دھڑکن

رمشاء انصاری

قسط ۳

یاور نے ان دونوں کو گھر کے باہر اتارا تو فرقان کے ضد کرنے کے باعث اسے گھر میں آنا پڑا۔کساء چائے بنانے کچن میں چلی گئی تھی کچھ دیر بعد وہ چائے اور فرائی کباب لئے ڈرائنگ روم میں آئی۔وہ عام سے حلیے میں بھی پیاری لگتی تھی،یاور کو وہ لڑکی پہلے دن ہی بہت پسند آئی تھی ،اب تو اسے فرقان بھی بہت پسند آئے،فرقان اور یاور کافی دیر تک باتیں کرتے رہے پھر یاور ان سے اجازت لے کر گھر چلا گیا۔پانچ بجتے ہی رجب ٹیوشن آیا تو کساء کچن میں مصروف تھی جب کہ فرقان اپنے کمرے میں آرام کررہے تھے وہ سیدھا کچن میں چلا آیا۔


میں آپ کی کچھ ہیلپ کروائوں؟


وہ بیگ کندھے پر لٹکائے اس کے قریب آتا پوچھنے لگا۔


نہیں میں کرلوں گی۔کساء نے انکار کیا۔


آپ اکیلے کیسے کریں گی میں آپ کی ہیلپ کرادیتا ہوں نہ۔ رجب نے بیگ سلپ پر رکھا اور کٹنگ بورڈ پر رکھی پیاز کاٹنے لگا۔تھوڑی دیر میں ہی سڑ سڑ کی آنے والی آواز پر برتن دھوتی کساء نے پلٹ کر اسے دیکھا،اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا وہ پھر بھی پیاز کاٹنے میں مگن تھا ،کٹنگ بورڈ پر آڑھے ترچھے انداز میں کٹی پیاز اپنی بے قدری پر منہ بنارہی تھی۔کساء کو وہ بڑا پیارا لگا۔وہ اسے اسٹوڈنٹ کی طرح ہی ٹریٹ کرتی تھی اور یہ حقیقت تھی رجب کو لے کر اس کے دل میں کچھ نہیں تھا جب کہ رجب کے دل میں اس کے لئے کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔


رجب لائو مجھے دو اور تم جاکے منہ دھو۔


کساء نے آگے بڑھ کر اس سے چھری لے لی۔


نہیں میں کاٹ دوں گا آپ کاٹیں گی تو آپ کی آنکھوں میں مرچے لگیں گی۔وہ اس کے ہاتھ سے چھری لے کر پھر سے پیاز کاٹنے لگا۔


ہاں تو کیا ہوا دو تین آنسو ہی تو نکلیں گے۔وہ رجب کی بے تکی بات پر ہنس کر بولی۔


میں آپ کی آنکھ میں ایک آنسو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔وہ سنجیدگی سے بولا تھا مگر کساء کو یہ مذاق ہی لگا۔اس نے رجب کو پیاز کاٹنے دی اور خود دوسری سبزیاں کاٹنے لگی۔


وہ چولہے کے آگے کھڑی پاستہ بنارہی تھی اور رجب دونوں ہاتھ سینے پر باندھے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا اسے تکنے میں مصروف تھا۔کساء اسے کتنی بار بول چکی تھی کہ وہ پڑھائی اسٹارٹ کرے مگر وہ مان نہیں رہا تھا کچھ دیر بعد کساء کچن سے فری ہوئی تو رجب اس کے ہمراہ ڈرائنگ روم میں آگیا۔فرقان بھی وہی آبیٹھے تھے،وہ دو تینوں اردگرد کی باتوں میں لگ گئے ،اب رجب خود کی اپنی پڑھائی کو لے کر سیریز ہوگیا تھا۔تھوڑی دیر گپ شپ کرنے کے بعد وہ جانے کے لئے اٹھا تو ان دونوں نے اسے کھانے پر روک لیا۔کساء نے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگایا تو وہ فرقان کو سہارا دئیے انہیں ٹیبل پر لے آیا۔کساء کے ساتھ وقت گزار کر اسے بہت اچھا لگتا تھا۔وہ تینوں مل کر کھانا کھانے لگے اس کی اور یاور کی کمپنی میں فرقان بہت خوش رہتے تھے۔


@@@@@


رجب کے جانے کے بعد وہ فرقان کو لئے کمرے میں آگئی ،انہیں بیڈ پر لٹا کے ان پر کمفرٹ ڈال کر وہ دوائی نکالنے لگی


رجب بہت اچھا لڑکا ہے باتیں ایسی کرتا ہے کہ انسان اس سے مرغوب ہوجائے۔


فرقان نے خوشی کا اظہار کیا۔


آپ کو تو یاور بھی اتنا ہی اچھا لگتا ہے ،دونوں میں سے زیادہ اچھا کون لگتا ہے مجھے تو سمجھ نہیں آتی۔


وہ دوائی لئے ان کے پاس آکے بیٹھ گئی۔


دونوں بھائی ہی بہت اچھے ہیں بس یاور کے اندر شوخی زیادہ ہے اور رجب میں معصومیت۔انہوں نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔


ہمم یہ تو ہے۔وہ ان کی بات سے متفق تھی۔


ان کو دوائی دے کر وہ لائٹ آف کرکے ان کے کمرے سے نکل گئی۔


وہ کمرے میں آئی تو اس کے سیل فون کی اسکرین جگمگا رہی تھی ،اس نے فون اٹھایا تو یاور کے میسج آئے ہوئے تھے۔


اب انکل کو چیک اپ کے لئے کب جانا ہے؟


یاور نے میسج کرکے پوچھا تھا۔


پرسوں!


اس نے یک لفظی جواب دیا۔


کیب نہیں کرنا میں پک اینڈ ڈراپ دے دوں گا۔


اگلی جانب سے فورا میسج آیا۔


نہیں اس کی ضرورت نہیں۔اس نے ریپلائے دیا۔


انکل نے مجھے بیٹا کہا ہے اب اچھا تھوڑی لگے گا ان کے بیٹے کے ہوتے ہوئے وہ کیب میں سفر کریں اس لئے میں پرسو خود آجائوں گا۔


اس کا میسج دیکھ کساء نے اوکے کا ریپلائے کیا اور سونے کے لئے لیپ گئی


@@@@@


مائنڈ بلوئنگ !


پروفیسر اسد کی آواز پر اس نے سر اچکاکے انہیں دیکھا ،وہ پروگریس رپورٹس کا بنڈل لئے بیٹھے تھے ،ایک ہفتے بعد سیکنڈ ائیر کے بورڈ ایگزیمز تھے جس سے پہلے کالج میں لئے گئے امتحانات کی پروگریس سامنے پڑی تھیں۔پروفیسر اسد نے رجب عبد الرحمن کی رپورٹ مس عافیہ کو دکھائی۔


آئی کانٹ بلیو اٹ کے رجب میں اتنا امپروومنٹ کیسے آگیا ،وہ صفر سے ٹاپ پر چلا گیا ،کالج میں ٹاپ کیا ہے اس نے امید ہے اس بار وہ بورڈ میں بھی ٹاپ کرے گا۔


مس عافیہ بھی خوشی کا اظہار کئے بنا نہ رہ سکیں آج سارے ٹیچرز کی زبان پر رجب کا نام تھا جس کی ایکدم سے تبدیلی پر سب بہت حیران تھے جب کہ وہ خاموشی سے بس مسکرا رہی تھی ،ایک دفعہ رجب نے اس کی زندگی بچائی تھی ایک دفعہ اس نے رجب کی زندگی برباد ہونے سے بچا لی تھی۔


@@@@@


بورڈ ایگزیمز سر پر تھے وہ پڑھائی میں حد سے زیادہ مگن ہوگیا تھا اتنا مگن کے اسے پتا ہی نہیں چلا کہ کب یاور کساء سے رابطے بڑھانے کی کوشش کرنے لگا،اس نے خود بھی کساء کو کچھ ظاہر نہیں کرایا تھا وہ اپنا فوکس اپنی پڑھائی پر رکھ کر اپنے خواب پورے کرنا چاہتا تھا جس کے بعد اسنے سوچ رکھا تھا وہ فرقان سر سے کساء کا ہاتھ مانگنے کے لئے یاور کو بھیج دے گا لیکن اسے کیا پتا تھا کہ یاور اس سے بھی جلدی کساء کا ہاتھ اپنے لئے مانگنے کے لئے سر فرقان کے پاس پہنچ جائے گا۔آج رجب کا لاسٹ پیپر تھا جس کے بعد اس نے ٹیوشن چھوڑدیا تھا۔وہ گھر پر آرام کررہا تھا جب کہ اس کے بجائے یاور آج ان کے گھر چلا گیا تھا


انکل آج میں آپ سے بہت ضروری بات کرنے آیا ہوں۔


یاور نے بنا کوئی تہمید باندھے اصل مدعے پر آنا چاہا۔


ہاں بیٹا بولو۔فرقان نے اسے اجازت دی۔


انکل میں کساء کو پسند کرتا ہوں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ،مجھے پتا ہے میرا اس طرح آنا اور یہ سب بولنا معیوب ہے مگر میرے خاندان میں کوئی نہیں ہے اس لئے مجھے خودہی یہ بات کرنے آنا پڑا۔باقی میری کمائی اور کوالیفیکشن کے بارے میں آپ جانتے ہیں میں نے ماسٹرز کیا ہے اور دو سے تین جگہ جاب کرتا ہوں۔کساء کو ہمیشہ خوش رکھوں گا پلیز انکل مجھے انکار کرکے میرا دل نہیں توڑئیے گا۔


یاور سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھا تھا۔


مجھے کوئی اعتراض نہیں بیٹا تم بہت اچھے ہو لیکن مجھے کساء سے پوچھنا ہوگا۔میں اس سے پوچھ کر تمہیں جواب دے دوں گا۔


فرقان نے کچھ سوچ کر کہا تو اس نے اثبات میں سرہلادیا۔


@@@@@


کہاں تھے اتنی لیٹ کیوں ہوگئے؟


یاور گھر آیا تو وہ اسی کا انتظار کررہا تھا ،کھانا وہ کھا چکا تھا اب منتظر تھا کہ وہ آئے اور اس کے لئے چائے بنائے


ضروری کام سے گیا تھا؟


یاور نے مختصر سا جواب دیا


کیسا کام؟


رجب نے تجسس سے پوچھا


عبد الرحمن سر تمہیں دبئی بلانے والے ہیں اس لئے میں نے سوچا تم چلے جائو گے تو اکیلا ہوجائوں گا تب ہی میں نے اپنا گھر بسانے کا فیصلہ کرلیا۔


یاور کی بات سن کر وہ کافی خوش ہوا۔


واہ تو کس کا انتخاب کیا اس عظیم کام کے لئے؟ وہ شرارت سے پوچھنے لگا۔


وہاں سے کنفرم ہونے دو پھر بتادوں گا۔ویسے اپنی بھابھی کو دیکھ تیرا دل خوش ہو جائے گا۔یاور نے مسکرانے اسے دیکھا۔


ہاں چلو میں پھر اپنا کہیں اور بندوبست کرلوں۔رجب فکرمندی سے بولا۔


کیوں؟ یاور نے بھنوئیں اچکائے پوچھا۔


تمہاری بیوی آجائے گی تو میں کہا رہوں گا۔اس نے یاور کو جواب دیا۔


تم دبئی جارہے ہو اگلے ہفتے۔


یاور نے گویا اس کے سر پر دھماکا کیا ،پل میں اس کے تاثرات بدل گئے۔


بابا کو اپنی زبان میں سمجھا دو کہ مجھے بزنس میں کوئی دلچسپی نہیں۔میں انجینئر بننا چاہتا ہوں۔اس نے دو ٹوک یاور کو اپنا ارادہ بتادیا۔


تم ان کی اکلوتی اولاد ہو بیرون ملک میں ان کا بزنس پھیلا ہوا ہے جو تم نے ہی سنبھالنا ہے اور اب تم کوئی بچے نہیں ہو بائیس تئیس سال کے سمجھدار نوجوان ہو۔یاور نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔


مجھے فالتو نہیں سننا یاور جو میں نے کہا ہے وہ ان تک پہنچادی


وہ سخت لہجے میں بول کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔یاور نے اس کے موڈ کا بیڑہ غرق کردیا تھا۔


@@@@@


فرقان نے کساء کو یاور کے پرپوزل کے متعلق آگاہ کیا پہلے تو اس نے منع کیا لیکن فرقان کے تھوڑا سمجھانے کے بعد وہ بھی مان گئی۔فرقان نے یہ خوشی کی خبر یاور کو دے دی تھی۔یاور کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا اس دن اس نے اپنے اپارٹمنٹ کے ساتھ بنے ہر اپارٹمنٹ میں مٹھائی بانٹی۔رجب گھر آیا تو اتنے مٹھائی کے ڈبے دیکھ حیران رہ گیا۔


یہ لو جانی مٹھائی کھائو۔


اس نے مٹھائی کا ڈبہ کھول کر رجب کی طرف بڑھایا۔


کس خوشی میں؟


رجب نے حیرانگی سے پوچھا۔


تمہاری بھابھی نے ہاں کردی ہے۔یاور نے جواب دیا تو اس نے اووو کانگریچولیشن کہہ کر مٹھائی منہ میں رکھ لی۔


مجھے یقین نہیں تھا کہ کساء اتنی آسانی سے مان جائے گی۔


یاور نے کچھ سوچتے ہوئے کہا لیکن اس کی بات سن کر سامنے کھڑے نوجوان کو دھچکا لگ گیا ،اسے لگا مٹھائی اس کے حلق میں اٹک گئی ہو ،یاور نے فورا سے اسے پانی لاکے دیا جسے پی کر اس کے حلق سے مٹھائی نیچے اتری۔


کیا کہا تم نے کساء؟ رجب بے یقینی سے پوچھ رہا تھا۔


ہاں میں کساء سے شادی کررہا ہوں ،تمہاری چھوٹی استانی سے،اگلے ہفتے ہم دونوں کی انگیجمنٹ ہو جائے گی۔


یاور نے اپنے بھولپن میں جواب دیا جب کہ وہ اس کی بات سن کر پھڑکتی ہوئی کنپٹی کی رگوں کے ساتھ اپارٹمنٹ سے واک آئوٹ کرگیا۔


@@@@@


وہ اپارٹمنٹ سے نکل کر علاقے میں بنے پارک کی طرف آگیا جہاں اس کے دوستوں کا گروپ اس وقت بیٹھتا تھا۔وہ لوگ وہاں بیٹھ کر نشہ کرتے تھے اس وجہ سے رجب رات میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھتا تھا بلکہ وہ انہیں منع کرتا تھا کہ وہ یہ فضول چیزیں چھوڑدیں۔آج وقت نے اسے ایسی چوٹ ماری تھی کہ وہ بھی ان میں شامل ہونے جارہا تھا یاور کو وہ سگے بھائی سے بھی بڑھ کر مانتا تھا اور یاور نے کیا کرا اس کی محبت چھین لی اس سے۔دوسری طرف کساء !!!کیا وہ اس کے جذبات سے ناواقف تھی ,کیا وہ ان دو ماہ میں جان نہ سکی کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔وہ اپنے دوستوں کے ساتھ آکے بیٹھ گیا ،ان لوگوں کو منع کرنے والے نے جب اپنے ہاتھوں سے نشے آور اشیاء کو اپنے حلق میں اتارا تو وہ سب حیران رہ گئے ،رجب ان لوگوں کو نارمل نہیں لگ رہا تھا ،وہ اس سے پوچھتے رہے مگر اس نے انہیں کچھ نہیں بتایا،نشہ کرنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔وہ اپنے دوستوں کو پریشان چھوڑ وہاں سے چلا گیا۔


@@@@@


فرقان اب کافی حد تک ٹھیک ہوگئے تھے ،آج ان کے دوست انہیں اپنے ہمراہ گھومنے کے لئے لے گئے تھے،وہ گھر میں اکیلی تھی ،صاف ستھرے حلیے میں وہ گھر کا کام کررہی تھی جب ایکدم سے دروازہ بجنے کی آواز آئی۔وہ دوپٹہ سلیقے سے لیتی دروازہ کھولنے گئی مگر سامنے رجب کو کھڑا دیکھ خاصی حیران ہوئی۔


