تیرے لیے
قسط نمبر 5
مصنفہ منال علی
حمدان اور حیا کے ایگزامز اب ختم ہو چکے تھے ۔۔۔
اور ایگزامز ختم ہونے کے لاسٹ ڈے شہزاد حمدان اور حرم کو لینے کے لیے ایا تھا کیونکہ وہ حیا کو ائس کریم کھلانے لے جا رہا تھا تو ساتھ ان دونوں کو بھی شامل کر کے ایک ٹرپ پلان کی۔۔
وہ چاروں گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ وقت کے بعد ائس کریم پارلر پہنچے سب نے اپنے اپنے فیورٹ فلیور کی ائس کریم ارڈر کی تھی ۔۔
ائس کریم شاپ کی سیٹنگ ایریا کی دوسری طرف حرم کو اس کی کچھ اسکول فرینڈز نظر ائیں ساتھ حیا بھی حرم کے ساتھ چلی گئی جب کہ حمدان اور شہزاد اس ائس کریم ایریا کے دوسرے طرف تھے ۔۔
دوسری طرف بہت ساری کرسیاں اور ٹیبلز لگی ہوئی تھی اور سامنے کا منظر انتہائی خوبصورت تھا ۔۔
سامنے بنے ہوئے بڑے بڑے گلاسز کے اوپر مصنوعی طریقے سے پانی کسی ابشار کی طرح بہہ رہا تھا ۔وہ دونوں اسی جگہ پر کھڑے ہو گئے ۔۔
شہزاد نے اپنی جیب میں سے کچھ نکالا ۔۔
جیب میں سے وہ جو نکال کر جلا رہا تھا ۔
ہمدان نے بے حد حیرانی سے گردن اٹھا کر اس کی طرف دیکھا وہ ائس کریم کھاتے کھاتے رک چکا تھا ۔۔
سگریٹ اب سگریٹ کب سے پینے لگے ہیں شہزاد بھائی ۔۔۔۔
شہزاد اس کی بات پر مسکرایا ۔بے فکر رہو یار بہت زیادہ نہیں پیتا بہت ہی کم پیتا ہوں ایک دو ۔اج بس دل کر رہا تھا اس وجہ سے ۔۔۔
مگر اپ تو سگریٹ بالکل نہیں پیتے تو پھر یہ ۔۔
کہا نا بس کبھی کبھی پی لیتا ہوں جب دوستوں کے ساتھ ہوتا ہوں اور تم میرے دوست ہی تو ہو اور میرے ہمراز بھی کیوں کیا نہیں ہو شہزاد نے سگریٹ جلا کر حمدان کی طرف دیکھا ۔۔۔
ہاں مگر یہ سگریٹ وغیرہ اچھی چیز تو نہیں ہے اپ کے لیے اپ تو میڈیکل فیلڈ میں ہیں پھر بھی ۔۔۔
کیوں بھائی یہ کہاں لکھا ہے کہ ایک ڈاکٹر سگریٹ نہیں پی سکتا ایسے کتنے ڈاکٹرز ہیں جو سگریٹ پیتے ہیں ۔اور ویسے بھی میں بہت کم ہی پیتا ہوں ۔۔
اور اگر کسی نے آپکو دیکھ لیا اپ کو تو ۔۔۔
تم مجھے ابھی پوری طرح سے جانتے نہیں ہو کچھ نہیں ہوتا کوئی نہیں دیکھے گا ۔۔
اچھا یہ بتاو اگلے دن تم کیا کر رہے ہو یاد ہے نا میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میری کار ریس ہے۔
تو ا رہے ہو نا پھر تم کل ۔؟؟
میں کوشش کروں گا پوری انے کی ۔۔۔
ٹھیک ہے تو پھر تم ایسا کرنا کہ میرے ہوسپیٹل آنا ہم ساتھ لنچ کریں گے اور پھر میں تمہیں خود ہی لے جاؤں گا ۔۔۔
ٹھیک ہے ایسا کر لیتے ہیں ۔۔
اور اگر ماں پوچھیں کہ میں کہاں جا رہا ہوں تو ۔۔
یار ۔۔۔
بہت ہی زیادہ والے تم گڈ بوائے ہو ۔۔
کہہ دینا کہ کسی کام سے کسی دوست کے گھر جا رہے ہو سمپل ۔۔یا یہ کہہ دینا کہ میرے ہاسپٹل میں ہو کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا ۔۔۔
دوسرا اپشن زیادہ بہتر ہے اپ پر تو میرے پیرنٹس کو اندھا اعتماد ہے ۔۔۔
ہونا بھی چاہیے یار ۔۔
