تیرے لیے
قسط نمبر پندرہ
مصنفہ منال علی
________________________________________
اج شہزاد کافی مہینو ں کے بعد ان کے گھر دوبارہ سے ایا تھا ۔۔
وہ ہمدان سے ملنے ایا تھا لیکن ہمدان اس وقت گھر پر موجود نہیں تھا ۔۔۔
ہمدان ایک بہانہ تھا درحقیقت وہ حرم منصور سے ملنا چاہتا تھا ۔۔۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی اج وہ اس کی سالگرہ پر تحفہ لے کر ایا تھا ۔۔
وہ تحفہ اسے بغیر ملے ہی دے دیتا تھا اور ڈرائنگ روم میں رکھ کر چلا جاتا تھا ۔۔وہ جانتی تھی کہ یہ تحفہ شہزاد کی طرف سے ہے ۔۔۔۔
وہ آج بھی بس تحفہ رکھ کے جانے کے لیے اٹھنے لگا کہ اسے حرم نظر ائی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ ایا ہوا ہے ۔۔۔۔۔
حرم کو ڈرائنگ روم کی طرف سے جاتا ہوا دیکھ کر شہزاد کی نظر اس پر پڑی تو حرم نے بھی اسے دیکھا ۔۔۔وہ تیزی سے اٹھا اور چلتا ہوا حرم کی طرف ایا ۔۔اس نے دل میں شکر ادا کیا آج وہ مل گئی تھی ۔۔۔۔۔
السلام علیکم کیسی ہو ۔۔۔؟؟؟
شہزاد تیزی سے اس کے قریب پہنچا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔ ٹھیک ہوں ۔۔
اس نے ہمیشہ کی طرح مختصر جواب دیا ۔۔۔
اگر تم مائنڈ نہیں کرو تو ہم اندر بیٹھ کر بات کریں ۔۔۔
میں ۔۔حرم نے جلد از جلد کوئی بہانہ بنانا چاہا ۔۔۔
تم مجھ سے کیوں بھاگ رہی ہو میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا ۔۔۔۔۔
نہیں ایسا نہیں ہے وہ شرمندہ سی ہو گئی ۔۔۔
ہم دونوں کے درمیان کافی فاصلہ ا گیا ہے حرم اور جب تک ہم ایک دوسرے سے بات نہیں کریں گے ہم اس فاصلے کو ختم نہیں کر پائیں گے ۔ اگر دو لوگوں کے درمیان باتیں نہ ہو تو فاصلے بڑھ جاتے ہیں جیسے تم نے ہر ایک سے بڑھا لیے ہیں مجھ سے بھی ۔۔۔
سوائے "حمدان کے" ۔۔
حرم کو یوں لگا جیسے وہ شکایت کر رہا ہے ۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے اپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔
حرم نے جیسے اپنے اپ سے جھوٹ کہا جب کہ شہزاد بالکل سچ کہہ رہا تھا ۔۔۔
وہ دونوں اب ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔
کافی پییں گے اپ ۔۔۔؟؟؟
ہاں لیکن دو کپ منگوانا ۔۔۔
اگر تم مجھے کمپنی دو گی تو اچھا رہے گا ۔ویسے میں کافی پی چکا ہوں ۔۔۔۔۔تم کہتی ہو تو ایک بار اور سہی ۔۔۔۔
جی میں کہتی ہوں ۔۔۔
شہزاد کو اندر ہی اندر بہت
خوشی تھی کہ وہ بہت وقت کے بعد یوں اس کے سامنے بیٹھی تھی چاہے وہ زبردستی ہی اسے اپنے ساتھ لے ایا تھا لیکن وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی تھی چاہے تھوڑی دیر ہی کیوں نہ ہو وہ جانتا تھا کہ وہ تھوڑی دیر کے بعد اٹھ جائے گی ۔۔۔۔
حرم کافی کا کہہ کر ا گئی ۔۔
وہ شہزاد کے سامنے والے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی جب کہ وہ دوسرے والے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔
دونوں کے درمیان کچھ وقت کوئی بات نہیں ہوئی جب کہ شہزاد خاموشی سے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
اس کے بال گیلے تھے ۔۔شاید وہ نہائی تھی ۔۔۔
اس نے اورنج کلر کا قمیض شلوار پہن رکھا تھا ۔۔
چہرہ بالکل سادہ تھا اور سبز انکھوں میں چھپے بے شمار انسو جو اس نے ابھی بھی چھپا کے رکھے تھے ۔۔
اگر اس وقت حرم منصور کے ساتھ وہ سب کچھ نہ ہوتا تو اج وہ دونوں ایک ساتھ ہوتے اور ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے ۔۔۔
یہ میں تمہارے لیے لے کر ایا تھا تمہارا برتھ ڈے گفٹ ہیپی برتھ ڈے حرم ۔۔۔۔
شہزاد نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
حرم نے تیزی سے اپنی انکھیں اس کی طرف سے ہٹا دیں ۔۔۔
وہ ہر سال اس کے لیے تحفہ لازمی لے کر اتا تھا بلکہ شوکت انکل کی ساری فیملی اس کے لیے تحفے بھیجا کرتی تھی جیسے وہ پہلے ہمیشہ بھیجا کرتے تھے مگر شہزاد خود اتا تھا اور اج بھی وہ خود ایا تھا صرف اور صرف حرم منصور کے لیے ۔۔۔۔
اگر چاہو تو کھول سکتی ہو ۔۔۔
میں بعد میں دیکھ لوں گی ۔۔ویسے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔۔
تمہیں نہیں ہے لیکن مجھے ہے ۔۔۔
میں ہمیشہ اس امید میں اتا ہوں کہ تم مجھ سے ملو گی لیکن تم تو ملتی ہی نہیں ۔۔مجھے معلوم ہے کہ تمہارے لیے ان سب چیزوں کو فیس کرنا بہت مشکل ہے حرم لیکن اب بہت سال ہو گئے ہیں ۔۔اور میں سچے دل سے چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ خوش رہو ۔۔۔ تمہارے خوبصورت چہرے کے اوپر اداسی بالکل اچھی نہیں لگتی ۔۔۔
حرم منصور کا دل چاہا کہ وہ و ہاں سے بھاگ جائے ۔۔۔
وہ دونوں ہی بہت اچھے طریقے سے جانتے تھے کہ ان دونوں کے گھر والے چاہتے تھے کہ حرم اور شہزاد ایک رشتے میں بند جائیں لیکن حرم منصور کی زیادتی کے بعد ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔۔
اور سامنے بیٹھا وہ شخص حرم منصور کو بہت پیچھے لے گیا تھا ۔۔ان وقتوں میں جب وہ بہت خوش ہوا کرتی تھی ان وقتوں میں جن وقتوں میں اس کی انکھوں میں لا تعداد خواب تھے ان وقتوں میں جب وہ ایک ہارٹ سپیشلسٹ بننا چاہتی تھی حرم منصور کو کبھی بھی اس شخص سے محبت نہیں تھی ۔۔
لیکن اس شخص کے اندر ایسی کوئی کمی نہیں تھی کہ اس سے شادی سے انکار کیا جائے ۔۔۔
وہ دونوں یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان دونوں کے درمیان شادی کی بات ضرور ہوگی لیکن حرم منصور کی زیادتی کے بعد ہر چیز جیسے بدل کر رہ گئی تھی ۔۔اب وہی شخص جو کبھی اس کی زندگی کا ہمسفر بننے والا تھا یوں اس کے سامنے بیٹھا تھا وہ کیسے اپنے اپ کو قابو کر رہی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی ۔۔
شہزاد خاموش ہو گیا اور خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا ۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ حرم منصور کو بے تحاشہ پسند کرتا تھا اور شاید اج بھی ۔۔۔۔
میں حرم منصور کے قابل نہیں ہوں ۔یہ سوچ شہزاد شوکت کے دماغ میں دن رات چلتی رہتی ۔۔
اور حرم منصور کے دماغ میں یہ سوچ ہوتی کہ وہ شہزاد شوکت کے قابل نہیں یا وہ یہ سوچتی تھی کہ وہ دنیا کی ایک ایسی لڑکی ہے جو کہ شاید کسی لڑکے کے قابل نہیں رہی ۔۔۔
اس کے لیے وہاں بیٹھ کر سانس لینا مشکل ہو رہا تھا ۔وہ زیادہ سے زیادہ اس کے ساتھ صرف اور صرف 15 منٹ بیٹھی ہوگی اور اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک ایک کر کے اس کا ہر زخم تازہ ہو رہا ہو ۔۔۔اب وہ مزید وہاں نہیں بیٹھ سکتی تھی ۔۔
مجھے کچھ کام ہے میں چلتی ہوں ۔۔۔۔۔
شہزاد نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔
وہ خاموشی سے اٹھی اور وہاں سے چلی گئی ۔۔۔
شہزاد کی نظر اس کے کافی کے کپ پر پڑی جس میں سے اس نے صرف ایک گھونٹ پیا تھا ۔۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا وہ کپ اٹھایا ۔۔
جس طرف سے اس نے کافی پی تھی اس طرف اس نے نرمی سے ہاتھ پھیرا ۔۔۔میں تمہارے قابل نہیں ہوں ۔۔میں تمہارے قابل نہیں ہوں حرم منصور ۔۔۔ تم بہت اچھی ہو مگر شہزاد شوکت تمہارے قابل نہیں ہے ۔۔
اس نے اپنی کافی کا کپ چھوڑ دیا تھا اور حرم منظور کی بچی ہوئی کافی پی لی تھی ۔۔۔
کچھ دیر تک وہ اس جگہ کو دیکھتا رہا جہاں وہ بیٹھی ہوئی تھی پھر خاموشی سے اٹھ کر وہ بھی چلا گیا ۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں واپس ا چکی تھی ۔۔
اور اپنے بیڈ پر بیٹھی اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے کسی چھوٹے بچے کی طرح رو رہی تھی ۔۔۔۔
اسے لوگوں کے بولے ہوئے جملے یاد ا رہے تھے جو کبھی اس کے اور شہزاد کے لئے بولے جاتے تھے ۔۔۔۔
کسی کی شادی یا تقریب میں اگر وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے ہو کر کچھ بات بھی کرتے تھے تو لوگوں کی نظریں ان دونوں پر جا ٹھہرتی تھیں وہ دونوں ساتھ میں بہت اچھے لگتے تھے ۔۔۔دیکھو تو ساتھ میں کتنے اچھے لگتے ہیں دونو ں ۔۔۔
اور یہی خیال ان کے گھر والوں کا بھی تھا ۔۔۔ لیکن جو قیامت حرم منصور پر ٹوٹی تھی اس نے سب بدل کر رکھ دیا تھا اور سب سے زیادہ خود حرم منصور کو۔۔۔ ۔
نہ جانے کتنی دیر تک وہ انسو بہاتی رہی ۔۔
پھر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا وہ باکس اٹھایا جو شہزاد اس کے لیے لے کر ایا تھا ۔۔۔
اس نے اپنا چہرہ صاف کیا اور اس باکس کو کھولا ۔۔۔
باکس کے اندر ایک بہت خوبصورت نیکلس تھا ۔۔۔سفید رنگ کے موٹے موٹے موتی اس نیکلس کو اور زیادہ خوبصورت بنا رہے تھے ۔۔۔
ان سفید موتیوں کے بیچ میں ایک نیلے رنگ کا ایک بہت خوبصورت پتھر جڑا ہوا تھا جو اس نیکلس کو اور خوبصورت بناتا تھا ۔۔۔
حرم منصور نے وہ باکس دوبارہ بند کر دیا ۔۔اور اس کو بھی وہیں رکھ دیا جہاں پر اس نے شہزاد کے باقی دیے ہوئے تحفے سمبھال کر رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔
______________________________________
حمدان اس وقت مریم اور
سکندر کے بیڈ روم میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔
وہ سکندر کو پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ حرم منصور سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن مریم کو اج وہ پہلی بار بتا رہا تھا جس وجہ سے وہ بے حد حیران اور پریشان تھی ۔۔
میں حرم جی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
بابا کو میں سلسلے میں بتا چکا ہوں اور انہیں کوئی اعتراض نہیں ۔حمدان نے اہستہ لہجے میں اپنے والدین کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ہمدان بھلا اس بار پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے نہ مجھے کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی تمہارے بابا کو لیکن ۔۔۔مریم اپنی بات بولنے کے بعد خاموش ہو گئی۔۔۔۔۔
لیکن کے اگے حمدان جانتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہیں ۔۔۔
میں جانتا ہوں اپ کے لیکن کا مطلب ۔۔۔
اپ کے لیکن کے پیچھے بہت ساری باتیں چھپی ہیں لیکن میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ میں حرم جی سے ہی شادی کروں گا ۔۔۔
دیکھو ہمدان حرم سے شادی کرنا تمہارا فیصلہ ہے خود حرم کا نہیں ۔۔۔مجھے اور سکندر کو دونوں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ تم حرم سے شادی کروں بلکہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے کہ میں اپنی بیٹی کو اپنی زندگی میں ہی دلہن بنتا ہوا دیکھوں لیکن تم جانتے ہو نا ہمدان وہ تمہیں کیا سمجھتی ہے اس نے تمہیں بچپن سے لے کر اج تک اپنا چھوٹا بھائی مانا ہے اور وہ تمہیں اپنے چھوٹے بھائی کی جتنی ہی محبت کرتی ہے وہ تمہیں وہ محبت کبھی نہیں کر پائیں گی جو تم اس سے چاہ رہے ہو ۔۔۔
ہمدان مریم کی بات پر خاموش ہوا وہ بالکل سچ کہہ رہی تھیں ۔۔۔
ماں میں حرم جی کو بچپن سے پیار کرتا ہوں ۔۔۔یہ میرے بس میں نہیں کہ میں انہیں بھول جاؤں میں انہیں کسی قیمت پر نہیں بھول سکتا ۔اور نہ ہی میں بھولنا چاہتا ہوں بہت سال گزر گئے ہیں اب میں چاہتا ہوں کہ وہ شادی کر کے اپنی زندگی میں اگے بڑھ جائیں ۔۔۔۔
شادی تو اس کی کب کی ہو جاتی شہزاد کے ساتھ اگر میری بچی کے ساتھ زیادتی نہ ہوتی ۔۔۔
اگر شہزاد والے زیادتی کے بعد شادی کے لیے کہہ بھی دیتے تو حرم شہزاد سے شادی کرنے کو کبھی راضی نہ ہوتی وہ کیسے اس بات کو ہضم کر لیتا کہ جس لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ اس کی بیوی بنے میں حرم کو جانتی ہوں وہ کبھی ایسا نہیں کرتی اگر شہزاد رشتہ بھی بھیج دیتا تب بھی نہیں ۔۔۔
شہزاد اور حرم کی شادی کی بات سن کر حمدان کا حلق تک کڑوا ہو جاتا ۔۔۔۔
میں اپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں حرم جی کی شادی اپنے علاوہ کسی اور سے نہیں ہونے دوں گا پھر چاہے وہ شہزاد بھائی ہوں یا پھر کوئی اور ۔۔۔
ہمدان کی بات پر مریم اور سکندر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔۔
اج حرم جی کی سالگرہ ہے اور میں انہیں باہر لے جاؤں گا اور پھر اپنے دل کی بات کہہ دوں گا ۔۔۔
ہمدان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔
سوچ سمجھ کے فیصلہ کرنا جو بھی فیصلہ کرو ہمدان میں نہیں چاہتی کہ تم دونوں کی زندگی میں مزید کوئی پریشانی ائے۔۔۔۔وہ تمہیں بہت پیار کرتی ہے ہمدان کہیں کچھ ایسا نہ کر دینا کہ وہ تم سے نفرت کرنے لگے ۔۔۔
اپ بے فکر رہیں ماں میں انہیں بہت محبت کرتا ہوں اور آپ دونوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ انہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا جو کچھ وہ ڈیزرو کرتی ہیں انہیں ان کی زندگی میں سب کچھ ملے گا اور میں اپ دونوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ وہ ایک بہترین ہارٹ سپیشلسٹ ضرور بنیں گی ۔۔۔
وہ کہتا ہوا کمرے سے نکل چکا تھا ۔۔۔۔
____________________________________
سب اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے ۔۔۔
سوائے حرم منصور کے ۔۔۔۔
ہمدان نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی ۔۔۔
دو بار اپ کو بلانے کے لیے ایا تھا عادل اپ ائی نہیں ۔۔۔
ہمدان نے اس کی طرف پہنچتے ہوئے کہا ۔۔۔
مجھے بھوک نہیں ہے ہمدان میں بعد میں کھا لوں گی ۔۔۔۔۔
اپ کو پتہ ہے مجھے اپ کی یہ بات بالکل پسند نہیں ۔۔۔۔
وہ اب اس کے ہاتھوں سے وہ کتاب لے کر ایک کنارے رکھ رہا تھا ۔۔۔
پھر ذرا رک کر اس نے دیکھنے لگا ۔۔۔
اس نے اپنے بالوں کو ادھا باندھا ہوا تھا ۔۔اور اورنج کلر اس کے اوپر بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔
سبز انکھیں اس وقت بالکل سادہ تھیں جیسے ہمیشہ رہتی تھیں ۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہیں ۔۔۔
حمدان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
اور میں اب کچھ نہیں سننا چاہتا اپ ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ چل رہی ہیں چلیں جلدی سے ائیں وہ خود اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ باہر لے جا رہا تھا۔۔۔
حرم جیسے ہی باہر کی طرف ائی ہر طرف اندھیر ا ہی اندھیرا تھا ۔
وہ جیسے ہی حمدان کے ساتھ ڈائننگ ایریا کی طرف بڑھی اچانک سے لائٹ جلی ۔۔۔
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ۔۔۔۔
ہیپی برتھ ڈے ڈیئر حرم ۔۔۔
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف سے سکندر اور دوسری طرف سے مریم دونوں نکل کر ائے مریم کے ہاتھ میں گلدستہ تھا جبکہ سکندر کے ہاتھ میں حرم کا فیورٹ چاکلیٹ کیک ۔۔۔۔
حرم نے ایک نظر ہمدان کو دیکھا اور پھر ان دونوں کو وہ واقعی میں بہت خوش نصیب تھی کہ اسے اتنی محبت کرنے والی فیملی ملی تھی ۔۔۔
اس نے اپنے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجائی ۔۔۔
اگر یہ پرانی والی حرم ہوتی تو بے تحاشہ خوش ہو کر فورا ان سب کے گلے لگ جاتی ۔۔مگر وہ اب بہت بدل چکی تھی ۔۔وہ اب اہستہ سے مسکرا کر ان سب کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس کے قریب بڑھے ۔۔۔
مریم نے اسے گلے لگا کر بہت ساری دعائیں دیں ۔۔۔سکندر نے بھی اسے اپنے ساتھ لگایا اور اس کے ماتھے پر پیار کیا ۔۔۔
وہ سب اب ڈائننگ ایریا کی طرف تھے جہاں پر حرم منصور کی پسند کا ہر کھانا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
یعنی اس کے خاص دن کے لیے پورے دن سے تیاری ہو رہی تھی ۔۔۔
اور اسے اس بات کا پتہ تک نہیں تھا ۔۔
ہمدان نے اسے نرمی سے گلے سے لگایا ۔۔۔ہیپی برتھ ڈے بیوٹیفل حرم جی ۔۔۔۔۔
چلیں اب اپ اپنا کیک کٹ کریں ۔۔
وہ اسے اب کیک کی طرف کھڑا کر رہا تھا ۔۔
کیک کٹ گیا تو ڈائننگ روم میں سب کی تالیاں گونجی ۔۔۔۔
تھینک یو سو مچ ۔۔حرم نے اہستہ اواز میں کہا وہ اب کیک کا پیس ان تینوں کو کھلا رہی تھی ۔۔۔
اپ نے اتنا سب کچھ کیوں بنایا ۔۔خواہ مخواہ اپنے اپ کو تھکایا ہے ۔۔وہ اب مریم سے کہہ رہی تھی جس نے اس کی پسند کا ہر کھانا پکایا تھا ۔۔۔۔
اس میں تھکنے والی کیا بات ہے میری بیٹی کی اج برتھ ڈے ہے اور تم میرے لیے بہت سپیشل ہوں جب میں تمہیں مسکراتے ہوئے دیکھتی ہوں نا تو میں ایک دم ٹھیک ہو جاتی ہوں بس تم ہمیشہ یوں ہی مسکراتی رہو کبھی کوئی دکھ کوئی تکلیف تمہارے قریب بھٹکے بھی نا اللہ پاک تمہارے زندگی خوشیوں سے بھر دے ۔۔۔۔امین ۔۔۔۔حمدان اور سکندر نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔
سب نے مل کر ایک ساتھ کھانا کھایا ۔۔۔۔
کھانا کھانے کے بعد حرم کو سب نے تحفے دیے جو کہ انتہائی خوبصورت تھے ۔۔۔
سکندر اور مریم نے اسے ایک ڈائمنڈ سیٹ دیا تھا ۔۔۔جو کہ بہت خوبصورت تھا ۔۔۔
میں حرم جی کے لیے گفٹ نہیں لے کر ایا کیونکہ میں حرم جی کو برتھ ڈے گفٹ ان کی فیورٹ جگہ پر دوں گا ۔۔۔۔حرم جی آپ کھانا کھا لیں پھر اس کے بعد ہم لونگ ڈرائیو پر جائیں گے اور ائس کریم کھائیں گے اپ کی فیورٹ جگہ سی سائیڈ پر ۔۔۔۔
اس نے اتنی محبت اور اپنائیت سے اس سے کہا کہ وہ اسے منع نہیں کر پائی ۔۔۔۔
ہاں لے جاؤ حرم کو اور خیال رکھنا ہے اس کا بہت سارا ۔۔۔۔سکندر نے کہا ۔۔۔۔
ایک تو اپ لوگ۔۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے سارا پیار صرف اور صرف حرم جی سے ہی کرتے ہیں ۔۔۔مجھ سے تو کوئی پیاری ہی نہیں کرتا ۔۔۔
پتہ نہیں اپ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اپ کا ایک عدد بیٹا بھی ہے جس کا نام حمدان ہے ۔۔سب کو صرف حرم جی ہی نظر اتی ہے ۔۔۔۔
اچھا چلو تم اب رونے مت لگ جانا ۔۔۔سکندر نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔
ویری فنی بابا ۔۔۔۔مگر مجھے رونا آ رہا ہے ۔۔۔
___________________________________________
گاڑی اس وقت مین روڈ پر دوڑ رہی تھی ۔۔۔
یہ ساری ارینجمنٹ گھر پر تم نے کی تھی۔۔۔؟؟؟
نہیں گھر کی ساری ارینجمنٹ تو ماں اور بابا نے کی تھی ۔۔۔
جہاں میں اپ کو لے کے جا رہا ہوں وہاں کے سارے ارینجمنٹ میں نے کی ہے ہر چیز اپ کی پسند کی ہے ۔۔۔وہ اسے دیکھتے ہوئے بہت محبت سے کہہ رہا تھا ۔۔۔
تم نے اس سے پہلے باہر کوئی ارینجمنٹ نہیں کی اور نہ ہی ایسا کچھ پلان کیا تو پھر اج کیوں ۔۔۔
اج کچھ اسپیشل ہے اس لیے ۔۔
حمدان نے اسے گردن موڑ کر دیکھا ۔۔
وہ اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔۔
وہ تو اپ کو وہاں جا کر ہی پتہ چلے گا ۔۔۔۔
وہ دونوں جیسے ہی کار سے اترے ہمدان نے اس کی انکھوں پر پٹی باندھ دی۔۔۔۔
ہمدان یہ کیا بچپنا ہے پٹی ہٹاؤ میری انکھوں سے ۔۔۔۔۔
بس تھوڑی سی دیر کی بات ہے ۔۔
وہ اب اس کا ہاتھ پکڑ کر ا سے اہستہ اہستہ لے کر اپنے ساتھ ایک جگہ پر ا رہا تھا ۔۔
اور کتنا دور ہے ۔۔۔
وہ چلتے چلتے کافی دور تک اگئے تھے ا سے اندازہ ہو رہا تھا ۔۔۔
بس ہم پہنچ گئے ۔۔۔
جب میں کہوں گا تب اپ نے خود اپنی انکھوں سے پٹی ہٹانی ہے ٹھیک ہے اس سے پہلے کوئی چیٹنگ نہیں ۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔
ون۔۔۔ ٹو۔۔۔ تھری۔۔۔۔ اب اپ ہٹا سکتی ہیں ۔۔۔
حرم منصور نے جیسے ہی اپنی انکھوں سے وہ سیاہ پٹی ہٹائی ۔۔
تو وہ سامنے ہوئی ارینجمنٹ کو دیکھ کر بے حد حیران رہ گئی ۔۔۔
وہ اس وقت سرخ کار پیٹ کے اوپر کھڑی تھی ۔۔۔
اور اگلے ہی لمحے اس کے اوپر گلاب کے پھولوں کی بارش ہونے لگی ۔۔بہت سارے سر خ گلاب کے پھول اس کے اوپر گر رہے تھے ۔۔۔
حرم منصور کو گلاب حد سے زیادہ پسند تھے ۔۔۔۔
جگہ جگہ بہت سارے ٹیڈی بیئرز اور ہارٹ رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
تمہیں یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی ہمدان تم بالکل پاگل ہو ۔۔۔۔
اپ کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے یہ تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔
تم واقعی میں پاگل ہو ۔۔
حرم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا جو دور کھڑا اسے دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
تمہارا سرپرائز بہت خوبصورت ہے ۔۔۔
نہیں حرم جی ایک اور چیز ہے جو ابھی اپ کو دکھانا باقی ہے ۔۔۔
اس کے علاوہ اور کیا ہے ۔۔
بتاتا ہوں وہ اب اسے اپنے ساتھ کچھ اگے لے ایا تھا ۔۔
اس نے جیب سے ایک رنگ نکال لی ۔۔اور پھر اہستہ سے اس رنگ کے ڈبے کو کھولا ۔۔
وہ سرخ رنگ کی ایک بے حد خوبصورت اور قیمتی چمکتی ہوئی انگوٹھی تھی ۔۔۔
ہمدان نے وہ باکس کھول کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔
حرم اہستہ سے مسکرائی ۔۔
اس سے پہلے بھی تم مجھے کافی مرتبہ رنگ دے چکے ہو ۔۔۔ہر رنگ کی طرح یہ بھی بہت خوبصورت ہے ۔۔گھر میں ہی دے دیتے ہیں خواہ مخواہ تم نے اپنے اپ کو تھکایا ۔۔۔
اگلے ہی لمحے ہمدان نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔
اور پھر وہ گھٹنے کے بل جیسے ہی بیٹھا ۔۔
اچانک سے ہر طرف انار جلنے لگے ۔۔۔
اور اچانک سے ایک بورڈ روشن ہوا ۔۔۔۔
Will you marry me
سامنے لگے ہوئے سرخ رنگ کے بورڈ پر جو لکھا تھا وہ حرم منصور باسانی پڑھ سکتی تھی ۔۔اور حمدان اس کے بالکل سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔
حرم نے ایک نظر ہمدان کو دیکھا اور ایک نظر اس بوٹ کو ۔۔۔
حرم منصور کو لگا کے کوئی چیز بہت زور سے ٹوٹی ہے ۔۔۔شاید اعتبار ۔۔۔۔
حرم منصور نے ایک بار پھر ہمدان کو دیکھا ۔۔جو اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ۔۔۔
اور حرم منصور کو یوں لگا جیسے اسے سانس لینا مشکل ہو رہا ہو ۔۔۔۔
وہ ایک دم خاموش تھی ایک دم خاموش اسے سمجھ نہیں ایا کہ وہ کیا کہے کیا کرے ۔۔۔
وہ بس خاموشی سے ہمدان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی ۔۔۔
یہاں تک ہمدان نے وہ رنگ نکال کر حرم منصور کے ہاتھ میں پہنائی ۔۔
i want to marry you .
ہمدان کے کہے گئے الفاظ حرم منصور کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔۔
i love you so much .
حمدان کی بات پر حرم منصور کو یوں لگا جیسے وہ ایک کنویں میں جا گری ہو ۔۔اور اسے اس کنویں میں پھینکنے والا کون ہے وہی جس سے وہ بے تحاشہ محبت کرتی ہے حمدان سکندر ۔۔۔۔
I will keep you very happy .
I promise you .
You have no idea how much I love you .
حرم منصور کو لگا جیسے کوئی اس کے کان میں لاوا ڈال رہا ہو ۔۔
وہ الفاظ نہ ہی اسے اچھے لگ رہے تھے اور نہ ہی اسے ہضم ہو رہے تھے ۔۔۔
میں اپ کو اس پوری دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں سب سے زیادہ ۔۔۔اور میری یہ محبت کوئی اج کی نہیں ہے حرم جی میری محبت بچپن کی ہے اور بہت پختہ ہے ایک مضبوط پہاڑ جتنی جسے کوئی نہیں ہلا سکتا کوئی نہیں توڑ سکتا کوئی نہیں مٹا سکتا سوائے خدا کے ۔۔۔اور خدا نے ہی یہ محبت میرے دل میں ڈالی ہے ۔۔بچپن سے لے کر اج تک صرف ایک ہی لڑکی کو چاہا ہے میں نے اور وہ ہے حرم منصور ۔۔
میں اپ کو بہت چاہتا ہوں حرم جی بہت زیادہ ۔۔۔اپ کی سوچ بھی نہیں ہوگی کہ میں اپ کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہوں ۔۔۔
اپ مجھ سے شادی کر لیں حرم جی میں اپ کو ہمیشہ خوش رکھوں گا ۔۔
میں اپ سے بے تحاشہ محبت کرتا ہوں ۔۔
میں اپ کو ۔۔۔
وہ ابھی کچھ اور کہہ ہی رہا تھا کہ حرم نے ایک زوردار تھپڑ ہمدان کے منہ پر مارا ۔۔۔۔۔
اس نے زندگی میں پہلی بار حمدان کے منہ پر تھپڑ مارا تھا وہ بھی اتنی زور سے ۔۔۔
بے شرم ۔۔۔۔
بے شرم ۔۔۔بے غیرت ۔۔۔۔تمہیں شرم نہیں اتی اپنی بہن سے اس طرح سے بات کرتے ہوئے ۔۔
وہ چلائی نہیں تھی ۔۔
اس نے بے حد اہستہ اواز میں کہا تھا ۔۔۔مستقل نکلنے والے انسوؤں سے اس کا گلا بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔
تم اخر کار ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو کیسے یہ الفاظ اپنے منہ سے نکال سکتے ہو ہمدان کیسے ۔۔تم یہ کیسے بھول گئے کہ تم میرے چھوٹے بھائی ہو ۔۔مجھ سے تین سال چھوٹے ہو اور میں تمہاری بڑی بہن ہوں تم سے تین سال بڑی بہن میں نے تمہیں اپنے ہاتھوں میں کھلایا ہے ہمدان تمہیں ہر چیز سے محفوظ رکھا ہے ہر سختی سے تمہاری حفاظت کی ہے ایک چھوٹے بھائی کی طرح تم سے محبت کی ہے ۔اور تم اتنے بے شرم کیسے ہو گئے حمدان کیسے تم نے یہ سب کچھ سوچ لیا تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا جو کچھ تم کہہ رہے ہو اپنی بہن سے تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ سامنے کوئی اور لڑکی نہیں بلکہ تمہاری اپنی بہن حرم کھڑی ہے ۔۔۔۔
اپ میری بہن نہیں ہیں ۔۔۔
اپ میری کزن ہیں صرف اور صرف کزن ۔۔۔۔
حرم منصور نے اسے ایک بار پھر تھپڑ لگانا چاہا کہ ہمدان نے اس کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے ۔۔اور پھر ا سے ایک دیوار سے لگایا ۔۔۔
اپ نے سنا نہیں میں نے کیا کہا۔۔۔ اپ کزن ہیں۔۔ میری کزن۔۔۔۔۔ بہن نہیں ہے میری۔۔۔۔ اپ میری کوئی بہن نہیں ہے سنا اپ نے ۔۔۔
تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے حمدان چھوڑو مجھے میرے خیال سے تم ہوش میں نہیں ہو تمہیں پتہ نہیں ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو ۔۔۔
ہوش میں ہوں میں بالکل ہوش میں ہوں ۔۔۔وہ اتنی زور سے بولا کہ حرم منصور ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔حمدان کے غصے سے وہ ہمیشہ ڈرتی تھی ۔۔ہمدان غصہ بہت کم کرتا تھا لیکن جب کرتا تھا تو وہ اس کے غصے سے سہم جاتی تھی ۔۔۔۔
نہیں ہیں اپ میری بہن سنا اپ نے وہ اس کو دونوں بازوں سے پکڑ کر اس کی انکھوں میں انکھیں ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔
تمہیں پتہ نہیں ہے تم یہ کیا کہہ رہے ہو ۔۔۔۔
شادی کرنا چاہتا ہوں اپ سے محبت کرتا ہوں ۔۔اگلے ہی لمحے وہ بالکل موم ہوا ۔یوں جیسے بہت کمزور ہو ۔۔۔۔
میں تم سے شادی نہیں کر سکتی ۔۔۔۔
کیوں نہیں کر سکتی ۔۔۔۔
کیونکہ تم میرے چھوٹے بھائی ہو ۔۔۔۔
حرم کی بات پر حمدان نے سامنے لگی ہوئی کانچ کی لائٹوں پر زور سے اپنا مکا مارا ۔۔۔۔اس کے ہاتھ سے خون بہنے لگا ۔۔۔
اپ میری بہن نہیں ہیں سنا اپ نے ۔۔اپ میری بہن نہیں ہیں ۔۔
صرف اور صرف میری کزن ہیں اور کزنز کے درمیان شادی ہوتی ہے ۔۔
نہیں ہمدان یہ بالکل بھی ممکن نہیں ۔۔
کیوں۔۔۔۔کیوں ۔۔۔۔۔۔ کیوں ممکن نہیں ۔۔۔۔
میں اپ کو بہت پیار کرتا ہوں اور میں اپ کو بہت خوش رکھوں گا حرم جی ائی پرومس اپ کو کبھی کوئی تکلیف نہیں انے دوں گا ۔۔۔جو کچھ اپ کے ساتھ ہو گیا مجھے بہت افسوس ہے لیکن میں اپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اپ کی انے والی زندگی بہت حسین ہوگی ۔۔۔۔
میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ہمدان وہ بھی تین بار ، وہ اب انسوؤں سے رونے لگی تھی ۔۔۔میں تمہارے قابل نہیں ۔۔حرم منصور کو لگا کہ وہ اب لازمی پیچھے ہٹ جائے گا ۔۔۔
مگر وہ غلط تھی ۔۔۔
میں کچھ نہیں جانتا ۔۔میرے نزدیک اپ زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔۔۔۔
تم سمجھنے کی کوشش کرو ہمدان ۔۔۔
اپ سمجھنے کی کوشش کریں حرم جی ۔۔
یہ ممکن نہیں ہے ۔۔۔
یہ بالکل ممکن ہے بس اپ کو میرا ساتھ دینا ہوگا ۔۔۔
تم پاگل ہو گئے ہو میں نے تمہیں ہمیشہ صرف اور صرف اپنا چھوٹا بھائی سمجھا ہے تمہیں گودوں میں کھلایا ہے میں نے ۔۔اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کے تمہیں کھلائے ہیں میں نے ۔۔۔تم یہ میرے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتے ہو وہ اب انسوؤں سے بے تحاشہ رونے لگی تھی ۔۔۔
اپ مجھ سے پیار کرتی ہیں ۔۔۔حرم جی ؟؟؟
ہاں کرتی ہوں ۔۔۔
تو پھر کیوں نہیں کرنا چاہتی اپ مجھ سے شادی ۔۔۔۔
ہمدان میں تم کو پیار کرتی ہوں بہت پیار کرتی ہوں ۔۔مگر وہ پیار نہیں جو تم چاہتے ہو ۔۔تم کیوں نہیں سمجھ رہی میں نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔
اپ سب کچھ کر سکتی ہیں ۔۔۔یا صرف اتنا کریں کہ میرا ساتھ دیں ۔اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں مانگوں گا صرف مجھے اپ کا ساتھ چاہیے اور کچھ نہیں ۔۔۔
ایسا کچھ ممکن نہیں ۔۔۔اس نے اب بہت زور سے کہا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ ہمدان کے ہاتھوں سے چھڑائے اور اس کو زور سے دھکا دے کر حمدان کو اپنے سے پیچھے کیا ۔۔۔
ائندہ کے بعد اگر تم نے مجھ سے اس طرح کی فضول بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا سمجھے تم ۔۔۔
اپ بھی میری ایک بات کان کھول کر سن لیں حرم جی وہ تیزی سے وہاں سے جانے لگی کہ ہمدان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا ۔۔۔
میں اپ سے بہت محبت کرتا ہوں اور میں ہار مارنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔۔۔
اج نہیں تو کل اپ کو میرا ہونا ہی پڑے گا ۔۔میں اپنے علاوہ اپ کو کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔
حرم نے اپنا ہاتھ تیزی سے اس کے ہاتھ سے چھڑوایا اور وہ جتنی تیز ی سے وہاں سے جا سکتی تھی وہ جا چکی تھی ۔۔۔
جاری ہے
0 Comments
Post a Comment