زیادتی 

 قسط نمبر 7

قسط مکمل پڑھئے گا

قسط نمبر چار سے آگے


حال 👉👉👉

"ایک لمحے میں کمزور پڑ جانے والا مرد یہ ہے آپکی اصلیت "

یشب کے کانوں میں ہیر کا کہا گیا فقرہ گونج رہا تھا

وہ اسوقت جھیل کنارے بیٹھا ہیر اور اسکی باتوں کو سوچتے ہوئے خود کو ملامت کر رہا تھا

ٹھیک ہی تو کہا تھا اس نے۔۔۔یہی تو ہے میری اصلیت۔۔۔۔۔کیوں میں کمزور پڑ گیا

کیوں جھانکا میں نے ان آنکھوں میں جو مجھے لے ڈوبیں

 اپنے ہی جال میں بہت بری طرح پھنس گیا ہوں میں۔۔۔۔۔اسی لیے تو اسے کمرے سے نکالا تھا میں نے کہ کہیں کمزور نہ پڑ جاؤں۔۔۔اور اب۔۔۔۔۔اب وہ مجھے بات بات پر یہی طعنہ دے گی۔۔۔۔

بے شک وہ بیوی ہے میری ۔۔۔۔میں اس پر حق رکھتا ہوں مگر جو سلوک میں اس کے ساتھ روا رکھ چکا تھا اس کے بعد ایسا کچھ۔۔۔

یشب نے پریشانی سے سر ہاتھوں میں گرایا

دس منٹ بعد وہ مطمعین سا اپنے بکھرے بال سمیٹتا پجارو کی طرف بڑھ گیا جیسے کچھ سوچ چکا ہو۔

…………………………………………………………

اس رات ناصرف یشب کمزور پڑا تھا بلکہ ہیر نے بھی کوئی مزاحمت نہ کی تھی۔۔۔

پر اس رات کے بعد وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرائے ہوئے تھے

 یشب نے ہیر کو مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا تھا نہ کوئی طنز،، نہ طعنہ۔۔۔اور ہیر وہ تو پہلے بھی خود سے مخاطب نہیں کرتی تھی اسے۔۔۔

یوں خاموشی سے چند دن گزرے جب ہیر کو اپنے اندر ہونے والی تبدیلی کا پتہ چلا

وہ بلکل بھی خوش نہیں تھی اس تبدیلی سے بلکہ الٹا چڑچڑی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی یہ بات نہ تو یشب کے لیے خوشی کا باعث ہو گی اور نہ ہی اس حویلی کہ باقی مکینوں کے لیے اس لیے وہ کسی کو بھی بتائے بغیر خاموش ہو گئی تھی۔۔۔

اس دن بھی وہ ماضی کو اور اپنے گھر والوں کو یاد کر کے افسردہ تھی

جب یشب کی ذرا سی بات پر سیخ پا ہوتی اتنے دنوں کی خاموشی کا لاوا اگل گئی ۔۔

یشب اسکی بات کے جواب میں کچھ بھی کہے بنا کمرے سے نکل گیا تھا

اور اب رات کے بارہ بج چکے تھے مگر یشب ابھی تک نہیں لوٹا تھا

ہیر اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔۔۔۔

ایسا کچھ غلط تو نہیں کہا جو اتنی اکڑ ہے کہ واپس ہی نہیں آئے۔۔۔مت آئیں مجھے کیا میں کونسا مری جا رہی ہوں انتظار میں۔۔۔

وہ سر جھٹکتی بیڈ پر آئی

میرا بھی اس بیڈ پر اتنا ہی حق ہے جتنا یشب آفریدی کا۔۔۔۔۔۔پہلے خاموش تھی پر اب نہیں رہوں گی خان صاحب۔۔۔۔ اپنے حق کے لیے لڑوں گی۔۔۔۔۔وہ خود کو تسلی دیتی چادر اوڑھ کر لیٹ گئی

رات کا ناجانے کونسا پہر تھا جب ہیر کی آنکھ کھٹکےکی آواز پر کھلی 

اس نے مندی مندی آنکھوں سے یشب کو صوفے پر لیٹتے دیکھا اور یہ دیکھنا ہی غضب ہو گیا

وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔

صوفے پر لیٹ کر کیا شو کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔یہی کہ میں اب بھی آپ کے لیے اچھوت ہی ہوں۔۔۔۔جس کیساتھ آپ اپنا بستر شئیر نہیں کر سکتے۔۔۔۔

یشب کچھ بھی کہے بنا کروٹ بدل گیا

اونہہ۔۔۔۔۔یوں کہیں ناں کہ اب مجھ سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔۔۔بزدل انسان۔۔۔۔۔وہ بلند آواز سے بڑبڑائی

بزدل نہیں ہوں میں سمجھی۔۔۔۔۔اور جہاں تک نظریں نہ ملانے کا مسلہ ہے تو میں نے ایسا کچھ غلط نہیں کیا کہ تم سے نظریں چراتا پھروں۔۔۔۔اس لیے خاموشی سے سو جاؤ

 مجھے سونے کے لیے آپ کی پرمیشن نہیں چاہیے۔۔۔۔

تو مت سوؤ مگر زبان بند رکھو اپنی مجھے سونا ہے۔۔۔

میری زبان ہے میں کھولوں یا بند رکھوں۔۔۔وہ بدتمیزی سے بولی

مسلہ کیا ہے تمہارا۔۔۔۔وہ غراتا ہوا اسکی طرف آیا

 تحمل سے جواب دے رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر پر چڑھ جاؤ۔۔۔۔اپنی حد مت بھولو تم

بھول چکی ہوں میں سب۔۔۔۔یاد ہے تو بس اتنا کہ میں آپکی بیوی ہوں اور آپ کے بچے۔۔۔۔۔

اسٹاپ دس نان سینس۔۔۔۔یوں چلا کر کیا باور کروانا چاہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔یا پھر یہ سمجھ رہی ہو کہ تمہارا یہ واویلا تمہارے کام آئے گا اور میں تمہاری طرف مائل ہو جاؤں گا۔۔۔۔تو یہ بھول ہے تمہاری ہیر بی بی۔۔۔۔تم میری شرعی بیوی ہو اور میں نے تم سے جائز تعلق بنایا ہے۔۔۔تمہیں کوئی تکلیف ہے تو رہے آئی ڈیم کئیر۔۔۔یشب نے سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا

مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کو اپنی طرف مائل کرنے کا کیونکہ اگر مجھے ایسا کوئی شوق ہوتا تو آپ تین ، چار ماہ بھی خود کو کنٹرول نہیں کر سکتے تھے یشب خان آفریدی 

اور اگر آپ کو کئیر نہیں تو مجھے بھی نہیں ہے سمجھے آپ۔۔۔۔۔میں کل ہی اپنے گھر والوں سے ملنے جاؤں گی اور اگر آپ نے مجھے روکنے کی کوشش کی تو خود بھی سکون سے نہیں بیٹھوں گی اور نہ ہی آپکو بیٹھنے دوں گی۔۔۔ہیر نے دھمکی دی

ناجانے اتنی بہادری اس میں آئی کہاں سے تھی جو وہ ماضی کی نڈر ہیر بن چکی تھی شاید ماں بننے کے جزبے نے ہی اسے اتنی ہمت دی تھی جو وہ یشب کو دوبدو جواب دے رہی تھی۔۔۔

کل کی کل دیکھی جائے گی۔۔۔فلحال بیڈ سے اٹھ کر اپنی جگہ پر جاؤ۔۔۔

کیوں جاؤں۔۔۔۔۔جب تعلق جائز ہے تو پھر آپ کو تکلیف کس چیز کی ہے۔۔۔۔

یشب اسکی بدتمیزی اور بدزبانی پر ٹیمپر لوز کرتا اس پر چڑھ دوڑا

ایک۔۔۔دو۔۔۔۔وہ تیسرا ٹھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ بیچ میں رک گیا

آج کے بعد زبان درازی کی تو سزا اس سے بھی بدتر ہو گی سمجھی اس لیے کسی خوش فہمی میں مت رہنا۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔۔

پیچھے ہیر گھٹنوں میں سر دئیے سسک اٹھی۔۔۔۔وہ تو سمجھی تھی کہ شاید اسکی سزا ختم ہونے جا رہی ہے مگر نہیں وہ غلط سمجھی تھی شاید۔۔۔

"کوئی پوچھے ذرا ان سے

کہ دل جب مر گیا ہو تو،

کیا تدفین جائز ہے ؟

کوئی پوچھے ذرا ان سے

محبت چھوڑ دینے پر،

دلوں کو توڑ دینے پر،

کوئی فتوی نہیں لگتا؟

کوئی پوچھے ذرا ان سے،

محبت اس کو کہتے ہیں؟

جو سب کچھ ختم کرتی ہے،

دلوں کو بھسم کرتی ہے،

اگر یہی محبت ہے !

تو نفرت کس کو کہتے ہیں؟"

……………………………………………………………

بی بی جان مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔ہیر ان کے کمرے میں موجود بات کرنے کی اجازت لے رہی تھی

بولو بچے۔۔۔۔بی بی جان قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹتیں بولیں

بی بی جان میں اپنے گھروالوں سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔

بی بی جان کو وہ کچھ دن سے بدلی بدلی اور نڈر سی محسوس ہو رہی تھی مگر وہ وجہ جاننے سے قاصر تھیں

بچے مجھے تو پہلے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے ۔۔۔۔تم یشب سے اجازت لے لو

وہ نہیں دیں گے اجازت۔۔۔۔اس لیے مجھے صرف آپکی اور باباجان کی اجازت چاہیے بس۔۔۔۔وہ دوٹوک بولی

بیٹھو۔۔۔۔۔بی بی جان نے اسکا انداز دیکھتے ہوئے کہا 

ہیر پاس پڑی چئیر پر ٹک گئی۔۔۔۔۔

اب بولو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟؟گھروالوں سے کیوں ملنا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟

مجھے یاد آ رہی ہے سب کی۔۔۔اور بناقصور کے جتنی سزا بھگت چکی ہوں کافی ہے۔۔۔آپ اپنے بیٹے سے کہیں یا تو مجھے مار دے یا پھر مجھے میرے گھروالوں سے ملنے دے۔۔۔۔

یشب سے جھگڑا ہوا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟بی بی جان تو اسکے دھیمے انداز کی قائل تھیں اور اب وہ جس انداز میں بات کر رہی تھی وہ ان کے لیے حیران کن تھا

نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایا

ہاتھ اٹھایا ہے اس نے تم پر۔۔۔۔۔؟؟؟

ہیر نے انکے صیح اندازے پر جھٹکے سے سر اٹھایا

تمہارے گال پر نشان ہیں۔۔۔انہوں نے ہیر کے بولنے سے پہلے ہی نشانی بتائی

دوبارہ وہ تم پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا تم بے فکر ہو جاؤ۔۔۔۔انہوں نے یقین دلایا

اونہہ۔۔۔یہ ہاتھ تو ناجانے کتنی دفعہ اٹھ چکا ہے بی بی جان آپ کو اب معلوم پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ہیر دل میں ہمکلام ہوئی

بی بی جان بات ہاتھ اٹھانے کی نہیں ہے بات تو بےقصور سزا کاٹنے کی ہے۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولی

ہیر بچے تم اسی علاقے کی پلی بڑھی ہو تم سے بہتر کون یہاں کے رسم و رواج جانتا ہو گا پھر شکوہ کس بات کا۔۔۔؟؟

بی بی جان میں تھک چکی ہوں۔۔۔۔وہ مایوس ہوئی

ہمت سے کام لو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔

نہیں ہو گا کچھ بھی ٹھیک۔۔۔جب شروع سے اب تک نہیں ہو پایا تو پھر اب کیسے ہو گا۔۔۔۔؟؟

میں۔۔۔آپ۔۔۔ہم سب عورتیں اپنے ہی رشتوں کی خاطر سولی چڑھا دی جاتی ہیں اور پھر امید کی جاتی ہے کہ بے زبان جانور بن کر ہر ظلم ، ہر سزا سہتے جاؤ۔۔۔نہ پہلے کچھ بدلہ ہے اور نہ ہی اب بدلے گا

میں بات کروں گی یشب سے کہ تمہیں گھر والوں سے ملا لائے۔۔۔۔بی بی جان نے تسلی دی

نہیں۔۔۔۔مجھے یشب آفریدی کی بھیک نہیں چاہیے۔۔۔۔مجھے نہیں ملنا ہے گھروالوں سے۔۔۔۔وہ انکار کرتی روتی ہوئی باہر نکل گئی

بی بی جان نے افسردہ ہو کر پاس پڑا فون اٹھایا اور مہرو کا نمبر ڈائل کیا

……………………………………………………………

ہیر ایسے کیوں بیٹھی ہو طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔؟؟مہرو فکرمندی سے پوچھتی اسکے سامنے آئی

وہ دو دن پہلے ہی واپس آئی تھی۔۔۔بی بی جان نے ہی اسے واپس بلوایا تھا

میں ٹھیک ہوں بھابھی۔۔۔۔ہیر ہلکا سا مسکرائی

کیا خاک ٹھیک ہو۔۔۔۔گل بتا رہی تھی تم کھانے پینے میں بھی لاپرواہی برتتی ہو

اسی لیے تو رنگت اتنی پیلی ہوتی جا رہی ہے تمہاری۔۔۔خود کو کیوں سزا دے رہی ہو۔۔۔؟؟

جب زندگی کا مقصد ہی سزا جھیلنا ہے بھابھی تو پھر پرواہ کرنے کا کیا فائدہ۔۔؟؟وہ مایوسی سے بولی 

ہیر یشب کا رویہ تو شروع دن سے ہی مناسب نہیں تھا پر تم تو صبر سے کام لے رہی تھی۔۔۔پھر اب ایسا کیا ہوا جو تم اتنی مایوس ہو چکی ہو۔۔۔؟؟

میں پہلے مایوس نہیں تھی بھابھی اسی لیے تو صبر سے برداشت کر رہی تھی سب۔۔۔۔پر اب وقت اور حالات مجھے مایوس کر چکے ہیں اسی لیے میری برداشت بھی ختم ہوتی جا رہی۔۔۔۔۔

گھروالے بہت یاد آ رہے ہیں کیا۔۔۔۔؟؟میں یشب سے بات کروں گی۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔۔مجھے کسی کی یاد نہیں آرہی اور نہ ہی میں کسی سے ملنا چاہتی ہوں۔۔

دیکھو ہیر جو بھی مسلہ ہے مجھ سے شئیر کرو پلیز۔۔۔۔مہرو فکرمند ہوئی

بھابھی مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے۔۔۔میں ٹھیک ہوں

تم بتانا نہیں چاہتی تو اور بات ہے۔۔۔۔میں تمہیں ایسی چھوڑ کر نہیں گئی تھی جیسی تم ہو چکی ہو۔۔۔

ہیر کیا کہتی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی

مہرو نے اسکے جھکے سر کو دیکھ کر مزید پوچھنا مناسب نہ سمجھا

 اچھا میں تمہارے لیے دودھ بھجواتی ہوں پی لینا ورنہ میں خفا ہو جاؤں گی

جی پی لوں گی۔۔۔ہیر اسکی پیار بھری دھمکی پر مسکرا دی۔۔

…………………………………………………………

یشب۔۔۔۔۔۔

وہ سیڑھیوں کے پاس اپنے نام کی پکار پر مڑا

کہاں تھے تم اب تک۔۔۔؟؟ جانتے ہو بی بی جان کتنی دفعہ پوچھ چکی ہیں تمہارا۔۔۔مہرو نے فکرمندی سے پوچھا

مل آیا ہوں بی بی جان سے۔۔۔۔

کھانا کھایا۔۔۔۔؟؟؟

ابھی تو آیا ہوں۔۔۔آپ نے انویسٹی گیشن شروع کر دی

اچھا فریش ہو کر آ جاؤ میں لگاتی ہوں کھانا۔۔۔

ابھی آیا۔۔۔۔۔وہ کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا

کمرے میں داخل ہوتے ہی یشب کی نظر سامنے جائے نماز پر سجدے کی حالت میں جھکی ہیر پر پڑی۔۔۔

وہ سر جھٹکتا واش روم چلا گیا

پندرہ ، بیس منٹ بعد جب وہ بالوں میں ٹاول رگڑتا باہر نکلا تو ہیر ابھی بھی اسی حالت میں تھی

یشب نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنائے اور جان بھوج کر برش زور سے ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکا۔۔۔۔

مگر اس کھٹکے پر بھی ہیر ٹس سے مس نہ ہوئی

وہ مشکوک ہوتا اسکی طرف آیا

ہیر۔۔۔۔۔

ہیر۔۔۔۔پھر پکارا مگر ہیر نے کوئی جواب نہ دیا

یشب نے فکرمندی سے زمین پر بیٹھ کر ہیر کا کندھا ہلایا

اس ذرا سے جھٹکے پر وہ یشب کی طرف لڑھک گئی

ہیر۔۔رر۔۔۔ہیر آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔ہیر کیا ہوا ہے آنکھیں کھولو پلیز۔۔۔۔۔وہ ہیر پر جھکا اسکے گال تھپتھپا رہا تھا

کیا ہوا ہیر کو۔۔۔۔۔مہرو دروازے سے بھاگتی ہوئی پاس آئی

وہ اتنی دیر انتظار کے بعد یشب کو بلانے آئی تھی جب کمرے کے ادھ کھلے دروازے سے ہیر کو گرے دیکھا 

پتہ نہیں بھابھی۔۔۔میں جب آیا تو یہ سجدے کی حالت میں تھی اور اب میرے ہلانے سے۔۔۔۔

ہیر آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔ہیر۔۔رر۔۔۔مہرو اسکے ہاتھ سہلاتی ہوئی پکار رہی تھی

یشب ہمیں ہوسپٹل لے جانا چاہیے۔۔۔۔۔جلدی کرو۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں بے ہوش ہوگئی ہے

جی۔۔۔۔یشب نے سر ہلاتے ہوئے جھک کر ہیر کا وجود بازؤں میں بھرا اور باہر کی جانب چل پڑا۔۔۔

تم گاڑی تک لے جاؤ میں چادر لے کر آتی ہوں۔۔۔۔مہرو کہتی جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی

چند منٹ بعد یشب اور مہرو ہیر کے بے ہوش وجود کو لیے ہوسپٹل جا رہے تھے

……………………………………………………………

مسز یشار۔۔۔۔۔۔پیشنٹ سے کیا رشتہ ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ڈاکٹر رضیہ نے مہرو سے پوچھا وہ مہرو کو جانتی تھی کیونکہ ان کے گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہوسپٹل کی یہ خوبصورت سی عمارت یشار آفریدی اور خاقان آفریدی کی ہی محنتوں کا ثمر تھی

میری۔۔۔۔۔میری دیورانی ہے۔۔۔۔مہرو نے ایک نظر پاس کھڑے یشب پر ڈال کر اصل رشتہ بتایا

ہوں۔۔۔۔۔کب ہوئی ہے شادی۔۔۔۔؟؟؟

آپ یہ بتائیں کے پیشنٹ کی کنڈیشن کیسی ہے۔۔۔۔اس کا بائیوڈیٹا جان کر کیا کریں گی آپ۔۔۔۔یشپ ہائپر ہوا

تم چپ رہو یشب۔۔۔۔۔

اٹس اوکے مسز یشار میں ان کے مزاج کو جانتی ہوں اکثر یہاں کا اسٹاف ان کے غصے سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ نے مسکرا کر کہتے ہوئے ان دونوں کو اپنے ساتھ اپنے کمرے میں آنے کا کہا

پلیز ہیو آ سیٹ۔۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولیں

یشب بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتا چئیر گھسیٹ کر بیٹھا

مہرو اس کے سرخ چہرے سے اسکا غصہ بھانپ گئی تھی۔۔۔۔

پلیز ڈاکٹر رضیہ بتائیں ہیر کیسی ہے اب۔۔۔۔۔؟؟؟

شی از فائن ناؤ۔۔۔۔۔

ہوا کیا تھا۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اچانک کیسے بے ہوش ہو گئی

اس کنڈیشن میں ایسا ہو جاتا ہے مسز یشار آپ تو خود ایک ماں ہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ مسکرا کر بولیں

کیسی کنڈیشن۔۔۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔۔۔؟؟؟

ڈاکٹر نے ایک نظر یشب کو دیکھا جو ٹکٹکی سے سامنے لگے وال کلاک کو گھور رہا تھا

شی ہیز ٹو منتھس پریگنینسی۔۔۔۔

جی۔۔۔۔؟؟؟ مہرو اس خبر پر شاکڈ ہوئی

آپ نہیں جانتی کیا۔۔۔۔؟؟؟

نن۔۔۔۔۔نہیں ایسی بات نہیں وہ ایکچولی میں اپنے پیرنٹس کی طرف تھی تبھی یہ خوشخبری ملی تھی۔۔۔۔مہرو نے بروقت بات کو سنبھال لیا

اوہ۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ ہونٹ سکیڑ کر مسکرائیں 

بٹ ہر کنڈیشن از ٹو مچ کریٹیکل۔۔۔۔۔ان کی ڈائیٹ کا خاص خیال رکھیں۔۔۔۔کافی ویکنیس ہے جسکی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئیں تھیں

میں میڈیسن لکھ رہی ہوں۔۔۔باقاعدگی سے میڈیسن دیں کھانے پینے کا پراپر خیال کریں اور دس ، پندرہ دن کی سپیس سے چیک اپ کرواتیں رہیں۔۔۔۔۔

جی۔۔۔۔۔ہم گھر لے جا سکتے ہیں اب۔۔؟؟ مہرو نے اجازت مانگی

بلکل۔۔۔۔۔

اوکے تھینکس۔۔۔۔۔مہرو نے ڈاکٹر رضیہ سے ہاتھ ملایا اور یشب کی طرف مڑی

یشب اسکے مڑنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل چکا تھا۔

……………………………………………………………

واپسی کا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔۔۔۔

تم ہیر کو کمرے میں لے جاؤ میں کھانے کو کچھ لاتی ہوں۔۔۔۔ مہرو نے سیڑھیوں کے پاس ہیر کے گرد سے بازو ہٹا کر یشب سے کہا

اسکی ٹانگیں سلامت ہیں خود چل کر جا سکتی ہے یہ۔۔۔۔وہ پھنکار کر کہتا سیڑھیاں چڑھ گیا

مہرو ایک ملامتی نظر اس پر ڈال کر ہیر کو پکڑے آگے بڑھی

بھابھی مجھے کوئی اور کمرہ مل سکتا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟؟ یا پھر ایسا کریں مجھے بیسمنٹ میں ہی چھوڑ آئیں میں وہاں سکون میں رہوں گی۔۔۔۔

اس حویلی میں بہت سے کمرے ہیں ہیر تم کسی کمرے میں بھی ٹہر سکتی ہو پر یشب کے کمرے میں۔۔۔۔۔

نہیں میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔ہیر نے نفی میں سر ہلایا

اچھا ٹھیک ہے تم میرے ساتھ میرے کمرے میں چلو کل اپنی مرضی سے کوئی بھی کمرہ سیٹ کروا لینا ہوں۔۔۔۔وہ ہیر کی حالت کے پیش نظر بولی

جی۔۔۔۔۔

مہرو اسے لیے اپنے کمرے میں آئی

تم بیٹھو میں تمہارے لیے کھانے کو کچھ لاتی ہوں

مجھے ذرا بھی بھوک نہیں ہے بھابھی۔۔۔۔

چپ رہو تم۔۔۔۔اب میں تمہاری ایک بھی سننے والی نہیں۔۔۔۔مہرو ڈپٹتی کمرے سے نکل گئی

ہیر نے ڈھیلے سے انداز میں گردن صوفے کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔۔

کئی آنسو لڑیوں کی صورت میں آنکھوں سے نکل کر اسکی گالوں کو بھگو گئے

کب تک۔۔۔۔کب تک چلے گا یہ سب۔۔۔؟؟ پہلے تو میں اکیلی تھی مگر اب۔۔۔۔۔۔۔

میرے مالک میں کیا کروں۔۔۔۔؟؟میری سزا کب ختم ہو گی۔۔۔۔؟؟ کیا ساری زندگی مجھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنی ہو گی؟؟۔۔۔۔نہیں میرے مالک۔۔۔۔نہیں۔۔۔مجھ میں اب مزید سکت باقی نہیں رہی ہے۔۔۔۔مجھے معاف کر دے میرے مالک معاف کر دے۔۔۔۔۔۔

ہیر سو گئی کیا۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا

 وہ جلدی سے آنسو پونچھ کر سیدھی ہوئی۔۔۔نہیں جاگ رہی ہوں۔۔۔۔

چلو پھر جلدی سے یہ سب ختم کرو اور میڈیسن لے کر آرام کرو

مہرو نے پاس بیٹھ کر زبردستی اسے تھوڑا بہت کھانا کھلا کر میڈیسن دی اور بیڈ پر لیٹا کر کمبل اوڑھایا

ہیر نے تشکرانہ نظروں سے مہرو کو دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔

کبھی کبھی انسان واقعی ہار جاتا ہے

خاموش رہتے رہتے

صبر کرتے کرتے

امیدیں رکھتے رکھتے

رشتے نبھاتے نبھاتے

صفائیاں دیتے دیتے

اپنوں کو مناتے مناتے 

اور کبھی کبھی خود سے !!!

…………………………………………………………

******************ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ *********************