دھڑکن
رمشاء انصاری
قسط ۲
وہ اسٹاف روم میں بیٹھی تھی باقی ٹیچرز کے ساتھ ،سب عمر میں اس سے بڑے تھے اس لئے وہ کسی سے بے تکلف نہ ہوسکی ،وہ خاموشی سے موبائل چلا رہی تھی جب ہی اس کا دھیان دو ٹیچرز کی طرف گیا جو آپس میں بات کررہے تھے۔
"مس عافیہ مجھے نہیں لگتا رجب عبد الرحمن سیکنڈ ائیر پاس کرسکیں گے ،ان کے سارے ٹیسٹ خراب جارہے ہیں ,پڑھائی میں کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے اس کی "
پروفیسر اسد نے رجب کی ٹیسٹ کاپی ان کی جانب بڑھائے انہیں اس کی پروگریس سے آگاہ کیا،وہ دونوں تمام اسٹوڈنٹس کی پروگریس ڈسکس کررہے تھے لیکن رجب کا نام سنتے ہی کساء کے کان کھڑے ہوگئے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی پروفیسر ،یہ لڑکا کوئی عام لڑکا نہیں ہے ،اس نے میٹرک میں ٹاپ کیا تھا جس کے بعد ایک خطرناک ایکسیڈنٹ کی وجہ سے وہ کومہ میں چلا گیا اور اب پڑھائی میں اس کا یہ حال ہے۔
مس عافیہ تاسف سے بولیں۔
ہاں اور اس کا بی ہیو بھی کچھ عجیب سا ہے وہ نارمل لڑکوں کی طرح نہیں رہتا ،اس کی آنکھوں میں میں نے عجیب سا خالی پن دیکھا ہے اس کا چہرہ بھی ہر طرح کے تاثرات سے عاری ہوتا ہے
دونوں ٹیچرز تجسس سے اس اسٹوڈنٹ کے بارے میں بات کررہے تھے اور کساء بھی موبائل کی اسکرین پر نظریں جمائے پوری توجہ سے ان کی بات سن رہی تھی۔
میرے خیال میں اس کے ساتھ کوئی پرسنل ایشو ہے آگر اس پر توجہ دی جائے تو شاید وہ پھر سے پہلا جیسا ہو جائے اور آگر وہ پہلے جیسا ہوگیا تو اس کا فیوچر بہت برائٹ ہے۔
پروفیسر اسد نے اپنے خیال سے آگاہ کیا تو وہ کسی گہری سوچ میں گم ہوگئی۔
@@@@@
وہ کلاس میں آتے ہی اسٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے لگی ،سب ٹیسٹ دینے میں مشغول ہوگئے تھے مگر کساء نے دیکھا رجب خاموشی سے لاسٹ بینچ پر بیٹھا تھا۔
"تم ٹیسٹ کیوں نہیں دے رہے؟"
وہ اس کے سر پر کھڑی سختی سے پوچھنے لگی۔
مجھے یاد نہیں ہے۔
اس کا دو ٹوک جواب دیا۔
کیوں یاد نہیں ہے؟
وہ مزید سخت ہوئی۔
مجھے کچھ یاد نہیں ہوتا۔
اس کا جواب سن کر کساء کا دل بے ساختہ پگھل گیا ،کبھی یہ شخص بولتا ہوا کتنا پیارا لگتا تھا آج اس کے لفظوں میں عجیب سی تلخی تھی۔
تم نے یاد کرنے کی کوشش نہیں کی ہوگی
کساء نے بات آگے بڑھائی۔
میں پورے دو گھنٹے اڑتالیس منٹ یہ کتاب لے کر بیٹھا رہا مگر یاد نہیں ہوا کچھ۔
اس نے پھر سے سخت لہجے میں جواب دیا۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ حیران ہوئی
میرا دماغ کام نہیں کرتا اب۔
رجب نے گویا اس کی کشمکش ختم کرنی چاہئیے تھے ،کساء نے ٹھہر کر اسے افسوس سے دیکھا اور پھر باقی اسٹوڈنٹس کی جانب چلی گئی۔
@@@@@
فرقان کا آپریشن کامیاب ہوگیا تھا ،وہ بیڈ ریسٹ پر تھے ،جب تک کساء گھر نہیں آجاتی تب تک فرقان کے ساتھ کئیر ٹیکر موجود ہوتے تھے ،گھر آنے کے بعد کساء ان کے ساتھ دن گزارتی ،آج بھی وہ کالج سے گھر آکے اپنے بابا کے کمرے میں بیٹھی ان کے سر کی مالش کررہی تھی ،اس کے دماغ میں صبح سے رجب چل رہا تھا تب ہی اس نے اپنے بابا سے اس بارے میں بات کی،وہ رجب کے بارے میں جتنا کچھ جانتی تھی انہیں بتا چکی تھی۔بچپن سے ہی وہ اپنی ہر بات انہیں بتانے کی عادی تھی۔
مجھے لگتا ہے اس حادثے کے بعد اسے کسی کی توجہ نہیں ملی یا پھر اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہوگا جس کی وجہ سے وہ زندگی سے دور چلا گیا۔
سر فرقان نے بھی وہی بات کی جو بات سر اسد نے کی تھی۔کساء نے اپنے بابا کی بات سن کر رجب کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
@@@@@
وہ کینٹین میں بیٹھا تھا ،کساء بھی اسے ڈھونڈتی وہیں آگئی،ٹیبل پر لنچ رکھا تھا مگر وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا ،کساء اس کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھی تو اس کی سوچوں کی طنابیں ٹوٹیں۔
"اکیلے اکیلے لنچ کررہے ہو؟" وہ شرارت سے بولی۔
"آپ بھی کرلیں"اس نے دھیرے سے مسکراتے جواب دیا وہ جانتا تھا کہ کساء اس سے چھوٹی ہے مگر پھر بھی وہ اسے آپ کہہ کر اسے عزت دے رہا تھا کیونکہ وہ اس کی استاد تھی۔
"ٹھیک ہے لیکن پیسے میں نہیں دوں گی "
کساء نے بولتے ہوئے اس کا لنچ اپنی جانب کرلیا،وہ خود اسٹوڈنٹ ہی لگتی تھی تب ہی زیادہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔وہ لنچ کرنے لگی تو رجب نے خاموش نگاہ اس پر ڈالی ،ایک دم ہی اس کے ذہن کے پردوں پر وہ وقت لہرایا جب وہ بہت دبلی پتلی اور ڈرپوک سی تھی،آج وہ پر اعتماد لڑکی تھی۔
رجب تمہارے گھر میں کون کون ہے؟
وہ اس سے دوستی کرنے کے موڈ میں تھی تاکہ جان سکے کہ اس کی حالت کے پیچھے کیا وجہ ہے۔
کوئی نہیں بس ایک بڑا بھائی ہے۔
اس نے سرعت سے جواب دیا ،یاور سے بھلے وہ بات نہیں کرتا تھا مگر یاور کی اس کے لئے کوششیں اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھیں ،وہ اس کے لئے بڑے بھائیوں جیسا ہی تھا۔
"تمہارے مام ڈیڈ نہیں ہیں؟" وہ تجسس سے پوچھنے لگی۔
"ان کی علیحدگی ہوگئی،بابا دبئی میں رہتے ہیں ،مام نے دوسری شادی کرلی "
وہ تلخی سے مسکرایا،کساء کا دل پسیج سا گیا۔
تمہارا بھائی کیا کرتا ہے؟اس نے اگلا سوال داغا۔
آپ کو میرے بھائی سے شادی کرنی ہے جو اس کا ڈیٹا کے رہی ہیں مجھ سے؟ وہ تفتیش سے پوچھ بیٹھا۔
نہیں میں کیوں اس سے شادی کروں گی؟ وہ خفیف سے لہجے میں بولی۔
تو پھر مجھ سے کرنی ہے؟ وہ سنجیدگی سے بولا۔
اسٹوپڈ شکل دیکھی ہے اپنی شیشے میں۔وہ اس کے سوال پر تلملا کے اٹھی اور سخت سناکے وہاں سے چلی گئی جب کہ اس کی بات سن کر وہ شرمندہ ہوگیا۔
@@@@@
اس کی بدتمیزی کے بعد کساء کا دل جو اس کی مدد کرنے کے لئے تڑپ رہا تھا بے پرواہ ہوگیا ،وہ اس جنگلی کی مدد نہیں کرنا چاہتی تھی ،اب وہ اس کی کلاس میں بھی جاتی تو اسے نظر انداز کردیتی۔رجب اپنی اس بات پر سخت شرمندہ تھا اس لئے آج وہ جیسی کلاس میں آئی وہ اس کے سر پر پہنچ گیا۔
"جی بولئے؟"
کساء نے لاپرواہی سے پوچھا۔
ایم سوری۔وہ شرمندگی سے بولا۔
کس لئے؟ وہ اجنبیت سے پوچھنے لگی۔
اس دن آپ سے الٹا سیدھا بول دیا تھا اس کے لئے۔وہ معصوم بنا بولنے لگا۔
"ٹھیک ہے اٹس اوکے " کساء نے جواب دے کر منہ پھیر لیا۔
یہ میں آپ کے لئے لایا تھا!
اس کی بات سن کر کساء نے پھر اس کی جانب دیکھا،اس نے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ اس کی طرف بڑھائی۔
نہیں میں یہ نہیں لے سکتی۔اس نے انکار کیا
آگر آپ نہیں لیں گی تو میں سمجھوں گا کہ آپ نے مجھے معاف نہیں کیا۔وہ سادگی سے بولا تو کساء نے ناچاہتے ہوئے بھی اس سےچاکلیٹ لے کر اپنے بیگ میں رکھ لی۔
آپ آج کینٹین آئیے گا میں لنچ کرائوں گاآپ کو،وہ پیاری سی مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتا اپنی بینچ پر جاکے بیٹھ گیا جب کہ اس کے برتائو میں تبدیلی دیکھ وہ بھی مسکراگئی۔
@@@@@
وہ فری ہوکے کینٹین کی جانب چلی گئی ،وہ اسی کا انتظار کررہا تھا ،اس کے بیٹھتے ہی رجب نے خود اس کے لئے لنچ منگایا ،کچھ ہی دنوں میں وہ اسٹوڈنٹس کی فیورٹ ٹیچر بن گئی تھی اس لئے رجب کے رویے کو بھی اس نے زیادہ محسوس نہیں کیا،تقریبا سارے اسٹوڈنٹ ہی اسے یونہی ٹریٹ کرتے تھے۔وہ رجب کے ساتھ لنچ کرنے لگی ،آج وہ خود سے ہی اس سے بات کررہا تھا ،وہ بھی اس کی باتوں کا اچھے سے جواب دیتی۔
رجب تم تو ٹاپر تھے تم پڑھائی میں اتنے ویک کیوں ہوگئے؟
کچھ دیر تک بات کرنے کے بعد وہ پوچھ بیٹھی۔
اب دل نہیں لگتا پڑھائی میں۔اس نے سچائی سے جواب دیا۔
تم رٹے مت لگایا کرو سمجھ کر پڑھو پھر تمہارا دل لگے گا پڑھائی میں۔وہ اسے مشورہ دینے لگی۔
کیسے سمجھوں؟ کچھ سمجھ بھی نہیں آتا۔وہ بے چارگی سے بولا۔
جو تمہیں سمجھ نہیں آئے تم مجھ سے سمجھ لیا کرو میں سمجھا دوں گی۔کساء نے نرمی سے کہا۔
میں ٹیوشن ڈھونڈ رہا ہوں کیا آپ مجھے ٹیوشن پڑھادیں گی؟ وہ دھیمے سے بولا ،وہ بہت کم گو سا لڑکا تھا خاموش رہنے والا ،معصوم سا۔وہ کساء کو ایک استاد کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا
"ہاں کیوں نہیں ،بابا آج کل بیڈ ریسٹ پر ہیں میں شام میں بور ہوجاتی ہوں تم آئوگے تو پڑھادوں گی بابا کو بھی اچھا لگے گا تمہارے ساتھ بیٹھ کر" وہ فورا راضی ہوگئی۔
"ٹھیک ہے میں آج شام میں آپ کے گھر آئوں گا " وہ اطمینان سے بولا تو کساء نے مسکرانے سر اثبات میں ہلادیا۔
@@@@@
کدھر جانے کی تیاری ہے ؟
اس کو تیار ہوکے باہر جاتا دیکھ یاور نے حیرانگی سے پوچھا ،وہ آج جلدی گھر آگیا تھا اور یہ حیرت انگیز تبدیلی دیکھ کر ساکت رہ گیا۔وہ جینز پر نارنجی رنگ کی ٹی شرٹ پہنے بال سلیقے سے سیٹ کئے کندھے پر بیگ لٹکائے جوگرز پہن رہا تھا۔
ٹیوشن جارہا ہوں۔
رجب نے حیرت سے جواب دیا۔
یہ اچانک سے ٹیوشن جانے کا خیال کہاں سے آگیا۔
یاور نے مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھا۔
تمہیں اس سے کیا لینا۔
وہ اس کے سوالوں سے بدمزہ ہوا۔
سچ سچ بتائو مجھے کہاں جارہے ہو کہیں تم کسی غلط کام میں تو نہیں پڑ گئے ،میں عبد الرحمن سر کو کیا جواب دوں گا؟ یاور کو ایک دم فکر لاحق ہوئی۔
تم زیادہ دماغ مت چلائو۔
رجب نے اس کی فضول گوئی پر منہ بنایا۔
میں تمہارے ساتھ جائوں گا۔
یاور نے پل میں جیسے فیصلہ لیا۔
کیوں ؟ رجب نے چونک کر پوچھا۔
میں تسلی کروں گا کہ تم ٹیوشن ہی جارہے ہو نہ یا پھر کہیں اور۔۔۔۔!!!
اس نے جتاکے کہتے ہوئے بات درمیان میں چھوڑ دی۔
میں ٹیوشن ہی جارہا ہوں تم کچھ الٹا سیدھا مت سوچو۔رجب نے برہمی سے کہا۔
ٹھیک ہے تم جائو سر کی کال آئے گی تو میں بتادوں گا کہ تم مجھے جھوٹ بول کر کہیں گئے ہو پھر وہ تمہیں بھی شاید دبئی بلالیں،اچھا ہے اس بہانے میری جان چھوٹے گی اس زبردستی کی جاب سے۔یاور نے گہرا سانس لیتے خود کو کول ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
آگر تم مجھ سے بڑے نہ ہوتے تو تمہارے منہ سے خون نکل رہا ہوتا۔وہ اس کی حرکت پر تپ گیا تھا۔
ٹھیک ہے میں چل رہا ہوں تمہارے ساتھ دیکھوں تو زرا تمہارے ٹیوشن میں پڑھائی ہی ہوتی ہےنہ۔یاور اس کو جان بوجھ کر جلادیا تھا ،اس کی بات سن کر رجب پیر پٹخ کر باہر کی جانب بڑھا تو وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
@@@@@
وہ فرقان صاحب کو ڈرائنگ روم میں لے آئی تھی،وہ دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ساتھ ہی وہ رجب کا انتظار بھی کررہی تھی جس نے پانچ بجے آنے کا کہا تھا ،کچھ دیر بعد ڈوربیل ببجی تو وہ باہر کی جانب لپکی ،بیرونی دروازہ کھولتے ہی اس نے دروازے پر دو لڑکوں کو کھڑے دیکھا جن کے قدبرابر کے تھے ،ان میں سے ایک تو رجب تھا جب کہ دوسرے دبلے پتلے لڑکے کو وہ حیرانگی سے دیکھنے لگی۔
یہ میرے بڑے بھائی ہیں
رجب نے ناچاہتے ہوئے بھی اس چپک کر آنے والی چیز کا تعارف کرایا۔
اووو اچھا آپ لوگ اندر آئیے۔
کساء اندر کی طرف بڑھی تو وہ دونوں بھی اسکے پیچھے چل دئیے۔
یہ کون ہے تمہاری ٹیچر کی چھوٹی بہن؟
یاور نے اس کے کان میں سرگوشی کی
یہی میری ٹیچر ہے۔
رجب نے دانت پیس کر اسے جواب دیا۔حیرت سے یاور کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
دیکھا مجھے پہلے ہی شک تھا تم پر پڑھائی کے نام پر کچھ اور کام کرنے جارہے ہو۔یاور کے بولنے کی دیر تھی رجب نے ایک گھونسا اس کی کمر پر کردیا ،یاور کی بے ساختہ چیخ برآمد ہوئی تو کساء نے پلٹ کر دیکھا
کیا ہوا؟ وہ فکرمندی سے پوچھنے لگی۔
نہیں کچھ نہیں بھائی کے پیٹ میں دردہورہا ہے۔رجب نے اسے نرمی سے جواب دیا۔
اپنے سے چھوٹی ٹیچر تو نے کہاں ڈھونڈی؟
یاور نے پھر سے سرگوشی کی۔
ایک سال ہی چھوٹی ہے مگر مجھ سے زیادہ کوالیفائی ہے۔
رجب نے اس کا منہ بند کرنے کے لئے اسے سچائی بتائی
دیکھ لے بیٹا پڑھائی ہی کرنا ،عاشقی معاشقی کا چیپٹر شروع نہ کردیا ویسے میرا تو دیکھتے ہی دل آگیا چھوٹی سی ٹیچر پر۔
ڈرائنگ روم کے اندر جاتے یاور نے پھر سے سرگوشی کی تو رجب نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا جس کا مطلب تھا کہ آج وہ کافی فری ہوگیا تھا۔یاور اس کی تنبیہ نظریں دیکھ خاموش ہوگیا۔ڈرائنگ روم میں فرقان صاحب کو بیٹھا دیکھ انہوں نے سلام کیا اور دونوں صوفوں پر بیٹھ گئے۔رجب کو توفرقان جانتے تھے مگر اس کے ساتھ موجود شخص کو وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
جی میں رجب کا بھائی ہوں بڑا ،اسنے تو فیس کی بات نہیں کی ہوگی تب ہی میں کرنے آیا ہوں ،کتںی فیس لیں گی آپ؟
یاور نے کساء کی جانب دیکھ کر پوچھا۔
فیس جو آپ کو مناسب لگے دے دیجئے گا۔کساء نے تھوڑا سوچ کر جواب دیا۔
ٹھیک ہے آپ مجھے اپنا اکائونٹ نمبر دے دیں میں ٹرانسفر کردوں گا۔
یاور کی بک بک سن کر رجب نے کوفت سے جبڑے بھنچ لئے تھے۔
بھائی آپ جائیے میں لے لوں گا ٹیچر سے نمبر!
اس نے آنکھیں دکھائے کہا تو یاور ان لوگوں کا اللہ حافظ کئے وہاں سے کھسک گیا۔
@@@@@
وہ روز کساء کے پاس ٹیوشن آنے لگ گیا تھا ،صبح کالج میں بھی وہ اسے خاص طور پر توجہ دیتی تھی ،اس کی توجہ کی وجہ سے ہی جہاں رجب پڑھائی میں اچھا ہونے لگا تھا وہیں اس کی شخصیت بھی نکھر رہی تھی ،اس کا اعتماد بحال ہوگیا تھا،کساء سے اس کی اچھی دوستی ہوگئی تھی ،دونوں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتے ،فرقان بھی انہی کے ساتھ بیٹھے ہوتے تھے۔رجب سے فرقان کا دل بھی لگ گیا تھا۔یاور نے اچھی خاصی رقم کساء کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کردی تھی اس کے بعد اس نے کساء کو میسج کرکے پوچھا بھی تھا کہ اسے رقم کم تو نہیں لگی ،کساء کے لئے یہ رقم کافی تھی اس نے یاور کا شکریہ ادا کیا،یاور اور کساء کی میسج پر بات چیت کا رجب کو کوئی علم نہیں تھا۔
@@@@@
وہ اکاؤنٹنگ کے سمز حل کررہا تھا جس کے لئے اسے فرقان گائیڈ کررہے تھے ،وہ دونوں ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھے تھے ،کساء چائے بناکے خود بھی ساتھ بیٹھ گئی۔چائے پینے کے تھوڑی دیر بعد فرقان کو طبیعت میں کچھ خرابی محسوس ہوئی تو وہ کمرے میں چلے گئے ،کساء اب ان کی جگہ بیٹھ کر رجب کی مدد کرنے لگی۔
وہ اس سے تھوڑے فاصلے پر ہی صوفے پر بیٹھا تھا۔وہ کتاب پر جھکی اسے سمجھانے لگی تب ہی رجب کی نظر اس کے چہرے پر ٹھہر گئی۔اس لمحے وہ اسے بے انتہا پیاری لگی،روئی جیسے سرخ گال مسکراتے ہوئے مزید سرخ ہو جاتے تھے ،لمبے کتھئی بال سلیقے سے جوڑے میں قید تھے۔سوال حل کرنے کے بعد کساء نے فاتحانہ انداز میں اسے دیکھا جو اسے دیکھنے میں مگن تھا ،کساء کی نظریں اس کی نظروں سے ملی تو اس نے جھینپ کر نظریں جھکالیں۔آج کا دن رجب عبد الرحمن کے لئے بہت خاص تھا کیونکہ آج وہ اپنی چھوٹی استانی پر دل ہارگیاتھا جب کہ دوسری طرف آج کساء فرقان کا بدترین دن تھا کیونکہ آج کے دن کی وجہ سے رجب عبد الرحمن اس کی زندگی جہنم بنانے والا تھا۔
@@@@@
وہ کساء کے گھر سے آکے اپنے کمرے میں جاکے دھڑام سے بیڈ پر گر گیا ،اس کی نظریں چھت پر تھیں جب کہ ہونٹوں پر بڑی پیاری سی مسکراہٹ تھی ،وہ لڑکی اسے زندگی کی طرف لے آئی تھی ،ایک بار پھر اسے اپنی زندگی اچھی لگنے لگی ،یاور کمرے میں داخل ہوا تو اسے یوں مسکراتا دیکھ صدمے میں رہ گیا ،اسنے نوٹ کیا تھا رجب کے اندر بہت تبدیلی آگئی تھی ،اب وہ اس سے بھی کافی باتیں کرلیتا تھا۔
خیریت ہے کیوں مسکرایا جارہا ہے؟
یاور پوچھتے ہوئے اس کے پاس بیٹھ گیا
کیوں مسکرانے پر بھی ٹیکس لگتا ہے
رجب نے شرارت سے اسے جواب دیا
اوہو آج بڑے اچھے مزاج ہیں جناب کے۔
یاور کو اس کے انداز پر بڑی خوشی ہوئی۔
ہمم چلو کیا یاد کروگے تم آج میں تمہیں پارٹی دیتا ہوں۔
وہ ایکدم ہی اس پر مہربان ہوگیا تھا۔یاور جانتا تھا عبد الرحمن اس کے اکائونٹ میں ہر ماہ رقم بھجواتے ہیں۔
ٹھیک ہے میں اپنے دو دوستوں کو بھی بلالوں بیچارے بہت غریب ہیں خوش ہو جائیں گے۔یاور کی بات سن کر اسنے اثبات میں سر ہلایا تو یاور کی خوشی کی انتہا نہ رہی وہ جلدی جلدی پارٹی کی تیاری کرنے لگا۔
@@@@@
ڈرائنگ روم کی میز مزیدار کھانوں اور ڈرنکس سے بھری ہوئی تھی ،سارا خرچہ آج رجب نے کیا تھا،یاور کے پرانے دوست زوہیب اور عاطف آئے تو اتنی تیاری دیکھ بڑے خوش ہوئے ،وہ دونوں یاور سے چھوٹے ہی تھے۔رجب بھی ان لوگوں کے ساتھ آکے بیٹھ گیا،اس سے پہلے یاور نے کئی بار گھر میں پارٹی کی تھی اور اس کے دوست بھی آتے تھے مگر رجب کبھی ان میں دلچسپی نہیں لیتا تھا وہ اپنے کمرے میں بند ہو جاتا تھا۔
دوستوں آج کی پارٹی میرے چھوٹے بھائی رجب کی طرف سے ہے ٹوٹ پڑو غریبوں اور اس کو دعا دو۔
یاور نے شوخ سے بولا تو رجب سرجھٹک کر مسکرایا پھر خود بھی کھانے کی جانب بڑھ گیا،آج وہ الگ ہی موڈ میں تھا جب ہی زوہیب اور عاطف سے بھی اس کی جلد ہی دوستی ہوگئی۔
@@@@@
ارے آپ یہاں؟
یاور کسی کام کے سلسلے میں ہوسپٹل آیا تھا جب اس نے وہاں کساء اور فرقان کو دیکھا۔وہ ان کے پاس چلا آیا۔
جی بابا کا چیک اپ کرانے آئی تھی۔
کساء نے اسے پہچان لیا تھا اس لئے فورا جواب دیا۔
اچھا کیا کہا ڈاکٹر نے؟
وہ فرصت میں تھا تب ہی پوچھنے لگا۔
جی ابھی آرام کی ضرورت ہے بابا کو۔
اس نے سرعت سے جواب دیا۔
آپ لوگ گاڑی میں آئے ہیں؟
یاور نے اگلا سوال پوچھا۔
نہیں بابا گاڑی نہیں چلا پاتے اس لئے کیب میں آئے ہیں۔وہ اس کے سوالوں سے تھوڑی بدمزہ ہوئی۔
واپس بھی کیب میں جائیں گے؟
اس نے پھر سے پوچھا تو کساء نے سر ہلادیا۔جب تک فرقان بھی ان کی طرف چلے آئے۔
ارے تم رجب کے بڑے بھائی ہو نہ کیسے ہو بیٹا؟
فرقان نے خوشدلی سے پوچھا۔
میں ٹھیک انکل آئیے میں آپ کو گھر چھوڑ دوں میں بھی اسی طرف جارہا ہوں۔یاور نے انہیں آفر کی۔
نہیں بیٹا ہم چلے جائیں گے۔فرقان نے انکار کرنا چاہا۔
بیٹا بھی کہہ رہے ہیں منع بھی کررہے ہیں۔یاور نے برا منایا تو فرقان اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئے جس کی وجہ سے کساء کو بھی اس کے ساتھ جانا پڑا۔
جاری ہے
0 Comments