تیرے لئے
مصنفہ منال علی
قسط نمبر ا
گھر کے کچن سے اس وقت بریانی کی بہت اچھی خوشبو ارہی تھی ساتھ ہی ساتھ کچن میں چند لڑکیوں کی اواز گونج رہی تھی ۔۔وہ لڑکیاں اپس میں باتیں ہوئے کچن کے مختلف کام نمٹا رہی تھی ایک لڑکی سلپ کے پاس کھڑی ہوئی گرم تیل میں کباب تل رہی تھی اور دوسری بیٹھی ہوئی سلاد کاٹ رہی تھی ۔۔
اور گھر کی ملازمہ ٹیبل پر برتن طریقے سے لگا رہی تھی ۔۔
وہ دونوں لڑکیاں اپس میں نند اور بھابھی تھی ۔۔۔۔
ماہم اب تم یہ مجھے دے دو اور جا کر اب ارام سے بیٹھ جاؤ باقی کی سلاد میں کاٹ لوں گی ۔۔
ارے نہیں بھابھی یہ بس ہو ہی گیا ہے ۔۔۔
میں بس ختم کر کے ا رہی ہوں اپ جب تک جا کر بھائی کے پاس بیٹھ جائیں ۔۔
چلو ٹھیک ہے تم ختم کر کے آ جاؤ میں جب تک باقی کام دیکھ لیتی ہوں۔۔۔
یہ مریم تھی جو کہ ماہم کی بھابی تھی ۔۔۔
مریم کی شادی کو چار سال ہو گئے تھے لیکن ابھی تک اس کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔۔
جبکہ ماہم کی شادی کو دو سال ہو گئے تھے اور اس کی ایک چھ مہینے کی بیٹی تھی جس کا نام حرم تھا ۔۔۔
حرم منصور ایک نہایت خوبصورت چھوٹی سی معصوم سی بچی تھی ۔۔حرم کی انکھوں کا کلر بالکل اس کی ماں کی طرح تھا گرین۔۔گرین رنگ کی خوبصورت سی انکھیں تھی اس کی اور پھولے پھولے سے گال ۔۔
ماہم اور مریم حرم کو لڈو کہہ کر پکارتی تھی ۔۔۔۔
منصور اور ماہم کی بیٹی حرم اج مریم اور سکندر کے گھر دعوت پر ائے تھے ۔۔۔
سکندر ماہم کے بڑے بھائی تھے ۔۔ماہم کے علاوہ ان کی کوئی اور بہن نہیں تھی ۔اور وہ اپنی بہن سے بے تحاشہ محبت کرتے تھے ۔۔۔
ڈنر کے بعد ماہم اور منصور دونوں کو ایئرپورٹ کے لیے نکلنا تھا ان کی امریکہ کی فلائٹ تھی ۔۔ کیونکہ منصور اکثر کام کے سلسلے میں وہاں اتا جاتا رہتا تھا اور منصور کے ماں باپ اور بہن بھائی بھی وہیں رہتے تھے ۔۔
حرم بھی ان کے ساتھ ہی جانے والی تھی لیکن کسی پرابلم کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ جانا پائی ۔۔
ماہم اور منصور کے لیے اپنی چھ مہینے کی بیٹی کو چھوڑ کر تین ہفتے کے لیے امریکہ جانا انتہائی مشکل تھا ۔۔لیکن ان دونوں کی یہ مشکل مریم اور سکندر نے اسان کر دی تھی ۔۔۔۔
مریم اور سکندر دونوں ہی حرم پر اپنی جان چھڑکتے تھے ۔۔۔
ان دونوں کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن جب حرم پیدا ہوئی تو ان دونوں نے اس کی محبت میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔۔
وہ دونوں اسے ماہم اور منصور کی طرح ہی یا پھر اس سے کہیں زیادہ پیار کرتے تھے ۔۔
کھانے کی ٹیبل پر اس وقت بڑے ہی مزیدار کھانے سجے ہوئے تھے ۔۔۔
سکندر اور منصور بہت اچھے دوست بھی تھے ۔حرم اس وقت سکندر کی گود میں لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔
اور حرم کے چھوٹے چھوٹے سے ہاتھوں میں ایک چاکلیٹ کا پیکٹ تھا ۔۔
