زیادتی
قسط نمبر 19
جی یہ پائل آپ کی ہے۔۔۔۔شمس نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا
میں جانتی ہوں یہ میری ہی ہے۔۔۔۔پر یہ آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے سوالیہ نظریں شمس کے سنجیدہ چہرے پر فوکس کرتے پوچھا
آپ کو یاد ہو گا جب زبیر نے MBA کے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں سب سے زیادہ Gp لی تھی تو اسنے ہم سب کلاس فیلوز کو پارٹی دی تھی اپنی حویلی میں۔۔۔۔۔۔
اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔۔۔مہرو نے لمبی سی سانس لی اسے وہ دن یاد تھا
جب شمس لالہ نے اپنے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں ٹاپ کیا تھا پیچھلے دو سمیسٹرز میں وہ تیسرے نمبر پر تھے پر اس بار انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اپنے دوستوں سے بیٹ لگا چکے ہیں کہ اس سمیسٹر میں وہ اگلے دونوں بوائز کو کراس کریں گے اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔وہ واقعی انہیں کراس کر گئے تھے۔۔۔۔جس پر لالہ نے اپنی کلاس کے سولہ سترہ جتنے بھی بوائز تھے سب کو حویلی میں ٹریٹ دی تھی۔۔۔
مہرو دالان میں میگزین گود میں رکھے بےزار سی بیٹھی تھی جب شہربانو اسکے پاس آئی
ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔؟؟؟
کچھ نہیں بور ہو رہی ہوں۔۔۔۔۔مہرو سیدھی ہوئی
ارے بھئی اتنی اونچی میوزک کو سن کر بھی بور ہو رہی ہو۔۔۔
(یہ اونچی میوزک مردانے میں زبیر خان اور اسکے دوستوں نے اپنی پارٹی میں لگا رکھا تھا)
خالی خولی میوزک سے کیا خاک انجوائے کروں گی میں۔۔۔انجوائے تو وہ سب لڑکے کر رہے ہوں گے ناچ کود کر۔۔۔۔مہرو چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر حسرت سے بولی
اونہہ۔۔۔۔کس قدر واہیات ناچتے ہیں یہ لڑکے۔۔۔؟؟؟بانو نے ناک چڑھایا
تمہیں یاد نہیں ابرار لالہ کی شادی میں ان کے دوستوں نے مل کر کسقدر گندا اور واہیات ڈانس کیا تھا۔۔۔۔بانو وہ ڈانس یاد کرکے سخت بدمزا ہوئی
ہاں اور ہم سب لڑکیاں اسی واہیات ڈانس کو دیکھنے رات 2 بجے تک چھت پر رہیں تھیں۔۔۔۔۔مہرو نے ابرو چڑھا کر بانو کا مذاق اڑایا
وہ تو تمہیں اور زرکا کو شوق تھا دیکھنے کا اور ہم باقی سب مفت میں پس گئی تھیں۔۔۔۔۔۔بانو کو اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی
شوق تو مجھے اب بھی ہے۔۔۔۔۔مہرو نے مسکراہٹ دبا کر آنکھ ماری
شہربانو اسکی بات سمجھ کر اچھلی۔۔۔ نہ بابا نہ۔۔۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ کان کو لگا کر منع کیا
مان جاؤ ناں پلیز۔۔۔۔۔۔پلیزززززز۔۔۔۔۔پلیز بانو۔۔۔۔۔
ہر گز نہیں۔۔۔اگر خالو ) مہرو کے بابا) کو یا پھر زبیر لالہ کوپتہ چل گیا تو۔۔۔۔۔؟؟؟شہربانو ابھی بھی رضامند نہ تھی
نہیں چلے گا ناں ان کو پتہ وہ ڈیرے پر ہیں میں نے گل کو بھیج کر پتہ کروا لیا تھا اور لالہ اپنے دوستوں میں بزی ہیں۔۔۔۔۔بس تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔۔مجھے بس یہ دیکھنا ہے کہ پڑھے لکھے لڑکے کیسا ڈانس کرتے ہیں۔۔۔
تف ہے تم پر۔۔۔۔۔۔بانو نے اسکے منہ پر ہاتھ سیدھا کیا
چھوڑو یہ لعن طعن آ کر کر لینا فلحال چلو جلدی کرو۔۔۔۔۔چلوووووو۔۔۔۔۔۔مہرو اسکا بازو گھسیٹتی زبردستی ساتھ لے کر مردانے کی طرف چل پڑی
وہاں پہنچ کر مہرو نے آگے جا کر ساری راہداری چیک کی اور راستہ کلئیر دیکھ کر کافی پیچھے کھڑی شہربانو کو ہاتھ ہلا کر آنے کو کہا
شہربانو اسکے اشارے پر ادھر أدھر دیکھتی ڈرتی جھجھکتی اس تک آئی
شکر ہے بانو ہال کا دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔مہرو نے ایکسائیٹڈ ہو کر سرگوشی کی
جلدی دیکھو جو بھی دیکھنا ہے۔۔۔۔شہربانو اکتا کر بولی
تم نیچے بیٹھ کر دیکھنا میں اوپر سے دیکھو گی اوکے
ہوں۔۔۔۔شہربانو نے مروت میں ہلکا سا سر ہلا دیا ورنہ اسے یہ سب دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا
مہرو نے ہال کے پاس پہنچ کر دیوار سے لگ کر ہلکا سا سر آگے کو جھکایا اور اندر جھانکا
اووئے۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔بانو وہ دیکھو کالی شرٹ والا بریک ڈانس کر رہا ہے بلکل ویسا ہی جیسا اس دن ٹی وی میں۔۔۔۔
بانو دیکھ رہی ہو۔۔۔۔بانو۔۔۔۔مہرو نے آگے کو جھکے جھکے ہی نیچے اور پیچھے ہاتھ مار کر بانو کو تلاشہ مگر بانو وہاں ہوتی تو ملتی۔۔۔۔۔
کہاں گئی۔۔۔۔۔؟؟وہ مشکوک ہوتی سیدھی ہو کر پیچھے پلٹی
اور پیچھے کھڑے مسکراہٹ دباتے لڑکے کو دیکھ کر اسکا سانس رک چکا تھا
چند لمحے منہ کھول کر اسے دیکھنے کے بعد مہرو نے جلدی سے چادر کے پلو سے منہ ڈھانپا جیسے پہلے شمس وہاں آنکھیں بند کیے کھڑا ہو۔۔
شمس اسکی حرکت پر کھل کر مسکرا دیا۔۔
وہ۔۔۔وہ آپ پلیز زبیر لالہ کو مت بتائیے گا کہ آپ نے مجھے یہاں دیکھ لیا ہے۔۔۔۔مہرو زبان تر کر کے بولی
آپ زبیر لالہ کی کیا لگتی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟شمس نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا
مم۔۔۔میں۔۔۔۔۔
جی آپ۔۔۔۔۔۔وہ ابھی بھی مسکراہٹ دبائے ہوئے تھا
میں انکی کچھ نہیں لگتی۔۔۔۔مہرو اسکی ابھرتی مسکراہٹ پر کنفیوز ہو کر کہتی بھاگ کھڑی ہوئی
شمس پلٹ کر اسے بھاگ کر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا
مہرو بھاگتی ہوئی راہداری کے اینڈ پر پڑے گملے میں اڑ کر دھڑام سے زمین بوس ہوئی
شمس اسے گرتے دیکھ کر اسکی طرف بڑھا
مہرو نے منہ موڑ کر پیچھے دیکھا اور شمس کو آتے دیکھ کر پھرتی سے اٹھی اور جلدی سے راہداری مڑ کر مردانے سے نکل کر حویلی کے رہائشی حصے میں داخل ہوئی۔۔۔
شمس جب وہاں پہنچا تو مہرو تو جا چکی تھی مگر گملے کے پاس اسکی پائل گری تھی جسے شمس نے جھک کر اٹھایا اور ہتھیلی پر پھیلا کر مسکرا دیا۔۔۔۔
"کیا سوچ کہ تم باندھتی ہو پیروں میں پائل،
ان کی چھن چھن سے ہزاروں ہو چکے ہونگے گھائل۔۔۔"
۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔ہ۔۔۔۔یہ تو نو دس سال پہلے کی بات ہے اور آپ نے اتنی پرانی چیز سنبھال رکھی تھی۔۔۔۔۔مہرو حال میں لوٹتی حیران سی پوچھ رہی تھی
میں آپ کو تب ہی لوٹا دینا چاہتا تھا مگر کس کے ہاتھ لوٹاتا۔۔۔۔زبیر کو بتانے سے آپ نے منع کیا تھا اور میں کسی ملازم کے ہاتھ نہیں بھجوا سکتا تھا کہ ناجانے وہ کیا سمجھتا۔۔۔۔
اسی لیے آپکی پائل کو آپکی امانت کے طور پر سنبھال لیا تھا۔۔۔۔شمس ایک پرسکون سانس ہوا کے سپرد کرتا بولا
مگر اب میں اس کا کیا کروں گی۔۔۔؟؟یہ تو ایک ہے۔۔۔مہرو پائل کو ہاتھ میں جھلاتی بولی
دوسری کہاں گئی جو آپ کے پاس تھی۔۔۔؟؟
وہ تو میں نے شہربانو کو دے دی تھی کیونکہ وہ ایک پائل پہنتی تھی اور میں دو۔۔۔۔میری اسکے ساتھ کی گم ہو گئی تو میں نے وہ ایک اسے دے دی۔۔۔
اسکا بھی حل ہے میرے پاس۔۔۔آپ رکیں ذرا میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔۔شمس اسے کہہ کر خود اسٹڈی سے نکل گیا
کیسا حل۔۔۔۔یہ کہاں گئے اب۔۔۔۔۔؟؟مہرو حیران سی کھڑی سوچ رہی تھی
جب شمس ویسی ہی مخملی ڈبیا لیے وہاں آیا
یہ لیں۔۔۔۔
اس میں کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو حیران ہوئی
کھول کر دیکھ لیں۔۔۔۔۔
مہرو نے ہچکچاتے ہوئے ڈبیا پکڑ کر کھولی اندر بلکل مہرو کی پائل کے جیسی دو پائلز تھیں
یہ۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے ابرو اٹھا کر شمس کو دیکھا
یہ بھی تب ہی بنوائیں تھیں۔۔۔۔جب آپکی پائل ملی تھی۔۔۔۔میں نے سوچا تھا ہو سکتا ہے دوسری پائل بھی وہیں کہیں گر کر گم ہو گئی ہو اسلئیے یہ دو لیں تھیں۔۔۔
پر میں اب ان کا کیا کروں گی۔۔۔؟؟وہ ابھی بھی کنفیوز تھی
جو پہلے کرتی تھیں۔۔۔۔
میں اب پائلیں نہیں پہنتی۔۔۔
تو اب پھر سے پہننا شروع کر دیں مجھے اچھا لگے گا۔۔۔وہ سنجیدگی سے اپنی پسند بتا رہا تھا
مہرو نے ایک نظر شمس کی طرف دیکھا اور اسکے چہرے پر نظر آتے انوکھے رنگوں کو دیکھ کر جلدی سے وہاں سے نکل آئی
یہ۔۔۔۔یہ ان کو کیا ہو گیا اچانک۔۔۔۔؟؟
مجھے اچھا لگے گا۔۔اونہہ۔۔مہرو اسکی نقل اتارتی سر جھٹک کر سیڑھیاں اتر گئی
………………………………………………………
شمس کے فقرے "مجھے اچھا لگے گا" نے مہرو میں بہت کچھ بدل دیا تھا۔۔۔۔وہی مہرو جو ہر وقت سمپل اور گھریلو حلیے میں رہتی تھی اب بن سنور کر رہنے لگی تھی ناجانے کیوں۔۔۔۔؟؟
خدیجہ مہرو کی اس تبدیلی سے بہت خوش تھیں وہ تو مہرو کو کہہ کہہ کر تھک چکیں تھیں کہ بن سنور کر رہا کرے مگر مہرو جی اچھا کہہ دیتی مگر عمل نہیں کرتی تھی۔۔۔۔۔اور اب اسکی تبدیلی پر خدیجہ بہت خوش اور مطمعین تھیں۔۔
خوش تو شمس بھی تھا مہرو کی اس کایا پلٹ دیکھ کر مگر فلحال خاموشی سے صرف جج کر رہا تھا۔۔
کل شمس نے مہرو سے اپنے کسی دوست کے گھر جانے کا کہا تھا اور اب مہرو اسی کے لیے تیار ہو رہی تھی جب شمس کمرے میں آیا
مہرو پاؤں چئیر پر رکھے پائل کا لاک کھولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر لاک تھا کہ کھلنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔
کیا بکواس ہے یہ کھل کیوں نہیں رہا۔۔۔۔وہ اکتا کر بڑبڑائی
لائیں میں کھول دیتا ہوں۔۔۔۔شمس نے پاس آ کر فورا اپنی خدمات پیش کیں
مہرو نے خاموشی سے پائل اسے پکڑا دی۔۔اور اپنی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑس کر دوپٹہ سیٹ کیا۔۔
یہ لیں کھل گئی ہے میں پہنا دوں۔۔۔۔؟؟؟
"چھوئے تو نہیں کسی کے پاؤں میں نے لیکن !!
وہ پائل باندھنے کا بولے تو سوچ سکتا ہوں۔۔۔!!"
نن۔۔۔۔نہیں میں پہن لوں گی۔۔۔مہرو نے بوکھلاتے ہوئے جلدی سے پائل واپس پکڑ لی
ہوں۔۔۔۔شمس سر ہلاتا ڈریسنگ روم چلا گیا۔۔۔۔۔چند منٹ بعد وہ گولڈن کلر کا خوبصورت سا باکس لیے واپس آیا
یہ سیٹ پہن لیں۔۔۔۔شمس نے باکس مہرو کی طرف بڑھایا
جو پہنا ہے وہ اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔۔۔؟؟اس نے تیز نظروں سے شمس کو دیکھا
وہ بھی اچھا ہے مگر اب یہ والا پہن لیں۔۔۔۔مہرو نے مزید بحث کیے بنا سر ہلا کر باکس پکڑ کر کھولا
ہمممم۔۔۔۔چوائس تو اچھی ہے۔۔۔۔اس نے سوچتے ہوئے ائیر رنگز اور چین باہر نکالی اور پہلے سے پہنا سیٹ اتارنے لگی شمس انتہائی انہماک سے آئینے میں نظر آتے اسکے سراپے کو نظروں کے حصار میں لیے کھڑا تھا
مہرو اسکے ٹکٹکی باندھنے پر تھوڑا کنفیوز ہوئی مگر جلدی جلدی کر کے اسنے شمس کا دیا سیٹ پہنا اور پیچھے پلٹی
اچھی لگ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔انتہائی سنجیدہ تاثرات سے تعریف کی گئی
میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔مہرو کھٹاک سے جواب مارتی اپنا پاؤچ اور چادر لیے باہر نکل گئی
اونہہ۔۔۔مسکرانا تو گناہ سمجھتا ہے یہ شخص۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی حدید اور دعا کے کمرے کیطرف بڑھ گئی
شمس اسکے جواب پر مسکرا کر سر جھٹکتا پیچھے ہی باہر آ گیا
………………………………………………………
ارے واہ بھابھی آپ تو پہچانی ہی نہیں جا رہیں۔۔۔۔۔۔ہیر نے مہرو کے سامنے آ کر اسکی بلائیں لیں
آپ مہرو ہی ہیں ناں۔۔۔۔؟؟؟ یا میں کسی غلط جگہ آ گئی ہوں۔۔۔۔۔؟؟
بلاوجہ مکھن مت لگاؤ بدتمیز۔۔۔۔مہرو کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکان ابھری
واہ۔۔۔واہ۔۔۔ما شا اللہ۔۔۔۔کیا شرمیلی ہنسی ہے لالہ دیکھیں گے تو فورا لٹو۔۔۔۔
کیا دیکھیں گے لالہ۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اندر داخل ہو کر ہیر کی آدھی بات پکڑی
بھابھی کو۔۔۔۔۔۔۔ہیر کی بات پر مہرو نے اسکی کمر پر مکا جڑا
شمس مسکرا کر سامنے موجود صوفے پر بیٹھا اور مہرو کو نظروں میں لیا
جو ہلکے پنک کلر کے ڈریس کیساتھ میچنگ لپ اسٹک اور چوڑیاں پہنے جھجھکتی ہوئی نکھری نکھری اور پیاری لگ رہی تھی
میں چائے لاتی ہوں۔۔۔۔مہرو کنفیوز ہوتی جلدی سے کھڑی ہوئی
کوئی چائے وائے نہیں پینی ابھی۔۔۔آرام سے بیٹھیں۔۔۔۔ہیر نے اسے پکڑ کر پھر سے بیٹھا دیا
اور تم سناؤ کب آئی۔۔۔۔؟؟گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔۔۔؟؟شمس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر ہیر سے پوچھا
میں کچھ دیر پہلے آئی ہوں۔۔۔۔گھر میں بھی سب ٹھیک ہیں۔۔۔۔آپ سنائیں کیا چل رہا ہے آج کل۔۔۔۔؟؟ہیر نے شرارتی انداز میں آنکھوں کو گھمایا اور ساتھ مہرو کے چٹکی لی
شمس اسکی حرکت پر مسکرا دیا جبکہ مہرو اسے گھور کر کھڑی ہوئی
میں ابھی آتی ہوں۔۔۔
ارے نہیں بھابھی بیٹھیں تو ابھی میں آئی ہوں وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے شام تک چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔وہ آنکھیں پٹ پٹا کر معصومیت سے بولی
شام تک تو ہو ناں یہاں۔۔۔۔۔مہرو دانت پیس کر کہتی ہاتھ چھڑوا کر ہال سے نکل گئی۔۔۔
وہ جانتی تھی ہیر شمس کیوجہ سے جان بھوج کر اسے تنگ کر رہی تھی۔۔
ہیر مسکراتی ہوئی اٹھ کر شمس کیساتھ آ کر بیٹھی۔۔
بڑے دانت نکل رہے ہیں لالہ خیریت۔۔۔۔۔؟؟اس نے شمس کی مسکراہٹ پر چھیڑا
بلکل۔۔۔۔۔وہ پھر سے مسکرایا
بھابھی کو بتا دیا کیا۔۔۔۔۔؟؟
اوں ہوں۔۔۔۔۔شمس نے نفی میں سر ہلایا
تو بھابھی میں یہ تبدیلی کب آئی۔۔۔۔؟؟؟
پوچھ لیتی۔۔۔تمہاری تو کافی دوستی ہے ان سے۔۔۔۔
کب بتائیں گے لالہ۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ سنجیدہ ہوئی
بتا دوں گا جلدی کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟
جلدی۔۔۔۔؟؟؟محترم آپ لوگوں کے نکاح کو پانچ ماہ ہونے والے ہیں۔۔۔۔ہیر ناک پھلا کر بولی
بتا دوں گا۔۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔۔مائی سویٹ ڈول۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے پھولے ناک کو کھینچا
لالہ مزید وقت ضائع مت کریں۔۔۔۔۔اتنے سال کافی نہیں ہیں کیا۔۔۔۔؟؟؟
کہا ہے ناں بتا دوں گا۔۔۔اب چھوڑو اس بات کو۔۔۔۔یہ بتاؤ یشب کیسا ہے۔۔۔۔؟؟؟
ٹھیک ہیں آجکل الیکشن کا بھوت سوار ہے ان پر۔۔۔۔۔۔وہ برا سا منہ بنا کر بولی
الیکشن۔۔۔۔؟؟
ہوں کہہ رہے ہیں اس بار اپنے علاقے سے الیکشن لڑیں گے۔۔۔بابا جان نے بھی روکا ہے میں نے بھی مگر وہ یشب آفریدی ہی کیا جو کسی کی بات مان جائیں۔۔۔۔وہ چڑی
شمس اسکے چڑنے پر مسکرا دیا
چلو کرنے دو اسے شوق پورا۔۔۔ایک بار میں ہی عقل آ جائے گی تمہارے نالائق شوہر کو۔۔۔۔
اوہ۔۔۔میرا نالائق شوہر۔۔۔۔؟؟؟ہیر کو صدمہ ہوا
ہاں تمہارا نالائق شوہر۔۔۔۔شمس مسکراہٹ دباتا کھڑا ہوا
آپ کو پتہ ہے یشب لندن کے ڈگری ہولڈر ہیں۔۔۔۔
ایسی ڈگری کا کیا فائدہ جب بندہ عقل سے ہی پیدل ہو۔۔۔۔۔
لالہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔۔۔ہیر کے چیخنے پر وہ قہقہہ لگاتا ہال سے نکل گیا
کہہ تو ویسے ٹھیک ہی رہے ہیں۔۔۔۔۔ہیر یشب کے چہرے کو تصور میں لا کر مسکرا کر سوچتی اماں کے کمرے کی طرف چلی گئی
………………………………………………………
مہرو عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی جب شمس کمرے میں داخل ہوا
ایک نظر مہرو کو دیکھ کر وہ چینچ کرنے چل دیا۔۔۔۔
مہرو آخری رکعتوں میں تھی جب وہ چینج کر کے واپس آیا اور بیڈ کے پاس پڑے صوفے پر بیٹھ کر مہرو کی پشت کو محویت سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
"حسرت سے دیکھتے رہے ماضی کو اسطرح۔۔۔
جیسے کہ لوٹ آئیں گے وہ دن جو گزر گئے۔۔۔"
مہرو نے آخری سلام پھیرا اور تسبیح پڑھنے لگی۔۔۔۔۔وہ شمس کی طرف منہ کیے بغیر بھی اسکی نظریں خود پر ٹکی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔
اب تو ایسا اکثر ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔۔شمس ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا۔۔۔۔
شروع شروع میں جب کبھی ایسا ہوتا تو مہرو کو دیکھتے پا کر شمس فورا اپنی نظریں جھکا لیتا تھا مگر اب مہرو کے دیکھنے پر بھی وہ بنا شرمندہ ہوئے اسے دیکھتا رہتا۔۔۔مجبورا مہرو ہی کنفیوز ہو کر ادھر أدھر ہو جاتی تھی۔۔۔۔یہ نہیں تھا کہ مہرو کو اسکی نظروں سے الجھن ہوتی تھی مگر وہ شمس کے اسطرح تسلسل سے دیکھنے پر ٹھٹھک ضرور جاتی تھی۔۔۔۔یوں جیسے شمس کی نظروں میں ایسا کچھ خاص ہو۔۔۔کچھ بہت خاص۔۔۔۔پر مہرو ہر دفعہ اسے اپنا وہم سمجھ کر جھٹلا دیتی۔۔۔
تسبیح کے بعد اسنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگی۔۔۔۔شمس ابھی بھی بنا پلک جھپکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا
مہرو نے دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرے ، جائے نماز تہہ کر کے رکھا
اور اپنے وہم کو یقین میں بدلنے کا فیصلہ کرتی شمس کی طرف چلی آئی
………………………………………………………
یشب پلیز مان جائیں ناں۔۔۔۔ہیر نے یشب کے سامنے بکھری فائلوں کو اٹھا کر اسکی پہنچ سے دور کیا
ہیر۔۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔تنبیہہ ہوئی
پلیزززززز۔۔۔۔۔
اب کچھ نہیں ہو سکتا میرا اتنا پیسا لگ چکا ہے اب تمہارے کہے میں آ کر سارا پیسہ ڈبو دوں۔۔۔۔؟؟؟یشب ہر روز کی اس بحث سے تنگ آ چکا تھا جس میں ہیر اسے الیکشن سے ڈراپ آوٹ کرنے پر اکسا رہی تھی
پیسہ مجھ سے زیادہ اہم ہے۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی
میں ایموشنل بلیک میلنگ میں نہیں آنے والا۔۔۔۔۔یشب نے ہاتھ اٹھائے
خان پلیز۔۔۔۔میری خاطر۔۔۔۔
کہا ہے ناں نہیں۔۔۔۔
مطلب پیسہ زیادہ ضروری ہے مجھ سے۔۔۔۔آپ کے نزدیک میں بکواس کر رہی ہوں اتنے دن سے۔۔۔۔۔
کم آن۔۔۔۔ہیر آخر تمہیں میرے الیکشن لڑنے سے مسلہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟
مجھے پولیٹیشنز پسند نہیں۔۔۔۔وہ ناک چڑھا کر بولی
وہ کیوں۔۔۔۔؟؟یشب نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا
کیونکہ وہ کرپٹ ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ معصومیت سے بولی
مگر میں تو نہیں ہوں ناں کرپٹ۔۔۔۔؟؟
تو ہو جائیں گے جب سیاست میں آئیں گے۔۔۔۔مجھے پسند نہیں ہے یشب ختم کریں ناں یہ قصہ۔۔۔کیا ضروری ہے ہم روز اس بات پر بحث کریں
کر دیا ختم اور کچھ۔۔۔یشب نے سیگرٹ اور لائٹر اٹھایا
میں سیریس ہوں محترم۔۔۔۔ہیر نے دانت رگڑے
میں بھی سیریس ہوں محترمہ۔۔۔
میرے سر کی قسم کھائیں۔۔۔۔
یہ ہر چھوٹی بڑی بات پر اپنا سر کیوں بیچ میں لے آتی ہو اور پھر زبردستی اسکی قسم بھی اٹھواتی ہو۔۔۔یشب ہیر کی اس عادت سے باخوبی آگاہ تھا اسلیے چڑ کر بولا
کیونکہ آپ کا کیا بھروسہ زبانی کلامی بات پر مکر جائیں۔۔۔۔اس نے کندھے اچکائے
اور اگر قسم سے بھی مکر جاؤں تو۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔میں جانتی ہوں آپ میرے سر کی قسم سے کبھی نہیں مکریں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔
یشب اسکے پریقین انداز پر مسکرا دیا
تو پھر کھائیں قسم۔۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا
تمہاری قسم۔۔۔۔۔۔
پورا کہیں۔۔۔۔ہیر تمہاری قسم میں الیکیشنز میں حصہ نہیں لوں گا پیسے کی مجھے پرواہ نہیں۔۔۔اور اگر کسی کے کہے میں آ کر مکر جاؤں تو ہیر کا مرا ہوا منہ دیکھوں۔۔۔
یشب مسکراتے ہوئے حلف نامہ سن رہا تھا اسکی آخری بات پر مسکراہٹ روک کر سیریس ہوا
سوچ سمجھ کر بولا کرو جو منہ میں آتا ہے بنا سوچے سمجھے بول دیتی ہو۔۔۔۔وہ خفگی سے بولا
جو بھی ہے آپ کو میری پوری بات کے بعد ہی رہائی ملے گی۔۔۔
یشب نے اسکا اٹل انداز دیکھ کر آخری بات چھوڑ کر باقی حلف نامہ مکمل کیا اور اسکے ہاتھ ہٹا کر اٹھ گیا جس سے ہیر نے اسکے بازو دبوچ کر قید کر رکھا تھا
بہت برے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟وہ خفا خفا سی بولی
یشب نے مسکرا کر اسکی چوٹیا کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور اسکے پیچھے سے فائلز اٹھا کر اسٹڈی چلا گیا
اسکے جانے کے بعد ہیر بھی مطمعین ہوتی نماز پڑھنے اٹھ گئی۔۔۔۔وہ پورے ایک ماہ کی کوشش کے بعد یہ معرکہ سر کر چکی تھی یشب کو منا کر اس لیے شکرانے کے نوافل ادا کرنا تو بنتا تھا۔۔
…………………………………………………….…
چائے لاؤں۔۔۔۔مہرو نے کھڑے کھڑے شمس سے پوچھا
نہیں۔۔۔۔۔۔۔شمس نے نفی میں سر ہلایا
مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
جی کریں۔۔۔۔شمس اسکی بات پر سیدھا ہوا
مگر مہرو سر ہلاتی اسٹڈی میں چلی گئی
شمس اسکے مشکوک انداز پر حیران تھا
چند منٹ بعد مہرو ایک درمیانے سائز کا ڈبہ لیے وہاں آئی۔۔۔۔۔وہ ڈبہ جیولری باکس کے مشابہ تھا۔۔۔۔ڈبے کے بیرونی ڈیزائن سے وہ کافی یونیق اور ایکسپینسیو لگ رہا تھا
مہرو نے پاس آ کر ڈبہ شمس کے سامنے موجود ٹیبل پر رکھا
شمس سانس روکے ساکت تھا۔۔۔۔
مہرو نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈبہ کھولا اور اس میں موجود چھوٹی مخملی ڈبیوں کو باہر نکالنے لگی
اس نے ایک ایک کر کے ساری ڈبیاں باہر نکالیں اور آخر میں دل کی شیپ کا بنا کارڈ بھی باہر نکالا
ساری ڈبیاں نکال لینے کے بعد اب وہ باری باری ان ڈبیوں کو کھول کر ان میں سے پائلیں نکال کر ٹیبل پر رکھنے لگی۔۔۔وہ تقریبا پچاس سے زیادہ ڈیزائنز کی گولڈ ، ڈائمنڈ ، چاندی اور ناجانے کس کس سٹف کی بنی پائلز تھیں۔۔۔۔۔
مہرو نے سب کو نکال دیا۔۔۔۔ٹیبل بلکل کسی جیولری شاپ کا منظر پیش کر رہا تھا
پائلوں کا ڈھیر لگانے کے بعد مہرو نے وہ ہارٹ شیپ کا کارڈ اٹھایا اور اس پر بندھا ربن کھول دیا
It's all For My L❤ve “ Meher ”
مہرو نے با آواز بلند اس میں لکھی عبارت پڑھی
شمس اب بھی سانس روکے ساکت تھا۔۔۔
کون ہے۔۔۔۔یہ مہر۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے شمس کو دیکھتے ہوئے بمشکل تحمل سے پوچھا
اسے جو شک تھا جو وہم تھا وہ آج اسے یقین میں بدل دینا چاہتی تھی۔۔
میں نے پوچھا کون ہے یہ مہر۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکی خاموشی پر بلند آواز سے چلائی
میری بات۔۔۔!!
یہ مہر کون ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے چبھتے ہوئے شمس کی بات کاٹی
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ہیں یہ مہر۔۔۔۔۔!! شمس نے اعتراف کر کے کسی مجرم کی مانند جھکا سر مزید جھکا .
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment