زیادتی 

آخری قسط 


آپ۔۔۔!! شمس کے مدھم سے اقرار پر مہرو کٹے پتنگ کی مانند گرنے کے انداز میں صوفے پر بیٹھی 

اسکا شک ٹھیک نکلا تھا۔۔

کیا۔۔۔کب۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔؟؟ایسے بہت سے سوالات مہرو کے اردگرد ہلچل مچا رہے تھے

مگر وہ اس انکشاف پر دنگ سی بیٹھی تھی۔۔۔۔یہ کیا کہہ دیا تھا شمس نے۔۔۔۔؟؟؟ نو ، دس سال پہلے اسکی پائل شمس کو ملی تھی تو کیا یہ شخص تب سے۔۔۔۔۔؟؟

اوف۔۔ف۔۔ف۔۔ف۔۔۔۔۔اتنے سال۔۔۔۔۔اس سے آگے مہرو سوچ نہیں پائی تھی

وہ پوچھنا چاہ رہی تھی مگر الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے

دوسری طرف شمس سر جھکائے اپنے پاؤں کے انگوٹھے کو محویت سے تکے جا رہا تھا

چند لمحے یونہی خاموشی کے نذر ہو گئے۔۔۔

کچھ دیر بعد مہرو خود کو بولنے کے قابل بناتی سر اٹھا کر شمس کیطرف متوجہ ہوئی

کب سے۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اسکے ہونٹوں سے مدھم سرگوشی نما آواز ابھری

شمس نے ایک لمبی سی سانس ہوا کے سپرد کی۔۔۔۔۔آج نہیں تو کل یہ بات ہونی تھی پھر آج ہی کیوں نہیں۔۔۔وہ خود کو ہمت دلاتا ساری بات کو تفصیلا کرنے کا فیصلہ کر کے سیدھا ہو بیٹھا

شاید تب سے جب آپ کو پہلی بار دیکھا تھا یا پھر شاید دوسری بار۔۔۔۔۔۔

پہلی۔۔۔۔۔؟؟؟؟

ہوں۔۔۔پہلی بار۔۔۔۔آج سے گیارہ سال پہلے ابرار خان کی مہندی کی رات۔۔۔۔۔

مہندی کی رات کہاں پر۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا

ایکچوئیلی میں اس دن ہرن کے شکار پر اس ایریے میں گیا تھا۔۔۔مجھے بچپن سے ہی ہرن کے شکار کا بہت شوق تھا میرے چچا۔۔۔شمس رکا

میرے چچا سے ہی یہ شوق مجھ میں منتقل ہوا تھا وہ اکثر ہرن کے شکار پر مجھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔۔۔۔۔

میں اس دن اسی مقصد سے وہاں گیا تھا واپسی پر لیٹ ہو گیا تو سوچا زبیر کی طرف رات گزار کر صبح واپسی کے لیے نکل جاؤں گا۔۔۔۔وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ زبیر کے تایا زاد کی مہندی تھی۔۔۔اور زبیر مجھے زبردستی اپنے ساتھ فنکشن میں لے گیا جہاں ابرار کے دوست یار ناچنے گانے میں مگن تھے۔۔۔

وہیں میں نے آپ کو دیکھا تھا۔۔۔۔

چونکہ ہمارے ہاں مردوں کے فنکشنز علیحدہ ہوتے ہیں مردانے میں جہاں عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی اسی لیے آپ اور آپ کی دیگر کزنز چھت سے یہ منظر دیکھنے میں مگن تھیں۔۔۔۔سب لڑکیاں چہرے ڈھانپ کر کھڑی تھیں مگر آپ بنا چہرہ چھپائے گرل پر گرنے کے انداز میں جھک کر اس فضول سے ناچ گانے کو انجوائے کر رہی تھیں۔۔۔۔۔مجھے آپ لوگوں کا چھپ کر اس واہیات سے ڈانس کو دیکھنا مناسب نہیں لگا تھا اور میں نے وہاں زبیر کو بھیجا تھا تاکہ وہ آپ سب کو وہاں سے ہٹا سکے۔۔۔۔۔وہ سانس لینے کو رکا

اوہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔شمس کی بات پر مہرو کے ہونٹ سکڑے تو اس رات ان صاحب کے کہنے پر ہی زبیر لالہ نے وہاں چھاپہ مارا تھا۔۔۔۔اوف خدا کس قدر ڈانٹ پڑی تھی اس رات ہم سب کو۔۔۔۔مہرو نے اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ پر جھرجھری لی

اور دوسری بار جب آپ کی پائل مجھے ملی تھی۔۔۔۔۔شمس نے اسکی خاموشی پا کر اگلی بات بتائی

اتنے سال۔۔۔۔۔۔چند لمحوں بعد مہرو نے پھر مدھم سی سرگوشی کی

جی ہاں اتنے سال۔۔۔۔۔شمس صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر ریلیکس ہو کر بیٹھا اسکے سر سے پہاڑ جتنا بوجھ اتر چکا تھا اسی لیے وہ مطمعین ہو گیا تھا

کیا ملا آپ کو اس سب سے۔۔۔۔۔؟؟

صبر کرنے کا درس اور پھر اس صبر کا پھل۔۔۔۔شمس پرسکون سا بولا

اونہہ۔۔۔۔صبر۔۔۔۔مہرو استہزائیہ ہوئی

آپ جانتے ہیں صبر میں کہیں کسی کو پانے کے لیے کسی کا خون کرنے کا درس نہیں ملتا شمس دلاور خان۔۔۔۔وہ چبا چبا کر کہتی کھڑی ہوئی

آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔۔۔۔شمس کا اطمینان ایک پل میں اڑن چھو ہوا۔۔۔۔وہ اسکی غلط فہمی پر تڑپ کر سیدھا ہو اٹھا

کیا غلط سمجھ رہی ہوں میں۔۔۔یہی کہ آپ نے یشار کو۔۔۔۔مہرو کے الفاظ آنسوؤں کی وجہ سے گلے میں ہی اٹک گئے

فار گاڈ سیک۔۔۔۔۔مہرو آپ میری محبت تھیں ضد نہیں جو میں آپ کو پانے کے لیے اتنا گھٹیا فعل انجام دیتا۔۔۔۔وہ دکھ سے بولا

پھر کیوں کیا آپ نے صبر۔۔۔۔۔جب محبت کی تھی تو کیوں خاموش رہے۔۔۔بولیں کیوں کیا صبر آپ نے۔۔۔۔۔مہرو نے سامنے آ کر شمس کا گریبان دبوچا

کیونکہ میری قسمت میں صبر کرنا لکھ دیا گیا تھا اگر میرا بس ہوتا تو میں آپ کو آج سے نو سال پہلے ہی پا چکا ہوتا جب حشمت خان (مہرو کے بابا) نے میرے منہ پر طمانچہ مارا تھا یہ کہہ کر کہ میں اسکی اکلوتی بیٹی کے قابل نہیں۔۔۔۔۔وہ گریبان پر موجود مہرو کے ہاتھ تھامتا ضبط سے بولا

شمس کے اس انکشاف پر مہرو کے ہاتھ اسکے گریبان پر پھسلتے ہوئے پہلو میں آ گرے۔۔۔۔

یہ کیا کہا تھا شمس نے۔۔۔۔بابا نے۔۔۔۔وہ بے یقین تھی

شمس نے مہرو کی خون نچڑتی شکل دیکھی اسے لگا کہ وہ ابھی زمین بوس ہو جائے گی۔۔۔۔۔اس نے مہرو کو سہارا دیا اور اسکے ساکت وجود کو اپنے ساتھ لگائے بیڈ تک آیا

مہرو کو بیڈ پر بیٹھا کر شمس نے پاس پڑے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور گلاس اسکی طرف بڑھایا

مہرو نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔۔۔یوں جیسے پوچھ رہی ہو میں اس گلاس کا کیا کروں۔۔۔

شمس نے اسکی حالت دیکھتے ہوئے خود ہی گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایا

مہرو نے چند گھونٹ پینے کے بعد شمس کا ہاتھ پیچھے کیا

آپ آرام کریں پھر بات ہو گی۔۔۔۔وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ اسکا ہاتھ مہرو کی گرفت میں آ چکا تھا

شمس نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔ 

ابھی۔۔۔۔ابھی بتائیں مجھے سب۔۔۔۔اسکے لب پھڑپھڑائے

آپ کی طبیعت۔۔۔۔

میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔مہرو نے کہہ کر شمس کا ہاتھ چھوڑ دیا

ہوں۔۔۔۔شمس سر ہلا کر کچھ فاصلے پر پڑی چئیر گھسیٹ لایا۔۔۔۔

وہ دونوں اس وقت آمنے سامنے تھے۔۔۔مہرو بیڈ پر پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی جبکہ شمس اسکے سامنے چئیر پر بیٹھا تھا۔۔

یونیورسٹی مکمل ہونے کے بعد مجھے کسی جاب کی تلاش نہیں کرنی تھی چونکہ میں اکلوتا بیٹا تھا لہذا بابا کا جو بھی تھا وہ میرا تھا اور مجھے انکا ایکسپورٹ کا بزنس سنبھالنا تھا۔۔۔۔اسکے علاوہ زمینیں بھی تھیں جنکی دیکھ بھال کے لیے مزارعے موجود تھے مگر ان کو لوک آفٹر مجھے ہی کرنا تھا لہذا میں نے MBA مکمل کرنے کے چند ماہ بعد ہی خود کو بزنس میں ایڈجسٹ کر لیا تھا۔۔۔

انہی دنوں اماں کو میرے سر پر سہرا سجانے کا خیال آیا اور وہ یہ سہرا میری پسند میری مرضی سے ہی سجانا چاہتی تھیں چونکہ میری پسند اور مرضی آپ تھیں تو میں نے زبیر خان سے اجازت لے کر اماں اور بابا کو لال حویلی بھیجا تھا اپنا پرپوزل دے کر۔۔۔۔۔وہ سانس لے کر پھر سے بولنا شروع ہوا

حشمت خان پر ان دنوں نئے نئے الیکشن جیتنے کا بھوت سوار تھا شاید اسی لیے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی خود سے اونچے لوگوں میں بیاہیں گے جو اسکے قابل ہوں گے۔۔۔

اور حشمت خان کے شایان شان بھی۔۔۔۔جس پر وہ اپنے حلقے کے چند لوگوں میں بیٹھ کر فخر کر سکے گا۔۔۔۔۔

حشمت خان کے ان الفاظ سے انکار پر مجھے بہت غصہ آیا تھا۔۔۔اس نے میرے باپ کو اسکے منہ پر ہی چھوٹے لوگوں کا طعنہ دیا تھا۔۔۔۔۔اگر ان کے سامنے دولت کے معیار سے کوئی چھوٹا بڑا ہوتا تھا تو پھر وہ غلط تھے۔۔۔۔کیا نہیں تھا ہمارے پاس زمینیں، حویلی، گاڑیاں، فیکٹری اور ایسا کیا ہونا چاہیے تھا جو ہمیں ان سے اونچا بنا دیتا۔۔۔۔شمس استہزائیہ ہنسا

میں اس بات کا جواب لینے حشمت خان کے پاس جانا چاہتا تھا مگر بابا نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار انسان عزت سے مانگتا ہے اگر مل جائے تو فخر سے وصول کرتا ہے۔۔۔مگر دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز پر فخر نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ بھیک ملنے کے مترادف ہوتی ہے۔۔۔۔اور ہم اتنے گرے پڑے نہیں کہ کسی کی بھیک وصول کریں۔۔۔۔

بابا کی بات میرے دل کو لگی تھی۔۔۔۔میں نے آپ سے محبت کی تھی اور میں اپنی عزت اور محبت کی خاطر جھک تو سکتا تھا مگر جھک کر عزت اور محبت نہیں مانگنا چاہتا تھا۔۔۔کیونکہ میں آپ کو پورے فخر سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا خواہشمند تھا

 اسی لیے خاموش ہو گیا۔۔

زبیر خان نے مجھ سے اس انکار پر معذرت کی تھی ہم اچھے دوست تھے اور اچھے دوست ہی رہنا چاہتے تھے مگر پھر بھی وقت کی گرد بہت سے اچھے رشتوں پر اپنی گرد ڈال جاتی ہے۔۔۔۔یوں میرا اور زبیر کا رابطہ بھی فون کالز پر مشتمل ہو گیا۔۔۔۔۔کئی مہینوں بعد ہم فون پر ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر لیتے۔۔۔اور انہی فون کالز میں مجھے آپ کی یشار خان آفریدی سے شادی کا پتہ چلا۔۔۔۔شمس اس وقت کی اذیت کو یاد کر کے خاموش ہوا 

چند منٹ بعد وہ خود کو کمپوز کرتا پھر سے بولنے کے قابل ہوا۔۔۔

اس کے بعد میری طرف سے ان فون کالز کا رابطہ بھی ختم ہو گیا تھا۔۔۔

گھر والوں نے میری چپ اور خاموشی کے پیش نظر پروشہ سے میری شادی طے کر دی کہ شاید اس شادی سے ہی مجھ میں کچھ بہتری آئے۔۔۔۔

بہتری تو آ چکی تھی مجھ میں شاید پروشہ کی بدولت یا پھر وقت کی بدولت۔۔۔۔۔بہت کچھ نہ ٹھیک ہو کر بھی سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔۔

اس دن بھی میں ہرن کے شکار پر ہی گیا تھا جب میری بندوق سے نکلنے والی گولی یشار خان کی جان لے گئی۔۔۔۔شمس نے بات مکمل کر کے لمبی سی سانس لی اور سر کرسی کی بیک سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں یوں جیسے اتنی لمبی مسافت طے کرنے سے تھک گیا ہو۔۔

راہ دے وچ کھلونا اوکھا

اپنا آپ لکونا اوکھا

اینی ودھ گئی دنیاداری

کلیاں بہہ کے رونا اوکھا

داغ محبت والا باہو

لگ جاوے تے دھونا اوکھا۔۔۔۔۔۔۔!!

مہرو نے سر اٹھا کر شمس کو دیکھا جس کے چہرے پر تھکن تھی۔۔۔۔دکھ تھا۔۔۔اذیت تھی۔۔۔۔اور۔۔۔شاید اطمینان بھی تھا۔۔۔سب کچھ کہہ دینے کا اطمینان۔۔۔۔

آپ کے بابا نے کہا تھا کہ دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز بھیک تصور کی جاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ کیوں گئے میرا ہاتھ مانگنے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو بجھی بجھی سی پوچھ رہی تھی

اسکی بات پر شمس آنکھیں کھولتا سیدھا ہوا

میں نہیں جانتا۔۔۔۔وہ مجھ سے پوچھے بنا ہی گئے تھے زبیر خان کے پاس۔۔۔۔وہ نظریں چرا کر بولا

آپ نہیں جانتے مگر میں جانتی ہوں۔۔۔۔وہ اطمینان سے بولی

شمس نے حیرانگی سے دیکھا مہرو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

دوسری بار آپ کے بابا نہیں گئے تھے بلکہ میرے لالہ آئے تھے ان کے پاس۔۔۔۔۔مہرو نے آہستگی سے انکشاف کیا

آپ۔۔۔۔آپ سے کس نے کہا۔۔۔۔؟؟شمس اٹک کر بولا

میں چند دن پہلے آپ سے خفا ہو کر لال حویلی گئی تھی۔۔۔ 

شمس نے لفظ خفا پر پھر سے حیرت کا اظہار کیا۔۔

آپ نہیں جانتے تھے کہ میں آپ سے خفا ہوں پر میں آپ سے خفا ہو کر ہی گئی تھی۔۔۔

اس روز صفائی کے دوران آپکی اسٹڈی سے مجھے یہ باکس ملا تھا۔۔۔مہرو نے ٹیبل پر پڑے باکس کیطرف اشارہ کیا

اس میں سے نکلے کارڈ پر میں نام مہر پڑھ کر ٹھٹھکی تھی اور اس میں موجود ساری مخملی ڈبیوں میں پائلیں دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ یہ مہر میں ہوں۔۔۔میں آپ سے پوچھ کر اپنا شک دور کر سکتی تھی مگر اس وقت مجھے آپ پر بہت غصہ تھا اس لیے میں آپ سے خفا ہو کر لال حویلی چلی گئی تھی

وہیں میں نے زبیر لالہ اور اماں کی باتیں سن لیں تھیں۔۔۔مہرو بات کرتے ہوئے انگلی سے اپنی ہتھیلی پر مختلف لائنیں کھینچ رہی تھی

اماں کو میرے آپ کے ساتھ خوش نہ ہونے کا خدشہ تھا۔۔۔

ان کے خدشے کہ جواب میں لالہ نے کہا کہ مجھے شمس پر پورا یقین ہے کہ وہ مہرو کو خوش رکھے گا اسی لیے تو میں اسکے بابا دلاور خان کے پاس گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔تب نہ سہی اب تو شمس اور مہرو کی شادی ہو سکتی ہے۔۔۔۔ان کا ظرف بلند تھا جو وہ اپنی بیگم کیساتھ میرے کہنے پر شمس کا رشتہ لے کر آئے تھے۔۔۔۔

یہ بات سن کر میں الٹے قدموں پلٹ آئی تھی اپنے کمرے میں نہیں بلکہ واپس یہاں آپ کی حویلی۔۔۔کیونکہ اب میں لالہ سے خفا تھی کہ انہوں مجھے بوجھ سمجھ کر پھینکنے کی بات کی۔۔۔مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ انہوں نے خود سے ایسا کیوں کیا مگر اب۔۔۔۔۔

اب۔۔۔۔۔شمس نے اسے بات جاری رکھنے پر اکسایا

کچھ نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایا

آپ کو برا لگا یہ سب سن کر کہ میں آپ سے۔۔۔۔

پتہ نہیں۔۔۔۔وہ شمس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ کر کھڑی ہوئی

کیا ہوا۔۔۔۔؟؟

سامنے سے ہٹیں۔۔۔۔

مہرو آپ اب بھی خفا ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟

کیا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔؟؟الٹا سوال ہوا

پر اب کیوں۔۔۔۔؟؟ میں آپ کو ساری بات بتا چکا ہوں

میں ساری بات سن کر ہی خفا ہوئی ہوں۔۔۔وہ نتھنوں کو پھلا کر خفگی سے بولی

شمس اسکے پھولے نتھنے دیکھ کر مسکرا دیا

کیا ہوا۔۔۔۔؟؟مہرو نے حیرت سے اسکی مسکراہٹ دیکھی

میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں مہر۔۔۔۔شمس نے مسکراہٹ دبا کر محبت کا اظہار کیا

سامنے سے ہٹیں آپ۔۔۔وہ شمس کی نظروں سے کنفیوز ہوئی

میری محبت کا جواب اس طرح سے دیں گی کیا۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھا مہرو کے چہرے پر نو لفٹ کے تاثرات دیکھ کر۔۔

میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولی

تو مجھے اجازت دیں کرنے کی۔۔۔۔میں آپ کو بھی سکھا دوں گا۔۔۔۔

مہرو نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔۔۔ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ سجائے ، آنکھوں میں شرارت اور محبت لیے وہ اسی کو دیکھ رہا تھا

مہرو نظریں جھکا کر نیچے دیکھنے لگی

مہر کیا ہم گزری باتوں کو بھلا کر اپنی نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتے۔۔۔۔؟؟؟وہ مہرو کو مہرو کی بجائے مہر کہہ کر بات کر رہا تھا

کیا آپ نے مجھے معاف نہیں کیا اب تک۔۔۔۔۔؟؟؟

کر چکی ہوں۔۔۔۔۔

پھر یہ دوری کیوں۔۔۔۔؟؟

آپ کی وجہ سے۔۔۔۔

میری۔۔۔۔؟؟وہ حیران ہوا

ہوں۔۔۔۔مہرو نے سر ہلایا

وہ کیسے۔۔۔۔؟؟؟

اگر آپ پہلے بتا دیتے کہ آپ مجھ سے محبت کرتے تھے تو۔۔۔۔مہرو نے زبان دانتوں تلے دبا کر خفگی سے شمس کو دیکھا

مجھے تم سے شکایت ہے۔۔۔۔

تم نے زندگی بھر مجھ کو۔۔۔۔

 خبر یہ بھی نہ ہونے دی۔۔۔

تمہیں مجھ سے محبت ہے۔۔۔

اسکی خفا خفا نظریں شمس سے شکایت کر رہیں تھیں

میں آپ سے کیا کرتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اسکی بات پر محظوظ ہو کر پوچھا

پلیز مجھے جانے دیں شمس۔۔۔وہ منمنائی

پھر سے کہو۔۔۔۔

کیا۔۔۔۔؟؟

شمس۔۔۔۔اپنا نام تمہارے منہ سے سن کر بہت اچھا لگا مجھے۔۔۔بہت سال پہلے یہ خواہش کی تھی کہ تم مجھے میری ہو کر اسطرح سے پکارو۔۔۔۔شمس ایک دم سے فاصلے مٹاتا آپ سے تم پر آ چکا تھا

مہرو نے شرما کر پاس سے نکلنا چاہا مگر شمس نے بازو پھیلا کر راستہ روک لیا

کیا ہے آپ کو۔۔۔۔؟؟

محبت۔۔۔۔وہ محبت سے بولا

تو میں کیا کروں۔۔۔۔؟؟

محبت۔۔۔۔۔۔۔!

شمس کے جواب اور نظروں پر گھبرا کر مہرو اسے پیچھے دھکیلتی دروازے کی طرف بھاگی۔۔

مہر۔۔۔۔رر۔۔۔ر

رکو بات تو سنو میری۔۔۔شمس پکارتا اسکے پیچھے ہی باہر آیا

مہرو اسکے باہر نکلنے پر دل پر ہاتھ رکھتی قریبی پلر کی اوٹ ہو گئی 

شمس نے باہر نکل کر ادھر أدھر نگاہ دوڑائی۔۔

اتنی جلدی کہاں غائب ہو گئی۔۔۔؟؟وہ کھڑا سوچ رہا تھا جب چند گز کے فاصلے پر بنے پلر کی اوٹ سے چوڑیوں کی کھنک سنائی دی 

وہ مسکراہٹ دباتا اس جانب بڑھا

مجھ سے بچ کر کہاں جائیں گی اب۔۔۔

کہیں بھی نہیں۔۔۔۔مہرو کھکھلا کر کہتی اسکے ہاتھ جھٹک کر سیڑھیوں کی جانب بھاگی

میں اب بلکل بھی نہیں چھوڑنے والا۔۔۔شمس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دی۔۔۔وہ پھر سے اسکی قید سے رفو چکر ہو چکی تھی

تو کون کہہ رہا ہے چھوڑنے کو۔۔۔۔وہ کھلکھلاتی سیڑھیاں اتر گئی

مہرو کے چہرے پر ان گنت دھنک رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔

خود کو چاہے جانے کی خوشی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔کوئی مہرو سے پوچھتا جو اس وقت ہنستی ،مسکراتی ،آنچل لہراتی سیڑھیاں پھلانگ رہی تھی

خود کو چاہے جانے کا احساس انسان کو مغرور بنا دیتا ہے۔۔

وہ بھی تھوڑی مغرور نظر آ رہی تھی۔۔۔کوئی اسے اتنے سالوں سے چاہتا رہا تھا یہ بات اسے گزرے ماضی کو بھلانے کے لیے کافی تھی۔۔۔

دوسری طرف شمس اسکی کھلکھلاہٹ پر پرسکون سا کھڑا اسے زینے اترتے دیکھ رہا تھا۔۔۔

آخر اتنے لمبے اور کھٹن صبر کے بعد اسے اسکی محبت مل ہی گئی تھی۔۔۔اسے اسکے صبر کا پھل مل چکا تھا۔۔

وہ خوش تھا۔۔۔بہت زیادہ خوش۔۔۔۔۔

………………………………………………………

کتنے سال گزرے گئے ناں یشب۔۔۔۔۔!!

وہ اس وقت جھیل کنارے ایک ہی پتھر پر ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔ہیر نے یشب کے بازو سے اپنا بازو گزار کر سر اسکے کندھے پر رکھا ہوا تھا جبکہ یشب اپنی گود میں دھرا ہیر کا ہاتھ تھامے تھرڈ فنگر میں پہنی رنگ کو آگے پیچھے کر رہا تھا

ہیر کی بات پر اس نے مسکرا کر "ہوں" کہا

آپ کو یاد ہے ہماری پہلی ملاقات۔۔۔

بھول سکتا ہوں کیا۔۔۔۔؟؟؟

اتنے زیادہ سال گزر چکے ہیں میں سوچتی ہوں تو مجھے حیرت سی ہوتی ہے۔۔۔۔وہ بےیقینی سے بولی

حیرت کیوں۔۔۔۔؟؟یشب نے ابرو اچکائے

یہی کہ میں نے اتنے سال آپ کو کیسے برداشت کر لیا۔۔

یشب کی گھوری پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔

یہ کہو کہ میں نے کیسے تم جیسی موٹی بیوی کیساتھ گزارا کر لیا اسکے باوجود کہ مجھے موٹی لڑکیاں پسند نہیں۔۔۔۔یشب نے بھی پورا بدلہ اتارا

اب اتنی بھی موٹی نہیں ہوں۔۔۔۔ہیر برا مان کر بولی

ہو تو۔۔۔۔وہ اسے چڑا کر مسکرایا 

اچھا بس مذاق چھوڑیں یہ بتائیں ہم کب جا رہے ہیں کاغان۔۔۔۔؟؟

بچوں کے ایگزامز تو ختم ہو لینے دو بے صبری محبوبہ۔۔۔۔یشب نے شرارت سے اسکی ناک کھینچی

بچوں کے ایگزامز نیکسٹ ویک ختم ہو رہے ہیں۔۔۔۔کل بھابھی کا بھی فون آیا تھا کہہ رہی تھی پروگرام فائنل کر کے بتا دو تاکہ شمس اپنا شیڈول سیٹ کر کے وقت نکال سکیں

ہاں تو کہہ دو بچوں کے لاسٹ پیپر والے دن تک ریڈی رہیں پھر نکل پڑیں گے۔۔

ہوں۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلایا

ماما۔۔۔ماما۔۔۔۔۔۔۔

چھ سالہ حنین ہیر کو پکارتی ہوئی سامنے سے بھاگتی آ رہی تھی جبکہ حنان بیٹ پکڑے اسکے پیچھے بھاگ رہاتھا

واٹ ہیپنڈ۔۔۔؟؟

وہ بھاگ کر ہیر کی گود میں منہ چھپا گئی۔۔

ماما "باسی نان" مجھے مار رہا ہے۔۔۔

اسکی بات پر ہیر اور یشب دونوں نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔

ماما یہ مجھے پھر سے باسی نان کہہ رہی ہے۔۔۔حنان پاس آ کر خفگی سے بولا


حنین کو سب ہنی کہتے تھے جبکہ حنان کا نک نیم بھی یہی بنتا تھا مگر اسے سب حنان ہی کہتے جس پر وہ اکثر چڑتا کیونکہ اسے لگتا تھا ہنی لفظ حنین کی بجائے اس پر زیادہ جچتا ہے اور محترمہ حنین صاحبہ اسی بات پر اسے باسی نان کہہ کر مزید ٹارچڑ کرتی تھیں۔۔

ہنی بیٹا مت تنگ کیا کرو بھائی کو۔۔۔۔ہیر نے حنان کو قریب کرتے ہوئے حنین سے کہا۔۔۔

جو اب یشب کی گود میں چڑھ کر اسکا سیل پکڑے کینڈی کرش کھیلنے میں مگن تھی۔

یہ ہے ہی باسی نان جیسا۔۔۔گال دیکھیں کیسے پھولے ہوئے ہیں یوں جیسے نان پھٹنے والا ہو۔۔۔

حنین۔۔۔ن۔۔۔ن۔۔۔ہیر نے تنبیہہ کی

جب کے یشب نے سزا کے طور پر سیل لے کر اسکی پہنچ سے دور کر دیا۔۔

بابا۔۔۔بابا پلیز۔۔۔پلیز سیل دیں مجھے گیم کھلینی ہے۔۔۔وہ بےقراری سے بولی

پہلے حنان کو سوری بولو۔۔۔۔

یشب کی بات پر حنان کا بجھا چہرہ کھل اٹھا۔۔۔حنین میڈم سوری کریں گی مجھ سے وہ گردن اکڑا کر کھڑا ہوا

ہیر مسکراہٹ روکے اسکے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی۔۔

حنین نے برا سا منہ بنا کر حنان سے سوری کرنے کی بجائے سوری پھینکا کھٹاک سے عین منہ پر۔۔۔۔۔

اٹس اوکے۔۔۔۔حنان نے بھی لٹھ مار انداز میں احسان کر کے سوری قبول کی

چلو بھئی تم دونوں کی صلح ہو چکی ہے اب اٹھو گھر چلتے ہیں بی بی جان انتظار کر رہی ہوں گی۔۔۔

یشب نے حنین کو گود سے اتار کر کھڑا کیا اور خود بھی کھڑا ہوا

بابا کچھ دیر اور رکتے ہیں ناں۔۔۔۔حنین نے للچاتی نظروں سے یشب کو سیل پاکٹ میں رکھتے دیکھ کر کہا

نہیں۔۔ابھی چلو پھر آئیں گے سویٹ ہارٹ۔۔۔وہ مسکرا کر اسکی پونی کھینچتا بازو پکڑ کر چل پڑا۔۔

ہیر نے حنان کی جیکٹ کی زپ بند کر کے کیپ اسکے سر پر دی اور چادر درست کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔

یہ محتصر سا آئیڈل قافلہ ایک دوسرے کیساتھ ہنستا ، مسکراتا، اٹھکلیاں کرتا واپس جا رہا تھا۔۔۔

………………………………………………………

یہ آفریدی حویلی کے ہال کا منظر ہے جہاں سے ابھی بابا جان اور دلاور خان نکل کر مردانے کی طرف گئے تھے جہاں قبیلے سے آئے کچھ مرد مہمان ان کا انتظار کر رہے تھے۔۔

 اور ہال کے اندر موجود تخت پر بی بی جان اور خدیجہ بیگم بیٹھیں آہستہ آواز میں گھٹنوں اور جوڑوں کے درد پر تبادلہ خیال کر رہیں تھیں۔۔۔

جبکہ ان سے کچھ فاصلے پر کارپٹ پر چوکڑی مارے چودہ سالہ حدید، سات سالہ حمزہ اور چھ سالہ حنان بیٹھے مسٹر بین دیکھ رہے تھے۔۔۔۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد مسٹر بین کی حرکتوں پر وہ ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر محظوظ بھی ہو رہے تھے۔۔۔۔

اب اگر ان سے تھوڑا آگے دائیں جانب دیکھا جائے تو وہاں چھ سالہ حنین اور نو سالہ دعا بیٹھیں ٹیچر ٹیچر کھیل رہی تھیں۔۔۔

حنین ٹیچر بنی ہوئی تھی جبکہ دعا اس سے بڑی ہو کر بھی ابھی اسٹوڈینٹ ہی تھی۔۔۔

حدید کا حنین کو پٹاخہ کہنا کچھ غلط بھی نہ تھا وہ واقعی اس خاندان میں ایک پٹاخہ ہی تھی۔۔۔حالانکہ حنین اور حنان دونوں ٹوئنز تھے مگر دونوں ایک دوسرے کے الٹ تھے حنین جتنی کلیور اور منہ پھٹ تھی حنان اتنا ہی سیدھا اور شریف تھا مگر حنین سے پوری ٹکر لیتا تھا وہ شریف ہو کر بھی۔۔۔

اب یہ تو ہو گئی بچوں کی کہانی اب آگے بڑھتے ہیں بچوں کے اماؤں ، اباؤں کی طرف۔۔۔۔

بی بی جان اور خدیجہ جس تخت پر بیٹھیں تھیں اس تخت کے بلکل سامنے صوفوں پر یشب اور شمس لیب ٹاپ اور فائلز کھولے بزنس کے معاملات ڈسکس کر رہے تھے۔۔

یشب نے ہیر کے کہنے پر الیکشن سے ڈراپ آوٹ کر دیا تھا اور پھر کچھ عرصے بعد بابا جان کے کہنے پر شمس کیساتھ مل کر لیدر کا بزنس شروع کر دیا تھا اور اب وہ دونوں شافے انڈسٹریز سے ہوئے کنٹریکٹ کو ہی ڈسکس کر رہے تھے شاید۔۔۔۔۔

ان کے قریبی سنگل صوفوں میں سے ایک پر مہرو بیٹھی تھی ٹانگیں اوپر کیے گود میں البم رکھے۔۔۔حالیہ کاغان ٹریپ پر لی گئی تصویریں دیکھ رہی تھی۔۔

ساتھ ساتھ پاس پڑے باؤل سے پاپ کارن بھی اٹھا کر منہ میں رکھ لیتی۔۔

ماما میں یہ لے جاؤں۔۔۔۔حمزہ (شمس اور مہرو کا بیٹا ( نے پاپ کارن کے باؤل کی طرف اشارہ کیا

ہاں میری جان لے جاؤ۔۔۔۔مہرو مسکرا کر بولی

حمزہ باؤل اٹھا کر واپس حدید اور حنان کیطرف بھاگ گیا

مہرو مسکرا کر ایک نظر بچوں پر ڈالتی پھر سے البم الٹ پلٹ کرتی غور سے تصویریں دیکھنے لگی۔۔۔

ہیر نے ہال کے داخلی دروازے میں کھڑے ہو کر یہ منظر اپنی مسکراتی نظروں سے دیکھا۔۔

وقت کیساتھ کتنا کچھ بدل گیا تھا۔۔

ہیر اور یشب دو عدد ٹوئنز بچوں کے ماں باپ بن چکے تھے۔۔

حدید اور دعا کے بعد شمس اور مہرو کو اللہ نے حمزہ سے نوازا تھا۔۔

بڑے بزرگ سب ان کے سروں پر سلامت تھے جو کہ اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا احسان تھا ان پر اور سب سے بڑھ کر یشب اور شمس کی صلح اور دوستی تھی۔۔

ہیر نے مسکراتے ہوئے یشب کی طرف دیکھا جو شمس کی بات سنتا کان پکڑے ہوئے تھا اور شمس شاید اسے کسی بات پر کھری کھری سنا رہا تھا۔۔

اسے بی بی جان کی کہی برسوں پرانی بات یاد آئی۔۔

"وقت کیساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ہیر"

اور ان کی بات کے جواب میں ہیر نے کہا تھا۔۔۔۔

"نہ اب تک کچھ ٹھیک ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ٹھیک ہو گا بی بی جان"

مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔ 

وقت نے واقعی بہت کچھ ٹھیک کر دیا تھا۔۔۔

اس نے ایک لمبی سی پرسکون سانس لے کر رب کائنات کی بابرکت ذات کا ڈھیروں ڈھیر شکر ادا کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر چائے کی ٹرے لیے آگے بڑھی گئی جہاں اسکے اپنے اسکے ہاتھوں کی بنی چائے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔

ہیر کی بنی چائے کو اب چائے کہا جا سکتا تھا کیونکہ اب وہ واقعی چائے ہی بناتی تھی نہ کہ جوشاندہ۔۔۔۔۔!

وفا کہ قید خانوں میں

سزائیں کب بدلتی ہیں؟؟

بدلتا دل کا موسم ہے 

ہوائیں کب بدلتی ہیں؟؟

میری ساری دعائیں 

تم سے ہی منسوب ہیں ہمدم

محبت ہو اگر سچی 

دعائیں کب بدلتی ہیں؟؟

کوئی پا کر نبھاتا ہے

کوئی کھو کر نبھاتا ہے

نئے انداز ہوتے ہیں 

وفائیں کب بدلتی ہیں؟؟

     ••••••••• •••• ••••••

 ضروری نہیں کہ ہر ونی ہو کر آنے والی ہیر کیساتھ ایسا ہی ہو جسے یشب آفریدی جیسا چاہنے والا شریک سفر ملا۔۔۔۔۔یا پھر ہر بیوہ ہونے والی مہرو کیساتھ کہ جسکے اپنوں نے اسے وہ خوشیاں لوٹائیں جن پر اس کا حق تھا۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہاں اکثر بہن بیٹیاں اپنے باپ بھائیوں کی خاطر خون بہا اور دیگر ایسے ہی افعال میں ونی کر دی جاتیں ہیں اور پھر انہیں بے زبان جانور سمجھ کر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی گناہ سے کم نہیں۔۔۔۔

گالم گلوچ، مارپیٹ حتی کہ اکثر اوقات جسم کے کسی حصے کو کاٹ کر اس کو سزا اور اذیت دی جاتی ہے جو اس سارے قصے میں بے قصور ہوتی ہے۔۔

اور بیوہ عورت کو بیوگی کی چادر اوڑھا کر سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے کہ اس کا خوشیوں پر کوئی حق نہیں یا پھر اگر وہ شادی کر لیتی ہے تو اس پر تحقیر آمیز جمعلات پھینکے جاتے ہیں۔۔۔

کیا ایک مرد کو جنم دینے والی عورت کیساتھ یہ سلوک زیب دیتا ہے۔۔۔۔۔؟؟

کیا ایک عورت اتنی ارازاں ہے کہ اسے ان ظالمانہ اور جاہلانہ رسومات کی بلی چڑھا دیا جائے

کیا وہ انسان نہیں۔۔۔۔کیا وہ پتھر کی بنی مورت ہے جو جذبات اور احساسات سے مبرا ہو۔۔۔۔کیا وہ اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ اپنے ہی جنم دئیے مرد کی محکوم بن جائے

نہیں۔۔۔۔۔عورت محکوم نہیں۔۔۔۔نہ ہی اتنی ارازاں کے چند لوگوں کے ہجوم کی بنی پنچائیتوں اور جرگوں میں بیٹھا کر کسی کے بھی حوالے کر دی جائے۔

عورت تو۔۔۔۔۔۔۔! 

عظمت ہے۔۔۔۔۔

عزت ہے۔۔۔۔۔

ماں ہے۔۔۔۔۔ 

بہن ہے۔۔۔۔

بیٹی ہے۔۔۔۔

بیوی ہے۔۔۔۔

اتنے خوبصورت رشتے بنتے ہیں اس عورت کیساتھ جو اپنے سگوں کی عزت اور شان و شوکت کی خاطر ایسی فرسودہ اور ظالمانہ رسومات پر قربان کر دی جاتی ہے۔۔۔

کیوں۔۔۔؟؟؟

کیوں ہوتا ہے ایسا۔۔۔؟؟؟

اور کب تک ہوتا رہے گا۔۔۔۔؟؟؟ 

سوچئیے گا ضرور۔۔۔۔۔!!!

"جب ہوس گھائل کرے مجھ کو نظر کے تیر سے۔۔۔

اس گھڑی کرتی ہوں شکوہ کاتب تقدیر سے۔۔۔۔

ہائے مجھ عورت کی قسمت کیا بتاؤں کیا کہوں۔۔۔؟

کاٹتا ہے میری شہہ رگ باپ بھی شمشیر سے۔۔۔

غیر چن دیتے ہیں مجھ کو جیتے جی دیوار میں۔۔۔

اپنے غیرت میں جکڑتے ہیں مجھے زنجیر سے۔۔۔۔

سارے رشتے مجھ کو عبرت ناک دیتے ہیں سزا۔۔۔۔

مانگتا ہے مال و زر شوہر بھی مجھ دلگیر سے۔۔۔۔

اور جب تیزاب سے جھلسا دیا جائے مجھے۔۔۔۔

ہر کسی کو خوف آتا ہے میری تصویر سے۔۔۔

عمر بھر خدمت کروں پر پھر بھی ہو جاتی ہوں میں۔۔۔۔

گھر سے باہر تین لفظوں کی فقط تحریر سے۔۔۔۔

اے رضا مردوں سے میرا ہے فقط اک یہ سوال۔۔۔!

کب میں دنیا میں جئیوں گی عزت و توقیر سے۔۔۔۔۔؟؟

 •••••••••••••• دی اینڈ •••••••••••••••