تیرے لئے
قسط نمبر 3
مصنفہ منال علی
سکول میں ہونے والی بلال اور ہمدان کی لڑائی کے بعد حرم نے اس دن حمدان سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی تھی ایسا نہیں تھا کہ وہ حمدان سے بہت ناراض تھی لیکن پتہ نہیں کیا وجہ تھی کہ وہ حمدان سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کر پائی اج اس نے حمدان کے جس انداز کو دیکھا تھا اسے وہ نہیں جانتی تھی وہ جس حمدان کے ساتھ رہی تھی بڑی ہو رہی تھی وہ تو بہت ہی مینرز والا اور تمیزدار لڑکا تھا لڑائی جھگڑوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔۔اسکول سے انے کے بعد حرم اپنے کمرے میں ہی رہی تھی ۔۔حمدان بلال کو اتنی بری طریقے سے مار سکتا ہے یہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور اگر اج ٹیچر وقت پر نہ اتی تو نہ جانے وہ اس کے ساتھ کیا کرتا۔۔۔
یہ اتنا غصہ اس کے اندر کہاں سے ا گیا وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی مستقل اج ہونے والے واقعے کو سوچتی رہی ۔۔
ایک لمحے کے لیے اس کا دل چاہا کہ وہ حمدان کے پاس جائے اور اس سے بات کریں کہ وہ ائندہ اس قسم کی حرکت کبھی نہیں کرے گا ۔۔لیکن دوسری طرف اس وقت اس سے بات کرنا صحیح نہیں تھا وہ اس وقت بھی غصے میں تھا وہ اس کی کوئی بات نہیں سمجھتا ۔۔۔۔
اگلا دن ہفتے کا تھا اور ہفتے اتوار ان دونوں کے ا سکول کی چھٹی ہوتی تھی ۔
شام کا وقت تھا جب حرم باہر گارڈن ایریا کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اس کے پاؤں سوئمنگ پول کے اندر ڈوبے ہوئے تھے اور وہ سامنے لگے ہوئے درختوں کو دیکھ رہی تھی جہاں سے پرندوں کے چہچانے کی اواز ارہی تھی ۔۔۔اتنے میں کوئی ا کر اس کے برابر میں بیٹھا اس نے گردن موڑ کر نہیں دیکھا کہ کون ہے وہ جانتی تھی کہ وہ حمدان ہوگا ۔وہ کچھ نہیں بولتی بس خاموشی سے یوں ہی بیٹھی ہوئی ان پرندوں کو دیکھتی رہی ۔۔۔
ائی ایم سوری ۔۔
وہ اب اس کے برابر میں بیٹھا اپنے پاؤں بھی پول کے اندر ڈال چکا تھا ۔۔۔
حرم کچھ نہیں بولی ۔۔
ائی ایم سوری ۔۔ہمدان نے ایک بار پھر سے معذرت کی ۔۔۔
حرم جی ۔۔۔۔
اپ مجھ سے کیوں نہیں بات کر رہی ۔چاہیں تو مجھے ڈانٹ لیں تھپڑ لگا دیں لیکن یوں خاموش مت بیٹھی رہیں کل سے اپ نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی ہے جبکہ میری کوئی غلطی بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی مجھے معاف کر دیں حرم جی ۔۔
حرم جی ۔۔۔۔اس نے ایک بار پھر حرم کو پکارا ۔ ۔۔
بات کریں نا مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی ہیں ۔۔۔
کیا بات کر میں تم سے حمدان کیا بات کروں ۔۔جس حمدان کو میں نے اس دن دیکھا میں اس حمدان کو نہیں جانتی میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم ا سے اتنا برا مار سکتے ہو ۔اور یہ غصہ یہ غصہ تمہارے اندر کہاں سے اگیا تم تو بالکل بھی غصہ کرنے والے نہیں ہو ۔۔
اپ خوامخواہ مجھ سے بات نہیں کر رہی جبکہ میری کوئی غلطی نہیں اس لڑکے کی غلطی تھی اور میں اس چیز کے اوپر بالکل بھی شرمندہ نہیں ہوں لیکن پھر بھی میں صرف اور صرف اپ کے لیے اس لڑکے کو معاف کر رہا ہوں ورنہ میں اس لڑکے کو چھوڑوں گا نہیں میں نے تو طے کیا ہوا تھا کے بعد میں اگر وہ مجھے ملا تو میں اسے اور ماروں گا ۔۔۔۔
حمدان کی بات پر حرم نے تیزی سے گردن موڑ کر اسے غصے سے دیکھا ۔۔۔
پاگل ہو گئے ہو تم دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا ۔۔۔
وہ بات اب ختم ہو چکی ہے حمدان اب میں تمہارے منہ سے اس لڑکے کا نام نہ سنو اور نہ یہ بکواس کہ تم اس کو دوبارہ سے مارو گے ۔۔۔
میرا بس چلے تو میں اسے جان سے مار دو ۔۔۔۔
حرم ایک لمحے کیلئے اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔
مجھے تم سے بات ہی نہیں کرنی ۔۔وہ تیزی سے اٹھ کر وہاں سے جانے لگی ۔۔
کہ ہمدان نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا ۔۔
پلیز حرم جی جائیں مت۔۔۔
اپ خوامخواہ اس لڑکے کو بجا رہی ہیں ۔۔۔
میں اس لڑکے کو نہیں بلکہ میں تمہیں بچا رہی ہوں حمدان میں نہیں چاہتی کہ تم ان جیسے لوگوں کی وجہ سے اپنے اپ کو خراب کرو مجھے صرف اور صرف تمہاری پرواہ ہے اس لڑکے کی نہیں ۔۔۔
اچھا اپ بیٹھیں تو صحیح ۔جائیں مت حمدان کے اصرار پہ وہ ایک بار پھر اس کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔
وعدہ کرو مجھ سے کہ ائندہ تم یہ حرکت کبھی نہیں کرو گے وعدہ کرو مجھ سے حمدان وہ اس کو سوچ میں پڑا ہوا دیکھ کر دوبارہ سے کہنے لگی ۔۔۔
میں وعدہ نہیں کر سکتا حرم جی ۔۔۔
کیوں نہیں کر سکتے ۔۔۔۔
بس نہیں کر سکتا ۔۔
پر کیوں ۔۔
کوئی اپ کو پریشان کرے اپ کو تنگ کرے مجھے یہ چیز برداشت نہیں ۔۔۔
وہ بہت ہی صاف گوئی سے بول گیا کوئی اپ کو کچھ بھی کہے کوئی اپ کو ٹچ کرے مجھے نہیں پسند ۔۔
حمدان میں نے کہا مجھ سے وعدہ کرو کہ ائندہ تم اس قسم کی حرکت نہیں کرو گے۔ تم نہیں ہو اس طرح کے میں جانتی ہوں تمہیں ۔۔۔۔
مجھے پتا ہے میں اس طرح کا نہیں ہوں لیکن میں یہ جان چکا ہوں کہ میں اپنی اس عادت کے اوپر کنٹرول نہیں کر سکتا اور خاص طور پر جب اپ کی بات ہو کوئی اپ کو پریشان کرے اپ کو تکلیف پہنچائے تنگ کرے میں اسے نہیں چھوڑوں گا اور میں اپ سے کوئی وعدہ نہیں کر سکتا ۔۔۔
حرم بس اسے دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔
یعنی تم مجھ سے وعدے نہیں کر رہے ۔۔
نہیں۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے میں یہ وعدہ نہیں نبھاؤں گا اس لیے میں نہیں کر رہا اور اپ نے ہی تو بتایا ہے کہ جو وعدہ پورا نہ کر سکو اسے کبھی نہ کرو ۔۔۔
حرم اب خاموش ہو گئی وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ اپنی بات سے نہیں ہٹنے والا ۔۔۔
چند لمحوں کے لیے ان کے درمیان کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی ۔۔۔
پھر ہمدان نے اپنی جیب میں سے چاکلیٹ نکالی اور کھول کے اس کی طرف بڑھائی ۔۔
ائی ایم سوری حرم جی ۔۔۔اب تو مان جائیں وہ چاکلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بڑے ہی معصومیت سے کہہ رہا تھا ۔۔۔
حرم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اس کے کندھے پہ زور سے تھپڑ لگایا ۔۔
اور پھر اس کے ہاتھ سے وہ چاکلیٹ لے لی ۔۔حمدان نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔میں نہیں چاہتا کہ میری بیسٹ فرینڈ مجھ سے ناراض رہے ۔۔۔
حمدان ۔۔۔حرم نے کچھ دیر کے بعد اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
میں بہت خوش ہوں کہ تم میری بہت پرواہ کرتے ہو ۔تم واقعی میرے بہت اچھے بھائی ہو ۔۔۔
ہاں میں پروا کرتا ہوں اپکی بہت اور واقعی میں اپ کا ایک بہت اچھا کزن ہوں اور کزن اکثر ایک دوسرے کے لیے ایفرٹس کرتے ہیں حمدان نے بھائی کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بھائی کا لفظ حرم کے منہ سے اپنے لیے سننا اسے چبنے لگا تھا یوں جیسے اسے وہ الفاظ اپنے لیے پسند نہ ہو ۔۔ اور اگے بھی میں اپ کے لیے ایفرٹس کرتا رہوں گا ۔۔حمدان نے کبھی بھی اپنے اپ کو حرم کا بھائی قرار نہیں دیا تھا وہ اکثر اپنے دوستوں کو یہ کہتا کہ وہ اس کی کزن ہیں بہن نہیں اور حرم ہمیشہ ہمدان کو کہتی کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے ۔۔۔
بہت شکریہ تمہارا ۔۔مجھے اچھا لگا کہ تم میری پرواہ کرتے ہو ۔۔وہ اب ہمدان کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔
اپ بھی تو میری کتنی پرواہ کرتی ہیں ۔۔ہر چیز سے بچاتی ائی ہیں مجھے ۔پر اب میری باری ہے اب میں بڑا ہو گیا ہوں ۔۔
اچھا بتاؤ کتنے بڑے ہو گئے ہو تم ۔۔
اتنا بڑا ۔۔۔ہمدان نے ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے کھڑا کیا اور پھر خود بھی کھڑا ہو گیا اتنا بڑا ہو گیا ہوں میں اپ سے اس نے اپنا قد اور حرم کا دونوں کا قد ناپا ۔۔۔
دیکھ رہی ہیں اپ ہائٹ کا فرق اتنا بڑا ہو گیا ہوں میں اپ سے ۔۔
تم کیا سمجھتے ہو تمہارا قد نکل گیا ہے تو تم بڑے ہو گئے ہو مجھ سے ۔۔یاد رکھو یہ بات تم مجھ سے پورے تین سال چھوٹے ہو سمجھے ۔۔
اور اپ یہ بات یاد رکھیں ۔کہ اپ مجھ سے چھوٹی لگتی ہیں ۔۔
عمر میں بھی اور قد میں بھی ۔۔
ہمدان نے جیسے اس کا مذاق اڑایا ۔۔۔
تمہیں تو میں ابھی بتاتی ہوں رکو ذرا تم کہاں ہے میری چپل ۔۔
حرم کا ا سکول سسٹم اب ختم ہو چکا تھا فلحال وہ اج کل گھر میں ہی تھی اور اپنے کالج میں ایڈمیشن لینے کا انتظار کر رہی تھی حمدان اج کل اسکول سے تھوڑا سا لیٹ ا رہا تھا کیونکہ ان کی ایکٹیوٹیز کلاسز ہو رہی تھی وہ ہمدان کے انتظار میں اس وقت دروازے پر کھڑی تھی ۔۔
اج تو تم روزانہ کے مطابق کافی لیٹ ائے ہو ۔۔
کیا کوئی ایکسٹرا کلاس ہوئی میتھ کی یا پھر فزکس کیمسٹری کی ۔
نہیں اج کوئی ایکسٹرا کلاسز نہیں تھی چھٹی تو اسی ٹائم پر ہوئی تھی لیکن ایک کام سے نکل گیا تھا وہ اب گاڑی میں سے ایک دو شاپر نکال رہا تھا ۔۔۔
یہ کیا ہے حرم نے ان شاپرز کودیکھتے ہوئے فورا کہا ۔۔۔
یہ لیں یہ اپ کا ہی سامان ہے چپس اور چاکلیٹ۔۔۔
وہ تو مجھے پتہ ہے لیکن یہ دوسرے ریڈ بیگ میں کیا ہے یہ تو دکھاؤ ۔ ۔۔
نہیں نہیں یہ نہیں دکھاؤں گا اپ کو ۔
لیکن کیوں
کیونکہ پہلے میں اپ سے کچھ منواؤں گا اس کے بعد ہی اپ کو ملے گا ۔۔
یہ کیا بات ہوئی تم ہمیشہ یہی کرتے ہو ۔
جب اپ کو پتہ ہے تو پھر اپ ہر بار مجھ سے یہ کیوں پوچھتی ہیں اب تو اپ کو عادت ہو جانی چاہیے میری اس چیز کی ۔۔
وہ اب تمام چیزیں اٹھا کے گھر کے اندر داخل ہو چکا تھا جبکہ حرم اس کے پیچھے پیچھے تھی ۔۔
میں کافی بھوکا ہوں ۔وہ اب اپنا بیگ اتار کر اپنی ٹائی ڈھیلی کر رہا تھا ۔۔۔
ہاں تو میں نے بھی کھانا نہیں کھایا ہے میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی ۔تم چینج کر کے اؤ یونیفارم پھر کھانا کھاتے ہیں ۔۔
نہیں میں پہلے کھانا کھاؤں گا پھر چینج کروں گا ۔۔۔
کیا ہوا تمہیں بہت بھوک لگ رہی ہے کیا وہ اس کی شکل دیکھ کر ہنس کر بولی وہ واقعی بہت بھوکا لگ رہا تھا ۔۔۔
ظاہر ہے پہلے اتنے گھنٹے کا ا سکول اور کلاسز ایکٹیوٹی اس کے بعد اپ کے لیے خوار ہوا ہوں پورا دو گھنٹہ میں بازار میں ۔۔
تم اتنے بیچارے ہو نہیں جتنے بیچارے تم بننے کی ایکٹنگ کرتے ہو میرے ساتھ ۔
میں واقعی بہت بیچارہ ہوں حرم جی ۔۔۔
ماں کہاں ہے ماں نظر نہیں ارہی ۔۔۔۔
وہ این جی او گئی ہیں ۔۔
ان کے این جی او میں بچوں کا کوئی فنکشن ہے شاید اس پورے ویک الگ الگ اس وجہ سے وہ وہاں مصروف ہیں ۔۔
اور شام تک تمہیں اور مجھے بھی انے کو کہا ہے ۔۔۔
نہیں بھئی میں نہیں جاؤں گا میں وہاں پر بہت زیادہ بور ہو جاتا ہوں ۔۔
ائی نو لیکن جانا تو پڑے گا کیونکہ ماں نے کہا ہے چلو میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔
وہ دونوں ساتھ کھانا کھا رہے تھے تم نے مجھے ابھی تک بتایا نہیں کہ اس میں کیا ہے چلو اب بتا بھی دو نا ۔۔
اپ کا ہی ہے لیکن میں ابھی اپ کو نہیں دوں گا اپ کو اس کا انتظار کرنا پڑے گا رات میں اپ سے کام ہے پہلے وہ کریں پھر ۔۔
میں پہلے بتا رہی ہوں میں تمہارا کوئی اسائنمنٹ نہیں بناؤں گی بہت کام چور ہو تے جا رہے ہو تم ۔۔
سوچ لیں اس ریڈ بیگ میں اپ کا پسندیدہ سامان ہے جو اپ کو بہت اچھا لگے گا حمدان نے جیسے اسے لالچ دی ۔۔
حرم کو فورا ایکسائٹمنٹ میں کہا وہ کیا ؟؟
۔۔چلو اب بتا بھی دو نا ۔۔
پہلے میرا کام وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا ۔۔۔
تمہارے کاموں سے میرا پیچھا کب چھوٹے گا ہمدان ۔۔
میں اپ کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑوں گا بھوت کی طرح اپ کے ساتھ رہوں گا بھوت کی طرح ۔۔۔
بھوت تو تم ویسے ہی ہو ۔۔
ویری فنی ۔۔حمدان نے منہ بنا کر کہا ۔۔۔
کوئی بات نہیں بہنیں اکثر بھائی کے کام کر دیا کرتی ہیں ۔۔
ہاں مگر میں اپ کا بھائی نہیں اپ کا کزن ہوں کزن ۔حمدان نے کزن پر زور دیا ۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے ۔۔
فرق پڑتا ہے حرم جی فرق پڑتا ہے ۔۔
تم جلدی سے اپنا کھانا ختم کرو پھر مجھے دکھاؤ کہ تم کیا لائے ہو میں رات تک کوئی انتظار نہیں کروں گی ۔۔
حمدان کے اسکول کا لاسٹ یر تھا اور حرم کا کالج شروع ہو چکا تھا ۔۔۔۔
وہ ا سکو ل نہیں گیا تھا اسکول کی طرف سے سٹڈی لیو ملی ہوئی تھی پپیرس کیلئے ۔۔
وہ اج حرم کو لینے کے لیے ڈرائیور کے ساتھ اس کے کالج چلا ایا ۔۔
حرم کالج کے دروازے کے پاس چلی ائی جہاں پر اس کی ایک دوست کھڑی ہوئی تھی ۔۔
وہ اپنی دوست سے مل کر باہر ہی کی جانب جانے والی تھی کہ اس نے حمدان کو گاڑی سے اترتا ہوا دیکھا تو اسے ایک خوشگوار حیرت ہوئی ۔۔۔
برابر میں کھڑی ہوئی اس کی دوست حمدان کو نہیں جانتی تھی ۔۔کیونکہ حرم سے اس کی ملاقات ابھی کچھ دن پہلے ہی ہوئی تھی ۔۔
حمدان کی نظر بھی حرم پر پڑی تو اس نے دور سے ہی حرم کو ہاتھ ہلایا جیسے اسے کہہ رہا ہو سرپرائز ۔۔۔
اس لڑکی نے ایک نظر حرم کو دیکھا ۔۔
کیا یہ تمہارا بڑا بھائی ہے ۔۔؟
رانیا کے علاوہ باقی حرم کی ساری دوستیں حمدان کے بارے میں جانتی تھی کہ وہ اس کا چھوٹا بھائی ہے ۔۔
ارے نہیں نہیں یہ تو میرا چھوٹا بھائی ہے حمدان ۔ ۔
ہیں چھوٹا ہے تم سے یہ ۔۔۔
ہاں مجھ سے تین سال چھوٹا ہے یہ ۔۔
لگ تو نہیں رہا بلکے تم اس سے چھوٹی لگ رہی ہو ۔۔
وہ اس لڑکی کی بات پر مسکرائی ظاہر ہے وہ لڑکا ہے اس کا قد مجھ سے زیادہ ہے اور صحت بھی اس وجہ سے وہ مجھ سے تھوڑا بڑا لگتا ہے ۔۔
کاش تم سے تھوڑا سا بڑا ہوتا ۔۔
بہت ہی ہینڈسم لڑکا ہے ۔۔کیا نام بتایا تم نے اس کا ۔۔۔
حمدان ۔۔
مجھے افسوس ہے کہ یہ مجھ سے تین سال چھوٹا ہے ۔۔
حرم نے ایک نظر اس لڑکی کو دیکھا اور مسکرائی میری طرح یہ تمہارا بھی چھوٹا بھائی ہے چلو خدا حافظ ۔۔
وہ کہہ کر اگے بڑھ گئی ۔۔۔۔
کیا بات ہے اج تو کچن سے بڑے ہی اچھے اچھے کھانوں کی خوشبوئیں ا رہی ہیں ہمدان نے کچن میں اتے کے ساتھ ہی تمام ڈشز کو کھول کر کہا ۔۔۔
گیس کرو اج ڈنر پر کون ا رہا ہے ۔۔مریم نے اس کی طرف گردن موڑ کر کہا ۔۔۔
ٹھیک ہے میں کوشش کرتا ہوں۔۔ کون ا رہا ہے اتنا سپیشل شاید شوکت انکل کی فیملی میرے خیال سے ۔۔۔
ہاں بالکل تم نے صحیح کہا اتنا اہتمام انہی کے لیے ہو سکتا ہے ۔۔
وہ لوگ کینیڈا سے اگئے ہیں واپس ۔۔
ہاں کینیڈا سے ا گئے ہیں تبھی تو تمہارے بابا نے ان کو انوائٹ کیا ہے اج ڈنر پر ۔۔۔
گریٹ ۔۔۔۔
حرم جی کہاں ہیں ابھی تک نہیں آئیں کالج سے؟
اس کی ایک کلاس ہے اس کے پروفیسر اج تھوڑا سا لیٹ ہو گئے تھے اس وجہ سے وہ تھوڑی دیر سے ائے اج لیکن میں اسے بتا چکی ہوں کہ گھر اج ڈنر پر شوکت صاحب کی فیملی انے والی ہے ۔۔۔
رات کو کھانے کی میز خوب مزے مزے کے کھانوں سے سجی ہوئی تھی ۔۔۔
کیسے ہو شوکت ؟؟؟
سکندر صاحب نے شوکت صاحب کے گلے ملتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔
کیسی ہیں اپ ہانیہ ۔۔مریم نے کہا ۔۔۔
ہانیہ شوکت صاحب کی بیوی تھی اور ان کے دو بچے تھے شہزاد اور حیا ۔۔ شہزاد ان تینوں سے بڑا تھا جبکہ حیا ہمدان سے صرف ایک سال چھوٹی تھی ۔۔
حیا اور حمدان اسکول میں ساتھ پڑھتے تھے ۔۔جبکہ شہزاد اپنی میڈیکل کی پڑھائی ختم کر چکا تھا اور اب ہاؤس جاب کر رہا تھا ۔۔ جبکہ حرم میڈیکل میں تھی ۔۔شہزاد ایک بہت اچھا ہینڈسم اور عقلمند لڑکا تھا ۔اور شوکت صاحب ایک کامیاب ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پولیٹیشن بھی تھے ۔اور یہی چیز شہزاد نے بھی ان کے اندر سے لی تھی ۔۔وہ اپنی ہاؤس جاب کے ساتھ ساتھ اگے کی لیڈرشپ بھی کنٹینیو کرنے والا تھا ۔۔۔
وہ لوگ کچھ چھٹیاں گزارنے کے لیے کینیڈا گئے تھے اور اب واپس ائے تھے ۔۔جبکہ یہ ڈنر خاص شہزاد کی ایک سیلیبریشن کے لیے بھی تھا کہ وہ اب سیاست میں قدم رکھ رہا ہے اور وہ کامیابی اپنے باپ کی سیاسی پارٹی کے اندر پہلی شراکت تھی ۔۔
یہ چاروں بچپن ہی سے ایک ساتھ پلے بڑے تھے جبکہ شوکت اور سکندر صاحب ایک دوسرے کے بہت اچھے اور پرانے دوست تھے ۔۔اور یہی چیز ان کے بچوں میں بھی ائی تھی ۔
شوکت صاحب کی فیملی سکندر سے ذرا اونچی تھی ۔۔۔۔
شوکت صاحب کا اپنا ہاسپٹل بھی تھا اور اسی ہاسپٹل کے اندر شہزاد اپنی پریکٹس بھی کمپلیٹ کر رہا تھا ۔۔۔
شہزاد ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے لوگوں کا علاج کر رہا تھا وہ بھی اپنے ہی ہاسپٹل میں ۔۔
کھانے کی ٹیبل مزے مزے کے کھانوں سے بھری ہوئی تھی جبکہ مریم اور سکندر ان تمام لوگوں کو کھانا سرو کر رہے تھے جس میں حرم اور حمدان بھی ان دونوں کی مدد کر رہے تھے ۔۔۔
کھانا بہت مزے کا ہے ۔۔شوکت صاحب نے کھانا کھاتے ہی کہا ۔۔۔
واقعی انٹی بہت مزے کا کھانا پکایا ہے اپ نے شہزاد نے بھی کہا
میں بہت خوش ہوں تمہارے لیے شہزاد کہ تم میڈیکل کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی قدم رکھ رہے ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ تم لوگوں کے لیے اچھے اچھے کام کرو گے ۔۔۔سکندر صاحب نے کہا ۔
اللہ کا شکر ہے انکل جس علاقے سے میں نے انتخابات لڑے تھے وہاں پہ مجھے اچھے خاصے ووٹ ملے ہیں اور وہاں سے میں نے لیڈ بھی کیا ہے ۔۔میں پوری کوشش کروں گا کہ اس علاقے کے لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور میں نے یہ بھی سوچا ہے کہ میں ہر دو تین مہینے کے بعد وہاں پہ ایک میڈیکل کیمپ لگایا کروں جہاں پر ان کا فری میں شوگر ٹیسٹ چیک اپ بلڈ پریشر اور باقی دوسری چیزیں بھی چیک کروا دیا کروں اور کچھ میڈیسن بھی ان کے درمیان باٹوں جو کم از کم ہر گھر میں ہونا لازم ہے ۔۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے شہزاد ۔۔
اللہ کا شکر ہے سکندر میرا بچہ بڑا ہی قابل ہے شوکت صاحب نے شہزاد کے کندھوں کو محبت سے چھوا ۔اب میرا تھوڑا کام کم ہو جائے گا کیونکہ یہ بھی اگیا ہے اب میرے پاس ۔۔
ہا ں شوکت تم نے بالکل صحیح کہا سکندر صاحب نے کباب کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔
ان فیکٹ انکل میں سوچ رہا تھا کہ میں کچھ گاؤں دیہات کا بھی وزٹ کروں ۔۔
وہاں پر ڈاکٹرز کی اج بھی بڑی کمی ہے ۔۔اور یقینا ان انے والے سالوں میں حرم میرا ساتھ ضرور دے گی اور تب تک تو حمدان بھی میڈیکل کالج میں ا چکا ہوگا پھر یہ دونوں مل کر ہمارا ساتھ دیں گے کیوں دو گے نا ۔۔۔
ضرور کیوں نہیں ۔۔حمدان نے مسکرا کر کہا جب کہ حرم صرف مسکرائی ۔۔۔
شوکت ویسے تم نے شہزاد کو مصروف رکھنے کا اچھا پلان بنایا ہے یہ بیچارہ تو مصروف ہی رہے گا ۔۔سکندر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔
تو وہ سارے بھی ہنس پڑے ۔۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment