تیرے لیے
قسط نمبر 7
مصنفہ منال علی
ارے واہ ۔۔۔۔
اپ تو بہت اچھی لگ رہی ہیں ہمدان کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہوا تو حرم اپنے ہونٹوں پر لپسٹک لگا رہی تھی ۔۔
تھینک یو سو مچ بتاؤ ڈریس کیسی لگ رہی ہے ۔۔
ظاہر ہے اچھی لگ رہی ہے اور اپ کو تو پتہ ہے میری چوائس ہے ہی اچھی حرم اس وقت جو سرخ رنگ کی ڈریس پہنی ہوئی تھی وہ ہمدان کی پسند کی تھی اور وہ ڈریس واقعی میں بے حد خوبصورت تھی ۔۔۔
چلو بس اب تم اپنی زیادہ بڑھائیاں مت مارا کرو ۔۔
مجھے پتہ ہے مجھ پر اچھی لگ رہی ہے ۔۔
حرم نے بھی ذرا اتراتے ہوئے کہا اور پھر دوبارہ ائینے کی طرف
اپنا رخ کیے اپنے بال بنانے لگی ۔۔
ہیلپ چاہیے کوئی ۔۔۔؟؟؟
حمدان نے اسے افر کی ۔۔۔
ہاں بالکل ایک کام کرو یہ سٹریٹنر ذرا پیچھے والے بالوں کے اوپر بھی مار دو پیچھے صحیح سے میرا ہاتھ نہیں پہنچ رہا ۔۔۔
ٹرائی کرتا ہوں ویسے اتے نہیں ہیں مجھے یہ ۔۔
ہمدان تم کیا کر رہے ہو میرے بال توڑ رہے ہو ۔۔
مجھے دے دو میں خود ہی کر لوں گی ۔۔۔
اچھا اب نہیں توڑوں گا احتیاط سے کروں گا وہ اب اس کے بالوں پر اہستہ اہستہ سٹریٹنر پھیرنے لگا ۔۔
ہو گئے۔۔۔حمدان نے سٹریٹنر واپس ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔
حرم کے کالج میں اج پارٹی تھی اور حمدان کے ایگزامز ہونے کی وجہ سے اس کا اف تھا ۔۔
اچھی لگ رہی ہیں اپ ۔۔۔
حمدان نے اسے ایک بار پھر دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
تھینک یو سو مچ ۔۔وہ اب اپنی ایئر رنگز پہن رہی تھی ۔۔۔
بس اپ کی لپسٹک یہاں سے تھوڑی صحیح نہیں لگی ۔۔۔
کہاں سے وہ اپنے ہونٹ ائینے میں دیکھنے لگی ۔۔
یہ یہاں نیچے والے ہونٹ پہ صحیح سے نہیں لگی۔۔۔
صحیح تو ہے ۔۔۔
نہیں صحیح نہیں ہے حمدان نے شرارت سے کہا ۔۔اپ ایک بار دوبارہ لگائیں ۔۔۔
تم بھی نہ خوامخواہ بس مجھے کنفیوز کرنے اتے ہو ۔وہ ایک بار پھر لپسٹک اٹھا کر اپنے ہونٹوں پر لگانے لگی ۔حرم جو بڑے احتیاط سے اپنے ہونٹوں پر لپسٹک لگا رہی تھی اسی دوران ہمدان تیزی سے اس کے پیچھے آیا اور پھر اسے بال سے پکڑ کر ہلکا سا پیچھے کی طرف کھینچا لپسٹک اب سار ی اس کی تھوڑی کی طرف ا چکی تھی
۔
حمدان ۔۔۔۔حرم زور سے چیخی ۔۔
اب زیادہ اچھی لگ رہی ہے ۔۔۔
وہ تقریبا کمرے سے بھاگتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔
میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں تم ذرا رکو تو صحیح ۔۔۔
وہ اپنی لپسٹک صاف کرتی ہوئی اس کے پیچھے دوڑی ۔۔
خوبصورت ماضی ایک بار پھر سے حرم منصور کی انکھوں میں تھا ۔۔۔
نہ اب وہ ہمدان رہا تھا اور نہ ہی اب وہ حرم دونوں میں ہی پرانی والی کوئی بات نہیں تھی ۔۔۔کئی سالوں پہلے ان دونوں کے درمیان ہونے والی ایسے ہی چھوٹی موٹی مزاحیہ لڑائیوں سے ان کی زندگی حسین تھی مگر اب تو جیسے وہ دونوں اجنبی سے ہو گئے تھے ۔۔۔
حمدان کوشش بھی کرتا تو حرم کی طرف سے اسے اجنبیت ہی ملتی وہ بہت کوشیش کرتا اسے باہر لے جانے کی اسے واپس اس کی پرانی زندگی میں لانے کی مگر حرم منصور اب ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی ۔۔
حرم نے اپنے برابر میں پڑی ہوئی ٹیبل پر تصویریں دیکھیں کچھ ان میں سے فیملی فوٹوز تھی اور کچھ میں صرف وہ اور حمدان ۔۔۔
وہ اسی دن کی تصویر تھی جو آج اس کے ہاتھ میں تھی جس میں اس نے سرخ رنگ کی ڈریس پہنی ہوئی تھی اور ہمدان نے کالے رنگ کی ٹی شرٹ پارٹی سے واپسی پر سکندر نے ان دونوں کی یہ تصویر لی تھی ۔۔حرم کی انکھوں میں ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے نمی ٹھہر گئی ۔کچھ بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا کچھ بھی نہیں زندگی بدل چکی تھی حالات بدل چکے تھے حرم منصور بدل چکی تھی ۔ ۔۔
__________________________________________________
شہزاد اور ہمدان ایک بار پھر سے اج ریسنگ ٹریک پر تھے اور شہزاد کے کہنے کے مطابق کچھ سالوں میں ہی ہمدان نے شہزاد کو ہرانا شروع کر دیا تھا ۔۔اور
اج بائیک ریس ان دونوں کے درمیان تھی ۔۔۔
ٹریک ایک بار پھر سے ریڈی تھا ۔۔
شام کا وقت تھا جب وہ دونوں ایک دم تیار تھے اور اپنی اپنی بائکس کے اوپر سوار تھے ہمدان کی بائک کا رنگ بلیک اور گرے تھا اور اس کا نمبر نو تھا جبکہ شہزاد کی بائیک کا رنگ ڈارک گرین اور بلیک تھا اور اس کی بائیک کا نمبر چھ تھا ۔۔
وہ دونوں ایک بار پھر سے تیار تھے اور بالکل لائن پر ریڈی اپنی اپنی بائکس کو لے کر کھڑے تھے ۔۔
ہمیشہ کی طرح ٹریک لمبا چوڑا صاف ستھرا تھا ۔۔۔۔۔
اسپیکر پر زور زور سے کاؤنٹنگ گونج رہی تھی ۔۔۔
ایک عجیب سا شور ایک عجیب سی رونق تھی وہاں ۔۔حمدان کے دل و دماغ میں اگ لگی ہوئی تھی اس کی انکھوں کے اگے بار بار حرم کو وہ روتا ہوا چہرہ ا رہا تھا ۔۔۔اس نے بائک کے دونوں ہینڈل کو اور زیادہ مضبوطی سے تھاما اس کے جبڑے غصے سے تن چکے تھے جو کچھ حرم منصور کے ساتھ ہو چکا تھا وہ کیسے بھول سکتا تھا ۔ ۔۔۔
ون ٹو تھری ۔۔۔
گن کی اواز پر ۔۔
شہزاد اپنی بائیک لے کے تیزی سے اگے بڑھ گیا جبکہ حمدان ایک لمحے کے لیے وہیں رکا جن لوگوں نے حمدان کی بائیک کے اوپر پیسے لگائے تھے وہ سب پریشانی سے ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
حمدان نے اپنی انکھیں بند کر کے کھولیں ۔۔
اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر حرم کا وہی پرانا مسکراتا ہوا چہرہ آیا ۔۔۔
او واؤ ہمدان ویری گڈ یس تم بہت اچھا کر رہے ہو ۔۔ اسے بچپن کی ایک یاد یاد ائی۔۔۔
چلو ہمدان یس تم کر سکتے ہو ۔۔
وہ چھوٹا سا لڑکا لان میں سائیکل چلانے سیکھ رہا تھا اور حرم اسے سپورٹ کر رہی تھی تم کر سکتے ہو حمدان ۔چلو جلدی سے میرے پاس اؤ ۔۔
ہمدان نے اپنی نظریں ٹریک پر گاڑی پھر وہ اپنی گاڑی جتنی سپیڈ سے لے کے جا سکتا تھا اپنی بائیک اتنی سپیڈ سے لے کر گیا ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ اور شہزاد دونوں برابر برابر تھے دونوں کے درمیان بڑا ہی زبردست مقابلہ چل رہا تھا راستے میں کھڑے ہوئے لوگ انہیں زور زور سے چیر اپ کر رہے تھے ان دونوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے ان دونوں کے درمیان جب بھی ریس ہوتی تو واقعی دیکھنے والی ہوتی دونوں ہی اپنی جان لگا دیتے ۔۔۔
66 ۔۔۔87۔۔ 92۔۔ 150۔200۔278۔۔۔ 299۔۔۔۔۔
اہستہ اہستہ ہمدان نے اپنی گاڑی کی سپیڈ بڑھانا شروع کی اور اپنی گاڑی کی سپیڈ وہ اس حد تک بڑھا چکا تھا کہ اس کی گاڑی کی سپیڈ 299 Km\h تھی ۔ اتنی سپیڈ سے وہ اپنی بائیک اگے لے کے گیا کہ وہ فنشنگ لائن شہزاد سے پہلے پا ر کر چکا تھا ۔۔ ۔
حمدان کی جیت پر تقریبا سارے ہی لوگ حد سے زیادہ خوش ہوئے تھے سواۓ حمدا ن کے ۔۔
کیا بات ہے لڑکے تم نے تو مجھے بہت ہی برا ہرایا ہے ۔۔
شہزاد نے اس کے قریب ا کر کہا جب کہ وہ ایک کنارے پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔
جیتنے کے بعد بھی اس کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی خوشی نہیں تھی ۔۔
میں سمجھ سکتا ہوں حمدان تمہاری حالت کیا ہے ۔۔تم یہاں صرف ریس کرنے کے لیے نہیں بلکے اس لیے اتے ہو تاکہ تم اپنا غصہ نکال سکو ان بائیکس کے اوپر اور اس روڈ کے اوپر۔۔۔
اور یہ لوگوں کا شور جو تم اپنے لئے سنتے ہو در حقیقت تم اپنا شور یہاں اکر دبانا چاہتے ہو جو تمہارے اندر مچا ہوا ہے ۔۔۔۔میں تمہاری حالت سمجھ سکتا ہوں ظاہر ہے وہ تمہاری بہن ہے تمہیں تکلیف ہے اس چیز کی مگر جو کچھ ہو چکا ہے کوئی کیا کر سکتا ہے حمدان ۔۔۔
تم پچھلے کئی سالوں سے یہاں ریس کر رہے ہو اور وقت کے ساتھ ساتھ تم اور زیادہ مضبوط ہوتے جا رہے ہو تم چاہو تو اپنا غم میرے ساتھ شیئر کر سکتے ہو کب تک تم اس طوفان کو اپنے اندر تک رکھو گے ۔۔۔۔
حمدان نے کچھ نہیں کہا وہ شہزاد سے اس بارے میں کبھی بات نہیں کرتا تھا ۔۔۔
شہزاد خود ہی اسے دل کی تسلیاں دے دیتا مگر ہمدان نے کبھی بھی اس کے ساتھ حرم کے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی اور خاص طور پر جو کچھ حرم کے ساتھ ہو چکا ہے وہ کبھی بھی کسی کے ساتھ ڈسکس نہیں کرتا تھا ۔۔
اپ نے بتایا تھا فائٹنگ کا ایک بار ۔۔۔۔۔
حمدان ۔۔۔شہزاد نے حیرانی سے کہا ۔۔۔
پلیز ۔۔۔۔میں کرنا چاہتا ہوں
فائٹنگ رہنے دو بعد میں کر لینا ۔۔
نہیں مجھے اج کرنی ہے ۔۔۔
تم ابھی تھک چکے ہو گے ہاسپٹل سے ائے ہو پھر ریسنگ کی ہے اور اپ فائٹنگ کے لیے جا رہے ہو ۔۔۔۔
اپ مجھے بتائیں ٹائمنگ کیا ہے میں نہیں تھکا مجھے جانا ہے ۔۔۔
مت جاؤ حمدان کیوں خود کو تکلیف دے رہے ہو ۔۔۔
آپ بتا رہے ہیں یا نہی ۔
ٹھیک ہے چلو اؤ میں تمہیں لے چلتا ہوں ۔۔۔
کچھ وقت کے بعد وہ دونوں ایک فائیٹنگ کلب پہنچے ہوئے تھے ۔۔۔۔
اس فائٹنگ کلب کے اندر چار گروپ تھے ۔۔۔اور وہ چار کے چار گروپ ہی ان لڑکوں کے اوپر پیسہ لگاتے تھے جو لڑکے فائٹنگ کرتے تھے ۔۔۔۔
حمدان کے پاس اپنا غصہ نکالنے کا کو ئی اور راستہ نہیں تھا ۔۔۔اور نہ ہی وہ کچھ کر سکتا تھا حرم کے لیے اور ا سے ہمیشہ اس بات کی تکلیف تھی کہ اس کے مشکل ترین وقت میں وہ اس کے ساتھ نہیں تھا ۔۔ ۔
وہ فائٹنگ نہیں صرف اور صرف ریسنگ کرتا تھا مگر اس نے اب فائٹنگ کرنا بھی شروع کر دی تھی ۔ ۔۔
اس فائٹنگ کلب کے بارے میں رافع نے اس کو بتایا تھا اور رافع وہ تھا جو شہزاد کے ساتھ اکثر کار ریس کرتا تھا ۔۔
اج بھی دو دو کر کے چار لڑکوں کی فائٹ تھی ۔۔
حمدان یہ سب کچھ مت کرو رہنے دو شہزاد نے اسے سمجھایا ۔۔
نہیں میرا دل ہے کرنے کے لیے میں کروں گا ۔۔۔
وہ اب اپنی شرٹ اتار کر
باکسنگ گلو پہن رہا تھا ۔۔۔
جو کچھ حرم کے ساتھ ہوا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تمہاری کوئی غلطی نہیں تو پھر تم اپنے اپ کو کیوں تکلیف دے رہے ہو کیوں اپنے اپ کو حرم کا مجرم سمجھ رہے ہو ہمدان ۔۔
میں ان کا مجرم ہوں اور یہ بات مجھے ساری زندگی ستاتی رہے گی ۔۔
جے اور حمدان کے درمیان فائٹنگ شروع ہوئی جے ایک بہت ہی زبردست فائٹر تھا ۔۔۔
دوسری طرف ہمدان بھی کسی سے کم نہیں تھا ۔۔۔۔
فرسٹ راؤنڈ ۔۔۔۔۔
تھری ۔۔۔ٹو ۔۔۔۔ون ۔۔۔۔
ایک زور سے بیل بجی ۔۔۔۔
حمدان اور جے کے درمیان فائٹینگ ہونا شروع ہوئی ۔۔
وہ دونوں بہت ہی مہارت سے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے تھے ۔۔۔۔
پہلے راؤنڈ میں حمدان جیتا تھا ۔۔۔
مجھے تمہارا یوں لڑنا جھگڑنا پسند نہیں ہے بالکل بھی ۔۔۔کتنی بار میں نے تمہیں کہا ہے نا کہ مت لڑا کرو کسی سے لیکن تمہیں میری بات پتہ نہیں کیوں سمجھ نہیں اتی ہمدان ۔۔۔
تم اس طرح کے نہیں ہو میں جانتی ہوں تمہیں تم کتنے اچھے ہو تم لڑائی سے کسی کو تکلیف نہیں بلکہ خود کو تکلیف پہنچاتے ہو ۔۔حرم کے الفاظ اس کے کان کے اندر گونجے ۔۔۔۔
جے نے ایک زوردار پنچ ہمدان کے جبڑے پر مارا ۔۔وہ اس وقت اس مکے کے لیے تیار نہیں تھا تو زور سے جا کر نیچے گرا ۔۔اتنے میں جب تک وہ سنبھلتا جے اس کے اوپر حاوی ہو چکا تھا اس نے حمدان کا ایک ہاتھ پکڑ رکھا تھا جب کہ دوسرا ہاتھ کمر کے پیچھے موڑا ہوا تھا وہ اپنا پورا وزن دے کر ہمدان کے اوپر تھا ۔۔۔
ون ٹو تھری ۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا راؤنڈ جے جیت چکا تھا اب اخری راؤنڈ کی باری تھی ۔۔تیسرے راؤنڈ میں جو جیتتا پیسے اسی کو ملنے تھے ۔ ۔
حمدان نے اپنا خون صاف کیا ۔۔اتنے میں ایک لڑکا ٹھنڈے پانی کی بوتل اور ائس لے کر ہمدان کے پاس ایا ۔۔مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔
حمدان نے اسے واپس بھیج دیا ۔۔۔
یہ رکھ لو جبڑے کے نیچے سے خون زیادہ نکل رہا ہے ۔۔۔
نہیں ۔۔مجھے اس کی ضرورت نہیں دوسری بار شہزاد خود ایا تھا پریشان ہو کر ۔۔۔
کیوں تم اپنے اپ کو تکلیف پہنچا رہے ہو اس میں تمہارا کیا قصور ہے حمدان جو کچھ ہو چکا ہے بہتر ہے اسے بھول جاؤ ۔۔
تم اس کے زمیدار نہیں ہو ۔۔۔
میں ہوں ۔۔۔
اور میرا قصور یہ ہے کہ اس وقت میں وہاں نہیں تھا تیزی سے کہہ کر وہ دوسری طرف چلا گیا تھا ۔۔۔
تیسرا راؤنڈ شروع ہو چکا تھا ۔۔۔
میری زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میرا مسئلہ ہے تم اپنے کام سے کام رکھو ہمدان اور سن لیا تم نے مجھے اپنی زندگی میں اگے نہیں بڑھنا نہیں بننا مجھے ڈاکٹر نہیں بننا مجھے ہارٹ سپیشلسٹ تم یہاں سے چلے جاؤ مجھے کسی کی ضرورت نہیں تمہاری بھی نہیں ۔۔۔۔
حرم کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے رہے ۔۔۔
جے نے اس پر حملہ کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا تو ہمدان نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر ا سے بری طرح پیٹنے لگا ۔۔۔
تمہیں سمجھ کیوں نہیں اتا کیوں تم روز روز ا کر مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں اگے بڑھ جاؤں تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب کچھ میرے لیے اسان ہے اس وقت تم کہاں تھے جب مجھے تمہاری ضرورت تھی ۔۔۔
وہ جے کو اندھا دھن مکے مار رہا تھااور جے کو تقریبا ہرا ہی چکا تھا بیل بجھ چکی تھی راؤنڈ ختم ہو گیا تھا ۔۔۔مگر ہمدان نہیں رکا ۔۔۔
شہزاد فکرمندی سے اگے بڑھا راؤنڈ ختم ہو چکا تھا لیکن حمدان ابھی بھی بے حد غصے میں تھا ۔۔۔
شہزاد نے بازو سے پکڑ کر حمدان کو دور کھینچا ۔۔
تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو تمہیں اواز نہیں ائی بیل کی راؤنڈ ختم ہو چکا تھا اگر رولز توڑو گے تو اگلی بار تمہیں فائٹ کرنے نہیں دیں گے یہ لوگ کیوں تم اپنے اپ کو اس طرح سے تکلیف دے رہے ہو دوسروں کے ہاتھوں تمہارے سامنے کتنی کوشش کی ہے ہم نے لیکن کچھ ہوا ہے کیا۔
شہزاد اب اسے وہاں سے بٹھاتے ہوئے نرمی سے سمجھا رہا تھا ۔۔ہمارے ملک میں روزانہ کی بیسز پر ایسے ہزاروں کیس ہوتے ہیں مگر کون پکڑا جاتا ہے ۔ تمہارے سامنے ہم نے کتنی کوشش کی ہے حمدان لیکن افسوس کہ کچھ نہیں کر پائے کیونکہ ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی ثبوت ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
______________________________________
السلام علیکم سر جیسے کہ اپ نے کہا تھا ۔ میں اس عورت رشیدہ کو بلا کے لے ایا ہوں وہ اپ سے ملنا چاہتی ہیں باہر انتظار کر رہی ہے تو کیا میں اسے بھیج دوں ۔۔۔
منور جو کہ شاہمیر شیراز کا ہی ادمی تھا اور ساتھ ہی ساتھ پولیس افسر بھی تھا اس نے ا کر بتایا ۔۔۔
شا ہ میر شیراز اس وقت سیاہ رنگ کی شرٹ پہنا ہوا تھا اس کی انکھوں میں ایک چمک تھی اور چہرے پر ایک عجیب سی سختی تھی انکھوں کے اوپر اس نے چشمہ لگایا ہوا تھا ۔۔۔
تم نے مجھے کہا تھا کہ تم اس عورت کا بائیو ڈیٹا لا کے مجھے دو گے کیا وہ میری ٹیبل پر ہے یا نہیں منور۔۔
شاہ میر شیراز کے ہاتھ میں اس وقت ایک لائٹر تھا جسے وہ کھول اور بند کر رہا تھا ۔۔۔
جی شاہ میر سر ۔۔
اس عورت کا نام رشیدہ ہے اور اس کی دو بیٹیاں ہیں مگر افسوس کے ساتھ بڑی بیٹی مر چکی ہے اور ایک چھوٹی بیٹی ہے باقی ساری ڈیٹیلز اپ کی ٹیبل کے اوپر رکھی ہیں اپ دیکھ لیں اگر اپ چاہتے ہیں تو میں اس کو اندر بلا لیتا ہوں اپ اس سے بات کر لیں ۔۔
یہ عورت راشدہ تمہارے ہی جیل میں تھی نا ۔۔
جی یہ ہمارے ہی جیل میں تھی عورتوں کے ایریا میں وہاں پر بھی اچھی خاصی عورتیں ڈرتی تھی اس سے بہت چلا ک ہے یقینا وہ آپ کو مایوس نہیں کریں گی ۔۔۔
ٹھیک ہے تم جا کے بلا کر اؤ اسے ۔۔۔
شاہ میر شیراز کے بالکل سامنے ایک سیاہ ابائے میں عورت کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔
اس کی عمر تقریبا 40 سال کے قریب ہوگی ۔۔۔
بیٹھے آپ پلیز ۔۔وہ خود سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔
میرا نام شا ہ میر شیراز ہے اپ کو بتایا ہوگا منور نے کہ اپ یہاں پہ کس لیے ہیں ۔۔
جی مجھے بتایا ہے افیسر نے ۔۔۔
اپ نے پولیس کو کیوں نہیں بتایا اس سلسلے میں کہ اس نے اپ کی بیٹی کے ساتھ کیا کیا شاہ میر شیراز نے اپنی انکھوں پر سے گلاسز اتارتے ہوئے کہا ۔۔۔
میں نے اس کے خلاف کمپلین کی تھی مگر کچھ نہیں ہوا کیونکہ میں غریب ہوں ۔۔۔
اور وہ پولیس والا خود ان ساری چیزوں میں ملوث تھا تو وہ میری کیا مدد کرتا میری بیٹی کو کہاں سے انصاف دلواتا پانچ بار گئی میں اس کے تھانے پانچ بار اور چھٹی بار جب میں گئی تو اس نے کہا کہ ایک شرط پر تمیں انصاف دلوا سکتا ہوں اگر تم میرے ساتھ دو راتیں گزارو تو ۔۔۔
شامی شیراز کی جبڑے تن گئے تھے ۔اس نے ایک ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنے ہونٹوں پر رکھی ۔۔
جس نے اپ کی بیٹی کے ساتھ یہ سب کچھ کیا اور پھر اسے جان سے مارا وہ اپ کا دوسرا شوہر تھا ۔ ۔۔۔
جی ۔۔
میری چھوٹی بیٹی جب پیدا ہوئی تو اس کے ڈھائی سال کے بعد میرے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا ۔۔۔
اس وقت میری بڑی بیٹی کی عمر اٹھ سال تھی ۔۔۔۔
میں کیں عرصہ بیوہ رہی اور اکیلے ہی اپنی دونوں بچیوں کو پالتی رہی میرے ماں باپ مر چکے تھے اور بھائی بھابھی اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے ساتھ مصروف تھے تو میرا کرنے دھرنے والا کوئی نہیں تھا ۔۔
اور میرے ماں باپ کا گھر بھی چھوٹا تھا وہاں پہ بھائی اور بھابھی اور ان کے بچے ہی رہتے تھے ۔ تو ہم کہاں رہتے ۔۔
میں نے طے کیا کہ میں کرائے کے مکان پر ہی اپنی دونوں بچیوں کو لے کر پال لوں گی پھر میں ایک فیکٹری کے اندر جاب کرنے لگی کپڑے والی فیکٹری تھی وہ وہاں پر سلائی کرتی تھی ۔۔
وہاں میری ملاقات غفار سے ہوئی غفار طلاق یافتہ تھا ۔اور اس کی بیوی اپنا بیٹا اپنے ساتھ لے گئی تھی میں نے وجہ پوچھی کہ تمہاری بیوی نے تمہیں کیوں چھوڑا تو اس نے کہا کہ مجھے شراب کی عادت لگ گئی تھی جو کہ اب ختم ہو گئی ہے اس نے مجھ سے جھوٹ کہا اور چھ مہینے کے بعد ہم نے شادی کر لی ہم دونوں ہی اس فیکٹری کے اندر جاب کرتے ہیں اور میری دونوں بیٹیاں گھر کا کام کرتی اور سرکاری اداروں میں پڑھنے کیلئے جاتیں ۔۔
کچھ وقت کے بعد جب میری بیٹی جوان ہوئی تو غفار نے ہر وقت اس کے اوپر نظر رکھنی شروع کی وہ ہمارے گھر کے قریب ہی ایک سرکاری اسکول میں جاتی تھی پڑھنے وہ اصرار کرنے لگا کہ اسے لینے اور چھوڑنے اب وہ خود جائے گا کیونکہ اب وہ بڑی ہو رہی ہے میں نے بھی اس چیز کے اوپر اعتراض نہیں کیا مجھے لگا شاید وہ ایک اچھا باپ بننے لگا ہے ۔۔۔۔
میری بیٹی کو اس نے پورے دو مہینے استعمال کیا وہ اسے ڈراتا تھا دھمکاتا تھا کہتا تھا جان سے مار دوں گا اسے بھی اور اس کی ماں کو بھی اور اس کی چھوٹی بہن نائلہ کو بھی اگر اس نے کچھ بھی مجھے بتایا تو ایک دن اس نے مجھے ہمت کر کے یہ سب کچھ بتا دیا میں نے غفار کے خلاف پولیس میں کمپلین کی اور میں نے اس سے کہا کہ وہ مجھے طلاق دے دیں مگر نہ ہی تو وہ مجھے طلاق دے رہا تھا اور نہ ہی میری بیٹی کا پیچھا چھوڑ رہا تھا وہ کہتا تھا کہ وہ میری بیٹی کو مار دیگا اور ساتھ میں نائلہ اور مجھے بھی ۔۔۔ پولیس سے مدد مانگی میں نے لیکن وہ کمینہ پولیس والا بھی اسی کی طرح گھٹیا ادمی تھا ۔۔۔
پھر ایک رات ایا وہ بے حد شراب کے نشے میں تھا ۔۔
ہم نے اسے اپنے گھر سے نکال دیا تھا ۔۔
مگر نہ جانے کیسے وہ رات کے اندھیرے میں ہمارے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔۔
اور اس نے موقع پاتے ہی مجھے اور میری بچیوں کو چاقو سے مارنے کی کوشش کی میری بڑی بیٹی کی گردن پر اس نے سوتے ہوئے چاقو چلا دیا تھا وہ بیچاری سوتے سوتے ہی مر گئی جب ہماری انکھ کھلی تو وہ مری پڑی تھی ۔۔۔
وہ اب ہمیں مارنے کے لیے ا رہا تھا اور اس نے میری چھوٹی بیٹی کو پکڑا تھا ۔۔۔
مگر میں نے اس کے سر کے اوپر پوری طاقت سے قریب رکھا ہوا کانچ کا برتن مارا وہ لڑکھڑا کر پیچھے گرا چاقو سے وہ مجھے زخمی کر چکا تھا اور اب میری بیٹی کو کرنے والا تھا اسی وقت میں نے تیزی سے استری کا تار اٹھایا اور اس کی گردن میں لپیٹ دیا میرے اندر اس وقت بہت جان تھی نہ جانے کہاں سے اگئی تھی اور پھر میں نے اسے اسی استری کے تار سے مار دیا ۔۔
جب میں نے اپنی بیٹی کا کٹا ہوا گلا دیکھا تو مجھے اس غفار پر مزید غصہ ایا اور پھر میں نے استری سے اس کے وہ سارے حصے جلا دیے جو اسے ایک مرد بناتے تھے میں نے اس کا ہر وہ حصہ جلا دیا تھا جس سے اس نے میری بیٹی کی زندگی تباہ کی تھی ۔۔۔
اگلی صبح سب کو پتہ چل گیا اور میں جیل میں تھی اور میری بیٹی انہوں نے کسی فلاحی ادارے کو دے دی تھی ۔۔۔
کافی سال کے بعد جب میں نے اپنی سزا مکمل کی تو میں اپنی بیٹی کو وہاں سے لے ائی ۔۔۔۔
مجھے بہت افسوس ہوا اپ کی بیٹی کے ساتھ جو بھی ہوا ہے ۔
اور اپ مجھے اس پولیس افیسر کے بارے میں لازمی بتائیں گی جو بھی وہ تھا اور جس سے اپ نے مدد مانگی اور اس نے اپ کو وہ گھٹیا کام کرنے کے لیے کہا جو اپ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔
اپ کو کسی فیکٹری میں اب دوبارہ کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔
اپ کا کرائے کا گھر جو تھا اپ وہ خالی کر دیں کیونکہ پچھلے دو مہینوں سے اپ نے وہاں کا کرایہ نہیں دیا ہے منور اپ کو ایک چھوٹا سا گھر دے رہا ہے اپ اپنی بیٹی کے ساتھ وہاں رہیں ۔۔
اور اپ نے صرف یہ کام کرنا ہے کہ جب بھی میں اپ کو کہوں اپ ایک لڑکی پر نظر رکھیں گی ہر وقت جب بھی مجھے ضرورت ہوگی ۔۔۔
یہ ہے وہ لڑکی شا ہ میر شیراز نے حرم منصور کی تصویر اس عورت کی طرف بڑھائی ۔یہاں رہتی ہے۔ یہ اس کے گھر کا پتہ ہے جب بھی وہ باہر جائیں تو اپ اس پر نظر رکھیں گےاور اگر آپ اپنی مرضی سے بھی کوئی کام کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں میری طرف سے اپ کو کوئی پابندی نہیں باقی اپ کی مرضی ہے ۔۔
بس میں اپ سے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اس لڑکی کو اتنی سی بھی خبر نہیں ہونی چاہیے کہ اس پر نظر رکھی جا رہی ہے اب اپ جا سکتی ہیں ۔۔۔
______________________________
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment