تیرے لیے
قسط نمبر 6
مصنفہ منال علی
_________________________
حرم جی دروازہ کھولیں حمدان پچھلے ایک گھنٹے سے حرم کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا دروازہ بجا رہا تھا مگر اندر سے کسی قسم کی کوئی اواز نہیں ارہی تھی ۔۔۔
سکندر صاحب اور مریم بھی نہ جانے کتنی بار ا کر مایوسی سے واپس جا چکے تھے ۔۔
مگر ہمدان وہیں کھڑا رہا اسے وہیں کھڑے کھڑے تقریبا ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا ۔۔
حمدان کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا وہ دروازہ نہیں کھول رہی تھی ۔۔
پچھلے گزرے کچھ سالوں سے یہی سب کچھ ہوتا چلا ا رہا تھا ۔۔
وہ بے حد مایوس ہو کر دروازے کے کنارے پر بیٹھ گیا ۔۔۔
حرم جی اپ میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہیں۔ اس میں میری کیا غلطی ہے مجھ سے کیوں اپ نے منہ موڑ لیا ہے کیا اپ کو یاد نہیں کہ ہم دونوں بیسٹ فرینڈ ہیں کیا اپ کو یاد نہیں اپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اپ مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گی تو پھر اپ کیوں اکیلی ہو کے رہ گئی مجھے کیوں تنہا چھوڑ دیا ہے کیوں اپ کسی اور کا ساتھ نہیں چاہتی اپنے ساتھ ۔۔
ہم نے تو ہمیشہ ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا نا اپ بھول گئی ۔۔
میرے ساتھ یہ سلوک نہ کیا کریں مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے حرم جی ۔۔
کیا اپ میری برتھ ڈے والے دن بھی میرے ساتھ یہ سلوک کریں گی میں جانتا ہوں اپ بہت تکلیف میں ہیں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اپ مجھے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی اور اپ کے اس رویے سے مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے ۔
وہ کمرے کے دروازے کے باہر بیٹھا رہا اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا رہا ۔۔۔
تقریبا ادھا گھنٹہ مزید اور گزرنے کے بعد جب وہ اس دروازے کے پاس سے نہ اٹھا تو حرم نے مجبورا دروازہ کھولا ۔۔
لاک کھولنے کی اواز پر وہ بہت تیزی سے سیدھا ہوا ۔۔۔
برق رفتاری سے وہ کمرے کے اندر ایا تو حرم کا کمرہ بالکل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔
کچھ گزرے ہوئے سالوں سے اس کا کمرہ یوں ہی رہتا تھا اندھیرے میں ڈوبا ہوا اسے اندھیرا پسند نہیں تھا لیکن جو کچھ اس کے ساتھ ہو چکا تھا اب وہ اندھیرے میں ہی رہنا چاہتی تھی ۔۔۔
اس کی انکھوں سے ہمیشہ کی طرح انسو ٹپک رہے تھے ۔۔۔اس کی خوبصورت انکھیں سوجھی ہوئی تھیں اور چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔ ۔
حمدان اہستہ اہستہ قدموں سے چلتا ہوا اس کے پاس ایا ۔ وہ اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے سیدھی ہو کر بیٹھی کمرہ پورا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔
حمدان نے لائٹ جلانے کے لیے سویچ پر ہاتھ لگایا ۔۔۔
اندھیرا ہی رہنے دو ۔۔۔
حرم نے تیزی سے کہا ۔۔
ہمدان نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے لائٹ ان کی ۔
اس کی توقع کے مطابق وہ رو رہی تھی ۔۔۔
کیوں روتی رہتی ہیں اپ تنہائی میں بیٹھ کر اگے بڑھ جائیں حرم جی اب تو بہت سال ہو گئے ہیں کیوں اپ اپنے اپ کو تکلیف دے رہی ہیں اپ کی اسی تکلیف اور حالت سے ہمیں بھی تکلیف ہو رہی ہے ماں بابا کے لیے ہی صحیح اپنے اپ کو اس دنیا سے نکال دیں یہ ایک کمرے کی چار دیواریاں اپ کی زندگی نہیں ہیں اپ شاید بھول گئی ہیں کہ اپ کا سب سے بڑا خواب ایک بہترین ہارٹ سپیشلسٹ بننا تھا اور اپ کیا کہتی تھی اگر میرا وہ خواب پورا نہیں ہوا تو میں اپنے اپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی اور اب اپ ہی وہ ہیں جو اپنے اس خواب کو خود ہی اپنے ہاتھوں سے توڑ رہی ہیں میں جانتا ہوں جو کچھ ہوا وہ بہت برا تھا بہت ہی زیادہ برا مگر اپ کو اس طرح سے دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔
تم یہاں سے چلے جاؤ ہمدان یہی چار دیواریں اب میری زندگی ہے اور یہی میرا مقدر جو کچھ میرے ساتھ ہو چکا ہے تمہیں کیا لگتا ہے وہ سب کچھ جو میرے ساتھ ہوا وہ میرے لیے جھیلنا اسان ہے میں روز روز مر رہی ہوں ہر دن ہر گھنٹہ ہر لمحہ وہ دن وہ رات وہ چیخیں مجھے نہیں بھولتی کوئی نہیں تھا وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا جو مجھے بچا پائے اور میں ۔۔۔میری بے بسی تو دیکھو میں اپنے لیے خود کچھ نہیں کر سکتی ۔وہ اب اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔۔۔
حمدان حرم کی بات پر خاموش رہا ۔۔۔وہ واقعی صحیح کہہ رہی تھی اس کی مدد کے لیے اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔
میں ساری زندگی اپنے اپ کو معاف نہیں کر سکتا حرم جی ساری زندگی مجھے اس چیز کا گلہ رہے گا اپنے اپ سے کہ میں اس وقت وہاں اپ کے پاس نہیں تھا میں اگر مر بھی رہا ہوں گا تب بھی میں اپ کا گنہگار ہوں گا یہ چیز مجھے اس وقت بھی یاد ہوگی کہ میں اپ کے پاس نہیں تھا وہ گھٹنے کے بل بیڈ کے پاس بیٹھے اپنی گردن جھکا کر حرم سے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
کوئی اور مجھے کیا بچا تا جب میں خود اپنے اپ کو نہیں بچا پائی کتنی کمزور ہوں میں اس رات مجھے اندازہ ہوا میں واقعی بڑی کمزور ہوں اور اب تو اتنی کمزور ہو گئی ہوں کہ چاہ کر بھی اٹھ نہیں پاتی ۔۔پورے گھر میں صرف ایک واحد ہمدان ہی تھا جس سے وہ بات کر لیا کرتی تھی اور حمدان سے بات بھی وہ کچھ مہینوں پہلے ہی کرنا شروع ہوئی تھی ورنہ وہ ہمدان سے بھی بات نہیں کرتی تھی نہ وہ اپنے کمرے سے باہر اتی تھی اور میڈیکل کی پڑھائی تو اس کی چھوٹ چکی تھی بس اس کی دنیا جو تھی وہ صرف اس کا ایک کمرہ اور اس کی چار دیواری جس میں سارا دن اندھیرا ہی رہتا تھا روشنی اسے بری لگنے لگی تھی اور جب وہ اپنے اپ کو ائینے میں دیکھتی تو جیسے اسے خود سے نفرت ہونے لگتی اس نے اپنے کمرے سے ائینہ ہٹا دیا تھا وہ اپنے اپ کو اپنے وجود کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔ ۔۔۔حرم منصور کو اپنے اپ سے نفرت ہو گئی تھی ۔۔
اپ اپنی میڈیکل کی پڑھائی دوبارہ شروع کرے حرم جی ۔۔
ہمدان اب حرم سے کافی اگے تھا ۔۔وہ اپنی میڈیکل کی پڑھائی کافی مکمل کر چکا تھا جبکہ حرم نے چوتھے سال میں ہی اپنی پڑھائی چھوڑ دی تھی ۔۔
زندگی اگے بڑھنے کا نام ہے حرم جی جو کچھ ہو گیا ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اپ اسے بھول جائیں لیکن اپ اسے بھولنے کی اور اگے بڑھنے کی کوشش تو کر سکتی ہیں اپنے مستقبل کے لیے اپنی خوشیوں کے لیے اپنے خوابوں کے لیے ۔۔میں روز اپ کو یہی کہتا ہوں اور اپ ہیں کہ مجھے کوئی جواب ہی نہیں دیتی میں چاہتا ہوں کہ اپ اپنی تعلیم دوبارہ سے شروع کریں اور جو کچھ رہ گیا ہے اسے مکمل کریں اپنے خوابوں کو پورا کریں حرم جی ۔۔۔
اب کچھ بھی ممکن نہیں ہے ہمدان سب کچھ بہت سالوں پہلے ختم ہو چکا ہے تباہ ہو چکا ہے ۔۔۔۔
_______
وہ دونوں اس وقت کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے جب حرم کو خبر ملی کہ اس کے نام ایک پارسل باکس ایا ہے ۔۔
ملازمہ نے ا کر اسے بتایا ۔۔
میرا کوئی پارسل نہیں ہے نہ ہی میں نے کچھ منگوایا ہے ۔۔
اس سے پہلے کہ حرم اس پارسل کو واپس بھجوا تی ہمدان وہ پارسل لے چکا تھا اور اس نے پارسل لیکر دروازہ بند کر دیا ۔۔۔
یہ میرا نہیں ہے اسے یہاں سے لے جاؤ وہ اس پارسل کو دیکھ کر بے حد بیزاری سے کہنے لگی ۔
لیکن دیکھیں اس کے اوپر اپ ہی کا نام لکھا ہوا ہے حرم منصور اور ایڈریس بھی بالکل ٹھیک ہمارے گھر کا ہے اپ دیکھ لیں ۔۔۔۔
مجھے ہاسپٹل جانا ہے خدا حافظ اپنا خیال رکھیے گا ۔۔
حمدان میں نے کہا اسے یہاں سے لے جاؤ ۔۔۔
اپ ایک بار دیکھ لیے گا ہو سکتا ہے اپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے بھیجا ہو باہر سے وہ بھیجتے ہیں اپ کو کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے انہی کا ہو وہ نام لکھنا بھول گئے ہوں ۔۔
پارسل جہاں رکھا تھا وہیں رکھا کا رکھا رہ گیا حرم نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا ۔۔۔
حمدان کمرے سے باہر ایا تو سکندر اور مریم دونوں کے کمرے میں سیدھا گیا ۔
کیا ہوا ہمدان تمہاری بات ہوئی حرم سے کیا وہ مان گئی ہے ۔۔
نہیں ماں وہ کبھی نہیں مانیں گی شاید ۔۔۔لیکن میں کوشش کرتا رہوں گا میں انہیں اس طرح سے نہیں دیکھ سکتا مجھے میری حرم جی واپس چاہیے کسی بھی حال میں کسی بھی صورت میں میں انہیں یوں روز روز مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔
اپ نے ان کا چہرہ دیکھا ہے کیسا ہو گیا ہے بالکل مرجھایا ہوا نہ ہستی ہیں نہ بولتی ہیں نہ بات کرتی ہیں صحت بھی کتنی گر گئی ہے ان کی اپنا تو
خیال ہی نہیں رکھتی وہ بالکل۔۔۔
اپنے اپ کو بالکل قید کر لیا ہے انہوں نے ایک کمرے میں ۔۔
سوچ رہا ہوں کہ کل انہیں لے کر جاؤں کہیں اپنے ساتھ ۔۔
تمہیں پتہ تو ہے ہم کتنا بولتے ہیں وہ کہاں جاتی ہے۔۔۔۔
حرم اس کمرے سے نہیں نکلنا چاہتی ہمدان اس نے اپنے کمرے کو اپنی زندگی بنا لیا ہے جب کہ یہ اس کی زندگی نہیں ہے سکندر صاحب نے کہا ۔
صحیح کہہ رے ہیں اپ بالکل لیکن میں کوشش کروں گا کہ میں انہیں کل لے جاؤں ۔۔
ان کی فیورٹ جگہ لے جاؤں گا انہیں پانی کی طرف ۔۔۔
یقینا وہ اچھا محسوس کریں گی ۔۔۔۔
اگلی رات ہاسپٹل سے انے کے بعد وہ سیدھا حرم کے کمرے میں ایا تھا ۔۔۔
چلیں اٹھیں اپ جلدی سے باہر ائیں فورا اور اگر اب اپ نہیں اٹھیں تو پھر اپ کی خیر نہیں ہے حرم جی ۔۔
یہاں سے چلے جاؤ ہمدان مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔
ائی ایم سو سوری لیکن میں ایک ڈاکٹر ہوں اور ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے میں اپ کو اس طرح سے نہیں چھوڑ سکتا چلیں ائیں فورا ویسے ہی اپ بہت ویک ہو چکی ہیں ۔۔۔
میں نے تم سے کہا نا مجھے بھوک نہیں ہے حمدان پلیز یہاں سے چلے جاؤ ۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔
ائی ایم سوری لیکن میں نہیں جاؤں گا اور اپ میرے ساتھ چل رہی ہیں وہ تیزی سے چلتا ہوا اس کے سر پر ا کر کھڑا ہوا جب کہ حرم میں چادر اپنے منہ تک کر لی ۔۔۔
چادر میں منہ چھپانے سے کیا ہوگا میں بہت ڈیٹ ہوں اپ کو پتہ ہے میں نہیں جاؤں گا ۔۔
تم یہاں سے جا رہے ہو یا میں چلی جاؤں ۔۔
اپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں لیکن میں اپ کو اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گا ہر وقت کی ضد اچھی نہیں ہوتی حرم جی اپنے اپ کو دیکھیں اپنی صحت کو دیکھیں کیا کر رہی ہیں اپ اپنے ساتھ ۔۔۔
میں اپنے ساتھ جو بھی کروں یہ میرا مسئلہ ہے تم پلیز یہاں سے چلے جاؤ ۔۔۔
اپ کو لگتا ہے کہ میں اپ کو ایسا کرنے دوں گا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں اپ کو تنہا چھوڑ دوں ۔۔
چلیں اب فورا سے اٹھیں ہمدان نے چادر کھینچ کر ایک طرف پھینکی ۔۔۔
میں نے تم سے کہا نا ۔۔
حرم جی آپ چپ چاپ میرے ساتھ چلیں ورنہ میں اپ کو اٹھا کر لے جاؤں گا ۔۔۔
میں کہیں نہیں جا رہی تم یہاں سے فورا چلے جاؤ مجھے بھوک نہیں ہے جاؤ یہاں سے پلیز حمدان کیوں مجھے غصہ دلا رہے ہو ۔۔۔
اگر اپ کو غصہ ارہا ہے تو اپ غصہ نکال دیں چاہے تو تھپڑ لگا دیں لیکن اپ میرے ساتھ چل رہی ہیں ہمدان نے تیزی سے اسے بازو سے پکڑ کر فورا بیڈ پر بٹھایا ۔۔۔
میں نے تم سے کہا نا حرم نے ابھی اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ حمدان نے تیزی سے اس کے پاؤں میں جوتی پہنائی اور پھر اسے دونوں بازوں سے پکڑ کر فورا کھڑا کیا بغیر کوئی موقع دیے ۔۔۔۔
حد ہو گئی ہے اپ سے تو ایسا لگ رہا ہے چھوٹی بچی ہو گئی ہیں جب کہ چھوٹا اپ سے میں ہوں اور حرکت دیکھیں اپ اپنی۔۔۔۔ ۔
ہاں میں بھی تم سے یہی کہہ رہی ہوں زیادہ میرے باپ بننے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں وہ واقعی غصے میں تھی۔
اپ یوں سمجھیں کہ میں اپ کا چھوٹا باپ ہوں ۔۔.
اس نے حرم کو کوئی موقع نہیں دیا وہ تیزی سے اس کے دونوں بازو پکڑ کر اب اسے کمرے کے باہر دھکیل رہا تھا جب کہ وہ مسلسل حمدان پر غصہ کر رہی تھی ۔۔۔۔
سکندر اور مریم دونوں اسے وہاں دیکھ کر بہت خوش ہوئے وہ بہت ہی کم باہر کھانا کھاتی تھی لیکن حمدان نے اب ٹھان لی تھی کہ وہ روز یہاں پر ہی بیٹھ کر کھائے گی کمرے میں اکیلے نہیں۔۔۔
بس بہت کر لی اس نے اپنی من مانی ۔۔۔۔
دیکھو حرم اج تمہاری فیورٹ چیزیں بنائی ہیں میں نے ۔
تمہارے فیورٹ دال چاول بنائے ہیں میں نے ساتھ تمہارے پسندیدہ پاپڑ بھی ہیں موم کی دال کے اور یہ دیکھو حیدرابادی اچار بھی پیٹ بھر کے کھانا کھاؤ میری جان مریم نے حرم کی پلیٹ میں کھانا نکال کر اس کے قریب رکھا ۔۔
یہ کباب بھی ٹرائی کرو یہ ہمدان نے بنائے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے تم نے اسے بتائے تھے ۔۔۔۔
اس نے ہمیں تو کھانے نہیں دیے کہہ رہا تھا پہلے حرم جی ٹیسٹ کریں گے اس کے بعد ۔۔سکندر نے وہ کباب کی ٹرے اس کے قریب بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔
کھا کے بتائیں نا حرم جی کیسے ہیں ۔۔حمدان نے کباب اٹھا کر حرم کی پلیٹ میں ڈالا ۔۔
حرم بس خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی وہ لوگ حرم سے کس قدر محبت کرتے تھے ۔۔
حرم نے کچھ نہیں کہا وہ بس خاموشی سے کھانا کھانے لگی ۔۔
سکندر اور مریم نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔اور پھر ہمدان کو ۔۔
وہ تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے کیونکہ وہ دال چاول بہت شوق سے کھا رہی تھی ۔۔۔۔۔
اچھے بنایے ہے تم نے کباب حرم نے کہا ۔ ۔۔۔
تھینک یو سو مچ ۔۔۔
حمدان نے اسے دیکھ کر کہا ۔۔
تھینک یو حرم نے بھی کہا ۔۔۔
صرف تھنک یو سے کام نہیں چلے گا ۔ ہمدان نے اسے دیکھ کر کہا ۔۔
حرم نے کچھ نہیں کہا وہ خاموشی سے اپنا کھانا کھاتی رہی ۔۔وہ اب ہمدان سے ہر بات پر بحث نہیں کرتی تھی جیسے ان دونوں کے درمیان لمبی لمبی مزاقیہ بحث ہوتی تھی اب نہیں ہوتی تھی حمدان اس چیز کو بہت زیادہ مس کرتا تھا اور کہیں نہ کہیں حرم بھی ۔۔۔ان دونوں کے درمیان ایک فاصلہ سا ا گیا تھا اور ہمدان ہمیشہ یہ کوشش کرتا کہ یہ فاصلہ ختم ہو جائے ۔۔
حرم اپنے کمرے میں تھی جب حمدان اس کے کمرے میں ایا ۔۔۔
اب تمہیں کیا چاہیے ۔۔وہ کمرے میں اندھیرا کیے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
اپ کے پیارے سے چہرے پر مسکراہٹ اور رونق ۔۔۔
ہمدان کے دیے گئے جواب پر جیسے حرم کو چپ لگ گئی وہ بس خاموشی سے اسے دیکھتی رہی دیکھتی رہی ۔۔۔
وہ اب کبھی نہیں ا سکتی حرم نے بے حد مایوسی سے جواب دیا ۔۔
ائے گی بالکل ائے گی اور میں لے کر اؤں گا ۔۔۔
چاہے اپ خود چاہیں یا نہ چاہیں لیکن میں یہ ممکن کروں گا ۔۔
اس کے ہاتھ میں گاڑی کی چابیاں تھیں۔۔۔
تم کہیں جا رہے ہو ۔۔؟؟؟
ہم جا رہے ہیں ۔۔
تمہارا دماغ ٹھیک ہے میں کہیں نہیں جاؤں گی حرم کو جیسے خوف محسوس ہوا ۔۔۔
حرم جی میں نے کہا ہم جا رہے ہیں ابھی اور اسی وقت ۔۔
میں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا چاہتی اب تم یہاں سے چلے جاؤ ہمدان بس بہت ہو گیا ہے بہت کر لی تم نے اپنی مرضی ۔۔۔
نہیں بہت تو نہیں کی تھوڑی سی کی ہے ابھی تو اور تھوڑی سی ابھی باقی ہے وہ ایک بار پھر سے اس کے سلیپریز اٹھا کر اس کے پاؤں کے قریب لے ایا تھا ۔۔۔۔
تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے ہاں تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو مجھ سے زبردستی مت کرو سمجھے تم چھوٹے ہو تو چھوٹے ہی رہو میرے باپ مت بنو ۔۔۔
دو بار ہو گیا ہے ۔میرے باپ مت بنو۔۔ اج اپ نے مجھے دو بار بولا ہے ۔۔
لیکن میں اپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں اپ کا چھوٹا باپ ہوں اپ یوں سمجھ لیں ۔۔اور باپ کا فرض ہو تا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خوشیوں کا خیال رکھیں اور صحت کا بھی تو اگر اپ خود چل کے باہر ا جاتی ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ میں اپ کو اٹھا کے بھی لے کے جا سکتا ہوں اور اپ یہ اچھے طریقے سے جانتی ہیں کہ چاہے یہاں پر پانچ ہی کیوں نہ بچ جائیں صبح کے میں یہاں سے نہیں ہلوں گا جانتی ہیں نا اپ مجھے ۔۔
حمدان نے ذرا چہرہ اس کے قریب کر کے اس کی انکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔۔
جبکہ حرم نے اسے تیزی سے پیچھے کی طرف دھکا دیا ۔وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں تھا ۔۔جہنم میں جاؤ تم سمجھے ۔۔۔
فلحال ڈیئر حرم جی ہم جہنم میں نہیں بلکہ اپ کی فیورٹ جگہ جا رہے ہیں ۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے تقریبا اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے کر ایا تھا ۔۔۔
مریم اور سکندر دونوں ٹی وی روم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔
ماں بابا میں حرم جی کو باہر لے جا رہا ہوں ادھے گھنٹے میں واپس لے اؤں گا ۔۔
ہاں ہاں بیٹا دھیان سے جاؤ ۔۔۔
سکندر نے حمدان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
میں نہیں جانا چاہتی باہر بابا یہ مجھے تنگ کر رہا ہے کب سے ۔۔
میری جان تھوڑی دیر کے لیے چلی جاؤ باہر ۔ ۔۔
اپ اسے سمجھا دیں یہ دن بدن بدتمیز ہوتا جا رہا ہے اور اپنی باتیں منوانے لگا ہے مجھ سے وہ بھی زبردستی ۔۔۔۔
حمدان نے حرم کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا ۔۔
جبکہ حرم نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا مگر وہ چھڑوا نہ سکی ۔۔۔
بہت دھیان سے جانا دونوں مریم نے ان دونوں کو دیکھ کر کہا ۔۔
جبکہ حمدان اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تیزی سے گھر سے باہر لے جا رہا تھا ۔۔۔
ہمدان کی گاڑی اب مین روڈ پر دوڑ رہی تھی ۔۔
بیچ روڈ پر جب ہوا تیز ہوئی تو ہمدان نے کھڑکی تھوڑی سی نیچے کئی ۔۔وہ جانتا تھا کہ یہ روڈ حرم کا فیورٹ روڈ ہے یہاں کی ہوا حرم کو بہت پسند ہے جب وہ حرم کے ساتھ پہلے یہاں اتا تھا تو حرم ونڈو کا شیشہ پورا نیچے کر دیتی تھی ۔۔
لیکن اج ہمدان نے شیشہ تھوڑا سا نیچے کیا تھا ۔۔
حرم کچھ نہیں بولی وہ بس وہیں بیٹھی رہی وہیں بیٹھے بیٹھے حرم نے جیسے تھوڑا سا چہرہ اونچا کیا اور اس ہوا کو محسوس کرنے لگی ۔۔
حمدان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ائی ۔۔۔
ہاتھ بڑھا کر حمدان نے شیشہ بالکل نیچے کیا ۔۔
اور اس کے چہرے کو مسکرا کر دیکھا ۔۔۔
وہ چہرہ دوسری طرف موڑے اب صرف اور صرف کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔۔تیز ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے کو چھو رہی تھی ۔اڑتی اڑتی لٹے اس کے چہرے پر جھول رہی تھی حرم نے اپنا چہرہ شیشے کی طرف ٹکایا اور اپنی انکھیں بند کر لیں پھر جیسے اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔تیز ہوا کے جھونکے اس کے چہرے کو چھو رہے تھے اور اڑتے ہوئے بال اس کے حسین چہرے کو چوم رہے تھے ۔۔
حمدان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا وہ انکھیں بند کیے اس ہوا کو محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگا وہ بس اسے دیکھ ہی تو سکتا تھا ۔۔
کچھ دیر کے بعد وہ دونوں بیچ پر پہنچے ۔۔۔
تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو یہاں پر کوئی نہیں ہے ۔۔
تبھی تو اپ کو یہاں لایا ہوں کیونکہ یہاں پر کوئی نہیں ہے ۔۔
اپ یہاں کمفرٹیبل فیل کریں گی ۔۔۔
مجھے گھر لے جاؤ حمدان مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔
کس چیز سے ڈر لگ رہا ہے اپ کو حمدان نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
بس مجھے ڈر لگ رہا ہے اندھیرے سے ۔۔۔
اندھیرے سے سارا دن اپ کمرے میں اندھیرا کیے بیٹھی رہتی ہیں حرم جی تب اپ کو اندھیرے سے خوف نہیں اتا ۔اپ کو کسی چیز سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہاں پر میں ہوں اپ کے لیے اب بالکل بے فکر رہیں کسی چیز سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں اپ کو ۔سمجھ گئی اپ کسی بھی چیز سے ہمدان نے جیسے کچھ جتاتے ہوئے کہا ۔۔
کافی پییں گی اپ کافی لاؤں وہ سامنے ہی شاپ ہے ۔۔۔۔
نہیں نہیں ۔ یہاں سے مت جاؤ یہیں کھڑے رہو ۔۔
ٹھیک ہے حمدان نے ہاتھ اوپر کر کے اس کافی کی شاپ کے باہر کھڑے ایک لڑکے کو دو کا اشارہ کر کے دو کافی کا کہا اس لڑکے نے اشارہ سمجھ کر تیزی سے سر ہلایا اور کافی شاپ کے اندر چلا گیا ۔۔۔
کچھ دیر کے بعد وہ لڑکا کافی لے کر ا چکا تھا ۔۔ ۔۔
پانی کی طرف چلیں ۔۔
وہ اب ایک ہاتھ سے حرم کی کافی کو پکڑے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی ۔۔
ٹھنڈی ہو جائے گی ہمدان نے کافی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا وہ اب دونوں پانی میں کھڑے تھے اور حمدان نے حرم کا ہاتھ دوسرے ہاتھ سے تھاما ہوا تھا ۔۔
اپ یہیں رکیں میں بس پیسے دے کر اتا ہوں ۔۔
تم نے پہلے پیسے کیوں نہیں دیے جب وہ یہاں ایا تھا تو ۔۔
میں بھول گیا تھا بس ایک منٹ
حرم جی بس ایک منٹ میں ایا ۔۔
نہیں مت جاؤ ۔۔۔
حرم جی صرف پیسے دے کر ا رہا ہوں وہ دیکھیں وہ شاپ کے اندر چلا گیا ورنہ میں اسے یہیں بلا لیتا ۔بس ابھی گیا اور ابھی ایا صرف پیسے دے رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔
نہیں تم مت جاؤ ۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔
میں نہیں جا رہا ۔۔۔
کچھ وقت کے بعد وہ لڑکا خود ہی واپس ایا ۔۔ہمدان نے اسے پیسے دیے ۔۔۔
یہ ٹشو لے لیں اگر ہاتھ صاف کرنے ہوں تو ۔۔
اس لڑکے نے تین چار ٹشو حمدان اور حرم کے ہاتھ میں دیے ۔۔
حمدان اب اس کافی والے کو پیسے دے رہا تھا ۔ ۔
حرم نے ٹشو سے ہاتھ پوچھا ۔۔
اور ٹشو کو اپنے ہاتھ میں ہی رہنے دیا ۔۔۔
وہ دونوں واپس جا رہے تھے۔۔
یقینا اپ کو اچھا لگا ہوگا یہاں اکر ۔حمدان اب اپنے جوتے پہن رہا تھا جو انہوں نے کچھ دور اتارے تھے ۔۔۔
وہ دونوں ا کر گاڑی میں بیٹھ گئے حمدان نے گاڑی سٹارٹ کی ۔۔۔
ان کی گاڑی ایک پیٹرول پمپ پر رکی حمدان نے گردن موڑ کر پیٹرول بھرنے کے لیے کہا ۔۔
حرم کی نظر اس کے ہاتھ میں پڑے ہوئے ٹشو پیپر پر گئی ۔۔
ٹشو پیپر پر کچھ لکھا تھا ۔۔
رات کے اندھیرے میں بیچ پر وہ اسے نظر نہیں ایا ۔وہاں لائٹ اتنی اچھی نہیں تھی کہ وہ اسے ارام سے پڑھ سکے ۔۔
حرم نے وہ طے کیا ہوا ٹشو کھولا ۔۔۔۔
ہمدان اب والٹ میں سے پیسے نکال رہا تھا ۔۔
"یہ خوبصورت سبز انکھیں روتی ہوئی بالکل اچھی نہیں لگتی میں ان انکھوں میں کبھی بھی انسو دیکھنا نہیں چاہتا ۔۔
تم مسکراتی ہوئ بہت خوبصورت لگتی ہو ہمیشہ صرف مسکراتی رہا کرو حرم" ۔
شاہ میر شیراز ۔۔۔
اخری لفظ جو اس نے تحریر کا پڑھا تھا نہ وہ اس شخص کو جانتی تھی اور نہ ہی اسے پتہ تھا کہ یہ کہاں سے ایا ہے ۔۔۔اس سے پہلے بھی وہ اسی طرح کی ایک لکھی ہوئی تحریر پڑھ چکی تھی جب وہ پارسل گھر میں ایا تھا ۔اس پارسل کے اندر کچھ بہت ہی بہترین کوالٹی کے پینز تھے اور اسی طرح کی لکھی ہوئی ایک تحریر ۔اور ایک ڈائری بھی باکس میں وہ سب تھا جو حرم بہت پسند کرتی تھی ۔۔
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد جیسے حرم کو ٹھنڈے پسینے انے لگے اس کا سانس تیز تیز چلنے لگا نہ جانے وہ کون تھا جو اسے جانتا تھا اور اس کے نام اس طرح کی تحریریں لکھ لکھ کر بھیج رہا تھا ۔۔۔
حرم کو ایک بار پھر سے خوف محسوس ہوا ۔ گھر ۔۔گھر ۔ چلو ہمدان جلدی ۔۔۔
ہاں حرم جی بس گھر ہی جا رہے ہیں ۔۔
سب ٹھیک ہے ۔۔ہمدان نے اس کا چہرہ دیکھا ۔۔آپ پریشان لگ رہی ہیں ۔۔
نہیں کچھ نہیں بس جلدی سے گھر چلو ۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment