تیرے لیے 


قسط نمبر نو 


مصنفہ منال علی 


__________________________________________________


مجھے نہیں پتہ بابا ہر حال میں یہ کیس دوبارہ سے ری اوپن ہونا چاہیے میں چاہتا ہوں کہ جس نے حرم جی کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے وہ لوگ پکڑے جائیں چھ مہینے ہو گئے ہیں اس بات کو لیکن ہمارے پاس کوئی ایک ثبوت کوئی ایک گواہ نہیں ہے اس چیز کا ہم کچھ نہیں کر پا رہے اور پھر اوپر سے اپ لوگ یہ کیس بھی بند کر رہے ہیں میں نہیں چاہتا کہ یہ کیس بند ہو اپ پلیز ان سے دوبارہ یہ کس ری اوپن کروائیں۔۔۔۔

 سکندر ابھی ابھی پولیس اسٹیشن سے ا کر بیٹھے تھے سکندر کے سر میں ویسے ہی درد ہو رہا تھا اس کیس کا سوچ کر کے آگے کیا کرنا ہے ۔۔۔


 دیکھو حمدان میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ہم کیس اخر کار کس پر چلائیں گے ہمارے پاس کوئی مجرم نہیں ہے کوئی ثبوت نہیں ہے کوئی گواہ نہیں ہے ۔۔جس نے حرم کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہم اسے نہیں جانتے یہاں تک کہ حرم کو خود یاد نہیں اس نے جو بیان دیا ہے وہ صرف اتنا تھا کہ ا سے نہ ہی تو کسی کا چہرہ یاد ہے اور نہ ہی کوئی جگہ وہ مستقل بے ہوش رہی ہے ۔۔۔۔۔

ہر کسی کو اتنا ہی معلوم ہے جتنا حرم نے بتایا ہے ۔۔۔

کہ ان کی گاڑی کچھ لوگوں نے روکی تھی کسی جگہ کا ایڈریس معلوم کرنے کے لیے اور پھر پیچھے سے جو دو کار ائی تھی ان میں سے نکل کر کسی ایک نے پیچھے سے حرم کے چہرے پر رومال رکھا تھا اس کے بعد اس کو کچھ یاد نہیں کہ ڈرائیور کے ساتھ کیا ہوا وہ گاڑی سے کب نکالی گئی اور پھر کس نے ا سے زیادتی کا نشانہ بنایا وہ کچھ نہیں جانتی سوائے اس چیز کے جو میں تمہیں بتا رہا ہوں۔۔

 اب تم مجھے بتاؤ ہم کیس کس بنیاد پر چلائیں گے نہ ہی تو روڈ پہ کوئی کیمرہ تھا اور نہ ہی کچھ اور ۔۔۔

کوئی ثبوت نہیں ہے اس جگہ پر بھی جہاں پر ہمیں حرم ملی ۔۔۔۔


میں کچھ نہیں جانتا بابا یہ کیس ہر حال میں ری اوپن ہوگا اور میں کل جاؤں گا پولیس ا سٹیشن ایپلیکیشن دینے ۔۔۔۔


  تم چاہے دس ایپلیکیشن دے دو ہمدان لیکن اس کیس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ہم الزام لگائیں کس پر کوئی ہے ہی نہیں کوئی اگر ہوتا یا کسی پر شک ہوتا تو پھر بھی اس کیس کی کوئی اہمیت ہوتی ۔ مجرم کا بھی ہمیں نہیں پتا حمدان ۔۔۔

اب ہم کیا کر سکتے ہیں تم بتاؤ ۔۔۔

حرم کے کیس کے اندر تو ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے وہ نامعلوم افراد ہیں ۔۔

اور نامعلوم افراد کو تم کہاں سے ڈھونڈو گے مجھے یہ بتاؤ ۔۔۔۔


حمدان ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا وہ بالکل صحیح کہہ رہے تھے جن لوگوں کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے جب کوئی سراغ ہی نہیں ہے تو وہ کیا ڈھونڈے گا اور حرم کو کیا انصاف دلوائے گا ۔۔ 


سکندر کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی ہمدان خاموشی کے ساتھ حرم کی یونیورسٹی جا پہنچا تھا ۔ اس نے حرم کی ایک ایک دوست سے حرم کے متعلق تمام معلومات لی تھی یہ اس کے لیے کافی مشکل تھا وہ یہ سب کچھ کافی خفیہ طور پر کر رہا تھا کہ کسی کو اس کی خبر تک نہ ہو خصوصا سکندر کو وہ حرم کی ہر سہیلی کے پاس گیا تھا اور یہاں تک اس نے یہ تک معلوم کیا تھا کہ کوئی لڑکا حرم کے اندر انوالو تو نہیں کوئی ا سے پسند تو نہیں کرتا تھا مگر وہاں جا کر بھی اسے صرف یہی پتہ چلا کہ ایسا کچھ نہیں تھا اور پسند تو اسے بہت سارے لوگ کرتے تھے کیونکہ وہ ایک بہت اچھی لڑکی تھی اور یونیورسٹی کی اچھی سٹوڈنٹس میں سے ایک ۔۔۔


اسی طرح کرتے کرتے وہ ہر ہفتے اب اس کی یونیورسٹی پہنچنے لگا تھا وہ اپنے کالج نہیں جاتا تھا گھر سے بول کے جاتا تھا کہ کالج جا رہا ہے مگر حقیقتا وہ یونیورسٹی میں حرم کے متعلق معلومات اکٹھی کر رہا تھا ۔۔۔چوکیدار سے کینٹین والے سے اس کی کلاس کی لڑکیوں سے یہاں تک لڑکوں سے بھی اور ٹیچرز سے بھی ۔۔۔۔

وہ ا بھی یونیورسٹی کے چوکیدار کے پاس پہنچا ہوا تھا اور اس نے چند نوٹ نکال کر چوکیدار کے اگے کیے ۔۔ 


میں اپ سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتا ہوں اگر اپ برا نہ منائیں تو یہ رکھ لیں ۔۔۔

میں اپ سے حرم منصور کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔۔۔

جس وقت وہ یہاں سے نکلی تھی اس دن کا وقت اپ کو یاد ہے ۔۔

چوکیدار نے سوچنے کی کوشش کی صبح تو میں نے ان کو دیکھا تھا جی وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ ہی ائی تھی یونیورسٹی پھر یہ ہوا تھا کہ میری شفٹ چینج ہو گئی تھی میں صرف ایک بجے تک ہوتا ہوں یہاں پر صبح سے لے کر ایک بجے تک ایک بجے کے بعد دوسرا چوکیدار اتا ہے ۔۔۔

اپ اس سے کچھ معلومات لے لیں اگر اپ کو چاہیے تو ۔۔۔۔

بہت بہت شکریہ اچھا آپ ایک کام کریں کہ یہ میرا نمبر رکھ لیں اگر اپ کو کچھ بھی یاد ائے چھوٹی سے چھوٹی بات بھی تو اپ مجھے لازمی بتائیے گا ۔۔۔

وہ چوکیدار اب اپنی ڈیوٹی مکمل کر جا چکا تھا جبکہ حمدان یونیورسٹی کے باہر کھڑا دوسرے چوکیدار کا انتظار کر رہا تھا ۔۔


کچھ دیر کے بعد وہ دوسرا چوکیدار بھی اپنی ڈیوٹی پر اگیا تھا ۔۔

پہلے والے چوکیدار کے مقابلے میں اس کی عمر ذرا کم تھی وہ 35 سال کا ہوگا ہمدان یوں ہی ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے اس کے برابر میں ا کر کھڑا ہو گیا اور اس سے حرم منصور کے متعلق جب پوچھا تو اس چوکیدار نے تیزی سے گردن اٹھا کر ہمدان کی طرف دیکھا ۔۔ ۔۔


جی۔۔۔ جی ہاں میں جانتا ہوں ان کو ۔۔

یونیورسٹی نہیں ارہی وہ اج کل طبیعت وغیرہ تو ٹھیک ہے نا ان کی حمدان نے اس چوکیدار کو غور سے دیکھا ۔۔۔


دیکھتا ہوں میں ان کو اتی جاتی رہتی ہیں وہ یونیورسٹی ۔۔۔


روز اسی ٹائم پہ ان کو اتے وقت دیکھتے ہو یونیورسٹی میں ۔۔ ؟؟


ارے ہاں ہاں اسی ٹائم پہ دیکھتا تھا روز ۔۔۔


مگر وہ تو مارننگ کی سٹوڈنٹ ہے ۔۔۔حمدان نے چپتی ہوئی نظروں سے چوکیدار کو دیکھا ۔۔۔


ہاں ہاں ۔وہ ۔۔صبح بھی دیکھا ہے میں نے جب کبھی شفٹ لمبی ہوتی ہے صبح بھی آ جاتا ہوں اور ان کو دوپہر کے ٹائم پر بھی دیکھا تھا جب وہ یونیورسٹی میں کوئی فنکشن تھا نا تب ۔ ۔۔


 اپ نے کبھی انہیں کسی کے ساتھ دیکھا ہے مطلب اتے جاتے دیکھا ہے جب کبھی کلاسز لیٹ ہو جاتی ہیں حمدان نے اپنا رویہ اور اپنا مزاج تھوڑا سا اور نرم کیا ۔ ۔۔


اگر اپ کو کچھ بھی معلوم ہو ان کے بارے میں تو اپ مجھے بتا سکتے ہیں ۔۔۔۔حمدان نے 

چوکیدار کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ ۔ 


نہیں مجھے ان کے بارے میں تو کچھ معلومات حاصل نہیں ہے لیکن ان کا ڈرائیور لینے اتا تھا انہیں اکثر سفید گاڑی میں تو بس تبھی دیکھ لیا تھا ۔۔۔


ڈرائیور سے بات چیت تھی تمہاری؟؟


 حمدان نے ایک اور سوال کیا ۔۔


جی ۔۔۔۔

باقی مجھے کچھ نہیں پتہ ان کے بارے میں اب مجھے ذرا میرا کام کرنے دیں ورنہ میری کمپلین ہو جائے گی ۔۔۔۔

ٹھیک ہے اپ میرا نمبر رکھ لیں اگر اپ کو کچھ پتہ چلے کچھ یاد ائے تو مجھے ضرور بتائیے گا حرم جی کے متعلق ۔۔ ۔۔۔


السلام علیکم صاحب ۔۔

کوئی لڑکا ایا تھا حمدان نام بتا رہا تھا ۔۔ اس لڑکی کے بارے میں سوال کر رہا تھا وہ یونیورسٹی والی لڑکی حرم کے بارے میں ۔۔۔۔


تم نے اسے کچھ بتایا تو نہیں نا بے وقوف انسان ۔۔۔


نہیں جی میں کیوں بتاؤں گا اس کے جانے کے بعد پہلا فون تو میں نے اپی کو گھمایا ہے مجھے اپنا نمبر دے کے گیا ہے حمدان نام بتا رہا تھا اپنا اور کہہ رہا تھا کہ اگر کچھ بھی یاد ائے تو مجھے بتانا ۔۔


تم ایسا کرو کہ اس کا نمبر ڈیلیٹ کر دو اور دوبارہ اس سے رابطہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ورنہ میں تمہیں جان سے مار دوں گا ۔۔


نہیں جی نہیں میں دوبارہ کبھی اس سے بات نہیں کروں گا تبھی تو اپ کو بتا رہا ہوں سب کچھ ۔۔۔


اب دوبارہ مجھے فون مت کرنا سمجھے اور اپنا منہ بند رکھنا ورنہ ساری زندگی کے لیے بند کر دوں گا اور جتنی جلدی ہو اپنے گاؤں چلے جاؤ اور واپس مت آنا تب تک جب تک سب ٹھیک نہیں ہوتا وہ لڑکا تمہارے پاس آے گا بار بار آے گا اور میں نہیں چاہتا اسے کچھ بھی پتا چلے ہمارے بارے میں ۔۔۔


حمدان اگلے دن ایک بار پھر سے یونیورسٹی پہنچا ہوا تھا اور وہ صبح والے چوکیدار سے ایک بار پھر وہی ساری چیزیں پوچھ رہا تھا۔۔ 


صاحب جو بھی تھا میں نے اپ کو بتا دیا ۔۔۔۔


وہ جو تمہارے بعد والا چوکیدار اتا ہے وہ کہتا ہے کے وہ ڈرائیور کو جانتا ہے دونوں کے درمیان دوستی تھی کیا ۔۔۔۔۔؟؟


ہاں صاحب دونوں کے درمیان دوستی تھی وہ کبھی کبھار کلاسز تھوڑا سا لیٹ ہو جاتی ہیں نا تو تب اس کے انے کا ٹائم ہو جاتا ہے ہو سکتا ہے اسی دوران ان کی دوستی ہوئی ہو ۔۔

 

 تمہاری کوئی بات چیت نہیں تھی ڈرائیور سے ۔۔۔


نہیں جی میری تو نہیں تھی ۔۔


تھوڑا سا اور یاد کرنے کی کوشش کریں ہو سکتا ہے اپ کو کچھ اور یاد ائے۔۔ 

گاڑی میں حرم جی گاڑی اکیلی تھی ۔۔۔۔؟؟


گاڑی تو خالی تھی۔۔۔ ۔ 

اور اس دن دیپک پہلے والے چوکیدار نے دوسرے والے چوکیدار کا نام لیا ۔۔وہ گاڑی کی طرف گیا تھا مگر دس منٹ میں ہی واپس اگیا ورنہ تو واپس اتے اتے وہ کم از کم 15 سے 20 منٹ لگاتا ہے بات چیت کرنے میں مگر اس دوران ان دونوں کے درمیان کوئی بات ہی نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔


وہ کیوں ۔۔۔

حمدان کے ماتھے پر بے شمار بل پڑے ۔۔۔


وہ کہہ رہا تھا کے پورانہ ڈرائیور آج نہیں آیا ۔۔آج کوئی نیا ڈرائیور آیا ہے ۔۔۔


 بہت بہت شکریہ اپ کا ۔

انے والا ہوگا نا وہ تو ۔۔؟؟؟


 

نہیں جی وہ نہیں ائے گا وہ تو اپنے گاؤں چلا گیا ہے کام چھوڑ کر ۔۔


کیا مطلب کہاں ہے اس کا گاؤں ۔۔ 


یہ تو مجھے نہیں پتہ اس کے بدلے کی بھی ڈیوٹی میں کر رہا ہوں ۔۔۔


وہ اتنی جلدی واپس گاؤں کیسے جا سکتا ہے کام چھوڑ کر وہ بھی ایک دن میں ۔۔۔


ایک مہینہ پہلے ہی آیا تھا وہ یہاں آب اتنی جلدی چلا گیا بتایا بھی نہیں کے کل سے نہیں آے گا ۔۔۔۔


اس کا کوئی نمبر کوئی پتہ ۔


 نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔


حمدان کو لگا کہ اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل چکی ہے ۔۔۔

اتنے قریب ا کے ہر چیز اس کے ہاتھ سے نکل گئی ۔ 

مجھے اس چوکیدار کو ڈھونڈنا ہے ۔۔۔اپ جانتے ہیں کہ اس کا گاؤں کہاں ہے جتنے پیسے اپ مانگیں گے میں اپ کو دوں گا ۔۔


بھائی بات پیسوں کی نہیں ہے لیکن میں واقعی نہیں جانتا کہ اس کا گاؤں کہاں ہے اور وہ کہاں رہتا ہے بس چوکیداری کی نوکری ہے چینج ہوتی رہتی ہیں اور اسے ویسے بھی ائے ہوئے صرف اور صرف ایک ماہ ہی ہو ا ہے اور ایک ماہ کے اندر اندر اس نے کام چھوڑ دیا اور گاؤں چلا گیا ۔۔۔۔


حمدان کا فون بجنے لگا تم اس وقت کہاں ہو ہمدان ۔۔۔؟؟؟

ٹھیک دس منٹ کے بعد سکندر کی کال ائی تھی ۔۔۔

میں اپنے کالج میں ہوں بابا ۔۔ 

حمدان نے جھوٹ کہا ۔۔۔


اپنے کالج میں ہو تم یا حرم کی یونیورسٹی میں ۔۔۔

میں اس وقت حرم کی یونیورسٹی کے بالکل سامنے کھڑا ہوں اور تم مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو بالکل میرے سامنے کھڑے ہو کر ۔۔سکندر نے غصے سے کہا جب کہ حمدان نے گردن موڑ کر سکندر کو دیکھا ۔۔

تم یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔؟؟؟؟

میں ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔

اور اپ کو پتہ ہے بابا یہ چوکیدار کہہ رہا ہے کہ اس دن صدیق نہیں تھا جو حرم جی کو لینے ایا تھا بلکہ کوئی اور تھا ۔مگر افسوس کے ساتھ کہ وہ ادمی یہاں سے بھاگ چکا ہے ۔۔

اگر ہمیں وہ ادمی مل جاتا ہے تو ہم ضرور حرم جی کے لیے کچھ نہ کچھ کر پائیں گے ۔۔۔


تم مجھے بغیر بتائے یہ سب کچھ کر رہے ہو اتنے ہفتوں سے تم یونیورسٹی میں حرم کے متعلق لوگوں سے سوال جواب کر رہے ہو چوکیداروں سے حرم کا پوچھ رہے ہو تمہارے خیال سے یہ سب کچھ صحیح ہے تم اپنی پڑھائی مس کر رہے ہو گھر والوں سے جھوٹ کہہ رہے ہو ۔۔۔


ہاں کیوں کہ میں یہ سب کچھ حرم جی کے لیے کر رہا ہوں ۔۔۔


ہم بھی یہ سب کچھ حرم کے لیے ہی کر رہے ہیں ۔۔

تمہارے کہنے پر میں نے کیس دوبارہ سے ری اوپن کر دیا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم خود پولیس والے بن کے انصاف ڈھونڈنے نکل پڑو وہ بھی غلط طریقے سے ۔۔۔


میں نے کوئی غلط طریقہ اختیار نہیں کیا ۔۔۔


ٹھیک ہے میں مان لیتا ہوں کہ تم نے کوئی غلط طریقہ اختیار نہیں کیا لیکن تم جو یہ سب کچھ کر رہے ہو یہ تمہارا کام نہیں بلکہ پولیس کا کام ہے ۔۔ایک تو ویسے ہی ہمارا کیس اتنا مضبوط نہیں ۔


میں اپ کے ساتھ پولیس اسٹیشن جانا چاہتا ہوں ۔۔جو کچھ مجھے اس چوکیدار نے بتایا ہے ہو سکتا ہے ہماری اس سے کوئی مدد ہو جائے ۔۔

ٹھیک ہے میں تمہاری بات مان لیتا ہوں ہم چلتے ہیں مگر اب تم مجھے بغیر بتاۓ کچھ نہیں کروگے۔۔ 


اپ شہزاد بھائی سے کہیں کہ وہ اپنی سورس لگائیں ۔۔۔اور اس کو پکڑ لیں وہ مل گیا تو سب آسان ہے ہمارے لئے وہ بتا سکتا ہے کے اس دن ڈرائیور کی جگہ کون تھا اور حرم جی نے بھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا ورنہ وہ ہمیں بتا دیتیں کے وہ کون تھا ۔۔۔


ہاں میں بات کرتا ہوں شہزاد سے اب تک سب کچھ اسی نے کیا ہے اسی کی وجہ سے ہی تو ہم حرم کو ڈھونڈ پائے تھے اگر وہ نہیں ہوتا تو حرم مر جاتی ۔۔۔


__________________________________________________


کیا میں اندر ا سکتا ہوں ۔۔وہ ابھی سیدھا ہاسپٹل سے ایا تھا اور سیدھا اس کے پاس ایا کمرے میں وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی ۔۔۔


کیا پڑھ رہی ہیں اپ ۔۔۔


ایسے ہی بس کچھ پڑھ رہی تھی ۔۔


میں بھی تو اپ کو یہی کہتا ہوں یوں اپنی میڈیکل کی کتابوں کو ہاتھ میں لینے سے بہتر ہے آپ دوبارہ سے اپنا ایڈمیشن لے لیں اور اپنا میڈیکل کمپلیٹ کر لیں ۔۔۔


تمہیں میری بات سمجھ نہیں اتی تم روز روز مجھ سے یہ بات کیوں کرتے ہو ۔۔۔


کیونکہ میں اپ کو اگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اس لیے ۔۔۔


چپ ہو جاؤ حمدان ۔۔۔


کافی پیئیں گی اپ ۔۔۔؟


نہیں میرا موڈ نہیں ہے تم پی لو ۔۔۔


تو پھر بنا دیں ۔۔۔

وہ ابھی تک بیٹھا نہیں تھا ۔۔اس کے ہاتھ میں اس کا سفید رنگ کا کوٹ تھا ۔۔ وہ لائٹ بلو کلر کی شرٹ پہنا ہوا تھا اور نیچے بلیک پینٹ ایک ہاتھ اس کی جیب میں تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنا کوٹ اٹھایا ہوا تھا ۔۔

حرم اسے دیکھنے لگی وہ اتنا بڑا ہو چکا تھا ڈاکٹر بن چکا تھا ۔۔


کیا دیکھ رہی ہیں اچھا لگ رہا ہوں کیا ۔۔۔حمدان نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔


ہاں ۔۔۔

وہ کہتے کہ ساتھ اپنے بیڈ سے اٹھی وہ حمدان کے کام کو نہیں منع کر سکتی تھی ۔۔۔

کھانا کھا رہے ہو تم میں لگا دوں ۔۔۔


اپ نے کھانا کھایا ہے ۔۔۔

مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔۔


پہلے ساتھ کھانا کھاتے ہیں پھر کافی پییں گے ۔۔


ماں بابا چلے گئے ۔۔؟؟؟


ہاں تمہارے انے سے 15 منٹ پہلے ہی گئے ہیں سکندر اور مریم دونوں کسی فنکشن پر انوائٹڈ تھے ۔۔


ہمدان اب اپنا کوٹ ایک طرف رکھ کر اپنی استینیں فولڈ کر رہا تھا ۔۔۔ان دونوں کے درمیان ایک بہت خوبصورت ہائٹ ڈفرنس تھا ۔۔


تم رہنے دو میں کر لوں گی ۔۔


نہیں ساتھ کام کرتے ہیں جلدی ہو جائے گا ۔۔۔اپ نے ہی تو سکھایا ہے کہ مل کر کام کرنا چاہیے ۔۔۔


وہ حرم کے ساتھ کھانا نکالوا رہا تھا ۔۔کھانا لے کر وہ دونوں ٹیبل پر ا کر بیٹھے دونوں نے ساتھ کھانا کھایا وہ اب ٹیبل صاف کر رہی تھی ۔۔۔


جبکہ حمدان کافی بنانے کے لیے سامان نکال رہا تھا ۔۔۔


میں بنا تو رہی ہوں کافی ۔۔۔


اپ ہی بنائیں گی میں تو بس سامان نکال رہا ہوں ۔۔

اپ کا ہاتھ نہیں جاتا نا اوپر تک اس لئے حمدان نے شرارت سے اس کے کان کے قریب اپنا چہرہ کر کے کہا ۔۔۔


حرم نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔

زیادہ مت بولا کرو تم ۔۔


اب تو عادت ہو گئی ہے حرم جی زیادہ بولنے کی پہلے اپ بولتی تھی میں سنتا تھا اب میں بولتا ہوں اور اپ سنتی ہیں ۔۔۔


ا جائیں گارڈن میں بیٹھ کر پیتے ہیں ۔۔

وہ ایک ہاتھ سے کافی اٹھا کر اور دوسرے ہاتھ سے حرم کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے ایا ۔۔ 

وہ دونوں گھر کے دوسرے حصے کی طرف بنی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔


سوچ رہا ہوں شادی کر لوں ۔۔

حمدان کی بات پر حرم نے تیزی سے گردن موڑ کر حمدان کو دیکھا وہ پہلی بار اس طرح کی بات کر رہا تھا ۔۔


اچھا ۔۔اچھی بات ہے کر لو ۔۔۔


اتنا ٹھنڈا ری ایکشن وہ بھی میری شادی پر ۔۔۔


تو اور کیا کہوں کر لو شادی اگر کرنی ہے تو ۔۔۔


اپ نے تو میرے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈی ہی نہیں سوچا خود ہی ڈھونڈ لوں ۔۔۔


یہ تو اور بھی اچھی بات ہے ۔۔


وہ اب اپنی کافی کے اوپر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔اور حمدان خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔

اس نے اپنے بالوں کی پونی بنائی ہوئی تھی جو کہ اب تھوڑی سی خراب ہو چکی تھی اور جگہ جگہ سے بال نکل رہے تھے ۔اس نے سیاہ سوٹ پہن رکھا تھا ۔۔لمبی سی چوٹی اس کی کمر پر پھیلی ہوئی تھی اور دوپٹہ اس کے کندھوں پر وہ خاموشی سے بیٹھے اپنے کافی کے کپ پر ہاتھ پھیر رہی تھی جبکہ حمدان بے حد خاموشی کے ساتھ اس کی خوبصورتی کو دیکھ رہا تھا ۔۔وہ واقعی بہت خوبصورت تھی ۔۔۔۔

کچھ بال اس کے چہرے پر آے تھے ۔۔

ہمدان کا دل چاہا کہ وہ بال اس کے چہرے سے ہٹا کر اس کے کان کے پیچھے کرے ۔۔مگر وہ صرف اسے دیکھ سکتا تھا وہ بھی بہت دور سے ۔۔۔


کافی بہت اچھی ہے ۔۔۔حمدان نے ایک بار پھر بات کا سلسلہ شروع کیا ۔۔


حرم خاموش رہی ۔۔


میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔اس نے ایک بار پھر کہا ۔۔


کر لوں ۔۔۔


لیکن میں ڈرتا ہوں ۔۔۔


کس چیز سے حرم نے اس کے چہرے کو دیکھا ۔


اگر اس سے اظہار محبت کروں گا تو نہ جانے اس کا کیا ری ایکشن ہوگا وہ حرم کی انکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔۔


تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو اور تم نے اسے یہ نہیں بتایا کہ تم اسے پسند کرتے ہو وہ اپنے چہرے پر ائے ہوئے بالوں کو پیچھے کر رہی تھی ۔۔


اسے کچھ نہیں پتہ بہت سالوں سے وہ میرے دل میں ہے ۔۔


پہلے تو تم نے کبھی نہیں بتایا مجھے اس لڑکی کے بارے میں ۔۔


ہاں مگر اب دل کرتا ہے بتا دوں اسے اب دل چاہتا ہے اسے حاصل کر لوں اب دل چاہتا ہے کہ اسے اپنے سے کبھی دور نہ کروں یوں ہی بس ا سے بیٹھے دیکھتا رہوں وہ حرم کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔


ماں اور بابا سے بات کرو ۔۔۔


ہمدان حرم کی بات پر زور سے ہنسا ۔۔۔


ہنس کیوں رہے ہو ۔۔۔۔


انہیں میری پسند بہت اچھی لگے گی ساتھ ہی وہ لوگ حیران ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ بابا مجھے ٹھیک ٹھاک گالیاں بھی دیں ۔۔۔


وہ کیوں ۔۔۔۔


بس ہے کچھ ۔۔ 


دکھاؤ مجھے کوئی پکچر تمہارے ساتھ ہاسپٹل میں کام کرتی ہے یا کالج کی کوئی لڑکی ہے جو تمہارے ساتھ پڑھتی تھی ۔۔ ۔۔


میرے ساتھ ہی ہوتی ہے وہ ہمیشہ کافی سال ہو گئے ہیں ہم کو ساتھ رہتے ہوئے ۔۔


دکھاؤ مجھے ۔۔۔


نہیں اپ نظر لگا دیں گی ۔۔۔۔


اتنی خوبصورت ہے ۔۔۔


ہاں وہ میری نظر میں دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے ۔۔


جاری ہے