تیرے لیے

قسط نمبر 11

مصنفہ منال علی 


حرم سے وعدے کے مطابق وہ پاکستان سے اب امریکہ ا چکا تھا اور اس نے اپنے میڈیکل کی تعلیم وہیں پر ہی شروع کر دی تھی ۔ 

وہ روز حرم کو وہاں سے فون کرتا لیکن حرم اس کے کسی میسج کا کوئی ریپلائی نہیں کرتی وہ کال کرتا تو وہ اس کی کال نہیں اٹھاتی سکندر اور مریم بھی اسے ہمدان سے بات کرنے کا کہتے تو وہ یہ کہہ کر ڈال دیتی کہ اس نے بات کر لی ہے ۔۔۔

اس نے ہمدان سے بات چیت کرنا بہت زیادہ کم کر دی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ صرف اور صرف اپنی تعلیم پر توجہ دے اور کسی چیز پر نہیں اور خاص طور پر حرم پر ۔۔۔

بہت ساری کالز کے بعد بلا اخر حرم نے ایک کال ریسیو کی ۔۔۔


اپ میرے ساتھ یہ جان بوجھ کر کر رہی ہیں نا حمدان نے تیزی سے کہا ۔۔۔۔

اپ ذرا میری کالز کی تعداد چیک کریں اپنے موبائل پر میں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے لیکن اپ نے بھی کہا تھا کہ اپ مجھ سے بات کریں گی مگر اپ ہیں کہ میرا فون تک نہیں اٹھا رہی کسی کال کسی میسج کا رپلائی نہیں دے رہی اگر اپ ایسے ہی کرتی نہیں تو میں امریکہ سے واپس پاکستان ا جاؤں گا ۔


اور جس دن تم ایسا کرو گے اس دن یاد رکھنا کہ میں یہ گھر چھوڑ کر اپنے انکل انٹی کے پاس چلی جاؤں گی ۔۔

حرم کے جواب پر وہ ایک دم چپ ہو گیا ۔۔۔


اپ مجھے اپنے سے دور کیوں کر رہی ہیں ۔۔

مجھے عادت ہے اپ کے ساتھ رہنے کی میں یہاں پر بالکل بھی خوش نہیں ہوں مجھے واپس پاکستان انا ہے میں نہیں رہنا چاہتا یہاں پر میں دوبارہ سے نہیں پڑھوں گا ان سب چیزوں میں ائی پرومس میں اپنا میڈیکل وہاں کمپلیٹ کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔


تم اپنا وعدہ پورا کرو گے ہمدان ۔۔اس کے علاوہ میں کچھ اور نہیں سننا چاہتی ۔۔


ٹھیک ہے میں اپنا وعدہ پورا کروں گا لیکن اپ کیا کر رہی ہیں میرے ساتھ اپ تو مجھ سے اتنا فاصلہ بنا رہی ہیں جسے ہمارے درمیان کوئی رشتہ ہی نہ ہو مجھے عادت ہو گئی ہے اپ کی میں تو حیران ہوں کہ میں اپ کو یاد نہیں اتا آپ مجھے کیسے بھول گئی وہ ایک کے بعد ایک شکایت کر رہا تھا ۔۔۔


حرم کی انکھوں میں تیزی سے انسو ائے اب وہ اسے کیسے بتا تی کہ وہ اس کو کس قدر یاد کر رہی ہے ایک وہی تو واحد تھا جس کے کندھے پر وہ سر رکھ کر بڑے پرسکون طریقے سے رو لیا کرتی تھی اور اب تو وہ کندھا بھی نہیں تھا وہ بہت اکیلا محسوس کرنے لگی تھی لیکن وہ حمدان کو یہ نہیں کہنا چاہتی تھی وہ چاہتی ہی نہیں تھی کہ وہ پاکستان ائے ۔اور وہ لوگ جو حرم کی زیادتی کے پیچھے تھے وہ اس کا مستقبل برباد کریں ۔۔۔


مجھے تمہاری بہت یاد اتی ہے اور تمہاری بہت فکر ہے اسی لیے تم سے فاصلہ اختیار کیا ہے تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو خدا حافظ ۔۔۔۔


خدا حافظ مت کریں مجھے بات کرنی ہے اپ سے ۔۔


میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے ہمدان ۔۔۔


اپ کے سر میں درد نہیں ہو رہا اپ مجھ سے بھاگ رہی ہیں اپ رو رہی ہیں میں جانتا ہوں اپ کو کیا لگتا ہے کہ مجھے پتہ نہیں چلتا ۔۔۔


حرم کے رونے میں اور تیزی ائی اس سے پہلے کہ وہ ہچکیوں سے روتی اس نے فون کاٹ دیا ۔۔۔


دور بیٹھا حمدان اپنے ہاتھ میں موبائل پکڑا بس سکرین کو دیکھتا رہا جہاں پر حرم کی اور ہمدان کی تصویر جگمگا رہی تھی جس میں وہ دونوں کھلکھلا کے مسکرا رہے تھے کتنا لمبا عرصہ ہو گیا تھا اس نے حرم کے چہرے پر وہ خوبصورت مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی جو ہمیشہ اس کے چہرے پر نظر اتی تھی ۔۔

وہ کافی دیر تک اپنے موبائل میں اپنی اور حرم کی تصویریں دیکھتا رہا ۔۔۔

پھر تنگ ا کر ان تمام یادوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے واش روم چلا گیا ۔۔۔

واش روم کا شاور کھول کر اس نے اپنے بالوں پر پانی ڈالا ۔۔اور اپنے دونوں ہاتھ سامنے والی دیوار پر رکھے ۔۔۔۔

وہ کسی گہری سوچ میں تھا ۔۔۔

اسے جیل کی وہ رات یاد ائی ۔۔۔

وہ اس وقت نیند میں تھا جب کسی نے ٹھنڈے پانی کی بالٹی اٹھا کر اس کے منہ پر زور سے پھینکی تھی وہ گھبراہٹ کے مارے تیزی سے اٹھا اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا کسی نے مکو ں اور لاتوں کی بارش اس کے اوپر شروع کر دی تھی ۔۔۔

وہ اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا بس اسے اتنا پتہ تھا کہ وہ تین لوگ تھے جو اسے مل کر مار رہے تھے ۔۔۔۔

وہ پولیس والے تھے وہ تینو ں لوگ حمدان کو مل کر بری طرح سے مار رہے تھے۔۔۔

 اس سب کے پیچھے جو بھی تھا وہ حمدان کو ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ دوبارہ سچ کی تلاش میں کبھی نہ نکلے ورنہ اس سے بھی زیادہ برا حال ہو گا ۔۔۔۔۔


اس کو تب ہوش ایا جب ایک پولیس والے نے اس کو بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اونچا کیا یہ وہی پولیس والا تھا جس کے اوپر اس نے ہاتھ اٹھایا تھا ۔۔۔اور دوسرے کوئی حوالدار تھے۔۔۔۔ 


ان ڈیوٹی پولیس والے کے اوپر ہاتھ اٹھاتا ہے۔۔۔۔

 اب بتا کیا کرے گا تو کہا تھا نا تجھے چھوڑوں گا نہیں دیکھ اپنے اپ کو کیسے سڑ رہا ہے یہاں پر کوئی نہیں ایا تیری مدد کے لیے کوئی بھی نہیں اور پنگا لے ہم سے اور گھس ہمارے اندر ابھی تو بس تو دیکھتا جا تیرا حال اور کیا ہوتا ہے ۔وہ اسے مار کر اب جا رہے تھے ۔۔۔۔۔


جو بھی ہے اس سب کے پیچھے ایک نہ ایک دن وہ میرے ہاتھ ضرور لگے گا حمدان جتنی زور سے بول سکتا تھا اس نے اتنی زور سے بولا وہ بھی بہت غصے میں تھا ۔۔۔تم لوگ جس کے لیے بھی کام کر رہے ہو تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تم لوگوں کو چھوڑ دوں گا ہرگز نہیں ۔۔

ایک دن ائے گا جب تم سب اپنے کیے گئے ایک ایک گناہ کا حساب دوں گے اج نہیں تو کل کل نہیں تو دس مہینے بعد دس مہینے نہیں تو دس سال کے بعد تم لوگ اپنے ہر کیے کا حساب دو گے مجھے وہ بہت غصے سے بولا تھا ۔۔

اور میں کسی سے نہیں ڈرتا بتا دینا اسے جس نے بھی یہ سب کروایا ہے ۔۔۔

 میں کرتا رہوں گا کوشش جس نے جو کرنا ہے وہ کر لے ا کے نہیں ڈرتا میں کسی سے جو اکھاڑ سکتے ہو میرا وہ ا کر اکھاڑ لو ۔۔۔


پولیس والا اور حوالدار ہمدان کو دیکھ کر زور سے ہنسے لگتے تھے لگتا ہے دماغ خراب ہو گیا ہے ہیرو کا ۔۔۔

ویسے ایک بات تو بتا وہ لڑکی تھی کون پری جیسی ۔۔

ہمدان تیزی سے اس کے اوپر جھپٹا ۔۔

حوالدار نے اسے پیچھے کی طرف دھکیلا اور ایک بار پھر اسے مارنا شروع کیا ۔۔۔


اپنی گندی زبان سے ائندہ نام مت لینا اس کا ورنہ زبان کھینچ لوں گا تمہاری ۔۔۔


ارے اتنی آگ کیوں لگ رہی ہے تجھے اس لڑکی کے نام پر کہیں تیرا کوئی چکر تو نہیں اس کے ساتھ خیر اگر ہے بھی تو چل اچھی بات ہے ۔بہت ہی خوبصورت لڑکی ہے اگر وہ ائے نا ہمارے پاس تو ہو سکتا ہے ہم تجھے تھوڑی سی رعایت دے دیں ۔۔وہ پولیس والا اور حوا لدار دونوں زور زور سے ہنسنے لگے ۔۔۔


حمدان ایک بار پھر سے اس پولیس والے کے اوپر جھپٹا اور اسے مارنے لگا کے حوالدار نے پیچھے سے ایک زور سے ڈنڈا اس کے سر پر مارا اور وہ زمین پر جا گرا ۔۔۔۔


پڑے رہنے دو اس کو یہاں پر نہ پانی دینا نہ کھانا یوں ہی پڑا رہے گا یہ اور اگر کوئی کہیں کہ کیوں مارا ہے تو بول دینا ان ڈیوٹی پولیس والے کے اوپر ہاتھ اٹھایا تھا دوبارہ اور گالیاں دے رہا تھا ۔۔۔

__________________________


حمدان کو گھر ائے ہوئے دوسرا دن تھا جب حرم نے حمدان کے ہاتھ پر بے شمار ڈنڈوں کی نشان دیکھے جسے چھپانے کے لیے اس نے فل آستینو ں کی شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔۔۔ 


سکندر کو اس بات کا علم تھا کہ انہوں نے حمدان کو مارا ہے ۔۔لیکن وہ اس بات سے زیادہ خوش تھے کہ وہ اب ان کے پاس تھا اور محفوظ تھا ۔۔۔

حرم نے اس کے ہاتھوں پر وہ نشانات دیکھے ۔۔کھانا کھانے کے دوران وہ اپنی استینیں اوپر کر رہا تھا تو حرم کی نظر پڑی لمحے بھر کے لیے دونوں کی نظرے ایک دوسرے سے ملی تھی ۔۔۔نشان اب ہلکا ہلکا نیلا ہو رہا تھا ۔۔یقینا اسے بہت زور سے مارا تھا ۔ حرم نے بے حد افسوس کے ساتھ اس نشان کو دیکھا ۔۔


وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی جب ہمدان کافی کے دو کپ لے کر اس کے پاس اگیا ۔حرم نے اسے واپس نہیں بھیجا تھا وہ واقعی میں اسے اپنے پاس دیکھ کر بہت خوش تھی کہ وہ واپس ا چکا ہے اور اب محفوظ بھی ہے ۔


کافی بنا کے لے کر ایا ہوں اپ پییں گی ۔۔


یہاں اؤ ۔۔۔۔

وہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔


اپنے استینوں او پر کرو ۔۔۔


کچھ نہیں ہے اب سارے نشان صحیح ہو رہے ہیں اور تکلیف بھی نہیں ہوتی اب مجھے ۔۔۔


استینے اوپر کرو ہمدان ۔۔۔


میں نے اپ سے کہا نہ کچھ نہیں ہے وہ اب کافی کے دونوں کپس بیڈ پر رکھ رہا تھا ۔۔


حرم نے اگے ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھ کو تھاما اور پھر استین اوپر کر کے اس کے نشانات دیکھنے لگی وہاں بہت سارے نشانات تھے ایک لمحے کے لیے تو وہ حیران رہ گئی ۔۔اس کی انکھوں میں تیزی سے انسو ائے ۔۔

اتنا مارا ہے ان لوگوں نے تمہیں شہزاد تو کہہ رہے تھے کہ وہ تمہیں ہاتھ تک نہیں لگائیں گے تو پھر تمہیں انہوں نے کیوں مارا ۔۔۔۔۔


پتہ نہیں ۔۔۔


جھوٹ مت بولو مجھ سے ۔۔۔


بکواس کر رہا تھا وہ اپ کے بارے میں اس لیے میں نے اس کا منہ توڑ دیا ۔اور پھر اس نے اور اس کے آدمیوں نے مل کر میرا منہ توڑا ۔۔۔وہ مسکرا کر کافی پی رہا تھا جبکہ حرم خاموشی کے ساتھ بیٹھی ہوئی اسے دیکھتی رہی ۔۔۔


لوگ میرے بارے میں اب بکواس کرتے رہیں گے تو کیا تم سب کا منہ توڑو گے ۔۔۔


ہاں ۔۔۔۔

بلکل ۔۔


تم بالکل پاگل ہو چکے ہو ۔۔جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے چلے جاؤ ہمدان ۔۔


اپ مجھے اپنے سے دور اخر کار بھیجنا ہی کیوں چاہتی ہیں میں جانتا ہوں اپ نہیں رہ پائیں گی میرے بغیر ۔۔۔


میں رہ لوں گی ۔اور میری دلی خواہش ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ۔۔


حمدان بس خاموشی کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتا رہا وہ دن بدن کتنی سخت ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔


______________________________________


دیر رات کا وقت تھا حرم ہمیشہ کی طرح اپنے کمرے میں تنہا بیٹھی ہوئی انسو بہا رہی تھی ۔۔۔

اسے وہ بھیانک رات یاد ائی ۔۔اس سے یوں لگا جیسے اس کے جسم پر بے شمار کیڑے چل رہے ہوں ۔۔۔


تہمیں پتہ ہے حمدان میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں ایک بہترین ہارٹ سپیشلسٹ بنوں اور اگر میں وہ نہ بنی نہ تو میں اپنے اپ کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی اپنے بولے گئے الفاظ اسے بار بار یاد ا رہے تھے ۔۔۔


اگلے ہی لمحے اس کی انکھوں کے سامنے وہ منظر ایا جب وہ ہاسپٹل کے بیڈ پر پڑی ہوئی تھی ۔۔۔زور زور سے چیخیں مارتی ہوئی حرم منصور اپنے حال پر رو رہی تھی ۔۔۔۔


اخر میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا ۔۔۔میں نے ایسا کیا گناہ کر دیا اللہ جو میرے ساتھ یہ سب ہو گیا میں تباہ و برباد ہو گئی میرے ساتھ یہ کیوں ہو گیا اللّه ۔۔۔

وہ اپنا سر اپنے گھٹنوں میں دیے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔۔۔

میری زندگی کا اب کوئی اور مقصد باقی نہیں رہا لوگ مجھ پر ہنستے ہیں طنز کرتے ہیں مجھے بہت عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔ میرا باہر نکلنا مشکل ہو گیا ہے گھر کے ملازم بھی مجھے اس طرح سے دیکھتے ہیں جیسے پتہ نہیں میں نے کیا کر دیا ہو کیوں ہو گیا میرے ساتھ یہ سب کچھ میں اب کبھی بھی زندگی میں سر اٹھا کر جی نہیں پاؤں گی باہر جاؤں گی تو مجھے یہ خوف ہوگا کے کسی کو اگر میرے بارے میں پتہ چل گیا تو وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھے گا میرا مذاق اڑائے گا مجھ پر افسوس کرے گا ۔۔۔۔

میں ساری زندگی ان سب کے ساتھ زندہ کیسے رہوں گی اللہ میں نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔

اگلے ہی لمحے اس کے دماغ میں ایک سوچ ائی ۔۔۔

ہاں ۔۔۔میں ۔۔۔میں اپنے اپ کو ختم کر لوں گی تو یہ سارا قصہ ہی ختم ہو جائے گا ۔۔

وہ اٹھی اور اگلے ہی لمحے اس نے دراز کھولی اور جتنی بھی اس کی میڈیسن تھیں اس نے وہ ساری نکال لی۔ ڈاکٹر نے ا سے ایک ٹائم پر سکون رہنے کیلئے نیند کی گولیاں دی تھیں ۔۔

وہ ساری گولیاں اس نے اپنے ہاتھ میں جمع کی لمحے بھر میں اس کی مٹھی دوائیوں سے بھر گئی تھی ۔۔۔

 میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے بابا یا حمدان مزید مصیبت سہیے اب میری زندگی کا کوئی اور مقصد باقی نہیں رہا ان لوگوں نے میری زندگی تباہ کر دی میں انہیں کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں ۔۔

وہ ساری گولیاں اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالنے لگی ۔۔۔۔۔

اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔۔۔۔

فجر کی اذان کی اواز اس کے کانوں میں پڑی وہ نیند کی ساری گولیاں اپنے منہ میں ادھی سے زیادہ بھر چکی تھی مگر نگلی نہیں تھی ۔۔۔

اذان کی اواز اور زیادہ بلند ہونے لگی فجر کی اذان کی اواز جب اس کے کانوں میں پڑی تو اس کے جسم میں خوف کے مارے ایک کپکپی سی ا گئی ۔۔۔وہ ساری گولیاں اس نے اپنے منہ سے نکال کر تھوک دی تھی ۔۔۔اور پھر وہ سجدے میں گر کر جتنی دیر تک رو سکتی تھی وہ روئی تھی ۔۔۔

ایک بار اسے خود کشی کرنے سے ہمدان نے بچایا تھا اور دوسری بار فجر کی اذان نے یقینا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا زندگی کا ۔۔۔وہ اپنا سر سجدے میں گرائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔۔۔مجھے انصاف چاہیے اللہ کیا مجھے بھی ان تمام لڑکیوں کی طرح انصاف نہیں ملے گا جو اس اگ میں جل رہی ہیں جن کی زندگی میری طرح تباہ ہوئی ہے کیا کوئی ایسا ہے جو مجھے انصاف دلوا پائے ۔۔۔حمدان نے کوشش کی تو اپ نے دیکھا نا اس کے ساتھ کیا کیا ان لوگوں نے کیا برے لوگوں کا کوئی انجام نہیں کیا ان کو ڈر نہیں لگتا اپ سے ۔۔وہ سجدے کی حالت میں اپنے خوب سارے انسو بہائے جا رہی تھی اور اس کے دل میں جتنی باتیں تھیں اس نے وہ سب اللہ سے کر ڈالی نہ جانے وہ کون سا وقت تھا جب اس کی انکھ لگی اور وہ یوہی سجدے کی حالت میں سو گئی ۔۔۔


____________________________________


مریم کے بھائی کے بیٹے کی شادی چل رہی تھی ۔۔۔مریم فاؤنڈیشن سے انے کے بعد شاپنگوں پہ اکثر مصروف ہو جایا کرتی تھی کیونکہ مریم کے بھائی کی کوئی بیٹی نہیں تھی بس ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا مویز ۔جو اسٹریلیا میں رہتا تھا ۔۔۔مریم اپنی بھابی کے ساتھ اج کل اس کی شاپنگ میں مصروف تھی ۔۔۔

اج بھی اسے بازار جانا تھا مگر مریم کی بھابھی مسرت مہندی کے فنکشن کی تیا ری کی وجہ سے اس کے ساتھ بازار نہیں جا پائی ۔۔۔۔


مریم نے حرم کے کمرے کا دروازہ بجایا ۔۔۔


تمہیں میرے ساتھ شاپنگ پر چلنا ہے بیٹا ۔۔۔


نہیں ماں اپ کو پتہ ہے میں بازار نہیں جاتی اب ۔۔۔


چلو حرم میرے ساتھ اچھا محسوس کرو گی ۔۔ میں ہوں نا تمہارے ساتھ اور مجھے بھی تمہارا ساتھ ہو جائے گا تمہاری پسند کے کپڑے لینے کی عادت ہو گئی ہے مجھے ۔۔۔


سب کی شاپنگ کر لی ہے میں نے لیکن تمہاری ماں کی شاپنگ رہ گئی ہے اب پرسوں مہندی ہے تم بتاؤ میں کیا پہنوں تم مجھے اپنی پسند کا کچھ دلا کے لے اؤ نا ۔۔۔

 چلو نا میرے ساتھ حرم پلیز تمہاری پسند کے اگے میری پسند بہت ہی بیکار ہے ۔۔۔۔


مریم نے بہت اصرار کیا ۔۔اخر کار وہ بڑی مشکل سے جانے کے لیے راضی ہو گئی ۔۔۔۔


جلدی واپس ا جائیں گے ما ں ۔۔۔۔


ہاں بالکل جیسے ہی کام ہوگا ویسے ہی واپس ا جائیں گے ۔۔۔


وہ دونوں اس وقت شاپنگ مال میں موجود تھیں اور مریم مویز کی مہندی کے لیے حرم کے پسند کیے گئے کپڑے نکلوا رہی تھی جو حرم نے مریم کے لیے پسند کیے تھے ۔۔۔۔


یہ ٹرائی کریں یہ بہت اچھا لگ رہا ہے ۔۔۔۔


ہاں میں اس کو ٹرائی کر کے اتی ہوں ۔۔


مریم وہ کپڑے لے کر ٹرائی روم میں چلی گئی ۔۔۔


جبکہ حرم وہیں گھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔


بڑے سے بوتیک پر اس وقت بہت ہی تھوڑے سے لوگ تھے ۔۔

اسی لمحے ایک بچہ حرم سے ٹکرا یا اور اورنج جوس سارا حرم کی سفید کرتی پر گر گیا ۔۔۔


مجھے معاف کیجئے گا غلطی سے ہو گیا ائی ایم سو سوری اس عورت ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا جو تقریبا ساڑھے چار یا پانچ سال کا ہوگا ۔۔

حرم نے اپنی ڈریس کو دیکھا ۔۔سفید رنگ کا کرتا سارا خراب ہو چکا تھا ۔۔۔


مجھے معاف کر دیں یہ بچے سے گر گیا اپ کے کپڑوں پر اس عورت نے کہا ۔۔


سوری ۔۔۔بچے نے فورا کہا ۔۔۔۔


کوئی بات نہیں ۔۔۔


وہ بوتیک سے واش روم کی طرف اب وہ دھبہ صاف کرنے کے لیے جا رہی تھی جبکہ مریم چینجنگ روم میں تھی ۔۔۔۔


دوپہر کا وقت تھا اور مال میں بہت زیادہ رش نہیں تھا وہ لیڈیز واش روم چلی ائی ۔ 


واش روم جا کر اس نے پانی ان کیا اور اپنے کپڑے صاف کرنے لگی ۔ ۔۔کہ اچانک سارے واش روم کی لائٹ کلوز ہو گئی وہ وہاں سے تیزی سے نکلنے لگی اگر یہ پرانی والی حرم ہوتی تو وہیں کھڑی ہو کر اپنا تمام کام مکمل کر لیتی لیکن یہ حرم منصور پرانی والی حرم منصور سے بہت بدل گئی تھی اب تو وہ ذرا سی تیز اواز سے بھی ڈر جاتی تھی ۔۔۔۔


وہ واش روم کا نل بند کرتے ہوئے وہاں سے جانے لگی ۔۔گھبراہٹ کے مارے پانی بھی وہ صحیح طریقے سے بند نہیں کر پائی تھی وہ اپنا بیگ اٹھا کر وہاں سے جانے لگی کہ کسی نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑ کر ایک واش روم کے اندر اسے کھینچا ۔۔واش روم اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔کسی نے واش روم کا دروازہ لاک کیا ۔۔حرم منصور کا سانس بری طرح سے پھولنے لگا واش روم میں ایک دم اندھیرا تھا وہ سنبھل نہیں پائی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور وہ شخص کون تھا جو اسے پکڑ کر یہاں لے ایا ہے اس نے اپنی پوری جان لگا کر اپنے اپ کو اس سے چھڑوانے کی کوشش کی تھی لیکن جو سامنے تھا وہ بہت مضبوط اور اس سے کافی اونچا لمبا تھا ۔۔اس کا جسم حرم منصور سے کہیں زیادہ مضبوط تھا ۔۔۔

وہ اپنی پوری جان لگا کر اسے اپنے سے دور کرنا چاہتی تھی وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی ۔۔۔

کسی نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اس کی کمر کے پیچھے باندھے ۔۔اور پھر زور سے اپنا دوسرا ہاتھ اس کے منہ پر رکھا ۔۔اتنی مضبوطی سے کہ اس کے حلق سے کوئی اواز نہیں نکلے ۔۔۔


وہ بس اتنا اپنے ہاتھوں سے اندازہ لگا پائی تھی کہ اس نے اپنے چہرے کو چھپایا ہوا تھا ۔۔اور اس کی انکھوں کے اوپر گلاسز لگے ہوئے تھے ۔۔۔


حرم ۔۔۔۔

شور مت کرو ۔۔۔۔۔

کسی کی بھاری مردانہ اواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔ایک لمحے کے لیے وہ رکی ۔۔اس شخص کے جسم سے نکلتی ہوئی ایک بہت ہی بہترین خوشبو ہر جگہ پھیل رہی تھی اور وہ جو بھی تھا کے بہت قریب تھا ۔۔۔۔۔حرم کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا ۔۔وہ ایک بار پھر سے مچل کر اپنے اپ کو چھڑوانے لگی ۔۔۔

وہ جو بھی تھا اس کی کوشش پر مسکرایہ تھا۔۔۔۔

کسی نے اپنے ہونٹ اس کے کان کے قریب کیے تھے ۔۔

وہ اس کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑے اور اپنا دوسرا بھاری ہاتھ اس کے ہونٹوں پر جمائے اس کے کان کے قریب بہت اہستہ اواز میں کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔

 حرم منصور کو ٹھنڈے پسینے انے لگے خوف کے مارے وہ کانپنے لگی ۔۔۔


"بہت پیار کرتا ہوں میں تم سے" تمہیں مجھ سے ڈرنے کی بھاگنے کی کوئی ضرورت نہیں تمہاری ان خوبصورت سبز انکھوں میں یہ انسو یہ خو ف مجھے بالکل پسند نہیں وہ اس شخص کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہی تھی لیکن اس اندھیرے میں بھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اس کے چہرے کو مستقل دیکھ رہا ہو ۔۔۔

تمہارے اوپر کیے گے ہر ظلم کا حساب لوں گا میں جو کچھ تم نے اکیلے سہا ہے ہر ایک کو اس کا حساب دینا پڑے گا ۔۔۔۔


حرم منصور کو لگا کہ جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے یہ کون شخص تھا اور اس کے متعلق وہ اس سے کیا کہہ رہا تھا حرم منصور رک گئی تھی یوں جیسے اس کے جسم میں جان نہ ہو ۔۔۔

"شاہ میر شیراز ہوں میں" ۔۔۔۔

اگلے ہی لمحے اس نے حرم کے چہرے پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا ۔۔

اور اس کے دونوں ہاتھ چھوڑ دیے ۔۔حرم منصور واش روم کا لاک کھول کر جتنی تیزی سے بھاگ سکتی تھی وہاں سے بھاگی ۔۔۔۔

اس نے مڑ کر نہیں دیکھا تھا اسے خوف محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔


شاہ میر شیراز ہوں میں ۔۔۔اس کے کان کے قریب بولے گئے اس کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔۔بہت پیار کرتا ہوں میں تم سے ۔۔تمہارےاوپر کیے گئے ہر ایک ظلم کا ہر ایک سے بدلہ لوں گا میں ۔۔۔


__________________________________________


سر اس خاتون کا نام جوتی ہے یہ یونیورسٹی میں کام کرتی ہے ۔۔۔وہ چو کیدار دیپک اس کا شوھر تھا گاؤں میں دیپک نے پہلے ہی شادی کی ہوئی تھی مگر اس کی کوئی اولاد نہیں تھی پھر دیپک نے چھپ کر یہاں شہر میں شادی کر لی ۔۔۔

یہ اسکی بیوی ہے جوتی ہو سکتا ہے یہ ہماری کچھ مدد کر دے ۔۔۔


آج کل یہ کیا کر رہی ہے ۔شاہمیر شیراز اپنے ٹیبل پر بیٹھا وہ سارے پپیرس دیکھ رہا تھا جو منور جوتی اور دیپک کے متعلق لے کر آیا تھا ۔۔۔


اس جوتی کو یہاں لیکر اؤ ۔۔۔۔اگلے ہی لمحے وہ جوتی وہاں کھڑی تھی ۔


دیپک کو کب سے جانتی ہو ۔۔۔


دیپک کو میں ایک سال سے جانتی ہوں مگر اپ لوگ کون ہیں ۔۔۔


میں دیپک کا باس ہوں اس نے میرے پاس کام کیا تھا میرے گھر کی چو كیداری کرتا تھا پھر اسے یونیورسٹی کی نوکری مل گئی اور اس نے میرے پاس کام چھوڑ دیا ۔۔۔۔


 کبھی اس نے آپ کے بارے میں نہیں بتایا مجھے۔۔۔


 اپ اس کی دوسری بیوی ہیں جبکے وہ اپنے گاؤں میں پہلے شادی کر چکا ہے ۔۔۔


پہلے مجھے نہی پتا تھا کہ وہ پہلے ہی شادی شدہ ہے یہ سب مجھے اس کے مرنے کے بعد پتا چلا ۔۔

اس کے گھر والے میرے بارے میں نہیں جانتے جوتی نے کہا ۔۔۔


آپ کے شوھر نے کبھی آپکو کسی حرم منصور کے بارے میں بتایا ہے ۔۔۔یا کبھی وہ گھر میں بہت زیادہ پیسے لایا ہو۔۔

 یہاں تو وہ اپ کے ساتھ رہتا تھا آپکو پتا ہوگا ۔۔۔


ہاں ایک بار لایا تھا ۔اس کے کپڑے رکھ رہی تھی تو اس کی جیب سے تیس ہزار روپے نکلے تھے میں حیران ہوئی کے دیپک کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آے ۔مہینے کا بھی آخر تھا تو کہنے لگا بس آ گے پھر وہ روز اچھے اچھے کھانے باہر سے لانے لگا مجھے بھی کپڑے بنا کر دیے تھے اور کہتا تھا کہ میں بس اپنا منہ بند رکھوں اور ماسی کا کام چھوڑ دوں ۔۔۔۔

کچھ مہینے ہمارے بہت اچھے گے گھر کا کرایا بھی وقت پر دے دیا تھا ۔۔۔

پھر اچانک وہ بہت دنو ں تک گھر نہیں آیا میں یونیورسٹی کی ماسی والی نوکری چھوڑ چکی تھی ۔۔پھر جب کچھ مہینے اور اوپر ہو گیے اور وہ نہی آیا تو میں یونیورسٹی چلی گئی وہاں مجھے پتا چلا کے وہ مر گیا ہے ۔۔۔اور میں یہ سمجھتی رہی کے وہ اپنے گاؤں میں ہے ۔۔۔


آپ کے شوھر کا قتل ہوا تھا پتا ہے نہ آپکو ۔۔۔۔۔


اس کا مجھے نہیں پتا اور میری دیپک سے شادی اس کے گھر والو کو نہیں پتا ہے ۔۔۔۔


اگر آپ زندہ رہنا چاہتی ہیں تو آپ آپنا منہ بند رکھیں گی جیسے اج تک بند تھا ورنہ جو لوگ آپکے شوھر کے قا تل ہیں وہ آپکو بھی مار سکتے ہیں ۔۔۔

جو کچھ آپ نے ہمیں بتایا ہے وہ بس یہیں تک رہنا چاہئے ۔۔

منور شاہمیر شیراز نے اسے آواز دی ۔۔۔

یہ کچھ پیسے ہے آپ کے کام ایں گے ۔۔۔۔

آپ اب جا سکتی ہیں ۔۔۔وہ وہاں سے چلی گئی ۔۔۔


اس کے اوپر نظر رکھو ۔۔۔۔

میں کسی پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتا ۔۔۔


شا ہ میر شیراز اور جوتی کے درمیان ہونے والی بات کو تقریبا دو ہفتے گزر چکے تھے دو ہفتوں تک اس عورت کے اوپر کڑی سے کڑی نظر رکھی جا رہی تھی ۔۔۔

جو تی نے دوبارہ سے دوسری شادی نہیں کی تھی اور وہ اسی گھر میں رہ رہی تھی جہاں پر وہ دیپک کے ساتھ رہا کرتی تھی اب اسی ایک بہن اسکے ساتھ رہتی تھی ۔۔۔ 


جوتی کے گھر سے نکلنے کے بعد شا ہ میر شیراز ۔ منور اور اس کے کئی ادمی اس کے گھر پر چھاپہ مارنے کے لیے گئے تھے وہ ہر طرح سے کوئی نہ کوئی ثبوت تلاش کرنا چاہتے تھے ۔۔

جس سے انہیں کچھ نہ کچھ پتہ چل سکے۔۔۔۔


مگر اس گھر میں سے بھی ا نہیں کسی قسم کی کوئی چیز نہیں ملی تھی جس سے کوئی ثبوت واضح ہو سکے ۔ ۔۔۔۔


بس انہیں ایک ڈائری ملی تھی جس کے اندر بہت سارے نمبر لکھے ہوئے تھے اور اوپر دیپک کا نام تھا ۔۔۔۔


ایک ایک کر کے ان لوگوں نے تمام نمبرز کو ڈائل کرنا شروع کیا وہ چھ نمبر تھے جس میں سے پانچ نمبر بند تھے اور ایک نمبر کھلا ہوا تھا ۔۔۔

رنگنگ ہو رہی تھی کال جا رہی تھی ۔۔۔

ہیلو ۔۔ہیلو ۔۔ . کون بات کر رہا ہے ۔۔

دوسری طرف کسی مرد کی اواز تھی ۔۔۔۔


دیپک۔۔۔۔۔


آپ کون ہیں ۔۔


 مجھے دیپک سے بات کرنی ہے ۔۔ ۔۔۔۔


شاہ میر شیراز کی اواز جب اس شخص کے کانوں میں پڑی تو وہ لمحے بھر کے لیے چپ سا ہو گیا ۔۔۔


دیپک تو نہیں ہے ۔۔

میں دیپک کا چھوٹا بھائی ہوں اپ کون ہیں ۔۔ 


میں دیپک کا باس بات کر رہا ہوں یونیورسٹی میں چوکیداری کرنے سے پہلے دیپک میرے پاس کام کرتا تھا ۔۔۔۔


وہ ہمارے گھر کے پچھلے حصے میں رہتا تھا ۔۔۔

ہم اب یہ گھر چھوڑ کر کینیڈا جا رہے ہیں ۔ تو وہاں کی صفائی کے دوران مجھے ایک ڈائری ملی جس میں اپ کا نمبر لکھا ہوا تھا شاہ میر شیراز نے جھوٹ کہا ۔۔


اصل میں اتنے عرصے سے کوئی رہا نہیں ہے وہاں پر اور میں خود کینیڈا چلے گیا تھا تب سے گھر بند تھا مگر اب ہم یہ گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔۔کچھ سامان پڑا ہوا ہے یہاں پر دیپک کا اگر اپ ا کر لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں ۔۔۔ کچھ رقم بھی ہمیں ملی ہے اور دیپک کے کچھ کپڑے ہیں..... اور کچھ اور ضروری سامان بھی ۔۔۔


رقم ۔۔۔۔۔کتنی رقم ہے ۔۔۔؟؟؟

میں نے پیسے گنے نہیں لیکن شاید تقریبا ہوں گے 50 60 ہزار روپے ۔۔۔

50 60 ہزار روپے ۔۔۔۔

ہاں ہمیں بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کے پاس 50 60 ہزار روپے رکھے ہیں اس کے پورشن میں اپ ا کر لے جائیں میں اپ کو ایڈریس لکھوا رہا ہوں ۔۔۔۔

لیکن دیپک نے کبھی اپ کے بارے میں بتایا نہیں کہ وہ کام کرتا تھا اپ کے پاس ۔۔۔

دیپک ویسے ہے کہاں پر دوبارہ ایا ہی نہیں میرے پاس ۔شا ہ میر شیراز نے الٹا اسی سے سوال پوچھا ۔۔۔

اپ کو نہیں پتہ وہ کہاں ہے ۔۔؟؟؟

اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں اپ کو نہیں بلکہ دیپک کو کال کرتا ۔۔۔

اس کا قتل ہو گیا ہے ۔۔۔

قتل ہو گیا کب ۔۔

مصنوعی حیرانگی سے پوچھا گیا ۔۔۔

کافی سال ہو گئے ہیں جی اس بات کو تو ۔۔

اچھا ۔۔خیر اپ ا کر سامان لے لیں اس کا ورنہ ہم کسی اور کو دے دینگے اگر اپ کل تک نہیں ائے تو ۔۔۔۔

ایسے کیسے اپ میرے بھائی کا سامان اور پیسے کسی کو دے دیں گے میں بس کل ا جاؤں گا صبح تک اپ کے پاس ۔۔۔۔

صبح وہ ادمی جو دیپک کا چھوٹا بھائی تھا وہ ایک ایڈریس پر موجود تھا جو شاہ میر شیراز نے اسے موبائل پر لکھوایا تھا ۔۔۔

اس سامان میں کسی ادمی کے کچھ پرانے کپڑے تھے ۔اور کچھ رقم جو اس نے رکھوائی تھی تاکہ اس شخص کو یہ لگے کہ وہ سب کچھ دیپک کا ہی ہے ۔۔۔

اپ کہاں کے رہنے والے ہیں ۔۔؟؟دیپک نے کبھی بتایا نہیں ۔۔۔

شا ہ میر شیراز نے اس شخص کو دیکھتے ہوئے کہا تو شخص نے اپنے گاؤں کا نام بتایا ۔۔۔

ٹھیک ہے اپ یہ سامان لے جائیں ۔۔۔۔

ویسے ایک بات پوچھوں اپ سے کیا دیپک کی کسی سے دشمنی وغیرہ تھی جو اس کو قتل کر دیا یوں اچانک مجھے تو اتنے سالوں کے بعد پتہ چلا ہے کہ وہ مر گیا ہے ۔۔۔۔۔

پتہ نہیں جی ہم تو خود بڑے پریشان تھے جب ہم نے یہ سنا اس وقت وہ شہر میں ہی تھا اس نے نوکری بھی چھوڑ دی تھی اپنی چوکیداری کی۔ ۔۔۔ایسا ہمیں اس کے ایک دوست نے بتایا تھا جو اس کے ساتھ کام کرتا تھا۔۔ 

اخری بار کوئی بات نہیں ہوئی تمہارے اپنے بھائی دیپک سے ۔۔۔

ایک لمحے کے لیے وہ شخص خاموش ہوا ۔۔۔

شاہ میر شیراز نے گہری نظروں سے اس شخص کو دیکھا یقینا وہ کچھ نہ کچھ چھپا رہا تھا ۔۔۔

نہیں جی میری اس سے کوئی بات نہیں ہوئ ۔۔۔

یعنی وہ گاؤں نہیں آیا ۔۔۔

نہیں جی ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے اپ اپنا سامان لے لیں اور چلے جائیں ۔۔۔

اس کا پیچھا کرو اگر یہ گاؤں جاتا ہے تو گاؤں تک اس کا پیچھا کرو اور اس کا گھر تلاش کرو جہاں یہ رہتا ہے اور جیسے ہی موقع ملے پورے گھر کی تلاشی لو ایک ایک چیز کی ۔۔۔۔

_________________________________________________

تم اس وقت کہاں ہو ۔۔۔؟؟؟

صاحب میں تو گاؤں کے راستے میں ہوں ۔۔

گاؤں میں ہو تم ۔۔۔۔

کیا صاحب اپ نے ہی تو کہا تھا کہ اپنے گاؤں چلے جانا ورنہ وہ لڑکا ہمدان بار بار ا کے مجھے تنگ کرے گا اور سوالات پوچھے گا ۔۔۔

ٹھیک کیا ۔۔۔میں نے تمہیں تمہارے پیسے دے دیے ہیں ۔۔۔ائندہ مجھے کال مت کرنا ۔۔۔ورنہ انجام بہت برا ہوگا ۔۔۔

دوبارہ اپ کو کال کروں گا میں ۔۔۔

وہ کس لیے سامنے جو بھی تھا اس نے غصے سے کہا ۔۔۔

ہے ایک وجہ ۔۔۔

جب ضرورت ہوگی پیسوں کی تو اپ کو ضرور کال کروں گا ۔۔۔

پانچ لاکھ روپے میں تمہیں پہلے ہی دے چکا ہوں لیکن اگر تمہیں اور رقم کی ضرورت ہے تو تم میرے پاس ا جاؤ ۔لیکن یہ جو پانچ لاکھ روپے تمہارے پاس ہیں اسے تم سنبھال کے رکھنا تاکہ کسی کو تم پہ شک نہ ہو کیونکہ تم چوکیدار ہو اور ایک چوکیدار کے پاس اتنے پیسے ہونا یقینا تم سمجھ رہے ہو میں کیا کہہ رہا ہوں ۔۔۔

سامنے جو بھی تھا اس نے اپنا لہجہ اچانک سے تبدیل کیا ۔۔

اپ مجھے اور پیسے دے رہے ہیں ۔۔۔۔

ہاں تم نے اچھا کام کیا ہے ۔۔تم سے ایک دو کام مجھے اور ہیں ا جاؤ گے تو تمہیں پانچ لاکھ روپے اور دوں گا اگر تم نے وہ کام صحیح طریقے سے انجام دیا تو ۔۔ 

میں بالکل ایا ۔۔لیکن وہ لڑکا جو تھا جو اپ نے بتایا تھا وہ دوبارہ تو نہیں ائے گا ۔۔

نہیں تم اس سے بے فکر رہو وہ اب نہیں ائے گا تمہارے پاس ۔۔۔۔

ٹھیک ہے پھر میں اتا ہوں ۔۔

وہ گاؤں کے اندر جیسے ہی داخل ہوا تو اسے کچی سڑک پر اس کا چھوٹا بھائی نظر ایا ۔۔۔

ارے دیپک بھائی تم یہاں ۔ 

ہاں اب مجھے جانا ہوگا ایک بہت ضروری کام ہے ۔۔۔۔۔

ارے لیکن ابھی تو تم ائے ہو چلو اؤ گھر والوں سے تو ملو ۔۔

نہیں میں ابھی نہیں مل سکتا مجھے ایک بہت ضروری کام ہے ۔۔

اچھا میری بات اب تو دھیان سے سن ۔۔ 

یہ میرا بہت ضروری سامان ہے تو سنبھال کے رکھ اور کسی کو 

بتانا مت کہ میں گاؤں ایا تھا ۔۔ 

کیا مطلب اس بات کا ۔۔۔

کوئی مطلب نہیں بس تو میرا یہ کام کر دے یہ بیگ تو سنبھال کے رکھ اس بیگ کے اوپر کسی کی نظر نہیں پڑنی چاہیے یہ تیرے حوالے ہے ۔۔۔

اس بیگ میں کیا ہے ۔۔

اس بیگ میں پیسے ہیں ۔ ۔۔۔

کس کے پیسے ہیں ۔۔۔

میرے ۔۔۔۔۔

میں نے ایک کام کیا تھا اس کے پیسے ہیں تو سنبھال کے رکھ اسے اور کسی کو مت بتانا کہ میں گاؤں ایا تھا ۔۔

گھر والوں کو پتہ ہے ان پیسو ں کا ۔۔۔۔۔

نہیں تیرے علاوہ کسی کو نہیں پتہ تو جا اور اسے چھپا کے رکھ دے ۔۔۔

اور ہاں میری بات دھان سے سن کسی کو بھی مت بتا نا کہ میں گاؤں ایا تھا میں واپس شہر جا رہا ہوں۔۔ اور نہ ہی اس بیک کے بارے میں کسی کو بتانا ۔۔

وہ پیسوں سے بھرا ہوا بیگ دے کر اپنے چھوٹے بھائی کو گاؤں سے واپس شہر چلا گیا ۔۔۔

  پھر اگلے کہیں دن تک دیپک کا فون نہیں لگ رہا تھا اور نہ ہی وہ گاؤں ایا تھا اس کے چھوٹے بھائی راجو نے وہ پیسے اپنے گھر کے اندر کہیں چھپا دیے تھے اس نے ابھی تک وہ بیک کھول کر نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی گھر میں کسی کو بتایا تھا اس بارے میں ۔۔ ۔۔۔

جب بہت دن بیت گئے تو وہ اس کی یونیورسٹی پہنچا اور وہاں جا کر اسے پتہ چلا کہ وہ تو مر چکا ہے ۔۔۔۔۔

دیپک مر گیا تھا اور پیسوں سے بھرا ہوا بیگ یوں ہی چھوڑ

 گیا تھا اور کسی کو بھی راجو کے علاوہ اس بیگ اور پیسوں کے بارے میں نہیں پتہ تھا ۔۔

دیپک جب اس جگہ پر ایا جس جگہ پر اسے بلایا گیا تھا ۔۔تو کسی نے اسے مار کر اس کی لاش گندے نالے کے پانی میں پھینک دی تھی ۔۔۔

جاری ہے