تیرے لیے 

قسط نمبر 8

مصنفہ منال علی 


__________________________________________________

قیامت سی قیامت ہر طرف مچی ہوئی تھی۔۔۔

حرم منصور اپنے مشکل ترین وقت سے گزر رہی تھی ۔۔۔


شہزاد بھاگا بھاگا سکندر کی طرف ایا ۔۔۔۔


سکندر انکل ایک لڑکی کی باڈی ملی ہے ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ لڑکی زندہ ہے اب ہمیں جا کے دیکھنا ہے کہ وہ حرم ہے یا پھر کوئی اور میں نے اس عورت سے حلیہ تو پوچھا ہے تو انہوں نے مجھے کہا ہے کہ وہ لڑکی حرم منصور سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے جو انہیں نالے کے پاس سے ملی ہے ۔۔

سکندر کا دل ڈوب گیا ۔۔۔ان کی انکھوں سے آنسو تیزی سے رواں تھے ۔۔۔

وہ دو دن سے لاپتا تھی دو دن سے وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا یونیورسٹی کے سی سی ٹی وی کیمرہ سے بس اتنا دیکھا گیا کہ وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر جا رہی تھی ۔۔۔

اور اس دن کے بعد سے وہ دو دن تک لاپتہ تھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں ہیں اور اس کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔۔۔

ڈرائیور تو مر چکا تھا اس کی بھی موت کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ وہ کیسے مرا بس گاڑی کو اگ لگی تھی اور وہ اسی کے اندر جل کر مر گیا مگر حرم منصور اس گاڑی میں نہیں تھی ۔۔۔

سکندر کو لگا وہ سانس نہیں لے پائیں گے مریم کا رو رو کر برا حال تھا اور ہمدان ۔۔حمدان کو تو جیسے سانس ہی نہیں ارہی تھی اس نے نہ دن دیکھا تھا نہ رات نہ ہی کوئی وقت وہ تو پاگل ہو چکا تھا ایک ایک جگہ ایک ایک راستہ اس نے خود تلاش کیا تھا مگر حرم منصور اسے کہیں نہیں ملی ۔۔۔۔

پولیس بھی پھرتی رہی تلاش کرتی رہی شہزاد نے بھی اپنی سورس لگائی لیکن کچھ نہیں ہوا کسی کو نہیں پتہ چلا کہ وہ کہاں گئی اور اس کے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔

مریم کو جب یہ معلوم ہوا تو جیسے اس کی سانس رکنے لگی وہ ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر جلد از جلد حرم منصور کے پاس پہنچنا چاہتی تھی سکندر اور حمدان کا بھی یہی حال تھا ۔۔

حمدان اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان ٹور پر تھا مگر جیسے ہی اسے حرم کی غیر موجودگی کا پتہ چلا وہ اسی رات کو واپس ا چکا تھا اور تب سے لے کر ان دو دن تک کے وہ پاگلوں کی طرح صرف اور صرف حرم منصور کے لیے خوار ہو رہا تھا وہ کہاں تھی وہ نہیں جانتا تھا کس حال میں تھی وہ نہیں جانتا تھا کسی نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا ۔۔

بس اسے اندر ہی اندر یہ بات کھائے جا رہی تھی کہ وہ وہاں کیوں نہیں تھا ۔۔

وہ کیوں اپنے دوستوں کے ساتھ چلا گیا تھا اسے حرم کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا ۔۔

 اس کی کسی قسم کی کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے اپ کو گنہگار سمجھ رہا تھا حرم منصور کا گنہگار ۔۔۔


کچھ وقت کے بعد جب وہ لوگ اس طرف پہنچے جہاں انہیں خبر ملی تھی کہ ایک لڑکی بوری میں بند ملی ہے۔۔

 اس جگہ کو ہر طرف سے پولیس نے گھیرے میں لیا ہوا تھا ۔۔

حرم منصور بوری میں بند تھی اور اس کی حالت پر صرف اور صرف چیخیں مار مار کر رونے کو دل چاہتا تھا ۔۔ 

کسی نے اس کے ساتھ زیادتی کر کے اسے دو دن کے بعد بوری میں بند کر کے ایک نالے کی طرف پھینک دیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے اور کس نے کیا ہے یہ سب کچھ ۔۔

 ایک خوفناک قیامت تھی جو اس دن ان سب پر ٹوٹی تھی ۔ ۔ 

سکندر کا تو دل ہی پھٹ چکا تھا اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر بے شک وہ ان کی اپنی بیٹی نہیں تھی بہن کی بیٹی تھی مگر انہوں نے کبھی بھی اسے اپنی بیٹی کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا تھا بچپن سے لے کر جوانی تک وہ ان کے ساتھ ہنستے کھلتے بڑی ہوتی ائی تھی اور اج وہ جس حالت میں انہیں بوری میں بند ملی ان کا دل پھٹ چکا تھا اسے یوں دیکھ کر مریم کا سانس رک چکا تھا اس کی اپنی حالت حد سے زیادہ خراب تھی حرم کو یوں دیکھ کر وہ تو جیسے پاگل ہو گئی تھی جس بچی کو وہ بچپن سے لے کر جوانی تک بے حد محبت اور شفقت کے سائے میں پالتی ائی تھی اج اسے یوں دیکھ کر مریم کا دل زور زور سے اپنے اپ کو مار مار کر چیخے مار کر رونے کو چاہ رہا تھا ۔۔۔

ہمدان دور کھڑا تھا ۔۔۔بہت زیادہ دور ۔۔۔۔

اتنا دور جتنا وہ حرم منصور سے کبھی نہیں ہونا چاہتا تھا ۔۔۔

اس کا چہرہ انسوؤں سے بھیگا ہوا تھا ۔۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ہر چیز کو اگ لگا دے ۔۔اس کے اندر ایک اگ لگی ہوئی تھی اس کے اندر بس یہ خواہش تھی کہ وہ کہیں نہ کہیں سے کسی بھی طریقے سے ان لوگوں کو ڈھونڈیں جس نے حرم منصور کے ساتھ ہی سب کچھ کیا ۔۔۔

حمدان کا چہرہ مرجھا چکا تھا اس نے تو کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا کہ وہ حرم منصور کو یوں اس حالت میں دیکھے گا ۔۔

وہ حرم منصور جس سے وہ بچپن سے لے کر اج تک بے تحاشہ محبت کرتا ایا تھا ۔۔۔

وہ واقعی حرم منصور سے بے تحاشہ محبت کرتا تھا ایک وہی تو تھی جو اس کی سب کچھ تھی اس کی دوست اس کی بیسٹ فرینڈ اس کی پارٹنر اس کی حرم جی ۔۔

وہ تو اس کے لیے مکمل دنیا تھی حرم منصور کے بغیر تو وہ بے حد نامکمل تھا یا یوں کہنا بہتر ہوگا کہ حرم منصور کے بغیر وہ کچھ نہیں تھا ۔۔

وہ وہیں دور کھڑے کھڑے اپنی انکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کیسے لیڈیز پولیس اور مریم پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اس کے چہرے پر پیار کر رہی ہیں ۔وہ وہیں کھڑے کھڑے دیکھ رہا تھا سکندر کو جو شہزاد کے گلے لگ کر رو رہے تھے ۔۔ وہ وہیں کھڑے کھڑے دیکھ رہا تھا کہ کیسے شوکت انکل ایمبولنس کو حرم کے متعلق ہدایت دے رہے ہیں حرم کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ۔۔۔

حمدان کا دل چاہا کہ وہ کہیں غائب ہو جائے زمین کے اندر گھس جائے ۔۔۔اس نے شدت سے یہ دعا کی کہ یہ کوئی ایک بہت ہی بھیانک خواب ہو وہ انکھیں کھولے اور سب چیزیں ختم ہو جائیں وہ انکھیں کھولے اور ہر چیز پہلے کی طرح ہو حرم منصور اس کے پاس ہو اس کے برابر میں بیٹھی ہو اور اپنے ہاتھ بڑھا کر اس کے بال خراب کر رہی ہو اس کے برابر میں بیٹھی ہوئی مسکرا رہی ہو ۔

اس نے وہیں کھڑے کھڑے نہ جانے کتنی بار یہ دعا کی کہ یہ ایک خواب ہو مگر افسوس کے ساتھ وہ کوئی خواب نہیں تھا وہ حقیقت تھی بے حد خوفناک تکلیف دہ حقیقت ۔۔۔

سب کچھ حقیقت تھا جو حرم منصور کے ساتھ ہوا تھا کچھ بھی خواب نہیں تھا ۔۔۔۔


وہ حرم منصور کو ہاسپٹل لے گئے اور حرم منصور ہاسپٹل سے موت کے منہ سے واپس ائی تھی ۔ ۔۔

بے تحاشہ کوششوں کے باوجود بھی کسی قسم کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکل رہا تھا ۔۔۔

بس ان کے پاس جو ثبوت تھا وہ یہ تھا کہ یونیورسٹی کے کیمرہ سے وہ سرخ اور سفید لباس پہنی ہوئی لڑکی گاڑی میں ا کر بیٹھی وہ گاڑی جو سکندر کی تھی اور اس کے بعد وہ لڑکی نہ جانے کہاں غائب ہو گئی کیا ہوا اس کے ساتھ کسی کو نہیں پتہ چلا اور ڈرائیور اور گاڑی جب ملی تو وہ دونوں ہی جلے ہوئے تھے اور ڈرائیور مر چکا تھا ۔۔


حمدان اس واقعے کے بعد مکمل طور پر بدل چکا تھا بلکہ شاید سبھی بدل چکے تھے کوئی ایسا تھا نہیں جو پرانے والا ہو ۔۔

حمدان کی وہ مسکراہٹ وہ شرارت نہ جانے سب کہاں چلی گی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے اپ کو مجرم سمجھ رہا تھا حرم منظور کا مجرم ۔۔۔۔


__________________________________________________

چلو اج پھر تم اور میں ہم دونوں ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں ۔۔

رات کی ڈھائی بجے کا وقت تھا وہ اس وقت ہاسپٹل میں تھا ۔۔

اسے لگا کہ حرم منصور کے الفاظ اس کے کان میں زور زور سے گونج رہے ہیں اس نے اپنے دونوں کانوں پر مضبوطی سے ہاتھ رکھا ۔۔۔


چلو اج پھر ہم دونوں ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں ایک بار پھر حرم منصور کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے ۔۔۔

ہم دونوں ایک دوسرے کو کبھی نہیں چھوڑیں گے ۔چاہے کتنا بھی اچھا اور کتنا بھی برا وقت ہو ہم دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے چلو کرو مجھ سے وعدہ وہ دونوں اس وقت سمندر پہ تھے حرم منصور کی پسندیدہ جگہ پر وہ دونوں اس وقت بڑے بڑے پتھروں پر بیٹھے ہوئے تھے اور پانی کی چھینٹے ان کے چہرے اور پاؤں پر ا رہی تھیں ۔۔۔۔


اس میں وعدہ والی کیا بات ہے حرم جی میں تو ہمیشہ ہی اپ کے ساتھ ہوں ۔۔چاہے وقت اچھا ہو یا پھر برا میں ہمیشہ اپ کے پاس رہوں گا ۔۔


سوچ لو ہمدان اگر تم اپنے وعدے سے پیچھے ہٹے تو پھر میں تم سے بات نہیں کروں گی حرم منصور نے جیسے اسے دھمکایا ۔۔۔


چاہے کچھ بھی ہو میں اپ کے ساتھ ہمیشہ رہوں گا میں وعدہ کرتا ہوں ۔اس نے حرم منصور کے اگے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھاما اور وعدہ کیا ۔۔


ٹھیک ہے تو پھر اپنے الفاظ یاد رکھنا ۔۔۔۔


ہمیشہ ۔۔۔


حرم منصور کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔ 


حرم منصور اس وقت ہاسپٹل میں ایڈمٹ تھی اور ہاسپٹل میں یہ اس کا یہ پانچواں دن تھا ۔۔۔

اور ان پانچ دن میں وہ روز وہاں رکا تھا مگر اس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ جا کے حرم منصور کی شکل دیکھ لے وہ جانتا تھا کہ وہ یہ نہیں کر پائے گا وہ جانتا تھا کہ وہ اسے اس حالت میں دیکھ کر پاگل ہو جائے گا ۔۔۔


ان پانچوں دن تک اس نے صرف اور صرف حرم منصور کی چیخیں سنی تھیں دن رات اٹھتے بیٹھتے سوتے حرم منصور اسے ستاتی رہتی اس کے اندر ایک ڈر ایک خوف بیٹھ گیا تھا ۔۔وہ اب حرم منصور کو کسی حالت میں چھوڑ کے نہیں جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔


حمدان ۔۔۔۔

مریم نے حمدان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔وہ اپنا سر جھکائے رو رہا تھا ۔۔


مریم کو دیکھ کر اس نے جیسے اپنے انسو صاف کیے ۔۔۔


تم مجھ سے اپنے انسو کیوں چھپا رہے ہو میں جانتی ہوں تم بہت تکلیف میں ہو مریم نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔


یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے مجھے انہیں یوں چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا ۔۔

وہ اب کسی چھوٹے سے معصوم سے بچے کی طرح اپنی ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا ۔۔۔مجھے انہیں یوں چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا میں کیوں چلا گیا تھا کیوں مجھے نہیں جانا چاہیے تھا ۔۔۔

وہ مستقل کسی چھوٹے سے بچے کی طرح روتے ہوئے اپنی ماں کے گلے لگ کے کہہ رہا تھا ۔۔۔


مریم بھی ہمدان کے گلے لگ کر رونے لگی ۔۔

اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے میرے بیٹے یہ ہماری قسمت میں تھا کہ ہم یہ دن بھی دیکھیں گے تم اپنے اپ کو اس چیز کا ذمہ دار مت ٹھہراؤ تمہاری کوئی غلطی نہیں ۔۔۔


میری غلطی ہے ماں میری ہی غلطی ہے حرم جی نے مجھ سے کہا تھا وعدہ لیا تھا مجھ سے کہ میں انہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا اور میں نے اس وعدے پر حامی بھری تھی اور بہت مضبوط لہجے میں یہ کہا تھا کہ میں ہمیشہ ساتھ رہوں گا اپ کے چاہے کتنا بھی برا وقت ہو اور اپ دیکھیں تو صحیح مجھے میں کس قدر کمزور ہوں کتنا نالائق ہوں کے ایک وعدہ بھی وفا نہیں کر سکا ان کے مشکل ترین وقت میں میں کہا تھا ان کے پاس میں نہیں تھا ان کے پاس میں نہیں تھا ما ں میں انہیں یوں نہیں دیکھ سکتا ان کا رونا ان کی چیخیں ان کی یہ حالت دیکھ کر میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے اپ کو شوٹ کر لوں ۔۔۔


پاگل ہو گئے ہو ہمدان کس طرح کی باتیں کر رہے ہو میری بیٹی ویسے ہی اس حال میں ہے اور اوپر سے تم مجھے مزید پریشان کر رہے ہو ایسی باتیں کر کر ۔۔۔


میں حرم جی کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتا ماں میں ان سے نظریں کیسے ملاؤں گا کیسے ۔۔۔

کیسے ان کا سامنا کروں گا مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے شرم ا رہی ہے یہ سوچ کر کہ ان کے مشکل ترین وقت میں میں ان کے پاس نہیں تھا وہ اس وقت کس حال میں ہوں گی ماں اپ نے کبھی سوچا ہے وہ چیخ رہی ہوں گی چلا رہی ہوں گی مدد مانگ رہی ہوں گی اپ کو مجھے بابا کو سب کو پکار رہی ہوں گی مگر ہم میں سے کوئی نہیں تھا ان کے پاس میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے سانس نہیں اتی میں اس منظر کو تصور کرتا ہوں تو کانپنے لگتا ہوں میں اپ کو کیسے بتاؤں کہ میں کس حالت سے گزر رہا ہوں مجھ پہ وہ سب کچھ نہیں گزری تو میرا یہ حال ہے سوچیں حرم جی کا کیا حال ہوگا ۔۔ 

ڈاکٹرز کب تک انہیں سکون کے انجیکشن دے کر انہیں ریلیکس کرتے رہیں گے اپ نے ان کی چیخیں ان کی رونے کی اواز نہیں سنی میں اس قدر شرمندہ ہوں کہ میں بتا نہیں سکتا میں اس قابل ہی نہیں ہوں کہ ان کے سامنے ا کر کھڑا ہوں روز یہاں ہوتا ہوں مگر ہمت اج تک نہیں ہو پائی کہ جا کر انہیں دیکھ لوں شرم اتی ہے مجھے ان کا سامنا کرنے سے جب ان کے رونے کی اوازیں میرے کان میں پڑتی ہیں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے اپ کو بہت ماروں بہت پنش کروں میں کیوں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکا کیوں ۔۔۔

وہ اکیلے یہ سب کچھ سہتی رہی اور میں ان کے ساتھ نہیں تھا ۔میں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا ۔۔ 


اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہمدان ۔۔

نہیں ماں اپ چاہے لاکھ کہہ لیں کوئی بھی ا کے مجھ سے یہ بات لاکھوں بار کہہ لیں کہ میرا قصور نہیں لیکن میرا قصور ہے میں نے حرم جی کا دیا ہوا 

 وعدہ نہیں نبھایا ۔۔۔۔


حرم کو ہاسپٹل سے گھر ائے ہوئے تقریبا ایک ہفتے سے زیادہ ہو چکا تھا ۔۔مگر ہمدان کے اندر ہمت نہیں تھی کہ وہ حرم منصور کا سامنا کر پائے یا اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر اسے دیکھ ہی لے ۔۔۔


تمہیں حرم سے بات کرنی چاہیے وہ بہت زیادہ خاموش ہو گئی ہے ایک لفظ تک نہیں کہتی ایسا لگتا ہے جیسے اس کے منہ کے اندر زبان نہیں ہے ۔۔

ہمدان ۔۔۔

میں اور سکندر لاکھ کوشش کرتے ہیں اس سے بات کرنے کی مگر وہ ہماری کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیتی بس خاموشی سے بیٹھی رہتی ہے اور اس کی انکھوں سے انسو گرتے رہتے ہیں میں بہت پریشان ہوں اسے یوں دیکھ کر میرا دل پھٹ جاتا ہے جب میں اسے یوں دیکھتی ہوں ۔۔ میری بچی کے ساتھ جس نے بھی یہ سب کچھ کیا ہے اللہ اسے تباہ اور برباد کر دے مریم نے اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کے ساتھ اپنی انکھیں صاف کی میری بیٹی کو کس حال میں پہنچا دیا ہے الفاظ تک چھین لیے ہیں میری بیٹی کے منہ سے اور اوپر سے تم تم نے مجھے الگ پریشان کر رکھا ہے اپنی حرکتوں سے نہ ہی تو تم حرم کے پاس جا رہے ہو اور نہ ہی اس سے بات کر رہے ہو تم کیوں نہیں جا رہے اس کے پاس کیوں اپنے اپ کو مجرم سمجھ رہے ہو حرم کا جبکہ ایسا نہیں ہے ہمدان اسے تمہاری ضرورت ہے تم جاؤ اس سے بات کرو اس کے پاس بیٹھو اسے تمہاری بہت ضرورت ہے تم دونوں کے درمیان بہت مضبوط رشتے ہیں تم کیوں نہیں اس سے بات کرتے ۔۔۔.  


کس منہ سے بات کروں میں ماں ان سے اپ کو میں نے بتایا تو ہے کہ میں اس قابل اب نہیں رہا کہ ان سے نظریں بھی ملا پاؤں تو ان سے بات کیسے کروں گا ۔


مجھے نہیں پتہ کچھ بھی کرو لیکن میری بیٹی کو واپس لاؤ حمدان میں اسے اس حال میں نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔


کاش میں یہ سب کچھ کر سکتا کاش میں ہر چیز ٹھیک کر سکتا لیکن میں اپ سے وعدہ کرتا ہوں ماں ایک نہ ایک دن جس جس نے یہ سب کچھ کیا ہے اور جو بھی اس کے اندر ملوث رہا ہے میں ان سب کو ان کے کیے کی سزا ضرور دلواؤں گا ۔۔ 


کیسے دلواؤ گے تم ایک ہفتے سے زیادہ اسے گھر ائے ہوئے ہو چکا ہے اور اس سے پہلے بھی جو دن گزرے ہیں اس میں سب نے کیا کچھ کر لیا۔۔ کیا کچھ پتہ چلا کسی کے بارے میں اور حرم تو اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ کچھ بتا پائے ڈاکٹرز نے پولیس نے سب نے اس سے پوچھا ہے بس سب کو وہی پتہ ہے کہ وہ یونیورسٹی سے باہر نکلی ہے ڈرائیورز کے ساتھ بیٹھی ہے اور پھر اس کے بعد غائب ہو گئی گاڑی بھی اور حرم بھی ڈرائیور تو مر چکا تھا جل کر گاڑی کے ساتھ اور حرم کے ساتھ۔۔۔۔۔ وہ اپنے الفاظ پورے نہیں کر پائیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔

مجھے حرم کی اس خاموشی سے ڈر لگ رہا ہے کہیں وہ کچھ کر نہ لے میں اس کے پاس جاتی ہوں تو وہ چہرہ موڑ کر دوسری طرف بیٹھ جاتی ہے کچھ نہیں کہتی مجھ سے مجھے اس کی اس خاموشی سے خوف انے لگا ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ اپنے اپ کو نقصان نہ پہنچا دے ۔۔۔


حمدان نے مریم کی بات پر تیزی سے گردن موڑ کر مریم کو دیکھا اپ کیوں اس طرح کی باتیں کر رہی ہیں کیوں مجھے ڈرا رہی ہیں ۔۔۔۔


ڈر تو میں خود بھی رہی ہوں ہمدان اس سے کہ کہیں وہ کچھ غلط قدم نہ اٹھا لے ۔۔۔


نہیں وہ بہت سمجھدار ہیں اپنے ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں کریں گی ۔۔۔


مریم کی بات سے اب وہ اور زیادہ پریشان رہنے لگا تھا اسے مریم کی یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ حرم اپنے اپ کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے ۔۔وہ بغیر کسی سے کچھ کہے بغیر کسی کو کچھ بتائے ہر رات اب اپنے کمرے سے نکل کر حرم منصور کے کمرے کے دروازے کے پاس بیٹھ جاتا تھا اور کسی کو اس چیز کی خبر نہیں ہونے دیتا تھا کہ وہ بہت ہی رازداری کے ساتھ حرم منصور کے کمرے کے باہر راتوں میں پہرہ دے رہا ہے وہ پوری پوری رات وہیں خاموشی سے بیٹھا رہتا اور حرم کی رات کی خاموشی میں رونے کی اوازیں سنتا کبھی کبھار اس کا دل چاہتا کہ وہ دروازہ کھول کر حرم منصور کے پاس چلا جائے مگر اس کے اندر ابھی اس چیز کی ہمت نہیں تھی وہ بغیر کسی کو کچھ بتائے پہلے ہی حرم منصور کے کمرے کے لاک کی ایک ایکسٹرا چابی اپنے پاس رکھتا تھا تاکہ وہ ہر وقت اس پر نظر رکھ سکے اس کی حفاظت کر سکے اب وہ حرم منصور کے متعلق کوئی اور لاپرواہی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔

یو ہی راتوں کو جاگ جاگ کر اس کی حفاظت کرتے ہوئے دو ہفتے اور تین دن گزر چکے تھے ۔۔

ہر روز حرم منظور کے رونے کی اوازیں اسے سونے نہیں دیتی تھیں ۔۔۔ہر رات کی طرح وہ اج رات بھی بے حد روئی تھی ۔۔ 

کافی دیر رونے کے بعد وہ خاموش ہوئی ۔۔۔

ہمدان وہیں خاموشی سے بیٹھا رہا ۔خاموشی کا عرصہ جب اور زیادہ طویل ہو گیا تو ہمدان کو ایک بے حد خوفناک سا خوف محسوس ہوا ۔۔۔

اس نے خاموشی کے ساتھ چابی لاک کے اندر گھمائی وہ بہت احتیاط سے کام کر رہا تھا کہ حرم منصور کو اس کی کسی کاروائی کے بارے میں معلومات نہ ہو وہ جیسے ہی بہت خاموشی سے اس کا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا کمرہ انتہائی اندھیرے میں تھا کھڑکیوں کے سارے پردے بند تھے کمرے کی لائٹس اف تھیں یہاں تک کہ باتھ روم کی لائٹ بھی بند تھی دروازہ کھولنے سے باہر کی طرف سے جو تھوڑی بہت روشنی ائی تو حرم بیڈ کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ میں ایک چھری تھی جو وہ اپنی نس پہ چلانے ہی والی تھی حرم منصور نے اس روشنی کو دیکھا دروازے پر کوئی کھڑا تھا دو منٹ لگے تھے اسے پہچاننے کے لیے کہ وہ شخص کون ہوگا ۔۔

حرم منصور کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر ہمدان کا خون خشک ہو گیا وہ بے حد خوف اور گھبراہٹ کے عالم میں تیزی سے اس کی طرف دوڑا جبکہ حرم منصور نے تیزی سے چھری اپنے ہاتھ کے اوپر چلائی ہمدان اس وقت تک پہنچ چکا تھا چھری نس کی جگہ کہیں اور لگی تھی ہمدان نے بے حد خوف کے عالم میں حرم منصور کو دیکھا اس کا چہرہ صحیح سے نظر نہیں ارہا تھا ہمدان نے تیزی سے لیم کی لائٹ جلائی ہلکی روشنی میں اس کا چہرہ واضح ہوا ۔۔۔

اور یہ وہ چہرہ تھا جس سے وہ بے حد محبت کرتا تھا ۔۔

حمدان بس اسے سانس روک کر دیکھنے لگا حرم منصور کی زیادتی کے کافی دنوں کے بعد وہ اس کی پہلی ملاقات تھی جب وہ حرم منصور کو اپنی انکھوں سے بالکل امنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا ۔۔

اپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے اپ یہ کیا کر رہی تھی ۔۔۔

خودکشی کرنے لگی تھی اپ اپنے اپ کو جان سے مار رہی تھی کیا اپ کو نہیں پتہ کہ خودکشی اسلام میں حرام ہے 

اپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں اپ کو ہمارا خیال کیوں نہیں اتا وہ بے حد غصے میں تھا اور خوف کے عالم میں اس کی اواز اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے مگر وہ حرم منظصور کے سامنے بہت مضبوط کھڑا تھا یا یوں ظاہر کر رہا تھا کہ وہ واقعی میں اب بھی مضبوط ہے ۔۔۔


چھوڑو ۔۔۔چھوڑو ۔۔۔۔

مجھے اور ۔۔۔اور جاؤ یہاں سے میں ۔۔میں ۔۔۔۔

اپنے اپ کو ختم کر لوں گی جان سے مار دوں گی میری زندگی ہے جو چاہے وہ کروں تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے یہاں سے دفع ہو جاؤ دفع ہو جاؤ یہاں سے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے فرش پر چھری ڈھونڈ رہی تھی وہ یوں حرکتیں کر رہی تھی جیسے کوئی پاگل لڑکی ہو اس کے بال بکھرے ہوئے تھے چہرے پر زخم کے نشان تھے جنہیں اج وہ بہت قریب سے دیکھ رہا تھا ہاتھوں اور پیروں پر بھی حرم منصور پاگلوں کی طرح فرش پر چھری ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔


میں نے کہا بس کر دیں ۔۔۔۔

اپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔۔۔

کیا پاگل ہو گئی ہیں اپ بالکل۔ حمدان نے زور سے کہا ایک لمحے کے لیے وہ سہم گئی ہمدان نے چھری اٹھا کر دروازے سے باہر پھینکی اور پھر اسے دونوں بازوں سے پکڑ کر بیڈ کے اوپر بٹھایا ۔۔۔

یہ کیا کرنے والی تھیں اپ میں تو اپ کو بہت سمجھدار اور بہادر لڑکی سمجھتا تھا مگر اپ تو ۔۔۔


نہیں نہیں ۔۔۔۔۔

 میں کوئی نہیں ہوں ۔۔۔۔کوئی سمجھدار نہیں ہوں۔ میں ایک بہت کمزور لڑکی ہوں بہت کمزور میں ۔۔۔میں اپنے اپ کو ختم کر لوں گی ۔۔۔میں اب دنیا کا سامنے نہیں کر پاؤں گی حرم منظور پر جیسے اپنی جان لینے کا جنون سوار تھا وہ ایک بار پھر سے تیزی سے اٹھی اور باہر دروازے کی طرف وہ چھری لینے کے لیے دوڑی ۔۔۔۔۔۔


ہمدان نے اسے ایک بار پھر بازو سے پکڑ کر تیزی سے روکا ۔۔۔


کیا ہو گیا ہے حرم جی اپ کو ہوش میں ائیں وہ تقریبا چیختے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔


چھوڑو چھوڑو مجھے جانے دو ۔ ۔۔۔


"حرم " ۔۔۔وہ زور سے بولا ۔۔۔۔


حرم منصور نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا ۔۔ہمدان نے اس کے دونوں بازوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ۔۔۔

مت کریں یہ سب کچھ میں اپ کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔

وہ حمدان کی انکھوں میں نمی دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔۔

میں مرنا چاہتی ہوں حمدان ۔۔

میں اپ کو مرنے نہیں دوں گا حرم جی ۔۔ ۔

حرم منصور اب ہمدان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور یہی حال ہمدان کا بھی تھا لیکن اس کی انکھوں سے انسو خاموشی سے بہہ رہے تھے وہ کسی بچے کی طرح ہمدان کو مضبوطی سے پکڑ کر رو رہی تھی وہ اس کے گلے لگ کر بہت روئی بہت زیادہ ہمدان نے اسے روتے ہوئے اپنے سے الگ نہیں کیا ۔۔۔۔


میں اب زندہ رہنا نہیں چاہتی حرم منصور مر چکی ہے ۔۔۔

میں دوبارہ اس دنیا کا سامنا نہیں کرنا چاہتی سب کچھ ختم ہو گیا ہے میرے لیے سب کچھ میں اب دوبارہ پہلے کی طرح نہیں ہو سکتی وہ پھوٹ پھوٹ کر کسی ننھے سے بچے کی طرح روتی رہی روتی رہی ۔۔


حمدان نے اب اسے سہارا دے کر بیڈ پر بٹھایا اور اس کے دونوں پیر اٹھا کر اوپر رکھے وہ اب کمرے کی لائٹ جلاتا ہوا اس کے پاس ا گیا تھا ۔ قریب رکھے ہوئے پانی کے گلاس سے اس نے حرم کو پانی پہ لایا ۔۔پھر بغیر کچھ کہے بے حد خاموشی سے اس کے بالکل سامنے بیٹھ گیا ۔۔۔

وہ دونوں بہت دنوں کے بعد ایک دوسرے کو یوں امنے سامنے ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا دیکھ رہے تھے ۔۔ 


حمدان اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا وہ ا سے شاید پہچان نہیں پا رہا تھا کہ یہ وہی حرم منصور ہے جو اس کے ساتھ بڑی ہوئی ہے یہ وہی حرم منصور ہے جو بہت زیادہ کانفیڈنٹ بہادر اور مضبوط لڑکی ہوا کرتی تھی ۔۔

وہ جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔

مگر یہ تو وہ حرم منصور نہیں تھی جسے وہ جانتا تھا یہ تو کوئی اور ہی تھی اس کا چہرہ پیلا ہو رہا تھا جگہ جگہ نشانات تھے ہاتھوں اور پیروں پر بھی وہ بہت دیر تک خاموشی سے اسے دیکھتا رہا اور حرم منصور خاموشی سے بیٹھی ہوئی بس روتی رہی ۔۔۔۔۔

حرم منصور کے پیروں پر جب ہمدان کی نظر گئی تو بے حد شرمندگی کے عالم میں اس نے اپنے زخمی پیر اندر کی طرف کرنے چاہے ہمدان نے تیزی سے اس کے پیروں کو پکڑ کر روکا ۔۔۔

اور پھر نظر اٹھا کر حرم منصور کو دیکھا ۔۔۔۔۔


اپ کو کیا لگتا ہے کہ اپ مجھ سے ہر چیز چھپا لیں گی اور میں دیکھ نہیں پاؤں گا ۔۔

مجھے ۔۔۔مجھے معاف کر دیں ۔

میں ۔۔

میں اپنا وعدہ پورا نہیں کر پایا۔۔۔

میں نے اپ کو تنہا چھوڑ دیا ۔۔۔

میں کچھ نہیں کر پا رہا اپ کے لیے ۔۔۔

وہ اپنا چہرہ جھکائے حرم منصور سے کہہ رہا تھا ۔۔

وہ کچھ نہیں بولی بس اپنا سر اپنے پاؤں کے اوپر رکھے روتی رہی ۔۔۔۔


حمدان نے اگے بڑھ کر دراز کھولی اور پھر ایک ٹیوب نکال کر ہلکے ہاتھوں سے اس کے زخم پر لگانے لگا حمدان کو اس کے پیر بے حد خوبصورت لگتے تھے اس کے پیر بے حد خوبصورت تھے بالکل صاف ستھرے اور بے داغ مگر اج وہ جن پیروں کو دیکھ رہا تھا اس کے اوپر جگہ جگہ نشانات تھے پیروں کے اوپر اور نیچے دونوں طرف ۔۔

حرم منصور بس اپنا سر اپنے دونوں گھٹنوں کے اوپر رکھ کر خاموشی سے انسو بہاتی رہی جبکہ وہ بے حد خاموشی سے اس کے پیروں اور ہاتھوں کے زخموں پر مرہم لگا رہا تھا ۔۔۔۔


تمیں افسوس ہو رہا ہوگا مجھے یوں دیکھ کر ترس آ رہا ہوگا

مجھ پر ۔۔۔۔


وہ مرہم لگاتے لگاتے رک کر حرم منصور کو دیکھنے لگا ۔ ۔۔۔


لوگ ہنسیں گے مجھ پر طرح طرح کی باتیں بنائیں گے اب میرے بارے میں ۔۔۔

 میں ڈاکٹر کبھی نہیں بن پاؤں گی میرا ہارٹ اسپیشلسٹ بننے کا خواب صرف اور صرف خواب ہی رہ جائے گا وہ کبھی پورا نہیں ہوگا کبھی نہیں میں جہاں بھی جاؤں گی لوگ مجھے عجیب طرح سے دیکھیں گے میں دوبارہ پہلے کی طرح کبھی نہیں ہو پاؤں گی ۔سب کچھ ختم ہو گیا سب کچھ ۔۔

وہ ہمدان کو بغیر دیکھے اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر نہ جانے کس دنیا میں کھوئی ہوئی کہہ رہی تھی ۔ 

سب کچھ ختم ہو گیا سب کچھ۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا کچھ بھی نہیں نہ تم اور نہ میں سب ختم ہو گیا سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔


جاری ہے