دھڑکن
رمشا انصاری
قسط 8
اس نے سر اچکاکے اسے دیکھا اور اگلے پل وہ سن پڑگئی۔کانوں میں اچانک سے سیٹیاں بجنے لگیں۔رجب سامنے کھڑا حیرت و۔ استعجاب سے اسے دیکھ رہا تھا۔آنکھوں میں عجیب سا سناٹا تھا۔
کساء کیسی ہو؟؟؟
اس کو یوں ساکت کھڑا دیکھ وہ خود ہی پوچھنے لگا۔وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی پھر ہوش میں آتی اپنا بیگ اٹھاکے باہر کی طرف بھاگی۔
کہاں جارہی ہو ؟
اس نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑا۔وہ چونک کر رک گئی اور نفرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
اپنے شوہر کے پاس۔
اس نے چبا چبا کے لفظ ادا کرتے اسے باور کرایا۔
وہ شوہر جو تمہاری قیمت لے کر گیا ہے مجھ سے؟
اس کی بات سن کر رجب ایکدم سے تپ گیا تھا۔
کیا مطلب تمہارا؟؟؟
کساء نے ناسمجھی سے پوچھا۔
یعنی کہ تمہیں کچھ بھی نہیں پتا۔
رجب کو اب جاکے سمجھ آیا تھا۔
کیا نہیں پتا؟؟؟
وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی اور رجب کے منہ سے نکلنے والے جملوں نے اسے زندہ زمین میں درگور کردیا تھا۔
@@@@@
وہ بت بنی صوفے پر بیٹھی تھی۔رجب اسے بتا چکا تھا کہ احتشام کی اصلیت۔وہ ہواس کھو بیٹھی تھی ۔اتنا سب کچھ ہونے کے بعد یہ کسر بھی رہ گئی تھی۔رجب قدموں میں بیٹھا اس سے معافی مانگ رہا تھا مگر وہ سمجھ ہی نہیں پارہی تھی اس کی باتیں۔وہ صدمے میں تھی۔بہت گہرے صدمے میں۔
مجھے معاف کر دو کساء۔
تمہارے ساتھ وہ سب کرنے کے بعد میں ایک رات بھی سکون سے نہیں سویا۔
میں نے تمہیں تلاش بھی کیا مگر پتا چلا تمہاری شادی ہوگئ۔
میں نے احتشام کو پیسوں کی آفر کی یہ دیکھنے کے لئے کہ تمہارا شوہر تم سے مجھ سے زیادہ محبت کرتا ہے یا نہیں لیکن جب اس نے میری آفر قبول کی تو میں بھی حیران رہ گیا۔اس نے مجھے بتایا کہ اس نے دوسری شادی کی ہوئی ہے۔تم صرف اس کے پیرنٹس کی مرضی سے اس کے گھر میں ہو۔
کساء تم سن رہی ہو نہ مجھے؟
اسے خلا میں گھورتا دیکھ رجب نے اسے جھنجھوڑا ،وہ چونک کے ہوش میں آئی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رودی اپنی قسمت پر ،خود پر ،زندگی پر۔
میں تمہیں معاف نہیں کرسکتی ۔تمہاری وجہ سے ایک بار پہلے میں برباد ہوئی تھی۔ایک بار آج ہوگئی۔
اس کی بھاری نم آواز نے مانو رجب کا دل چیر دیا۔وہ بے ساختہ رونے لگا۔مرد عمومآ روتے نہیں ہیں مگر وہ اپنے درد سے تھک کر چور ہوکر آج رونے لگا ۔گزشتہ سالوں کا سارا درد ابھر کر سینے پر آگیا۔
کساء میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں میں تمہاری آنکھوں میں اپنے لئے نفرت نہیں دیکھ سکتا۔مجھے معاف کردو۔مجھ سے غلطی ہوگئی تھی ۔
وہ بلک بلک کر رونے لگا۔
غلطی نہیں گناہ کیا تھا تم نے ۔
وہ کاٹ دار لہجے میں اسے جواب دیتی تیزی سے اٹھ کر وہاں سے نکل گئی پیچھے وہ یونہی گھٹنوں کے بل بیٹھا روتا رہا۔
@@@@
وہ لٹی پٹی حالت میں گھر آگئی۔آگرچہ جسم سلامت واپس آگیا تھا مگر روح پر بے تحاشہ زخم تھے جس پر ایک زخم شوہر کی بیوفائی کا بھی لگ گیا تھا۔احتشام نے گھٹیاپن کی حد پار کردی تھی مگر پھر بھی وہ اس کے گھر آگئی اور کیا کرتی کہاں جاتی۔یہاں کوئی اور نہیں تھا۔
تم کچھ زیادہ جلدی نہیں آگئیں۔
احتشام نے اس کی حالت دیکھ طنزیہ کہا۔اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔عجیب سا تمسخر تھا اس کے لہجے میں۔وہ کچھ کہنے کے لئے لب کھولتی جب احتشام نے طلاق کے کاغذات اس کے منہ پر دے مارے۔نکل جائو میرے گھر سے۔اب تمہاری یہاں کوئی جگہ نہیں۔میں ہرگز ایسی لڑکی کے ساتھ نہیں رہ سکتا جو کسی اور غیر مرد کے ساتھ وقت گزار کر آئی ہو۔
اس نے ایک بار پھر گھٹیا پن کی حد پار کی اور اسے گھر سے دھکے دے کر نکال دیا۔اس کا سامان بھی وہ پہلے سے پیک کرچکا تھا۔اس نے کساء کا کچھ ضروری سامان بھی اس کے ساتھ باہر پھینک دیا۔وہ بدتر حالت میں اپنا بیگ گھیسٹتی واپس روڈ پر چلی آئی۔ سڑکیں اس وقت سنسان تھیں۔رات کافی ہوگئی تھی۔وہ ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی جب ہی ایک گاڑی اس کے سامنے رکی اور اس میں سے رجب نکلا وہ گھر گیا تھا اس سے ملنے تب گارڈ سے پتا چلا کہ احتشام نے اسے گھر سے نکال دیا۔وہ اس کو ڈھونڈتا یہاں چلا آیا۔
کساء؟
رجب نے اس کے سامنے کھڑے ہوکے اسے پکارا۔کساء نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھا جب رجب کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے کاغذات پر پڑی۔احتشام اتنا گھٹیا تھا وہ سوچ کر رہ گیا
کساء چلو میرے ساتھ۔
بارش کی بوند اس کے چہرے پر پڑی پھر دھیرے دھیرے وہ بارش میں بھیگنے لگے۔وہ اس کو اپنے ساتھ لے جانے کا کہہ رہا تھا مگر وہ ساکت کھڑی تھی کسی بت کی طرح۔بارش نے اب زور پکڑلیا تھا۔
کساء میں تمہیں یہاں اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔
رجب نے اس کا جائزہ لیا وہ ساڑھی میں ملبوس تھی۔
جب سمندر میں پھینک ہی چکے ہو تو ڈوبنے دو۔کیوں پرواہ کررہے ہو۔چلے جائو یہاں سے۔وہ ایکدم بری طرح چلائی پھر اس کا ضبط ٹوٹ گیا۔وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔چلا چلا کے رونے لگی۔دل کا گردو غبار بارش کی بوندوں سے جیسے صاف ہورہا تھا۔
میری ایک چھوٹی سی غلطی نے میری زندگی تباہ کردی۔
نہ میں تمہیں پڑھاتی نہ تم سے ہمدردی کرتی نہ آج یہ دن دیکھتی۔
آگر پہلے ہی دن تم سے سخت لہجے میں پیش آتی تو آج عزت کی زندگی جی رہی ہوتی اس ہی وجہ سے عورت کو نامحرم سے نرم لہجے میں بات کرنے سے روکا جاتا ہے کیونکہ کسی کا کچھ نہیں جاتا بس عورت زات کا جاتا ہے۔عورت زات کو ان قصوروں کی بھی سزا دی جاتی ہے جو انہوں نے کیا نہیں ہوتا۔کاش میں یہ ساری غلطیاں نہیں کرتی۔کاش میں اس دن دروازہ ہی نہ کھولتی۔نہ میں برباد ہوتی نہ میرا باپ مرتا۔
وہ پوری شدت سے حلق کے بل چلارہی تھی۔تیز بارش میں بھیگتا وہ شخص سخت شرمسار تھا۔جوانی کے جوش میں کی گئی غلطی پر سخت نادم۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment