زیادتی 

قسط نمبر 6

 

ہیر نے جیسے ہی یشب کو اپنی طرف آتے دیکھا وہ فورا واپسی کے لیے بھاگی۔۔۔۔

ہیر لسن۔۔۔۔۔رکو بات سنو۔۔۔۔یشب چلاتا ہوا جب تک وہاں پہنچا وہ درختوں کے جھرمٹ میں گم ہو چکی تھی

"اے خوبصورت چڑیل" وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا کر پوری قوت سے چلایا

ایک بار۔۔۔۔دو بار۔۔۔۔کئی بار۔۔۔۔۔مگر ہیر وہاں ہوتی تو سنتی

شٹ۔۔۔۔۔۔۔یشب نے درخت پر مکا جڑا

اور چند منٹ انتظار کے بعد مایوس سا واپس لوٹ گیا

""چلو ہم مان لیتے ہیں

تمہیں ہم کھو چکے لیکن

تمہاری یاد اب تک بھی

ہمیں بے تاب رکھتی ہے

ہماری سانس اب تک بھی 

تمہاری آس رکھتی ہے""

…………………………………………………

ہیر نے اپنی دوڑ کو بریک حویلی میں آ کر لگائی تھی

ارے لڑکی کیا ہوا۔۔۔سانس کیوں پھولا ہوا ہے۔۔۔۔کہاں تھی تم۔۔۔۔۔۔؟؟خدیجہ نے ایک ساتھ اتنے سوال پوچھے

پا۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل بول پائی

رحیمہ پانی دو اسے۔۔۔۔۔

رحمیہ بوتل کے جن کی طرح پانی لیے حاضر ہوئی

ہیر نے دل پر ہاتھ رکھا اور ایک ہی سانس میں پانی ختم کیا

کہاں تھی۔۔۔۔۔خدیجہ نے کڑی نظروں سے ہیر کو دیکھا

باغ میں۔۔۔۔۔

وہاں ایسا کیا دیکھ لیا بی بی جی۔۔۔۔رحیمہ نے بتیسی نکال کر پوچھا

بھوت۔۔۔۔۔

ہائے سچ میں ہیر بی بی بھوت تھا وہاں۔۔۔

ہیر نے اسے ایک گھوری دی اور اٹھ کر اماں کے پاس آ بیٹھی

کیا کرنے گئی تھی باغ میں وہ بھی بنا اجازت۔۔۔۔وہ خفا ہوئیں

اماں کل ہوسٹل چلی جاؤں گی میں خفا مت ہوں۔۔۔۔بس دل چاہ ریا تھا اس لیے ٹہلنے کو گئی تھی۔۔۔۔اس نے نظریں چراتے ہوئے جھوٹ بولا

ہیر کبھی بھی کوئی بھی کام ماں باپ کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے ہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں۔۔۔

اچھا ناں اماں سوری آئندہ ایسا نہیں ہو گا سچ میں۔۔۔۔۔ہیر نے لاڈ سے انکے گلے میں بانہیں ڈالیں

اچھا ٹھیک ہے جاؤ اپنی چچیوں سے مل آؤ۔۔۔پھر شکوہ کریں گیں کے تم مل کر نہیں گئی

اوکے مسز دلاور خان جو حکم۔۔۔۔اس نے سر خم کرتے ماں کو چھیڑا

چل جا مسخری نہ ہو تو۔۔۔۔وہ مسکرائیں

ہیر کھلکھلاتی ہوئی باہر نکلی کہ سامنے سے آتے شمس سے ٹکرا گئی

کیا ہے لالہ دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا۔۔۔وہ ناک پکڑے چلائی

زیادہ لگ گئی کیا۔۔۔؟؟وہ فکرمند ہوا

نہیں بس تھوڑی سی وہ ناک سہلاتی بولی

کس اسٹیشن پر پہنچنے کی جلدی تھی تمہیں۔۔۔۔؟؟

اسی اسٹیشن پر جس اسٹیشن پر آپ کو بھی جانے کی جلدی ہوتی ہے  

بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔شمس نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کھینچی

شکریہ نوازش۔۔۔۔اب بتائیں کوئی پیغام دینا ہے تو۔۔۔؟؟

ہیر۔۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔۔۔

ہاہاہا۔۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنسی

میں کہوں گی کہ بھابھی آپ کو لالہ پیچھلے باغ میں بلا رہے ہیں کیسا۔۔۔؟؟

شمس اسکی بات پر مسکرایا

شرافت سے جاؤ اور مل کر واپس آؤ خبردار اگر کوئی ہوشیاری دیکھائی تو۔۔۔

ارے کیا ہے لالہ مل لیں چند ماہ بعد تو وہ بذات خود یہاں موجود ہوں گی مسز شمس دلاور خان بن کر اس لیے میری مانیں تو ان دنوں میں چھپ چھپ کر ملنے کو انجوائے کریں۔۔۔وہ رازداری سے بولی

اپنے قیمتی مشورے خود تک محدور رکھو اور کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کی تو سزا بھی برابر ملے گی سمجھی۔۔۔

اونہہ۔۔۔انتہائی بور ہیں آپ تو ناجانے پروشہ (چچا زاد) بھرجائی کا کیا ہو گا۔۔۔وہ افسوس سے سر پر ہاتھ مارتی آگے بڑھ گئی

شمس اسکی اداکاری پر مسکراتا ہوا سیڑھیاں پھلانگ گیا

………………………………………………………

اگلے روز یشب اسلام آباد کے لیے اور اسلام آباد سے لندن کے لیے فلائی کر گیا تھا

یشب نے ہیر دلاور خان کو اسکی باتوں سمیت ایک اچھی یاد سمجھ کر دل میں سنبھال لیا تھا

دوسری طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیر پشاور آ چکی تھی ہاسٹل میں۔۔۔۔دلاور خان نے اسکا ایڈمیشن پشاور یونیورسٹی میں کروایا تھا۔۔

اس نے بھی یشب آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر سائیڈ پر کر دیا تھا وہ یہاں پڑھنے آئی تھی اور پوری دلجمعی سے صرف پڑھنا ہی چاہتی تھی۔۔ویسے بھی اسکی تربیت جس انداز میں کی گئی تھی اس کے مطابق کسی بھی غیر مرد کو سوچنا اسکے لیے عبث تھا۔۔۔لہذا اس نے بھی یشب کو مزید یاد کرنا مناسب نہ سمجھا تھا کیونکہ وہ قسمت پر یقین رکھنے والی لڑکی تھی جو مل گیا اسی کو صبر و شکر کیساتھ قبول کر لیا۔۔۔

یوں وقت کے ساتھ ساتھ ہیر یشب کے لیے اور یشب ہیر کے لیے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے تھے

""کون کہتا ہے مٹ جاتی ہے دوری سے محبت

ملنے والے تو خیالوں میں بھی ملا کرتے ہیں""

……………………………………………………………

 چھ سال بعد۔۔۔۔۔۔پورے چھ سال بعد پھر سے ہیر دلاور خان کا نام یشب کے اردگرد گونجا تھا

جب نکاح خواہ بلند آواز میں ہیر دلاور ولد دلاور خان کے نام پر اسکی رضامندی لے رہا تھا ۔۔۔وہ اس نام پر ساکت تھا۔۔۔۔برسوں بعد یہ نام سن کر یشب کے سوئے ہوئے جذبات نے بھرپور انگڑائی لی تھی۔۔ 

اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہیر اسی شمس خان کی بہن ہے جس نے یشار لالہ کا قتل کیا تھا۔۔۔۔وہ اسی کشمکش میں تھا۔۔۔۔۔جب بابا جان نے یشب کا کندھا ہلایا 

سائن کرو دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔

یشب نے ناسمجھی سے خاقان آفریدی کیطرف دیکھا اور پین پکڑ کر دھڑا دھڑ سائن کر دیے۔۔۔۔۔

نکاح کے بعد وہ غائب دماغی سے پجارو دوڑاتا ہوا حویلی پہنچا تھا

مگر اب جھٹکا لگنے کی باری ہیر کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔جب اس نے اپنی نم آنکھوں سے سامنے یشب آفریدی کو غصے سے چلاتے دیکھا تھا

جو اسے ،اسکے گھر والوں ، اسکے لالہ کو برا بھلا کہتے ہوئے کف اڑا رہا تھا

نکاح کے وقت تو ہیر سن دماغ لیے بیٹھی تھی جس میں صرف ایک ہی بات گونج رہی تھی کہ وہ وہاں کی روایات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔۔۔۔اسے ونی کر دیا گیا ہے۔۔۔وہ بےقصور ماری گئی ہے۔۔۔۔اور اب سامنے یشب آفریدی کو دیکھ کر اسکا دماغ پھر سے سن ہو چکا تھا

ہیر نے آنکھوں میں آئی نمی ہاتھ سے صاف کر کے پھر سے ایک بار دیکھا کہ شاید اسکی نظر کا دھوکا ہو مگر نہیں سامنے وہی ینگ سا ہیرو اب ایک مکمل مرد کی صورت میں موجود تھا

تب کے یشب میں اور اب کے یشب میں بہت فرق تھا

تب وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا اور اب وہ غصے سے بھرا اس پر چلا رہا تھا

وہ مزید کچھ سوچتی کہ یشب نے پاس آ کر جھٹکے سے اسکی گردن دبوچی

میں ابھی اسکا قصہ تمام کر کے یہ حساب برابر کر دوں گا۔۔۔وہ ہیر کی گردن دبوچ کر چیخا تھا

یشب کے اس ردعمل پر ہیر کے اندر رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔دل میں موجود یشب آفریدی کی دھندلائی ہوئی شبیہہ مزید دھندلا گئی تھی۔۔۔۔ یہ وہ یشب نہیں ہے۔۔۔ اسکے دل میں ابھرتی مدھم سی سرگوشی نے اسکی آنکھوں دیکھے کو جھٹلایا تھا 

اسی وقت خاقان آفریدی نے بیچ میں آ کر یشب کے ہاتھ ہیر کی گردن پر سے ہٹوائے تھے

وہ ایک خون آلود نظر ہیر کی کاجل پھیلی آنکھوں میں گاڑتا ہال سے نکل گیا تھا 

پیچھے ہیر قسمت کی اس ستم ضریفی پر ساکت تھی

…………………………………………………

یشب۔۔۔۔۔ہیر کو اپنے کمرے سے نکال کر تہہ خانے چھوڑ آیا تھا

وہ ہیر کو دیکھ کر ڈر چکا تھا۔۔۔۔وہ ڈر چکا تھا کہ کہیں اسکا دل پھر سے اسکے ساتھ دغا نہ کر جائے۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہیر کی صورت اسے وہ سب بھلا دینے پر مجبور کر دے جو وہ بھولنا نہیں چاہتا 

وہ خون بہا میں آئی صرف ایک خونی کی بہن تھی۔۔۔جو وہاں سزا بھگتنے آئی تھی اور بس۔۔۔۔وہ خود کو باور کروا چکا تھا

ہیر کو بیسمنٹ میں بند ایک ہفتہ ہو چکا تھا جب مہرو یشب کے کمرے میں آئی تھی

یشب مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

جی بھابھی بیٹھیں۔۔۔۔۔یشب کتاب ٹیبل پر رکھ کر اسکی طرف آیا

مہرو اسکے سامنے صوفے پر ٹک گئی

کیا یہ ہیر وہی ہیر ہے جو تمہیں چھ سال پہلے ملی تھی جھیل پر۔۔۔۔؟؟

یشب نے حیرانگی سے مہرو کو دیکھا

ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔جو پوچھا ہے اسکا جواب دو

جی۔۔۔۔۔یشب نے سر جھکا کر اقرار کیا

تو پھر بھی تم اسے تہہ خانے میں چھوڑ آئے ہو

اس کا اصل ٹھکانہ وہی ہے۔۔

اسکا اصل ٹھکانہ کہاں ہے اپنے دل سے پوچھو۔۔

بھابھی پلیز۔۔۔۔وہ سب میری ٹین ایج کی فیلنگز تھیں اب ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔

کیا واقعی ایسا ہی ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے آنکھیں اچکائیں

آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں صاف صاف کہیں۔۔۔۔

میں بس اتنا کہنا چاہ رہی ہوں کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس میں ہیر کا کوئی قصور نہیں اسلیے یشار کے خون کی سزا اسے مت دو۔۔۔وہ رسان سے بولی

وہ یہاں سزا بھگتنے ہی آئی ہے بھابھی۔۔۔

کس جرم کی۔۔۔۔؟؟؟

وہ لاجواب ہوا۔۔۔

دیکھو یشب تم ایک پڑھے لکھے انسان ہو۔۔تمہارے منہ سے ایسی جہالت آمیز گفتگو جچتی نہیں ہے۔۔۔۔جو کچھ ہو چکا وہ سب قسمت میں تھا۔۔۔یشار اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے۔۔۔۔شمس خان تو صرف ان کی موت کی وجہ بنا ہے۔۔۔وہ نہ بنتا تو کوئی اور وجہ بن جاتی۔۔۔۔جانا تو تب ہی ہوتا ہے جب بلاوا 

آ جاتا ہے۔۔۔۔

موت برحق ہے یشب آج نہیں تو کل ہم سب کو چلے جانا ہے۔۔۔پھر یہ لڑائی جھگڑے۔۔۔خون۔۔۔۔قتل۔۔۔۔۔بدلے۔۔۔۔اس سب سے کیا حاصل۔۔۔۔۔؟؟

بھابھی آپ۔۔۔۔

یشب میں جانتی ہوں تم میری بہت عزت کرتے ہو۔۔۔۔میری ہر بات بلاتردود مانتے ہو۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب بھی میری ایک بات مان کر میرا مان رکھ لو یشب۔۔۔۔۔

یشب نے سوالیہ نظروں سے مہرو کو دیکھا

ہیر کو اس قید سے نکال کر اپنے کمرے میں لے آؤ۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی

جیسے بھی سہی اب وہ بیوی ہے تمہاری۔۔۔تم نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس کیساتھ نکاح جیسا پاکیزہ رشتہ جوڑا ہے۔۔۔اس لیے اس رشتے کی بے حرمتی مت کرو۔۔۔۔

کسی اور ناطے نہ سہی تو مجھے اپنے بھائی کی بیوہ سمجھ کر ہی۔۔۔۔

بھابھی پلیز ایسا مت کہیں۔۔۔۔آپ اچھی طرح جانتی ہیں آپ میرے لیے کیا ہیں۔۔۔

میں آپکی کوئی بات نہیں ٹالتا ہوں اس لیے یہ بھی نہیں ٹالوں گا مگر بھابھی اس سے آگے مزید کچھ اور نہیں۔۔۔۔۔

میں ماضی کو بھول چکا ہوں۔۔۔۔اس لیے دوبارہ یاد کرنے کی بھی کوئی خواہش نہیں ہے مجھے۔۔۔

تم نے میرا مان رکھ لیا اتنا کافی ہے میرے لیے۔۔۔۔اس سے آگے تم جو چاہو کرو۔۔۔مگر یہ بات مت بھولنا کہ ہیر بے قصور ہے۔۔۔مہرو نے آہستگی سے باور کروایا

ہوں۔۔۔۔یشب نے پرسوچ انداز میں سانس خارج کر کے بات ختم کی۔

مہرو سے وعدے کے دو دن بعد وہ ہیر کو اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔۔۔۔مگر دل فلحال اسے بے قصور ماننے کو راضی نہ تھا۔۔۔اسی لیے یشب نے ہیر کیساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں برتی تھی۔

""جھوٹی مسکان لیے اپنے غم چھپاتے ہیں

سچی محبت کرنے کی بھی کیا خوب سزا ملی""

………………………………………………………

ہیر کا سارا کانفیڈینس تو اسی دن بھر بھری ریت ہو چکا تھا۔۔۔۔جب اسکو قربانی کے لیے پنچائیت میں پیش کیا گیا تھا۔۔۔

وہ ہمیشہ سے ہی اپنے علاقے کی ان فرسودہ اور ظالمانہ روایات سے بہت نالاں تھی۔۔۔مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دن وہ بھی انہیں ظالمانہ روایات کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔۔۔۔اور اسے بلی چڑھانے والے اسکے اپنے سگے رشتے ہوں گے۔۔۔۔

نکاح کے بعد جب وہ اپنے بھاری قدم گھسیٹتی آفریدی حویلی میں داخل ہوئی تھی تو وہ ایک نئی ہیر بن چکی تھی جو ڈرپوک بھی تھی اور بزدل بھی تھی۔۔۔۔مگر اب بہادر نہ رہی تھی۔۔۔۔کیونکہ اب اسے ساری زندگی اپنے لالہ کی غلطی کی سزا جو بھگتنی تھی۔۔۔

………………………………………………………… 

وہ بھی ویسا ہی دن تھا۔۔۔جیسے دن کو ہیر باغ اور جھیل کنارے جا کر انجوائے کرتی تھی۔۔۔سردیاں جا رہی تھیں اور گرمیوں کی آمد تھی۔۔

انہی دنوں کے پرسوز لطف کو محسوس کرنے وہ ٹیرس پر آئی تھی۔۔۔مگر اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔۔نہ تو دل میں کوئی خوشی تھی اور نہ ہی کوئی امنگ۔۔۔

اس لیے وہ انجوائے کرنے کی بجائے وہاں بیٹھ کر ماضی میں گزرے ایسے ہی دنوں کو یاد کرنے لگی۔۔اسے چھ سال پہلے کا وہ دن پوری جزئیات سے یاد تھا جب وہ ایسے ہی موسم کا لطف لینے جھیل گئی تھی جہاں اسے پہلی دفعہ یشب خان آفریدی ملا تھا۔۔۔

ہیر کو اس دن کی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔۔۔وہ اپنی اور یشب کی کہی ہر بات کو اپنی زبان سے دہرا کر تازہ کر رہی تھی۔۔۔۔وہ ماضی میں بھٹکتی اور ناجانے کیا کچھ سوچتی کہ مؤذن کی آواز پر حال میں لوٹی۔۔۔۔

اوہ۔۔ہ۔۔مغرب بھی ہو گئی اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھی

ہیر نے مغرب کی نماز پڑھ کر جیسے ہی دعا کے بعد ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر ہٹائے اسکی نظر بیڈ پر بیٹھے یشب پر پڑی

اردوناول کہانیاں 

جسکے بازو پر بندھی پٹی دیکھ کر وہ ناجانے کس جذبے کے تحت بےچین ہوتی جلدی سے اس کے پاس پہنچی 

یہ۔۔۔یہ کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔؟؟وہ فکرمندی سے پوچھتی بیڈ پر یشب کے سامنے بیٹھی

کچھ نہیں۔۔۔۔

یہ پٹی کیوں بندھی ہے اور یہ خون۔۔۔

کہا ہے ناں کچھ نہیں ہوا۔۔۔وہ چڑ کر بولا

یشب یہ۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ کو چوٹ کیسے آئی۔۔۔۔مجھے بتائیں ناں یشب۔۔۔۔۔ایک آنسو چپکے سے ہیر کی آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلا

وہ رو رہی تھی اس شخص کے لیے جو ماضی میں کبھی اسے اچھا لگا تھا۔۔۔جسے بھلا کر بھی وہ بھول نہیں پائی تھی۔۔۔۔

جس نے اسے صرف اور صرف ایک خونی کی بہن سمجھا تھا۔۔۔جس نے اس سے کوئی نرمی نہ برتی تھی پھر بھی وہ اس ظالم شخص کی تکلیف پر رو رہی تھی۔۔ 

یشب نے حیرت سے اس کے آنسو کو دیکھتے ہوئے ہیر کی آنکھوں میں جھانکا

جن میں فکر تھی۔۔۔پریشانی تھی۔۔۔۔تکلیف تھی۔۔۔۔پرواہ تھی اور شاید چاہ بھی تھی۔۔۔۔

یہ وہی آنکھیں تو تھیں جن کو بار بار دیکھنے کی خواہش کی تھی کبھی۔۔۔

اب یہ آنکھیں اسکی اپنی ملکیت تھیں۔۔۔۔وہ ان میں ڈوب جانے کا حق رکھتا تھا۔۔۔۔اور وہ ان کاجل بھرے نینوں میں ڈوب ہی گیا تھا

صرف ایک لمحہ۔۔۔۔ایک لمحہ لگا تھا یشب آفریدی کے جزبات کو اسکی بے نیازی پر حاوی ہونے میں اور وہ سب کچھ بھلا کر ہیر کی ذات میں گم ہوتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

""کیا کشش تھی اسکی آنکھوں میں

مت پوچھو

مجھ سے میرا دل لڑ پڑا

مجھے وہ شخص چاہیے""

…………………………………………………………

******************ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ *********************