تیرا عشق مرہم سا ہے


طوبیٰ صدیقی


2nd Last Episode 44

 

°°°°°°


❤️❤️❤️


آفس کا کام بھی اب وہ گھر پہ ہی دیکھتا تھا مگر مر حا کو تنہا نہیں چھوڑتا تھا۔


ہر وقت مرحا کو سامنے رکھنا آسان بھی نہیں تھا۔ وہ اس کی بیوی تھی جائز رشتے کا احساس اسے مرحا کی


طرف کھینچتا تھا مگر اس نے اپنے جذ باتوں پہ پہرے لگا لیے تھے۔


میر ابچہ بس ون منتھ اور کھانی ہے اس کے بعد کوئی میڈیسن نہیں کھانی پڑے گی میری جان کو۔


ریان نے مسکرا کر کہا اور اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے۔


چلو اب جلدی سے سونے کی تیاری کرو تم نے آج بالکل آرام نہیں کیا ہے تمھیں آرام کی ضرورت ہے۔


ریان نے مرحا کو لٹایا اور اس پر بلینکٹ ٹھیک کیا اور خود اس کے پاس بیٹھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔


روز کی طرح آج بھی ریان کی خوشبو اپنے پاس محسوس کر کے مرحا بے فکر ہو کر نیند میں اتر گئی۔


مرحا کا معصوم چہرہ دریان اپنی آنکھوں میں بسائے اس کے ساتھ ہی سو گیا تھا


صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔ دس بج گئے تھے۔


پاکیزہ کو پوری رات ساحل نے جگایا تھا پھر فجر کی نماز ساتھ ادا کر کے وہ دونوں سوئے تھے۔ پاکیزہ کو اٹھے آدھ گھنٹا ہو چکا تھا مگر ساحل اب تک سو رہا تھا۔


سائیں۔۔ سائیں اٹھ جائیں پلیز دس بج رہے ہیں سب کیا سو چیں گے۔


پاکیزہ کی باریک آواز اپنے قریب محسوس کر کے ساحل نے نیند بھری آنکھوں سے مسکرا کر اسے دیکھا۔


لال رنگ کے کمیز اور چوڑی دار پاجامہ پہنے دوپٹہ کو سلیقے سے گلے میں ڈالے وہ ساحل کو اٹھا رہی تھی۔


ساحل نے ہاتھ پکڑ کر اسے خود پہ گرایا۔


چھوڑو سب کو کوئی کچھ بھی سوچے تم اپنے سائیں کا سوچو جان سائیں تم نے ایک رات میں ہی مجھ اپنا دیوانہ بنا دیا ہے۔


ساحل نے خمار آلود لہجے میں کہا۔


ساحل کو رات کی ٹون میں واپس آتے دیکھ پاکیزہ فورا اس کے پاس سے اٹھی اور دور جاکر کھڑی ہوئی۔


مجھے بھوک لگی ہے پلیز اٹھ جائیں اسی پاکیزہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا تو ساحل مسکرایا۔ اب معاملہ میری جان کی بھوک کا ہے تو مجھے اٹھناہی پڑے گا۔ ساحل کو کھڑے ہوتے دیکھ پاکیزہ نے شکر ادا کیا۔ ساحل کو اس کے شکر ادا کرنے پہ ہنسی چھوٹی مگر وہ کنٹرول کر تا واشروم میں فریش ہونے چلا گیا۔ ساحل اور پاکیزہ باہر آئے تو سب لوگ ہی ڈائینگ ٹیبل پر ناشتے کے لیے بیٹھے تھے۔ ویلکم بھا بھی سائیں آئیں یہاں بیٹھیں۔


مر جانے اٹھ کر ساحل کو بیٹھا یا پھر پاکیزہ کو اس کے برابر میں بیٹھایا۔


سکون بھرے ہنسی مذاق والے ماحول میں سب نے ناشتہ کیا تھا۔


ساحر لالا ساحل لالار ملہ پھوپھو سائیں مجھے آپ لوگوں سے کچھ بات کرنی ہے۔


ناشتے کے بعد مر جانے تینوں کو مخاطب کر کے کہا۔


ہاں گڑیا بولو کیا بات ہے۔


رملہ نے مسکرا کر کہا۔


آپ سب لوگ دادا سائیں کہ وشیعت تو جانتے ہیں۔


انہوں نے دس دس پر سنٹ امجد چاچا سائیں ماجد چا چا سائیں اور رملہ پھوپھو سائیں کے نام کیا تھا باقی کا ستر فیصد بابا کے نام تھا جو انہوں نے میرے نام کر دیا تھا۔


اور دادا سائیں کی وشیعت کے مطابق اگر دونوں چاچا سائیں غلط راستے پر چلتے ہیں یا اپنی پاور کا غلط استعمال


کرتے ہیں تو ان کی ساری جائید ادبابا کے حصے میں آجانی تھی۔


اب دونوں چاچا سائیں تو جیل میں ہیں اور ہم سب جانتے ہیں ان کو عمر قید ہوئی ہے تو اب ان کا حصہ


بھی وشیعت کے مطابق میرے نام ہو گیا ہے اس لیے میں نے ایک فیصلہ لیا ہے مجھے امید ہے آپ تینوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔


مر جانے بہت تحمل سے کہا۔


ہاں میری جان تم نے جو بھی فیصلہ لیا ہے تم بتاؤ اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔


رملہ نے کہا۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ہاں گڑیا تم بولو ہم دونوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔


ساحل نے کہا تو ساحر نے بھی مسکرا کر ہامی بھری۔


مرحانے ایک نظر ریان کو دیکھا جس نے اسے دیکھ کر مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔


ساحر لالا ساحل لالا میرے پاس پوری جائیداد کا نوے فیصد حصہ ہے اس میں سے میں نے دس پر سنٹ رملہ پھوپھو سائیں اور باقی کا چالیس چالیس پر سنٹ آپ دونوں کے نام کر دیا ہے۔


مرحا کی بات پہ ساحر اور ساحل دونوں کے چہروں پہ بے چینی در آئی۔


مرحا یہ کیا بول رہی ہو تم پاگل ہو گئی ہو کیا۔ تم نے اپنا بابا کا پورا بزنس میرے نام کر دیا ہے پہلے ہی اب تم حویلی میں سے بھی سب کچھ ہمیں دے رہی ہو۔


ہاں مرحا یہ بہت غلط ہے اس میں سب سے زیادہ تمھارا حصہ بنتا ہے تم ایسے نہیں کرو اپنا بھی سب کچھ ہمیں کیسے دے سکتی ہو تم۔ 


ساحر کے بعد ساحل نے بھی مرحا کو سمجھایا۔


نہیں لالا مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے جو اللہ نے مجھے دیا ہے اس کے آگے یہ سب چیزیں بے معنی ہیں۔


ہاں یہ میرا میکہ ہے یہاں میرے بابا کی پیدائش ہوئی تھی میری ماما یہاں شادی ہو کر آئی تھیں اور اب یہ میر امیکہ ہے آپ لوگ بس میرا میکہ آباد رکھیے گا۔


اور ایک خواہش ہے میری یہاں ایک اعلیٰ طرز کا ہسپتال اسکول اور کالج بنے تاکہ گاؤں کے لوگوں کو


ان چیزوں کے لیے شہر کے آسرے پہ نارہنا پڑے یہاں جدید سہولیات میسر ہوں۔


مجھے یقین ہے میرے دونوں لالا میری اس خواہش کو پورا کریں گے۔


مر جانے دونوں کا ہاتھ تھام کر مسکراتے ہوئے کہا۔


مر حامیر ابچہ گڑیا سب ٹھیک ہے ہم سب کریں گے مگر اس کے لیے تمھیں سب کچھ ہمارے نام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔


ساحر نے پھر سمجھانا چاہا۔


نہیں لالا مجھے یہ سب نہیں چاہیے۔


ریان تم سمجھاؤ اس پاگل کو اسے سمجھ نہیں آرہا۔


ساحل نے ریان کو کہا تو اس نے مسکرا کر مر حا کے دونوں کندھوں کو تھاما۔


مر حاجو کر رہی ہے بالکل ٹھیک کر رہی ہے ۔ 


ساحر ساحل میرے پاس اپنا اتنا بڑا بزنس ہے میں مرحا کو بہت عالیشان زندگی دوں گا۔


میرے لیے ویسے بھی مر حاضر وری ہے ان سب چیزوں کا اور مرحا کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔


تم دونوں کا حق بنتا ہے اس سب پر۔


ریان نے مسکرا کر کہا۔


لالا پلیز اب کوئی بحث نہیں ہو گی یہ سمجھ لیں یہ میری طرف سے آپ دونوں کی شادی کا تحفہ ہے۔


مرحا کی ضد کے آگے دونوں کو جھکنا پڑا تھا۔


لیکن ساحر نے پھر بھی اینڈ میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ آصف تایا کے بزنس سے جو بھی منافع ہو گا وہ سب مرحا کے اکاؤنٹ میں جائے گا لیکن اس پہ بھی بہت بحث کر کے مر حا صرف پچاس فیصد پہ مشکل سے ایگری ہوئی تھی۔


اسے ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی اس کے لیے تو ریان کا ساتھ ہی بہت تھا۔


اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ریان کو اس چیز پہ کوئی اعتراض نہیں تھا اس کے لیے تو مر حا سے بڑھ کر کوئی دولت ہی نہیں تھی۔


"دو ماه بعد"


مرحا بیاد دیکھو ایمان کی تیاری مکمل ہوئی یا نہیں۔ یا


سمینہ بیگم نے مرحا کو پکارا۔


جی ماما ابھی دیکھتی ہوں


مرحا کہہ کر اوپر ایمان کے روم کی طرف آرہی تھی ساتھ ساتھ وہ کاموں کو بھی سنبھالی ہوئی تھی۔


ڈیپ ریڈ کلر کی پیروں تک آتی فراک، میک اپ کے نام پر صرف لپ اسٹک کا جل اور مسکر الگائے، بالوں کو فرنٹ پف دے کر کر لز کر کے کھلے چھوڑے،


مہندی سے بھرے ہاتھ ، ریڈ کلر کی چوڑیوں سے بھی کلائیں، کانوں میں بڑے بڑے جھمکے اور مانگ ٹیکے کے ساتھ جھومر لگائے مرحابے تحاشہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس سب پہ اس کے چہرے معصومیت اس کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی۔


ریان اوپر سے کھڑ اوائٹ کرتا پاجامہ اور اس کے اوپر ریڈ واسکٹ پہنے مسکرا کر اپنی جان سے پیاری بیوی کو دیکھ رہا تھا جو ادھر سے اُدھر کبھی کسی کام کو دیکھ رہی تھی تو کبھی کسی کام کو۔


بڑی بہو ہونے کی پوری پوری ذمہ داری اس نے سنبھالی ہوئی تھی۔


آج ایمان کی رخصتی تھی کل اس کے پیپر زختم ہو گئے تھے اور آج ہی رخصتی رکھی گئی تھی۔


مر حا د پر آئی تو سامنےہی ریان کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔


آپ ریڈی ہو گئے ریان۔


مرحا مسکرا کر اس کے قریب آئی۔


جی بے بی ڈول میں ہو گیا ریڈی مگر آپ کی تیاری تو افففف ظالم حسینہ لگ رہی ہو۔


تھوڑا تو ترس کھاؤ مجھ پر۔


ریان نے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔


ریان آپ بھی نا کہیں بھی شروع ہو جاتے ہیں کوئی سن لے تو۔


مرجانے مسکرا کر کہا اور اس کے پاس سے ہوتی ہوئی ایمان کے روم کی طرف جانے لگی مگر ریان نے


بڑی نرمی سے اس کی کلائی کو پکڑا تھا۔


اپنے ہاتھ کے پیچھے چھپے گجرے نکالے اور مسکر ا کر مر حا کی کلائیوں میں پہنائے۔


گجرے دیکھ کر مرحا کے چہرے پر مسکان آئی۔


گجروں کی خوشبو اپنی سانس میں کھینچ کر مسکر اکر ریان کو دیکھا۔


تھینک یوریان مجھے ان کی خوشبو بہت پسند ہے۔


مرحا کی بات پہ ریان کی مسکراہٹ گہری ہوئی اس نے جھٹکے سے مرحا کو قریب کیا۔


ریان کی کمرے کے باہر کھڑے ہو کر اس طرح کی حرکت پہ مر حاشپٹائی۔


اور مجھے تمھاری خوشبو پسند ہے۔ 


اس کے بالوں میں چہرہ کرتے ہوئے مدہوشی سے بولا۔


ریان کیا کر رہے ہیں کوئی دیکھ لے گا پلیز پیچھے ہٹیں۔


مر جانے گھبرا کر کہا۔


مینی جو ایمان کے کمرے سے باہر آرہی تھی مرحا اور ریان کو دیکھ کر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیے۔


سوری سوری میں نے کچھ نہیں دیکھا۔


عینی کی آواز پر ریان نے آنکھیں بیچ کر کھولیں۔


مینی بچہ تمہیں کس نے رشوت دی ہے میرے رومانٹک مومنٹ کو خراب کرنے کی۔


ریان نے عینی سے پوچھا۔ کئی بار ایسا ہو چکا تھا روم کے باہر کبھی ریان مرحا کے قریب جاتا تو عینی پتا نہیں کہاں سے نازل ہو جاتی تھی۔


ریان بھائی آپ کو احتیاط کرنی چاہیے یہ روم تھوڑی ہے۔


عینی نے شرارت سے کہا جب کہ مرحا جھینپ گئی تھی وہ تیزی سے ایمان کے کمرے میں بھاگی تھی۔


ریان مسکراتا ہو اینچے چلا گیا جبکہ عینی مرحا کے پیچھے ہی واپس ایمان کے روم میں چلی گئی۔


ریڈ اور گولڈن کلر کے خوبصورت لہنگے میں دلہن کا پورا سنگھار لیے ایمان نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔


آج وہ ہمیشہ کے لیے ساحر کی پناہوں میں جانے والی تھی۔


نور نے گولڈن کلر کی شرٹ اور پلازو پہنا تھا جس پہ بہت خوبصورتی سے نگ جڑے ہوئے تھے۔


نور کی طبیعت صبح سے خراب تھی۔ اسے بہت زیادہ چکر آرہے تھے جبکہ اس کی حالت تھکی تھکی لگ رہی تھی۔


عینی نے لانگ ریڈ اور گولڈن شرٹ کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ پہنا تھا۔


ایمان ریڈی ہو چکی تھی مرحا اور عینی ایمان کا لہنگا سنبھالتے ہوئے اسے نیچے لائیں جبکہ شاہ میر نور کو پہلے


ہی نیچے لے آیا تھا سب گھر والے ہال میں کھڑے تھے۔


انہوں نے جلدی ہی میرج ہال پہنچنا تھا۔


ایمان کو دیکھ کر ریان کی آنکھوں کے کنارے پر نمی آئی۔


آج اس کی چھوٹی سی گڑیا اس سے دور جارہی تھی۔


ایمان کے پاس آکر ریان نے ایمان کے ماتھے پہ لب رکھے۔


ما شاء اللہ میری گڑیا بہت پیاری لگ رہی ہے۔


کسی کی نظر نا لگے میری گڑیا کو۔


ریان نے اس کے سر سے پیسے وارے۔


سب سے زیادہ اداس شہیر تھاوہ ہر وقت ایمان سے لڑتا جھگڑتا اس کو تنگ کرتارہتا تھا ایمان کے جانے


کے بعد اس کو سب سے زیادہ ایمان کی کمی کا احساس ہونا تھا۔


ایمان کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھیں آج وہ یہ گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جارہی تھی۔


چلو بھئی بارات سے پہلے پہنچنا ہے یہ ناہو ساحر پہلے پہنچ جائے اور ہم یہیں ہوں۔


احتشام صاحب نے کہا تو سب مسکرائے۔


سب نکلنے لگے تب ہی گھر میں داخل ہونے والی ہستی کو دیکھ کر ریان کی رگیں تئی تھیں۔


اس کو غصے میں دیکھ کر مر جانے ریان کے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں لیا۔


عمل اور سمرین بیگم گھر کے اندر داخل ہوئی۔


مرحا کو جب پتا چلا تھا کہ عمل کو ریان نے جیل بھجوادیا ہے تو مر جانے ضد کر کے عمل کو باہر نکلوالیا تھا۔


حاشر کی موت کا بھی اسے پتا لگ چکا تھا مگر اسے کوئی افسوس نہیں تھا اس نے جو کیا تھا اس کے ساتھ ہمدردی کہ گنجائش نہیں بچتی تھی مگر عمل کی پوری زندگی پڑی تھی وہ عمل کی لائف کو خراب نہیں ہونے دینا چاہتی تھی اس لیے اس نے ریان سے کہہ کر عمل کو باہر نکلوادیا تھا۔


ریان اس سے بہت خفا ہو ا تھا مگر مر جانے اسے منالیا تھا۔


اب عمل کو دیکھ کر ریان کا دماغ خراب ہو رہا تھا۔


عمل نے مرحا کے سامنے آکر ہاتھ جوڑے۔


مجھے معاف کر دو مرحا میں نے تمھارے ساتھ بہت غلط کیا میں اپنی ضد میں اتنی اندھی ہو گئی تھی کہ صحیح غلط کی پہچان ہی بھول گئی تھی۔ 


میں بہت شرمندہ ہوں مرحا مجھے معاف کر دو میں تمھاری گناہ گار ہوں مگر پھر بھی تم نے مجھے بچایا۔ مر جانے عمل کے ہاتھوں کو تھاما۔


کوئی بات نہیں عمل غلطیاں انسان سے ہی ہوتی ہیں۔ لیکن سب سے اچھی بات ہوتی ہے اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا۔


میں نے تمھیں معاف کیا پلیز تم ہاتھ نہیں جو ڑو۔


مرحا کی بات پہ عمل شرمندگی کی گہرائی میں گری تھی اس نے کیا نہیں کیا تھا مر حا کے ساتھ مگر اس نے اتنا ظرف دیکھایا تھا۔


ریان پلیز تم بھی مجھے معاف کر دو تمھیں پانے کے چکر میں تمھیں میں نے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔


عمل نے ریان کے سامنے ہاتھ جوڑے تو مر جانے ریان کے ہاتھ پہ اپنے ہاتھ سے دباؤ ڈالا۔


جب مر جانے ہی تمھیں معاف کر دیا تو میں کیا ہی کہوں معاف کیا میں نے بھی تمھیں مگر میں وہ سب نہیں بھول سکتا مر حا کو ہمیشہ کے لیے کھونے والا تھا میں وہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے دور جا سکتی تھی یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ مرحا مجھے واپس مل گئی۔


تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی جاتیں نا عمل تب بھی تم مجھے حاصل نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ مرحا


مجھ سے جدا ہوتی تو ریان کی سانسوں کی ڈور تو ویسے ہی ٹوٹ جاتی تھی۔ ریان کی بات پر عمل نے اپنا سر جھکا یا۔ 


میں اور ماما ملائیشیا جارہے ہیں ہمیشہ کے لیے میں بس آخری بار تم سے معافی مانگنے آئی تھی خدا حافظ۔ عمل کہہ کر جا چکی تھی۔


ایک عجیب سا تناؤ بھر اماحول بن گیا تھا یہ دیکھتے ہوئے ریان نے ماحول کو نارمل کرا۔


چلیں بھئی یہ نا ہو بے صبر ادلہا اپنی دلہن لینے یہیں پہنچ جائے۔


ریان کی بات پہ سب مسکرائے تھے۔


بارات کا شاندار و یکم کیا گیا تھا۔


ساحر کے ساتھ ساحل پاکیزہ یا سر رملہ آگے آگے تھے۔


گولڈن کلر کی شیروانی پہنے ساحر شہزادوں کی شان لیے اسٹیج پہ بیٹھا اپنی دلہن کا انتظار کر رہا تھا۔


اور پھر انتظار کی گھڑی ختم ہوئی۔


ایمان اپنے ماما بابا کا ہاتھ تھامے ساحر کی طرف چلتی آرہی تھی۔


ایمان نکاح پر بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی مگر آج تو اس کا حسن ساحر کو دیوانہ کر رہا تھا۔


اس کے اوپر بہت روپ چڑھا تھا۔


ایمان کو لا کر ساحر کے برابر میں بیٹھایا گیا۔


ما شاء اللہ ماشاء اللہ ماشاء اللہ آج تو مجھے قتل کرنے کا پورا انتظام کر کے بیٹھی ہیں میڈم آپ۔


ساحر نے کان میں سرگوشی کی۔


اللہ اللہ کیسی باتیں کر رہے ہیں میں کیوں آپ کو قتل کرنے لگی۔


ایمان نے بھی سرگوشی کی تو ساحر کے لبوں کی تراش میں خوبصورت مسکراہٹ بکھری۔


گھر چل کر بتاؤں گا کیسے قتل کرو گی۔


ساحر کی سرگوشی پر ایمان سر جھکائے مسکرائی۔


رخصتی کا شور اٹھا تو ماں باپ کے ساتھ ساتھ چاروں بھائیوں کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔


ریان کے سینے سے لگے ایمان بہت روئی تھی ریان کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑے تھے۔ مرحا


عینی نور سب ایمان سے مل کر آنکھوں میں آئی نمی صاف کر رہی تھیں۔


شہیر بھی ایمان کو گلے سے لگائے آنسو بہانے لگا۔


شاہ میر اور شایان نے بھی نم آنکھوں کے ساتھ اپنی بہن کو رخصت کیا۔


ساحر فائینلی اپنی دلہنیا کو اپنے ساتھ لے گیا تھا۔


ایمان کی رخصتی ہوئی تو سب لوگ گھر جانے کے لیے نکلنے لگے۔


نور جو شاہ میر کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی چکر آنے سے ایک دم گرنے لگی مگر وقت رہتے شاہ میر نے اسے تھاما تھا۔


نور کے بے ہوش ہونے پہ سب پریشان ہو گئے تھے۔


شاہ میر تیزی سے اسے باہوں میں اٹھائے ہسپتال کی طرف بھاگا تھا۔


نور کو ڈاکٹر چیک کر رہی تھیں جب کہ شاہ میر کا گھبراہٹ سے برا حال ہو رہا تھا۔


اس وقت ہسپتال میں عینی ریان سمینہ بیگم اور شاہ میر نور کے ساتھ موجود تھے۔


شاہ میر ادھر اُدھر گھوم رہا تھا تب ڈاکٹر باہر آئیں۔


ڈاکٹر میری وائف ٹھیک ہیں ناوہ اچانک ایسے بے ہوش ہو گئی اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے۔


شاہ میر نے گھبراتے ہوئے کہا تو ڈاکٹر مسکرائی۔


پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ایسی کنڈیشن میں چکر آنا طبیعت بو جھل ہونا اور دل متلانا نور مل ہے۔


آپ کو بہت مبارک ہوشی از پریگننٹ۔


ڈاکٹر کی بات پہ سب کے چہرے کھل گئے تھے جبکہ شاہ میر منہ کھولے ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔


شاہ میر بہت بہت مبارک ہو بھائی۔


ریان نے اسے گلے لگا کر کہا تو وہ اب بھی حیران پریشان سا سب کو دیکھ رہا تھا۔


شاہ میر کو دیکھ کر سب نے اپنی ہنسی روکی۔


بھائی میں پریگننٹ۔۔


ارے نہیں میرے بھائی تم پریگننٹ نہیں ہو نور بھا بھی پریگننٹ ہیں۔


شاہ میر کی آدھی بات پہ سب کے قہتھے چھوٹے تھے۔


مبارک ہو میرابیٹا بہت بہت مبارک ہو۔ سمینہ بیگم نے مسکرا کر اس کا ماتھا چوما۔ شاہ میر کے چہرے پہ دنیا جہاں کی خوشیاں سما گئی تھیں۔ وہ نور کے پاس آیا جو شرمیلی سی مسکان لیے بیٹھی تھی۔


نور آئی لو یو سونچ آئی لو یو سو سو سوچ میری جان تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے میں بتا نہیں سکتا۔


شاہ میر نے مسکرا کر کہا تو نور اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی۔


نور کی طرف سے ملی خبر نے ان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا تھا۔


ریان سب کو لے کر گھر پہنچا۔ راستے میں ہی بارش شروع ہو چکی تھی اسے مرحا کی فکر ہو رہی تھی۔


اس کو ریان نے سب کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا کیو نکہ وہ نہیں چاہتا تھا مر حاتھک جائے۔


شاہ میر نور کو لے کر کمرے میں چلا گیا مینی اور شایان بھی اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔


ریان اپنے کمرے میں آیا تو مر حاکمرے میں نہیں تھی۔


اتنی تیز بارش ہو رہی تھی۔ سب لوگ ہی اپنے کمروں میں چلے گئے تھے ریان پریشان سامر حا کو ڈھونڈ رہا تھا۔


اس نے سب جگہ دیکھا گر م حال میں نہیں تھی۔


اس کی جان پر بن آئی تھی۔


ریان کی نظر چھت کی طرف گئی تو کچھ سوچتے ہوئے وہ چھت کی طرف آیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر ریان کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔


مرحا چھت پر کھڑی بچوں کی طرح بارش میں بھیگ رہی تھی۔


اپنے ہاتھوں کو کھولے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے وہ گول گول گھوم رہی تھی۔


اس نے جیولری تو اتار دی تھی مگر وہ اب بھی اسی فراک میں ملبوس تھی۔


مرحا کا گیلا وجود تھا ریان کو بہکا رہا تھا۔


ریان قدم قدم چلتا مر حا کے پاس آیا۔ اور اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔


مر حاجو اپنی مستی میں مگن تھی ریان کی خوشبو کو محسوس کر کے اس نے مسکرا کر ریان کو دیکھا۔


ریان دیکھیں کتنا مزہ آرہا ہے۔


مرحانے بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے کہا۔


بے بی تم میر اصبر آزمارہی ہو۔


خود کو تم سے دور کس طرح رکھا ہے نا میں نے یہ صرف میں جانتا ہوں۔


مگر آج لگتا ہے یہ دوری مزید نہیں ہو سکے گی۔


ریان پوری طرح بہک چکا تھا


مرحا کا وجود اس کو مزید صبر سے روک رہا تھا۔


ریان کی بات پہ مر جانے مسکرا کر ریان کے سینے پر سر رکھا تو اس نے مرحا کو اپنی باہوں میں بھرا۔


آج ریان کا صبر جواب دے گیا تھا۔ آج اس نے مرحا سے ہر دوری کو مٹانا تھا۔


ریان نے مرحا کا چہرہ انگلی سے اوپر کیا اور اس کے چہرے پہ جھک گیا۔


اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں الجھائے وہ مدہوش ہونے لگا تھا۔ مر حاریان کی قربت میں پگھلتی جارہی تھی۔


ریان نے اب بھی بہت نرمی رکھی تھی وہ مر حاکو زر اسی بھی تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔


مرحا کو باہوں میں اٹھائے ریان اسے بیڈ روم کی طرف لے جانے لگا۔


آج اسے مرحا کو اپنا بنانا تھا آج وہ اپنے اور مرحا کے بیچ کے ہر پر دے کو گرا دینا چاہتا تھا۔


اس نے بہت صبر کیا تھا چار مہینے مرحا کے بے حد قریب ہو کر بھی اس نے مرحا سے دوری بنائے رکھی


تھی مگر آج مرحا کو اس طرح گیلے کپڑوں میں دیکھ کر ریان کا چار ماہ کا صبر پل میں ٹوٹ گیا تھا


ساحر ہم کہاں جارہے ہیں یہ گھر کا راستہ تو نہیں ہے۔


ایمان نے ساحر سے سوال کیا جو گھر کے بجائے کسی اور راستے پہ جارہا تھا۔


اپنی پیاری سی وائف کے لیے پیارا سا سر پر انز ہے۔


ساحر کی بات پر ایمان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


ساحر اسے لے کر سمندر کے قریب پہنچا جہاں ایک شپ کھڑی تھی۔


ساحر نے ہی اسے بک کیا تھا وہ ایمان کے ساتھ اپنی زندگی کے ان حسین لمحوں کو اور بھی یاد گار بنانا چاہتا تھا۔


❤️❤️❤️