تیرے لیے


قسط نمبر 19 


مصنفہ منال علی


 سیکنڈ لاسٹ ایپیسوڈ 


السلام علیکم کیسے ہیں اپ ۔۔

وعلیکم السلام میں بالکل ٹھیک ہوں اپ سنائیں اپ کیسے ہیں ۔۔۔

حمدان ہنا اور سیم اس وقت ایک بہت ہی اچھے ریسٹورنٹ میں موجود تھے ۔۔۔

ہمدان جیسے ہی دبئی سے ایا تھا وہ ہنا سے ملا تھا اور حنا نے اسے سیم سے ملوانے کے لیے ایک ریسٹورنٹ بلایا تھا ۔۔۔


حنا نے بہت تعریف کی تھی اپ کی اپ سے مل کر بہت اچھا لگا ۔۔ حمدان نے سیم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔


ریلی ۔۔میری تعریف کی تھی تم نے ۔۔۔سیم نے مسکرا کر ہنا کو ذرا تنگ کیا ۔۔


بہت باتیں کرتی ہے حنا تمہارے بارے میں ہمدان تم واقعی اس کے بہت اچھے دوست ہو ۔یہ تھوڑا اداس تھی کہ تم اس کی منگنی پر نہیں تھے لیکن ائی ایم ہیپی کے تم جیسے ہی آے فورا اس سے ملنے کے لیے آ گے ۔

 اور اسی وجہ سے میری بھی تم سے ملاقات ہو گئی ۔۔۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہنا میری بہت اچھی دوست ہے اور ہمیشہ رہے گی لیکن میں خصوصا اپ سے ملنے کے لیے ایا ہوں میں نے ہنا سے کہا تھا کہ جب بھی ممکن ہو مجھے سیم سے ضرور ملوائے ۔

اپ سے ایک ریکویسٹ کرنا چاہتا ہوں میری دوست کو بہت خوش رکھیے گا یہ بہت اچھی ہے اور اپ کا بہت خیال رکھے گی ۔۔


اس میں کوئی شک نہیں حنا بہت اچھی لڑکی ہے ۔ تم بالکل بے فکر رہو میں اس کا بہت خیال رکھوں گا ۔۔۔


حنا نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا ۔۔


چلیں ائیں بیٹھتے ہیں کچھ ارڈر کرتے ہیں کھانے کے لیے ۔

ہمدان نے کہا ۔۔۔

اور یہ ڈنر میری طرف سے اپ دونوں کے لیے حمدان نے مسکرا کر ان دونوں کو دیکھا اور پھر ایک بہت خوبصورت سا باکس ہنا کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔

میں تمہاری منگنی پہ نہیں ا سکا اس لیے ائ ایم سوری اور یہ تمہاری منگنی کا گفٹ ہے ۔۔

جب کہ اس نے دوسری طرف ایک اور پیکٹ بڑھایا جس میں ایک بہت ہی زبردست پرفیوم تھا اور ایک اچھی سی گھڑی جو وہ سیم کو دے رہا تھا ۔۔۔

حنا نے وہ سرخ رنگ کا باکس کھولا تو اس کے اندر بہت خوبصورت ڈائمنڈ کی ایئرنگز تھے ۔۔


بہت شکریہ حمدان بہت خوبصورت ہیں سارے گفٹس ۔۔


مجھے خوشی ہوئی کہ اپ لوگوں کو پسند ائے ۔۔۔۔

بہت ہی اچھے اور پرسکون ماحول میں ان تینوں نے ہنسی خوشی کھانا کھایا ۔۔۔۔

کھانا کھانے کے بعد حمدان واپس اپنے گھر اگیا ۔۔

اس نے حرم منصور کا دروازہ بجایا ۔۔

لیکن وہ دروازے نہیں کھول رہی تھی ۔۔۔

اسے ائے ہوئے دو دن ہو چکے تھے لیکن اس نے حمدان کی طرف دیکھا تک نہیں تھا ۔۔

دو دن ہو گئے ہیں مجھے یہاں پر ائے ہوئے میں نے اپ کو ٹھیک سے دیکھا تک نہیں ہے ۔

دروازہ کھولیں بات کرنی ہے اپ سے ۔۔وہ دروازے کے باہر کھڑا حرم منصور سے کہہ رہا تھا جو بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اس نے حمدان کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا وہ خاموش رہی یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر چلا گیا ۔ 


________________________


شہزاد اس وقت شوکت صاحب کے کمرے میں موجود تھا ۔۔۔۔

سامنے ہی بیڈ پر شوکت صاحب اور ان کی بیوی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔


بات کرنا چاہتا ہوں اپ دونوں سے کچھ ۔۔


ہاں شہزاد کہو کیا کہنا چاہتے ہو ۔۔۔


وہ ا کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔


میں نکاح کرنا چاہتا ہوں اس نے بغیر وقت ضائع کیے سیدھی بات کی جو وہ کہنے کے لیے ایا تھا ۔۔


شوکت صاحب اور ان کی بیوی نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر شوکت صاحب ذرا سیدھے ہو کر بیٹھے ۔۔۔

بہت خوشی ہوئی سن کر لیکن یوں اچانک ۔۔۔

کس سے کرنا چاہتے ہو نکاح؟؟

 شوکت صاحب نے کہا ۔۔


ہاں ۔۔۔ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم نے تم سے پوچھا تھا شادی کا لیکن تم نے صاف منع کر دیا بلکہ تمہارا رویہ شادی کو لے کر بہت سخت تھا تم سننا بھی نہیں چاہتے تھے شادی کے بارے میں میں تو دوبارہ تم سے پوچھتے ہوئے بھی ڈر رہی تھی اور اب تم اچانک کہہ رہے ہو کہ تمہیں نکاح کرنا ہے برابر میں بیٹھی ہوئی شوکت صاحب کی بیوی نے بہت ہی حیرانی سے شہزاد کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔


 

جی ممی بس کچھ ایسا ہی ہے میرا اچانک سے ارادہ بن گیا ۔۔۔


ٹھیک ہے یہ تو بہت اچھی بات ہے ہم تو کافی عرصے سے چاہ رہے تھے کہ تم شادی کر لو لیکن تم ہی ہمیں بار بار انکار کرتے تھے ۔۔۔کس سے نکاح کرنا ہے یہ تو بتاؤ ۔۔۔شوکت صاحب نے شہزاد کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔


اسی لڑکی سے جس لڑکی کی اپ کو خواہش تھی کہ وہ اپ کی بہو بنے ۔۔


شوکت صاحب نے چونک کر شہزاد کو دیکھا اور پھر برابر میں بیٹھی ہوئی اپنی بیوی کو ۔۔ 


حرم سے۔۔۔۔حرم سے شادی کرنا چاہتے ہو تم ۔۔۔


جی ۔۔۔


شوکت صاحب ایک لمحے کے لیے بالکل خاموش ہو کر رہ گئے ۔۔

ٹھیک ہے مگر ۔۔

یہ تو تم کہہ رہے ہو نا کہ تم حرم سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن حرم کا کیا وہ شادی نہیں کرے گی مجھے پتہ ہے تم سے تو کیا کسی سے بھی نہیں۔۔۔۔

 وہ بچی اپنی زندگی میں اب اگے نہیں بڑھ سکتی ۔۔۔بہت سال ہو گئے ہیں اس واقعے کو لیکن وہ اب تک اسے بھول نہیں پائی شہزاد ۔۔


اپ کو یہ بات سن کے بہت زیادہ حیرانی ہوگی کہ اس نکاح کے لیے مجھے حرم منصور نے خود کہا ہے کہ میں اس سے نکاح کر لوں ۔۔۔۔

دوسرا جملہ شہزاد کا ان کو مزید حیران کر دینے والا تھا ۔۔۔۔


حرم نے تم سے یہ خود کہا ہے میں نہیں مان سکتا ۔۔۔۔

اپ کو ماننا پڑے گا بابا میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں بلکہ اس نے مجھ سے ریکویسٹ کی ہے کہ میں اس سے نکاح کر لوں ۔۔ 

جبکہ میں یہ بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں کہ میں اس لڑکی کے قابل نہیں ۔۔۔

شہزاد کے چہرے پر مایوسی کے بادل چھائے ۔۔۔۔


تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو ۔۔۔


پتہ نہیں ۔۔۔

لیکن میں اس کے قابل نہیں ۔۔اور جب اس نے مجھ سے یہ کہا تو میں اسے منع نہیں کر پایا ۔۔۔میں ا س سے ہمیشہ کہتا تھا کہ مجھے اسے اگے بڑھتے ہوئے دیکھنا ہے ۔۔۔

اگر وہ میرے ساتھ زندگی میں اگے بڑھ جاتی ہے تو مجھے خوشی ہوگی ۔۔


ٹھیک ہے تم کب چاہتے ہو کے ہم وہاں تمہارا رشتہ لے کر جاۓ ۔۔


کل ۔۔۔


ہیں کل ۔۔۔؟؟؟؟

اتنی جلدی کچھ تیاری بھی نہیں ہے ہماری بیٹا ہانیہ صاحبہ نے کہا ۔۔۔


تو کیا ہوا ممی سب ہو جاۓ گا ۔۔۔


پھر بھی ہم سکندر بھائی اور مریم کو بتا تو دیں کے ہم لوگ کل آ رہے ہیں ۔۔۔


ہاں یہ بھی بتا دیں اپ لوگ کے سب کچھ کل ہی طے ہو جاۓ ۔۔


کیا مطلب ۔۔ہانیہ صاحبہ نے حیرانی سے کہا ۔۔۔


مطلب نکاح کا دن ۔۔۔میں کوئی ہنگامہ نہیں چاہتا سب کچھ بہت سادگی سے ہو میں اور حرم دونو ں یہی چاھتے ہیں ۔۔۔۔

شہزاد کی بات پر دونو ں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔


ٹھیک ہے جیسا تم کہو ۔۔۔شوکت صاحب نے کہا ۔۔۔۔


حرم اس وقت اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا موبائل بجا اس نے دیکھا تو شہزاد تھا ۔۔۔

 وہ جانتی تھی کہ وہ کیا بولے گا ۔۔۔

ہاں وہ چاہتے ہونگے کے میں انہیں اور وقت دوں ۔۔۔وہ یہی سوچ رہی تھی ۔۔۔


ہیلو ۔۔۔اس نے فون اٹھایا ۔۔۔


کسی ہو تم ۔۔


ٹھیک ۔۔


کل میرے پیرنٹس ایں گے تمہارا رشتہ لینے اور نکاح کی تاریخ لینے میں چاہتا ہوں سب جلدی ہو جاۓ ۔۔اور سادگی سے بھی ۔تم بتاؤ تم کیا کہتی ہو ۔۔۔۔؟؟


دوسری جانب وہ بے حد حیران تھی ۔۔ بے حد حیران ۔۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔۔؟؟؟

میرا مطلب اتنی جلدی ۔۔۔

اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ شہزاد اتنی جلدی کوئی قدم اٹھا لے گا ۔۔


ہاں تم بتاؤ حرم تم کیا کہتی ہو اس بارے میں شہزاد نے اپنی بات دوبارہ سے دہرائی تو اس کو جیسے ہوش ایا ۔۔۔


میں ۔۔۔میں نے کیا کہوں اسے سمجھ نہیں ایا کہ وہ کیا کہے ۔۔


کل میرے پیرنٹس ائیں گے بابا نے بات کر لی ہے سکندر انکل سے تم بس وہ بتاؤ جو مینے پوچھا ہے تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے جلدی نکاح پر ۔۔۔۔

وہ خاموش رہی ۔۔۔۔

ایک لمحے کے لئے حمدان کا چہرہ اس کے سامنے آیا ۔۔۔

اور اس کی ساری باتیں اس کے ذہن اور کانو میں گونجنے لگی ۔۔۔

وہ اپنی کسی بات سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا وہ یہ بات جانتی تھی ۔۔۔

جتنی جلدی ہو سکے اسے یہاں سے چلے جانا تھا ۔۔تاکہ وہ ہمدان سے دور ہو جائیں ۔۔ یہی سب کے لیے بہتر تھا۔۔کے وہ اب اس گھر سے چلی جائے ۔۔۔


میں راضی ہوں اس نے کچھ وقت کے بعد کہا ۔۔۔


ایک بار پھر خاموشی چاہ گئی ۔۔


شہزاد۔۔۔۔

 کچھ وقت کے بعد حرم نے اسے پکارا ۔۔


ہاں کہو سن رہا ہوں ۔۔۔


بہت بہت شکریہ اپکا اپ نے مجھ پر احسان کیا ہے ۔۔۔۔


نہیں حرم ایسا کچھ نہیں ہے یہ کام مجھے بہت سالو پہلے کر دینا چاہئے تھا ۔۔۔

تم بس اپنے دل میں میرے لئے کبھی بھی نفرت پیدا ہونے مت دینا پلیز ۔۔۔اور ہو سکے تو مجھے معا ف کر دینا ۔۔۔۔۔


مگر اپ کس چیز کی معافی مانگ رہے ہیں مجھ سے ۔؟؟


شہزاد حرم کی بات پر اہستہ سے مسکرایا بس تم یہ چھوڑو کہ کس چیز کی معافی بس تم مجھے معاف کر دینا چلو پھر تم سے دوبارہ بات ہوتی ہے خدا حافظ ۔۔

شہزاد نے کہہ کر فون اچانک بند کر دیا جبکہ حرم حیرانی سے اپنی جگہ پر بیٹھی ہوئی شہزاد کی بات سوچ رہی تھی کہ وہ نہ جانے کس چیز کی معافی مانگ رہا تھا اس سے ۔۔۔۔


اگلے دن شہزاد اور اس کے پرنٹس حرم کے گھر اس کا رشتہ لینے کے لیے ا گئے تھے ۔۔۔

حرم کے لیے یہ تھوڑا سا حیران کن تھا کیونکہ شہزاد اتنی جلدی کوئی قدم اٹھائے گا یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔


سکندر ہم حرم اور شہزاد کی شادی کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔

بہت سال پہلے اگر تمہیں یاد ہو تو ہمارے درمیان اس رشتے کی بات ہوئی تھی لیکن بیچاری حرم کے ساتھ ایک ایسا برا واقعہ ہو گیا کہ وہ بات دوبارہ نکل ہی نہیں پائی نہ تمہاری طرف سے اور نہ ہی ہماری طرف سے لیکن اب ان دونوں نے فیصلہ کر لیا ہے اور شہزاد جلد از جلد نکاح چاہتا ہے بے حد سادگی سے حرم کی بھی یہی ارزو ہے وہ دونوں سادگی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں یعنی کہ اس میں تمہارے گھر والے اور ہمارے گھر والے ہی ہوں گے ۔۔۔۔


ہاں شہزاد نے مجھ سے بات کی تھی اس بارے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔

اور حرم بھی راضی ہے لیکن یہ ہے کہ اگر کچھ وقت مل جاتا تو اور تیاری ہو جاتی ۔۔۔


ٹھیک ہے تو پھر ایک ہفتے بعد نکاح رکھتے ہیں ۔شوکت صاحب نے جیسے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا ۔۔۔


ہاں یہ زیادہ بہتر ہے کم از کم ایک ہفتہ تو ہمیں مل جائے تیاری کیلئے ۔۔

 ٹھیک ہے تو پھر ایک ہفتے کے بعد انشاءاللہ تعالی ان کا نکاح ہوگا ۔۔۔سکندر نے کہا ۔۔۔


چلو اؤ منہ میٹھا کرتے ہیں ۔۔۔مجھے بے حد خوشی ہوگی کہ حرم اگر میرے گھر میری بیٹی بن کر ائے گی ۔۔۔


بس شو کت میں تم سے یہی چاہتا ہوں کہ تم میری حرم کو کبھی بھی کسی قسم کی کوئی بھی کمی محسوس نہ ہونے دو اور اسے بہت محبت سے رکھو ۔


ظاہر ہے یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے جس طرح سے حنا میری بیٹی ہے بالکل اسی طر ح سے حرم بھی میری ہی بیٹی ہے ۔۔ ۔۔

وہ سب ساتھ میں ایک دوسرے کا منہ میٹھا کروا رہے تھے جب ہمدان اندر داخل ہوا ۔۔۔


حرم اس وقت موجود نہیں تھی وہ منہ میٹھا کروانے سے قبل ہی اپنے کمرے میں جا چکی تھی ۔۔

 


وہ لوگ شام کے وقت ائے تھے ۔۔اور حمدان کو ان لوگوں نے اس رشتے کے بارے میں کہ وہ لوگ کب طے کرنے کے لیے ا رہے ہیں کچھ بھی نہیں بتایا تھا سب اس سے چھپایا تھا ۔۔۔

کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر اسے پتہ چل گیا تو وہ ہنگامہ کھڑا کر دے گا اور یہ شادی نہیں ہونے دے گا ۔۔

اسی لیے حرم نے سکندر اور مریم سے یہ گزارش کی تھی کہ وہ حمدان سے ہر چیز چھپا کر رکھیں تب تک جب تک یہ رشتہ طے نہ ہو جائے۔۔۔۔

 اور نکاح کی تاریخ اگلے ہفتے کی طے ہو چکی تھی تو وہ کچھ مطمئن تھی ۔ 

وہ اندر داخل ہوا اور اس نے بے حد محبت کے ساتھ سب کو سلام کیا ۔۔


تم کہاں تھے ۔۔۔شوکت صاحب نے اس سے گلے ملتے ہوئے کہا ۔۔۔

میں ہاسپٹل میں تھا بس اب ا چکا ہوں گھر اپ سنائیں اپ کیسے ہیں اور انٹی اپ کی طبیعت ٹھیک ہے ۔۔۔


اللّه کا شکر ہے بیٹا ۔۔۔


حنا اور شہزاد بھائی نہیں ائے اپ کے ساتھ ۔۔


یار حنا تو اپنے سسرالیوں کے ساتھ مصروف ہے وہ لوگ اسے شاپنگ کروانے کے لیے لے کے گئے ہیں اور شہزاد اپنے کاموں میں مصروف تھا ۔۔

تم سب چیزیں چھوڑو اؤ منہ میٹھا کرو ۔۔شوکت صاحب نے کہتے ہوئے ہمدان کے منہ میں مٹھائی ڈالی ۔۔۔

منہ میٹھا کس چیز کا ہمدان کو جیسے حیرت ہوئی ۔۔۔


ہم نے شہزاد اور حرم کا رشتہ طے کر دیا ہے اور اگلے ہفتے ان دونوں کا نکاح ہے ۔۔۔


شوکت صاحب نے اتنے پرسکون انداز میں یہ الفاظ کہے جو کہ حمدان کی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھے ۔۔


کیا مطلب؟؟؟؟ کیا کہا اپ نے؟؟؟

 اسے یوں لگا جیسے اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے جبکہ سکندر اور مریم پریشانی سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔


ہاں ہاں تم نے بالکل صحیح سنا تمہاری حرم جی کو اب ہم اپنے گھر لے کے جا رہے ہیں شہزاد کی دلہن بنا کر ۔۔۔


حمدان کو لگا کہ اس کے سر پر ایک بہت بھاری پہاڑ گر گیا ہے ۔۔

کچھ دیر تک وہ کچھ بول نہیں پایا اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے منہ میں سارے الفاظ ختم ہو گئے ہوں ۔۔۔۔۔

رشتہ طے ہو گیا ۔۔اگلے ہفتے نکاح ہے ۔۔وہ جیسے بے حد حیرانی سے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔

 ایسے اپنی اواز کسی کھائی سے اتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اچانک اس کے دل میں ایک شدید تکلیف اٹھی تھی ۔۔انکھوں کے اندر جیسے ڈھیر سارے انسو ا کر جمع ہو گئے ہوں جسے وہ نکالنا نہیں چا ہ رہا تھا ۔۔۔کسی نے اس کی چوٹ کے اوپر بہت زور سے کیل ٹھوکی تھی اور وہ زہریلی کیل ٹھوکنے والے کوئی اور نہیں بلکہ اس کے اپنے گھر والے تھے جو اس سے چھپ کر اس سے چھپا کر اس کی محبت کو کسی اور کے ہاتھوں میں دے رہے تھے ہر چیز جانتے پوچھتے ہوئے ۔۔۔۔


کیا ہوا تم ٹھیک ہو ؟؟ حیران کیوں ہو ؟؟؟


نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے انکل ۔۔اگلے ہی لمحے اس نے اپنے اپ کو قابو کیا وہ ان کے سامنے کسی قسم کا کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ حرم منصور کے نکاح کی خبر سن کر کس قدر بے چین اور ٹوٹ گیا ہے ۔۔

اپ لوگ بات کریں ذرا مجھے ایک امپورٹنٹ کال کرنی ہے میں کر کر اتا ہوں ۔۔

اس کے ہاتھ میں شوکت صاحب کی دی ہوئی مٹھائی موجود تھی اور وہ مٹھائی اسے کسی زہر سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔باہر گارڈن ایریا میں ا کے اس نے جیسے کھل کر سانس لیا ہو ۔۔۔

اس نے ایک نظر اس مٹھائی کو دیکھا وہ مٹھائی نہیں تھی وہ اس کے ارمانوں کا اس کے خوابوں کا اس کی محبت کا قتل تھا ۔۔۔

کیسے ایسا کیسے کر سکتے ہیں یہ لوگ مجھ سے چھپا کر یہ سب کچھ کر رہے تھے اور مجھے اس چیز کی خبر تک نہیں ہوئی ۔۔۔وہ تیز تیز چل رہا تھا اور اس کی سانس تیز ہو رہی تھی ۔۔۔

حرم جی میرے ساتھ یہ کیسے کر سکتے ہیں کیسے ۔۔۔

ماں اور بابا نے بھی مجھ سے جھوٹ کہا مجھ سے چیزیں چھپائی ۔انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ حرم جی کو میرے لیے منا لیں گے لیکن وہ دونوں وہ دونوں تو حرم جی کو شہزاد بھائی کے ہاتھ میں دینے کا سوچ رہے ہیں ۔۔ 

چاہے کچھ بھی ہو جائے میں ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔

اگلے ہی لمحے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا تھا ۔۔۔


جب وہ دیر رات کو واپس ایا تو وہ سب ایک ساتھ بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔۔۔حمدان کو اندر اتا ہوا دیکھ کر وہ تینوں جیسے حیران تھے ۔۔۔اس کی حالت کافی خراب تھی ۔۔۔

یقینا اس کی گاڑی سے کسی کی ٹکر ہوئی تھی ۔۔۔

اس کے ہاتھ پر زخم تھا ۔۔۔

وہ تینوں ا سے دیکھ کر کھڑے ہو گئے ۔۔۔

کیا ہو گیا ہے تمہیں ہمدان مریم تیزی سے اس کی طرف بڑی جب کہ حرم وہیں کھڑی رہی ۔۔۔

ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے کیا گاڑی کا ۔۔؟؟

سکندر نے جیسے اندازہ لگایا ۔۔۔

حمدان نے کچھ نہیں کہا بلکہ وہ اپنے بالکل سامنے کھڑی حرم منصور کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔

بالکل خاموشی سے ۔۔۔۔ان دونوں کی نظر یں ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھی ۔۔جبکہ حرم اب وہاں سے جانے لگی کہ وہ تیزی سے اگے بڑھا ۔۔۔

کیسے کیسے کر سکتی ہیں اپ یہ ۔۔۔

اس نے حرم منصور کا ایک بازو پکڑ کر اسے تیزی سے روکا تو سکندر اور مریم فورا اس کی طرف پہنچے ۔۔۔

اپ دونوں یہ کیسے کر سکتے ہیں میرے ساتھ کیسے ۔۔اس نے جگ اٹھا کر زور سے زمین پر مارا ۔۔۔

ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اپ تینوں مل کر مجھ سے چیزیں چھپا رہے ہیں اپ دونوں نے حرم جی کی شادی شہزاد بھائی سے طے کرتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں اپ لوگوں نے مجھے یہ یقین دلایا کہ اپ حرم جی کو راضی کر لیں گے اور اپ دونوں میرے پیچھے ان دونو ں کی شادی کر رہے ہیں۔۔۔۔ میری پیٹھ کے پیچھے میرے خلاف سازش وہ بھی اتنی خوفناک مجھے تکلیف پہنچا دینے والی مجھے توڑ دینے والی اپ دونوں کو میرا احساس نہیں ۔۔۔

کیا اپ دونوں بھی بالکل حرم جی کی طرح ہو گئے ہیں پتھر دل ۔۔اس نے اخری الفاظ پر زور دیتے ہوئے حرم منصور کو دیکھا ۔۔۔


دیکھو حمدان میں تمہیں بہت پہلے ہی بتا چکی ہوں سب کچھ کہ جیسا تم چاہتے ہو ویسا کچھ بھی ممکن نہیں ۔۔میں تمہیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی ہوں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں اور جو محبت تم مجھ سے چاہتے ہو وہ میں تم سے کبھی نہیں کر سکتی ۔۔

حرم منصور وہاں سے جانے لگے کہ حمدان نے تیزی سے اسے دوبارہ سے روکا ۔۔۔۔


کیا کر رہے ہو چھوڑو اس کا ہاتھ اس بار سکندر صاحب بیچ میں ائیں اور انہوں نے بے حد غصے سے ہمدان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ 

تمہارا دماغ ٹھیک ہے پاگل تو نہیں ہو گئے ہو تم ۔یہ کیسی بدتمیزی ہے ۔۔۔۔

حرم اس رشتے کے لیے راضی تھی اور شہزاد بہت اچھا لڑکا ہے بہت خوش رکھے گا اسے ۔۔۔اور ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور سب سے بڑی بات حرم کو کوئی اعتراض نہیں حرم خود چاہتی ہے کہ شہزاد سے اس کی شادی ہو جائے اور تمہیں کوئی حق نہیں بنتا کہ تم اس کی زندگی میں دخل اندازی کرو اور اپنے فیصلے قائم کرو ۔۔۔

میں نے تمہیں پہلے بھی کہیں بار سمجھایا ہے کہ وہ تم سے شادی کرنا نہیں چاہتی ۔۔۔لیکن تم ہو کے بات کو سمجھتے نہیں ہو میری ۔۔

ہمارے اوپر مہربانی کرو اور حرم کے اوپر بھی ۔بہت سالوں کے بعد اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب اگے بڑھ جائے اور اگر تم نے اس کی خوشیوں میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ 

حرم کو پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں پر بھی شادی کرے اور وہ جس سے شادی کرنا چاہتی ہے میں راضی ہوں اس لڑکے کے لیے تم کون ہوتے ہو بیچ میں دخل اندازی کرنے والے اگر وہ تم سے شادی نہیں کرنی چاہتی تو کیا زبردستی کرو گے اس کے ساتھ کان کھول کر میری بات سن لو ائندہ میں تمہیں حرم کے ارد گرد نہ دیکھوں اگر تم نے اسے ڈرانے کی یا دھمکانے کی کوشش کی تو میں یہ بھول جاؤں گا کہ تم میرے بیٹے ہو بہت سالوں کے بعد وہ خوش ہونا چاہتی ہے اپنی زندگی میں اگے بڑھنا چاہتی ہے شادی کرنا چاہتی ہے شہزاد سے تم اس کی خوشیوں کے درمیان اگر رکاوٹ بنو گے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔


حمدان خاموش رہا ۔۔۔

کیا اپ کو واقعی لگتا ہے یہ شہزاد بھائی سے شادی کرنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔

یہ شہزاد بھائی سے تو کیا کسی سے بھی شادی کرنا نہیں چاہتی ۔۔یہ صرف اور صرف یہ چاہتی ہیں کہ میں انہیں بھول جاؤں یہ سب کچھ میری وجہ سے کر رہی ہیں یہ یوں دنوں کے اندر شادیاں طے ہو جانا یہ سب کچھ حرم جی اس لیے کر رہی ہیں تاکہ میں ان سے دور ہو جاؤں ۔۔

وہ یہ گھر چھوڑ کر جانا چاہتی ہیں ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہو جانا چاہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شہزاد بھائی سے نکاح کے لیے حامی بھری اور کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔


اپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں میرے ساتھ ۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں اپ سے کس قدر محبت کرتا ہوں اپ نے میری محبت کو ٹھکرا دیا نظر انداز کیا مجھے ۔۔۔


میں اپ کو بہت چاہتا ہوں ایک موقع تو دیں مجھے میں اپ کو بہت خوش رکھوں گا ائی پرومس ۔۔بس اپ شہزاد بھائی سے شادی نہ کریں ۔۔یہ میرے لیے برداشت سے باہر ہے ۔۔۔

 

حمدان کی انکھوں میں انسو تیزی سے ائے ۔۔۔میرے ساتھ یہ مت کریں یہ ظلم ہے ۔۔میں یہ کیسے برداشت کر سکتا ہوں کیسے دیکھ سکتا ہوں کہ کوئی اور اپ کی زندگی میں شامل ہو جائیں میرے علاوہ بچپن سے چاہتا ہوں اپ کو پہلی اور اخری محبت ہیں اپ میری اپ کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔۔۔

اگر اپ کو مجھ سے ذرا سی بھی محبت ہے تو مت کریں یہ میں جانتا ہوں کہ اس میں اپ کی کوئی خوشی نہیں ۔اپ صرف اور صرف مجبوری میں یہ قدم اٹھا رہی ہیں میری وجہ سے لمحے بھر میں اس کا لہجہ یوں ہو گیا جیسے موم سے بھی زیادہ نرم ہو ۔۔۔۔

جبکہ حرم منصور سامنے کھڑی ہوئی خاموشی سے انسو بہا رہی تھی ۔۔ 


میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں حمدان اور اسی وجہ سے میں تم سے شادی نہیں کر سکتی ۔۔

 یہی بہتر ہے تمہارے لیے اور میرے لیے ۔اور اگر تم واقعی میں مجھ سے محبت کرتے ہو تو اپنی اس دیوانگی کو میرے لیے چھوڑ دو یہیں روک دو اسے ورنہ یہ بہت تباہی لائے گی ۔۔ ۔۔کیوں کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔۔۔اس کے اخری بولیں گے جملے نے جیسے ہمدان کو اب توڑ دیا تھا ۔۔۔


سنا تم نے میں نہیں رہنا چاہتی تمہارے ساتھ ۔۔۔

اور وہ اس کے اس اخری جملے سے ٹوٹ کر پاش پاش ہو گیا ۔۔۔


وہ بہت خاموشی سے اسے دیکھتا رہا ۔۔۔بہت دیر تک ۔۔۔۔

یہاں تک کہ مریم کو اپنے بیٹے کی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونا ایا ۔۔۔۔وہ اپنی بیٹے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی ایک طرف اس کا بیٹا تھا تو دوسری طرف اور اس کی بیٹی ان دونوں کو ہی وہ بہت زیادہ چاہتی تھی ماں تھی اس لیے مجبور تھی ۔۔

اس نے ہر فیصلہ اب اللہ پر چھوڑ دیا تھا ۔۔


حمدان جس طرح سے ایا تھا اسی طر ح سے واپس چلا گیا تھا ۔مریم اسے روکنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگی کے سکندر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا ۔۔۔۔


مت کرو اسے اکیلا رہنے دو ۔۔۔۔

اس وقت یہی اس کے لیے بہتر ہوگا ۔۔۔مت جاؤ اس کے پیچھے اسے وقت دو سوچنے کا ۔۔


اگلے دو دن تک وہ گھر واپس نہیں ایا جبکہ ان سب کا پریشانی سے برا حال تھا اس کا موبائل بھی بند تھا ۔۔۔۔

تیسرے روز جب وہ رات کو گھر ایا تو اس کی حالت بہتر تھی ۔۔۔

وہ سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ کے نیچے سیاہ جینز پہنا ہوا تھا ۔۔

حرم کا نکاح اگلے کچھ دن کے بعد تھا ۔وہ اندر ایا تو چیزیں پیک ہو رہی تھیں جس میں حرم کے کپڑے اور جولری تھی۔۔وہ ان چیزوں کو ایک بار دیکھتا ہوا اب سیدھا مریم اور سکندر کے کمرے کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔

میں اپ دونوں کے کمرے میں جا رہا ہوں کچھ بات کرنی ہے اپ سے ۔جب اپ دونوں فری ہو جائیں تو پلیز ا جائیے گا ۔۔۔اس کے لہجے میں ایک ٹھہراؤ تھا ۔۔۔۔

اس بیچارے کا دل ٹوٹ کر چکنا چور ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے اللہ اسی کے ہاتھوں اسے توڑ دیتا ہے ۔۔۔۔اور یہی کام ہمدان سکندر کے ساتھ بھی ہوا تھا ۔۔محبت میں ایک بد نصیب وہ بھی تھا ۔۔یک طرفہ محبت کی تکلیف اسے آج سمجھ ائی تھی ۔۔۔

جس کو یک ظرفہ محبت ہو اسے مارنے کے لیے کسی ہتھیار کسی بیماری کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ا سے اس کا محبوب ہی مار دیتا ہے ۔

جیسے حمدان کو مار رہا تھا ۔۔۔

محبت واقعی بڑی بری چیز ہے انسان کو رسوا کر دیتی ہے ۔کہیں کا نہیں چھوڑتی توڑ کر رکھ دیتی ہے ۔۔


سکندر اور مریم دونوں کمرے میں ائے تو وہ صوفے پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔


ہاں کہو ہمدان کیا کہنا چاہتے ہو مریم بے حد محبت سے حمدان کے برابر میں بیٹھی اور اس نے نرمی سے ہمدان کے بالوں پر پیار کیا ۔۔۔


حمدان نے کچھ نہیں کہا وہ بس خاموشی سے بیٹھے ہوئے ٹیبل کو گھور رہا تھا ۔۔۔


میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں اب مستقل طور پر امریکہ شفٹ ہو رہا ہوں ۔۔۔۔


ہمدان کا بولا ہوا یہ جملے سکندر اور مریم کے اوپر جیسے بجلی کی طرح گرا تھا ۔۔۔


کیا مطلب ہے تمہارا تم ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہو ۔۔۔مریم جیسی بے چین ہو گئی ۔۔۔


ایک فیصلہ اپ لوگوں نے کیا تھا مجھے بغیر بتائے اور ایک فیصلہ میں کر رہا ہوں اپنے لیے ۔۔

اپ لوگوں نے وہ کیا جو میرے لیے بہتر تھا اب میں وہ کر رہا ہوں جو واقعی میرے لیے بہتر ہے ۔۔۔۔


حمدان میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔سکندر نے جیسے نرمی سے اس کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔


سمجھ گیا ہوں بابا سب سمجھ گیا ہوں ۔۔بلکہ بہت اچھے طریقے سے سمجھ گیا ہوں ۔۔۔۔

اور بہت سوچ سمجھ کے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں ۔۔۔


مریم اس سے یہ پوچھ نہیں پائی تھی کہ وہ کب تک جائے گا وہ دونوں ہی بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ حرم کے نکاح سے پہلے پہلے یہاں سے چلا جائے گا ۔۔۔

جانے کا وقت پوچھنا اس کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے برابر تھا ۔۔

اور وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ حرم کے نکاح میں شامل ہو جائے ۔۔وہ جانتے تھے کہ یہ اس کے لیے بے حد تکلیف دہ ہے ۔۔


تم حرم کے لیے اپنا دل خراب مت کرو وہ تم سے بے تحاشہ محبت کرتی ہے یہ بات تم بھی جانتے ہو ۔۔۔مریم نے حمدان کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔اگر وہ یہ سب کچھ کر رہی ہے تو وہ صرف اور صرف تمہارے لیے کر رہی ہے تمہاری محبت کی خاطر کر رہی ہے ۔۔۔۔۔

میں بھی تو یہ سب کچھ ان کی محبت کے خاطر ہی کر رہا ہوں ۔۔ انہوں نے کہا تھا نا کہ اگر کبھی بھی میں نے ان سے محبت کی ہے تو میں ان کے راستے سے ہٹ جاؤں تو میں ہٹ گیا ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔بس ایک اخری بار ان سے ملنا چاہتا ہوں کہاں ہے وہ ۔۔۔۔

وہ کچن میں ہے ۔۔لیکن تمہیں خدا کا واسطہ ہے ہمدان کوئی الٹی سیدھی بات مت کر دینا اس سے ۔۔

اپ بے فکر رہیں ۔۔۔

حمدان کچن میں ایا تو وہ اٹا گوند رہی تھی ۔۔۔

اس کا دوپٹہ ایک طرف پڑا تھا۔۔

اگلے ہی لمحے اذان کی اواز ائی ۔۔۔

حرم نے فورا اپنی انگلیوں سے اٹا صاف کر کے اپنا دوپٹہ اٹھانا چاہا کہ کسی نے وہ دوپٹہ اٹھا کر بہت اہستہ سے اس کے سر پر رکھا اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو پیچھے حمدان کھڑا تھا لمحے بھر کے لیے ان دونوں کو نظر یں ایک دوسرے سے بے حد قریب سے ملیں ۔۔

پھر حمدان نے اس کا دوپٹہ اسے صحیح سے پہنایا ۔۔

نہ جانے کتنی دیر وہ یوں ہی بے مقصد اسے دیکھتا رہا ۔۔۔

پھر اچانک پیچھے ہوا ۔۔۔

دونو ں کے درمیان کچھ وقت تک کوئی بات نہیں ہوئی وہ دونوں یوں ہی خاموشی سے کھڑے ہیں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔

میں اب اپ کو مزید پریشان نہیں کروں گا اور اب اپ مجھے مزید یہاں نہیں دیکھ پائیں گی ۔۔

اپ نے کہا تھا نا اپ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔۔۔

اس لیے میں نے یہاں سے بہت دور جانے کا فیصلہ کیا ہے میں مستقل طور پر امریکہ شفٹ ہو رہا ہوں ۔۔اتنا دور چلے جانے کے بعد اپ کو میرا چہرہ یوں روز روز نظر نہیں ائے گا ۔۔

حرم نے اچانک گردن اٹھا کر حمدان کو دیکھا ۔۔۔۔

تم ایسا کیوں کر رہے ہو ۔۔۔کیوں اپنے اپ کو تکلیف پہنچا رہے ہو جب تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے حمدان مت کرو اپنے ساتھ یہ ۔۔۔

میں کچھ نہیں کر رہا بس اپ سے دور ہو رہا ہوں اپ کی خواہش کے مطابق ۔۔۔

اور اپ سے سوری بھی کہنا چاہتا تھا ۔۔۔

اپنا بہت سارا خیال رکھے گا ۔اللّه پاک آپکو بہت زیادہ خوش رکھے امین ۔۔۔

__________________________________

شامیر شیراز اس وقت رات کی تاریخی میں سڑکوں پر تیز گاڑی چلا رہا تھا ۔۔۔

گاڑی اس نے ایک سنسان جگہ پرروکی ۔۔۔۔۔۔ ایک ایسی سنسان جگہ جو اسے بہت پسند تھی تاریخی میں ڈوبا ہوا سمندر ۔۔۔۔

ہر چیز کے میں بہت قریب ا چکا ہوں ۔۔

وشاکا رافع اور عاطف ۔۔۔

 ۔۔۔ عاطف بھی مل گیا ہے ۔۔۔۔

عاطف کے ملنے کے بعد وہ تیسرا شخص مجھے لازمی مل جائے گا ۔۔میں اپنی منزل کے بہت غریب کھڑا ہوں ۔۔

وہ سامنے سمندر کی تیز لہروں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا ۔۔۔

جس طریقے سے لہریں شور مچا رہی تھیں بالکل اسی طرح شاہ میر شیراز کی زندگی میں بھی ایک شور برپا تھا ۔۔۔۔

اس شور کے اندر اسے کسی کی ہنسی سنائی دی ۔۔۔

اسے یوں لگا جیسے سبز انکھوں والی لڑکی اس کے برابر میں کھڑی ہو اور اس نے اس کے ایک بازؤں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا ہو اور اپنے سر کو اس کے کندھے پر لگایا ہوا ہو ۔۔۔

مجھے پتہ تھا یہ کام صرف اور صرف تم ہی کر سکتے ہو ۔۔۔

 وہ سبز انکھوں والی لڑکی اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر کہہ رہی ہو ۔۔۔۔

اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو ہاں وہی تھی وہی سبز انکھیں خوبصورت چہرے والی لڑکی ۔وہ لڑکی جس سے وہ بہت محبت کرتا ہے ۔۔۔وہ لڑکی جس کی مسکراہٹ کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔

مجھے پتہ تھا اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت صرف اور صرف تم ہی مجھ سے کرتے ہو ۔۔تم ہمیشہ کہتے تھے کہ تم مجھے انصاف دلواؤ گے اور دیکھو تم نے ایک ایک کر کے سب کو پکڑ لیا اور وہ تیسرا شخص جو میرا گنہگار تھا یقینا تم اسے بھی ڈھونڈ لو گے۔۔۔۔۔ ڈھونڈ لو گے نا ۔۔؟

وہ سبز انکھیں اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوری امید کے ساتھ کہہ رہی ہوں ۔۔۔

ہاں بالکل میں اسے ڈھونڈ لوں گا ۔۔میں اپنی منزل کے بہت قریب ہوں تمہیں انصاف ضرور ملے گا ہر ایک کو اس کے کیے کی سزا ملے گی وہ اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیے بے حد محبت سے کہہ رہا تھا ۔۔۔

میں بہت تکلیف میں ہوں ۔۔ان لوگوں نے میری زندگی تباہ کر دی مجھے جیتے جی مار دیا ۔۔۔

مجھے تم پر پورا یقین ہے کہ تم انہیں چھوڑو گے نہیں ۔۔اور مجھے انصاف ضرور دلواؤ گے ۔۔

وہ مسکرا کر اسے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔

میں تم سے وعدہ کرتا ہوں ۔۔اگلے ہی لمحے شامیر شیراز نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ وہاں نہیں تھی ۔وہ اس سے دور جا رہی تھی پانی کی طرف ۔ ۔۔

اتنی رات کو پانی کی طرف کیوں جا رہی ہو تمہیں تیرنا نہیں اتا ڈوب جاؤ گی ۔۔

تم سے دور جا رہی ہوں اب وقت اگیا ہے دور جانے کا ۔۔۔

نہیں رک جاؤ مت جاؤ مجھے چھوڑ کر اگلے ہی لمحے وہ اس کے پیچھے بھاگا اور پانی میں جا کر اس کا پورا بدن گیلا ہو گیا وہ ادھر ادھر ہاتھ مار کر جیسے اسے تلاش کر رہا تھا اس نے ڈبکی لگائی اور وہ اس پانی کے اندر اس سبز انکھوں والی پری کو ڈھونڈنے لگا ۔۔

اب وقت اگیا ہے تم سے دور جانے کا میری تلاش چھوڑ دو ۔۔۔اس کے کانوں میں ایک اواز گونجی اس نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو وہ اس کے بالکل پیچھے کھڑی تھی اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑنا چاہا تو وہ اگلے لمحے غائب ہو گئی ۔۔۔۔۔

جاری ہے