تیرے لئے 

مصنفہ منال علی 

قسط نمبر 2


وقت یونہی تیزی سے گزرتا رہا ۔۔ 

ماہم اور منصور کے 40ویں تک کے حرم ان دونوں کے پاس ہی رہی تھی ۔۔

منصور کے گھر والوں نے حرم کو جب اپنے پاس رکھنے کی بات کی تو مریم جیسے تڑپ کر رہ گئی ۔۔۔

مگر وہ لوگ یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ مریم اور سکندر حرم کو بے تحاشہ محبت کرتے ہیں ۔۔

دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے تھے کہ منصور اور ماہم اگر اپنے بعد حرم کی ذمہ داری کسی کو دیتے تو وہ سکندر اور مریم ہوتے ان دونوں کی بے شک کوئی اولاد نہ تھی لیکن ان دونوں نے حرم کو ہمیشہ اپنی بیٹی سمجھا تھا ۔۔

ان دونوں کے انتقال کی چھ مہینے کے بعد قانونی طور پر یہ طے ہوا کہ حرم اب مکمل طور پر سکندر صاحب کے پاس رہے گی یہ معاملات بڑی خوشگواری سے طے ہوئے تھے کسی قسم کا کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہو پایا تھا اور دوسری طرف منصور کی فیملی بھی یہ بات جانتی تھی کہ وہ دونوں حرم کو بہت چاہتے ہیں ۔۔۔

حرم منصور اب سکندر اور مریم کی بیٹی تھی ۔۔

وقت کا پہیاں یوں ہی تیزی سے چلتا رہا زندگی اگے بڑھتی رہیں ۔۔

حرم اب ایک سال کی تھی ۔اور تھوڑا تھوڑا بولنے لگی تھی ٹوٹے ٹوٹے سے الفاظ کبھی کبھار نہ سمجھ میں انے والا لہجہ۔۔

 ان دونوں کے لیے جیسے حرم ان کی کل کائنات بن چکی تھی حرم کے انے سے ان کے گھر میں وہ خاموشی ٹوٹ گئی تھی جو چار سالوں سے ان کے گھر کو گہرے ہوئے تھی ہر وقت حرم کے ہسنے کی اس کے رونے کی اواز کھلنے کی اواز خوشی سے اس کی نکلتی ہوئی چیخیں جیسے ان کے گھر کی رونق بن گئی تھی ۔وہ واقعی میں مریم اور سکندر کے گھر کی رونق تھی ان دونوں نے حرم کی پرورش میں محبت میں اور تربیت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔

اور اللہ تعالی نے ان دونوں کو انعام کے طور پر مریم کی ماں بننے کی خوشخبری دی ۔۔جب مریم اور سکندر کو یہ معلوم ہوا تو ان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔۔۔

حرم پورے تین سال کی تھی جب مریم اور سکندر کے گھر ایک انتہائی خوبصورت بچہ پیدا ہوا جس کا نام حمدان سکندر تھا ۔۔اللہ تعالی نے ان دونوں کو ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا تھا حمدان سکندر انتہائی صحت مند اور خوش شکل لڑکا تھا ۔۔شکل و صورت میں وہ بالکل سکندر کی طرح تھا اور سکندر بہت ہی ہینڈسم تھے ۔۔۔ان دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔۔ان کے گھر میں اب رونق مزید بڑھ گئی تھی ۔۔حرم اور حمدان کے درمیان تین سال کی عمر کا فرق تھا حرم حمدان سے تین سال بڑی تھی اور حمدان اس سے تین سال چھوٹا ۔۔۔

دوسری طرف حرم کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہ تھا کیونکہ اسے اپنے ساتھ کھیلنے کے لیے ایک نیا ساتھی اور ایک بہت ہی پیارا سا بھائی مل گیا تھا وہ اسے بہت زیادہ چاہتی تھی تین سال کی حرم کوشش کرتی کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے صحت مند حمدان کو اٹھا لے مریم اور سکندر اس کی یہ خواہش اکثر پوری کیا کرتے تھے۔وہ حرم کو بیڈ پر بٹھاتے اور پھر حرم کی چھوٹی سی گود میں حمدان کو وہ دیتےاور وہ بس اتنے میں ہی خوشی سے پاگل ہو جاتی وہ حمدان کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھی وہ اگر اچانک رونے لگتا تو وہ تیزی سے جا کے اسے چپ کراتی اس کے ساتھ کھیلتی ا سے پیار کرتی حرم کے نزدیک حمدان کے رونے کی وجہ صرف اور صرف بھوک تھی وہ جیسے ہی رونا شروع کرتا حرم تیزی سے اس کی فیڈر لے اتی اور مریم اس کی اس حرکت پر صرف اور صرف ہنس ہنس کے رہ جاتی ۔۔۔

وقت گزرتا گیا حرم اب چار سال کی تھی اور ہمدان ایک سال کا وہ دونوں مل کر خوب شرارت کرتے تھے ۔۔۔

حرم اب اسکول جانے لگی تھی اور جیسے ہی وہ ا سکول سے اتی تیزی سے اپنا بیگ رکھ کر وہ سیدھا حمدان کے پاس بھاگتی گھر انے کے بعد وہ ہمیشہ سب سے پہلے جا کے حمدان کو دیکھتی کہ وہ کیا کر رہا ہے وہ اکثر جب اس کے ا سکول کی چھٹی ہوتی اس وقت وہ جاگ رہا ہوتا تھا اور وہ بھی اسے دیکھ کر بے تحاشہ خوش ہوتا تھا ۔۔۔

ان دونوں کا بچپن ان کے گھر کے لیے ایک رونق تھا خوشیاں تھیں ۔۔

حرم اور حمدان دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے ۔۔حرم بہت خیال رکھتی تھی اس کا بالکل ایک بڑی بہن کی طرح ۔۔

اب وہ کوشش کرتی کہ وہ خود ہی حمدان کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا لے اور وہ اکثر ایسے اٹھا بھی لیا کرتی تھی ۔۔

وقت اور تیزی سے گزرتا گیا ۔حرم دس سال کی ہو گئی اور ہمدان سات سال کا ۔۔۔۔

حمدان زیادہ تیز شارٹ نہیں مارنا ورنہ ماں نہیں چھوڑیں گی پہلے ہی تم ان کا گلدستہ تو ڈ چکے ہو جو ان کی فرینڈ لے کر ائی تھی ۔۔۔


اچھا "حرم جی" ٹھیک ہے میں نہیں توڑتا ۔۔۔

وہ حرم کو کبھی بھی اپی وغیرہ نہیں کہتا تھا ۔اس نے شروع سے ہی حرم کو حرم جی کہا تھا ۔اور دوسری طرف حرم کو بھی اس کا ایسے پکارنا بڑا اچھا لگتا تھا اور یہ مریم اور سکندر کے لیے بھی ایک نئی چیز تھی ۔۔وہ دونوں کبھی بھی ان دونوں کے معاملات میں نہیں بولتے تھے کیونکہ وہ دونوں جانتے تھے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے کس طرح محبت کرتے ہیں ۔۔۔


اوو ۔۔۔۔ حمدان ۔۔۔۔۔

یہ دیکھو تم نے کیا کیا ۔۔اب تو ماں نہیں چھوڑیں گی کل ہی انہوں نے اس نئے گلدستے کو نکال کے اس کے اندر نئے پھول ڈالے تھے اب تو تم گئے حمدان ۔۔۔

وہ دیکھو ا رہی ہیں وہ ۔۔

ہمدان تیزی سے اپنا بیڈ وہیں چھوڑ کر سیدھا حرم کے پاس ایا ۔۔۔۔


کس نے کیا ہے ؟؟؟؟ یہ تم تھے نہ حمدان ؟؟؟؟

 سچ بتاؤ بالکل ۔۔۔مریم اب ان دونوں کے سر کے پاس ا کر کھڑی ہو چکی تھی ۔۔۔

یہ ایک بہت خاص دوست نے مجھے ابھی دیا تھا تحفے میں اور تم نے یہ پھر توڑ دیا ایسا لگتا ہے کہ تم تمام گھر کے شاپیز کے دشمن ہو گئے ہو یہ کوئی جگہ ہے کرکٹ کھیلنے کی ۔۔۔۔

تمیں باہر گارڈن نظر نہیں ارہا حمدان وہاں کھیلنا چاہیے تمہیں کتنی بار بتاؤں ۔۔۔

ڈرائنگ روم میں کون کھیلتا ہے ۔۔۔۔۔


مریم اب صرف ہمدان کو سنا رہی تھی جبکہ حرم اور ہمدان خاموشی سے کھڑے تھے ۔۔۔۔


 یہ حمدان نے نہیں توڑا ماں ۔یہ مجھ سے ٹوٹ گیا میری باری تھی میں نے تھوڑا تیز شارٹ مارا اور یہ ٹوٹ گیا ائی ایم سوری ۔۔۔

حرم میں نظریں نیچے کرتے ہوئے کہا جب کہ ہمدان نے تیزی سے اپنی گردن گھما کر حرم کو دیکھا ۔۔۔ جیسے کہہ رہا ہوں ایسا تھا کیا ۔۔

مریم ایک لمحے کے لیے کچھ بول نہیں پائی کیونکہ وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ حمدان کو بچا رہی ہے جبکہ ہمدان کے چہرے کے اوپر مسکراہٹ وہ دیکھ چکی تھی جو وہ نظریں نیچے کر کے مسکرا رہا تھا ۔۔

مریم نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا وہ دونوں اکثر یہ حرکت کیا کرتے تھے ایک دوسرے کو بچانے کے لیے وہ اکثر ایک دوسرے کے لیے جھوٹ بولا کرتے تھے ۔۔

اور اج بھی یہی ہوا تھا ۔۔مریم کو ان دونوں پر بے تحاشہ پیار ایا لیکن ان دونوں کی غلطی تھی ۔۔۔

اگلی بار تم دونوں یہاں مجھے کھیلتے ہوئے نا نظر اؤ گھر کے اندر کوئی کرکٹ نہیں کھیلے گا باہر جا کر کھیلیں گے دونوں سمجھ اگئی ۔۔۔


جی ماں ۔۔۔

حمدان نے بڑی فرمانبرداری سے کہا ۔۔ 


 ان دونوں کا اسکول ایک ہی تھا جبکہ حرم ہمدان سے تین کلاسز اگے تھی ۔

وہ حمدان کے ا سکول میں ہونے والے ہر چھوٹے موٹے اس کے دوستوں کے ساتھ جھگڑے کو منٹوں میں سلجھا کر ان کی صلح کروا دیتی تھی ۔۔

حمدان کے ایڈمیشن سے پہلے وہ لنچ ہمیشہ اپنی دوستوں کے ساتھ کرتی تھی مگر ہمدان کے ایڈمیشن لینے کے بعد وہ اکثر لنچ ہمدان کے ساتھ کیا کرتی تھی ۔۔ اسکول کے گارڈن کی طرف ایک اونچا سا آ م کا درخت تھا جس کے پاس بیٹھ کر وہ دونوں اکثر ساتھ لنچ کیا کرتے تھے ۔۔۔۔

جب بھی ٹیچر ایسسے حمدان کو مائی بیسٹ فرینڈ کے اوپر لکھنے کے لیے دیتیں تو ہمدان اپنی بیسٹ فرینڈ حرم کو ہی قرار دیتا حرم کے علاوہ اس کی کوئی اور بیسٹ فرینڈ نہیں تھی وہ اپنی ہر چیز ہر بات حرم کے ساتھ شیئر کرتا تھا ۔۔

حمدان کا کمرہ ہمیشہ ہی پھیلا ہوا ہوتا تھا ۔۔ایسا نہیں تھا کہ وہ گندگی میں رہنے کا عادی تھا لیکن جب حرم اس کی کمرے میں اتی تھی تو اسے بہت اچھا لگتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کی ہر چیز کو ترتیب سے خود رکھے ۔وہ صاف ستھرے کمرے کو بھی جان بوجھ کر کبھی کبھار پھیلا دیا کرتا تھا وہ اکثر اپنے کپڑوں کی الماری خراب کر دیا کرتا تھا کہ ویک اینڈ پر وہ دونوں بیٹھ کر الماری ٹھیک کریں حرم کو ہمدان کی اس عادت پر کبھی کبھار بڑا ہی غصہ اتا لیکن وہ کبھی بھی اس کے کام کرنے سے منع نہیں کرتی تھی بلکہ خوشی خوشی اور اگے بڑھ کر اس کا کام کر دیا کرتی تھی ۔۔

وہ ابھی بھی اس کے کمرے میں موجود تھی اور اسسائنمنٹ بنانے میں اس کی ہیلپ کر رہی تھی ۔لیکن جب ہمدان نے کلرنگ کرنا شروع کری تو جیسے حرم کو اس کی کلرنگ سے خوف ایا یا خدا اتنی بدصورت کلرنگ کی ہے تم نے حمدان ۔حمدان کو کلرنگ اور ڈرائنگ بالکل پسند نہیں تھی ۔۔وہ بڑی ہی مجبوری میں اکثر ڈرائنگ بنایا کرتا تھا ڈرائنگ کا پیریڈ اسے کبھی پسند نہیں تھا ۔۔سائنس میں بھی اگر وہ کوئی ڈائیگرام بناتا تھا تو کوشش یہی کرتا تھا کہ کلرنگ نہ کرے اور وہ کرتا بھی نہیں تھا جبکہ دوسری طرف حرم کو پینٹنگز کا بہت شوق تھا ۔۔۔

اور وہ اکثر حمدان کی ڈائگرامز اور کلرنگ میں اس کی ہیلپ کیا کرتی تھی ۔۔

تم ڈرائنگ کتنی اچھی کرتے ہو لیکن کلرنگ اللہ معاف کر اتنی خوفناک کہ دیکھ کر ہی ڈر لگے ۔وہ اب ساری چیزوں کو صحیح کر رہی تھی ۔۔۔


حمدان حرم کو تو بے تحاشہ پریشان کرتا تھا لیکن اسکول میں وہ ہمیشہ سے ہی ایک جینیس اور ایک ائیڈیل اسٹوڈنٹ تھا بہت ہی تمیز والا ڈسپلین والا لڑکا تھا اپنے کام سے کام رکھنا حد سے زیادہ نہ بولنا ایک لمٹ میں رہنا لڑکیوں سے تمیز سے بات کرنا یہ ساری کی ساری کوالٹیز اس کو بہت اوپر رکھتی تھیں ۔۔۔

ہمدان اب بڑا ہو رہا تھا اور سیون کلاس میں ا چکا تھا جب کہ حرم کا اخری سال چل رہا تھا اسکول کا ۔اسی دوران حرم کی کلاس میں ایک بہت ہی بدتمیز اور شرارتی سا لڑکا بلال اسد ایا وہ اکثر حرم کو دیکھتا اس کے اگے پیچھے گھومتا کلاس میں وہ لڑکا اکثر کوشش کرتا کہ حرم اس سے دوستی کرے اور وہ اس سے فری ہو ۔اور کلاس میں اس لڑکے کی یہ چیز حرم کی کچھ دوستوں نے بھی نوٹ کی تھی ۔لیکن اس کی ساری دوستیں حرم کو بہت اچھے طریقے سے جانتی تھی کہ وہ کس طرح کی ہے تو انہوں نے کچھ نہیں کہا ۔وہ سب جانتیں تھی کہ حرم اسسے کبھی بھی منہ نہیں لگاتی ۔۔۔

 لیکن کچھ دنوں سے اس کی یہ حرکتیں مزید بڑھتی جا رہی تھی ۔۔وہ اپنی کلاس کے کچھ دوسرے لڑکوں سے اب حرم کے متعلق کچھ نہ کچھ پوچھنے لگا تھا کہ وہ زیادہ کیا چیزیں پسند کرتی ہے یا اس کا فیورٹ رنگ کون سا ہے اٹھتے اٹھتے یہ خبر حرم کے کانوں میں بھی گئیں تو اس کو شدید غصہ ایا مگر اس نے ہمیشہ کی طرح اس لڑکے کو اگنور کیا وہ کبھی بھی اس سے بات نہیں کرتی تھی ۔

وہ لڑکا حرم کو پہلے ہی دن سے پسند نہیں تھا جس طریقے سے وہ دیکھتا تھا اور جو اس کی لینگویج تھی ڈبل میننگ باتیں وہ لڑکا ا سے زہر لگتا تھا اور اس کی کلاس کی شاید تمام لڑکیوں کو بھی ۔۔

 وہ اکثر لنچ ٹائم میں اپنا لنچ اس کی طرف بڑھاتا ۔۔ 

نو ۔۔ تھینک یو سو مچ ۔وہ کہہ کر اس لڑکے کو نظر انداز کر کے اگے بڑھ جاتی ۔۔۔

اور یہ چیز اس لڑکے بلال کو برداشت نہ تھی ۔۔۔

پھر اچانک وہ لڑکا ایک ہفتے کے لیے دبئی چلا گیا ۔۔جب وہ واپس ایا تو اس نے حرم سے اپنا کام کمپلیٹ کرنے کے لیے ہیلپ مانگی ۔۔حرم نے اس لڑکے کی ایز ا کلاس فیلو ہیلپ بھی کی تھی ۔۔۔

حرم بریک ٹائم میں اپنا سارا سامان سمیٹ کر کلاس سے باہر جانے لگی جب کہ اس کی دوستیں کچھ دیر اس کا انتظار کرتی رہی پھر گراؤنڈ ایریا میں اگئی ۔۔


مجھے یہ سمجھ میں نہیں ارہا یہ سمجھا دو گی پلیز ۔۔ ۔۔بلال کوئی میتھ کا کوسچن لے کر ایا تھا اس کے پاس جب وہ جانے لگی تھی ۔۔۔۔

ایک لمحے کے لیے وہ رکی ۔۔میں ابھی جا رہی ہوں بعد میں سمجھاتی ہوں میرا بھائی انتظار کر رہا ہوگا ۔۔۔


پلیز ابھی سمجھا دو میں ابھی بیٹھ کے اپنا کام کمپلیٹ کر رہا ہوں اس لیے پھر پورا بریک ٹائم میرا ضائع ہو جائے گا ۔۔صرف ایک ہی سمجھا دو یہ والا ۔اس لڑکے نے بھرپور اصرار کیا ۔۔

حرم نے اسے وہ سوا ل سمجھایا اور پھر جانے لگی وہ جیسے ہی اٹھ کھڑی ہوئی تو وہ فورا اس کے سامنے ایا ۔۔۔

حرم نے حیرانی سے اسے اپنے سامنے کھڑا پایا ۔۔۔


میں تم سے بہت دنوں سے کچھ بات کرنا چاہتا تھا لیکن تم مجھے کوئی موقع ہی نہیں دیتی اج میرے پاس موقع ہے پلیز میری بات سنتی جاؤ ۔۔

حرم حیرانی اور غصے سے اسے دیکھنے لگی وہ تیزی سے بولتا جا رہا تھا ۔۔۔۔

میں تمہارے ساتھ ایک ریلیشن شپ چاہتا ہوں ۔۔

تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو تم بہت اٹریکٹو ہو اور بے تحاشہ خوبصورت اور ذہین بھی مجھے تم بہت پسند ائی ہو ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت خوش رکھ سکتے ہیں ایک ریلیشن شپ میں رہ کر وہ بغیر رکے اپنی ہر بات بڑی ہی بے شرمی سے کہہ رہا تھا ۔۔۔تم سمجھ رہی ہو نا میں کس ریلیشن شپ کی بات کر رہا ہوں ۔ایک رومینٹک ریلیشن شپ جس میں تم اور میں ایک کپل ہوں ۔۔۔۔

تم بس مجھے ایک چانس دو وہ لڑکا ایک قدم اگے بڑھا تو حرم چار قدم تیزی سے پیچھے ہوئی ۔۔


دماغ ٹھیک ہے تمہارا پتہ بھی ہے کیا بول رہے ہو حرم نے بے حد سخت لہجے میں کہا ۔۔


میں بکواس نہیں کر رہا میں تمہیں میرے ساتھ ریلیشن شپ میں انے کے لیے کہہ رہا ہوں ۔۔۔

تم مجھے اچھی لگی ہو اس لیے ۔۔۔


حرم اس کے سوال اور اس کی تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کنارے سے جانے لگی ۔۔۔


کہ بلال نے تیزی سے حرم کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا ۔۔ ۔۔


تمہارا دماغ ٹھیک ہے ۔۔وہ تقریبا زور سے بولی تھی ۔۔۔۔

بلال نے گھبرا کر تیزی سے دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔

حرم اب اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی ۔اپنی بکواس بند کرو اور میرا ہاتھ چھوڑو ورنہ چماٹ لگاؤں گی منہ پر ۔۔

وہ بے حد غصے میں تھی ۔۔


کتنی خوبصورت ہو تم ۔۔


شٹ اپ ۔۔۔

وہ غصے سے بو لی ۔۔۔


اتنے میں ہمدان جو اس کا کب سے انتظار کر رہا تھا لیکن وہ ابھی تک نہیں ائی تھی وہ وہیں آ م کے درخت کے پاس بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا ۔۔بریک ہوئے دس منٹ اوپر ہو چکے تھے مگر وہ نہیں ای۔۔حمدان حرم کی کلاس کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔


ہاتھ چھوڑ و میرا ۔۔۔ورنہ میں تمہارے منہ پہ تھپڑ ماروں گی ۔۔ ۔


ٹھیک ہے تم اگر تھپڑ مارنا چاہتی ہو تو مار لو کم از کم تم مجھے ٹچ تو کر لوگی ۔۔وہ ہنسنے لگا تھا بہت ہی بے شرمی سے ۔۔۔

اتنے میں کوئی تیزی سے کلاس کے اندر ایا اور بلال کو اپنی بھرپور طاقت سے پیچھے کی طرف دھکا دیا تو وہ چیئرز کے اوپر جا کے گرا ۔۔۔

وہ ہمدان تھا ۔۔ 

وہ اب اس کے منہ ہی منہ پہ مکے مار رہا تھا ۔۔

بلال اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا تو اس وجہ سے وہ سنبھل نہ سکا ۔۔۔

جبکہ ہمدان اپنی پوری طاقت سے اس کی پٹائی کر رہا تھا ۔۔۔

بلال نے اسے روکنے کی کوشش کی اور دونوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی ۔۔۔

حرم نے بڑی مشکل سے ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا ۔۔۔مگر ہمدان بے حد غصے میں تھا وہ بالکل نہیں رکا 

وہ حمدان کو پہلی بار اتنے غصے میں دیکھ رہی تھی ۔اور وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ حمدان اتنی بری طریقے سے اس لڑکے کو مارے گا جب کہ وہ اس سے عمر میں بھی بڑا ہے ۔۔ ۔اس کا ہونٹ پھٹ چکا تھا اور اس کی شرٹ بھی ۔۔


تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ بکواس کرنے کی ۔۔۔

وہ ابھی بھی اسے کالر سے پکڑ کر کھینچ رہا تھا تمہاری ہمت کیسے ہوئی حرم جی کا ہاتھ پکڑنے کی انہیں ہاتھ لگانے کی ۔میں تمہارے دونوں ہاتھ توڑ دوں گا ۔

وہ ابھی بھی بہت غصے میں تھا ۔۔جیسے تیسے کر کے حرم نے ان دونوں کو چھڑوایا ۔۔۔

اتنے میں راؤنڈ لگاتی ہوئی ٹیچر کی نظر ان بچوں پر پڑی ۔۔

مس زرمینہ اسکول کی بہت اچھی اور پرانی ٹیچر تھی ٹیچر بہت اچھے سے ہمدان اور حرم کو جانتی تھی وہ دونو ں ان کے ا سکول کے بہت اچھے سٹوڈنٹس میں سے تھے جبکہ بلال انتہائی بدتمیز۔۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بلال کو تین مہینے کے لیے ا سکول سے نکال دیا گیا تھا یہ اس کی پنشمنٹ تھی ۔۔۔۔


جاری ہے