تم سے ایک بات پوچھوں وہ دونوں آج لنچ کے لیے ایک ساتھ تھے ۔۔
جی جی شہزاد بھائی بالکل پوچھیں حمدان نے پاستہ اپنے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔
کوئی گرل فرینڈ نے تمہاری ؟؟
پسند کرتے ہو کسی کو ؟
وہ شہزاد کی بات پر زور سے ہنسا ۔۔
نہیں ۔۔
جھوٹ مت بولو ۔۔
حمدان پھر ہنسا ۔۔۔
میں جھوٹ نہیں کہہ رہا بلکہ سچ کہہ رہا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔
تو پھر تم ہنس کیوں رہے ہو ۔۔
میں کیوں ہنس رہا ہوں حمدان نے جیسے بیٹھے بیٹھے سوچا ایک لمحے کے لیے اس کی انکھوں کے اگے ایک خوبصورت سا چہرہ ایا وہ لڑکی اپنی سبز انکھوں سے مسکراتی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی ہنس رہا ہوں ۔۔۔
کوئی تو وجہ ہوگی ۔۔
نہیں کوئی وجہ نہیں ہے ۔۔۔
تم جھوٹ بول رہے ہو تمہارے منہ سے پتہ چل رہا ہے تم جس عمر میں ہو نا میں بہت سال پہلے ہی اس عمر سے نکل چکا ہوں ۔
اپ غلط سمجھ رہے ہیں شہزاد بھائی میں بس اپ کے سوال پہ ہنسا ہوں وجہ کوئی اور نہیں ہے ۔۔۔
اچھا چلو یہ بتاؤ کسی کو پسند کرتے ہو کوئی اچھا لگتا ہے تمہیں اس عمر میں تو کوئی نہ کوئی سب کو اچھا لگتا ہے یار ۔۔
اچھے تو بہت سارے لوگ لگتے ہیں لیکن اگر اپ کا اشارہ کسی لو افیئر کی طرف ہے تو ایسا کچھ نہیں ہے میری لائف میں ۔۔
تم حرم کو بہت پسند کرتے ہو نا ؟؟
شہزاد کی بات پر وہ اچانک سے رک کر اسے دیکھنے لگا ۔ ۔۔
میرا مطلب ظاہر ہے کیوں نہ کرو وہ اتنی اچھی ہے ۔۔اور تمہاری بہن بھی مجھے یقین ہے کہ تم مجھ سے تو چھپا رہے ہو مگر اس سے نہیں چھپاؤ گے جب بھی کچھ ایسا ہوگا۔۔۔
شہزاد نے حمدان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جیسے کچھ پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو ۔۔
حمدان کو وہ لفظ بڑی بری طرح سے اب چبنے لگا تھا وہ اس کی بہن نہیں تھی لیکن دنیا کی نظر میں وہ دونوں بہن بھائی ہی تھے جو بچپن سے ایک ساتھ پلے بڑے تھے ایک ہی گھر میں ایک ہی ماں باپ کے زیر سائے ۔۔۔
حرم جی میری بہن نہیں ہے میری کزن ہے ۔۔اور اس میں واقعی بڑی حقیقت ہے کہ میں انہیں بہت لائک کرتا ہوں جب بھی کچھ ایسا ہوگا میں تو سب سے پہلے حرم جی کے ساتھ شیئر کروں گا ۔۔
میں تم سے اس لیے پوچھ رہا تھا کیونکہ سامنے والی ٹیبل پر جو لڑکی بیٹھی ہے وہ مستقل تمہیں دیکھ رہی ہے ۔۔شہزاد نے شرارت سے کہا ۔۔
ہو سکتا ہے وہ اپ کو دیکھ رہی ہو ۔۔
نہیں اس کی نظریں تمہاری طرف ہیں ۔۔
حمدان نے گردن موڑ کر نہیں دیکھا ۔شہزاد اور حمدان دونوں ایک دوسرے کے امنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔۔
اپ اتنے ہینڈسم ہیں وہ یقینا اپ کو ہی دیکھ رہی ہے ۔۔
وہ لڑکی شاید میری ہم عمر ہے شہزاد نے جیسے اندازہ لگایا لیکن کیونکہ تم اپنی ہائٹ اور بوڈی کی وجہ سے بڑے لگتے ہو عمر میں تو ہو سکتا ہے وہ تمہیں بھی میرے جتنا ہی سمجھ رہی ہو ۔شہزاد نے مسکرا کر کہا ۔۔۔
ویسے میں تمہیں ایک مشورہ دوں ۔۔شہزاد نے حمدان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
اور وہ کیا ہے ۔۔۔
میڈیکل کمپلیٹ کرنے کے بعد سیاست میں ا جاؤ تم بھی ۔۔
کم از کم لڑکیاں تو تمہیں بھر بھر کے ووٹ دیں گی ۔۔۔
کچھ بھی وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسے ۔۔
وہ جس وقت شہزاد کے ساتھ اس ریس ٹریک پر پہنچا تو ہمدان کی تو جسے انکھیں ہی کھل گئی تھیں یہ ماحول اس کے لیے بہت ہی زیادہ نیا تھا وہ زندگی میں پہلی بار اس طریقے کا ماحول اس طریقے کا شور اور اس طریقے کی رونق دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
جس بھی جگہ کو ان لوگوں نے ریسنگ کے لیے سلیکٹ کیا تھا وہاں پر بڑی بڑی سٹریٹ لائٹس لگی ہوئی تھیں ۔اور اس جگہ کو اور زیادہ روشن کرنے کے لیے مزید لائٹیں لگا کر اس جگہ کو اور روشن اور خوبصورت بنایا گیا تھا ۔۔۔
لڑکو ں اور لڑکیوں کا ایک رش تھا وہاں ۔۔۔
قریب ہی لائن سے ایک شیڈ کے اندر سپورٹس کار اور بائکس کھڑی ہوئی تھیں ۔۔۔۔
ایک نیلی سپورٹ کار کے اوپر بڑا بڑا شہزاد شوکت بھی لکھا ہوا تھا ۔ جس ریسنگ ٹریک کو وہ استعمال کرنے والے تھے وہ صاف ستھرا اور لمبا چوڑا اور بہت روشن تھا ۔۔۔۔
لڑکوں کے ساتھ ساتھ ریس کرنے والی کچھ لڑکیاں بھی شامل تھیں ۔۔۔۔
اور ابھی وہ جس ریس کو دیکھ رہا تھا وہ دو لڑکیوں کے درمیان ہو رہی تھی ۔۔۔
حمدان یہ سب کچھ دیکھ کر حیران تھا ۔۔
اتنے میں شہزاد کے برابر میں کوئی لڑکا ا کر کھڑا ہوا ۔۔۔
شیری ۔۔۔۔ما ے فرینڈ ۔۔
لیو ۔۔۔۔۔
کیسے ہو وہ اب ایک دوسرے سے مل رہے تھے ۔۔۔
شیری اس بار کا پرائس پانچ لاکھ ہیں ۔۔اور یقینا تم ہی جیتنے والے ہو ۔۔۔
حمدان نے سامنے کھڑے ہوئے لڑکے کو غور سے دیکھا وہ بہت صحت مند تھا اس کی انکھوں کے اوپر ایک کٹ لگا ہوا تھا اس نے اپنے گلے میں شاید دو چینے پہنے ہوئی تھیں ۔۔
کوشش تو میری پوری ہے ۔۔۔شہزاد نے اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
یہ لڑکا کون ہے جسے تم اپنے ساتھ لے کر ائے ہو کیا یہ بھی ریس کرے گا ۔۔
اس لڑکے نے حمدان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
لیو ایک کرسچن لڑکا تھا ۔۔وہ کار ا ور بائیک ریس کروانے کا ماہر تھا ۔۔۔
نہیں یہ میرا دوست ہے یہ مجھے سپورٹ کرنے کے لیے ایا ہے ۔اور تم دیکھنا انے والے کچھ سالوں کے بعد یہ اس ٹریک پر مجھ سے بھی زیادہ ریسز جیتے گا جس طرح کار ز اور بائیک کا مجھے کریز ہے نا بالکل اسی طرح سے حمدان کو بھی کارز اور بائک کا شاید مجھ سے کہیں زیادہ کریز ہے ۔۔
حمدان خاموش رہا وہ اس وقت کچھ نہیں بولنا چاہتا تھا ۔۔۔
کیوں ہمدان کچھ سالوں کے بعد کرو گے نا میرے ساتھ ریس ۔۔۔۔
میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔بابا کو یہ سب کچھ پسند نہیں ۔۔۔
یہ تمہاری اور میری بات ہے صرف کوئی اور اس کے اندر انوالو نہیں ہوگا ۔۔
اور اب تم ہمیشہ میرے ساتھ یہاں ایا کرو گے ۔اج کار ریس ہے اور اس کے ایک ہفتے کے بعد بائک ریس اور مجھے اس بات پر یقین ہے کہ وہ تم ہی ہو جو مجھے ہرا سکتے ہو ۔۔۔
اگر اپ کو مجھ سے ہارنے کا شوق ہے تو پھر ٹھیک ہے دیکھتے ہیں حمدان نے کندھے ہو ا چکا ے ۔۔۔
تھوڑی دیر کے بعد ٹریک بالکل ریڈی تھا دو لڑکیاں امنے سامنے اپنی پوزیشن لیے کھڑی تھی وہ تھوڑی دیر کے بعد فلیگ ہلانے والی تھی تب تک کار میں بیٹھے ہوئے دونوں لڑکوں شہزاد اور رافع نے اپنی اپنی پوزیشن سنبھال لی تھی وہ دونوں بالکل ریڈی تھے ۔۔
ون ۔۔۔۔
ٹو۔۔۔
تھری۔۔۔۔۔۔
گو ۔۔۔۔۔
لیو نے جیسے ہی فائر کیا وہ دونوں گاڑیاں تیزی سے ریس ٹریک کے اوپر دوڑنے لگی ۔۔ان دو گاڑیوں کی سپیڈ اتنی تیز تھی کہ ہمدان نے حیرانی سے ان دونوں کارز کو دیکھا وہ دونوں بہت ہی زیادہ پروفیشنل لگ رہے تھے ۔۔۔
اگے کا ٹرینڈ بہت زیادہ ہارٹ تھا ۔۔نمبر تھری والے ٹریک کے اوپر بڑے بڑے ڈرمز رکھے گئے تھے اور ان ڈرمز کو ہٹ کر کے وہ ہارٹ ٹریک پار کرنا تھا وہ ایک انتہائی مشکل ٹریک تھا ۔۔شہزاد نے اپنی نظریں ان ڈرمز کے اوپر گاڑی اور پھر زور سے ایکسکلریٹر کے اوپر پاؤں دبایا اور پھر تیزی سے ان ڈرمز کو پار کرتا ہوا وہ اگے کی طرف بڑھ گیا ان میں سے ایک ڈرم کے اندر پانی بھرا ہوا تھا اور گاڑی تیزی سے ہٹ کرنے کی صورت میں وہ پانی چھینٹوں کی صورت میں اڑتا ہوا سٹریٹ لائٹ کے ساتھ وہ ایک بڑا ہی حسین منظر دے رہا تھا اور اس اڑتے ہوئے پانی کی چھینٹوں سے شہزاد کی نیلے رنگ کی سپورٹ کار تیزی سے واپس اتے ہوئے نظر ائی جبکہ شہزاد کے تھوڑا سا پیچھے رافع کی کار تھی دونوں نے ایک بار پھر سے اپنی اپنی بھرپور کوشش کی لیکن شہزاد جیت چکا تھا وہ ریڈ لائن رافع سے پہلے پار کر چکا تھا اس نے جیسے ہی ریڈ لائن پار کی تالیوں کا شور ہر طرف گونج اٹھا تھا یقینا یہاں پہ شہزاد کو کافی سارے لوگ جانتے تھے تیز تیز میوزک ہر جگہ بج رہا تھا حمدان نے بڑی غور سے یہ منظر دیکھا جبکہ شہزاد اس کی طرف بڑھ رہا تھا بہت بہت مبارک ہو ہمدان نے کہتے کہ ساتھ ہی شہزاد کو اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔۔
حرم کے میڈیکل کالج کے تیسرے سال کے امتحانات مکمل ہو چکے تھے اور کچھ عرصے کے بعد اس کا رزلٹ بھی ا گیا تھا جس میں ہمیشہ کی طرح اس نے بہت اچھے نمبرز حاصل کیے تھے ۔۔۔۔
ہمدان اب میڈیکل کالج میں تھا اور یہ ہمدان کے میڈیکل کالج کا پہلا سال تھا ۔۔
حرم اب میڈیکل کالج کے چوتھے سال میں تھی جبکہ حمدان اس سے تین سال پیچھے تھا ۔۔وہ میڈیکل کے فرسٹ ایئر میں تھا اور حرم فورتھ ایئر میں ۔۔حمدان کا کالج وہی تھا جو شہزاد کا تھا ۔۔
اسی دوران کچھ ملنے والی چھٹیوں کے دوران ہمدان اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان ٹور پر گیا ۔۔
جبکہ حرم کی یونیورسٹی میں اس پورے ویک فنکشنز تھے ۔۔
اور حرم نے ہمیشہ کی طرح پارٹیسپیٹ کیا تھا ۔۔
وہ ہمیشہ ہی ایسے مقابلوں میں جب جب پارٹیسپیٹ کرتی تھی تو وہ ان میں لازمی اول اتی تھی اور جب وہ تقریر کرتی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھتا تھا اس کی اواز اس کا لہجہ اتنا مضبوط ہوتا کہ لوگ خاموشی سے بیٹھ کے اس کی تقریر کو بڑے ہی مزے سے سنتے تھے اور جب وہ خاموش ہوتی تو ہال میں ایسی تالیاں بجتی کے مریم اور سکندر کا سر فخر سے بلند ہو جاتا اسکول سے کالج تک اور کالج سے میڈیکل تک وہ ہمیشہ ایسے مقابلوں میں حصہ لیتی رہی تھی اور ہمدان اس کا سب سے بڑا سپورٹر تھا ۔۔۔
اج بھی وہ اپنی یونیورسٹی میں اساتذہ کرام کے بارے میں ایک طاقتور تقریر کر رہی تھی ۔حرم نے اس وقت سفید کامدار فراک کے اوپر انتہائی خوبصورت سرخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا ۔۔
ہمیشہ کی طرح وہ اس سرخ اور سفید لباس میں انتہائی حسین لگ رہی تھی ۔۔۔
شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو اسے مڑ کر نہ دیکھے ۔۔
وہ اپنی میڈیکل یونیورسٹی میں بہت اچھے اور جانے مانے سٹوڈنٹس میں سے ایک تھی جنہیں بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا اور وہ بچے جو اگے رہتے تھے اس میں ایک نام حرم منصور کا بھی تھا ۔۔
اس کے لیے سب کچھ نیا نہیں تھا وہ بچپن سے ہی اس طرح کی تعریفیں سمیٹتی ائی تھی اور سب کی محبتوں کو اپنی جھولی میں بھرتی ائی تھی ۔۔۔
تقریر کے اختتام پر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی ۔۔
تقریر ختم ہونے کے بعد سکندر اور مریم دونوں گھر واپس چلے گئے تھے جبکہ حرم کی یونیورسٹی ابھی جاری تھی کیونکہ سکندر صاحب کو ایک بہت ضروری کام سے دوبارہ افس جانا تھا اور مریم کو فاؤنڈیشن جبکہ ہمدان نے حرم کی اسپیچ مریم کی موبائل پر ان لائن دیکھی تھی اور وہیں سے کلیپ کر کے اس کی خوشی میں شامل ہوا تھا ۔۔۔۔۔
_________________________
سر پلیز ۔۔
پلیز سر میں۔ میں مرنا نہیں چاہتا پلیز سر ایسا نہیں کریں میرے ساتھ میں آپ سے معافی مانگتا ہوں پلیز سر معاف کر دیں میں آئندہ کبھی لڑکیوں اور بچیوں کی جانب دیکھوں گا بھی نہیں ۔۔۔
میری ایک چھوٹی سی بیٹی ہے۔۔
میری چھوٹی سی بیٹی کے لیے مجھے ایک بار معاف کر دیں سر میں وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی میں دوبارہ یہ غلطی کبھی نہیں کروں گا ۔۔
میں بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں کہ تمہاری ایک چھوٹی بیٹی ہے اور میں اسی بیٹی کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہوں کہ تم جیسے گندے اور گھٹیا ادمی کا سایہ بھی اس بچی کے اوپر نہ پڑے تم خود ایک بچی کے باپ ہو اور تمہیں اس قسم کی گھٹیا حرکتیں کرتے ہوئے شرم نہیں اتی ۔۔
تم معافی کے قابل نہیں ہو تم نے جو گناہ کیا ہے اس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی ۔۔اٹھ سال۔ اٹھ سال کی ہے نا تمہاری بیٹی ۔۔
تم نے اس سے پہلے بھی کہیں لڑکیوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہے پہلے تم نے ایک معصوم سات سال کی بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا اور پھر اسے مار کر گٹر میں پھینک دیا ۔
اور تم ہی وہی تھے جس نے اپنے ہی گھر کی ملازمہ کو جو 20 سال کی تھی تم نے اسے بھی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اس کی تصویروں کو استعمال کرتے ہوئے تم پورا سال اسے بلیک میل کرتے رہے اور اپنے مطلب کے لیے اس بیچاری لڑکی کو استعمال کرتے رہے اور اخر کار اس لڑکی نے تم سے تنگ ا کر خود کشی کر لی ۔۔۔
تم وہی کمینے انسان ہو جس نے اپنی ہی بیٹی کی عمر کی بچی کے ساتھ یہ حرکت کی مگر تم اسے جان سے نہیں مار پائے کیونکہ تمہارے انجام کا وقت ا پہنچا تھا ۔۔۔
تمہاری سزا صرف اور صرف موت ہے اور تم مروگے ۔۔
غلطی کرنے والے کو شاہ میر شیراز ایک بار معاف ضرور کر دیتا ہے مگر بار بار گناہ کرنے والے کو ہرگز نہیں ۔۔۔
وہ ادمی مستقل تیز تیز اپنے پاؤں چھت کی دیوار پر مار رہا تھا اس ادمی کے دونوں پاؤں بلڈنگ کی چھت سے باہر کو لٹکے ہوئے تھے اور ہاتھ دو ادمیوں نے پکڑ رکھے تھے ۔۔وہ بلڈنگ کے نیچے لٹکتے ہوئے اپنی موت اسانی سے دیکھ سکتا تھا ۔۔
ہاتھ چھوڑ دو اس کے یہ اسی کے قابل ہے ۔۔۔
نہیں نہیں سر پلیز ۔۔۔شاہ میر شیراز کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ ان دونوں ادمیوں نے اس گنہگار ادمی کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔۔
منور۔۔۔شاہ میر شیراز نے گردن گھما کر اپنے برابر میں کھڑے ہوئے ادمی کو پکارا ۔۔۔۔
تم جانتے ہو اچھی طرح تمہیں اب اگے کیا کرنا ہے ۔۔۔
منور جو کہ خود ایک پولیس افیسر تھا اس نے تیزی سے سر ہلایا اپ بالکل بے فکر رہیں یہ غلیظ ادمی اس دنیا سے ایسے غائب ہو جائے گا جیسے کبھی اس کا وجود تھا ہی نہیں اور اس کی فیملی کو ہم سپورٹ کریں گے اس کی بیوی اور بچی کے بارے میں ساری انفارمیشن میں نے پہلے ہی نکال دی ہے وہ اپ کو اپ کی ٹیبل پر مل جائے گی ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔
یاد رکھو شاہ میر شیراز غلطی کرنے والے کو تو معاف کر سکتا ہوں مگر گناہ کرنے والے کو نہیں اور وہ گناہ جو کسی کی زندگی تباہ کر دے اور اس منہوس انسان نے وہ گناہ ایک نہیں نہ جانے کتنی بار اور کتنی لڑکیوں کے ساتھ کیا ہے اور ان کی زندگی تباہ و برباد کی ہے ۔۔میں ہر اس گھٹیا شخص کے ساتھ ایسے ہی پیش اؤں گا جو یہ حرکت کرے گا ۔۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment