Dharkan - Episode 4

دھڑکن

رمشاءانصاری

قسط ۴

یار کساء تمہیں کیا ہوگیا ہے ،اتنی چپ کیوں رہنے لگی ہو ،کوئی ٹینشن ہے تو ہمیں بتائو ہم اسے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔


وہ چاروں یونیورسٹی کے کوریڈور میں اسے گھیرے کھڑی تھیں۔وہ یونی میں اب بالکل گم صم اور پیچھے رہنے لگی تھی۔وہ ذہین لڑکی تھی ہر چیز میں آگے رہنے والی مگر اب اس کا دماغ ہی کہیں اور رہنے لگا تھا۔اس کا یہ رویہ اس کی دوستوں نے بھی اچھے سے محسوس کیا تھا تب ہی آج تینوں نے اسے گھیر لیا۔زائشہ اس کی بیسٹ فرینڈ تھی ،وہ خاصی سمجھدار اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی مگر اس کو بھی کساء کے اس رویے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔عرشی تھوڑی جذباتی تھی اس لئے جذبات کی رو میں بہتی اس کے پیچھے پڑگئی۔رامین بھی ان کا ساتھ دے رہی تھی۔وہ تینوں ہائی کلاس فیملی سے بلونگ کرتی تھیں اور ہوسٹل کے بجائے انہوں نے کرایے پر اپارٹمنٹ لے کر اس میں رہنا مناسب سمجھا تھا۔وہ تینوں ساتھ رہتی تھیں۔کساء کے ساتھ اس واقعے کے بیتے ہوئے تین ماہ گزر گئے تھے اور اگلے ماہ ان کے ایگزیمز تھے۔


یار پتا نہیں بس طبیعت کچھ عجیب رہتی ہے میری۔


کساء نے اپنے بوجھل پن کو محسوس کرتے کہا۔عجیب سا بھاری پن رہتا تھا اس پر جسے وہ ضمیرکا بوجھ سمجھ رہی تھی۔


طبیعت خراب ہے تو ڈاکٹر کے چلی جا۔عرشی نے فکرمندی سے کہا۔


ہاں یار جائوں گی۔کساء نے لاپروائی سے جواب دیا مگر وہ لوگ اس کی کون سی ماننے والی تھیں۔


کساء تو شام میں ریڈی رہنا میں آئوں گی اور ہم ڈاکٹر کے چلیں گے۔زائشہ نے اس کے رنگ میں گھلتی زردی دیکھ کہا وہ کساء کے لئے حد سے زیادہ فکرمند تھی۔اس کی بات سن کساء نے اثبات میں سر ہلادیا جانتی تھی کہ وہ اب اس کی ایک نہیں سنے گی۔


@@@@@


ڈاکٹرنی کی بات سن کر ان دونوں کے سر پر محاورتاً نہیں حقیقتاً آسمان ٹوٹ پڑا۔زائشہ ساکت کھڑی اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی جب کہ کساء کی سٹی گم ہوگئی تھی۔یہ سب ہو جائے گا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ڈاکٹرنی نے کہا تھا وہ ماں بننے والی ہے۔


"ڈاکٹر آپ پلیز دوبارہ چیک کریں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے"


زائشہ نے سنبھل کر ڈاکٹرنی کو مخاطب کیا۔


"نہیں میں شیور ہوں یہ پریگنینٹ ہیں آپ چاہیں تو کہیں اور سے چیک اپ کرالیں"


ڈاکٹرنی مشکوک نظروں سے ان دونوں کو دیکھ وہاں سے چلی گئی۔زائشہ نے مفلوج ذہن کے ساتھ کساء کی جانب دیکھا۔


کساء کیا یہ سب سچ ہے؟


وہ بے یقینی سے پوچھنے لگی۔


تم گھر چلو زائشہ میں تمہیں سب بتاتی ہوں۔


وہ گردن جھکائے پھوٹ پھوٹ کر رودی ،زائشہ اس کو اچھے سے جانتی تھی ،وہ ایسی لڑکی نہیں تھی ،اسے بے ساختہ کساء پر ترس آیا۔اس نے سہارا دے کر کساء کو اٹھایا اور ہوسپٹل سے نکل گئی۔


@@@@@


مجھے پتا ہوتا وہ اتنا گھٹیا انسان ہے میں کبھی اس کے ساتھ ہمدردی نہیں کرتی۔


اپنی دوستوں کو ساری تفصیل بتاکے وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی ،وہ ان کے اپارٹمنٹ میں موجود تھی اور وہ تینوں اس کے پاس بیٹھی تھیں۔تینوں کی آنکھیں نم تھیں ،ان کی دوست کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا تھا اور انہیں کچھ پتا بھی نہیں چلا تھا۔