منصور نے پیکٹ میں سے تھوڑی سی چاکلیٹ نکال کر حرم کی زبان پر لگائی ۔۔
تو وہ بڑے مزے سے اس چاکلیٹ کا ذائقہ لیتی ہوئی اپنے ہاتھ پاؤں چلانے لگی ۔۔۔
یہ دیکھیں بھابھی اس کو ابھی سے ہی یہ سب چیزیں کھانی ہیں کیسے ند یدوں کی طرح دیکھ رہی ہے یہ چاکلیٹ کے پیکٹ کو ۔۔
ماہم نے اپنی بیٹی کی حرکتوں کو ہنستے ہوئے دیکھ کر کہا ۔۔۔
کیوں بھئی کیا تمیں یاد نہیں کے تمہیں خود کس قدر چاکلیٹ پسند ہے ۔ظاہر ہے تمہاری بیٹی کو بھی پسند ہوگی ۔۔مريم نے مسکرا کر کہا ۔۔
ابھی تم ذرا میری بیٹی کو تھوڑا اور بڑا ہونے دو پھر تم دیکھنا میں اس کے لیے کتنی اچھی اچھی چاکلیٹس لے کر اؤں گا جب یہ کھا نے والی ہو جاۓ گی ۔
سکندر نے پیاری سی حرم کے پھولے ہوئے گالوں کو پیار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
جی بالکل اپ سب مل کر اس کی عادت خراب کر دیں اور یہ پھر میرے سر پر چڑھ جائیں گی ۔اور اگر زیادہ چاکلیٹ کھانے سے بھائی اس کے دانت خراب ہوئے نا تو اپ اور بھابھی ہی لے کر جائیں گے اس کو ڈینٹسٹ کے پاس۔۔ ویسے ہی میرے بڑے چکر لگ رہے ہیں اس کی ویکسینیشن کے لیے ۔۔۔
میں اس کے بہت نخرے اٹھاؤں گا بھلے تم نہ اٹھاؤ ۔۔سکندر نے حرم کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔۔
چلیں اب ا جائیں سارا کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔۔سکندر کے ہاتھوں سے مریم نے حرم کو لیتے ہوئے کہا ۔۔۔
لا یں بھابھی ا سے مجھے دے دیں ۔۔۔۔
نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں تم کھانا کھاؤ اسے میرے پاس ہی رہنے دو ۔ویسے بھی مجھے لگ رہا ہے یہ ا بھی سو جائیں گی ۔۔مریم نے حرم کے گالوں کو چوما وہ تقریبا سو چکی تھی ۔۔۔
کھانے کا وقت ختم ہوا تو پھر انہوں نے ساتھ بیٹھ کر کافی پی ۔۔
ابھی رات کے نو بج رہے تھے اور ماہم اور منصور کی فلائٹ دیڑھ بجے کی تھی ۔۔۔۔
منظور ایک بہت اچھا پڑھا لکھا لڑکا تھا اور ان کا فیملی فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہت اچھا بزنس مین بھی تھا ۔۔اس کی اپنی خود کی ایک کمپنی تھی جسے وہ خود چلاتا تھا ۔۔اور کچھ کاروبار اس کا امریکہ میں بھی تھا جسے وہ اپنی نگرانی میں ہی رکھتا تھا ۔۔
دوسری طرف ماہم بھی انتہائی ٹیلنٹڈ اور پڑھی لکھی لڑکی تھی ۔ماہم کو پینٹنگز کا بہت شوق تھا اور وہ اکثر پینٹنگز بنا کے ان کی ایگزیبیشن کرتی تھی ۔اور پروفیشن سے وہ ایک ڈاکٹر تھی ۔۔سکندر صاحب بھی ایک ڈاکٹر تھے ۔اور مریم بھی مگر مریم ساتھ ہی ساتھ ایک چھوٹے سے این جی او کو بھی چلا رہی تھی جو اس نے اور اس کی دوستوں نے مل کر غریب بچوں اور عورتوں کے لیے بنایا تھا اور اس این جی او کی ممبر ماہم بھی تھی ۔۔۔۔
مریم کے اندر میڈیکلی کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ تھا کہ اس کی اولاد نہ ہو بس یہ اللہ کی طرف سے ہی تھا ۔
اور اسے اس بات پر پورا یقین تھا کہ اللہ کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں ایک نہ ایک دن اس کی بھی گود ضرور بھرے گی وہ جب بھی حرم کو دیکھتی اسے حرم پر بہت پیار اتا اس کی ممتا جاگ جاتی ۔۔۔۔
گرم گرم کافی اس وقت سب کے ہاتھ میں تھی ۔۔۔
مجھے تو ابھی سے ہی کچھ ہو رہا ہے میں اس کے بغیر کیسے رہوں گی میں تین ہفتے میری تو جان اس میں اٹکی ہوئی ہے ۔۔
میں نے بہت کوشش کی کہ حرم کا مسئلہ حل ہو جائے لیکن اس کے جانے کا مسئلہ حل نہیں ہو پایا ماہم نے افسوس سے کہا۔۔
میں سمجھتی ہوں تمہاری حالت ماہم لیکن تم بالکل بے فکر ہو کے جاؤ چند ہفتوں کی تو بات ہے اور تم بالکل بے فکر رہو یہاں پہ اسے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہوگی میں اس کا بھرپور خیال رکھوں گی میں وعدہ کرتی ہوں تم سے ۔۔
میں جانتی ہوں بھابھی اپ اور بھائی اسے کسی قسم کی کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی مجھے اس چیز کی فکر ہے کہ میرے بعد میری بیٹی کیسے رہے گی کیونکہ میں جانتی ہوں مجھ سے زیادہ محبت کرنے والے ماں باپ اس کے پاس موجود ہیں ۔ اس کے ماموں اور مامی کی صورت میں ۔۔
میں بس اپنے دل کا حال بتا رہی ہوں جو کہ بہت تڑپ رہا ہے ۔۔
میرا جانا بھی ضروری ہے ۔۔
ورنہ میں اپنی اتنی چھوٹی بچی کو چھوڑ کر کبھی نہ جاتی ۔۔۔
تین ہفتوں کی ہی تو بات ہے ماہم تم واپس ا جاؤ گی ۔۔
سکندر نے اپنی بہن کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا ۔۔
10 بجے کے قریب وہ لوگ ایئرپورٹ کے لیے نکلنے والے تھے ۔۔
چلو تم دونوں اپنا بہت سارا خیال رکھنا اور خیریت سے جانا سکندر نے کہا ۔۔۔
جی بھائی اپ بھی اپنا اور بھابھی کا بہت بہت سارا خیال رکھیے گا ۔۔ماہم ان دونوں سے باری باری گلے ملی اور پھر اپنی ننھی سی جان کے پاس ائی ۔۔وہ چھوٹی سی ننھی سی معصوم سی جان اس وقت بڑے مزے سے سو رہی تھی ۔۔۔
میں تمہیں بہت مس کروں گی میری پیاری بیٹی ۔۔۔
مما کو معاف کر دینا اگر مجبوری نہ ہوتی تو ماما اپ کو چھوڑ کے کبھی نہیں جاتی ۔۔ماہم اب حرم کو بے تحاشہ پیار کر رہی تھی اور اس کی نم انکھیں اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ بہت دکھی ہے ۔دوسری طرف منصور کا بھی یہی حال تھا وہ اپنی ننھی سی جان کو چھوڑ کر جانے کے لیے بڑا ہی افسردہ تھا ۔۔حرم کے اندر منصور اور ماہم دونو ں کی جان بستی تھی ۔ ۔۔
اللہ کے امان میں ۔۔۔
ماہم اور منصور نے باری باری حرم کو چوما اور پھر اسے مریم کی گود میں دے دیا ۔۔۔
وہ دونوں ایئرپورٹ کے لیے نکل چکے تھے اور ان دونوں کو ایئرپورٹ چھوڑنے کے لیے سکندر خود ائے تھے جبکہ مریم حرم کے ساتھ گھر میں تھی ۔۔۔
ان دونوں کی فلائٹ دیر رات تقریبا ڈیڑھ بجے کی تھی ۔۔۔
سکندر ۔ منصور اور ماہم دونوں کو ایئرپورٹ چھوڑ کر واپس اگئے جب تک مریم اپنے تمام کام نمٹا چکی تھی ۔۔۔
مریم اس وقت بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ میں حرم تھی جو اب جاگ رہی تھی وہ حرم کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔۔
اٹھ گئی ہے یہ ۔۔
سکندر نے کمرے میں اتے ہوئے کہا ۔۔اور پھر خود بھی مریم کے برابر میں ا کر بیٹھ گئے ۔۔۔
مریم بس حرم کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔۔
تم پریشان مت ہو ۔۔
انشاءاللہ تعالی ہمارے گھر بھی ضرور اولاد ہوگی ہم ماں باپ بنیں گے ۔۔۔
انشاءاللہ مجھے اللہ سے پوری امید ہے کہ وہ میری گود بھی بھر دے گا ۔۔ چار سالوں سے میں نے اللہ کے اگے بڑی دعائیں کی ہیں اپنی اولاد کے لیے اور میں جانتی ہوں میری دعائیں وہ ضرور سنتا ہے اور ایک نہ ایک دن وہ مجھے اولاد سے ضرور نوازے گا ۔۔
انشاءاللہ امین ۔۔سکندر نے کہتے کہ ساتھ اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔
خیریت سے پہنچ گے تھے آپ لوگ ایئرپورٹ ۔۔۔
ہاں اللہ کا شکر ہے پہنچ گئے تھے ۔۔۔
اگلی صبح سنڈے کی تھی سکندر اس وقت گھر پر موجود تھے اور ملازم اپنا کام نمٹا رہے تھے ۔۔
سکندر صبح واک کر کے سیدھا گھر ائے تھے جبکہ ملازم ٹیبل پر ناشتہ لگا رہے تھے ۔۔۔۔
ناشتہ ختم ہوا تو وہ ٹی وی لاؤنج میں ا کر بیٹھ گئے اور انہوں نے ٹی وی ان کیا ۔۔
انہوں نے چینل سرچ کرنا شروع کیے اور پھر تھوڑی دیر سپورٹس دیکھنے کے بعد نیوز لگائی ۔۔۔
نیوز چینلز میں ہر طرف بڑی بھگدڑ سی مچی تھی ۔۔۔
ایک لمحے کے لیے تو وہ سمجھ نہیں پائے ۔۔
پھر ذرا صوفے سے اگے کو ہو کر انہوں نے ایک دو اور چینل اگے پیچھے کیا اور پھر جیسے وہ رک گئے تھے جیسے کسی چیز پر یقین کرنے کی کوشش کر رہے ہوں انہیں اپنی انکھوں سے دیکھے جانے والے منظر پر اور اپنے کانوں سے سنے جانے والے الفاظ پر یقین نہیں ہو رہا تھا پیروں کے نیچے سے زمین نکلنا کیا ہوتا ہے یہ سکندر کو اج معلوم ہوا تھا ۔۔امریکہ جانے والی فلائٹ دو گھنٹے پہلے کریش ہو چکی تھی ۔۔پلین تباہ و برباد ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔۔۔
ماہم ۔۔۔۔
منصور ۔۔
وہ دونوں بھی اسی فلائٹ میں تھے ۔۔۔۔
مریم ۔۔۔۔
مریم ۔۔۔۔
منظور۔۔۔۔ ماہم ۔۔۔۔
مریم ان کی اواز سنتے ہوئے فورا کچن سے بھاگی ۔۔۔۔
وہ دیوانہ وار مریم مریم پکار رہے تھے ۔۔۔
مریم جتنی تیزی سے ان کے پاس ا سکتی تھی فورا ان کے پاس ائی ۔۔
یہ یہ خبر۔۔ ۔خبر سنو یہ دیکھو یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔۔
یہ نیوز والے کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔
سکندر کی اواز میں ایک خوف تھا ایک گھبراہٹ تھی ۔۔۔
دوسری طرف مریم کا بھی برا حال تھا ۔۔۔۔
یا خدا یہ کیا قیامت نازل ہو گئی ہم پر ۔۔
مریم میری بہن اور میرا بہنوئی ۔۔۔ ۔
سکندر کی اواز کانپ رہی تھی ۔۔۔
سکندر آپ ۔۔آپ حوصلہ رکھیں ۔۔۔ حوصلہ رکھیں ۔۔۔
مریم ۔۔۔۔
میرا ۔۔میرا موبائل کہاں ہے ۔۔سب کو انفارم کرو میں جا رہا ہوں ۔۔ مجھے ابھی نکلنا ہوگا سکندر اپنی انکھوں سے انسو پوچھتے ہوئے اپنا موبائل والٹ اور گاڑی کی چابیاں لیتے ہوئے بھاگے ۔۔۔مریم نے منصور کے تمام رشتہ داروں کو انفارم کیا ۔۔حادثہ دو گھنٹے پہلے کا تھا ۔۔
اور اتنی صبح سویرے کچھ لوگ اس خبر سے بالکل بے خبر تھے ایک بھگدڑ سی مچ گئی تھی ۔دونوں گھر والوں کے درمیان ۔۔وہاں منصور کی فیملی کا بھی یہی حال تھا اور ماہم کی بھی ۔۔دونوں گھروں میں اچانک طوفان برپا ہو گیا تھا ۔۔۔
سکندر پوری رات اور اگلی صبح بھی گھر نہیں ائے ۔۔مریم سے ان کا رابطہ بہت ہی کم ہو پا رہا تھا ۔جبکہ منصور کے کچھ رشتہ دار مریم کے گھر پر موجود تھے۔۔۔۔
جو پاکستان میں رہتے تھے ۔۔
اگلی صبح بھی گزر چکی تھی دوپہر کا وقت شروع ہو گیا تھا دوپہر کے ساڑھے تین بجے کے قریب اخر کار مریم کا رابطہ سکندر سے ہو گیا تھا ۔۔۔
کیا ہوا سکندر اپ خاموش کیوں ہیں میرا دل بیٹھا جا رہا ہے کچھ تو بتائیں ۔۔۔۔
مریم کی انکھوں سے انسو رواں تھے ۔۔۔۔
ہماری فیملی کے دونوں فرد انتقال کر چکے ہیں ۔۔ماہم اور منصور شناخت ہو گئی ہے ۔۔
نیوز میں بالکل صحیح بتا رہے تھے کوئی نہیں بچا سب انتقال کر گئے ہیں ۔۔
سکندر اب مزید ضبط نہیں کر پائے اور ان کی آنکھوں سے انسو بہت تیزی سے بہنے لگے ۔۔دوسری طرف ماہم کا بھی یہ حال تھا ۔۔اس کے ہاتھ میں اس وقت حرم تھی ۔۔مریم کو یقینا اس وقت کسی سہارے کی ضرورت تھی ورنہ وہ گر جاتی ۔۔
وہ ایک ہاتھ سے حرم کو اٹھائے دوسرے ہاتھ سے فون کان پہ لگائے صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔
کل صبح تک ڈیڈ باڈیز بھی مل جائیں گی ۔۔
اور میری معصوم سی بچی اس بات سے بالکل بے خبر ہے کہ اس کے ماں باپ اس کو چھوڑ کر بہت دور چلے گئے ہیں ۔۔۔
منصور اور ماہم دونوں بہت دکھی تھے لیکن اس کے پیچھے یہ وجہ تھی کے وہ دونو ں ہمیشہ کیلئے ۔۔۔۔۔سکندر اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے ۔۔
چھ مہینے کی عمر میں ۔۔حرم۔۔۔حرم یتیم ہو گئی مریم حرم یتیم ہو گئی ۔۔۔
مریم سے اب رہا نہیں گیا ۔۔اس نے فون بند کر دیا وہ سکندر کی ہچکیاں اب مزید نہیں سن سکتی تھی ۔۔وہ سکندر کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتی تھی کہ اس وقت ان کا کیا حال ہوگا ۔۔مریم نے حرم کو اپنے سینے سے زور سے لگایا اور پھر حرم کو اپنے ساتھ لگائے نہ جانے کتنی دیر تک وہ روتی رہی ۔۔۔
اللہ کو یہی منظور تھا میری جان ۔۔تمہارے ساتھ تمہارے ماں باپ کا ساتھ بہت ہی کم وقت کے لیے تھا وہ حرم کے دونوں گالوں پر پیار کرتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی میری پیاری بچی کو تو معلوم بھی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہو چکا ہے ۔۔۔۔
میں وعدہ کرتی ہوں تم سے حرم میں تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گی میں تمہیں اپنی بیٹی سے زیادہ چاہوں گی میں تم سے وعدہ کرتی ہوں ۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment