دھڑکن
رمشاء انصاری
قسط 1
وہ بڑے اعتماد سے ایگزیمینیشن ہال سے نکلا تھا۔ڈھائی گھنٹے کا پیپر اس نے ایک گھنٹے میں حل کیا تھا اور اب وقت پورا ہونے کے بعد سب سے پہلے باہر نکلنے والا وہی تھا۔اس نے مسکراتی نظروں سے باہر کھڑے اپنے اساتذہ کو دیکھا جو جانتے تھے سب سے پہلے باہر نکلنے والا شخص وہی ہوگا۔اسکول میں اس نے ہمیشہ ٹاپ کیا تھا اور آج میٹرک کا آخری پرچہ تھا۔وہ بے انتہا ذہین تھا۔اسکی ذہانت سے اس کے استاد بھی اکثر گھبرا جاتے تھے۔بلا کا معصوم اور ہنس مکھ سا لڑکا۔"رجب عبد الرحمن" وہ بائیک پر بیٹھ کر گھر کے لئے نکل گیا تھا بلآخر آج اسے دسویں جماعت سے آزادی مل گئی تھی۔وہ بہت خوش تھا ،اس نے خود کو لے کر بہت سے خواب دیکھے تھے لیکن آج قسمت اس کے لئے کوئی اور ہی کہانی لکھ کر بیٹھی تھی۔وہ آدھے راستے تک ہی پہنچا تھا جب اسکول یونیفارم میں ملبوس لڑکی بھاگتی ہوئی سیدھی اس کی بائیک سے ٹکراگئی۔اس نے جھٹکے سے بائیک روکی۔وہ لڑکی نہایت دبلی تھی۔
پلیز میری مدد کرو۔
وہ لڑکی رجب سے التجا کرنے لگی۔
کیا ہوا؟
وہ بائیک روک کر نیچے اترا۔
وہ آدمی میرے ساتھ بدتمیزی کررہا ہے۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
دوپہر کے اس وقت اکیلی باہر نکلوگی تو آدمی ہی پیچھے لگیں گے نہ۔
رجب نے ناگواریت سے اسے جواب دیا۔
ہاں تو مجبوری میں نکلنا پڑتا ہے آج میرا پیپر تھا نائنتھ کا اور بابا کو کالج سے چھٹی نہیں ملتی اس ٹائم مجھے اکیلے ہی گھر جانا پڑتا ہے۔
اس لڑکی نے منہ بناکے اپنی صفائی پیش کی پتا نہیں وہ نوجوان اس کو کیا سمجھ رہا تھا۔
کوئی بھائی بہن نہیں ہے تمہارا؟
اس نے اگلا سوال داغا۔
نہیں میں اکلوتی ہوں۔
اس نے بھی سرعت سے جواب دیا
یہ لو پانی پیو۔
آخرکار رجب کو اس پر ترس آہی گیا ،اس نے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اس کی طرف بڑھائی جسے اس لڑکی نے فورا تھام لیا۔سورج سر پر چڑھا ہوا تھا اور گرمی بھی بہت تھی ،دوپہر میں یہاں بہت سناٹا ہوتا تھا۔رجب کو اس لڑکی کو یہاں اکیلا چھوڑنا بالکل مناسب نہیں لگا۔
"تم بیٹھو بائیک پر میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں"
اس نے بائیک پر بیٹھتے اسے اشارہ کیا مگر وہ اس کی بات سن کر نفی میں سر ہلاگئی۔
نہیں میں تمہارے ساتھ بائیک پر نہیں بیٹھ سکتی۔
اس نے ڈرتے ہوئے کہا۔
دیکھو اس وقت تمہیں یہاں پر انسان کے روپ میں حیوان ہی ملیں گے ،یہ جگہ کافی سناٹے والی ہے تم چلو میرے ساتھ ،میں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا ،یقین رکھو مجھ پر
اس کا ڈرنا رجب کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہا اس لئے وہ نرمی سے اسے سمجھانے لگا۔اس لڑکی نے ایک بار نظر بائیک پر ڈالی اور پھر نفی میں سر ہلادیا۔
اچھا تم بیگ درمیان میں رکھ کر بیٹھ جائو
وہ اس کا مسئلہ سمجھ گیا تھا ،رجب کی بات سن کر اس لڑکی نے بیگ درمیان میں رکھا اور بائیک پر بیٹھ گئی۔
نام کیا ہے تمہارا۔
وہ بائیک چلاتے یونہی پوچھ بیٹھا۔
"کساء فرقان"
اس نے یک لفظی جواب دیا۔
آج تمہارا لاسٹ پیپر ہے ؟
رجب نے تجسس سے پوچھا۔
نہیں آج سیکنڈ لاسٹ تھا کل ہے لاسٹ۔
وہ بھی نرمی سے اسے جواب دینے لگی۔
یعنی کل بھی تم اس سنسان جگہ سے اکیلی جائوگی۔
اسے ایکدم اس لڑکی کی فکر ہوئی۔اس نے نوٹ کیا تھا یہ لڑکی دوسری لڑکیوں کی طرح تیز طرار نہیں تھی بلکہ سیدھی سادھی اور معصوم تھی۔
"ہاں"
کساء نے منہ بناکے جواب دیا۔
کل تم اکیلی نہیں آنا میں تمہیں لینے آئوں گا
وہ خود کونسا بہت تیز طرار تھا خود بھی سادہ تھا اور اسے کساء کی مدد کرنا مناسب لگا۔
نہیں میں کل تمہارے ساتھ نہیں آسکتی کسی نے دیکھ لیا تو غلط سمجھیں گے
اس نے فورا سے انکار کردیا۔
اچھا میں کل بائیک پر نہیں آئوں گا۔ہم پیدل چلیں گے بس اسٹاپ تک اور بس میں گھر چلے جائیں گے ٹھیک ہے ؟
وہ بڑے پیارے انداز میں اسے سمجھانے لگا۔کساء ایک دم چونک گئی۔وہ لڑکا اسے کچھ دیر پہلے ملا تھا لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے کتنا گہرا تعلق ہو ان کا۔
کون تھا وہ جو تم سے بدتمیزی کررہا تھا؟
اس کی خاموشی محسوس کئے وہ پھر سے مخاطب ہوا۔
پتا نہیں میں اسکول سے تھوڑا دور ہی آئی تھی جب مجھے اپنے پیچھے کوئی چلتا ہوا لگا۔وہ کالا سا آدمی تھا۔مجھے گھور رہا تھا۔میں نے مڑ کر اسے دیکھا تھا وہ تیزی سے آگے آیا اور میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی مگر میں خود کو بچاکے بھاگ گئی۔وہ میرے پیچھے آرہا تھا اور جب ہی مجھے تم دکھ گئے پھر میں نے تم سے مدد مانگی۔
وہ اسے تفصیل سے بتانے لگی۔
کساء تم نے سمجھداری سے خود کو بچا لیا آگر تم اس کے ہتھے چڑھ جاتی نہ تو پھر تمہیں پتا چلتا۔
رجب نے اس کی بات پر گہرا سانس لیتے کہا۔
او ہو میں یہاں اتنا ڈری ہوئی ہوں تم اور مجھے ڈرا رہے ہو
کساء نے برا سا منہ بنایا تھا اتنی دیر میں کساء کا گھر بھی آگیا۔کساء بائیک سے اتر کر گھر کی طرف بڑھ گئی۔
کساء۔
رجب نے اسے آواز دی تو اس نے مڑ کر دیکھا۔
اکیلے مت آنا کل میرا انتظار کرنا۔
وہ سنجیدگی سے بولا تو کساء مسکراکے اثبات میں سر ہلاتی اندر کی جانب چلی گئی۔
@@@@@
وہ کساء کو چھوڑ کر اپنے گھر جانے لگا ،آج وہ مطمئن تھا خوش تھا۔اس کے بابا کا دبئی میں اپنا بزنس تھا مگر اسے بزنس میں انٹرسٹ نہیں تھا۔وہ انجینئر بننا چاہتا تھا اور اسی لئے وہ سخت محنت بھی کررہا تھا۔گھر کے دروازے پر بائیک کھڑی کرکے وہ چابی گھماتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔باپ تو دبئی میں رہتا تھا یہاں بس وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا لیکن اسے کیا پتا تھا آج گھر پر کونسی قیامت اس کی منتظر تھی ۔وہ اپنی ماں کو ڈھونڈتا ان کے کمرے کی طرف گیا اور جیسے ہی اس نے کمرے کا دروازا کھولا ،سامنے کا منظر دیکھ اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔اس کی ماں اس کے سگے چاچو کی بانہوں میں سورہی تھی۔اسے دیکھ کر ہی وہ ہڑبڑاکے اٹھے ،اس کی ماں نے صفائی دینے کے لئے کچھ بولنا چاہا مگر وہ تیزی سے گھر سے نکل گیا،اس کی آنکھیں دھندلا گئی تھیں،اس کی ماں نے اسے اور اس کے باپ دونوں کو دھوکا دیا تھا ،وہ بائیک پر بیٹھا اور تیزی سے وہاں سے نکل گیا ،اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ،دماغ میں جیسے ہتھوڑے لگ رہے تھے ،بار بار آنکھوں میں وہ ناقابل بیان منظر گھوم رہا تھا،اس نے روڈ پر آکے بائیک روک دی ،اس کا دماغ مفلوج ہوگیا تھا،اس سے پہلے وہ مزید کچھ سوچتا اس نے دیکھا سامنے سے بڑا سا ٹرک آرہا تھا وہ پھر کچھ سمجھ نہ سکا۔ٹرک اسے ٹکر مارتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا جب کہ روڈ کے کنارے پر پڑا اس کا وجود بے جان سا ہوگیا۔
@@@@@
وہ اسکول کے باہر کھڑی کب سے اس کا انتظار کررہی تھی مگر وہ نہیں آیا ،اس نے کہا تھا آنے کا اور اس کے ارادے میں اتنی پختگی تھی کہ وہ مجبور ہوگئی انتظار کرنے پر۔وہ ایک گھنٹہ اس کا انتظار کرتی رہی ،ہر جگہ بالکل سناٹا ہوگیا تھا بلآخر وہ ہمت کرکے خود چلنے لگی۔اسے بہت ڈر لگ رہا تھا ،دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ،تھوڑی دور آکے ہی اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے پیچھے چل رہا ہو،اس کے کان میں رجب کا جملہ ٹکرایا۔آگر وہ ان کے ہتھے چڑھ گئی تو۔آگے کا سوچ کر ہی اس کو جھرجھری آگئی۔اب وہ کیاکرتی اتنے سناٹے میں آج کوئی مدد کے لئے دکھ بھی نہیں رہا تھا۔اس نے مڑ کر پیچھے آنے والے شخص کو دیکھا اور پھر اس کی سانسیں ایکدم تھم گئیں۔
بابا۔
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا ،آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ،وہ ان کے سینے سے لگ گئی۔
بیٹا کب سے آوازدے رہا ہوں تم سن کیوں نہیں رہیں اور اتنی تیز تیز کیوں بھاگ رہی تھیں؟
فرقان نے پریشانی سے پوچھا۔
بابا مجھے لگا کوئی اور ہے۔
اس نے شرمندگی سے جواب دیا۔
چلو آئو گاڑی میں بیٹھو۔
وہ اس کو اشارہ کرتے گاڑی کی جانب بڑھے تو وہ بھی ان کے پیچھے سر جھکا کے چل دی ،آج اس نے رجب کو بہت کوسا تھا مگر وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ بیچارہ زندگی سے ہار کرکومہ میں چلاگیا تھا۔
@@@@@
اس کے ہاتھ میں دھیرے سے حرکت ہوئی تھی ،ایسا لگا جیسے صدیوں بعد وہ ہلا ہو ،صدیوں نہ سہی مگر سالوں بعد اس کے جسم میں حرکت ہوئی تھی ،پورے پانچ سال گزارے تھے اس نے کومہ میں ،ہوسپٹل کے بیڈ پر ،مشینوں کے سہارے ،اس کے جسم میں حرکت ہوتی دیکھ نرس بھاگتی ہوئی ڈاکٹر کو اطلاع دینے چلی گئی،اس نے آنکھیں کھولیں پھر زندگی کو محسوس کیا ،ایسا لگا وہ گہری کھائی سے واپس آیا ہو ،اسے سر گھماتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔تھوڑی دیر بعد ڈاکٹرز کے ہمراہ اس کی ماں اور چچا کمرے میں داخل ہوئے ،ان دونوں کو ساتھ دیکھ اس نے گردن نیچے کو ڈھلکا لی ،وہ ان سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا ،تھوڑی دیر اس کا انتظار کرنے کے بعد وہ کمرے سے نکل گئے ،ڈاکٹرز نے اس کے باپ کو کال کرکے اطلاع دی تو کچھ دیر بعد اس کے باپ کا بھیجا ہوا آدمی یاور اسے اپنے ہمراہ ایک اپارٹمنٹ میں لے گیا۔وہ جب سے ہوش میں آیا تھا اس نے کسی سے بات نہیں کی تھی ،وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا ,وہ خود سے ہی روٹھ گیا تھا۔یاور اس کے ساتھ ہی اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا،اکثر اوقات وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا مگر وہ کوئی جواب نہ دیتا۔اس کا باپ دبئی میں مقیم تھا ،وہ اکثر وڈیو کال کرکے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا مگر رجب نے اس سے بھی بات نہیں کی تھی ،یاور کی زبانی ہی اسے پتا چلا تھا کہ اس کی ماں نے اس کے باپ سے طلاق لے لی تھی اور اس کے چچا سے شادی کرلی تھی۔اسے اپنی ماں باپ چچا سب سے حد درجے کی نفرت تھی ،وہ خود سے بھی بیزار تھا۔اس کی بیزاریت دیکھتے یاور نے اس کا کالج فرسٹ ائیر میں داخلہ کرادیا۔اس کے میٹرک کے نتائج اتنے زبردست تھے کہ کالج والوں نے فورا اسے ایڈمیشن دے دیا تھا۔اس نے بھی منع نہیں کیا بس خاموشی سے کالج جانا شروع کردیا ویسے بھی اس کے پانچ سال ضائع ہوگئے تھے وہ مزید خود کو برباد نہیں کرسکتا تھا۔وہ اکیس برس کا تھا ،یاور اس سے آٹھ نو سال بڑا تھا مگر حرکتیں وہ بالکل بچکانہ کرتا تھا۔اس کے چہرے کو دیکھ لگتا نہیں تھا کہ اس نے کوئی غم دیکھا ہو حالانکہ اس کے مقابلے میں رجب خاصہ سنجیدہ اور کم گو تھا یہی وجہ تھی کہ یاور کے بہت کوشش کرنے کے باوجود بھی رجب کی اس سے دوستی نہیں ہوئی تھی۔رجب نے کالج جانا شروع کردیا تھا مگر اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں تھا وہ ٹاپ کرنے والا بندہ اب بس پاسنگ مارکس ہی لے پاتا تھا۔کلاس میں بھی وہ اسٹوڈنٹس سے عمر میں بڑا تھا اس لئے سب سے الگ تھلگ آخری بینچ پر بیٹھ جاتا۔وہ کالج جاتا پھر کالج سے آکے سارا دن تنہا گزارتا رات میں تھوڑی دیر کے لئے وہ جم چلا جاتا تھا۔یاور صبح ناشتہ بناکے اسے پیش کرتا اور پھر اس کے ساتھ ہی روانہ ہوجاتا۔رات میں وہ باہر سے کھانا لے کر گھر آتا جسے وہ دونوں خاموشی سے کھاکے اپنے کمرے میں چلے جاتے۔یاور نے بھی اب اس سے بات کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دی تھی ،وہ اپنی جاب کررہا تھا جس کے لئے اسے رجب کے باپ نے ہائیر کیا تھا۔ان تک یہ بات پہنچ گئی تھی کہ رجب کا ایکسیڈنٹ کس وجہ سے ہوا تھا اسی لئے انہوں نے پہلے سے ہی اس کے الگ رہنے کا انتظام کردیا تھا۔جیسے تیسے کرکے اس نے فرسٹ ائیر پاس کیا اور پھر سیکنڈ ائیر کے ایگزیمز سے دو ماہ پہلے اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔
@@@@@
مسٹر فرقان میں آپ کو ہر گز چھٹی نہیں دے سکتا ،اسٹوڈنٹس کا بہت لوز ہو جائے گا ،ایم سوری !!!
کالج کے پرنسپل نے ان کی درخواست کو مسترد کردیا ،فرقان کو دو ماہ کی چھٹی چاہئیے تھی وجہ ان کا گلے کا آپریشن تھا جس کے بعد ریکوور ہونے کے لئے انہیں دو ماہ لگتے۔
سر میری مجبوری ہے کچھ خیال کریں میں اتنے سالوں سے اس کالج میں پڑھارہا ہوں آپ نے آج ایکدم سے ہی بول دیا کہ مجھے اپنے آپریشن کے لئے ریزائن کرنا ہوگا۔
فرقان سر تاسف سے پرنسپل کو دیکھنے لگے۔
میری مجبوری ہے فرقان تم جانتے ہو میں دو ماہ کے لئے کسی ٹیچر کو ہائیر نہیں کرسکتا۔دو ماہ بعد تم واپس آئوگے تو میں اس کو کہاں شفٹ کروں گا حالانکہ میرے پاس ہر ڈیپارٹمنٹ فل ہے۔یہ اس نئے ٹیچر کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
پرنسپل نے انہیں اپنی مجبوری سے آگاہ کیا۔
ایک حل ہوسکتا ہے !!!
فرقان سر کی خاموشی دیکھ وہ اگلے پل بولے۔
کیسا حل؟
فرقان نے تجسس سے پوچھا۔
تم اپنی جگہ اپنی بیٹی کو ایز آ انگلش ٹیچر دو ماہ کے لئے کالج بھیج دو ،وہ ماشااللہ سے ذہین لڑکی ہے ،یونی کی ٹاپر ہے ،مجھے امید ہے وہ تمہارا کام اچھے سے سنبھال لے گی اور یہ بات کالج سے باہر بھی نہیں جائے گی۔
پرنسپل پرسنلی فرقان کو اور ان کی بیٹی کو جانتے تھے اس لئے انہیں مشورہ دینے لگے۔
مگر سر ابھی تو میری بیٹی کا گریجویشن بھی مکمل نہیں ہوا وہ کالج میں کیسے پڑھا سکتی ہے؟
فرقان نے تعجب سے پوچھا۔
وہ یونیورسٹی کے آخری سال میں ہے ،ڈگری تو اسے مل جائے گی مگر مجھے اس کی قابلیت پر بھروسہ ہے ،وہ میری اسٹوڈنٹ رہ چکی ہے ،دو ماہ کی بات ہے وہ تمہارے خاطر مینج کرلے گی تو اچھا ہے تم مجھے اس سے پوچھ کے بتادو۔
پرنسپل کی بات سن کر سر فرقان آفس سے نکل گئے تھے۔
@@@@@
وہ آخری بینچ پر بیٹھا ہوا تھا ،گم صم سب سے بے نیاز ،اس کے ہاتھ میں پین تھا جسے آدھا اس نے منہ میں ڈالا ہوا تھا۔کلاس میں چہل پہل تھی اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ آج انگلش کی نیو ٹیچر آرہی تھیں۔تھوڑی دیر بعد ہی سارا شور تھم گیا۔ایک لمبی اور متناسب سراپے والی لڑکی پرنسپل کے ہمراہ اعتماد سے کلاس میں داخل ہوئی ،رجب نے سر اٹھاکے اسے دیکھا اور پھر اس کی نظریں ٹھہر گئیں۔یہ چہرہ بہت شناسا تھا۔
"اسٹوڈنٹس یہ آپ کی نیو انگلش ٹیچر ہیں ،مس کساء فرقان ،انہوں نے ایم اے انگلش کیا ہے اور مجھے امید ہے اپنی قابلیت سے یہ آپ لوگوں کو بھی اپنی طرح بنالیں گی"
پرنسپل نے بچوں کے سامنے اس کی جھوٹی کوالیفیکشن ظاہر کی تو وہ شرمندہ سی ہوگئی جب کہ رجب جو پہلے ہی اسے یہاں دیکھ حیران تھا پرنسپل کی بات سن مزید حیران ہوا۔چھ سال پہلے وہ نائنتھ میں تھی تو اس حساب سے اسے یونیورسٹی کے لاسٹ ائیر میں ہونا چاہئیے تھے۔آگر وہ بھی اپنی عمر کے حساب سے تعلیم مکمل کررہا ہوتا تو وہ گریجویشن کرچکا ہوتا ،اس وقت کساء اس سے ایک سال پیچھے تھی یعنی اس کا اندازہ ٹھیک تھا پرنسپل جھوٹ بول رہے تھے ،اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔کساء نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا تھا اور پتا نہیں دیکھ کہ پہچان بھی پاتی یا نہیں۔
پرنسپل کلاس سے گئے تو مس کساء سب اسٹوڈنٹس کا انٹرو لینے لگیں،بلآخر لاسٹ بینچ پر بیٹھے شخص کی باری آئی جس نے اپنا چہرہ کتاب میں چھپایا ہوا تھا۔
"بیٹا آپ کا نام کیا ہے ؟"
اس نے لہجے کو سنجیدہ کرتے ہوئے پوچھا،یہاں اسے خود کو عمر سے بڑا شو کرنا تھا۔
"رجب"
اس کی سماعتوں سے آواز ٹکرائی اور پھر جیسے ہی اس لڑکے نے چہرے کے آگے سے کتاب ہٹائی وہ چونک گئی ،اس لڑکے کو وہ جانتی تھی۔وہ حیران پریشان رہ گئی۔رجب سیکنڈ ائیر میں کیا کررہا تھا۔
مس آپ اس کو بیٹا نہ بولیں ،وہ آپ کے بڑے بھائی کی عمر کا ہے۔
کسی شوخے اسٹوڈنٹ نے مذاقیہ کہا تھا۔کساء نے گھوری سے اسے نوازا اور پھر کشمکش کا شکار ہوکے بورڈ پر کچھ لکھنے لگی۔اس نے پورا پیریڈ غائب دماغی سے گزارا تھا۔
@@@@@
وہ اسٹاف روم سے نکل کر کینٹین کی جانب گئی مگر اسے مطلوبہ شخص نہ ملا ،اس نے گارڈن کا رخ کیا مگر وہ وہاں بھی نہیں تھا ،وہ کلاسز کی طرف گئی جہاں وہ اسے ایک کلاس میں اکیلا بیٹھا دکھا۔
سنو!!!
اس نے اجنبیت سے اسے پکارا،چھ سال پہلے اس کے وعدہ توڑنے پر وہ سخت خفا تھی مگر وہ رجب کو یہاں دیکھ بہت حیران تھی اسی لئے اسے ڈھونڈتی چلی آئی۔اس کی بات سن رجب نے اس کی طرف دیکھا اور پھر بے نیازی سے بھنوئیں اچکائے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
ویسے تو تم جیسے دھوکے باز سے میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی مگر میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ تم میرے سینئر تھے یہاں کیا کررہے ہو؟
وہ سینے پر ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑی ہوگئی۔رجب نے آنکھیں وا کئے اسے دیکھا۔وہ گلابی رنگ کی لانگ فراک پہنی ہوئی تھی۔بال جوڑے میں مقید تھے ،دوپٹہ بہت سلیقے سے شانوں پر پھیلا ہوا تھا۔
"کیوں میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ میری جونئیر ہوکے بھی یہاں ایز آ ٹیچر کیسے ہیں؟"
رجب نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے پلٹ کر اس سے سوال کیاوہ چپ ہوگئی ،وہ اس کی حالت سے خوب محفوظ ہوا۔
دیکھو یہ ایک راز ہے تمہارے اور میرے بیچ کسی اور کو یہ پتا نہیں چلنا چاہئیے۔
کساء نے اسے آنکھیں دکھائے جتایا۔
تو پھر اس بات کو بھی راز رہنے دو نہ کہ میں تمہارا سینئر ہونے کے باوجود یہاں کیا کررہا ہوں۔وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس سے پتا نہیں کیوں بحث کررہا تھا۔
تمہارے ساتھ جو بھی ہوا اچھا ہوا ،تم جیسے دھوکے باز کے ساتھ یہی ہونا چاہئے ،اس دن آگر تمہارا انتظار کرتے میں کسی غلط انسان کے ہاتھ لگ جاتی تو؟
وہ اسے غصے سے بول کر پلٹ گئی۔اس کے ایکشن دیکھ کساء تپ گئی تھی۔
میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
وہ کلاس روم سے نکلنے والی تھی جب اس کی آواز سن کر اس کے قدم تھمے۔اس نے پلٹ کر رجب کو دیکھا۔آنکھوں میں حیرانگی واضح تھی۔
میں پانچ سال کومہ میں رہا۔
اس نے کتنے عرصے بعد یوں کھل کر اپنا دکھ بیان کیا تھا۔ورنہ وہ تو کچھ بولتا کہاں تھا۔
اووو مائی گاڈ سو سوری میں نے تمہیں غلط سمجھا۔
کساء فورا سے شرمندہ ہوئی۔
اٹس اوکے بس خیال رکھئے گا ہم دونوں کے جو راز ایک دوسرے کے پاس ہیں وہ راز ہی رہیں باقی آپ میری ٹیچر ہیں اور میں آپ کا اسٹوڈنٹ۔
وہ اس کے سامنے کھڑا ہوکے سنجیدگی سے بولا،وہ لمبا چوڑا ورزشی جسم کا مالک تھا ،کساء اس کے سامنے چھپ سی گئی ،وہ اسے آگاہ کرتا کلاس روم سے باہر نکل گیا جب کہ وہ کافی دیر تک وہیں کھڑی کچھ سوچتی رہی۔
جاری ہے۔
0 Comments
Post a Comment