رجب تم یہاں خیریت؟


وہ تشویش سے پوچھنے لگی ،اس کی بات سن کر رجب گھر میں داخل ہوگیا۔


رجب ابھی باباگھر میں نہیں ہیں تم بعد میں آجانا۔کساء کو اکیلے میں یوں اس کا آنا مناسب نہیں لگا اس لئے اسے فورا کہنے لگی۔


اس کی بات سن کر رجب نے اپنے پیچھے دروازہ بند کردیا ،وہ نشے میں تھا ،ہر چیز سے بے پرواہ ،اسے خود نہیں پتا تھا وہ کیا کررہا ہے۔


تم یاور سے شادی کررہی ہو؟ وہ بھاری لہجے میں اس نے پوچھنے لگا


ہاں کیوں؟


کساء نے ناسمجھی سے پوچھا ،اس کا چہرہ ،اس کی آنکھیں ،اس کا لہجہ سب بدلا ہوا تھا۔


میں تم سے محبت کرتا ہوں تم یاور سے کیسے شادی کرسکتی ہو؟


وہ ایکدم سے چیخا تو کساء چونک گئی پھر ڈر کے اسے دیکھا۔


رجب تم پاگل ہوگئے ہو کیا بول رہے ہو؟


وہ سہم کر بولی تھی۔


پاگل تھا نہیں مگر اب ہوگیا ہوں ،تم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتی ہو۔


وہ ایکدم سے اس کے قریب آیا اور اس کا منہ دبوچ لیا ،وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی مگر رجب کے سر پر خون سوار تھا۔تھوڑی دیر بعد رجب نے اسے جھٹکے سے چھوڑا تو وہ صوفے پر گرگئی۔


شرافت سے یاور کو انکار کردو ،تم میری ہو مجھ سے شادی کروگی۔


وہ درشتگی سے بولا تھا اس کی بات سن کساء تپ کر اٹھی۔


تم ہو کیا جو میں تم سے شادی کروں گی؟ اپنی عمر سے پیچھے چلنے والے شخص ،جس کے پاس نہ میرے برابر کی تعلیم ہے نہ تم کسی قابل ہو۔


وہ بھی بے انتہا غصے میں تھی اسلئے جو مکہ میں آیا بول گئی۔


یعنی کہ تم یاور سے شادی کے لئے انکار نہیں کروگی؟


اس کی بات سن کر رجب نے غصے سے پوچھا تھا۔


نہیں ہرگز نہیں ،تم یہاں سے چلے جائو ورنہ میں یاور کو بتادوں گی کہ اس کا بھائی کیا حرکتیں کررہا ہے۔


وہ غصے اور ڈر سے بری طرح کانپ رہی تھی ،اس کی بات سن کر رجب نے زوردار قہقہہ لگایا اور پھر وہ قہقہہ لگاتا ہی گیا ،اس کی حالت پاگلوں سی ہوگئی تھی وہ کوئی جنونی وحشی لگ رہا تھا


کساء تم آگر میری نہیں ہوئیں تو تم کسی اور کو بھی مکمل نہیں ملوگی۔


اس سے پہلے وہ اس کی بات سمجھ پاتی وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا۔وہ روتی چلاتی اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر اس بے رحم نے زرا سا رحم نہ کیا۔چھ سال پہلے اس کی عزت بچانے والا نشے کی حالت میں خود ہی اس کی عزت لوٹ چکا تھا۔


@@@@@


وہ آدھ مری حالت میں بیڈ پر پڑی تھی ،وہ سنگدل اس کو برباد کرنے کے بعد وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا ،وہ اٹھنے کے قابل نہ رہی ،جسم اذیتوں کا سامان تھا۔وہ اسے کسی قابل چھوڑ کر نہیں گیا تھا ،وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اس قدر گرا ہوا نکلے گا۔ایک پل کو تو اس نے سوچا خودکشی کرلے مگر پھر اپنے باپ کا خیال آتے ہی وہ مزید ٹوٹ گئی۔اس کا باپ یہ صدمہ سہہ نہیں پاتا۔وہ اس عمر میں ان کو یہ دکھ نہیں دے سکتی تھی ویسے ہی وہ بیمار تھا۔اپنے بابا کا سوچ کر اس نے ہمت جمع کی اور پھر اٹھ کر واشروم چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ فریش ہوکے کمرے میں آئی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔اس کا چہرہ زرد پڑگیا تھا ،آنکھیں رو روکے سوج گئی تھیں ،جسم اپنے ساتھ ہوئی زیادتی پر رویا تھا۔اس کے بابا آنے والے تھے اس نے جلدی سے کمرے کی حالت درست کی اور پھر بیڈ پر لیٹ گئی اسے بخار چڑھ گیا تھا،وہ غنودگی میں چلی گئی ،اس کے بابا کب گھر میں آئے اور کب اسے ہوسپٹل لے کر گئے اسے کچھ پتا نہ چلا۔


@@@@@


اس کی آنکھ کھلی تو خود کو اپنے کمرے میں پایا ،اس کے دائیں جانب یاور کرسی پر بیٹھا تھا ساتھ ہی فرقان بھی بیٹھے تھے۔یاور کو دیکھتے ہی اس نے سہم کر اپنا چہرہ کمفرٹ میں چھپالیا۔یاور میں اسے رجب کی جھلک نظر آرہی تھی۔وہ پورے پانچ دن بعد ہوش میں آئی تھی۔


کیا ہوگیا بیٹا تمہیں ایکدم؟


فرقان بہت فکرمند تھے۔یاور کے چہرے پر بھی پریشانی تھی۔


بابا آپ پریشان نہ ہوئیں بس موسم خراب ہے تب ہی۔


اس نے نرمی سے انہیں جواب دیا اور آنکھیں موندلیں وہ یاور کا سامنا کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتی تھی۔


یاور بیٹا رجب کدھر ہے کافی دنوں سے نظر نہیں آرہا؟


فرقان صاحب یاور سے گفتگو میں مصروف تھے وہ بھی ان کی بات سننے لگی ،رجب کا نام سن اس پر خوف سوار ہونے لگا۔


انکل وہ دبئی چلا گیا ہے۔


یاور نے انہیں اطلاع دی۔


ارے کب ،بتایا بھی نہیں۔


فرقان حیران ہوئے۔


جی انکل مجھے بھی کچھ سمجھ نہیں آیا پہلے منع کرتا تھا کہ نہیں جائوں گا پھر پانچ دن پہلے خود نے اپنے ڈیڈ سے بات کی اور اگلے دن روانہ ہوگیا۔


یاور کی بات سن کر کساء نے درد سے آنکھیں مینچ لیں وہ ظالم اسے برباد کرنے کے بعد خود پردیس میں جابسا تھا۔


@@@@@


کساء یہ انکل کیا بول رہے ہیں تم مجھ سے شادی نہیں کرناچاہتیں۔


کساء کی طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد یاور نے انگیجمنٹ کا شور مچایا تو کساء نے اس سے شادی کرنے سے ہی انکار کردیا۔فرقان نے بہت وجہ پوچھنی چاہی مگر اس نے کچھ نہیں بتایا۔وہ یاور سے شادی کرکے رجب کا دوبارہ سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسے نفرت تھی رجب سے اس کے نام سے اس کے ذکر سے پھر وہ کیسے اس کے بھائی سے شادی کرسکتی تھی۔اس نے یاور کو بھی صاف منع کردیا تھا جس کے بعد یاور بھی ٹوٹا دل لئے اس کی دہلیز سے واپس چلا گیا۔وہ اب کسی سے شادی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔اس کے ساتھ جو ہوا تھا وہ کسی کو نہیں بتا سکتی تھی۔یاور اس کے انکار سے اتنا مایوس ہوا کہ خود بھی ملک چھوڑگیا۔یاور اور رجب کہ ملک چھوڑ جانے سے اس کی تھوڑی ہمت بندھی تھی ،وہ زندگی میں رکنا نہیں چاہتی تھی اس نے فیصلہ کیا وہ آگے بڑھے گی ،کچھ عرصے بعد اس کے ایگزیمز شروع ہونے والے تھے اس نے یونیورسٹی دوبارہ جوائن کرلی مگر رجب عبد الرحمن اس کا اعتماد چھین چکا تھا۔


جاری ہے