تیرے لیے

قسط نمبر بارہ 

مصنفہ منال علی


دیپک اپنا وہ پیسوں سے بھرا ہوا بیگ اپنے چھوٹے بھائی کو دے کر اب شہر کے لیے جا چکا تھا اور شہر جاتے کے ساتھ ہی اس کی موت ہو گئی تھی ۔۔

اس کے چھوٹے بھائی نے سب سے جھوٹ بولا کہ اخری دفعہ اس کی دیپک سے کسی قسم کی نہ کوئی ملاقات ہوئی نہ کوئی بات جبکہ اس کی اخری ملاقات اور اخری بات اپنے بھائی دیپک سے ہوئی تھی جس ملاقات میں اس نے اس بیگ کے بارے میں بتانے سے منع کیا تھا اور سب کی نظروں سے اس بیگ کو چھپانے کے لیے کہا تھا جس میں پیسے تھے ۔۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ دیپک گاؤں ایا تھا اور دیپک نے پیسوں سے بھرا ہوا بیگ اس کے چھوٹے بھائی کو دیا تھا راجو نے بھی اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی کو بھی بھنک تک نہ پڑھنے دی کے پیسوں سے بھرا ہوا بیگ اس کے پاس ہے اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ پیسے کہاں سے ائے لیکن اس کے لیے تو جیسے وہ ایک قسمت کی لاٹری تھی جو بیٹھے بیٹھے لگ گئی تھی ۔۔ 


________________________


یہ کمینہ چوکیدار اخر کار چاہتا کیا ہے ہم سے اب ۔۔


سامنے کھڑے ہوئے تین لوگ اپس میں بات چیت کر رہے تھے ۔۔۔


ان میں سے کسی ایک نے سیگریٹ جلا کر اپنے ہونٹوں سے لگائی ۔۔۔

میں سمجھ گیا ہوں کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔۔۔

اج میں نے اسے یہاں شہر بلایا ہے مزید پیسوں کی لالچ میں اور وہ ا رہا ہے ۔۔۔

وہ جیسے ہی اس جگہ پر ائے جس جگہ میں نے اسے بلایا ہے اسے فورا مار دینا اور مار کر اس کی لاش پانی میں پھینک دینا ۔۔۔

باقی سب میں خود سنبھال لوں گا تم سب کو اس کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں اسنے سگریٹ اپنے جوتے کے نیچے رگڑیتے ہوئے کہا ۔۔


وہ سی ڈی جو اس دن ہم نے یونیورسٹی کے سی سی ٹی وی کیمرہ سے نکلوائی تھی اور جو ڈیلیٹ کی تھی وہ سی ڈی کہاں ہے ۔۔۔؟؟

سامنے کھڑے ہوئے ایک شخص نے پوچھا جس کے بال لمبے تھے کندھوں سے بھی نیچے تک ایک عجیب و غریب حلیہ تھا اس کا ۔۔۔


وہ میرے پاس تھی اور اب تباہ ہو گئی ہے اس کا کوئی وجود نہیں ۔۔۔

اس چوکیدار کی مدد سے صرف ایک کاپی بنائی تھی اور وہ کاپی میرے پاس تھی جسے میں نے اسی رات توڑ کر جلا کر ختم کر دیا تھا کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ہے ہمارے خلاف یہ لوگ اپنے جوتے رگڑتے رہ جائیں گے اپنے اپ کو خوار کریں گے تھکا دیں گے اپنے اپ کو تکلیفیں دینگے لیکن ان کو کسی قسم کا کوئی سراغ نہیں ملے گا ۔۔۔۔

اور یہ دیپک جیسے ہی یہاں ائے اسے فورا ختم کرو میں نہیں چاہتا اسے اب مزید دیکھنا اور برداشت کرنا ۔۔

باہر کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا ۔۔۔۔


___________________________________


یہ دیکھ وہ گاڑی ہے جس میں وہ بیٹھ کر اتی ہے روزانہ ۔۔۔

یاد ہے نا اس حرم نے تیری کسی بیزاتی کری تھی اب وقت اگیا ہے اپنی بیزاتی کا بدلہ لینے کا ۔۔۔


ہاں تو بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے اب وقت اگیا ہے ۔اب میں دیکھتا ہوں وہ اب کیا کرے گی جب اس کی زندگی برباد کروں گا ۔۔۔

وہ تین لوگ تھے جو اس وقت کھڑے تھے جس میں دو لڑکے اور ایک لڑکی تھی ۔۔۔۔


یہ اس کا ڈرائیور یہاں سے اتا ہے یونیورسٹی کے گیٹ نمبر تین سے اس کو یہیں پر روک کر کوئی ایڈریس پوچھنا اس سے جب تک ہم اپنا کام کر لیں گے لمبے بالو ں والے لڑکے نے اس لڑکی سے کہا جو ان کے ساتھ تھی ۔۔۔


کیا تم حرم سے صرف بدلہ لینا چاہتے ہو ؟؟؟لڑکی نے کہا۔۔۔


 نہیں میں صرف اس سے بدلہ نہیں لینا چاہتا بلکہ کچھ اور بھی کرنا چاہتا ہوں ۔۔سامنے کھڑے ہوئے لمبے بالوں والے لڑکے نے اپنے چہرے پر مکاری لاتے ہوئے کہا نہ جانے اس کے کیا ارادے تھے ۔۔۔


کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔۔

اس کے دوسرے دوست نے حیرانی سے کہا ۔۔۔


اس کا ڈرائیور بس ابھی یہاں پر انے والا ہوگا تب تمیں سب سمجھ ا جائے گی ۔۔


دیکھ لو کچھ الٹا سیدھا نہ کرنا کہ مصیبت میں پڑ جاؤ ۔۔۔۔


کچھ نہیں ہوتا میرے پیچھے بہت لوگ ہیں مجھے سنبھالنے کے لیے میں نہیں ڈرتا ان سب سے مگر میں اس حرم منصور کو نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔۔


ٹھیک ادھے گھنٹے کے بعد حرم منصور کی سفید رنگ کی کار یونیورسٹی کے گیٹ نمبر تین کی طرف ا رہی تھی یونیورسٹی کا گیٹ نمبر تین زیادہ تر خالی ہی رہتا تھا اور گیٹ نمبر تین سے یونیورسٹی سے حرم منصور کے گھر کا راستہ مختصر تھا ۔اور اس راستے میں ٹریفک بھی بہت کم ہوتا تھا ۔۔۔۔


یہ دیکھ اس کی گاڑی ا رہی ہے ۔۔۔


اگلے ہی لمحے ان دو لڑکوں کے ساتھ جو ایک لڑکی تھی وہ لمحے بھر میں اس گاڑی کے سامنے ائی ۔۔ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی روکی ۔۔


اپ کیا کر رہی ہیں یوں اچانک ا گئی ابھی اپ کو لگ جاتی وہ اپنی گردن کھڑکی سے باہر نکالتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔


پہلے تو باہر نکل ۔۔


کسی نے پیچھے سے ا کر اس کی گدی کے پیچھے گن رکھی ۔۔۔


اس نے گھبراہٹ کے مارے مڑ کر دیکھا تو اگلے ہی لمحے گن اس کی کنپٹی پر تھی ۔۔ 

باہر نکل فورا ۔۔۔

ڈرائیور ایک دم سے گھبرا گیا کہ یہ کون سی افت ہے ۔۔۔

نکل رہا ہے باہر یا چلا دوں گولی ۔۔۔

ان دونوں لڑکوں نے اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا جبکہ لڑکی اپنے چہرے پر دوپٹہ رکھ کے کھڑی تھی ۔۔۔ 


ان دونو ں نے مل کر اس ڈرائیور کو گاڑی سے باہر نکالا ۔۔


کون ہو تم لوگ اور کیا چاہتے ہو ۔۔۔


چپ ۔۔۔لمبے بال والے لڑکے نے بہت غصے سے کہا ۔۔


تم لوگ اسی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ ہونا ۔۔۔اس نے جیسے اندازہ لگایا تمہاری کمپلین کروں گا میں ۔۔۔


لمبے بالوں والے لڑکے کو مزید غصہ ایا اور اس نے گن کا پچھلا حصہ زور کے زور سے اس کے سر پر دو بار مارا ۔۔۔۔


اچانک اس کے سر سے بے تحاشہ خون نکلنے لگا ۔۔۔۔

یہ تم نے کیا کیا تم پاگل تو نہیں ہو گئے ۔۔۔ساتھ کھڑی لڑکی نے کہا ۔۔۔


تم نے دیکھا نہیں یہ کمینہ بکواس کر رہا تھا مجھ سے ۔۔یہ میری کمپلین کرے گا یہ ہے کون اس کو پتہ نہیں ہے کہ میں کون ہوں ۔۔۔


اب بتاؤ اس کا کیا کروں میں ۔۔برابر میں کھڑے دوسرے لڑکے نے پریشانی سے کہا اس کا بہت خون بہہ رہا ہے وہ زمین پر پڑا تھا ۔۔۔


تم ایسا کرو کہ اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالو اس نے کسی کا بھی چہرہ نہیں دیکھا کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔

 


میں یہ گاڑی لے کر جا رہا ہوں ۔۔اس کا کیپ اور اس کا یہ اوپر والا کپڑا اتار کے دو مجھے ۔۔۔


اگلے ہی لمحے وہ اس ڈرائیور کے کپڑے پہن کر گاڑی میں بیٹھ چکا تھا ۔۔۔

حرم کچھ وقت کے بعد یونیورسٹی سے جب نکلی تو وہ ہمیشہ کی طرح صدیق کا سمجھتے ہوئے بغیر دیکھے گاڑی میں بیٹھ گئی اس کے تو تصور میں بھی نہیں ہوگا کے اگے جا کے اس کے ساتھ کیا کیا ہو سکتا ہے اور کیا کیا ہونے والا ہے ۔۔ 


گاڑی تیزی سے مین روڈ کے اوپر تھی ۔۔

واپسی کے لیے بھی انہوں نے یونیورسٹی کے تیسرے گیٹ والا راستہ ہی اپنایا تھا ۔۔۔مگر جیسے ہی وہ روڈ ختم ہوا گھر والے روڈ کی جگہ پر وہ دوسرے روڈ پر نکل گئے تھے ۔۔۔


اج اپ نے غلط ٹرن لے لیا ۔۔

روڈ رائٹ والا تھا اپ لیفٹ والے کے اوپر لے گئے گاڑی ۔۔۔۔


کسی نے بالکل ہی نظر انداز کیا ۔۔۔


صدیق انکل ۔۔۔اپ غلط راستہ پر جا رہے ہیں ۔۔۔


لمحے بھر کے اندر وہ گاڑی رکی تھی ۔۔۔


حرم نے اسے گاڑی سے اترتا ہوا دیکھا اور اپنی گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔

کہ کسی نے دوسرا گاڑی کا دروازہ کھولا ۔۔۔


وہ دو لڑکے تھے ۔۔اور دونوں نے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے ۔۔۔

وہ ان دونوں لڑکوں کو حیرانی سے دیکھنے لگی جو اب اسے گاڑی سے گھسیٹتا ہوا نکال رہے تھے ۔۔۔


چھوڑو مجھے کون ہو تم لوگ ۔۔۔

چھوڑو مجھے ۔۔صدیق انکل کہاں ہے ۔۔۔دونوں نے کچھ نہیں کہا جبکہ وہ مستقل اپنے اپ کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

چھوڑو مجھے وہ اب زور زور سے چلا رہی تھی کہ لڑکی نے جو انہی کے ساتھ ملوث تھی 

اس نے دو تین ٹشو پیپر میں ایک بہت سارا لکوڈ ڈالا یہ لکوڈ بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔۔وہ لڑکے اسے گھسیٹتے ہوئے اگے کی طرف لے کے جا رہے تھے جبکہ اس لڑکی نے پیچھے سے ا کر اس کے بالوں کو زور سے پکڑا اور پھر کمر کی طرف سے اسے مضبوطی سے پکڑ کر اس کے ناک کے اوپر وہ ٹشو رکھ کر زور سے دبایا ۔۔کچھ وقت کے بعد حرم ہوش میں نہیں تھی نہ ہی وہ ان تینوں کو جانتی تھی نہ ہی اس نے ان تینوں کے چہرے دیکھے تھے وہ بس اتنا جانتی تھی کہ وہ دو لڑکے تھے اور ایک لڑکی جس کو اس نے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔

اور صدیق نہ جانے کہاں تھا ۔۔۔۔


_________________________________________


ایک مسئلہ ہو گیا ہے لمبے بالو ں والے لڑکے نے کسی کو فون کیا ۔۔۔


ہاں بولو کیا ہو گیا ہے میں ابھی مصروف ہوں جلدی کہو ۔۔۔


میں نے آپکو ایک لڑکی کے بارے میں بتایا تھا نا بھائی ۔۔۔۔


اور میں نے تمہیں ہزار بار کہا تھا کہ اس لڑکی سے دور رہو کیا کیا ہے تم نے اب ۔۔۔


اس لڑکی کے ساتھ میں نے کچھ نہیں کیا مگر اس لڑکی کا ڈرائیور مر گیا ہے میرے ہاتھوں میں نے گن اس کے سر پر ماری تھی اور پھر اسے کوی ٹریٹمنٹ نہیں ملی خون بہت زیادہ بہنے کی وجہ سے اس کی ڈیتھ ہو گئی ۔۔۔


تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے تم کیا کہہ رہے ہو وہ جو کام میں مصروف تھا اپنے سارے کام چھوڑ کر ایک دم کھڑا ہو گیا ۔۔


اس وقت غصہ کرنے کا ٹائم نہیں ہے اب مجھے بتائیں میں کیا کروں ۔۔


اور وہ لڑکی وہ کہاں ہے ؟؟


حرم ہمارے پاس ہے ۔۔۔


لعنت ہے تم پر ۔۔۔۔لعنت ۔۔ ۔۔۔

تمہارا دماغ ٹھیک ہے تم یہ کیا کر رہے ہو اگر اس نے تمہیں دیکھ لیا تو پتہ ہے نا تمہارے ساتھ کیا ہوگا ۔۔۔


چھوڑ دو اسے ابھی اور اسی وقت ۔۔۔


میں اب اس لڑکی کو نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔


کیوں ۔۔۔۔تم نے کیا کیا ہے اسکے ساتھ ۔۔۔؟؟


میں اسے اپ کے فارم ہاؤس لے کر جا رہا ہوں جو ہائی وے سے بہت اگے ہے ۔۔۔۔


تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے۔ تمہیں پتہ نہیں ہے کیا اس لڑکی کے اگے پیچھے کون لوگ ہیں ۔۔۔۔چھوڑ دو اسے ابھی باقی میں سمبھال لوں گا ۔۔۔


میں نہیں چھوڑ سکتا اپ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔

وہ دوپہر کو یونیورسٹی سے نکلی تھی اور دوپہر سے لے کر رات کے 11 بج رہے ہیں وہ ہمارے پاس ہے ۔اور اس کا ڈرائیور مر چکا ہے میں اسے اب دوبارہ نہیں چھوڑ سکتا میں پکڑا جاؤ گا وہ پہچان لے گی ہمیں ۔۔۔۔۔


کیا اس نے تم لوگوں کے چہرے دیکھے ہیں ۔۔۔۔


 نہیں وہ بے ہوش پڑی ہے ۔۔۔۔


تم نے کیا کیا ہے اس کے ساتھ سامنے والے نے بے حد غصے سے کہا ۔۔۔


اپ کو یاد ہے نا اس نے میری کس طریقے سے بیزاتی کی تھی سب کے سامنے اپ بھول کیسے سکتے ہیں اس چیز کو ۔۔۔


اس نے وہ سب تمہاری حرکتوں کی وجہ سے کیا تھا سمجھے تم ۔۔۔


جو بھی تھا مگر اسے یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔۔


تم یہی سب کچھ ڈیزرو کرتے تھے سمجھے تم فون پر جو بھی تھا وہ بہت غصے میں تھا ۔۔۔


اور میں نے وہ کیا ہے جو وہ ڈیزرو کرتی تھی ۔۔۔


ایک لمحے کے لیے وہ چپ سا ہوا ۔۔کیا ۔۔۔کیا ہے تم نے اس کے ساتھ ۔۔۔


ریپ ۔۔۔۔۔

ریپ کیا ہے میں نے اس کا اور میرے ایک اور دوست نے بھی اس نے اتنی اسانی سے کہا جیسے یہ کوئی بڑی بات ہی نہ ہو ۔۔


فون پر جو بھی تھا وہ لمحے بھر میں بلکل چپ ہو گیا اسے سمجھ میں نہیں ایا کہ وہ کیا کرے اور کیا کہے ۔۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا ۔۔


وہ دوپہر کو یونیورسٹی سے اپنے گھر کیلئے نکلی تھی اور اب رات کے 11 بج رہے تھے بے ہوشی کی حالت میں ان دونوں لڑکوں نے اس کے ساتھ ریپ کیا تھا اور اب وہ اسے اس رات کے اندھیرے میں فارم ہاؤس لے کر جا رہے تھے اس کے ۔۔۔


میں اپ کو بتا رہا ہوں چیزیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ۔۔

اپ ہماری مدد کریں ۔۔

اور میں اپنے بابا سے کہہ کر اپ کی مدد کرواؤں گا ۔۔۔

بابا اس وقت ملک سے باہر ہے وہ میری کوئی مدد نہیں کر سکتے اور میں انہیں یہ سب کچھ نہیں بتا سکتا وہ پارٹی کے کام سے گئے ہیں ۔۔

بابا نے ایک وقت پر اپ کی بہت مدد کری تھی اب وقت اگیا ہے کہ اب آپ ان کے بیٹے کی مدد کریں ۔۔۔۔

میں اس لڑکی کو اپ کے فارم ہاؤس لے کر جا رہا ہوں اور اپ بھی وہیں ا جائیں ۔۔۔۔

کہہ کر اس لڑکے نے فون بند کر دیا ۔۔


جبکہ دوسری طرف وہ شخص اس کے بولے گئے الفاظوں پر یقین کرنے کی یہ کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔


چیزیں واقعی ہاتھ سے نکل چکی تھیں حرم کا ریپ ہو چکا تھا اور ڈرائیور مر گیا تھا ۔۔۔


لمبے بالو ں و الے لڑکے کے موبائل پر ایک بار پھر سے اسی آدمی کا فون ایا ۔۔۔۔


تم وہاں سے فورا یہاں پر اؤ اور اس کو میرے فارم ہاؤس میں رکھو ۔۔۔

گارڈز چوکیدار جو بھی وہاں پر ہیں سب کو ہٹا دو اور بہت دھیان رہے کسی کی بھی نظر اس لڑکی پر نہیں پڑھنی چاہیے ۔۔۔۔

اس لڑکی کو اس فارم ہاؤس میں رکھو اور میرے پاس اؤ فورا ۔۔


ٹھیک ہے میں اسے فارم ہاؤس پہنچا کر اتا ہوں ۔۔۔


میری بات دھیان سے اپنے کانوں سے سن لو کسی کی بھی نظر نہیں پڑھنی چاہیے اس لڑکی پر نہ کسی چوکیدار کی نہ گارڈ کی اور نہ ہی کسی ملازم کی اور سب کو بھیج دو کسی کو بھی مت رکھنا فارم ہاؤس پر جب تک میں نہیں اتا کوئی دوسرا شخص فارم ہاؤس میں نہیں ائے گا ۔۔۔

اسے اوپر چھت والے میرے کمرے میں رکھنا اور رکھنے کے بعد وہ کمرہ لاک کر دینا ۔۔۔


دیر رات کا وقت تھا ۔۔جب وہ اس کے پاس ایا ۔۔۔

دونوں کے درمیان کافی بحث بازی ہوئی ۔۔۔


تم اس کے ساتھ اخر یہ سب کچھ کیسے کر سکتے ہو لمبے بالوں والے لڑکے کو اس نے گربان سے پکڑ کر اپنے قریب کھینچا اور ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا ۔۔۔


میں اس سے صرف بدلہ لینا چاہتا تھا ۔۔۔


اس طرح سے تم نے اس سے بدلہ لیا ہے ہاں ۔۔۔


اب جو ہو گیا میں اس پہ کچھ نہیں کر سکتا ۔۔


اگر تم پکڑے گئے نا تو تمہاری سوچ ہے تمہارے ساتھ کیا ہوگا ۔۔۔

اگر اپنا خیال نہیں تھا تو اپنے گھر والوں کا ہی خیال کر لیتے کہ تمہاری وجہ سے ان کو کتنے مسلے مسائل ہو سکتے ہیں اور اگر انکل کو پتہ چل گیا نا تمہاری ان حرکت کے بارے میں تو تمہارا وہ حشر نشر کر دیں گے ۔۔۔۔


اگر اپ ان کو نہیں بتائیں گے تو انہیں پتہ نہیں چلے گا ۔۔۔


اور میں بابا سے اپ کے لیے بات کروں گا ۔۔اپ کا فیوچر اور زیادہ سٹرانگ ہو جائے گا جتنا ابھی ہے اس سے شاید سو گنا زیادہ اب جو ہو گیا ہے سو ہو گیا اب اپ سب کچھ ٹھیک کر دیں ۔۔۔


تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب کچھ کرنا بہت اسان ہے اس کے گھر والے اسے تلاش نہیں کریں گے ۔۔۔


بالکل کریں گے تب ہی تو میں اپ کے پاس ایا ہوں کیونکہ مجھے پتہ ہے اپ سب کچھ سنبھال سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔


تم نے جو کرنا تھا وہ تم کر چکے ہو سامنے کھڑے لڑکے نے اسے گندی گندی گالیاں دینی شروع کی اب اپنا منہ بند کر کے بیٹھنا ورنہ میں تمہیں یہیں گاڑ دوں گا ۔۔۔

یونیورسٹی کے قریب کوئی کیمرہ تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔

کچھ دیر کے بعد اس لڑکے نے سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔


لمحے بھر کے لیے لمبے بالوں والوں کی رنگت اڑ گئی ۔۔۔


ہاں ہے ابھی لگا تھا گیٹ نمبر تھری پر ۔۔۔۔شیٹ ۔۔۔۔۔


لعنت ہو تم پر ۔۔۔

کافی وقت ہو چکا ہے اگر اس وقت کوئی دیکھ رہا ہوتا تو یقینا تم لوگ اسی وقت پکڑے جاتے ۔۔۔۔


میں کچھ نہ کچھ کر لوں گا صبح ہوتے ہی وہاں سے وہ چیز ڈیلیٹ کرنی ہے ۔۔

اور میں ان سب چیزوں کو خود دیکھ لوں گا ۔۔۔


ہم اس وقت یونیورسٹی کیوں نہیں جا رہے جب ہم ابھی ڈیلیٹ کر سکتے ہیں تو ۔۔۔


جتنی عقل ہے نا تم اتنی ہی بات کر سکتے ہو ۔۔

رات کے اس وقت یونیورسٹی جاؤ گے تو شک تم پر بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ وہ اب کسی کو فون کرکے کچھ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔


صبح پولیس یونیورسٹی کی طرف ہر جگہ تلاش کرے گی ہر کسی سے انویسٹیگیشن کرے گی لڑکی کے بارے میں اور تمہیں کیا لگتا ہے تم بچ جاؤ گے سب سے اگر تم اس وقت یونیورسٹی پہنچتے ہو کچھ ڈیلیٹ کرنے کے لیے بے وقوف انسان ۔۔

میں صبح ہی دیکھتا ہوں کہ میں کیا کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔


اخر کا کسی نہ کسی طریقے سے اس ادمی نے اپنے اندرونی کچھ ادمیوں کے ذریعے گیٹ نمبر تھری کی وہ ریکارڈنگ ڈیلیٹ کروا دی اور وہ کیمر ہ بند کروا دیا ۔۔۔۔ ۔۔


باہر دیپک کو انہوں نے چوکیداری کے لیے کھڑا کیا ہوا تھا کہ جیسے ہی کوئی ائے تو وہ اس کو بتا دے ۔۔۔

وہ پہلے ہی سمجھ چکا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے ۔۔۔ان لوگوں نے پہلے ہی پیسے دے کر دیپک کا منہ بند کر دیا تھا ۔۔۔

اس نے کمرہ ہلکا سا کھول کر دیکھا وہ لوگ ویڈیو ڈیلیٹ کروا رہے تھے ۔۔۔

دیپک نے اپنے دماغ میں کچھ سوچا وہ بے حد لالچی تھا ۔۔۔

وہ سب اپنے کام میں مصروف تھے ۔۔۔۔

کہ دیپک نے جیسے ہی موقع ملا اس نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اسکرین پر چلتی ہوئی ویڈیو اپنے موبائل کے کیمرے کے اندر بھی ریکارڈ کر لیں ۔۔۔

وہ دیپک کا منہ پہلے ہی پیسے دے کر بند کروا چکے تھے اور اب وہ مزید پیسے کھانے والا تھا ۔۔۔۔


وہ ویڈیو بڑی اسانی سے ان کے ہاتھ لگ گئی تھی اور ڈیلیٹ بھی ہو گئی تھی ۔۔

اور جب پولیس والوں نے اس چیز کو تلاش کیا تو انہیں کسی قسم کی کوئی ایسی چیز نہیں ملی جو ثبوت کے طور پر استعمال ہو سکے یا کسی کے اوپر شک ہو سکے کیونکہ وہ پہلے ہی سارے ثبوت مٹا چکے تھے ۔۔۔ 

ان سب کے پیچھے جو بھی تھا وہ بڑی مہارت سے ایک ایک کر کے ہر چیز کو ہٹاتے جا رہا تھا ۔۔۔

کسی کو خبر نہیں تھی کہ وہ ایک ایک کر کے ہر ثبوت خود اپنے ہاتھوں سے مٹا رہا ہے ۔۔۔۔


_______________________________


فنکشنز والے دن تمام فنکشنز جب ختم ہو گئے تو حرم منصور واش روم کی طرف چلی یہ اس دن کی بات تھی جس دن وہ غائب ہوئی تھی ۔ ۔ ۔

اس نے اپنا بیگ اتار کر واش روم کی سلپ پر رکھا ۔۔اور ایک واش روم کے اندر چلی گئی ۔۔۔


کچھ وقت کے بعد جب اس نے دروازہ کھولا تو دروازے نہیں کھل رہا تھا ۔۔۔

ایک لڑکی جو اس کا پیچھا کرتے ہوئے واش روم ائی تھی وہ واش روم کے ائینے کے سامنے مسکرا رہی تھی جبکہ حرم زور زور سے دروازہ بجا رہی تھی ۔۔

اس لڑکی نے باہر سے دروازہ بند کر دیا تھا ۔۔۔

یہ وہی لڑکی تھی جو ان لڑکوں کے ساتھ ملوث تھی ۔ ۔


باہر کوئی ہے دروازہ کھولے ۔۔۔اس نے دو تین بار کہا ۔۔۔

 جس خاموشی نے اس نے کنڈی لگائی تھی حرم کو بالکل بھی پتہ نہیں چلا تھا ۔۔۔


اندر کوئی ہے اس لڑکی نے بڑی ہی مکاری سے کہا اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور وہ اپنی مسکراہٹ چھپا رہی تھی ۔۔۔


ہاں پلیز دروازہ کھل نہیں رہا ہے اپ پلیز باہر سے پش کریں ۔۔۔حرم نے کہا ۔۔۔


ٹھیک ہے میں ٹرائی کرتی ہوں تم لوک گھماؤ ۔۔۔۔


میں بھی جب واش روم میں تھی تو میرے ساتھ بھی یہ ہو گیا تھا جام ہو گیا تھا اس وجہ سے نہیں چل رہا تھا لاک ۔۔۔

تم دوبارہ سے لوگ گھماؤ میں باہر سے کھولنے کی کوشش کرتی ہوں ۔۔۔۔


حرم لوک گھما رہی تھی لیکن باہر لگی کنڈی کی وجہ سے وہ دروازے نہیں کھول پا رہی تھی ۔۔۔

نہیں ہو رہا میں نے گھمایا ہے ۔۔


ایک بار پھر سے کوشش کرو نا ۔۔۔

اس بار اس نے کنڈی اہستہ سے کھولی جس طرح اس نے اہستہ سے لگائی تھی ۔۔


تم لوک کھولو میں دھکا دیتی ہوں باہر سے ۔۔


اگلے ہی لمحے دروازہ کھل چکا تھا ۔۔۔


تھینک یو سو مچ ۔۔حرم نے اس لڑکی کو مسکرا کر کہا ۔۔۔


صبح تک تو یہ بالکل صحیح تھا اب پتہ نہیں اس کو کیا ہو گیا ہے میں صبح ائی تھی واش روم تو بالکل صحیح تھا حرم منصور لاک کے بارے میں بات کر رہی تھی ۔۔۔


نہیں یہ تو کل سے ایسے ہی ہو رہا ہے میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا پھر جویریہ نے دروازہ کھولا ۔۔


اچھا ہو سکتا ہے چلو پھر ملتے ہیں اللہ حافظ ۔۔۔


بائے ۔۔۔اس لڑکی نے کہا ۔۔۔


حرم منصور اب جا چکی تھی ۔۔۔


وہ بس یونیورسٹی سے نکلنے ہی والی ہے ۔۔یونیورسٹی کے گیٹ نمبر تھری پر اتے ہوئے اس نے ان لڑکوں سے کہا جو اس کے ساتھ ملوث تھے ۔۔۔


__________________________________________


دیپک کے چھوٹے بھائی راجو پر کڑی سے کڑی نظر رکھی جا رہی تھی ۔۔۔

جو پیسے اسے دیپک کے ذریعے ملے تھے ان پیسوں سے اس نے گاؤں کی ایک زمین خرید لی تھی اور اسی کے اوپر اپنا گھر بنوا لیا تھا ۔۔۔

اس کے باقی بہن بھائیوں کے مقابلے میں راجو کا گھر ان سے کافی بہتر تھا ۔۔

اور دیپک کے جو بچے ہوئے پیسے تھے اس سے اپنی چھوٹی کوئی دکان کھول لی تھی ۔۔۔


اس کا ایک چھوٹا بیٹا تھا جو کہ دوسری جماعت میں تھا اور بیوی ایک گاؤں کے ہاسپٹل میں کام کرتی تھی ۔۔


اس وقت گھر پر کوئی بھی موجود نہیں تھا جب انہوں نے چھاپہ مارا ۔۔

انہوں نے پورے گھر کی اچھی طرح سے تلاشی لی ۔۔

پورے گھر سے انہیں کچھ بھی نہیں ملا جب کہ منور کو اس کے بیٹے کے کمرے سے ملی ہوئی ایک چیز پر شک ہوا ۔۔۔

ایک بڑا سا چوڑا صندوق تھا ۔۔ جو کہ لکڑی کا بنا ہوا تھا اور اس صندوق کو چھپانے کے لیے اس کے اوپر گدے اور چادر ڈال کر اس کو ایک بیڈ بنایا ہوا تھا ۔۔۔

ان لوگوں نے وہ ساری چیزیں ہٹا کر پھینکی ۔۔۔

نیچے ایک لکڑی کا صندوق تھا جس کے اوپر تالا لگا ہوا تھا ۔۔۔

شاہ میر شیراز اور منور نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔

کھولو اسے فورا تالا توڑ دو ۔۔۔

شاہ میر شیراز اب گھٹنوں کے بل بیٹھا اس صندوق میں سے وہ نکلنے والا بیگ دیکھ رہا تھا ۔۔۔

اس بیگ کو دیکھ کر ہی اندازہ ہو سکتا تھا کہ یہ گاؤں کے کسی ادمی کا نہیں ہو سکتا ۔۔

وہ بہت اچھی کوالٹی کا برینڈڈ بیک تھا ۔۔۔

بیک کے اندر اس کے بیٹے کے سردیوں کے کپڑے بھرے ہوئے تھے ۔۔اس بیگ کو فورا خالی کرو ۔۔۔

بیک کو خالی کرنے پر کچھ بھی نہیں ملا ۔۔

بیک تو بالکل خالی ہے صرف بچے کے کپڑے پڑے ہیں ۔۔۔


نہیں ایسا نہیں ہو سکتا پیسوں کے علاوہ بھی یقینا دیپک کے پاس کچھ نہ کچھ ایسا تھا جو وہ ان سے مزید پیسے مانگنے والا تھا اور پھر اگے جا کر انہیں وہ مزید تنگ کرتا اس وجہ سے ان لوگوں نے دیپک کا قصہ ہی ختم کر دیا ۔۔۔اور دیپک نے اس

 پیسوں کے بارے میں راجو کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا تھا ۔۔

اور اس کا بھائی یقینا ہم سے جھوٹ کہہ رہا ہے کہ دیپک سے اس کی کوئی ملاقات کوئی بات نہیں ہوئی جبکہ دیپک نے یہ پیسوں سے بھرا ہوا بیگ اپنے بھائی راجو کو ہی پکڑایا تھا اور پھر وہ جیسے ہی گاؤں سے باہر گیا ان لوگوں نے اسے اس جگہ 

پر بلا کر اسے جان سے مار دیا ۔۔۔


بیک کو الٹا کرو ۔۔۔

وہ ہر طرف سے بیک کو الٹا سیدھا کر کے دیکھ رہا تھا اندر کی ساری جیبیں کھول کے وہ پہلے ہی دیکھ چکا تھا ۔۔۔

اس نے بیگ کو نیچے رکھا ۔۔اور پھر اپنے ہاتھ سے بیک کا نیچے والا حصہ اہستہ سے دبایا ۔۔

چھری لے کر اؤ فورا ۔۔

منور فورا سے کچن میں گیا اور وہاں سے چھری لے کر ایا ۔۔

اسے اس بیگ کے نیچے والے حصے میں کسی سخت چیز کا احساس ہوا تھا ۔۔اس نے بہت احتیاط سے وہ بیک چیرا لگایا ۔۔۔

پلاسٹک کی دو تھیلیوں کے اندر ایک سی ڈی تھی ۔۔۔

شاہ میر شیراز اور منور ایک دوسرے کا چہرہ حیرانی سے دیکھنے لگے ۔۔۔

دیپک نے اس بیگ کے اوپر ایک مضبوط کپڑا چڑھا کر وہ سی ڈی نیچے والے حصے میں چھپا دی تھی ۔۔اس کے اوپر اور نیچے ربڑ تھا تو کسی کو شک نہیں ہوا کہ اس کے نیچے بھی کچھ اور ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔

ہمارے ہاتھ وہ چیز لگ گئی جس کی ہمیں تلاش تھی ۔۔۔

ہر چیز کو اس کی جگہ پر دوبارہ سے رکھ دو کسی کو پتہ چلنا نہیں چاہیے کہ یہاں پر کیا ہوا ہے ۔۔


اپنے مقصد کا سامان لے کر وہ لوگ اب جا چکے تھے ۔۔۔


واپسی شہر انے پر ان لوگوں نے اس ویڈیو کو چلا کر اپنے لیپ ٹاپ میں دیکھا کہ اس سی ڈی میں کیا ہے ۔۔۔۔


یونیورسٹی کے گیٹ نمبر تھری کی وہ ویڈیو اب سامنے سکرین پر چل رہی تھی ۔۔۔

ڈرائیور کے سر پر گن مارنے سے لے کر اس ڈرائیور کے کپڑے پہننے تک ہر ایک چیز شاہ میر شیراز نے خود اپنی انکھوں سے دیکھی تھی ۔۔۔۔

ان کے چہرے واضح تھے کہ وہ لوگ کون تھے ۔۔۔

شاہ میر شراز کا خون کھولنے لگا اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ ایک ایک کو جا کر اپنے ہاتھوں سے جان سے مار دے ۔۔۔

کچھ دیر بعد کی فٹیج میں حرم منصور کی گاڑی اسی راستے سے جاتی ہوئی نظر ائی تھی ۔۔۔۔

صدیق کی جگہ پر کوئی اور تھا 

اور ڈرائیور کو وہ لوگ گن سے مار چکے تھے اور خون زیادہ نکلنے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی تھی ۔۔۔۔


تم دیکھنا منور میں ان سب کو خون کے انسو رلاؤں گا ۔۔۔

کسی ایک کو نہیں چھوڑوں گا کسی ایک کو جو جو بھی اس میں شامل تھا اب ان کا وقت قریب اگیا ہے وہ ہر چیز کا حساب دیں گے ۔۔۔۔


____________________________________


اج صبح سے ہی بادل اسمان کو گھیرے ہوئے تھے اور صبح سے ہی بارش برس رہی تھی ۔۔

حرم کو بارش حد سے زیادہ پسند تھی ۔۔۔

مگر اب اس کے اندر سے ہر جذبات جیسے مر چکے تھے ۔۔

اگر یہ پرانی والی حرم ہوتی تو بے شک بارش صبح سے رات تک ہوتی وہ اپنے کمرے میں نہ آتی بلکہ وہیں پورا دن بارش میں کھڑی اپنے اپ کو بھگاتی رہتی نہاتی رہتی ۔۔ 

مگر اج وہ صرف اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر گارڈن کو بھیگتا ہوا دیکھ رہی تھی جو کہ صبح سے ہی انتہائی حسین لگ رہا تھا ۔۔

اندھی کے ساتھ بارش رات تک جاری تھی ۔۔ 

انتہائی حسین موسم تھا ۔۔۔۔

حمدان کل سے گھر نہیں ایا تھا کیونکہ اس کی نان سٹاپ ڈیوٹی تھی ۔۔۔


ہمدان کو بارش پسند تو تھی مگر حرم منصور جتنی نہیں ۔۔ان دونوں کے درمیان اکثر بحث ہوتی تھی بارش کو لے کر ۔۔

مجھے یہ بارش بالکل بھی نہیں پسند حرم جی کبھی کبھار اچھی لگتی ہے ہر وقت نہیں ۔۔

میں تو چاہتی ہوں کہ روز بارش ہو ۔۔۔

اپ کی چاہتیں بھی بہت عجیب ہیں ۔۔

کیوں اس میں عجیب کیا ہے دیکھو نا جب بارش ہوتی ہے تو ہر چیز کتنی صاف ہو جاتی ہے پودے کتنے خوش ہوتے ہیں ہرے بھرے کتنے اچھے لگتے ہیں اور موسم بھی کتنا اچھا ہو جاتا ہے ۔۔۔

ہاں اور اس بارش کے بعد روڈوں پر جو پانی کھڑا ہوتا ہے جو کیچڑ ہوتی ہے اس کے بارے میں اپ کا کیا خیال ہے ۔۔۔

تم تو بس بارش کو برا ہی کہتے رہنا ہمیشہ ۔۔۔

بارش کی مٹی کی خوشبو کتنی اچھی ہوتی ہے نا ۔۔

جب بارش کے قطرے مٹی پر پڑتے ہیں اور پھر جو خوشبو اٹھتی ہے نا ہمدان میں تمہیں کیا بتاؤں وہ خوشبو میری پسندیدہ خوشبو ہے ۔۔۔

مٹی کی خوشبو سے بہتر ہے انسان پرفیوم لگا لے ۔۔

چپ ہو جاؤ تم تو اپنا منہ بند ہی رکھو تمہیں بڑے مسئلے مسائل ہیں بارش کے ساتھ ۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے سوری ۔۔۔

اور جو تم ا جاتے ہو منہ اٹھا کر بارش کے ٹائم پر مجھے یہ والے پکوڑے بنا دو مجھے یہ والی چائے بنا دیں اس طرح سے کافی بنا دیں اس کا کیا ہاں اس وقت تمیں بارش بڑی اچھی لگتی ہے جب تم پکوڑے کھا رہے ہوتے ہو مزے سے تو ۔۔۔

وہ تو اپ اچھے بناتی ہیں تو میں اپ کو کہہ دیتا ہوں ۔۔۔

ہاں پوری پوری ٹرے کھا جاتے ہو تم پکوڑوں کی تب تمہیں بارش بری نہیں لگتی ۔۔

اچھا نا ٹھیک ہے ۔۔۔

چلو اؤ باہر چلتے ہیں دیکھو بارش اور زیادہ تیز ہو گئی ہے وہ اب اس کے ہاتھ سے پکڑ ے کی ٹرے لے کر اسے باہر لان کی طرف گھسیٹ رہی تھی ۔۔

نہیں میں نہیں ا رہا ۔۔

حمدان چلو ساتھ زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں جلدی اؤ نا کتنی تیز ہو رہی ہے بارش اؤ جلدی مزہ ائے گا ۔۔۔

وہ اس کے منع کرنے کے باوجود بھی اسے شرٹ سے پکڑ کر اپنے ساتھ باہر کی طرف گھسیٹ رہی تھی ۔۔۔۔۔

اپنے کمرے کی کھڑکی سے اس بارش کو دیکھتے ہوئے اسے وہ حسین دن یاد ائے ۔۔وہ کیا تھی اور کیا ہو گئی تھی وہ کتنی زندہ دل لڑکی تھی اور اب اندر سے بالکل ہی مردہ ہو گئی تھی ۔۔ ۔۔

اسی لمحے ہمدان کی گاڑی اسے نظر ائی جو کہ اب گھر کے اندر داخل ہو رہی تھی ۔۔۔

یقینا اس کا مونڈ خراب ہوگا راستے میں ملنے والے ٹریفک کی وجہ سے اور بارش کی وجہ سے ۔۔۔

اس نے حمدان کے لیے پہلے سے ہی ہر چیز تیار کر لی تھی صرف اور صرف اس کو فرائی کرنا تھا ۔۔۔

وہ کل سے جو گیا تھا اج گھر ا رہا تھا نان سٹاپ اس کے لیے کام تھا ۔۔۔

اس نے گھر کا مین ڈور حمدان کے چابی لاک میں ڈالنے سے پہلے ہی کھول دیا تھا ۔۔

اس کی شرٹ ہلکی ہلکی گیلی تھی ۔۔۔

وہ واقعی بہت تھکا ہوا تھا ۔۔

مگر جیسے ہی اس کی نظر حرم منصور پر پڑی اس کی ساری تھکن نہ جانے کہاں جا کر سو گئی تھی وہ ایک دم اپنے اپ کو تندرست اور پرسکون محسوس کررہا تھا ۔۔۔

تمہارے کپڑے گیلے ہو گئے ہیں ۔۔

اور میں حیران ہوں اپ کے کپڑے گیلے نہیں اپ نہیں نہائیں ۔۔

وہ دونوں اب ساتھ چلتے ہوئے اندر ا رہے تھے ۔۔۔

ایسے ہی دل نہیں چاہ رہا تھا ۔۔

باہر چلیں بارش میں ۔۔۔۔

رات کی ساڑھے 12 بج رہے ہیں بیمار ہونے کا ارادہ ہے تمہارا ہاں ۔۔

تو کیا ہوا آپ تو تین تین بجے تک بھی نکل جاتی تھی بارش میں یاد نہیں اپ کو ۔۔۔

حمدان نے اسے کچھ پرانی یادیں یاد دلائیں ۔۔۔۔

وہ پرانی بات تھی ۔۔

تو کیا ہوا میں اپ کا علاج کر دوں گا ڈونٹ وری ۔۔۔۔وہ بھی فری میں پیسے بھی نہیں لوں گا وہ مسکرا کر اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔

پیسے تو میں تمہیں ویسے بھی نہیں دیتی ۔۔۔۔

چلو اؤ تمہیں کھانا لگا دیتی ہوں پر پہلے جا کر تم اپنی شرٹ چینج کر لو ورنہ بیمار ہو جاؤ گے ۔۔۔

میں چاہتا ہوں کہ میں بیمار ہو جاؤں ۔۔۔۔

حرم چلتے چلتے رکی اور وہ کیوں ۔۔۔

کیونکہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اپ میری زیادہ کیئر کرتی ہیں ۔۔۔

جاؤ جا کے اپنے کپڑے چینج کرو ۔۔۔

میں تمہارے لیے کھانا نکال رہی ہوں ۔۔۔

اپ نے کھانا کھایا ۔۔۔یقینا نہیں کھایا ہوگا انتظار میں بیٹھی ہوں گی میرے ۔۔۔

میں نے اپ کو کہا بھی ہے اپ کھانا جلدی کھا لیا کریں مگر اپ سنتی نہیں ہیں میری ۔۔

مجھے اس وقت بھوک نہیں تھی ۔۔۔

تم جاؤ چینج کر کے اؤ میں کھانا نکال رہی ہوں ۔۔

وہ جب چینج کر کے ایا تو وہ کچن میں کچھ فرائی کر رہی تھی ۔۔۔

وہ خوشبو سے ہی پہچان گیا تھا کہ وہ کیا فرائی کر رہی ہے ۔۔۔

وہ جب تک پکوڑے فرائی کر رہی تھی ہمدان نے کافی کا سامان نکال کر سلپ پر رکھا ۔۔کھانا کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ۔اس نے دو کپ کے اندر گرم گرم کافی ڈالی ۔۔۔

اور پھر پکوڑے اور کیچپ لے کر وہ باہر آگیا ۔۔۔۔

اب تم جا کر سو جاؤ تھک گئے ہو گے تمہاری نائٹ ڈیوٹی بھی تھی پھر پورا دن بھی تم کام پر رہے جا کے سو جاؤ حمدان ۔۔

وہ اسے اب اپنے ساتھ باہر لے کر جا رہا تھا ۔۔۔

پہلے تھوڑے سے پکوڑے کھائیں گے کافی پییں گے بارشیں انجوائے کریں گے اور پھر سو جاؤں گا اب اپ چلے زیادہ باتیں مت کریں ۔۔۔

وہ لوگ گارڈن ایریا کی دوسری طرف ائے جہاں پر سیڑھیاں تھیں ۔۔۔

وہ ہمیشہ اسی پر بیٹھا کرتے تھے ۔۔۔

سامنے بڑے بڑے ناریل کے درخت بارش سے خوب مزہ اٹھا رہے تھے ۔۔

وہ دونوں اوپر والی سوکھی سیڑھیوں پر بیٹھے ۔۔۔

حمدان نے ہمیشہ کی طرح وہ پکوڑے بڑے شوق سے کھائے تھے ۔۔۔

جب کہ حرم گرم کافی کا کپ اپنے ہاتھوں میں پکڑے اس بارش کو دیکھ رہی تھی جو اسے بہت زیادہ پسند تھی ۔۔

وہ دونوں اب جانے کے لیے اپنا 

سامان سمیٹ رہے تھے ۔۔

چلو اب ۔۔۔

وہ میں کچھ سوچ رہا تھا ۔۔۔۔

وہ کیا ۔۔۔۔

حرم منصور نے اس کی طرف گردن موڑ کر دیکھا ۔۔

وہ یہ کہ ہمیں بارش میں نہانا چاہیے ۔۔۔

اگلے ہی لمحے اس نے حرم منصور کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسے باہر بارش کی طرف کھینچا تھا ۔۔۔

حمدان تم پاگل ہو گئے ہو چلو اندر ۔۔۔نہیں اپ ا جائیں میرے ساتھ وہ دونوں لمحے بھر میں بارش سے بھیگ چکے تھے ۔۔۔

ا جائیں حرم جی اپ کو بارش بہت پسند ہے اس نے حرم کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑے رکھے تھے کہ وہ چلی نہ جائے ۔۔۔

حمدان یہ کیا بچپنا ہے ۔۔۔اس نے ہمدان پر غصہ کیا ۔۔۔

جو ہے بس یہی ہے ۔۔۔وہ اب اس کا ہاتھ تھامے اسے دوسری طرف لے جا رہا تھا ۔۔۔

گارڈن کے بیچ میں لا کر ہمدان نے اس کا ایک ہاتھ چھوڑا جبکہ دوسرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں ہی تھا ۔۔۔۔

کچھ دیر کے بعد وہ واقعی بارش میں بہت اچھا محسوس کر رہی تھی ۔۔

اس نے اپنے دونوں ہاتھ کھولے تھے اور اپنا چہرہ اونچا کیا تھا حمدان بس خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

اس کے جوڑے میں بنے ہوئے بالوں سے اب پانی ٹپک رہا تھا اور وہ پانی کے وزن سے کافی نیچے ا چکا تھا کچھ بال لٹو کی صورت میں اس کے چہروں پر چپکے ہوئے تھے ۔۔

حمدان کے لیے یہ دنیا کا سب سے خوبصورت منظر تھا ۔۔۔

ایک لمحے کے لیے تو وہ جیسے سانس لینا بھول گیا تھا۔۔

ایک تکلیف دہ یاد حرم منصور کو پھر سے یاد ائی ۔۔

اور وہ تیزی سے وہاں سے جانے لگی کہ حمدان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا ۔۔

وہ باسانی دیکھ سکتا تھا کہ اس بارش میں بھی اس کی انکھیں گلابی ہو رہی ہیں ۔

اور بارش کی قطروں کے ساتھ انسو کے قطرے بھی اس کی گال پر ٹپک رہے ہیں ۔۔

حمدان نے اہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر سے وہ سارے انسو صاف کر دیے تھے جو برستی ہوئی بارش کے ساتھ اس کے چہرے کو بھی بھگو رہے تھے ۔۔

اس نے مسکرا کر حرم منصور کو دیکھا ۔۔

میں چاہتا ہوں اپ ہمیشہ خوش رہیں اپ کو کبھی کوئی دکھ کبھی کوئی تکلیف نہ ہو وہ اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے کہہ رہا تھا ۔۔۔

میں اپ کو کبھی نہیں چھوڑوں گا کبھی اپ سے دور نہیں ہوں گا ہمیشہ اپ کی حفاظت کروں گا ائی پرامس ۔۔۔۔

حرم منظور اس کی بات پر اہستہ سے مسکرائی ۔۔

تھینک یو سو مچ حرم نے اہستہ سے ہمدان کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔

کیا کہا ذرا دوبارہ تو کہیے گا اس نے اپنا کان کے ہونٹوں کے قریب کیا ۔۔ ۔حرم نے ایک زوردار تھپڑ اس کے کندھے پر ٹکایا تھا ۔۔

وہ دونوں ایک ساتھ مسکرائے تھے ۔۔


جاری ہے