زیادتی
قسط نمبر 10
بانو حدید کا ہاتھ پکڑے جب حویلی میں داخل ہوئی تو مؤذن عشاء کی اذان دے رہے تھے۔
وہ تیز تیز قدم بڑھاتی جیسے ہی بڑے کمرے میں آئی تو وہاں موجود افراد کی نظر فورا اس تک پہنچی
چاچو۔۔۔۔۔حدید یشب کو دیکھ کر بانو سے بازو چھڑواتا اسکی طرف بھاگا
یشب نے اسے گود میں لیتے ہوئے چٹاچٹ پیار کر ڈالا
یشب اور بی بی جان شام میں ہی لال حویلی پہنچے تھے۔۔۔
کہاں تھے تم لوگ اتنی دیر کر دی ہم سب پریشان ہو رہے تھے ہیر کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ مہرو بانو کی طرف لپکتی ایک ہی سانس میں بولی
وہ۔۔۔۔وہ مہرو باجی وہ۔۔۔۔
یشب بانو کی بوکھلاہٹ پر حدید کو گود سے اتارتا اس تک آیا
کیا وہ وہ لگا رکھی ہے ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟یشب کی غراہٹ پر بانو بنا رکے ایک ہی سانس میں اے ٹو زی ساری بات بتا گئی
جسے سن کر سب ساکت تھے
سب سے پہلے یشب کا سکتہ ٹوٹا اور وہ آندھی طوفان بنے وہاں سے نکلا تھا
یشب۔۔۔۔یشب۔۔۔۔مہرو پکارتی اسکے پیچھے بھاگی مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنی جیپ جارحانہ انداز میں ریورس کر چکا تھا
مہرو تم اندر جاؤ ہیر مل جائے گی ان شا اللہ۔۔۔۔ یہیں کہیں ہو گی وہ۔۔۔۔زبیر خان ) مہرو کا بڑا بھائی ( نے اسکے سر پر تسلی کے انداز میں ہاتھ رکھا
جی لالہ۔۔۔۔وہ پریشان سی سر ہلاتی اندر چلی گئی
زبیر خان نے زیاد خان (چھوٹا بھائی) اور کچھ ملازموں کو ساری بات سمجھائی
جسے سمجھتے ہوئے سب سر ہلاتے آگے پیچھے اپنی اپنی جیپوں کی طرف بڑھ گئے ہیر کو ڈھونڈنے کے لیے۔۔۔
…………………………………………………………….
یشب بانو کی بتائی گئی جگہ پر پہنچ چکا تھا جیپ وہ کافی پیچھے چھوڑ آیا تھا کیونکہ درختوں کے جھرمٹ میں جیپ مزید آگے لے جانا ممکن نہ تھا
یشب نے چاروں طرف نظر دوڑا کر پوری طاقت لگاتے ہوئے بلند آواز میں کئی بار ہیر کو پکارا
مگر کوئی بھی جواب نہ پاکر وہ موبائل ٹارچ کی روشنی میں دائیں جانب بھاگا
کیونکہ بانو کے مطابق ہیر اسی طرف گئی تھی
وہ دیوانوں کی طرح ہیر۔۔۔۔ہیر پکارتا آگے سے آگے بڑھتا جا رہا تھا
اردوناول کہانیاں
………………………………………………………
اوپر درخت سے سانپ ، چھپکلی یا جو کچھ بھی گرا تھا گرتے ساتھ ہی ادھر أدھر رینگ گیا تھا
مگر ہیر کے وجود پر مارے خوف کے کپکپی طاری ہو گئی تھی
میرے مالک مجھے اس مصیبت سے نکال دے۔۔۔میں اس جنگل میں موجود جانوروں کی خوراک بن کر مرنا نہیں چاہتی پلیز میری مدد فرما۔۔۔۔اس نے اپنے رب سے فریاد کرتے ہوئے کھسک کر درخت سے ٹیک لگائی اور اول آخر درود پاک اور سات بار آیت الکرسی کا ورد کر کے پھونک سے اپنے گرد حصار باندھا
اپنے آنسوؤں کو اچھی طرح آستین سے رگڑ کر ہیر نے پھر سے پاؤں کے ناخن کو اکھیڑنے کی ہمت مجتمع کی
آنکھیں بند کر کے اس نے اللہ کا نام لیا اور جھٹکے سے آدھا اکھڑا ناخن کھینچ لیا
تکلیف کی اٹھتی ٹیسوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے ہیر نے ایک دردناک چیخ ماری
نسوانی چیخ پر یشب اپنی دوڑ کو بریک لگاتا رک کر آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا
…………………………………………………………
مہرو بچے بیٹھ جاؤ تھک جاؤ گی۔۔۔۔۔۔بی بی جان نے مہرو کو بے چینی سے ٹہلتے دیکھ کر کہا
بی بی جان ہیر ناجانے کس حال میں ہوگی۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی
مل جائے گی ان شا اللہ۔۔۔۔۔۔انہوں نے تسلی دی
آپ کو پتہ ہے ہمارے علاقے میں رات کو پہاڑی گیڈر اور کتے کتنی کثرت سے نکل آتے ہیں مجھے تو سوچ سوچ کر ہی وحشت ہو رہی ہے بی بی جان۔۔۔۔۔
تم پریشان مت ہو اللہ اسے اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔۔۔۔بی بی جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں ہیر کو اللہ کے سپرد کیا
آمین۔۔۔۔۔مہرو نے دل سے آمین کہہ کر صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں
…………………………………………………………
ہیررررر۔۔۔۔۔۔۔
ہیر کو اپنے قریب ہی کہیں یشب کی پکار سنائی دی
یشب۔۔۔۔یشب کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔وہ درد کی پرواہ کیے بغیر درخت کے سہارے کھڑی ہوئی
ہیرررررر۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سے آواز آئی
یشب کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں یہاں ہوں یشب۔۔۔۔۔وہ چلائی
بلآخر یشب اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا
ہیر کو اپنے سامنے زندہ سلامت دیکھ کر یشب کو اپنے وجود میں ایک عجب سا سکون سرائیت کرتا محسوس ہوا
دوسری طرف ہیر نے اس تک پہنچنے کے چکر میں پاؤں اٹھایا مگر درد کی وجہ سے وہ ایک قدم بھی چل نہیں پائی اور لڑکھڑا کر گری
یشب جلدی سے درمیانی فاصلہ عبور کرتا اس تک پہنچا
تم ٹھیک ہو ہیر۔۔۔۔۔وہ اسے سیدھا کرتا بے قراری سے بولا
ہیر تو ابھی تک شاک میں تھی کہ یشب واقعی اس کے پاس آ چکا ہے۔۔۔اوپر والے نے اسکی فریاد سن لی ہے۔۔۔
وہ دونوں یک ٹک بنا پلک جھپکائے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔مدھم روشنی ، رات کا سناٹا ، کھلا آسمان ہلکی ہلکی سرد ہوا سب مل کر ان کے آس پاس ایک پرفسوں سا منظر پیش کر رہے تھے
ہیر نے ٹرانس کی کیفیت میں اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر یشب کے چہرے کو چھوا
یشب اس لمس کو پاتے ہی بے اختیار ہو اٹھا
وہ چھو رہا تھا ہیر کے ہاتھوں کو اسکی من موہنی صورت کے ایک ایک نقش کو عجب دیوانوں سی حالت میں چھو رہا تھا وہ اسے۔۔۔۔۔۔جو اسکی پہلی اور آخری محبت تھی۔۔۔۔جو اسکی بیوی تھی
ہیر یقین کے اس عملی مظاہرے پر کسمسا کر پیچھے ہٹی
یشب نے ہوش میں آتے ہوئے اپنے عمل پر نظریں چرا کر سر جھکا دیا
دونوں کے بیچ فسوں خیز سی خاموشی چھا گئی
چند منٹ بعد اس بولتی خاموشی کو یشب نے ہی توڑنے میں پہل کی
تم۔۔۔۔تم ٹھیک ہو ہیر۔۔۔۔۔؟؟
گھر چلیں پلیز۔۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولی
ہوں۔۔۔۔ہاں چلو۔۔۔۔یشب سر جھٹکتا کھڑا ہوا
ہیر کوشش کے باوجود بھی کھڑی نہ ہو پائی
کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟یشب اسکے چہرے پر کرب کے تاثرات دیکھ کر فکرمندی سے اسکے سامنے گھٹنوں کہ بل بیٹھا
ہیر پاؤں پکڑے درد برداشت کر رہی تھی۔۔۔
یشب نے موبائل کی روشنی ڈالتے ہوئے تکلیف کی وجہ جاننے کی کوشش کی
یہ۔۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔۔؟؟وہ خون سے بھرا پاؤں دیکھ کر فکرمند ہوا
ہیر سر جھکائے خاموش رہی وہ یشب کی کسی بھی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی بلکہ یوں خاموش تھی جیسے نہ بولنے کی قسم کھا لی ہو۔۔۔
یشب نے اسکا جواب نہ پا کر جیب سے رومال نکال کر اسکے انگوٹھے پر باندھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا
سسی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا
ہیر خون نکل رہا ہے یہ رومال باندھنے دو مجھے۔۔۔
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ گھبراتی ہوئی مزید پیچھے ہوئی
کم آن یار۔۔۔کچھ نہیں ہو گا
نہیں۔۔۔نہیں بہت پین ہو رہا ہے پلیز ہاتھ مت لگائیں
نہیں ہو گا پین آئی پرامس۔۔۔۔یشب نے مزید کچھ سنے بنا اسکا پاؤں سیدھا کر کے انگوٹھے پر رومال باندھ دیا
ہیر نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ دبائی
چلیں اب۔۔۔۔۔یشب نے رومال باندھ کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے رضامندی لی
ہوں۔۔۔۔۔ہیر کے ہاں میں سر ہلانے پر یشب نے جھک کر اسے قیمتی متاع کی طرح احتیاط سے بازؤں میں سمیٹ کر سینے سے لگایا اور واپسی کے لیے چل پڑا
……………………………………………………………
وہ ہیر کو لے کر حویلی کے رہائشی حصے کیطرف آیا
ہیر۔۔۔رر۔۔۔مہرو تیزی سے انکی طرف آئی
یہ۔۔۔۔یہ کیا ہوا ہے پاؤں پر یہ چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟وہ پریشانی سے بولی
مہرو کی آواز سنتے ہی حویلی میں موجود سب لوگ کونوں کھردروں سے وہاں آ کر کھڑے ہو گئے شادی والا گھر تھا بہت سے مہمان تھے جو اس وقت گولائی میں ہیر اور یشب کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔۔۔عجیب سا فلمی سین کری ایٹ ہو گیا تھا جہاں ہیرو اپنی ہیروئین کو بانہوں میں لیے سب کے بیچوں بیچ کھڑا تھا
ہیر سچویشن دیکھتے ہوئے شرمندگی سے یشب کو کمرے میں لے جانے کا کہہ رہی تھی
اور یشب وہ تو جیسے کان بند کیے کھڑا مہرو اور وہاں موجود دیگر بزرگ خواتین کے سوالات کے جوب دے رہا تھا کہ ہیر کہاں سے۔۔؟؟ اور کیسے ملی؟؟۔۔۔چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟ وغیرہ
مہرو نے ہیر کی شکل پر رقم بے بسی کے تاثرات دیکھ کر یشب کو بلند آواز میں ہیر کو کمرے میں لے جانے کا کہا
یشب سر ہلاتا اسے لیے کمرے کی جانب چلا گیا جہاں ہیر ٹہری ہوئی تھی
کمرے میں آ کر یشب نے احتیاط سے اسے بیڈ پر بیٹھایا
پین تو نہیں ہو رہا اب۔۔۔۔۔۔؟؟فکر مندی سے پوچھا گیا
ہیر نے بنا جواب دیے رخ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
مجھے تم سے محبت ہے ،
ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!
محبت بھی ستاروں سی٬
گلوں سی آبشاروں سی٬
صبح دم نکلتے پھولوں سی٬
کناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬
رم جھم برستی بارش سی،
آسمان پہ بکھرے دھنک رنگوں سی،
کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،
کسی نازک کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی،
مجھے تم سے محبت ہے ،
ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!
یشب کچھ دیر بیڈ کے پاس کھڑا اداس نظروں سے اپنی دید کی پیاس بھجاتا رہا اور پھر کمرے سے نکل گیا
………………………………………………………
کچھ دیر بعد زبیر خان ، یشب اور مہرو ڈاکٹر کے ساتھ ہیر کے کمرے میں داخل ہوئے
ڈاکٹر نے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد بینڈیج کی اور پین کلر دے کر چلا گیا
یشب یہ ہلدی ملا دودھ ہے اپنی نگرانی میں ہیر کو پلا دو ورنہ دودھ پینے کے معاملے یہ بہت چور ہے میں تب تک مہمانوں کے کھانے کا انتظام وغیرہ دیکھ لوں جا کر۔۔۔۔مہرو نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا
جی بھابھی۔۔۔۔یشب نے سائیڈ ٹیبل سے دودھ کا گلاس اٹھایا اور بیڈ پر ہیر کیساتھ ہی بیٹھا۔۔۔
یشب کے اتنا پاس بیٹھنے پر ہیر کے چہرے پر ابھرتی ناگواری کو دیکھ کر مہرو مسکراہٹ دباتی باہر نکل گئی
اب کمرے میں وہ دونوں تھے اور خاموشی۔۔۔۔
پی لو یہ۔۔۔۔۔یشب نے گلاس اسکے منہ کے پاس لے جا کر کہا
پی لوں گی رکھ دیں۔۔۔۔وہ بے زاری سے بولی
بھابھی کہہ کر گئیں ہیں میں پلاؤں۔۔۔۔
میرے ہاتھ سلامت ہیں میں پی سکتی ہوں خود سے۔۔۔۔۔
مگر میں اپنے بڑوں کا کہا نہیں ٹالتا اس لیے پیو اسے۔۔۔۔یشب نے سیریس ہوتے ہوئے گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایا
ہیر نے ہاتھ کی پشت سے گلاس کو پیچھے جھٹکا جس سے آدھا دودھ نیچے اور آدھا یشب کے کپڑوں پر گرا
واٹس رونگ۔۔۔۔۔؟؟اسکی تیوری چڑھی
رونگ میں نہیں رونگ آپ کر رہے ہیں اپنے مزاج سے۔۔۔۔۔۔۔
پیو اسے۔۔۔۔۔وہ بھی یشب تھا اڑیل گھوڑا کیطرح بضد۔۔۔
نہیں پیؤں گی۔۔۔۔وہ بھی ضدی ہوئی
انف از انف پیو یہ جو بچا ہے ورنہ الٹے ہاتھ کا ٹھپڑ دوں گا۔۔۔۔زیادہ دیر کول رہنا یشب کی عادت نہ تھی
دے دیں ٹھپڑ کئی دن جو ہو گئے نہ مارے ہوئے اس لیے دل چاہ رہا ہو گا۔۔۔۔ویسے بھی میرا سکون آپ سے برداشت ہی کب ہوتا ہے۔۔۔
میرا ضبط مت آزماؤ ہیر۔۔۔۔۔
مت کریں ضبط۔۔۔۔کریں جو کرنا ہے۔۔۔۔وہ گالوں پر پھسلتے آنسو پونچھتی بولی
اب کیا کر دیا میں نے جو برسات شروع کر دی۔۔۔یشب اسکے آنسو دیکھ کر چڑا
ہیر نے بنا کوئی جواب دیے برسات جاری رکھی۔۔۔۔۔
اچھا چلو بند کرو رونا۔۔۔۔۔یشب نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھ ہٹا کر دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسو پونچھے اور آگے کو جھک کر ماتھے پر بوسہ لیا
یہ تو آدھا گر گیا ہے میں نیا لاتا ہوں۔۔۔۔یشب دودھ کے آدھے گلاس کو دیکھ کر کہتا باہر نکل گیا
ہیر تو اسکی ہمت پر ششدر تھی یہ۔۔۔یہ کیا کر رہا ہے آج۔۔۔۔۔؟؟؟
اونہہ۔۔۔زبردستی تسلط جمانا چاہ رہے ہیں۔۔۔جب دل چاہا سینے سے لگا لیا جب چاہا پرے دھکیل دیا۔۔۔۔وہ کڑھتی ہوئی بڑبڑائی
پانچ منٹ میں یشب دودھ کا بھرا گلاس لیے حاضر تھا
یہ پکڑو۔۔۔۔پی لو گی یا میں پلاؤں پھر۔۔۔۔۔؟؟؟
ہیر نے غصے سے دیکھتے ہوئے گلاس پکڑ کر ایک ہی سانس میں خالی کر دیا
گڈ۔۔۔۔اب لیٹ کر آرام کرو
یشب نے اسکے پیچھے تکیہ ٹھیک کیا اور اسے پکڑ کر زبردستی لٹا کر کمبل اوڑھا اور خود چینج کرنے واش روم چل دیا
ہیر نے آنکھیں بند کیں اور دل کھول کر یشب کو کوسنے لگی جو زبردستی کمبل ہوا جا رہا تھا
………………………………………………………
رات کا ناجانے کونسا پہر تھا جب بھوک کی وجہ سے ہیر کی آنکھ کھلی
اس نے ترچھا سا اٹھ کر سائیڈ لیمپ آن کیا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پر سوئے یشب پر ایک سرسری نظر ڈالی
اب کیا کروں۔۔۔۔؟؟ صبح ناشتہ کیا تھا اور دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا، رات کو بھی صرف دودھ کا گلاس پیا تھا۔۔۔۔یہ سوچ کر اس کی بھوک مزید چمک اٹھی
خود ہی کیچن تک جاتی ہوں۔۔۔۔وہ اٹھنے لگی تھی کہ رک گئی
اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا میں اتنی بھوکی ہوں کہ آدھی رات کو کیچن میں کھا پی رہی ہوں۔۔۔۔
تو پھر کیا کروں۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئی
جس نے جو سوچنا ہے سوچے مجھے کیا۔۔؟؟وہ پیٹ میں دوڑرتے چوہوں سے مزید نہ لڑ سکی
اس نے پھر سے مزے سے سوئے یشب پر نظر ڈالی
ان کو کہہ دیتی ہوں۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی سوچ کو جھٹکتی وہ خود ہی کیچن تک جانے کا فیصلہ کر کے اٹھی، کمبل ہٹایا اور ٹانگ کو پکڑ کر نیچے رکھا بیڈ کورز کو جکڑ کر اٹھنے کی کوشش کی مگر پاؤں میں اٹھتی ٹیسوں کی وجہ سے کامیاب نہ ہو پائی
کچھ دیر بعد پھر کوشش کی مگر سی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔ی کرتی ہوئی پھر سے بیٹھی رہ گئی
کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟؟یشب نے خمار آلود آنکھوں کو رگڑتے ہوئے پوچھا
وہ روشنی کی وجہ سے جاگا تھا۔۔۔۔اسے کمرے میں مکمل اندھیرا کر کے سونے کی عادت تھی حتی کہ زیرو پاور بلب کی روشنی بھی نہیں۔۔۔۔
مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ہیر اسے دیکھے بنا منمنائی
تو مجھے جگا دیتی۔۔۔روکو میں بھابھی کو کہتا ہوں۔۔۔۔یشب نے سیل اٹھایا
نہیں آپ بھابھی کو کیوں تنگ کریں گے اس وقت۔۔۔۔میں خود ہی چلی جاؤں گی کیچن تک۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔یشب جانتا تھا وہ پاؤں میں درد کی وجہ سے چل نہیں پائے گی مگر اسکے کہنے پر جان بھوج کر اوکے کہتا خاموش ہو گیا
ہیر نے دو چار منٹ تک ویٹ کیا کہ یشب پھر سے روک دے گا مگر وہ چپ ہی رہا۔۔۔
وہ اسے کوستی بیڈ کو مضبوطی سے تھامے بمشکل کھڑی ہوئی
پاؤں کو گھسیٹتی ایک قدم آگے بڑھی مگر پین ناقابل برداشت تھا
وہ پھر سے بیڈ پر بیٹھی۔۔۔۔
کیوں جانا نہیں ہے کیا کیچن تک۔۔۔۔؟؟؟استہزائیہ پوچھا گیا
آپ خاموش رہیں جب کچھ کر نہیں سکتے تو منہ بھی بند رکھیں۔۔۔۔
میں پیار میں بھی بد تمیزی کا قائل نہیں ہوں اس لیے سوچ سمجھ کر بولا کرو۔۔۔
تو کون مانگ رہا ہے آپ سے پیار۔۔۔۔۔؟؟وہ اسکی بات پر سیخ پا ہوتی پیچھے کو مڑی
ضروری نہیں کہ ہر چیز مانگی جائے بعض اوقات بنا مانگے ہی وہ سب مل جاتا ہے جو انسان چاہتا ہے۔۔۔۔وہ رسان سے بولا
مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی۔۔۔
میں تو چاہتا ہوں ناں پھر تمہارے چاہنے نا چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔؟؟یشب کندھے اچھکا کر کہتا اٹھ بیٹھا
ہاں۔۔۔ہاں آپ مرد جو ہیں جب جو چاہیں گے زبردستی حاصل کر لیں گے۔۔۔
بلکل۔۔۔۔۔وہ اسے چڑانے کے انداز میں مسکرایا
اونہہ مطلب پرست۔۔۔۔ہیر نے سر جھٹک کر منہ پھیر لیا
اب بھوک نہیں کیا۔۔۔۔؟؟یشب نے اسے لیٹتے دیکھ کر پوچھا
نہیں۔۔۔۔۔لٹھ مار جواب آیا
فائن۔۔۔۔لیمپ آف کرو اور دوبارہ مت چلانا سمجھی۔۔۔۔۔
ہیر نے خاموشی سے لیمپ آف کیا اور پیٹ میں اچھل کود مچاتے چوہوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زبردستی آنکھیں بند کر لیں۔۔
………………………………………………………………
اٹھو۔۔وو۔۔۔یشب نے اسکا کمبل ہٹا کر کہا
مجھے نہیں کھانا ہے۔۔۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولی
یشب اسکے لیٹنے کے بعد اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا اور اب وہ کھانے کی ٹرے لیے اسکے سرہانے کھڑا تھا
تم سے پوچھا نہیں میں نے کھانا ہے یا نہیں۔۔۔۔یشب نے اسکے بازو کو پکڑ کر زبردستی اٹھایا اور بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیا
ٹرے اسکے سامنے رکھی۔۔۔
کھاؤ گی یا میں کھلاؤں۔۔۔۔؟؟؟تیوری چڑھا کر پوچھا
مجھے بھوک نہیں میں۔۔۔۔۔
وہ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے خود سامنے بیٹھا اور چمچ میں چاول بھر کر اسکے منہ کی طرف بڑھایا
ہیر نے بھی ضدی انداز میں ہونٹوں کو آپس میں مضبوطی سے بھینچ لیا
ٹیک اٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیر آئی سیڈ ٹیک اٹ۔۔۔۔وہ پھر سے بولا
ہیر منہ بند کیے اسے دیکھتی رہی۔۔۔
اگر ان نینوں سے قتل کرنے کا ارادہ ہے تو محترمہ یہ کام آپ کچھ سال پہلے کر چکی ہیں۔۔۔۔یشب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر چھیڑا اور جھک کر ان خفا خفا نینوں پر محبت کی پہلی مہر ثبت کی۔۔۔
آپ۔۔۔۔آپ بہت برے ہیں یشب خان آفریدی۔۔۔۔آپ سے برا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ منہ ہاتوں میں دئیے رونے لگی
میں واقعی بہت برا ہوں اور مجھے مجبور مت کرو کہ میں پھر سے کچھ برا کروں۔۔۔یشب نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائے
کیا ہے آپ کو۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑچڑی ہو رہی تھی یشب کی حرکات پر۔۔۔۔
اچھا کچھ دیر کے لیے لڑائی روکتے ہیں تم کھانا کھا لو پھر یہیں سے کنٹی نیو کریں گے رائٹ۔۔۔۔۔وہ اسکا سر تھپتھپا کر کہتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔جانتا تھا کہ ہیر اسکی موجودگی میں نہیں کھائے گی
اس کے جانے کے بعد ہیر نے کچھ دیر مزید رو کر آنسو رگڑے اور چمچ اٹھا کر اپنا فیورٹ مٹن پلاؤ کھانے لگی
وہ چند منٹ میں ہی پوری پلیٹ چٹم کر چکی تھی۔۔۔
…………………………………………………………………
******************ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ *********************
0 Comments
Post a Comment