تیرے لیے
قسط نمبر چار
مصنفہ منال علی
حرم یہ چاول کی ٹرے اٹھا کے دینا ۔۔
شہزاد نے حرم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
حرم نے چاول کی ٹرے اٹھا کر شہزاد کی طرف بڑھائی ۔
کچھ وقت کے بعد شہزاد نے حرم کو دوبارہ پکارا اور اس سے پانی کا گلاس مانگا ۔اس بار ہمدان نے گلاس اٹھا کر خود شہزاد کو دے دیا ۔۔۔
پتہ نہیں کیوں حمدان کو اچھا نہیں لگتا تھا کہ ہمدان کے علاوہ کوئی اور اس کا نام لے ۔حمدان کو یہ چیز سخت بری لگتی تھی کہ وہ اس کے بجائے کسی اور کے کام کرے شاید وہ حرم کے لیے بہت زیادہ پوزیسو تھا ۔۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ شہزاد کو پسند نہیں کرتا تھا بلکہ حمدان اور شہزاد دونوں ہی ایک دوسرے کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے حمدان کا کوئی بھائی بہن نہیں تھا لہذا اس نے شہزاد کو ہی ہمیشہ اپنا بڑا بھائی مانا تھا اور شہزاد نے اسے ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی ان دونوں کے درمیان بہت دوستی اور محبت تھی جبکہ ان دونوں کے درمیان عمر کا کافی فرق تھا ۔۔
کسی نہ کسی جگہ پہ ہمدان یہ سمجھتا تھا کہ شہزاد ایک پرفیکٹ مین ہے اس کے اندر کسی چیز کی کوئی کمی نہیں وہ ہینڈسم ہے شاندار ہے عقلمند ہے کامیاب ہے کبھی کبھار یا اکثر اسے لگتا کہ اسے کچھ نہ کچھ شہزاد سے ضرور سیکھنا چاہیے اور وہ سیکھتا بھی تھا ۔۔
شہزاد ایک نیورولوجسٹ تھا ۔۔
جبکہ حرم ایک بہت بہترین ہارٹ اسپیشلسٹ بننا چاہتی تھی ۔۔
ہمدان کو بھی نیورولو جسٹ بننے میں بڑا انٹرسٹ تھا وہ طے کر کے بیٹھا تھا کہ حرم دل کی ڈاکٹر بنے گی اور وہ دماغ کا ۔۔۔
اور شہزاد ڈنر کے دوران بار بار جس لڑکی کو پکار رہا تھا وہ لڑکی شہزاد کے مطابق بالکل اس کے ٹکر کی تھی ۔۔
ایک خوف سا اسے محسوس ہوا ایک لمحے کے لیے اس نے دونوں کو دیکھا اسے ایک بار پھر خوف محسوس ہوا ۔۔۔۔
حمدان کے اندر ایک ہی شاید خراب عادت تھی وہ اپنی بے حد پسندیدہ چیزیں حرم کے علاوہ کسی اور کے ساتھ شیئر کرنا پسند نہیں کرتا تھا ۔۔اور جب بات حرم منصور کی ہو تو حرم منصور کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا شیئر کرنا بات کرنا یا حرم کے اندر کسی اور کی دلچسپی دیکھنا یا حرم کو کوئی اور پسند کر لے ان سب باتوں سے اسے خوف محسوس ہوتا تھا جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جا رہا تھا یہ خوف دن بدن بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔۔۔۔
جبکہ حمدان اور حیا دونوں کلاس فیلو تھے اور بچپن سے ہی ایک ساتھ پڑھ رہے تھے حیا نے حمدان کے اندر دلچسپی لینا شروع کی اور حمدان کے اندر وہ دلچسپی کیوں نہ لیتی وہ ایک انتہائی عمدہ لڑکا تھا ۔۔حیا اکثر ہمدان سے کلاس میں بات کرنے کے بہانے ڈھونڈا کرتی تھی اور اسے اس چیز کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی تھی کیونکہ وہ دونوں پہلے سے ہی دوست تھے ۔۔لیکن ہمدان ہر چیز کے اندر ایک لیمٹ رکھتا تھا اور اس نے اس دوستی کے اندر بھی ایک لمٹ رکھی تھی ۔۔۔
رات کھانے کے بعد وہ چاروں باہر لان ایریا میں اگئے جبکہ بڑے لوگ اندر ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔
وہ چاروں کوئی گیم لگا رہے تھے ۔۔لوڈو کی گوٹیاں سیٹ کرنے کے بعد وہ چاروں اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔۔
حرم کے برابر میں ہمیشہ کی طرح ہمدان تھا ۔۔
اور جب جب حرم کی گود پٹنے کے اوپر اتی تو ہمدان کہیں نہ کہیں سے اسے بچا لیتا ۔۔۔
یہ تم نے کیا کیا حمدان حرم کی بالکل پکی گوٹ وہ گھر کے اندر جانے والی تھی تم نے اس کو کیوں نہیں مارا ۔۔۔۔
چار سے حرم کی گول پٹ رہی تھی لیکن حمدان نے چار سے اپنی گوٹ کہیں اور چل دی اس نے حرم کی گوٹ کو پیٹا نہیں تھا ۔۔
اب دیکھنا یہ پورا گیم جیت جائے گی کتنا اچھا چانس تھا تمہارے پاس لیکن تم نے اپنی بہن کو بچا لیا بہت تیز ہو تم ۔۔۔
حیا نے فورا کہا ۔ ۔۔۔
حمدان کو حیا کے منہ سے ایک لفظ بہت ہی برا لگا تھا لیکن وہ خاموش رہا اور اس نے مسکرا کر اگے کی باری چلی ۔۔۔
اصل میں میں نے دیکھا نہیں تھا اس وجہ سے ۔۔
ہمدان نے جھوٹ کہا جب کہ حرم نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔حرم کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔
حرم اپنی باری پر تیزی سے وہ گوٹ اندر لے گئی ۔۔
یہ تم دونوں بہن بھائی اپس میں ملے ہوئے ہو ۔۔شہزاد نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہم دونوں تو ہمیشہ سے ہی ملے ہوئے ہیں شہزاد بھائی ۔حمدان نے شہزاد کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
لیکن یہ غلط ہے تم بار بار اپنی بہن کا سائیڈ لے رہے ہو ۔۔
کیونکہ مجھے حرم جی کا سائیڈ لینا اچھا لگتا ہے ۔۔
کیونکہ یہ میری فرسٹ کزن جو ہیں اور ساتھ ہی ساتھ میری بیسٹ فرینڈ بھی سائیڈ لینا تو بنتا ہے اور میں ہمیشہ ہی لیتا رہوں گا چاہے گیم ہو یا پھر زندگی کا کوئی اور پہلو میں ہمیشہ ساتھ رہوں گا ان کے ۔۔۔۔
چلو یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔
شہزاد نے حمدان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جب کہ ہمدان بھی شہزاد کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔
میں تو جیت گئی ہوں ۔ ۔۔
اب میں اور حیا ہم سب کے لیے ائس کریم لینے جا رہے ہیں ۔۔
وہ دونوں اٹھ کر کچن میں چلی گئی جبکہ ہمدان اور شہزاد اب دونوں اکیلے تھے ۔
اگلے ہفتے سے تمہارے پیپر شروع ہیں ۔۔
جی اگلے ہفتے سے پیپرز ہیں ہمارے ۔
اسکول ختم ہو جائے گا پھر انشاءاللہ کالج میں ایڈمیشن لوں گا ۔۔۔۔
جس کالج سے میں نے پڑھا ہے وہ میڈیکل کے لحاظ سے بہت ہی بہترین ہے تم بھی وہیں ٹرائی کرو اور تم اتنا شاندار پڑھتے ہو تمہیں تو منٹو ں میں ایڈمشن ملے گا وہاں ۔۔
جی شہزاد بھائی بابا بھی یہی کہہ رہے تھے ان کو بھی وہ کالج بہت پسند ہے اور میں نے پہلے ہی ڈیسائیڈ کیا ہوا ہے کہ مجھے نیورولوجسٹ بننا ہے تو کہیں اور جانے کا تو سوال ہی نہیں ۔۔
تمہیں ایک بات بتاؤں ۔۔۔شہزاد ذرا اس کے قریب ہوا ۔۔۔
کیا۔۔۔۔
پرسوں میری ایک کار ریس ہے ۔۔
اور جس دن تم لوگوں کے ایگزامز ختم ہو رہے ہیں اس کے اگلے دن میری ایک بائک ریس ہے ۔۔
حمدان نے تیزی سے شہزاد کی طرف دیکھا ۔۔
کیا مطلب اپ ریس کرتے ہیں؟؟؟
میرے لیے تو یہ بہت نئی چیز ہے اپ نے کبھی بتایا ہی نہیں ۔۔
ہاں میں جانتا ہوں کیونکہ یہ میری پرائیویٹ چیز ہے اس وجہ سے ۔۔
تو اپ اپنی پرائیویٹ چیز مجھے کیوں بتا رہے ہیں ۔۔۔
کیونکہ میں تم پہ بھروسہ کرتا ہوں اور تمہیں پسند بھی کرتا ہوں اس لیے ۔۔۔
میں جانتا ہوں کہ اپ ڈرائیونگ بہت اچھی کرتے ہیں بٹ ریس یہ تو بہت انٹرسٹنگ لگ رہا ہے مجھے اپ کے بارے میں جاننا ۔۔
اور بھی زیادہ انٹرسٹنگ لگے گا جب تم وہاں اؤ گے اور مجھے دیکھو گے ۔۔۔
تو کیا تم ا رہے ہو ۔؟؟؟
میں کوشش کروں گا انے کی ۔۔
کیا میرے علاوہ یہ بات ۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا ہمدان ۔
میں نے یہ صرف اور صرف تمہارے ساتھ شیئر کی ہے یہ بات تو پاپا بھی نہیں جانتے کہ میں ریس کرتا ہوں ۔۔۔۔
اور تم سے شیئر کرنے سے مراد یہ ہے کہ تم اس چیز کو سیکرٹ ہی رکھو گے ۔۔اور اگر تم فیوچر میں کبھی ریس کرنا چاہو تو میرے ساتھ بالکل کر سکتے ہو کیونکہ میں جانتا ہوں تمہیں کارز کا کس حد تک شوق ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم مجھے ہرا سکتے ہو ۔۔۔
لیکن اس کے لیے تمہیں کچھ سال محنت کرنی پڑے گی ۔۔۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اپ مجھے ہی کیوں بتا رہے ہیں یہ سب کچھ ۔۔۔
شہزاد کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے مسکراہٹ ائی ۔۔
سچ بتاؤں تو مجھے لگتا ہے کہ تم میری ٹکر کے ہو شہزاد نے محبت سے اس کے کندھوں کو چھوا۔ کیونکہ تم مجھے بالکل میری طرح لگتے ہو ہم بھائی نہیں ہیں لیکن میں تمہیں واقعی بہت پسند کرتا ہوں ۔۔
اور تم دیکھنا اگے چل کے ہم اور زیادہ مضبوط ہو جائیں گے ۔جب وقت ائے گا تو میں مزید تمہیں کچھ اور بتاؤں گا ۔
مجھے خوشی ہے کہ اپ مجھ پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔۔
کیونکہ تم بھروسہ کرنے کے قابل ہو ۔۔
ٹھیک ہے میں اؤں گا ۔۔
لیکن میری ایک شرط ہے شہزاد بھائی ۔۔
ایک کیوں دو بتاؤ ۔۔
اج ایک ہی ہے ۔۔
اور وہ یہ کہ جس علاقے سے اپ انتخابات لڑیں گے اس علاقے کے لوگوں کے لیے اپ کام کریں گے اور ان سے جھوٹے وعدے نہیں کریں گے ۔۔
ایسا ہی ہوگا ۔۔بس تم مجھ پر بھروسہ رکھو ۔۔وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے ۔۔۔
حمدان ۔۔۔۔
تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم نے اپنے کمرے کا کیا حال کیا ہوا ہے کتنے بڑے ہو گئے ہو تم مگر حرکتیں تمہاری بالکل بچوں جیسی ہیں ۔۔
شکر آپ آگئی میں کب سے آپ کا انتظار کر رہا تھا ۔۔اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے حمدان نے حرم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
وہ اس وقت سفید ٹی شرٹ کے نیچے نیلی جینز پہنا ہوا تھا ۔۔
اسکا اسٹڈی ٹیبل الگ الگ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ خود کوئی پریکٹیکل جرنل بنانے میں مصروف تھا ۔۔
تمہارا یہ گندا سا کمرہ صاف کرتے کرتے میں تھک گئی ہوں ۔۔ائندہ میں نہیں کروں گی ۔۔
آپ ہر بار یہی کہتی ہیں
" حرم جی " لیکن پھر کر دیتی ہیں وہ مسکرا کر حرم کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔
حرم نے گردن موڑ کر اسے غصے سے دیکھا ۔
لیکن پھر بھی تمہارے اندر شرم نہیں جاگتی ۔۔وہ اسے مستقل شرم دلانے کی کوشش کرتی رہی ۔تھوڑی دیر بعد وہ اس کا کمرہ صاف کر کے اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔
یقینا تمہیں مزید کوئی اور کام بھی ہوگا حرم نے اس کے پریکٹیکل جرنل کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا ۔۔
حمدان نے مسکرا کر ایک بار پریکٹیکل جرنل کو دیکھا اور ایک نظر حرم کو ۔۔پھر کہنے لگا ۔۔اپ تو جانتی ہیں مجھے یہ بنانے نہیں آتے ۔۔۔
آتا تو تم کو سب کچھ ہے بس تم نے صرف بیوقوف بنانا ہے مجھے وہ تپ کر بولی ۔۔
ایسا نہیں ہے ایک میڈیکل پڑھنے والی لڑکی کو میں کیسے بے وقوف بنا سکتا ہوں ۔۔۔
میں تمہیں بتا رہی ہوں اگے جا کے میں تمہاری کوئی اور ڈائیگرام نہیں بناؤں گی تم خود سے بناؤ ۔۔
جب تک میں میڈیکل کالج میں نہیں جاتا تب تک اپ ہی بنا دیا کریں وہ بڑے مزے سے بولا تو حرم نے ایک تھپڑ اس کے کندھے پر لگایا ۔۔۔
ایک شرط پہ بناؤں گی ڈائگرام وہ بھی حرم تھی اپنے نام کی ایک ۔
میں اپ کو مزید بک اسٹور سے کتابیں نہیں لا کر دے سکتا بڑا ہی مشکل کام ہے یہ ۔۔حمدان نے فورا اندازہ لگایا کہ اس کی شرط کیا ہو سکتی ہے ۔۔۔
ارے نہیں ۔۔۔کتابیں تو میں نے تم سے پہلے بھی منگوائی تھی ابھی کچھ اور ہے ۔۔۔
وہ کیا ۔۔۔حمدان نے ذرا چھوٹی انکھیں کر کے اسے دیکھا ۔۔۔
تم مجھے ایک پیزا کھلاؤ گے اور ایک زنگر برگر بھی ۔جب تک میں تمہارا کام کر رہی ہوں تب تک تم فورا سے اٹھو اور جا کے ارڈر کرو مجھے بھوک لگ رہی ہے ۔۔
جو حکم ابھی کرتا ہوں ۔۔
ویسے حرم جی اپ کتنا بھی جنگ فوڈ کھا لیں موٹی کیوں نہیں ہوتی ۔۔
ارے یہ تو اللہ کی طرف سے انعام ہے میرے لیے میں بڑی خوش ہوں اس چیز سے ۔۔
لیکن میں خوش نہیں ہوں کیونکہ مجھے جنگ فوڈ کھانے کے بعد ڈبل جم کرنا پڑتا ہے ۔۔
ہاں میں جانتی ہوں مگر میں کیا کروں اگر تم میری طرح لکی نہیں ہو تو وہ اسے دیکھتے ہوئے ہنس پڑی ۔۔۔
حمدان آرڈر کر کے اب اس کے پاس بیٹھ گیا تھا ۔وہ اپنے کام میں مصروف تھی ۔چلو ایک تو بن گی اب دوسری بناتی ہوں ۔۔کہتے کے ساتھ ہی حرم نے اپنے سارے بالو ں کو سمیٹ کر جوڑا بننا شروع کیا ۔۔
حمدان بس اسے دیکھنے لگا ۔وہ اس کی ایک ایک حر کت کو بڑی دلچسپی سےدیکھ رہا تھا ۔۔
اس کے ہاتھوں کی حرکت اسکے لمبے بال جنہیں وہ لپیٹ رہی تھی اس کے کان میں موجود سفید موتی والے ایئر رنگز جب وہ بال ان ایرنگز کے اوپر لگتے تھے تو وہ حرکت کرتے ہوئے بہت خوبصورت لگتے تھے ۔۔حمدان کے لئے جیسے وہ دنیا کا بہت خوبصورت نظارہ ہو ۔۔وہ اسے بس دیکھتا ہی رہا ۔۔۔وہ اسے بس دیکھ ہی تو سکتا تھا ۔۔۔
اور وہ بس اپنے بال سمیٹتی رہی۔۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment