زیادتی
قسط نمبر 18
مہرو سب بڑوں ، بزرگوں کی دعاؤں تلے رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی آ چکی تھی۔۔۔ہیر بھی اسکے ساتھ آئی تھی۔۔۔چند روایتی رسموں کے بعد ہیر مہرو کو اسکے کمرے میں لے آئی تھی۔۔۔یہ کمرہ ہیر نے ہی ڈیکوریٹ کروایا تھا وہ مہرو کو شمس اور پروشہ کے کمرے میں نہیں لے جانا چاہتی تھی اسی لیے اس نے مہرو اور شمس کے لیے نیا کمرہ سیٹ کروا دیا تھا۔۔۔۔
ہیر نے مہرو کو کمرے میں لا کر بیڈ پر بیٹھایا
یہ آپ کا کمرہ ہے بھابھی۔۔۔۔اسکی ہر چیز آپکی ملکیت ہے بلکہ یہ حویلی یہ گھر بھی آج سے آپ ہی کا ہے۔۔۔۔امید ہے آپ بنا کسی تکلف کے یہاں کی ہر چیز کو یہاں کے مکینوں سمیت اپنا سمجھیں گی۔۔۔۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو بہت سی خوشیوں سے نوازے۔۔۔۔وہ سب خوشیاں جو آپ کا حق ہیں۔۔۔۔۔
میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں۔۔۔ہیر نے تفصیلی بات کر کے پو چھا
نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے نفی میں سر ہلایا
ٹھیک ہے میں جاتی ہوں آپ ریلیکس ہو کر بیٹھیں بھابھی۔۔۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی سولاؤں گی
ہیر حدید کو بھی اپنے ساتھ ہی لے کر آئی تھی
ہوں۔۔۔۔۔
بیسٹ آف لک۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی کمرے سے چلی گئی
پیچھے مہرو بے چینی سے انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ہتھیلیاں بار بار پسینے سے بھیگتیں جنہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کپڑوں سے رگڑ کر صاف کر لیتی۔۔۔۔عجیب سی ہیزیٹیشن تھی حالانکہ نکاح سے پہلے وہ بلکل بھی کنفیوز نہ تھی پھر اب کیوں ایسا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔؟؟
مہرو نے دل کی دھک دھک سے بے چین ہو کر پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور پینے لگی۔۔۔۔پانی پی کر وہ سیدھی ہوئی تھی جب آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھلا اور شمس اندر داخل ہوا۔۔۔۔مہرو نے اسے دیکھے بغیر ہی سر جھکا دیا۔۔۔۔
شمس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب آ کھڑا ہوا
مہرو بیڈ سے ٹانگیں نیچے لٹکا کر ہاتھوں کو مضبوطی سے دبوچے سر جھکائے بیٹھی تھی
شمس نے ایک نظر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر آہستگی سے سلام کیا
مہرو نے سر کی ہلکی سی جنبش سے اسکے سلام کا جواب دیا
میں جانتا ہوں یہ سب آپ کے لیے آسان نہیں تھا۔۔۔۔۔۔میں یشار کا قاتل ہوں اور اسکے قاتل کو کسی بھی رشتے میں قبول کرنا یقینا آپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔۔۔۔۔۔
بے شک میں نے یشار خان کو جان بھوج کر نہیں مارا تھا مگر اسے گولی میرے ہاتھوں ہی لگی تھی۔۔۔۔۔جس کا پچھتاوا مجھے آج تک ہے اور شاید مرتے دم تک رہے گا۔۔۔۔شمس نے افسردگی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے کہا
بابا زبیر کو اچھے سے جانتے تھے اسی لیے انہوں نے مجھ سے مشورہ کیے بغیر ہی اس سے رشتے کی بات کر لی۔۔۔۔اگر مجھے انکے فیصلے کا علم ہوتا تو میں بلکل بھی انہیں اس بات کی اجازت نہ دیتا کیونکہ جس طرح یہ سب آپ کے لیے مشکل ہے اسی طرح میرے لیے بھی۔۔۔۔۔میں خود کو آپ کا مجرم تصور کرتا تھا اور شاید آگے بھی کرتا رہوں۔۔۔۔مجھ سے جو ہو چکا اسکی کوئی معافی نہیں ہے میں جانتا ہوں لیکن پھر بھی آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔۔وہ سانس لینے کو رکا
