زیادتی
قسط نمبر 17
مہرو اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی۔۔۔اسے لال حویلی آئے دو ہفتوں سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ جب یہاں آئی تھی تو اماں نے زبیر لالہ کی موجودگی میں ہی اس سے شمس خان کے پرپوزل پر بات کی تھی۔۔۔۔اسکی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے زبیر نے یہ کہہ کر اسے مطمعین کر دیا تھا کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہو گی وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہی سب کو قبول ہو گا۔۔۔۔جسکی وجہ سے مہرو کافی پرسکون ہو گئی تھی
مگر اب وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے جو دوسرا آپشن اسکے سامنے رکھا تھا اس سے وہ پھر سے اپ سیٹ ہو گئی تھی۔۔۔
اس دن تو انہوں نے صرف شمس کے پرپوزل پر اسکا ذاتی ڈسیزن مانگا تھا مگر اس سے اگلے دن وہ مہرو کے کمرے میں آ کر اسکے لیے آیا دوسرا پرپوزل بھی بتا گئے تھے۔۔۔۔جس سے مہرو بے چین ہو گئی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے فیصلہ کرنے کی آزادی تو اسے دے دی تھی مگر پر کاٹ کر۔۔۔۔۔۔۔
انکا کہنا تھا کہ مہرو کو ان دو پرپوزلز میں سے ہی ایک کو فائنل کرنا ہے۔۔۔۔شطرنج کا صرف ایک پتہ ہی مہرو کہ ہاتھ میں دیا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔
مہرو نے ٹھیک ہی کہا تھا ہم عورتیں اپنے مردوں کے لیے قربانی دیتی آئی ہیں اور دیتی رہیں گی۔۔۔۔
دوسرا پرپوزل مہرو کے تایا زاد ابرار خان کا تھا جسکے تین بچے تھے۔۔۔بڑا بیٹا دس سال کا تھا۔۔۔۔بیوی چند ماہ پہلے چل بسی تھی اور اب پھر سے ابرار خان کو شادی کی سمائی تھی۔۔
مہرو ابرار خان کے رنگین مزاج کو برسوں پہلے سے جانتی تھی۔۔۔جانتے تو سب ہی تھے پھر بھی زبیر لالہ نے ناجانے کیوں ان لوگوں کو منع کیے بغیر پرپوزل مہرو کے سامنے رکھ دیا تھا۔۔۔۔
اب مہرو کے پاس صرف دو آپشن تھے شمس خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابرار خان
اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کو سلیکٹ کرنا تھا انکار کا آپشن زبیر خان اس سے واپس لے چکا تھا
وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔اسی لیے اس نے واپس جانے کا سوچا تھا تاکہ وہاں جا کر یشب سے مشورہ کر سکے۔۔۔۔۔وہ بھابھی دیور اور کزنز کے علاوہ اچھے دوست بھی تھے جو بلا جھجھک اپنے پرسنلز ایک دوسرے سے شئیر کر لیا کرتے تھے۔۔ اسی لیے مہرو نے یشب سے مشورہ کرنے کا سوچ کر خود کو مطمعین کر لیا تھا
………………………………………………
مہرو جانے سے پہلے شہربانو سے ملنے آئی تھی۔۔۔۔شہربانو مہرو کی خالہ زاد اور ابرار خان کی چھوٹی بھابھی تھی
وہ کافی دیر شہربانو سے باتیں کرنے کے بعد واپس آنے کے لیے راہداری میں سے گزر رہی تھی جب سامنے سے ابرار خان آتا دیکھائی دیا۔۔۔
مہرو نے اسے دیکھ کر سر جھکا لیا اور بڑے بڑے قدم اٹھانے لگی تاکہ جلدی سے باہر نکل جائے۔۔۔مگر ابرار خان نے اسکے برابر آتے ہی بازو پھیلا کر راستہ روکا
کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔؟؟؟وہ سر اٹھا کر ناگواری سے بولی
میں نے رشتہ بھجوایا تھا مگر زبیر نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔وہ گردن اکڑا کر بولا
تو۔۔۔۔؟؟؟
تو یہ کہ کب تک جواب ملے گا۔۔۔۔وہ کلف لگی گردن اکڑائے کھڑا تھا
ابرار لالہ ابھی بھابھی کو مرے صرف تین ماہ ہوئے ہیں اور آپ کو شادی کی پڑ گئی۔۔۔۔مہرو نے شرم دلانا چاہی
اسکی بات پر وہ مونچھوں کو بل دیتا مسکرایا
میں مرد ہوں۔۔۔۔مرد۔۔۔۔مہرو بی بی۔۔۔۔
مرد ہیں تو مرد بنیں یوں اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کا راستہ روک کر۔۔۔۔
مہرو نے اسکی طرف دیکھا اور ابرار خان کی آنکھوں میں ہمیشہ والی گندگی دیکھ کر وہ بات ادھوری چھوڑتی سائیڈ سے ہو کر آگے بڑھ گئی
اونہہ۔۔۔چیپ انسان۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکلی
مہرو نے جب سے جوانی میں قدم رکھا تھا تب سے ہی اسنے ابرار خان سے کترانا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔ایک تو وہ رنگین مزاج مرد تھا کلی کلی منڈلانے والا اور دوسرا مہرو کو ہمیشہ اسکی بے باک نظروں سے الجھن ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جب کبھی مہرو کی نظریں اسکی نظروں سے ملتیں تھیں تو مہرو کا دل چاہتا تھا کہ وہ کہیں چھپ جائے کسی ایسی جگہ پر جہاں ابرار خان کی گندی اور بےباک نظریں اس تک نہ پہنچ پائیں۔۔۔حالانکہ وہ مہرو سے چودہ، پندرہ سال بڑا تھا پھر بھی مہرو اس کے سامنے سے کتراتی تھی شادی سے پہلے تو وہ تایا کے گھر آتے ہوئے بانو کو ہمیشہ اپنے ساتھ لاتی تھی ابرار خان سے متعلق اپنے دل میں موجود خوف کی وجہ سے۔۔۔۔۔
اور اب وہ کیونکر اس شخص کے حق میں فیصلہ دے دے گی جس کی نگاہوں کی بےپردہ تپش سے ایک عرصہ اس نے کتراتے اور چھپتے گزارا تھا
مہرو نے واپسی کہ چند منٹوں میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ابرار خان سے تھوڑی دیر کی ملاقات ہی اسکے ڈسیزن لینے میں مددگار ثابت ہوئی تھی
………………………………………………
اوووف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔یشب مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔ہیر خوشی سے بھرپور آواز میں چہکی
یشب ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھا تھا۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے لال حویلی سے فون آیا تھا کہ مہرو بھابھی نے شمس خان کہ حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔۔۔
جب سے یہ خبر سنی تھی ہیر کے تو قدم ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے اسکے برعکس یشب سنجیدہ اور خاموش سا تھا۔۔۔۔
یشب نے ہیر کی بات پر سر اٹھا کر اسکے خوشی سے جگمگاتے چہرے کو دیکھا اور لمبی سی سانس لیتا اٹھ کر ہیر کی طرف آیا۔۔
میں ابھی ایک تھپڑ سے یقین دلا دیتا ہوں تمہیں کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔یشب نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پیچھے سے حصار میں لیا
ویری فنی۔۔۔۔۔۔ہیر نے ناک چڑھایا
اٹس ناٹ فنی۔۔۔آئی کین ڈو۔۔۔۔
میں جانتی ہوں آپ ایسا کر سکتے ہیں ماضی میں کافی تھپڑ کھا چکی ہوں۔۔۔۔
بھول جاؤ ماضی کو۔۔۔۔یشب نے اسکی لٹ انگلی پر لپیٹی
بھول چکی ہوں۔۔۔۔
پھر بھی طعنے دیتی ہو۔۔۔۔۔
کبھی کبھار دینے پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔ہیر معصومیت سے بولی
مت دیا کرو کبھی کبھار بھی مجھے وہ سب یاد آ جاتا ہے جو میں تمہارے ساتھ کر چکا ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولا
میں مذاق کر رہی تھی خان۔۔۔ہیر نے اسکے سنجیدہ سے تاثرات پر آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو دیکھ کر کہا
ہوں۔۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔۔یشب اسکی لٹ کھینچتا پیچھے ہٹا
آپ اتنے سیریس کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔۔ مہرو بھابھی کا فیصلہ آپ کو اچھا نہیں لگا کیا۔۔۔؟؟ہیر نے پوچھتے ہوئے یشب سے سیگرٹ چھینی جو وہ منہ میں لے چکا تھا
نہیں مجھے اس ڈسیزن پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں انکے ساتھ ہوں۔۔۔۔یشب نے سنجیدگی سے کہا
یہی بات مسکرا کر کہیں۔۔۔۔۔
یہ سیگرٹ واپس کرو اور جاؤ جا کر کچھ کام وام کرو دن بدن پھیلتی جا رہی ہو اور مجھے موٹی لڑکیاں بلکل پسند نہیں۔۔۔۔
او ہیلو مسٹر۔۔۔۔میں لڑکیاں نہیں آپکی بیوی ہوں۔۔۔۔موٹی، بھدی ،کالی، پیلی جیسی بھی ہو جاؤں آپکی بیوی ہی رہوں گی سمجھے۔۔۔۔۔ہیر انگلی اٹھا کر بولی
سمجھ گیا۔۔۔۔یشب نے اسکی انگلی پکڑ کر ہلکی سی مڑوری
اوئی ماں۔۔۔۔کسقدر جلاد صفت انسان ہیں آپ۔۔۔ وہ انگلی سہلاتی چیخی
جلاد صفت کے علاوہ بہت رومینٹک بھی تو ہوں۔۔۔۔یشب نے آنکھ ماری
اونہہ۔۔۔۔اس نے ناک چڑھایا
میں جا رہی ہوں نیچے بی بی جان نے بلوایا تھا مجھے۔۔۔۔۔آپ بھی آ جائیں۔۔۔۔
تم جاؤ۔۔۔۔مجھے کچھ کام ہے وہ کر کے آتا ہوں۔۔۔۔یشب نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے کہا
یہ تو دیتی جاؤ۔۔۔۔اس نے سیگرٹ کی ڈبی کیطرف اشارہ کیا جو ہیر کے ہاتھ میں تھی
اونہہ۔۔۔۔اسکے بغیر تو سانس بھی نہیں آئے گی محترم کو۔۔۔اسنے بڑبڑاتے ہوئے ڈبی یشب کی طرف اچھالی
جسے یشب نے کیچ کر کے وکٹری کا نشان بنایا اور ہیر کی طرف ہوائی کس اچھالی
وہ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی
……………………………………………..……
مہرو کے اقرار کے بعد دلاور خان اور خدیجہ لال حویلی جا کر شادی کی تاریخ لے آئے تھے
چونکہ اس شادی کو عام روایتی انداز میں نہیں کیا جانا تھا لہذا سادگی سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا گیا
خاقان آفریدی کی خواہش تھی کہ ہیر انکی حویلی سے رخصت ہو۔۔۔۔پر یشب کو یہ گوارا نہیں تھا کہ شمس خان اسکی حویلی میں اسکے بھائی کی بیوہ کو بیاہنے آئے۔۔۔۔لہذا اس نے بابا جان کو منع کر دیا تھا۔۔
اب مہرو کو لال حویلی سے ہی رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی میں جانا تھا۔۔۔۔
وہ نہ تو خوفزدہ تھی اور نہ ہی کنفیوز صرف خاموش تھی۔۔۔۔
کیونکہ بسا اوقات انسان ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں نہ تو کوئی خوشی اثر کرتی ہے اور نہ ہی تسلی ، ،نہ باہر بسنے والی دنیا اور نہ ہی اندر کا موسم۔۔۔بس ایک عجیب سی خاموشی چھائی رہتی ہے طبیعت پر ۔۔۔۔۔
ایسی ہی کیفیت مہرو کی تھی وہ بھی خاموش تماشائی بنی سب کچھ ہوتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
ہیر یشب کیساتھ لال حویلی مہرو سے ملنے آئی تھی۔۔۔وہ بہت خوش تھی کہ مہرو نے شمس خان کے حق میں فیصلہ کیا۔۔۔۔اسنے مہرو کو یقین دلایا تھا کہ وہ شمس خان کیساتھ بہت خوش رہے گی
مگر مہرو تو یشب کی بات پر ہی اڑی ہوئی تھی۔۔۔
یشب نے باتوں باتوں میں مہرو سے کہا تھا کہ وہ حدید کو اپنے پاس ہی رکھے گا
مہرو تب تو چپ رہی مگر اب جیسے جیسے نکاح کا دن قریب آ گیا تھا وہ فکرمند ہو گئی تھی
یشب کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا میں ماں ہوں حدید کی۔۔۔۔میں مانتی ہوں وہ اس حویلی کا وارث ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ حدید کو مجھ سے دور کر دیا جائے۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گی۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے یشب کا نمبر ملایا
یشب لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوا۔
بھابھی کالنگ لکھا دیکھ کر اس نے کال اوکے کی۔
اسلام علیکم۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔۔کیسے ہو۔۔۔۔۔؟؟
میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں کیسے یاد کیا مجھ نا چیز کو۔۔۔۔
خفا ہو مجھ سے۔۔۔۔۔۔
کیا ہو سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟یشب نے الٹا اسی سے سوال پوچھا
نہیں۔۔۔۔
ایگزیٹلی۔۔۔۔حدید کیسا ہے۔۔۔.؟؟وہ مصروف سا بولا
وہ ٹھیک ہے یشب۔۔۔۔مجھے حدید کے بارے میں ہی تم سے بات کرنی تھی۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی
کیسی بات۔۔۔۔؟؟؟
اس دن تم کہہ گئے تھے کہ حدید کو تم اپنے پاس رکھو گے۔۔۔۔
جی۔۔۔۔۔یشب نے سر ہلاتے ہوئے لیپ ٹاپ پر سینڈ کو کلک کیا اور لیپ ٹاپ آف کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی
یشب تم جانتے ہو میں اسکی ماں ہوں۔۔۔؟؟
جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔
پھر تم نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟
کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ یشار خان کا خون شمس خان کی حویلی میں پرورش پائے۔۔۔
پھر تو یشار خان کی بیوہ کو بھی اس حویلی میں جانا سوٹ نہیں کرتا۔۔۔
بھابھی مجھے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔آپ نے ابرار خان کے مقابلے میں شمس خان کا پرپوزل ایکسیپٹ کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے۔۔۔پر حدید کا وہاں رہنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔۔وہ رسان سے بولا
ہیر نے تم سے کچھ کہا ہے اس بارے میں۔۔۔۔؟؟؟مہرو مشکوک ہوئی کہ شاید ہیر کے گھر والوں نے منع کیا ہو حدید کو ساتھ لانے سے
نہیں وہ کیوں کہے گی کچھ۔۔۔۔مجھے ہی یہ مناسب نہیں لگا تھا
یشب میں حدید کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گی۔۔۔۔تمہیں لگتا ہے میں اس کے بغیر رہ سکتی ہوں یا پھر وہ میرے بغیر۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی
بھابھی آپ زیادہ دور نہیں ہوں گی میں حدید کو ملوا لایا کروں گا۔۔۔۔یشب اسے قائل کر لینا چاہتا تھا
بلکل نہیں۔۔۔۔حدید میرے ساتھ ہی جائے گا یشب میں تمہاری یہ بات بلکل نہیں مانوں گی۔۔۔۔۔
جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔یشب نے کہہ کر کھٹاک سے کال بند کی
کس سے بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔؟؟ہیر نے کمرے میں داخل ہو کر یشب کا سرخ چہرہ دیکھا
کسی سے نہیں۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا کشن کو لات مار کر کیز اٹھاتا باہر نکل گیا
ہیر نے افسردگی سے یشب کی پشت کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جب سے مہرو بھابھی نے لالہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا یشب کافی سے زیادہ سنجیدہ رہنےلگا تھا۔۔۔
یشب کا رویہ کچھ برا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ہیر نے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچا تھا۔۔۔اس کا اکلوتا بھائی جوانی میں ہی چلا گیا تھا یہ دکھ بہت بڑا تھا اور اب اپنے بھائی کی بیوہ کو اسی شخص کے حوالے کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔۔۔۔۔۔
……………………………………………….
مہرو کو یشب سے بات کرنے کے بعد یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے کوئی غلط فیصلہ کر لیا ہو۔۔۔۔وہ افسردہ سی بیٹھی تھی جب اماں اسٹک کے سہارے چلی آئیں
ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔۔؟؟وہ پاس آ کر تخت پر بیٹھیں
کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔مہرو مسکرا کر سیدھی ہوئی
پریشان ہو۔۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے اپنے پیر کے انگوٹھے کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا
شمس اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔زبیر کے ساتھ پڑھتا رہا ہے اس لیے زبیر بھی مطمعین ہے۔۔۔۔مجھے بھی ابرار کے مقابلے میں وہ ہی مناسب لگا تھا۔۔۔تم پریشان مت ہو وقت کیساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا میری بچی۔۔۔۔۔انہوں نے مہرو کے جھکے سر پر ہاتھ پھیرا
مہرو ان کا لمس پا کر بے قابو ہوتی انکی گود میں سر رکھ کر رو پڑی
اماں بہت مشکل ہے میرے لیے یہ سب قبول کرنا۔۔۔۔۔ایسا مت کریں آپ لوگ اماں۔۔۔۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔مجھے یہ شادی نہیں کرنی ہے۔۔۔وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھی
میں یشار کے قاتل کو شوہر کے روپ میں کیسے قبول کروں گی اماں۔۔۔۔۔مجھ سے یہ سب نہیں ہو گا۔۔۔۔روک دیں سب انکار کر دیں ان لوگوں کو۔۔۔۔۔
ایسا مت کہہ میری بچی۔۔۔۔اللہ تجھے وہ ساری خوشیاں دے جنکی تجھے خواہش ہے۔۔۔۔۔میں ماں ہوں تیری مجھ سے تیری یہ اجاڑ زندگی نہیں دیکھی جاتی مہر۔۔۔ایسا مت کہہ جو ہو چکا اور جو ہو رہا ہے وہ سب اوپر والے کی مرضی ہے اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کر لے میری جان۔۔۔۔۔۔میں مرنے سے پہلے تجھے خوش وخرم دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔
اماں ایسا مت کہیں پلیز۔۔۔۔مہرو ماں کی بات پر تڑپ کر پیچھے ہٹی
اللہ آپ کو میری بھی زندگی لگا دے اماں آپ ہمیشہ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔۔۔۔مہرو نے انکے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگایا
میں اپنی زندگی گزار چکی ہوں مہر اور اب پاک پروردگار سے اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے دعا گو ہوں۔۔۔۔وہ پاک ذات میرے بچوں کو خوش رکھے مجھے اور کیا چاہیے۔۔۔۔انہوں نے پیار سے مہرو کے بال سنوارے
ماما۔۔۔واٹ ہیپنڈ آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟حدید پھولے سانس سے وہاں کھڑا فکر مندی سے مہرو کو آنسو پونچھتے دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ باہر بچوں کیساتھ کھیل رہا تھا اور ابھی وہاں آیا تھا
کچھ نہیں میری جان میں رو نہیں رہی تھی۔۔۔گیم ختم ہو گیا آپ کا۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے مسکراتے ہوئے پوچھا
یس پھوپھو۔۔۔۔گیم ختم ہو گیا اب جلدی سے ہم سب کو نوڈلز بنا کر دیں۔۔۔۔۔زیان (زبیر خان کا بیٹا )نے حدید سمیت اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کیطرف اشارہ کیا
اوکے میں ابھی بنا کر دیتی ہوں۔۔۔۔تم لوگ دادو کے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی ان سب کے لیے نوڈلز بنانے کیچن کیطرف چلی گئی۔۔۔۔
…………………………………………….……
آج جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن ہی شمس اور مہرو کا نکاح رکھا گیا تھا
بابا جان ، بی بی جان اور ہیر کل ہی لال حویلی آ چکے تھے یشب کو آج آنا تھا نکاح سے پہلے۔۔۔۔۔
ہیر اپنے گھر جا کر خدیجہ کیساتھ ساری تیاریاں کروا آئی تھی اور اب اسنے مہرو کی طرف سے ہی شامل ہونا تھا
جمعے کی نماز کے بعد نکاح کا ٹائم مقرر ہوا تھا اور اب سب مرد نماز پڑھنے گئے ہوئے تھے
ہیر کے گھر والے بھی چند ایک مہمانوں کیساتھ آ چکے تھے مگر یشب کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا
ہیر نے اسے کال کی مگر یشب کا سیل آف تھا
کہاں رہ گئے ہیں یشب۔۔۔؟؟؟وہ بے چینی سے ٹیرس پر ٹہلتی اسکا انتظار کر رہی تھی
جب مہرو اسکے پاس آئی۔۔۔۔
مہرو نے آف وائٹ کلر کی فراک پہنی تھی جس پر گولڈن کلر کا کام ہوا تھا ہیر ہی یہ ڈریس اسکے لیے لائی تھی اپنی پسند سے۔۔۔بالوں کو چوٹیا میں قید کر رکھا تھا جس میں سے چند ایک لٹیں ادھر أدھر بکھری ہوئی تھیں ہلکے میک اپ اور جیولری کے ساتھ سوگوار سی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی
وہ نہیں آئے گا۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولی
ہیر نے مہرو کی بات پر پلٹ کے اسے دیکھا۔۔
میری صبح بات ہوئی تھی بھابھی کہہ رہے تھے کہ نکاح سے پہلے آ جائیں گے۔۔۔
نکاح سے پہلے نہیں نکاح کے بعد آئے گا وہ۔۔۔۔۔مہرو لمبی سی سانس لے کر کہتی باہر دیکھنے لگی
آپکی بات ہوئی تھی ان سے۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔۔میں جانتی ہوں اسے۔۔۔۔
آپ انکی وجہ سے پریشان مت ہوں بھابھی۔۔۔۔ہیر نے اسکی افسردہ شکل دیکھ کر تسلی دی
ہیر وہ مجھ سے کبھی خفا نہیں ہوا تھا پر اب ہو چکا ہے۔۔۔۔
یشب آپ سے خفا نہیں ہو سکتے ہیں بھابھی وہ آپکی بہت عزت کرتے ہیں۔۔۔وہ تسلی آمیز انداز سے بولی
ہاں میں جانتی ہوں پر وہ مجھ سے خفا ہے حدید کے معاملے پر۔۔۔۔
حدید کے معاملے پر۔۔۔۔۔کیسا معاملہ۔۔۔۔؟؟ہیر حیران ہوئی
وہ چاہتا ہے میں حدید کواپنے ساتھ نہ لے کر جاؤں بلکہ اس کے پاس چھوڑ دوں۔۔۔۔مہرو افسردگی سے بولی
ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھابھی حدید بہت چھوٹا ہے کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔۔ یشب نے ایسے ہی کہہ دیا ہو گا آپ پریشان مت ہوں میں بات کر لوں گی ان سے۔۔۔۔
نہیں ہیر۔۔۔۔اسنے ٹھیک ہی کہا تھا حدید یشار کا خون ہے۔۔۔۔۔وارث ہے اس خاندان کا پھر کیسے وہ کسی اور کے گھر میں پرورش پا سکتا ہے۔۔۔۔۔
وہ کسی اور کا گھر نہیں بھابھی آپ کا گھر ہو گا۔۔۔حدید کی ماں کا گھر۔۔۔ہیر نے محبت سےکہا
مہرو ہیر کی بات پر افسردگی سے مسکرا دی
تم بہت اچھی ہو ہیر۔۔۔۔
اور آپ مجھ سے زیادہ اچھی ہیں بھابھی۔۔۔۔ہیر نے اسکے ہاتھ تھامے
ہیر تم۔۔۔۔تم حدید کا خیال رکھنا۔۔۔۔میں اسے ساتھ لے کر نہیں جاؤں گی وہ اپنے باپ کے گھر میں ہی پرورش پائے گا
مگر بھابھی وہ کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔ ہیر فکرمند ہوئی
رہ لے گا وہ جیسے باپ کے بغیر رہ رہا ہے۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئی
ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا بھابھی حدید آپ کے ساتھ ہی جائے گا میں یشب کو منا لوں گی آپ ٹینشن مت لیں پلیز۔۔۔
تم یشب سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرو گی ہیر میں نے حدید کو سمجھا دیا تھا رات کہ وہ تم لوگوں کیساتھ رہے گا۔۔۔۔
ایسا کیوں کیا آپ نے وہ بچہ ہے ابھی۔۔۔۔ہیر پریشان ہوئی
کل وہ بچہ بڑا ہو گا اور جب وہ مجھ سے پوچھے گا کہ ماما آپ نے بابا کے قاتل کیساتھ شادی کیوں کی تو میں کیا جواب دوں گی اسے ہیر۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو گالوں پر پھسلے
بچے تو پیار کے بھوکے ہوتے ہیں بھابھی جہاں سے پیار ،، محبت اور توجہ ملے وہیں کے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔پر آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے باپ کے قاتل کے گھر پرورش نہیں پا سکتا تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی۔۔۔۔۔میں حدید کا خیال رکھوں گی مجھے بہت عزیز ہے وہ آپ فکر مت کریں۔۔۔۔ہیر سپاٹ سے انداز میں کہہ کر وہاں سے چلی آئی
ناجانے کب تک لالہ قاتل ہی کہلاتے رہیں گے۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی نیچے ہال میں آ گئی
پہلے وہ یشب کے نہ آنے سے پریشان تھی اور اب بھابھی کی باتوں نے اسے مزید پریشان کر دیا تھا
………………………………………………
نکاح ہو چکا تھا اور مہرو کے کہنے کے مطابق یشب واقعی نہیں آیا تھا
ہیر بھی ٹھیک سے خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔پہلے جتنی وہ خوش تھی مہرو اور شمس کی شادی سے اب اتنی ہی افسردہ بیٹھی تھی
نکاح کے بعد کھانے کا انتظام تھا۔۔۔۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دلاور خان نے ان لوگوں سے واپسی کی اجازت چاہی تھی۔۔
ہیر اور شہربانو مہرو کو وہیں ہال میں لے آئیں تھیں جہاں مہمان خواتین بیٹھیں تھیں
ہیر یشب ابھی بھی نہیں آیا۔۔۔۔مہرو نے ہیر کے کان کے پاس سرگوشی کی
اسکا چہرہ گھونگھٹ نکال کر چھپایا گیا تھا
نہیں۔۔۔۔۔
ہوں۔۔۔۔مہرو نے افسردگی سے سر ہلا دیا
ہیر بچے چلو مہرو کو لے کر وہ لوگ باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔بی بی جان نے ہال میں داخل ہو کر کہا
جی بی بی جان۔۔۔۔ہیر نے سر ہلا کر مہرو کا بازو تھاما اور باہر کی جانب چل پڑی
راہداری میں کھڑیں سب رشتے دار عورتیں باری باری مہرو سے ملتی اور دعائیں دیتی جا رہی تھیں
کچھ آگے جا کر مہرو نے ہیر کا ہاتھ تھاما جو اسکے بازو پر تھا
یشب سے کہنا میں بھی اس سے خفا ہوں۔۔۔۔لہذا میرے سامنے مت آئے اب وہ۔۔۔۔
میں آپ کے سامنے آ چکا ہوں۔۔۔۔۔یشب کی آواز پر جہاں ہیر پلٹی وہیں مہرو نے بھی چادر پیچھے سرکائی اور پرشکوہ نگاہوں سے یشب کو دیکھا
آپ مجھ سے خفا ہو کر مت جائیں کیونکہ میں آپ سے خفا نہیں ہوں۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا
تو پھر کہاں تھے اب تک جانتے ہو میں نے اور ہیر نے تمہارا کتنا انتظار کیا۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو پلکوں سے نیچے گرے
پلیز روئیں مت آپ ) آج وہ مہرو کو بھابھی کی بجائے آپ کہہ کر بات کر رہا تھا )۔۔۔۔۔یشب نے اسکے کندھوں کے گرد بازو پھیلایا
بہت برے دوست ثابت ہوئے ہو تم ۔۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑا
برا تو میں ہوں ہی اپنی نند سے پوچھ لیں۔۔۔۔یشب نے مسکرا کر ہیر کی ناک کھینچی
جوابا ہیر نے زور سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا جو خفگی کی علامت تھا
اور کتنی دیر ہے بھئی۔۔۔باہر سب انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔زبیر خان نے انکی طرف آتے پوچھا
جی بس آ رہے ہیں۔۔۔۔ہیر نے مہرو کو دیکھا
مہرو نے ایک خاموش نظر پاس کھڑے یشب پر ڈالی
ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔یشب نے مہرو کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور باہر جانے کی بجائے اندر کیطرف چلا گیا
ہیر نے مہرو کی چادر کو درست کیا اور اسے ساتھ لیے باہر نکل گئی
………………………………………..……….……
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment