دھڑکن
رمشا انصاری
قسط_۵
وہ اپنا سامان پیک کررہی تھی ،آج رات کی اس کی فلائٹ تھی ،وہ ہمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑ کر جارہی تھی۔اس نے بیگ میں کپڑے رکھنے کے بعد کچھ سوچتے ہوئے زائشہ کو دیکھا جو موبائل چلانے میں مگن تھی۔
ذی!!!
اس نے نرمی سے ہچکچاکے زائشہ پکارا ،زائشہ نے سر اچکاکے اسے دیکھا۔
ہاں!!!
وہ اس کے بولنے کا انتظار کررہی تھی مگر کساء کے سمجھ نہیں آیا کہ وہ یہ بات کرنے کے لئے لفظ کونسے استعمال کرے۔
کیا ہوا کساء؟
زائشہ نے اسے خاموش دیکھ پریشانی سے پوچھا۔
ذی وہ لڑکا تھا یا لڑکی!
کساء نے شرمندگی سے پوچھا۔زائشہ کو ایک دم حیرت ہوئی کہ وہ اس وقت یہ سوال کیوں پوچھ رہی تھی۔
لڑکا !
زائشہ نے یک لفظی جواب دیا۔
کک۔۔۔کون۔۔۔کونسے یتیم خانے میں چھوڑا ہے اس کو؟ وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔
کساء تم ایک نئی زندگی شروع کرنے جارہی ہو اس بچے کو اور اپنے ماضی کو بھول جائو۔کچھ باتیں بھلادینی بہتر ہوتی ہیں ورنہ وہ سانپ بن کر آپ کو ساری زندگی ڈستی رہتی ہیں۔
زائشہ نے اسے جتاتے ہوئے کہا تھا۔وہ چپ سی ہوگئی،آنکھوں ایکدم نم ہوگئیں ،کیا وہ اپنے ماضی کو اتنی آسانی سے بھلاسکتی تھی۔کیا یہ سب ممکن تھا ،کیا وقت ان زخموں پر مرہم رکھ سکتا تھا۔
زائشہ کو احساس ہوا تھا وہ ایکدم تلخ ہوگئی تھی جو بھی تھا کساء اس بچے کی ماں تھی،اس کے ساتھ ظلم ہوا تھا ،بنا قصور کے اس نے سزا جھیلی تھی۔
کساء !!!
زائشہ اٹھ کر اس کے سامنے کھڑی ہوئی اور اسے پکارا ،کساء نے نم آنکھیں وا کئے اسے دیکھا۔
مجھے تمہاری بہت فکر رہے گی مجھے انفارم کرتے رہنا۔
زائشہ نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگالیا،اس دنیا میں ایک زائشہ ہی تو اسے اپنی لگتی تھی مگر افسوس بہت جلد یہ دوست بھی اس سے بیگانی ہونے والی تھی۔
@@@@@
کساء کو کینیڈا کے لئے روانہ کرکے وہ خود بھی ہادی کو لے کر اسلام آباد آگئی مگر جو قدم اس نے اٹھایا تھا وہ اس کے لئے بہت تگ و دو والا تھا۔ہادی اس کی گود میں تھا ،اس کا سامان پیچھے ملازم ہاتھ میں لئے بنگلے میں داخل ہوئے۔گھر والے اس کی گود میں دو ماہ کا بچہ دیکھ حیران رہ گئے۔
کس کا بچہ ہے یہ زائشہ؟
اس کی ماں شش و پنج میں مبتلا اس کے پاس آئیں ،اس کے چار بھائی تھے وہ اپنے بھائیوں کی لاڈلی چھوٹی بہن تھی اسے پتا تھا اس کے بھائی اس کا مان رکھیں گے تب ہی وہ ہادی کو لے کر یہاں پہنچ گئی۔
ممی آپ مجھے بیٹھنے تو دیں میں آپ کو سب بتادوں گی۔
زائشہ ہادی کو لے کر صوفے پر بیٹھ گئی۔اس کی بھابھیاں بھی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی سب کے ذہنوں میں الگ کہانی چل رہی تھی۔
زائشہ یہ بچہ کون ہے اور تمہارے پاس کیا کررہا ہے؟
اس کی ماں کو ایک پل کے لئے سکون نہیں آیا۔
ممی یہ میری دوست کی بیٹی ہے اس کی ڈیتھ ہوگئی ہے،اس کی بیٹی کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے تب ہی میں اپنے ساتھ لے آئی۔
زائشہ نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا گھر پر کیا بولنا ہے۔
زائشہ تمہیں کیا ضرورت تھی اس بچے کو ساتھ لینے کی ،یہ تمہاری زمہ داری نہیں ہے ،اس کا باپ ننھیال ددھیال کچھ تو ہوگا ان کو واپس دو یہ بچہ۔
اس کی ماں اس پر بری طرح برسنے لگی۔
ممی اب اس بچے کا میرے سوا کوئی نہیں ہے۔
زائشہ نے انہیں صاف جواب دے دیا۔
کیا مطلب تم اس بچے کو ساری زندگی اپنے پاس رکھوگی؟
اس کی ماں کا پارہ ہائی ہونے لگا۔
جی ممی۔
اس نے مختصر سا جواب دیا
تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے بیوقوف لڑکی۔یہ کیا حماقت ہے۔وہ زور سے چلائیں۔
ممی بس میں نے سوچ لیا میں اس بچے کو اپنے پاس رکھوں گی۔
زائشہ بھی سختی سے کہہ کر ہادی کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
@@@@@
وہ کینیڈا آگئی تھی اپنے چچا کے گھر،چچا کے دو بچے تھے ایک بیٹا سلمان جو اس کی عمر کا تھا دوسری بیٹی مشال۔جب تک فرقان زندہ تھے تب تک ان کے اپنے چچا سے زیادہ تعلقات نہیں تھے۔ان کی چچی ملنا جلنا کم ہی رکھتی تھیں۔فرقان کی موت کے بعد اکلوتا چچا ہونے کے ناطے وسیم صاحب نے اسے کینیڈا بلالیا تھا جس پر ان کی بیوی ان سے خفا تھیں اور اس بات کا اندازہ کساء کو پہلے دن ہی ان کے گھر آکے ہوگیا تھا۔مشال اور رخشندہ چچی اس سے بہت عجیب طریقے سے ملیں البتہ وسیم چچا اور سلمان کا اس کے ساتھ رویہ مناسب تھا۔وہ خود بھی ڈری سہمی ہوئی تھی اس لئے زیادہ ان میں گھل مل نہیں سکی۔وسیم نے اسے ایک کمرہ دے دیا تھا جس میں سارا دن گزارنا اسے مناسب لگا۔
@@@@@
اس نے جو سوچا تھا ویسا نہ ہوا۔گھر والے ہادی کو قبول کرنے کے لئے راضی نہیں ہوئے بلکہ زائشہ کو اس حد تک ٹارچر کردیا گیا کہ وہ گھر چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوگئی۔گھر والے اس کی محبت میں ایسا کررہے تھے آگے اس کا برائٹ فیوچر تھا مگر ناجانے وہ کیوں بیوقوفی کررہی تھی۔اس نے امریکہ اپنی خالہ کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔گھر والوں کو بغیر بتائے وہ امریکہ چلی گئی۔خالہ سے اس کی اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی اس لئے وہ اس کی بات سمجھ گئیں۔وہ خالہ کے گھر تو آگئی لیکن یہاں پر اسے کام کرکے ہی اپنا اور ہادی کا خرچہ اٹھانا تھاچنانچہ اس نے ایک اور فیصلہ کیا جاب کرنے کا۔اس نے اپنے خالو کے توسط سے دو تین جگہیں سی وی دے دی تھی اور اب وہاں سے کال آنے کا ویٹ کرنے لگی۔
@@@@@
اگلی صبح وہ ہچکچاکے کمرے سے باہر نکل آئی۔چچی نے اسے دیکھ کر برا سا منہ بنایا ،مشال کھانے پر جھکی رہی۔وسیم چچا نے اسے دیکھا تو فورا اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
کساء آئو نہ بیٹا۔
انہوں نے نرمی سے اسے پکارا۔
وہ سر جھکاکے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔سلمان اسے یونہی دیکھتا رہ گیا۔اس لڑکی پر اسے ناجانے کیوں ترس آرہا تھا۔
وسیم میں نے تو سنا تھا آپ کی بھتیجی بہت خوبصورت اور صحت مند ہے مگر مجھے تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔
رخشندہ چچی نے ناجانے کیوں تپ کر کہا،وہ چونک گئی لیکن پھر خود کو نارمل ظاہر کرنے لگی۔یہ بات تو وہ خود بھی جانتی تھی کہ وہ پرانی والی کساء نہیں رہی تھی ،اس کی صحت حد سے زیادہ خراب ہوگئی تھی۔رنگت بھی مرجھاگئی تھی۔
رخشندہ چچی کی بات سن کر وسیم چچا شرمندہ سے ہوگئے۔
رخشندہ کیسی باتیں کررہی ہو ،ماشااللہ کیا کمی ہے کساء میں۔
وسیم چچا نے چباچبا کے لفظ ادا کئے تو رخشندہ چچی طنزیہ مسکرا گئیں اور وہ اپنے آنسو پی کر رہ گئی۔
@@@@@
آج صبح سویرے ہی اسے ای میل موصول ہوگئی تھی ،آج اسے انٹرویو دینے جانا تھا۔اس نے ہادی کو سلایا اور خود تیار ہوکے آفس کے لئے نکل گئی۔کچھ دیر بعد ہی وہ آفس پہنچ گئی۔کافی سارے لوگ انٹرویو کے لئے انتظار میں بیٹھے تھے ،وہ بھی بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔تھوڑی دیر بعد ہی اس کی باری آئی تو وہ اپنے ڈاکومنٹس لئے اندر چلی گئی۔کمرے میں ایک عمر رسیدہ شخص کے ساتھ ایک نوجوان بیٹھا تھا۔وہ بھی سامنے آکے بیٹھ گئی۔نوجوان برا سا منہ بنائے اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا ،اس کے تاثرات دیکھ اندازہ ہو رہا تھا کہ اسے اس جگہ پر زرا سا بھی انٹرسٹ نہیں ہے اور اسے یہاں زبردستی بٹھایا گیا ہے۔زائشہ پورے انٹرویو کے دوران اس نوجوان کو دیکھتے رہی ،پتا نہیں کیوں مگر اس کے نین نقش اسے جانے پہچانے لگے۔اسے لگا جیسے اس شخص کو اس نے بہت قریب سے دیکھا ہے مگر بہت یاد کرنے کے باوجود اسے کچھ یاد نہیں آیا۔انٹرویو دینے کے بعد وہ یونہی پریشان خیالی میں آفس سے باہر نکل گئی
@@@@@
کساء؟
مردانہ آواز سن کر وہ بری طرح چونک گئی پھر پلٹ کر دیکھا تو سامنے سلمان کھڑا تھا۔وہ یونہی ٹہلتے ہوئے ٹیرس پر آگئی تھی لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ سلمان اس کے پیچھے یہاں آجائے گا۔وہ ٹیرس پر اکیلی تھی ،سلمان کو یہاں دیکھ سر تا پا کانپ گئی۔اسے اب مردوں سے خوف آتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ یہاں آکے اپنے کمرے میں رہتی تھی آج ہی اس نے چہل قدمی کی نیت سے ٹیرس کا رخ کیا تھا اور آج ہی وہ سلمان سے ٹکراگئی۔
کیا ہوا؟
اس نے ڈرتے ڈرتے اسے دیکھا۔
تم اتنا گھبرا کیوں جاتی ہو مجھے دیکھ کر؟
وہ حیرانگی سے پوچھنے لگا۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
وہ جلدی سے جواب دے کر بھاگتی ہوئی اس کے برابر سے نکل گئی ،پیچھے وہ اس کا عجیب سا برتائو دیکھ کندھے اچکاکے رہ گیا۔
@@@@@
ہادی میری جان اٹھ جائو۔
وہ آفس سے آکے اسے گود میں لئے اٹھانے لگی مگر وہ اٹھ نہیں رہا تھا ،اس کو سوتے ہوئے گھنٹوں بیت گئے تھے۔زائشہ نے دھیرے سے اس کے گال تھپتھپائے تو دیکھا وہ ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
ہادی ؟؟؟
اس نے بے ساختہ اسے جھنجھوڑ دیا وہ پھر بھی نہ اٹھا اس نے گھبرا کے زور زور سے اس کی کمرتھپکی،اس نے آنکھیں نہ کھولیں۔
خالہ؟ خالہ جان ہادی کو کیا ہوا؟
وہ ہادی کوسینے سے لگائے چیختی ہوئی باہر بھاگی ،خالہ خالو کا ایک ہی بیٹا تھا وہ بھی چھوٹا تھا ،خالہ خالو اس وقت گھر میں نہیں تھے بس ملازم گھر میں موجود تھے۔اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کیا کرے وہ بس ہادی کو سینے سے لگائے گھر سے نکل گئی۔وہ بس روتی جارہی تھی اور سڑک پر بھاگی جارہی تھی اس سے پہلے اسکی گاڑی سے ٹکر ہوتی گاڑی میں موجود شخص نے جھٹکے سے گاڑی روکی۔
کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں ؟
زائشہ نے آنکھیں وا کئے اسے دیکھا یہ وہی شخص تھا جو آج آفس میں منہ بناکے بیٹھا ہوا تھا۔اس وقت وہ کافی فریش لگ رہا تھا۔
میرے بچے کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے آنکھیں نہیں کھول رہا پلیز اسے ہوسپٹل لے جانے میں میری مدد کریں۔
اس نے روتے ہوئے ہادی کوخود میں مینچ لیا تھا۔
اووو مائی گاڈ آپ میری گاڑی میں بیٹھیں
اس شخص نے فکرمندی سے فرنٹ ڈور کھولا تو زائشہ گاڑی میں بیٹھ گئی ،وہ جلدی سے جاکے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔
@@@@@
ہادی کو زیادہ دیر تک سلانے کی وجہ سے کسی ملازم نے نیند کا سیرپ ہلادیا تھا جس کا اس پر خطرناک اثر ہوا تھا لیکن وقت پر ہوسپٹل آنے کی وجہ سے ہادی کی جان بچ گئی تھی۔
وہ ہادی کو گودمیں لئے روم سے باہر نکلی تو وہ نوجوان ابھی تک کوریڈور میں بینچ پر بیٹھا تھا۔زائشہ کو دیکھ وہ اس کی جانب بڑھا۔
"اب کیسی طبیعت ہے اس کی؟"
وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا۔
جی اب ٹھیک ہے آپ کا شکریہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آگر اس کو وقت پر ہوسپٹل نہیں لایا جاتا تو اس کی جان جاسکتی تھی۔
زائشہ نے دھیرے سے مسکراکے اس کا شکریہ ادا کیا۔
اٹس اوکے لیکن بہت پیارا ہے آپ کا بیٹا۔
اس نے ہادی کے چہرے کو دیکھتے کہا ،سرخ و سفید سے گول مول بچہ بہت پیارا تھا۔
شکریہ!!!
زائشہ نے مسکراکے جواب دیا۔
کیا نام ہے اس کا؟
وہ تجسس سے پوچھنے لگا۔
عبدالہادی۔
زائشہ نے ایک بار پھر ہادی کو اپنے سینے سے لگالیا۔
پلیز ڈونٹ مائنڈ لیکن آپ اس طرح روڈ پر کیوں بھاگ رہی تھیں ،آپ کے گھر میں کوئی مدد کے لئے نہیں تھا؟
زائشہ ہادی کو لئے چلنے لگی تو وہ بھی اس کے ساتھ چلنے لگا
نہیں میں اپنی خالہ کے ساتھ رہتی ہوں اور آج خالہ خالو گھر پر نہیں تھے۔
زائشہ نے شرمندگی سے جواب دیا۔
اورآپ کے ہزبینڈ؟
وہ حیران ہوکے پوچھنے لگا۔سامنے کھڑی لڑکی کی اتنی عمر نہیں تھی وہ اس سے کوئی سال دو سال چھوٹی تھی اور شادی شدہ بھی نہیں لگ رہی تھی۔
جی میں سنگل مدر ہوں!
اس نے ساتھ چلتے نوجوان کو بھی وہی جواب دیا جو وہ سب کو دے رہی تھی۔
اووو سیڈ آپ کو اکیلے مینج کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہوگا خیر آئندہ کبھی ایسا ہو تو آپ مجھ سے رابطے کرلئے گا میں فورا آپ کی مدد کے لئے حاضر ہوں۔
اس نوجوان نے جیب سے کارڈ نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔زائشہ نے ہاتھ بڑھانے وہ کارڈ تھام لیا۔
آئیں آپ کو گھر چھوڑ دو۔
وہ گاڑی کی جانب بڑھا تو زائشہ بھی اس کے پیچھے چل دی ،تھوڑی دیر بعد گاڑی خالہ کے گھر کے آگے روکی تو وہ ہادی کو لئے گاڑی سے اترگئی۔
شکریہ !
اس نے سرجھکاکے ایک بار پھر اس نوجوان کا شکر ادا کیا تو وہ سر کو جنبش دئیے گاڑی بھگالے گیا۔زائشہ نے اندر جاتے ہوئے اس کارڈ کو دیکھا جس پر "رجب عبد الرحمن" اور اس کا فون نمبر لکھا ہوا تھا۔
جاری ہے
0 Comments