رونے لگی
نانی اماں نے روتے ہوئے کہا
کہاں چلی گئی تھی
کتنا پریشان تھی میں۔
مجھے بتا کر تو چلی جاتی ناں.
سعدیہ نے بھی شازیہ سے گلے ملتے ہوئے کہا
"میری شازیہ واپس آگئی
تم ٹھیک ہو نا؟"
پھر نانی اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"دیکھا اماں میں نے کہا تھا کہ میری بیٹی ضرور واپس آئے گی"
سمیرا بھی خوشی سے شازیہ کے ساتھ گلے لگ گئی۔
بینی اور آرزم مسکراہٹیں بکھرتے ہوئے
ان سب کو دیکھ رہے تھے
مگر دوسری طرف مہوش بیگم کی حالت کچھ اور ہی تھی۔
مہوش بیگم کی آنکھوں میں ایک عجیب سی پریشانی تھی
اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی
جیسے کچھ راز افشاں ہونے والا ہوں۔
سعدیہ نے مہوش بیگم کی طرف حیرت سے دیکھا
اور اس کا ماضی اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا
آرزم کی پیدائش کے کچھ سال بعد
جب مہوش بیگم کی زندگی میں خوشیوں کا ایک نیا باب کھلنے والا تھا
تو سمیرا کی چھوٹی سی حرکت نے سب کچھ بدل دیا
وہ چھوٹی سی لڑکی دودھ کی بوتل لے کر سیڑھیاں چڑھ رہی تھی
جب اچانک اس کے ہاتھ میں گرمی کا احساس ہوا اور دودھ کی بوتل نیچے گر گئی۔
اس نے جو کیا وہ تو ایک عام بچی کی حرکت یا غلطی تھی
مگر اس حادثے نے مہوش بیگم کی زندگی کے خوابوں کا خاتمہ کر دیا تھا_
"""ماضی کے منظر""""👇
آرزم کی پیدائش کے تین سال بعد
جب مہوش بیگم حاملہ تھی
اور ان کے دل میں اپنی بیٹی کے لیے محبت بھری امیدیں تھیں
لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
سمیرا چار سال کی تھی
وہ گھر میں بچوں ساتھ کھیل رہی تھی
ماریہ بیگم نے دودھ گرم کرکے بوتل میں ڈال کر سمیرا کو دی کہ اوپر جاکر امی کو دے دو عارف کے لیے دودھ گرم کیا ھے۔
سمیرا دودھ کی بوتل لیے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی
تو
اچانک اسکے ہاتھ گرم ہوگئے
سمیرا کے ہاتھ سے دودھ کی بوتل سیڑھیوں پر گر گئی
سمیرا گھبرا گئی پھر اوپر چلی گئی امی کو بتانے کہ دودھ گر گئی
جب سمیرا روم میں پہنچی تو مہوش بیگم روم سے باہر نکلی
وہ نیچے جانے لگی تھی
اچانک سیڑھیوں سے پھنس کر قلا بازی کھاتی ہوئی نیچے گر گئی
اس کی چیخیں پورے گھر میں گونج گئیں
سب گھر والے چیخیں سن
کر بھاگ آئیں
مہوش بیگم کو ہسپتال پہنچایا گیا
تو ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے پیٹ میں بچہ کو نقصان پہنچا
اب وہ بچہ زندہ نہیں رہا
ہم نے آپریشن کرکے بچہ نکال کر مہوش بیگم کی جان بچائی لیکن۔
نانی اماں نے پوچھا
لیکن کیا؟؟
لیکن وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی۔
یہ خبر مہوش بیگم کے لیے جیسے ایک قیامت بن کر آئی
ان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ ایک طویل عرصے تک اپنے نہ ہونے والے بچے کی یاد میں غم میں ڈوبی رہیں۔ یہ غم مہوش بیگم کے دل میں ایک گہرے زخم کی طرح تھا
جسے وہ کبھی بھی پوری طرح سے نہیں بھلا سکیں
اس خبر نے مہوش بیگم کو اندر سے ریزہ ریزہ کردیا تھا
مہوش بیگم کو بیٹی پسند تھی اس کی خواہش تھی کہ اس کی بھی بیٹی ھو
واقعی وہ بیٹی چاہتی تھیں
مگر زندگی نے ان سے وہ امید بھی چھین لی تھی۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بیٹی جیسی رحمت کو بوجھ سمجھا جاتا
لیکن لوگ ہوتے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے
کہ ان کی بیٹی ہو_
جب سعدیہ بیگم نے تیسری بیٹی یعنی بینی کو جنم دیا تھا تو اس نے انسانیت کے ناطے بینی کو مہوش بیگم کی گود میں دے دیا
مہوش بیگم بینی کو پاکر بہت خوش تھی
اس نے بینی کو اپنا نام دےکر اپنی بیٹی بنایا تھا
اس کا بہت خیال رکھا
نانی اماں نے منع کردیا تھا کہ بینی سعدیہ کی بیٹی ہے یہ بات کسی کو پتا نہیں چلنی چاہیے
یہ راز ہی رہےگی
اور مہوش تم بینی کو اپنی بیٹی ہی سمجھ کر پالو۔
مہوش بیگم بھی نانی اماں کی بہو تھی۔
لیکن کچھ عرصے بعد مہوش بیگم کے شوہر نے نیا گھر لے لیا تھا تو وہ وہاں منتقل ہوگئے
مہوش بیگم کے شوہر کے انتقال کے بعد نانی اماں اور سب نے بینی کو منحوس سمجھا تھا کہ یہ لڑکی دنیا میں آتے ہی اپنے سوتیلے باپ کو کھا گئی۔
رشتہ داروں نے بھی بینی کو منحوس سمجھا
سب کہتے تھے کہ بینی کی وجہ سے ہی اس کے سوتیلے والد کا انتقال ہوا
اس وقت کے بعد سب نے مہوش بیگم سے قطع تعلق کر لیا تھا
اور انہیں کہا تھا کہ وہ کبھی بھی بینی کو لے کر ان کے گھر نہ آئیں__
آج جانے انجانے میں مہوش بیگم بینی کو لےکر ان کے گھر آگئی
نانی اماں نے جس سے قطع تعلق کرلیا تھا اسی نے مشکل حالات میں اس کی بیٹی شازیہ کو بھی اپنی بیٹی سمجھ کر گھر میں پناہ دےکر نانی اماں پر ایک احسان کرلیا تھا
ورنہ معاشرہ تو درندوں سے بھری پڑی ہے
اگر آرزم شازیہ کو گھر نہ لے آتا تو درندہ صفت انسان شازیہ کو اپنی جال میں پھنسا دیتے۔
شازیہ نے ان تینوں کی طرف اشارہ کرتے بتایا
نانی امی یہ بینی ہے میری دوست ھے اور یہ آرزم اسکا بھائی۔
اور یہ مہوش آنٹی اس کی امی۔
نانی اماں نے خاموشی سے سب کچھ سنا
لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی خاموشی میں ایک ماضی کا درد چھپاہوا ہو۔
سعدیہ نے نانی اماں کی طرف دیکھا
شازیہ نے بینی اور مہوش بیگم کو بھی بتایا کہ یہ میری نانی اماں ھے یہ امی ہے یہ میری بہن سمیرا ہے۔
مہوش بیگم نے شازیہ کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے
آرزم اور بینی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
چلو گھر چلیں۔
یہ سن کر شازیہ کی آنکھوں میں حیرت بھر گئی___
0 Comments
Post a Comment