مہرو دم سادھے شمس کو سن رہی تھی۔۔
آپکے گھر والوں کے دل بہت بڑے ہیں میں انکی بڑائی کی دل سے قدر کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل جانا کہ اپنی بیٹی میرے حوالے کی۔۔۔۔۔
یہ گھر آپ کا ہے۔۔۔۔۔۔آپ جس طرح چاہیں یہاں رہ سکتی ہیں
میں کسی بھی معاملے میں آپ کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔آپ کو میری ذات سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔۔۔۔۔وہ پھر سے رک کر سانس لینے لگا
مجھے کسی چیز کی کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے آپ ریلیکس ہو کر رہیں۔۔۔۔۔میں خود کو اور آپ کو وقت دینا چاہتا ہوں اس رشتے کو قبول کرنے کا۔۔۔۔۔۔کیونکہ وقت ہی ہر زخم،، ہر دکھ کا بہترین مرہم ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔
آپ جتنا چاہیں وقت لے سکتیں ہیں۔۔۔۔۔میں آپکے ہر عمل ہر فیصلے کی دل سے قدر کروں گا۔۔۔لہذا آپ ریلیکس ہو جائیں
شمس اپنی بات مکمل کر کے ایک اچٹتی نظر مہرو کے جھکے سر اور انگلیاں چٹخاتے ہاتھوں پر ڈال کر اسٹڈی کی طرف چلا گیا
اور وہ واقعی ریلیکس ہو چکی تھی۔۔۔۔مہرو نے سر اٹھا کر شمس کی پشت کو دیکھا اور پرسکون ہو کر سر بیڈ کی بیک سے ٹکا دیا۔۔۔۔۔
وہ جس بات سے کنفیوز تھی اس بات کے لیے شمس اسے وقت دے چکا تھا
اور مہرو کو وقت ہی تو چاہیے تھا۔۔۔۔۔
…………………………………………………….
اگلے دن چند ضروری مہمانوں کی موجودگی میں ولیمے کا چھوٹا سا فنکشن ارینج کیا گیا تھا
لال حویلی اور آفریدی حویلی سے سب آئے تھے سوائے یشب کہ۔۔۔۔۔
ہیر کی یشب سے ناراضگی کا گراف مزید اونچا ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ فنکشن کے بعد واپس نہیں جانا چاہتی تھی مگر بی بی جان کے کہنے پر وہ انکار نہ کر سکی تھی اسلئیے انکے ساتھ ہی واپس آ گئی۔۔۔۔۔۔
مہرو بھی حدید کو لیے ایک ، دو دن رہنے اپنے گھر والوں کیساتھ واپس چلی گئی تھی
وہ لوگ جب حویلی پہنچے تو یشب گھر پر نہیں تھا
ہیر نے چینچ کرنے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی اور بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔۔۔۔کافی دن کی تھکان تھی اسلیے کب اسکی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا
……………………………………………………
یشب جب کمرے میں داخل ہوا تو ہیر کے سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔۔۔۔وہ تو سوچ رہا تھا محترمہ چار ، پانچ دن تک واپس نہیں آنے والی ہیں۔۔۔۔مگر اب اسے دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا
ہیر گہری نیند میں تھی یشب نے مسکراہٹ دبا کر اسکی چہرے پر آئی لٹ کو پکڑ کر زور سے کھینچا
کیا ہوا۔۔۔۔کون۔۔۔۔۔؟؟ہیر ڈر کر اٹھ بیٹھی
سامنے یشب کو مسکراتے دیکھ کر وہ غصے سے چیخی
یہ کیا بدتمیزی تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟
بدتمیزی۔۔۔۔کیسی بدتمیزی۔۔۔؟؟وہ انجان بنا
اتنی اچھی نیند آئی تھی مجھے اور آپ نے جگا دیا شیم آن یو مسٹر۔۔۔۔اب کھڑے ہو کر دانت کیوں نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی
چڑیل لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔یشب نے اسکے بکھرے بالوں کی طرف اشارہ کیا
اور آپ بھی بھوت لگ رہے ہیں یوں ہنستے ہوئے۔۔۔۔
اچھا بتاؤ اتنی جلدی کیسے واپسی ہو گئی۔۔۔۔؟؟
میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں لہذا مجھے سونے دیں۔۔۔۔ہیر نے کمبل میں منہ چھپایا
پابند تو ہو تم میری۔۔۔۔مگر ہوا کیا ہے جانانه (ڈارلنگ) ۔۔۔۔؟؟؟یشب نے چھیڑتے ہوئے اسکا کمبل ہٹایا
یشب کیا مسلہ ہے۔۔۔۔۔۔؟؟
کیا ہوا خفا کیوں ہو۔۔۔؟؟
آپ تو ننھے کاکے ہیں ناں جو جانتے نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔یشب اسکے لفظ ننھے کاکے پر دل کھول کر ہنسا
ہیر غصیلی نظروں سے اسے گھور رہی تھی
چلو ساری خفگی ختم کر کے دوستی کرتے ہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتا ہاتھ بڑھا کر اسکے سامنے بیٹھا
مجھے کوئی دوستی ووستی نہیں کرنی آپ سے آپ جانتے ہیں آپ نے کیا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟
سوری فار ڈیٹ۔۔۔۔۔
کتنا آسان ہے آپ کے لیے کچھ بھی کر کے سوری کہہ دینا۔۔۔وہ ابھی بھی خفا تھی
مسلہ کیا ہے سوری کر تو رہا ہوں اب اور کیا کروں۔۔۔۔۔؟؟
مجھ سے بات مت کریں۔۔۔۔
یہ تو ہو نہیں سکتا۔۔۔۔یشب نے اسکی ناک کھینچی
میرا نہیں تو بھابھی کا خیال کر لیتے وہ بار بار آپ کا پوچھ رہی تھیں۔۔۔میں نے کتنی کالز کیں آپ کو۔۔۔۔کیا یہی ویلیو ہے میری آپکی نظر میں کہ آپ میری کال کاٹ کر اپنا سیل آف کر دیں۔۔۔وہ خفگی سے بولی
سوری۔۔۔۔۔
آج کے فنکشن میں بھی نہیں آئے آپ۔۔۔۔؟؟
سوری۔۔۔۔۔
اور بھابھی سے آپ نے یہ کیوں کہا کہ حدید انکے ساتھ نہیں جائے گا بلکہ یہاں رہے گا۔۔۔۔۔ہیر بات یاد آنے پر گھور کر بولی
میں نے کہا تھا ان سے مگر اب میں اپنی بات سے پیچھے ہٹ چکا ہوں۔۔۔۔حدید بہت چھوٹا ہے اور اسے ماں کی ضرورت ہے۔۔۔۔باپ تو مر چکا ہے اور اب میں اسے ماں سے جدا کر کے ماں کی ممتا سے محروم نہیں کرنا چاہتا لہذا میں اپنی یہ بات واپس لے چکا ہوں تم انہیں بتا دینا۔۔۔۔۔۔
انہیں۔۔۔کنہیں۔۔۔۔؟؟ہیر نے ابرو اٹھائے
مسز شمس دلاور خان کو۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتا اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا
اونہہ۔۔۔مسز شمس۔۔۔بھابھی بھی تو کہہ سکتے تھے۔۔۔۔ہیر نے ناک چڑھایا
اسے یشب کا مہرو کو بھابھی کی بجائے مسز شمس کہنا اچھا نہیں لگا تھا
……………………………………….………………
دو دن بعد شمس مہرو کو لینے لال حویلی گیا تھا۔۔۔۔مہرو حدید کو وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔اس نے زبیر لالہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ آئیں۔۔۔۔۔زبیر خان نے جواب میں کیا۔۔۔۔؟؟کیوں۔۔۔۔؟؟جیسے سوال پوچھنے کی بجائے اچھا کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا
شمس حدید کو جانتا تھا۔۔۔وہ اس سے مل بھی چکا تھا اسلیے واپسی پر وہ مہرو سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ حدید کو ساتھ کیوں نہیں لائی۔۔۔۔۔۔؟؟مگر عجیب سی ہچکچاہٹ آڑے آ رہی تھی اسی لیے وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا اور مہرو کو حویلی چھوڑ کر خود ڈیرے پر چلا گیا۔۔۔
……………………………………………………
زبیر خان اگلے ہی دن حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔۔جب بی بی جان اور بابا جان کو یشب کی بات پتہ چلی تھی کہ وہ حدید کو مہرو کی بجائے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو بابا جان نے یشب کو اچھی خاصی سنائیں تھیں
جسے یشب سر جھکائے خاموشی سے سنتا رہا تھا۔۔۔۔کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر جانتی تھی یہ خاموشی کا لاوا اسی پر پھٹے گا کیونکہ ہیر نے ہی بی بی جان اور بابا جان کو یشب کی حدید سے متعلق بات بتائی تھی مگر خلاف توقع یشب نے ہیر سے بازپرس کرنے کی بجائے اسے یہ کہا کہ کل وہ جا کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئے۔۔۔۔ہیر نے یشب کو بھی ساتھ جانے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانا۔۔۔۔یوں ہیر اگلے دن بی بی جان کو ساتھ لے کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔
مہرو جہاں خوش تھی حدید کے آنے پر وہیں تھوڑی اپ سیٹ بھی تھی کہ شاید وہاں کے مکینوں کو حدید کا وہاں آنا اچھا نہ لگے۔۔۔۔۔۔مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔
………………………………………………………
وقت کسی کی پرواہ کیے بغیر گزرتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔مہرو کو وہاں آئے ایک ماہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔اس ایک ماہ میں اس کے اور شمس کے درمیان کچھ نہیں بدلا تھا وہ آج بھی پہلے دن کی طرح ایک ہی کمرے میں دو اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔
مہرو کے لیے صرف شمس خان ہی اجنبی تھا اب تک کیونکہ حویلی کہ باقی مکین جن میں دلاور خان ،، خدیجہ اور حویلی کی چار ، پانچ ملازمیں شامل تھیں وہ ان سب سے اپنی خوش مزاجی کے باعث گھل مل گئی تھی۔۔۔۔
مہرو آفریدی حویلی کی طرح یہاں بھی بہو ہونے کا پورا پورا حق ادا کر رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے حویلی کی بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تھیں۔۔۔۔جنہیں وہ بہت خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھی۔۔۔۔۔
خدیجہ مہرو کے اس رویے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہیں تھیں جنہیں مہرو کی شکل میں اتنی اچھی بہو مل گئی تھی اچھی تو خیر پروشہ بھی تھی مگر تھوڑی نخرے والی تھی جبکہ مہرو میں نام کا بھی نخرہ نہ تھا۔۔۔۔
اس لیے خدیجہ بھی خوشی خوشی ہر کام کو مہرو کے مشورے سے ہی کرتی تھیں۔۔۔۔یوں ساس ،، بہو کی اچھی بن گئی تھی۔۔
اس وقت مہرو روتی ہوئی دعا کو گود میں لیے بہلا رہی تھی جب حدید وہاں آیا
ماما یہ کیوں رو رہی ہے لائیں اسے مجھے دیں میں چپ کرواتا ہوں۔۔۔
نہیں اسے بھوک لگی ہے ابھی دودھ پی کر چپ ہو جائے گی۔۔۔۔مہرو نے رحیمہ سے فیڈر پکڑ کر دعا کے منہ کو لگائی
جسے وہ چپ ہو کر پینے لگی۔۔۔
ماما آپ کو پتہ ہے بابا کہہ رہے تھے وہ کچھ دنوں تک اسلام آباد جائیں گے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔حدید خوشی سے بولا
بابا۔۔۔۔؟؟بابا کون۔۔۔۔؟؟
شمس بابا اور کون۔۔۔۔۔؟؟
یہ انکل بابا کب ہوئے۔۔۔۔؟؟مہرو حیران تھی۔۔۔حدید تو شمس کو انکل کہتا تھا پھر اب بابا کیسے۔۔۔۔۔؟؟وہ شاکڈ تھی
وہ انکل ہیں آپ کے بابا نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے تحمل سے سمجھایا
وہ آپکے ہزبینڈ ہیں ماما تو میرے بابا ہی ہوئے ناں۔۔۔۔۔حدید سمجھداری سے بولا
مہرو اسکے منہ سے اتنی گہری بات سن کر ساکت تھی
کس نے کہا تم سے۔۔۔۔۔؟؟؟
کسی نے نہیں۔۔۔۔میں جانتا ہوں ان کی اور آپ کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔وہ آپ کے ہزبینڈ ہیں اور میرے بابا۔۔۔۔
میری ان سے شادی ہو چکی ہے مگر وہ تمہارے بابا نہیں ہیں حدید۔۔۔۔مہرو غصے سے بولی
آپ نے ہی کہا تھا حدید دعا آپ کی بہن ہے۔۔۔۔۔دعا تو شمس انکل کی بیٹی ہے پھر میری بہن کیسے ہوئی۔۔۔؟؟حدید سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھتا پوچھ رہا تھا
وہ انسان کا بچہ تھا یا شیطان کا مہرو حیران تھی اسکی بات پر۔۔۔۔۔
دعا آپکی بہن ہے مگر شمس آپکے بابا نہیں ہیں وہ آپکے انکل ہیں اور آپ انہیں انکل ہی کہیں گے۔۔۔۔اب کے مہرو نے پیار سے سمجھایا
نو۔۔۔۔میں انہیں بابا ہی کہوں گا۔۔۔۔وہ بضد تھا
اسکی بات پر مہرو نے غصے سے اسے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا مگر پیچھے سے کوئی اسکا ہاتھ تھام کر روک چکا تھا
مہرو نے گردن موڑی اور پیچھے کھڑے شمس پر ایک غصیلی نظر ڈال کر جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا
حدید بیٹا میں آپکی وڈیو گیم لے آیا ہوں۔۔۔۔جا کر چیک کرو وہی ہے جو آپ نے کہی تھی۔۔۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا
اوکے بابا۔۔۔۔۔وہ اچھل کر کہتا نیچے بھاگ گیا
بچے پر ہاتھ اٹھا رہیں تھیں آپ۔۔۔۔؟؟چند منٹ کی خاموشی کو شمس کی آواز نے توڑا
بچے جب غلطی کریں تو سدھارنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔
بلکل۔۔۔۔مگر صرف غلطی پر۔۔۔۔۔شمس نے تصیح کی
مہرو نے اسکی بات پر سوالیہ نظریں اٹھائیں
حدید کچھ غلط نہیں کہہ رہا تھا اگر وہ مجھے انکل کی بجائے بابا کہنا چاہتا ہے تو اس میں برا کیا ہے۔۔۔۔؟؟
آپ اسکے بابا نہیں ہیں۔۔۔۔
میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔مگر میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے بابا کہے مجھے اچھا لگے گا۔۔۔۔۔اور ویسے بھی دعا بھی تو آپکی بیٹی نہیں ہے پھر بھی آپ اسے ایک ماں ہی کی طرح ٹریٹ کر رہی ہیں میں نے تو آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔۔۔
دعا ابھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بڑبڑائی
حدید بھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ اسے باپ کی ضرورت نہ رہے۔۔
مجھے آپ سے بحث نہیں کرنی۔۔۔۔وہ چڑ کر بولی
شمس اسکے چڑنے پر مسکرا دیا
فائن۔۔۔۔مجھے بھی اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔حدید مجھے بابا ہی کہے گا اور آپ اسے اس بات سے نہیں روکیں گی۔۔۔شمس کہہ کر جھکا
مہرو اسکے جھکنے پر سانس روک چکی تھی
شمس نے جھک کر مہرو کی گود میں لیٹی دعا کے گال پر بوسہ لیا اور مہرو کے اردگرد اپنی خوشبوئیں بکھیرتا واپس مڑ گیا
………………………………………………………
اس دن کے بعد مہرو نے حدید کے شمس کو بابا کہنے پر نہیں ٹوکا تھا۔۔۔۔حدید شمس سے کافی اٹیچ ہو چکا تھا۔۔۔۔جسکی بڑی وجہ شمس کیطرف سے ملنے توجہ اور محبت تھی
مہرو بھی شمس کی حدید سے محبت پر خاموش اور مطمعین ہو گئی تھی۔۔۔۔اب اکثر اسکے اور شمس کے درمیان حدید اور دعا ڈسکس ہونے لگے تھے۔۔۔۔۔جس سے یہ ہوا تھا کہ دونوں کی ایک دوسرے سے بات کرنے کی ہچکچاہٹ کافی کم ہو گئی تھی
ہیر اکثر وہاں آتی رہتی تھی مگر یشب کے بغیر۔۔۔۔یشب مہرو سے ہفتے دو ہفتے بعد فون پر بات کر لیتا تھا البتہ حدید کو وہ حشمت کو بھیج کر بلوا لیتا۔۔۔یوں حدید پورا دن یشب کیساتھ گزار کر شام میں واپس آ جاتا۔۔۔
دن نارمل روٹین کیمطابق گزرتے جا رہے تھے۔۔۔
………………………………………………………
مہرو اور خدیجہ تخت پر بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔قریب ہی دعا باکر میں بیٹھی اسے آگے پیچھے گھسیٹ رہی تھی جبکہ حدید کچھ فاصلے پر راہداری میں اپنی نئی سائیکل دوڑا رہا تھا جو شمس کل ہی اسکے لیے لایا تھا۔۔۔۔
رحیمہ۔۔۔۔رحیمہ۔۔۔۔۔مہرو نے وہیں بیٹھے بیٹھے رحمیہ کو آواز دی
جی مہرو باجی۔۔۔۔۔وہ بوتل کے جن کیطرح حاضر ہوئی
یہ دعا کے فیڈر کو گرم پانی سے اچھی طرح دھو کر رکھو پھر میں فیڈر بناتی ہوں
بی بی جی۔۔۔میں یہ خان سائیں کے لیے چائے لے جا رہی تھی یہ دے آؤں آ کر دھوتی ہوں۔۔۔۔رحیمہ نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے آگے کی
یہ میں لے جاتی ہوں تم جلدی سے یہ فیڈر دھو دو۔۔۔۔مہرو نے چائے کی ٹرے اسکے ہاتھ سے پکڑی
اماں میں یہ چائے دے آؤں۔۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔خدیجہ مسکرا کر بولیں
مہرو چائے لیے کمرے میں آئی پر کمرہ خالی تھا شمس شاید اسٹڈی میں تھا
وہ اسٹڈی میں گئی مگر وہ بھی خالی تھی پر شمس کی چیزیں وہیں پڑیں تھی جسکا مطلب تھا وہ وہیں تھا مگر اب شاید باہر نکلا ہو۔۔
مہرو ٹرے اسٹڈی ٹیبل پر رکھ کے جیسے ہی مڑی اسکی نظر کتاب میں رکھی مخملی ڈبیا پر پڑی جو آدھی سے زیادہ کتاب کے اندر تھی صرف ایک سرا نظر آ رہا تھا۔۔۔
یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو کو تجسس ہوا
مجھے کیا جو بھی ہو۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر واپس مڑی
دیکھ لیتی ہوں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔؟؟وہ دل میں موجود تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس ٹیبل تک آئی۔۔۔۔
اس نے کتاب کو کھولا تو بیچ میں واقعی میرون مخملی ڈبیا تھی مگر وہ ڈبیا لمبی تھی جیسے کسی بریسلٹ کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔
مہرو نے ایک نظر اسٹڈی کے بند دروازے پر ڈالی اور جلدی سے ڈبی کھول دی
یہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ ڈبی میں موجود پائل دیکھ کر ساکت تھی
وہ اور ناجانے کتنی دیر ساکت رہتی کہ شمس کی آواز پر چونک کر مڑی
آپ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ میں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔یہ پائل آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟مہرو کے ساکن لبوں نے ہلکی سی جنبش کی تھی
یہ پائل۔۔۔۔شمس نے اسکے ہاتھ میں پکڑی پائل کیطرف اشارہ کیا
جی۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔پائل۔۔۔۔۔"میری پائل"۔۔۔۔۔
مہرو نے لفظ میری پائل پر زور دے کر سپاٹ نظروں سے شمس کو دیکھتے ہوئے سردوسپاٹ انداز میں پوچھا تھا
………………………………… جاری ہے …………………………
0 Comments
Post a Comment