کساء تجھے خاموش نہیں رہنا چاہئے تھا ،تجھے آواز اٹھانی چاہئیے تھی،تو اتنی بزدل تو نہیں تھی۔


عرشی نے تاسف سے اسے دیکھا تھا۔


نہیں یار میرے بابا یہ صدمہ برداشت نہیں کرپاتے۔


وہ روتے ہوئے اسے جواب دینے لگی


تو انکل اب یہ صدمہ برداشت کرلیں گے،وہ تو تجھے ہی غلط سمجھیں گے ،وہ کیا دنیا تجھے غلط سمجھے گی۔رامین غصے سے چلائی تو کساء مزید تیز آواز سے رونے لگی۔


چپ ہو جائو تم لوگ دیکھ نہیں رہے اس کی حالت کیا ہورہی ہے تم لوگ اسے اور ٹینشن مت دو ۔ان دونوں کی حرکت پر زائشہ نے دونوں کو جھڑک دیا تھا۔وہ دونوں چپ ہوگئیں۔


زی میں اب کیا کروں گی؟ کساء نے سوجی ہوئی سرخ متورم آنکھوں سے اسے دیکھا تھا،ذائشہ کو اس پر بے انتہا ترس آیا ،اس نے آگے بڑھ کر کساء کو اپنے گلے سے لگالیا۔


کساء بھلے دنیا تمہارے خلاف ہو جائے میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں ،ہم کچھ سوچیں گے تم پریشان مت ہو ،سب ٹھیک ہو جائے گا۔


وہ اس کی کمر سہلاتی اسے دلاسہ دینے لگی تو اس کے گلے سے لگی کساء ایک بار پھر سسک سسک کر رودی۔اس نے جس کے ساتھ ہمدردی کی تھی وہی اس کو اتنا بڑا درد دے کر چلاگیا تھا۔


@@@@@


کساء کیا ہوا بیٹا اتنی لیٹ کیوں ہوگئیں؟


زائشہ نے اسے گھر تک چھوڑا تھا،وہ گھر آئی تو فرقان اس کا انتظار کررہے تھے۔وہ فکرمندی سے پوچھنے لگے۔


بابا یونی کے کچھ اسائمنٹ بنانے تھے تب ہی لیٹ ہوگئی۔


وہ ان سے نظریں چرائے بولنے لگی۔


تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا بیٹا؟


وہ اس کے مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھ پوچھنے لگے


نہیں بابا تھکی ہوئی ہوں آرام کروں گی تو ٹھیک ہوجائوں گی۔


اس نے سہم کر جواب دیا۔


ٹھیک ہے بیٹا آرام کرلو۔


فرقان نے نرمی سے کہا تو وہ سر کو جنبش دیتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔


@@@@@


اگلے دو دن وہ یونیورسٹی نہیں گئی ہر لمحے اسے لگتا کہ سب کو پتا چل جائے گا اور وہ رسوا ہو جائے گی۔وہ رات میں نیند میں ڈر کے اٹھ جاتی تھی۔فرقان سے بھی وہ اب زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔اس کے جسم میں تبدیلی آرہی تھی جس کے باعث اس نے ڈھیلے کپڑے پہننے شروع کردئیے تھے۔ایگزیمز سر پر کھڑے تھے مگر اس نے کچھ نہیں پڑا تھا۔قسمت نے اس پر بڑا ظلم کیا تھا۔


وہ اپنے کمرے میں بیٹھی زائشہ سے بات کررہی تھی۔بات کیا وہ بس روئی جارہی تھی اور زائشہ اسے دلاسے دے رہی تھی۔کھانے کا وقت ہوگیا تھا اس لئے فرقان اسے بلانے کمرے میں آئے لیکن اس کے رونے کی آواز سن کر اس کے قدم وہیں ٹھہر گئے۔


کساء تم کیوں رو رہی ہو ،میں نے اپنی بڑی بہن سے بات کی ہے وہ ہمیں کوئی حل بتائے گی۔


زائشہ نے اسے تسلی دی۔


زائشہ میں مزید بابا سے یہ سچ نہیں چھپاسکتی۔میں پریگنینٹ ہوں آگر ان کو یہ پتا چل گیا تو وہ مجھے ہرگز معاف نہیں کریں گے ،وہ مجھ پر بہت بھروسہ کرتے تھے ان کا بھروسہ ٹوٹ جائے گا۔وہ روتی ہوئی زائشہ کو بتانے لگی جب ہی اسے کمرے کے باہر دھڑام سے کسی کے گرنے کی آواز آئی ،وہ گھبرا کے باہر کی طرف بھاگی لیکن باہر آتے ہی اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا،فرقان دل پر ہاتھ رکھے زمین پر گر گئے تھے۔وہ اس کی بات سن چکے تھے اور اتنا بڑا صدمہ برداشت نہیں کر پائے تھے،ان کے حواسوں نے ان کا ساتھ چھوڑدیا تھا۔


"بابا"


وہ حلق کے بل چلاتی ان کی طرف بھاگی تھی۔


@@@@@


آج اس کا سب کچھ چھین گیا تھا۔اس کی زندگی مانو ختم ہوگئی بس جسم سے جان نکلنی باقی تھی۔اس کی چھوٹی سی غلطی نے اسے کہاں لاکے کھڑا کیا تھا۔اس کا باپ اس کی وجہ سے یہ دنیا چھوڑ کر جاچکا تھا۔وہ خود کو کبھی معاف نہیں کرپاتی۔اپنے باپ کی موت کی زمہ دار وہ تھی۔سارے رشتے دار مل کر جاچکے تھے کسی نے اسے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش نہیں کی وہ گھر میں اکیلی رہ گئی تھی اپنے بابا کی یادوں کے ساتھ۔اس کی دوستیں اس کے ساتھ ہی تھیں۔انہوں نے اسے تنہا نہیں چھوڑا تھا۔وہ اس کے گھر میں ہی رک گئیں۔اس وقت کساء کو ان کے سہارے کی سخت ضرورت تھی۔وقت جیسے تیسے گزرتا رہا مگر وہ خود تک محدود ہوگئی۔اس نے پڑھائی بھی چھوڑدی تھی۔ہروقت وہ گم صم رہتی۔اس کی دوستیں چاہ کے بھی اس کے لئے کچھ کر نہیں پارہی تھیں۔اس کے ننھیال والے پاکستان میں رہتے تھے مگر کسی نے اسے پلٹ کر پوچھا نہیں تھا البتہ اس کے واحد چچا کینیڈا میں رہائش پذیر تھے وہ پاکستان نہیں آسکے لیکن وہ فون پر کساء کو مسلسل کینیڈا آنے کا کہہ رہے تھے ،اس حالت میں وہ کینیڈا نہیں جاسکتی تھی اس لئے اس نے چچا کو صاف انکار کردیا۔


@@@@@


اگلے ہفتے اس کی ڈیلیوری تھی۔وہ زرد چہرہ لئے خاموشی سے سہم کر لیٹی ہوئی تھی۔اس کا جسم بے انتہا کمزور ہوگیا تھا۔چہرہ مرجھایا ہوا اور آنکھیں سیاہ گڑھے میں دھنس سی گئی تھیں۔وہ کہیں سے ہنستی مسکراتی کساء نہیں لگ رہی تھی۔وہ تو اپنی عمر سے کئی زیادہ بڑی دکھوں کی ماری لگ رہی تھی۔


زائشہ دودھ کا گلاس لے کر اس کے کمرے میں آئی اور اسے گلاس پکڑاتی اس کے سرہانے بیٹھ گئی۔


کساء ؟


اس نے کساء کو مخاطب کیا۔


ہمم۔


کساء نے چونک کر اسے دیکھا۔


میں نے سوچ لیا کہ اس بچے کے پیدا ہوتے ہی میں اسے یتیم خانے میں دے آئوں گی پھر تم اپنے چچا کے پاس کینیڈا چلے جانا۔ہماری پڑھائی مکمل ہوگئی اس لئے عرشی اور رامین تو اپنے گھر جاچکی ہیں میں بھی زیادہ عرصے تمہارے پاس نہیں رہ سکوں گی۔گھر والے مجھے مسلسل واپس آنے کے لئے فورس کررہے ہیں۔تم میرے فیصلے پر راضی ہو نہ۔


زائشہ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے سمجھایا۔اس نے اثبات میں سر ہلادیا وہ بھی اس بوجھ کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی تھی۔


@@@@@


نو ماہ جس وجود کو اس نے خود میں محسوس کیا تھا آج اسے گود میں بھی نہیں لیا تھا۔زائشہ اسے اپنے ساتھ لے گئی تھی اس نے پلٹ کر پوچھا بھی نہیں کہ وہ لڑکا تھا یا لڑکی۔


وہ گھر آگئی تھی ،زائشہ اس کے ساتھ تھی اس بچے کو لے کر ان دونوں کے بیچ کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔دو ماہ بعد کساء نے کینیڈا چلے جانا تھا اس لئے زائشہ اس کی تیاری کروا رہی تھی۔کساء کے کینیڈا جانے کے بعد اس نے خود بھی اسلام آباد چلے جانا تھا۔یہاں کراچی میں اس کی بڑی بہن رہتی تھی۔جس کے پاس وہ اکثر اوقات جاتی رہتی تھی۔آج بھی وہ اپنی بڑی بہن کی طرف چلی آئی۔


کیسا ہے وہ؟


وہ اپنی بڑی بہن سے اس بچے کے متعلق پوچھنے لگی جسے ابھی تک وہ یتیم خانے چھوڑ کر نہیں آئی تھی۔وہ چاہ کے بھی ایسا نہیں کرسکی۔اتنا معصوم پیارا سا بچہ جو بالکل کساء کے جیسا تھا اسے دیکھ زائشہ کا دل پسیج گیا۔اس کی ماں کے دل میں اس کے لئے کوئی رحم نہیں تھا مگر وہ خود اتنی بے رحم نہیں تھی۔اس نے اپنی بہن کو کساء کے بارے میں سب بتایا ہوا تھا۔


بہت معصوم بچہ ہے نہ تنگ کرتا ہے نہ روتا ہے۔


اس کی بڑی بہن نے نرمی سے کہا اور جھولے میں سے نکال کر بچہ اس کی گود میں دے دیا۔


اس کی ماں بھی ایسی معصوم ہے۔


زائشہ نے اسے سینے سے لگائے کہا۔


اور اس کا باپ؟ مہرین باجی یونہی پوچھ بیٹھیں۔


"وہ معصوم نہیں ہوگا اتنی گری ہوئی حرکت کوئی گھٹیا شخص ہی کرتا ہے"


زائشہ نے تلخی سے جواب دیا۔


زائشہ تم اس بچے کا کیا کروگی؟ مہرین باجی نے فکرمندی سے پوچھا۔ان کے خودکے دو بچے بھی تھے ان کے ساتھ اس چھوٹے بچے کو سنبھالنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔


باجی آپ بس کچھ وقت اس کو اپنے پاس رکھ لیں میں جلد اسے یہاں سے لے جائوں گی۔زائشہ نے اس بچے کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔


زائشہ اتنے دن ہوگئے اس بچے کا کوئی نام نہیں رکھا گیا۔


مہرین باجی نے اسے یاد دہانی کرائی تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔


ہادی نام ہے اس کا عبدالہادی۔


اس نے منٹوں میں فیصلہ کیا۔مہرین کو بھی یہ نام خاصہ پسند آیا۔


تم کیا ہادی کو اپنے ساتھ رکھنے کا سوچ رہی ہو؟


مہرین باجی نے اس کے تاثرات سے اندازہ لگائے پوچھا اس نے چونک کر انہیں دیکھا پھر سر جھکاکے دھیرے سے سر کو جنبش دی۔


تم جذبات میں یہ فیصلہ کررہی ہو زائشہ ہمارے گھر والے تو بھلے ہی اس بچے کو ایکسیپٹ کرلیں لیکن کل کو تمہاری شادی ہوگی تمہارا شوہر اور سسرال والے کبھی اس بچے کو ایکسیپٹ نہیں کریں گے۔وہ اسے سمجھانے لگیں۔


آگر کوئی ایکسیپٹ نہیں کرے گا تو میں شادی نہیں کروں گی لیکن اس بچے کو یتیم خانے میں نہیں بھیجوں گی اس کو پیدا ہوتے ہی اس کی ماں نے سینے سے نہیں لگایا تھا میں نے لگایا تھا اسی وقت مجھے اس سے محبت ہوگئی تھی۔یہ میرا بچہ ہے۔زائشہ کی آنکھیں بے ساختہ نم ہوگئیں۔اس نے ہادی کو مینچ کر سینے سے لگالیا۔اس کے ارادے کی پختگی دیکھ مہرین فکرمند ہوگئیں کیونکہ وہ جانتی تھیں زائشہ ایک بار جو سوچ لیتی تھی پھر وہ کرکے ہی رہتی تھی اپنی بات سے پیچھے ہٹنا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا لیکن اس بچے کی وجہ سے وہ اپنی زندگی خراب کرنے جارہی تھی۔


جاری ہے۔






Post a Comment

0 Comments