تیرا عشق مرہم سا ہے


طوبیٰ صدیقی


3rd Last Episode 43

°°°°°°

 

°°°°°°


💖💖💖


شایان آئی ایم سوری مجھے پتا ہے میں تمھیں بالکل ٹائم نہیں دے پار ہی کام کالوڈ اتنا ہے کہ ٹائم ہی نہیں نکال پار ہی۔


عینی کے چہرے پہ افسردگی دیکھ کر شایان نے فورا عینی کا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیا۔


عینی میری جان کیا ہو گیا ہے میں تو مزاق کر رہا تھا تم ایسے سیریس مت ہو مجھے پتا ہے تمھاری فیلڈ ایسی ہے اس کے لیے تم سوری تو مت کہو میری جان پلیز تم اداس نہیں ہو۔


شایان نے محبت سے اس کے ماتھے اور گالوں پر لب رکھتے ہوئے کہا۔


عینی کا افسردہ چہرہ شایان کو برداشت نہیں تھا۔ اس تو عینی کا دبنگ انداز ہی پسند تھا جب وہ اسے گھور کر


دیکھتی تھی تیکھی تیکھی باتیں سانتی تھی۔


شایان تو اس سب کا دیوانہ تھا اب عینی کا یوں افسردہ ہو نا شایان کو پریشان کر گیا تھا۔


تم بہت اچھے ہو شایان۔


عینی نے مسکرا کر کہا تو شایان نے مسکر اکر اس کی دونوں آنکھوں کو چوما تھا۔


میری جان بھی تو اتنی اچھی ہے۔ بس تم اداس نہیں ہوا کرو تم پہ اکثر ریٹیٹیوڈ ہی سوٹ کرتا ہے عینی ڈارلنگ۔


شایان نے اسے کمرے سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔


عینی ٹوٹی ڈال کی طرح اس کے سینے سے لگی تھی۔


عینی نے اپنی باہوں کا ہار بنا کر شایان کے گلے میں ڈالا تو وہ مسکرا کر اسے اپنے اور قریب کر گیا۔


کیا بات ہے آج یہ سورج کہاں سے نکلا تھا میری جان خود میری باہوں میں آگئی وہ بھی بنا مجھے آنکھیں دیکھائے۔


شایان نے عینی کو چھیٹر ا تو اس نے لمبے لمبے ناخن شایان کی گدی میں گاڑ دیے۔


آہااال


عینی کی بچی جنگلی بلی یہ کیا طریقہ ہے۔


شایان نے اسے چھوڑا نہیں تھا مگر گھور کر عینی کو ضرور دیکھا تھا۔


کیا کروں تمھیں میری محبت ہضم بھی تو نہیں ہو رہی ناڈئیر ہسبینڈ۔ جب میں پاس نہیں آتی تب بھی


مسئلہ اب جب میں چپ چاپ اچھی بیوی کی طرح پاس آگئی ہوں تو بھی تمھیں مسئلہ ہو رہا ہے۔


مینی نے گھور کہا تو شایان نے اسے جھٹکے سے بیڈ پہ گرایا اور خود اس کے اوپر سایہ بنایا۔


کیا کروں میری جنگلی بلی مجھے تمھارا یہ روپ ہضم کرنے میں پریشانی ہو رہی ہے ناتم پلیز اپنی ہی ٹون میں


رہا کرو یہ اچھی بیوی والی ٹون تم پہ سوٹ نہیں کرتی عینی ڈارلنگ۔


شایان کہتا ہوا اس کے چہرے پر جھکا تھا۔


عینی کی سانسوں کو اس نے اپنی قید میں لے لیا تھا۔


عینی نے اسے ہٹانا چاہا مگر یہ ممکن کہاں تھا۔


بے شک وہ بہت اسٹرانگ تھی مگر اس وقت سامنے اس کا شوہر تھا اور عورت ہمیشہ اپنے شوہر کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے جیسے اس وقت عینی اس کی پناہوں میں بے بس ہو کر اپنا آپ اسے سونپ گئی تھی۔ شایان نے اسے اپنی محبت میں پوری طرح بھیگو دیا تھا۔


نور پلیز باہر آؤ یار آدھے گھنٹے سے تم واشروم میں گھسی ہوئی ہو اور کتنا ٹائم لگے گا۔


شاہ میر نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا تھا۔


شاہ میر نور کے لیے ویسٹرن اسٹائل ڈریس لایا تھا جسے دیکھ کر نور نے بہت نخرے دیکھائے تھے اس ڈریس کو دیکھ کر نور کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر شاہ میر کو ہنسی آرہی تھی۔


نور نے کبھی بھی ویسٹرن ڈریس میں پینٹ شرٹ یا ناپ بھی نہیں پہنا تھا وہ ہمیشہ دیسی ڈریسز میں ہی رہتی تھی۔ 


شاہ میر آج اس کے لیے خاص طور پر ویسٹرن ڈریس لایا تھا اور نور کے حساب سے وہ بہت بیہودہ تھی جس وجہ سے اس نے خوب ناک منہ بنائے تھے مگر شاہ میر نے اس کی ایک نا سنتے ہوئے زبردستی ڈریس پہنے بھیجا تھا۔


نور آدھے گھنٹے سے واشروم میں بند تھی اس کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ وہ شاہ میر کے سامنے آئے۔


نور تم ایک منٹ میں باہر نکل کر نہیں آئی نا تو میں جارہا ہوں باہر پھر سونے بھی نہیں آوں گا اکیلی رہنا روم میں۔


شاہ میر نے مسکراہٹ روکتے ہوئے غصے والی آواز بنا کر کہا۔


واشروم میں کھڑی نور شاہ میر کی آواز سن کر اور بھی گھبراگئی تھی۔


نین نہیں آپ مت جائیں پلیز۔۔ بس دو منٹ دے دیں۔۔ میں بس آرہی ہوں۔


نور نے ہمت کرتے ہوئے کہا۔


شاہ میر کھڑ انور کا انتظار کر رہا تھا کہ تب ہی واشروم کا دروازہ کھلا اور نور چھوٹے چھوٹے قدموں سے باہر آئی۔


لیمن کلر کی شرٹ جو اس کے پیٹ تک کو صحیح سے چھپا نہیں پارہی تھیں آہستینے نا ہونے کے برابر تھیں۔ ڈیپ گلہ وی کی صورت بنا بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ ساتھ میں شارٹ اسکرٹ تھا جو اس کے گھٹنوں کو بھی با مشکل کو ر کر رہا تھا۔ 

اس ڈریسنگ پر اس کے کھلے بال اور لائٹ سامیک اپ شاہ میر حیدر کا دل بے ترتیب کر گئے تھے۔


شاہ میر نے نور کو دیکھا تو اس کی نظر میں پلٹنا بھول گئی تھیں۔


شاہ میر آنکھوں میں خماری لیے نور کی طرف بڑھ رہا تھا جو اپنے اسکرٹ کو کھینچ کر لمبا کرنے کی کوشش میں لگی تھی۔


شاہ میر نور کے قریب آیا اور اس کی کمر پہ ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کیا۔


اس کا شر ما یا گھبر ایا روپ شاہ میر کو گستاخیوں پہ پہ اکسا رہا تھا۔


یہ آئینہ کیا دے گا تمھیں تمھاری شخصیت کی خبر ،


کبھی میری آنکھوں سے دیکھو کتنے لا جواب ہو تم


شاہ میر نے خماری میں نور کے کان کے قریب شعر بولا تو اس نے شرما کر شاہ میر کے سینے میں اپنا چہرہ چھپایا۔


شاہ میر نے نور کو باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پہ لے آیا۔


اس کی گردن میں اپنا چہرہ چھپا کر اس کے جسم سے اٹھتی خوشبو کو محسوس کرنے لگا جو اس کے حواسوں پہ چھارہی تھی۔


تھینک یو نور تم نے میری زندگی میں آکر مجھے میری زندگی کے سب سے بڑے دکھ سے نکال دیا۔


شاہ میر نے نور کے ماتھے پہ اپنے لب رکھ کر کہا۔ 


نور اسے مرحا کی یاد فکر اور محبت سے بہت دور کے آئی تھی۔


ویسے تو شاہ میر نے خود مرحا سے دوری بنالی تھی کیونکہ وہ ریان کی محبت تھی اور اپنے بھائی کے لیے تو وہ اپنی جان بھی قربان کر سکتا تھا۔


ہاں اسے تکلیف تھی اسے دکھ تھا پہلی محبت ادھوری رہ جانے کا دکھ وہ مرحا کو دیکھ کر تکلیف میں مبتلا ہو جاتا تھا مگر نور کی محبت اسے ان سب سوچوں فکروں سے دور لے آئی تھی۔


نور نے کبھی شاہ میر کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس سے شاہ میر درد میں مبتلا ہو جاتا اس نے بس اپنی محبت اور فکر سے شاہ میر کے دل میں اپنی جگہ بنالی تھی۔


نور بھی شاہ میر کے ساتھ خوش تھی اس نے کبھی نور کو اس بات کا احساس نہیں دلایا تھا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتا تھا نور سے نکاح کے بعد اس نے صرف نور کو سوچا تھا۔


شاہ میر کی بڑھتی چاہت نے نور کو اور نکھار دیا تھا۔


ابھی بھی وہ بہت محبت اسے اپنا بن رہا تھا اس کے وجود پہ اپنے لمس سے اپنی محبت برسا رہا تھا۔


شاہ میر کی محبت میں نور اس کی باہوں میں پگھلتی چلی گئی تھی۔ 

ایمان بیٹھی اپنی پیپرز کی تیاری کر رہی تھی اس کے پیپرز میں صرف تین مہینے رہ گئے تھے۔ گھر کی پریشانیوں میں اس کا اچھا خا صالوس ہو گیا تھا۔ اب اس کے پاس وقت بہت کم تھا۔


دن بھر وہ پڑھنے میں گزار رہی تھی۔ اپنی صحت کا خیال رکھنا اس نے بالکل چھوڑ دیا تھا جس پر ریان اس سے بہت ناراض بھی ہوا تھا وہ ایمان کو اپنی نگرانی میں کھانا کھلاتا تھا کیونکہ ایمان اب کھانے بھی ڈنڈی مارنے لگی تھی۔


ریان نے اسے کئی بار کہا تھا کہ اب وہ ساحر سے اس کی شکایت لگائے گا اپنے بھیو کی بات سمجھ نہیں رہی ہو سکتا ہے اپنے شوہر کی بات سمجھ جاؤ۔


ابھی بھی وہ بیٹھی کتابوں میں اپنا سر کھپارہی تھی کہ اس کا موبائل بجنے لگا۔


ساحر کی کال آتی دیکھ اس کے لب مسکرائے تھے۔


اس نے کتاب بند کر کے ساحر کی کال اٹھائی۔


مس ایمان حیدر فورا اپنی کتا بیں بند کرو اور جا کر کھانا کھاؤ اس سے پہلے کہ میں خود آکر اپنے ہاتھوں سے تمھیں کھانا کھلاؤں۔


ایمان کے ہیلو بولنے سے پہلے ہی ساحر کی چنگھاڑتی ہوئی آواز ایمان کے کانوں سے ٹکرائی۔


سس ساحر آپ کو کیسے پتا میں نے کھانا نہیں کھایا۔


ایمان منمناتے ہوئے بولی۔


فضول سوال جواب نہیں کرو ایمان فوراً جاکر کھانا کھاؤ یہ کوئی طریقہ ہوا تم پڑھائی میں اتنی مشغول ہو گئی ہو کہ تمھیں کھانے پینے کا ہوش نہیں ہے۔ یہ مت بھولو تم میری ہو ایمان اور میں تم پہ زراسی بھی لاپر واہی برداشت نہیں کروں گا۔


ساحر کی آواز اب بھی غصے میں تھی یقینا ریان اسے ایمان کے بارے میں بتا چکا تھا جس کی وجہ سے وہ اس وقت ایمان پہ برس رہا تھا۔


اللہ اللہ اتنا غصہ نا ہوں کھاتی ہوں ابھی کھانا ایسے چلا کر بات کرنی ہے تو کال کاٹیں نہیں کرنی مجھے آپ سے بات۔


ایمان نے خفگی سے کہا۔


میری جان میں چلا نہیں رہا لیکن تم اپنی حرکتیں بھی تو دیکھونا کھانے پینے کا ہوش ہے ناسونے کا پڑھائی کو اتنا سوار کر لیا ہے تم نے مجھے فکر ہے تمھاری ابھی آنٹی نے بتایا کہ تمھاری کیا حرکتیں چل رہی ہیں۔


ساحر کی بات پہ ایمان نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا وہ سمجھ رہی تھی کہ ریان نے اسے سب بتایا مگر یہاں تو یہ کام اس کی ماما کا تھا۔


اچھا ساحر آپ پلیز خفاناہوں میں ابھی جا کر کھانا کھاتی ہوں۔


ایمان نے نرمی سے کہا تو ساحر کے لبوں کی تراش میں مسکراہٹ آئی۔


 اوکے کا پھلے کا کھاؤ۔ ساحر نے کہہ کر کال کٹ کر دی۔


ایمان نے اپنی کتاب کی طرف دیکھا جس میں سوال آدھا وہ حل کر چکی تھی آدھا باقی تھا۔ پہلے اس کو پورا کر لیتی ہوں پھر کھاتی ہوں کھانا۔


خود سے کہہ کر ایمان ایک بار پھر اپنے کام میں لگ گئی بنا یہ سوچے کہ اس چیز سے اس کی ننھی سی جان کتنی مشکل میں آسکتی ہے۔


ساحر نے ایمان سے کال کٹ کر کے ٹھیک پندرہ منٹ بعد سمینہ بیگم کو کال ملا کر ایمان کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایمان نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔


ساحر کا دماغ گھوم گیا۔


اچھا میڈم چاہتی ہیں میں انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھیلاؤں ایسا ہے تو پھر ایسا ہی صحیح۔


ساحر مسکرا کر کہتا گاڑی کی چابیاں اٹھا تا باہر نکل گیا۔


اس کا ارادہ ایمان کے گھر جا کر اس کا دماغ ٹھیک کرنے کا تھا۔


ساحر کو گھر سے باہر جاتا دیکھ ساحل چھت سے نیچے آیا مگر سیڑھیوں سے اوپر اپنے کمرے کی طرف


جاتی پاکیزہ اس سے بری طرح ٹکرائی تھی۔


ساحل نے اسے ایک ہاتھ کے سہارے سے پکڑ رکھا تھا۔


ساحل کو اپنے قریب دیکھ کر پاکیزہ اور زور سے دھڑکا تھا۔


معاف کرلیے گا سائیں میں نے دیکھا نہیں تھا آپ کو ۔


پاکیزہ نے بہت ادب سے کہا تھا۔


ساحل کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔


یہی تو مسئلہ ہے جان سائیں تم دیکھتی ہی تو نہیں ہو اپنے سائیں کی طرف۔


ساحل کی بات پہ پاکیزہ نے نظر اٹھا کر ساحل کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا


ساحل کی نظریں ایک لمحے کے لیے پاکیزہ سے ملی تھیں مگر فورا ہی پاکیزہ نے اپنی نظریں جھکالی تھیں۔


بہت ظلم کر رہی ہو جان سائیں تمہیں بہت مہنگا پڑے گا بس کچھ دن کی دوری ہے پھر ساری زندگی اپنے سائیں کو ہی دیکھنا ہے تم نے۔


ساحل نے محبت پاش لہجے میں کہا۔


جس دن نکاح ہو جائے گا اس دن دیکھ لوں گی کیوں کہ وہ مجھے میرے رب کی طرف سے اجازت ہو گی ابھی آپ میرے لیے نامحرم ہیں اور میرا ضمیر مجھے گوارا نہیں کرتا کہ میں کسی نامحرم سے نظریں ملاؤں۔


پاکیزہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب چلی گئی جبکہ ساحل کھڑ اکتنی ہی دیر تک وہی کھڑا رہا۔


چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔ پاکیزہ نے اس کا دل خوش کر دیا تھا۔


وہ خود کو خوش نصیب سمجھ رہا تھا کہ اللہ تعالی نے اس کی قسمت میں اتنی اچھی اور نیک لڑکی لکھی ہے۔


ساحل کا دو دن بعد پاکیزہ کے ساتھ نکاح فکس ہو گیا تھا۔


مرحا کے کہنے پہ ہی نکاح کی ڈیٹ رکھی گئی تھی۔


ساحر ایمان کے گھر پہنچا تو سمینہ بیگم اسے بال میں ہی مل گئیں تھیں۔


آنٹی ایمان کے لیے کھانا دیں میری بیوی بات سمجھ نہیں رہی اسے سمجھانے کی ضرورت ہے۔


سلام دعا کے بعد ساحر نے سمینہ بیگم سے کہا تو انہوں نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور دو منٹ میں ہی کھانے کی ٹرے لاکر ساحر کو تھامائی۔


ساحر شوہر تھا ایمان کا اس پہ سب سے زیادہ حق وہی رکھتا تھا سمینہ بیگم کو ایمان کی فکر رہنے لگی تھی اس فکر لیے انہوں نے ساحر کو کہا تھا کہ وہ ایمان کو سمجھائے۔


ساحر کھانے کی ٹرے لے کر دبے قدموں سے ایمان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ ابھی بھی پڑھائی میں اتنی مگن بیٹھی تھی کہ کمرے میں کسی کے آنے کا اسے پتا نہیں لگا۔


ساحر نے اس کے پیچھے سے آکر اس کے زمانے سے بک اٹھائی تو وہ دبک کر ایک دم پیچھے مڑی مگر ساحر کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے۔


س ساحر آپ یہیں یہاں۔


اٹک اٹک کر کہا۔


‏اس وقت ایمان جس حالت میں بیٹھی تھی وہ ساحر کو مد ہوش کرنے کے لیے کافی تھی۔


وہ جو ایمان پر غصہ کرنے آیا تھا ایمان کو دیکھ کر اس کا غصہ منٹوں میں غائب ہوا تھا۔


پر پل کلر کی شرٹ جو اس کی کمر تک تھی سامنے سے بٹنز تھے۔


پر پل کلر کا ٹراؤزر بالوں کی اونچی پونی بنائے ساحر کے دل بے ترتیب دھڑ کا رہی تھی۔ ساحر نے اس کی کتاب پہ نظر ڈالی۔


ریپروڈکشن کا چیپٹر سامنے کھلا ہوا تھا۔


ساحر کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


میری جان تم اس ٹاپک پر اتنا فوکس کر رہی ہو لگتا ہے تمھیں یہ ٹاپک سمجھ نہیں آرہا آؤں میں تمھیں سمجھاتا ہوں۔


ساحر نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔


ایمان شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی۔


ساحر آپ بہت بے شرم ہو گئے ہیں۔


ایمان نظریں چراتی بیڈ سے اتر کر اپنا دوپٹہ اٹھانے لگی مگر اس سے پہلے ہی ساحر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔


جان من صحیح تو کہہ رہا ہوں تمھیں یہ ٹاپک سمجھ نہیں آرہا تب ہی تو تم اس میں اتنی مگن ہو کہ تمھیں کھانے کا ہوش نہیں ہے۔


ساحر نے مسکراتی نظروں سے کہا۔


وہ چاہ کر بھی ایمان پہ غصہ نہیں کر پارہا تھا۔


ایسی بات نہیں ہے میں کھانا کھانے لگی ہوں۔


ایمان اس سے اپنا ہاتھ چھٹرواتی جلدی سے کھانالے کے بیٹھی مگر ساحر نے اس کے سامنے سے کھانا اٹھا لیا۔


ایسے تو تمھیں اب کھانا نہیں ملے گا جان من میں نے تمھیں کہا تھا کھانا کھا لو مگر تم نے نہیں سنا تو اب سزا کی تو مستحق ہونا تم۔


آپ مجھے سزا دیں گے۔


ساحر کی بات پر ایمان نے معصومیت سے پوچھا تو ساحر نے اس کے لبوں کو اپنی قید میں کے کر میٹھی سی گستاخی کی۔


ایمان کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔


ساحر نے لقمہ بنایا اور اس کو اپنے ہونٹوں میں دبایا ایمان کو اس نے کمر سے پکڑ رکھا تھا۔


اب وہ اپنا چہرہ ایمان کے چہرے کے قریب کیسے اس کو اشارے سے لقمہ اپنے منہ میں لینے کا کہہ رہا تھا۔


ایمان نے نا میں گردن ہلائی تو ساحر نے اس کی کمر پر اپنی پکڑ سخت کری جس سے اس کی سسکی نکلی۔ ساحر نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایمان کو گھورا تو اس نے لرزتے لبوں سے ساحر کہ ہونٹوں سے لقمہ اپنے منہ می لیے۔


شرم سے چہرے پر سرخی چھائی۔


ساحر کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ آئی۔


سو مسز ایمان ساحر خان اب سے مجھے امید ہے آپ خود ٹائم پہ کھانا کھا لیں گی ورنہ میں کھانا کھیلانے آیا تو اسی طرح محبت سے کھلاؤں گا۔


ساحر نے مسکرا کر کہا تو ایمان نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔


میں روز ٹائم سے کھالوں گی کھانا آپ کو شکایت نہیں ملے گی۔ ایمان نے منمناتے ہوئے کہا۔ گڈ گرل۔


ساحر نے مسکرا کر کہا اور اس کے بعد اپنے سامنے بیٹھا کر ایمان کو پورا کھانا کھلایا۔


کھانا کھلا کر وہ کافی دیر بیٹھا ایمان کو اپنی باہوں میں کیسے باتیں کرتا رہا پھر اسے سونے کے لیے لیٹا کر جب وہ سو گئی تب اس کے کمرے سے گیا۔


ایمان کو ساحر نے اتنی میٹھی سی سزا دی تھی کہ اس کے بعد اسے یقین تھا کہ ایمان کھانے پینے میں بالکل لا پرواہی نہیں کرے گی


پاکیزہ خان آپ کا نکاح ساحل خان ولد امجد خان سے طے پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔ قاضی صاحب کی آواز گونجی۔


ساحر کے گھر پہ ہی نکاح کی تقریب رکھی گئی تھی کیونکہ یاسر کا کوئی بھی نہیں تھا وہ دونوں بہن بھائی اکیلے تھے ساحر کے بس کچھ جاننے والوں نے شرکت کی تھی ، ریان کے گھر والے تھے سبیل صاحب اور اولیس صاحب کی فیملی تھی۔


نکاح کے بعد پاکیزہ نے رخصت ہو کر حویلی جانا تھا۔


ساحل اور ساحر دونوں یہاں نہیں رہ سکتے تھے حویلی اور گاؤں کے معاملات دیکھنے تھے ساحل نے ساحر کی ساری ذمہ داری سنبھال لی تھی اور اب اس کی کوشش یہی تھی کہ پورے گاؤں کی ترقی کے لیے کام کرے۔


ساحر رملہ ایمان ریان مرحا کے ساتھ شاہ میر نور عینی اور شایان نے بھی حویلی ہی جاتا تھا تا کہ نئی دلہن کا بہت اچھے سے ویلکم کیا جا سکے۔


نکل کا انتظام گارڈن میں کیا گیا تھا۔


پورا گارڈن بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا ۔


ساحل اور پاکیزہ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔


قاضی صاحب کی آواز پہ پاکیزہ کا دل لمحے کو لرزا تھا۔


یا سر نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تو اس نے لرزتے دل کے ساتھ ساحل کو اپنے نکاح میں قبول کیا۔ " قبول ہے "


دو دفع کی اور اجازت پر قاضی صاحب نے ساحل سے پوچھا۔


ساحل خان ولد امجد خان آپ کا نکاح پاکیزہ خان سے طے پایا ہے کیا آپ نے انہیں اپنی زوجیت میں قبول کیا۔


" میں نے قبول کیا "


ساحل کی آواز گونجی تو باقی کاروائی کے بعد دعا کروائی گئی۔


سب نے نئے جوڑے کو ڈھیر ساری دعائیں دی تھیں۔


ساحل نے سب سے مل کر پاکیزہ کی طرف قدم اٹھائے اور اس کا گھونگھٹ اٹھایا۔


ریڈ کلر کے خوبصورت لہنگے میں سیم کلر کا حجاب لیے خوبصورت میک اپ میں اس کا نورانی چہرہ ساحل کے دل میں اتر رہا تھا۔


ساحل جا کر پاکیزہ کے برابر میں بیٹھا اور پورے حق سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔


پاکیزہ کا دل زور سے دھڑ کا تھا


آج اس کے دل میں ساحل کے لیے الگ جذبات تھے فطری گھبراہٹ اور شرم و حیا کے علاوہ اسے


ساحل سے کوئی مسئلہ نہیں تھا وہ اب اس کا محرم تھا اس کا ہمسفر تھا۔


آخر کار در خصتی کا شور اٹھا تو یا سر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔


اس کی پیاری بہنا کی ودائی کا وقت ہو گیا تھا۔


یا سر ساحل کے سامنے آیا اور ہاتھ جوڑے۔


ساحل سائیں میرے پاس اس دنیا میں بس ایک رشتہ ہے میری بہن کا۔ پاکیزہ میں میری جان بستی ہے اس کا خیال رکھیے گا وہ معصوم ہے بہت کبھی کوئی غلطی ہو جائے اس سے تو خفانا ہو ئے گا۔


یا سر کی بات پہ ساحل نے فورا یا سر کا ہاتھ تھاما تھا۔


یہ کیا کر رہے ہیں آپ پاکیزہ اب میری بیوی ہے اور آپ اس کے بڑے لالا ہیں اس حساب سے میرے لیے بھی آپ بڑے ہوئے تو یا سر لالا پریشان نا ہوں پاکیزہ اب میری ہے آپ بے فکر رہیں میں اس کا پورا خیال رکھوں گا۔


ساحل نے مسکراتے ہوئے یا سر کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔


آج ساحر کو اپنے بھائی کو دیکھ کر بے حد خوشی ہو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آئی نمی کو دیکھتے ہوئے ایمان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔


کیا ہوا آپ کی آنکھوں میں پانی کیوں ہے اتنی خوشی کا موقع ہے یہ تو۔


ایمان نے ساحر کو دیکھ کر کہا تو وہ مسکرایا۔


میں آج بہت خوش ہوں ایمان بیت زیادہ خوش۔ میں اپنے بھائی کو ایساہی تو دیکھنا چاہتا تھا۔ آج ساحل کی طرف سے میں بے فکر ہو گیا ہوں۔


ساحر نے مسکراتے ہوئے کہا تو ایمان بھی مسکرائی۔


وقت سب ٹھیک کر دیتا ہے اور جب انسان اللہ سے دعا کرتا ہے نا تو اللہ تعالی اسے جلد یا دیر پوری کرتے ہیں میں جانتی ہوں آپ نے ساحل لالا کے لیے بہت دعائیں کی تھیں نا دیکھیں آج آپ کی دعائیں قبول ہو گئیں۔


ایمان کی بات پہ ساحر نے اثبات میں سر ہلایا مسکراہٹ اس کے لبوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی۔


ایمان جانتی تھی وہ اپنے بھائی سے کتنا پیار کرتا ہے اور ساحل کے لیے اس نے کتنی دعائیں مانگی تھیں آج اللہ تعالیٰ نے اس کی دعائیں قبول کر لی تھیں۔ آج ساحل اور لیس خان کا پوتا لگ رہا تھا جیسے سب ساحر کو کہتے تھے کہ وہ اور لیس خان کی طرح ہے انہیں کی پر چھائی ہے آج ساحل بھی اور لیس خان کی پر چھائی لگ رہا تھا۔


سب بہت خوش تھے پاکیزہ یا سر سے ملی تو آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔


یاسر نے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ اپنی کو رخصت کیا۔


ساحل پاکیزہ کو اکیلے گاڑی میں بیٹھا کر گاؤں کے لیے نکلا تھا جبکہ باقی سب بینگ پارٹی نے ایک ساتھ ایک کوسٹر میں جانا تھا۔


مرحا ایمان عینی اور نور کی مشترکہ خواہش پر ریان نے گاڑی بک کی تھی اب وہ لوگ اسی میں گاؤں روانہ ہوئے تھے۔


انہوں نے ساحل سے بول دیا تھا کہ زرا آرام آرام سے اپنی بیوی کے ساتھ انجوائے کرتے ہوئے آنا تا کہ ہم پہلے پہنچ کر دیکم کا انتظام کر سکیں۔


ویسے تو ساحر خود ہی سارا انتظام کروا چکا تھا۔ پوری لال حویلی اس وقت اپنی شان و شوکت لیے دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔


سب لوگ حویلی کے لیے نکل چکے تھے۔ زندگی میں خوشیاں لوٹ آئی تھیں غم کے بادل چھٹے چکے تھے۔


سب اپنے اپنے ہمسفر کے ساتھ اپنی زندگیوں میں قدم میں بڑھا چکے تھے۔


ایمان کے پیپرز کے بعد اس کی بھی رخصتی ہو جاتی تھی ساحر نے ایمان سے اجازت کے کر ہی رخصتی کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ ایمان باقی کی پڑھائی رخصتی کے بعد کرے گی۔


اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ سب بہت خوش تھے۔ ساحر اور ایمان کے ساتھ ساتھ ذالفقار صاحب ریان اور مرحا کا بھی ولیمہ رکھنا چاہتے تھے۔


دونوں بچوں نے بہت مشکلیں فیس کی تھیں مگر اللہ کے کرم سے دونوں کی ایک دوسرے کے لیے محبت نے ان مشکلات میں ثابت قدم رہ کر ایک دوسرے کو پالیا تھا۔


مرحا بھی اب بہت بہتر تھی ریان کی محبت نے مرہم کی طرح مرحا کی زندگی کے ہر دکھ تکلیف کو ہر زخم کو بھر دیا تھا۔


اور مرحا کا ساتھ پاکر تو ریان ہر روز اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو کر شکر ادا کرتا تھا کہ اس کے پیارے اللہ نے اسے اس کی محبت سے دور نہیں کیا اسے مر حا کا ساتھ عطا کیا تھا۔


کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ ریان نے شکرانے کے نوافل نا پڑھے ہوں وہ مر حا کو پا کر بے حد خوش تھا اور یہ خوشی اسے جس پاک ذات نے دی تھی بھلا وہ اسے کیسے بھول سکتا تھا۔


آنے والے دنوں نے سب کی زندگیوں میں اور خوشیاں بکھرنی تھیں۔


ساحل پورے راستے پاکیزہ کو چھیڑتا ہوا آیا تھا جس سے اس کے جھکے چہرے پہ مسکراہٹ کھلی رہی تھی۔


ساحل پاکیزہ کو لے کر حویلی پہنچا تو سب لوگ پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔


پاکیزہ کا بہت شاندار ویلکم کیا گیا تھا۔ پھولوں کی بارش اور باہر ہوئی آتش بازی نے ایک الگ ہی سما بنا دیا تھا۔


گاؤں والے بھی بے حد خوش تھے آخر کار ان کو بھی حویلی کے ظلم و ستم سے نجات مل گئی تھی۔ گاؤں میں ہر طرف عید کا سا سماں تھا۔


سب کے چہروں پر خوشی تھی۔


ساحل پاکیزہ کا ہاتھ تھامے حویلی میں داخل ہوا۔


پوری حویلی اندر سے بھی جگمگارہی تھی ہر طرف گلاب اور موتیا کی بھینی بھینی خوشبو مہک رہی تھی۔


پاکیزہ میں تمھاری جیٹھانی ہوں اوکے مجھ سے ہمیشہ تم نے ڈرنا ہے میرے سامنے سہم کر کھڑی رہا کرنا سمجھیں۔


ایمان نے اپنی کمر پہ دونوں ہاتھ رکھ کر پاکیزہ کو کہا تو سب کے قہقہے گونجے جب کہ پاکیزہ نیچے چہرہ کیے مسکرادی۔


بھا بھی سائیں آپ تو ابھی سے میری بیوی کو ڈرار ہی ہیں یہ تو نا انصافی ہے۔


ساحل نے ایمان سے کہا تو وہ مسکرائی۔


ساحل لالا سمجھا کریں پہلے سے ہی دیورانی کو اپنے انڈر میں لینا پڑتا ہے ورنہ دیوار نی جیٹھانی سے ڈرتی


نہیں ہے اس کے خلاف سازشیں کرتی ہے۔


ایمان نے معصومیت سے کہا۔


ایمو خدا کا واسطہ انڈین ڈرامے کم دیکھا کریں اپنی صحت دیکھیں پہلے آپ سے تو کوئی بچہ بھی ناڈرے۔


ایمان کی بات پر شہیر نے جواب دیا تو سب ہننے لگے۔


پاکیزہ کو سب کی یہ نوک جھوک اچھی لگ رہی تھی اس نے کبھی اتنے رشتے نہیں دیکھے تھے اس کے


پاس تو بس ایک اس کا بھائی تھا لیکن آج اسے اتنے سارے رشتے مل گئے تھے۔


اچھا چلیں اب بس بس۔


لالا آپ بھا بھی سائیں کو کمرے میں لے جائیں وہ تھک گئی ہوں گی۔


مرحانے ایمان اور شہیر کی نوک جھوک پہ ہنستے ہوئے کہا۔


ہاں اور اب تم سب بھی آرام کرو چلو میری بیوی بھی تھک گئی ہے اسے آرام کی ضرورت ہے۔


ریان نے کہا تو سب نے ہامی بھری۔ مرحا کے معاملے میں تو کوئی بھی لاپر واہی نہیں کرتا تھا۔ اور آج کا


پورا دن مرحا نے ریسٹ نہیں کیا تھا اس لیے اسے بھی آرام کی ضرورت تھی۔


ساحل پاکیزہ کا ہاتھ تھامے کمرے میں لایا جو گلاب کے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔


بیڈ پہ پھولوں سے دل بنا ہو ا تھا۔ بیڈ کے چاروں اطراف پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں۔


پاکیزہ کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا جبکہ ساحل کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔


روم کا دروازہ بند ہو اتو پاکیزہ کو اور گھبراہٹ ہونے لگی وہ بہت زیادہ نروس ہو رہی تھی۔ ساحل نے اسے پیچھے سے آکر


باہوں میں بھرا تو پاکیزہ اول پلیاں تو کر باہر آنے کو چلنے لگا


اس کی وجود کی کپکپاہٹ ساحل صاف محسوس کر سکتا تھا۔


جان سائیں اب تو آسکتا ہوں نا قریب اب تو مجھ سے نظریں ملا سکتی ہونا۔ ساحل نے پاکیزہ کو گھوما کر اپنے سامنے کیا۔


اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔


ساحل نے مسکر اکر اس کی پیشانی چومی تو بے ساختہ اس کی آنکھیں بند ہوئیں۔

پاکیزہ میں تم سے بہت محبت کرنے لگا ہوں جان بن گئی ہو تم میری جب تمھیں پہلی بار دیکھا تھا اسی دن سے تمھارا یہ معصوم سا روپ میرے دل میں بس گیا تھا۔

کیا تم میری محبت کو قبول کرو گی۔

ساحل نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر اس کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلایا۔

پاکیزہ بھلا کیسے منع کر سکتی تھی۔ ساحل اس کا محرم تھا اس کی جسم و جان کا مالک تھا۔ وہ تو خود اپنی ایک ایک سانس ساحل کے نام کر چکی تھی۔

پاکیزہ نے شرماتے ہوئے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا تو ساحل نے مسکرا کر اسے اپنے سینے سے لگایا۔ اس نے پاکیزہ کے ساتھ باتیں کر کے اسے اپنے ساتھ نارمل کیا ساحل نے محسوس کیا تھا وہ بہت زیادہ گھبرارہی تھی اتنا کہ اس کا وجود کانپ رہا تھا۔

ساحل نے ایک دوست بن کر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔

تم یہ اسکارف کھول اور پیلیکس ہو جاؤ۔ 

ساحل نے کہا تو اس نے جھجھکتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔

اسکارف کے اوپر اس کا بھاری برائیڈل دو پٹہ کئی ساری پیز سے سیٹ کیا گیا تھا۔

پاکیزہ کا ہاتھ صحیح سے پہنچ نہیں پار ہا مگر ساحل نے خود اس کی یہ مشکل آسان کر دی تھی۔ وہ ایک ایک کر پینز کو دوپٹہ سے جدا کر نے لگا۔

ساری پیز نکل گئی تو دو پٹہ سر سے سرک کر نیچے جا گرا جسے ساحل نے فورا اٹھا کر صوفے پہ رکھا۔

پاکیزہ نے اپنا اسکارف اتارا تو اس کے بال جو ہلکے سے جوڑے میں قید تھے ساحل نے ہمیئر پیز نکال کر اس کے بالوں کو کھول دیا۔

کمرے بھی نیچے جاتے کالے گھنے بال ساحل کو بے حد پیارے لگے تھے۔

پاکیزہ ہمیشہ اسکارف کی صورت دو پٹہ لے کر رکھتی تھی اس وجہ سے اس کے بال کبھی کسی نے نہیں دیکھے تھے۔

اس کے بال کمر پہ کھل کر اس کی کمر کو چھپا گئے تھے۔

ساحر نے اس کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپائے اس کی خوشبو محسوس کر رہا تھا۔

پاکیزہ کو اپنے باہوں میں اٹھائے بیڈ پہ لایا اور خود اس کے اوپر جھک گیا۔

پاکیزہ نے ساحل کی طرف دیکھا جو مسکر اکر آنکھوں میں خماری لیے اسے دیکھ رہا تھا۔

ساحل کی آنکھوں میں جذبات کا سمندر دیکھ پاکیزہ کا دل زور سے دھڑ کا تھا۔ " اجازت ہے "

ساحل نے مسکرا کر پوچھا تو پاکیزہ نے اپنے باہوں کا ہار بنا کر اس کے گلے میں ڈالا۔

شرم سے نظریں جھکی ہوئی تھی۔

پاکیزہ کی اجازت ملتے ہی ساحل کے جذبات بے لگام ہوئے۔

اس نے جھک کر اس کے لبوں کو اپنی قید میں لیا۔

اس کی سانسوں کو اپنی سانسوں میں الجھا گیا تھا۔

کے پوری رات ساحل گھٹا بن کر پاکیزہ پہ برستار ہا۔

ساحل کا ساتھ پا کر پاکیزہ اپنی قسمت پر رشک کر رہی تھی۔

ساحل نے اپنی محبت سے اس کے وجود کو انمول کر دیا تھا۔

مر حاوا ثروم سے چھینچ کر کے باہر آئی تو ریان بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔

مرحا مسکرا کر اس کے پاس آکر بیٹھی تو اس نے مرحا کے ہاتھ میں میڈیسن دی اور پانی کا گلاس تھا مایا۔

ریان اور کتنی کھانی ہے میڈیسن میں تھک گئی ہوں یہ بہت کڑوی ہیں۔

مرجانے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہا تو ریان نے مسکرا کر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پہ رکھے اور پیچھے ہوا۔

اس نے مرح پہ اپنی شدت بر سانا چھوڑا ہو اتھا وہ کسی بھی لحاظ سے مرحا کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔

ریان کے انداز میں اتنی نرمی آگئی تھی کہ وہ جب بھی مرحا سے بات کرتا تو اس کا لہجہ اتنا میٹھا ہو تا کہ

مر حاکو ریان سے اور بھی محبت ہو جاتی۔

اس نے مرحا کو اکیلا چھوڑنا بند کر دیا تھا۔