تیرا عشق مرہم سا ہے


قسط نمبر 42

طوبیٰ صدیقی



°°°°°°


💖💖💖


حاشر درد سے چلا رہا تھا مگر اس کی چیخ سننے والا کوئی موجود نہیں تھا۔


تو نے میری مرحا کو تکلیف دی اس کو تھپڑ مارا تھانا تونے۔ اس کے چہرے پر انگلیاں چھاپی تھی تو نے۔


میں اسے کسی پھول سے بھی ناماروں اور تو نے اس پر اپنا ہی ہاتھ اٹھادیا۔


ریان نے کہتے ہوئے ٹھیک پہلے ہاتھ کی طرح حاشر کے دوسرے ہاتھ میں بھی خنجر گھونپا تو اس کی


دلخراش پیچ گونجنے لگیں۔


محمم معاف معاف کر دو مجھے ۔۔۔


حاشر نے بہت مشکل سے الفاظ ادا کیے تھے۔


معاف کرنے کا وقت تو چلا گیا کمینے اب تو تیری موت کا وقت شروع ہوا ہے۔


کیا بولا تھا تو نے تو مجھے میری مرحا سے دور کرے گا۔


میں اپنی مرحا کو پل پل مرتے دیکھوں گا۔


ہاں دیکھا میں نے اسے دیکھا۔ میں نے اسے پل پل مرتے ہوئے دیکھا مگر جب اسے گولیاں لگی تب نہیں۔ میں نے اس پل پل مرتے دیکھا جب تو نے اسے خوفزدہ کیا تھا میں نے اسے پل پل مرتے دیکھا جب تیرے اس کتے بھائی نے اسے اغواء کیا تھا میں نے اسے پل پل مرتے دیکھا تھا جب تو نے اسے


بے آبرو کرنے کی کوشش کی تھی۔


ریان نے چیخ کر کہا اور خنجر حاشر کے پیٹ میں گھسا کر گوھا مایا۔


حاشر ایک بار پھر بری طرح ٹرپ کر چیخا تھا۔


تیری ہمت کیسی ہوئی تھی میری مرحا کی جان لینی کی تو نے اس پر گولیاں چلائیں تیری وجہ سے موت کے منہ میں پہنچ گئی تھی وہ۔


ریان نے ایک بار پھر غرا کر کہا اور حاشر کے پیٹ میں خنجر سے ایک اور وار کیا۔


حاشر کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔ عالم یہ تھا کہ اس سے درد سے چیخا تک نہیں جارہا تھا۔


تو نے بہت غلط کیا حاشر تو نے اگر مجھ پہ وار کیا ہوتا تو میں شاید تجھے بخش دیتا مگر تو نے میری جان پر دار کیا تھا تو نے میری بیوی پہ میری عزت پر وار کیا تھا۔ میں تجھ سے تیری آخری سانس تک چھین لوں گا


عاشر تیری وجہ سے میری مرحا کا جتنا خون بہا ہے نا اس سے کئی زیادہ خون میں تیرا بہاؤں گا۔


یہ کہہ کر ریان نے ایک کے بعد کئی وار حاشر کے پہ پیٹ پہ کیے۔


حاشر اپنی آخری سانسیں لیتاز مین پہ پڑا تڑپ رہا تھا۔ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی موت کسی بھی وقت اس پہ حاوی ہونے والی تھی کہ ریان خنجر ایک بار پھر حاشر کے قریب لایا۔


کیسا لگ رہا ہے پل پل مرنا کسے کہتے ہیں اب تجھے اچھے سے سمجھ آگیا ہو گا۔ زندگی کھونا کیسا ہوتا ہے تجھے پتا لگ گیا ہو گا۔


مرحا میری زندگی ہے میرے وجود کا ایک ایسا حصہ ہے جس کے بناریان حیدر کا دل بند ہو جائے گا۔


مر حامیر اجنون ہے میری دیوانگی ہے عشق ہے وہ میرا۔ اس کی خاطر میں اپنی جان دے بھی سکتا ہوں اور کسی کی جان لے بھی سکتا ہوں۔ تیرے مرنے کا وقت آگیا حاشر اب جا اپنے رب کے سامنے حاضر ہو کر اپنے گناہوں کی سزا کانٹنا۔


ریان نے خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے خنجر حاشر کے دل پہ گھسا دیا۔


حاشر کے جسم کی حرکت بند ہو گئی۔ جسم ساکت ہو گیا۔ سسکیاں رک گئیں۔


ریان نے حاشر کو اس کے کیے کی سزا دے دی۔ مرحا جس جس تکلیف سے گزری تھی اس نے ایک ایک تکلیف کا حساب لے لیا تھا۔


ریان حاشر کو گہری نظروں سے گھور رہا تھا تب ہی اسے اپنے کندھے پہ ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا۔ ریان مسکرایا۔


میں نے اپنی مر حا کا بدلہ لے لیا شیری تمھارا شکر یہ تم نے حاشر کو جیل سے بھاگنے دیا۔


ریان نے مڑ کر کہا جہاں شیری کے ساتھ ساتھ عینی بھی کھڑی تھی۔


کیا کروں دوست کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے تھوڑی دیکھ سکتا تھا۔


شیری کی بات پر ریان اور عینی دونوں مسکرائے تھے۔


                  "کچھ گھنٹے پہلے"


ریان عمل کو گرفتار کروانے کے بعد ڈائیریکٹ پولیس اسٹیشن آرہا تھا مگر اسے راستے میں ہی شیری مل گیا۔


شیری نے گاڑی ریان کی گاڑی کے آگے لگا دی تھی جس کی وجہ سے اسے رکنا پڑا۔


شیری اس وقت فل یونیفارم میں تھا یقینا وہ پولیس اسٹیشن سے آرہا تھا۔


شیری اپنی گاڑی سے اتر کر ریان کے سر پہ سوار ہوا اور اسے زبردستی گاڑی سے باہر نکالا۔


شیری آج نہیں آج میرا راستہ نہیں روکنا مجھے مرحا کو ملے ایک ایک زخم کا حساب لینا ہے۔


ریان نے شیری کے بولنے سے پہلے ہی اسے وارن کیا۔


ریان میری بات سنو وہ پولیس کسٹڈی میں ہے میں اسے سزا دلواؤں گا پلیز تم غصہ مت ہو۔


شیری نے سمجھانا چاہا۔


سیریلی شیری میں غصہ نا ہوں۔ میں نے مرحا کو موت کے منہ میں دیکھا ہے میں بتا نہیں سکتا جس وقت میں اسے حاشر سے بچانے روم میں گیا تھا تو اس کی آنکھوں میں کتنی تکلیف تھی وہ کمینہ اسے اپنے گندے ہاتھوں سے چھو رہا تھا میں اگر وقت پر نہیں پہنچ پاتا تو میری مرحا کے ساتھ کیا ہو جاتا یہ میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔


ریان غصے سے دھاڑا تھا۔


ریان میں ہر بات کو سمجھ رہا ہوں مگر پلیز تم بات سمجھنے کی کوشش کرو یار۔


اس سے پہلے شیری اور کچھ کہتاریان نے اس کے بیلٹ سے گن نکال کر اپنے سر پہ تان لی۔


شیری کی جان ہوا ہوئی۔


ریان یہ کیا بچپنا ہے تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا۔


شیری نے گن لینی چاہی تو ریان نے گن لوڈ کر لی۔


ہاں میر ادماغ خراب ہو گیا میں پاگل ہو گیا ہوں تم بس مجھے یہ بتاؤ اس حاشر کو میرے حوالے کر رہے ہو یا نہیں۔ شیری میں مرحا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر تم نے حاشر کو میرے حوالے نہیں کیا تو میں اپنی جان دے دوں گا شیری میں مرحا کے سامنے ایسے نہیں جاؤں گا جب تک میں اس حاشر کو ختم نا کر دوں میں مرحا کے سامنے نہیں جاؤں گا۔


شیری ریان کی دیوانگی دیکھ کر کچھ بولنے کے قابل نہیں رہا تھا۔


ٹھیک ہے میں تمھاری بات مان رہا ہوں میں حاشر کو تمھارے حوالے کر دوں گا مگر ریان پلیز پہلے یہ گن مجھے دے دو یہ کوئی کھیلنے کی چیز نہیں ہے ۔ 


شیری نے سمجھایا۔


ریان نے گن واپس شیری کے حوالے کر دی تو شیری کی جان میں جان آئی۔


بیٹا مر حا کو ہوش میں آنے دو تمھارے ایک ایک کارنامے کو بتاؤں گا اور اسی سے کلاس لگواؤں کا تمھاری۔


شیری نے گھور کر کہا۔


ریان کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی مرحا کے نام نے ریان کے غصے کو جھاگ کی طرح بیٹھایا تھا۔


شیری نے ریان کو پلان سمجھایا۔


اب انہوں نے اسی پر عمل کرنا تھا۔


حاشر کو شیری نے ہی پولیس اسٹیشن سے بھاگنے کا موقع دیا تھا وہ سب ایک پلان تھا تا کہ حاشر خود وہاں


سے بھاگ جائے اور پھر باقی کام ریان کا تھا۔


سب ان کے پلان کے مطابق ہی ہوا تھا حاشر موقع ملتے ہی جیل سے بھاگا تھا۔


ریان مسلسل اس کے ساتھ تھا تب ہی اسے بار بار یہ احساس ہو رہا تھا کہ کوئی اس پہ نظر رکھے ہوئے ہے۔


حال


ریان شیری اور عینی کھڑے باتیں کر رہے تھے تب ہی ساحر کی کال آنے لگی۔


ریان نے لمحہ ضائع کیسے بنا کال اٹھائی تھی۔


ریان مرحا کو ہوش آ رہا ہے وہ تمھارا نام لے رہی ہے پلیز جلدی آؤ۔


ساحر کی بات سن کر ریان کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔


میں پہنچ رہا ہوں ساحر میں ابھی پہنچ رہا ہوں۔


ریان نے کہہ کر کال کٹ کی اور شیری اور عینی کو سب بتایا تو وہ تینوں ہی فورا ہسپتال کی طرف بھاگے تھے۔


ساحر مرحا کے پاس بیٹھا اس سے باتیں کر رہا تھا تب ہی اسے مرحا کے ہاتھ پہ حرکت محسوس ہوئی اس کی انگلیاں حرکت کر رہی تھی۔


ساحر نے مرحا کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ کچھ بولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔


مر حامیر ابچہ میری گڑیا۔


ساحر مر حا کے سر پہ ہاتھ رکھ کر سے نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔


مرحا کچھ بولنے کی کوشش کر رہی تھی۔


ساحر نے اپنے کان مرحا کے قریب لے کر گیا تا کہ سن سکے وہ کیا بول رہی ہے۔


لالا۔ ریان۔ ریان


مرحا کے منہ سے ریان کا نام سن کر ساحر نے اسے تسلی دی کہ ریان آرہا ہے اور فوراً ڈاکٹر کو بلانے باہر بھاگا تھا۔


ڈاکٹر مرحا کو چیک کرنے لگے تھے ساحر اور ایمان باہر تھے۔


شاہ میر اور نور بھی آچکے تھے۔


شاہ میر اب پہلے سے بہت بہتر تھا ڈا کٹر نے اسے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن وہ گھر جانے کے بجائے مر حا کو دیکھنے آیا تھا۔


ساحر نے ریان کو کال ملا کر مرحا کے ہوش میں آنے کی خبر سنائی تھی۔


ڈاکٹر مرحا کو چیک کر رہے تھے تب ہی ریان بھاگتا ہوا آیا۔


ساحر مر حامیری مرحا ٹھیک ہے نا اس کو سچ میں ہوش آگیا وہ وہ مجھے بلا رہی ہے مجھے اس کے پاس جانا ہو گا۔


ریان کہتا کہتا اندر جانے لگا تو ساحر نے اسے روکا۔


ریان ریان میرے بھائی صبر سے کام لو ڈاکٹر اسے چیک کر رہے ہیں۔


ساحر نے مسکرا کر کہا۔


بھائی اس کے اندر صبر کا مادہ ختم ہو چکا ہے صبر کیا ہو تا اس شخص کو پتا ہی نہیں ہے۔


شیری نے ریان کی طرف گھور کر کہا۔


سب کے چہروں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔


ریان اتنی اسپیڈ میں گاڑی بھاگا کر لایا تھا کہ دو دفع اس نے سگنل توڑا اور ایک بار ان کی گاڑی سامنے والی گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ شیری تب ہی ریان پر بھر بیٹھا تھا۔


شاہ میر تم ٹھیک ہو۔


ریان نے مسکر اگر شاہ میر کے چہرے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔


میں بالکل ٹھیک ہوں بھائی لیکن یہ آپ کے کپڑے اتنے خون میں کیوں ہو رہے ہیں۔


شاہ میر نے ریان کا دھیان اس کے کپڑوں پہ دلوایا جو حاشر کے خون سے اچھے خاصے خراب ہو گئے تھے۔


ریان اپنے کپڑوں کو دیکھ کر مسکرایا۔


اپنی مرحا کا بدلہ لے کر آرہا ہوں۔


ریان نے جتنی آرام سے بولا تھا سب اتنی ہی حیرت سے اسے دیکھنے لگے تھے۔


سب کو اگنور کرتا وہ چینج کرنے چلے گیا وہ اپنی مر حا کے پاس اس فلیظ شخص کے خون کی جھلک تک نہیں لے جانا چاہتا تھا۔


شیری اس نے بیچ میں حاشر کو۔۔


ساحر نے آدھی بات ہی بولی تھی کہ شیری نے اثبات میں سر ہلایا۔


بہت بری طرح مار کر آیا ہے مت پوچھو اس وقت ریان مجھے کوئی اور ہی لگ رہا تھا۔


میں تو خود ریان کے اس روپ سے پہلی بار ملا تھا۔


اس کا وہ روپ میں دوبارہ کبھی نہیں دیکھنا چاہتا۔


شیری نے جھر جھری لی۔


ساحر نے ایک لمبی سانس لی اسے کوئی غم نہیں تھا حاشر نے جو کیا تھا اس کے بعد اس کی یہ سزا بھی بہت کم تھی۔


حاشر نے اس کی بہن کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا اس کی وجہ سے مرحا کی اتنی بری حالت ہو گئی تھی حاشر کے ساتھ جو بھی ہو ا تھا صحیح ہو ا تھا۔


مرحا کو پورے تین دن کے بعد ہوش آیا تھا۔


ڈاکٹر اسے چیک کر کے باہر آئے تب تک ریان بھی چینج کر کے آچکا تھا۔


بلیک کلر کی جینز کے ساتھ مسٹر ڈ کلر کی شرٹ بکھرے بال اور ہلکی سی بڑھی ہوئی شیوو میں وہ بہت جاذب نظر لگ رہا تھا۔


آنکھوں میں مرحا سے ملنے کی بے چینی صاف واضح تھی۔


مرحا کو ہوش آگیا ہے۔ ان کی طبیعت اب بہتر ہے وہ بول بھی پارہی ہیں لیکن انہیں کسی کسی ٹائم میں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔ ہم نے ابھی آکسیجن ماسک اتار کر انہیں حج کیا ہے فلحال انہیں وقفے وقفے سے نیبولا میئر کرتے رہنا ہو گا۔ اور کوشش کرلیے گا کچھ وقت تک وہ زیادہ بات چیت نا کریں کم بولیں اور کسی بھی قسم کا اسٹریس نا لیں۔


باقی آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔


ڈاکٹر کے کہنے کی دیر تھی کہ ریان فور امر حا کے روم میں داخل ہوا۔


سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ریان واقعی صبر کا مادہ کھو چکا تھا۔


ریان مرحا کے پاس پہنچا تو وہ چھت کو گھور رہی تھی۔


مرحا۔۔ میری جان میرابچہ میری زندگی۔


ریان نے مرحا کے پاس آکر اس کے چہرے پر اپنا لمس چھوڑا تھا جسے اس نے مسکر اکر محسوس کیا تھا۔


میری جان کیسی ہے۔ کہیں چین تو نہیں ہو رہا۔


ریان نے بے حد محبت سے پوچھا تھا۔


مرحانے مسکرا کر نا میں گردن ہلائی۔


آپ نے۔۔ یہ کیا۔۔ حال بنایا ہوا ہے۔۔ ریان


مرجانے اس کی رف حالت دیکھ کر آہستہ آواز میں کہا۔


میری حالت تم نے دیکھی ہی کہاں ہے مر حاتم اندازاہ نہیں لگا سکتیں تمھارا یان پل پل مرا ہے جنھیں


اس حال میں دیکھ کر۔


ریان کی آنکھ سے آنسو پھسلا تھا۔


مر جانے اپنے ہاتھ سے اس کے آنسو کو صاف کیا تو ریان نے وہی ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا تھا۔


میں بالکل ٹھیک ہوں ریان آپ مت روئیں پلیز۔


مرحا کی بات پر ریان نے مسکرا کر اس کے ماتھے پہ لب رکھے تھے۔


نہیں روؤں گا بالکل نہیں روؤں گا میری جان میرے پاس ہے بھلا میں کیوں روؤں۔


ریان نے مسکرا کر کہا تو مر جا بھی مسکرائی تھی۔


مرحا کی مسکراہٹ سے ریان کے دل کو ٹھنڈک ملی تھی۔


ریان۔۔


جی ریان کی جان۔


مر جانے ریان کو پکار اتو ریان نے بے انتہا محبت سمیٹے اسے جواب دیا تھا۔


آئی لوو۔۔


اس سے پہلے مرحا اپنی بات پوری کرتی ریان نے اس کے لبوں پہ ہاتھ رکھ دیا۔


نہیں مرحا پلیز نہیں۔۔


میں جانتا ہوں تم مجھ سے پیار کرتی ہو بہت پیار کرتی ہو۔ پلیز مجھے تم سے اقرار نہیں سننا مجھے ڈر لگتا ہے


مرحا پلیز مجھے کبھی تم سے پیار کا اظہار نہیں کروانا۔


ریان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تھے۔


مرحا نے کہے گئے الفاظ اسے اب بھی یاد تھے وہ اب ان الفاظوں سے ہی ڈر نے لگا تھا مر جانے کہا تھا


اپنی زندگی کے آخری دن وہ اظہار کرے گی۔


مرجانے یہ بات صرف مزاق میں بولی تھی مگر ریان اب اس سے اظہار سننا ہی نہیں چاہتا تھا مر حابس اس کے پاس ہے خوش ہے اس کے لیے یہی بہت تھا۔


مر جانے اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔


ریان کتنی ہی دیر مرحا کے پاس اکیلے بیٹھار ہامر حا چونکہ ابھی آئی سی یو میں تھی اس لیے یہاں صرف ایک ہی کو آنے کی اجازت تھی اور ریان مرحا کے پاس سے بہلنے کو تیار نہیں تھا۔


سب مرحا سے ملنے کے لیے بے چین تھے مگر ریان اس کے پاس سے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں گیا تھا۔


آخر کار ساحر نے ڈاکٹر سے بات کر کے ریان کو ہٹا کر ایک ایک کر کے سب سے ملنے کی اجازت دلوائی تھی کیونکہ ریان نے تو مر حا کے پاس سے نا جانے کی قسم کھائی تھی۔


ڈاکٹر بھی ریان کو دیکھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ریان کے علاؤ بھی ایک ایک کر کے سب کو ملنے کی اجازت دے دی تھی۔


سب باری باری اس سے مل کر آئے تھے۔ ریان مسکرا کر مر حا کو دیکھے جا رہا تھا۔


مر حا صحیح سلامت اس کے سامنے تھی۔


مرحا کو ہسپتال میں رکے دو ہفتے گزر چکے تھے آج ڈاکٹر نے اسے ڈسچارج کر دیا تھا۔ اب وہ بہت بہتر تھی۔


ریان ایک دن کے لیے بھی گھر نہیں گیا تھا وہ مرحا کے پاس ہی تھا سب نے اسے بہت سمجھایا تھا مگر وہ نہیں گیا تھا آج مرحا کو شام تک ڈسچارج کرنا تھا تو ریان صبح گھر گیا تھا اسے مرحا کے ویلکم کی تیاری کرنی تھی۔


اب وہ ایک پل کے لیے بھی مرحا کو خود سے دور نہیں کرنے والا تھا اس نے پہلے ہی سب کو بول دیا تھا کہ مرحا اس کے ساتھ جائے گی اس کی رخصتی یہیں ہسپتال سے ہو گی۔


کسی نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کیونکہ ریان کی دیوانگی سے سب ہی واقف تھے۔


ریان نے اپنے کمرے سے ساری صفائی کروائی تھی۔


اس نے بہت محبت سے اپنا روم ڈیکوریٹ کروایا تھا مگر قسمت نے اسے مرحا کے ساتھ اس لمحے کو جینے کا موقع نہیں دیا تھا اور اب ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا تھا کہ مر حافلحال اپنی شادی شدہ زندگی آگے بڑھانے کی کنڈیشن میں نہیں ہے ابھی بھی اسے بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور ریان کے لے لیے مرحا سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھا اس لیے ڈاکٹر کی بات کو اس نے اچھے سے سمجھ لیا تھا۔


لیکن وہ مرحا کو خود سے دور بھی نہیں رکھنے والا تھا وہ اسے اپنے پاس رکھ کر اس کا خیال رکھنا چاہتا تھا۔ اس بات سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔


ریان تین گھنٹے کے بعد واپس آیا تو مر حا کے پاس رملہ بیٹھی تھیں۔


ریان کو دیکھ کر مرحا کا بجھا ہوا چہرہ کھل گیا تھا۔


سب نے نوٹ کیا تھا مر حا خود بھی ریان کو ہر پل اپنے سامنے رکھنا چاہتی تھی اس حادثے کے بعد وہ اتنا ڈر گئی تھی کہ اب اسے ریان سے دور رہنا گوارا نہیں تھا۔


میری جان تیار ہے گھر چلنے کے لیے۔


ریان نے محبت بھری نگاھ مر حا پہ ڈالی تھی۔


پیچ کلر کی کرتی اور ٹراؤزر پہنے وہ ریان کے دل کو بے ترتیب کر رہی تھی۔


ریان کی بات پر مر جانے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا تھا۔


بس تو پھر ابھی چلتے ہیں میں زر ا ڈاکٹر سے مل لوں پھوپھو آپ سارا سامان ریڈی رکھیں میں بس ابھی آیا۔


ریان مرحا سے کہہ کر رملہ کو سارا سامان ریڈی رکھنے کا کہتاڈاکٹر کے کیبن کی طرف چلا گیا۔


آئیے مسٹر ریان۔


آپ کی وائف کے ڈسچارج پیپر زریڈی ہیں آپ انہیں آرام سے لے جاسکتے ہیں۔


ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا تو ریان نے مسکرا کر ان کے ہاتھ سے ڈسچارج پیپر لیے۔


ان دو ہفتوں میں ڈاکٹر ریان کے محبت کو بیت قریب سے دیکھ چکے تھے۔


مرحا کی فکر اس کا خیال رکھنا اس کے کھانے کا دوائیوں کا خیال رکھنا مر حا کو بور نا ہونے دیناریان نے ہر چیز بہت اچھے سے سنبھالی تھی۔


مرحا کا کبھی سانس اٹکنے لگتا تو ریان کی بھی سانسیں بھاری ہو جاتی تھیں وہ بے چین ہو جاتا تھا یہ چیز ڈاکٹر سے چھپی ہوئی نہیں تھی تب ہی ڈاکٹر نے اسے بہت آرام سے یہ بات سمجھائی تھی کہ مرحا کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ گولی لگنے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹھیک ہوتا جائے گا اگر ریان اس طرح گھبراتا رہا تو ڈاکٹر ریان پر ٹرسٹ کر کے اس کو مرحا کی ذمہ داری نہیں دیں گے۔


ڈاکٹر کی بات کو سمجھتے ہوئے ریان نے خود کو بہت سنبھالا تھا۔


اب اللہ کا کرم تھا کہ مرحا بہت بہتر تھی کبھی اس کو سانس کی پروبلم ہونے لگتی تھی مگر اس کے لیے بھی ریان نے گھر پہ نیبولایزر منگوالیا تھا۔


ڈاکٹر مرحا اب بالکل ٹھیک ہے نا کوئی مسئلہ کی بات تو نہیں ہے نا مطلب چلنا پھرنا اس کے لیے ٹھیک ہوگا۔


ریان نے ڈاکٹر سے پوچھا تو ریان کی فکر پہ ڈاکٹر مسکرائے۔


مسٹر ریان آپ کی وائف اب بالکل ٹھیک ہیں چلنا پھرنا ان کے لیے اچھا ہے اس سے ان کے اسٹیچیز جلدی ٹھیک ہوں گے مگر زیادہ نہیں کم کم۔


باقی پر یکنینسی کے حوالے سے بھی آپ کو میں آگاھ کر چکا ہوں جو آگے جا کر ایک مسئلہ بن سکتی ہے اور فلحال مرحا کو صرف ریسٹ کی ضرورت ہے کوشش کریے گا کے والک کے علاوہ وہ کوئی کام نا کریں اور وزن بالکل نا اٹھائیں اور رہی بات آپ کی شادی شدہ زندگی کی توریان آپ کو میں بتا چکا ہوں وہ ابھی اس کنڈیشن میں نہیں ہیں۔


خون بہت زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ویک ہو گئی ہیں اس لیے اس معاملے میں آپ کو بہت دھیان رکھنا ہو گا۔


میں نے مرحا کا پورا ڈائٹ پلان اس کی میڈیسن سب لکھ دی ہیں انشاء اللہ بہت جلد وہ بالکل صحتیاب ہو جائیں گی۔


تھینک یو ڈاکٹر ۔


ریان ڈاکٹر کی بات پہ مسکراتا ہوا ان سے ہاتھ ملا تا باہر آگیا۔


رتھی۔


ریان مسکراتا ہوا آیا اور ڈسچارج پیپر زرملہ کو پکڑائے۔


چلیں سب بے صبری سے بڑی بہو کا انتظار کر رہے ہیں۔


ریان کی بات پر مرحا کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ کھلی تھی۔ ریان نے آگے بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں اٹھایا تو وہ سٹپٹا گئی۔


ریان یہ آپ کیا کر رہے ہیں پلیز مجھے نیچے اتاریں سب دیکھ رہے ہیں۔


مرحانے منمناتے ہوئے کہا۔


تو دیکھنے دو میڈم پورا پورا لائیسنس ہے میرے پاس۔


ریان نے ونک کیا تو مر حا اسے گھور کر رہ گئی۔


مگر وہ بھی ریان تھا مر حا کے گھورنے کو ہوا میں اڑا کر مسکراتا ہو ا ہسپتال سے باہر کے آیا۔


گاڑی کے پاس پہنچے تو شایان گاڑی کے پاس ہی کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا۔


و یکم بھا بھی۔


شایان نے کہا تو سب مسکرائے۔


ریان نے مرحا کو آرام سے احتیاط کے ساتھ بیک سیٹ پر بیٹھا یار ملہ مرحا کے ساتھ بیٹھی تھیں جبکہ ڈرائیونگ سیٹ ریان نے خود سنبھالی تھی۔


شایان جانتا تھا مر حاکی وجہ سے گاڑی بہت آرام سے چلانی ہے بلکہ سا بھی جھٹ کا لگنامر حا کے لیے تکلیف


وہ ثابت ہو سکتا ہے اس لیے ریان یہ کام خود کر رہا تھا۔


ریان بہت آرام سے گاڑی چلا کر لایا تھا۔ ہمیں منٹ کے راستے کو اس نے ہونے گھنٹے میں طے کیا تھا۔


گاڑی گھر کے باہر پہنچی تو مر حا کی نظر گھر پہ پڑی جو دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔


مرحا مسکرائی تھی۔


گاڑی لان میں لاکر ریان نے اتر کر آرام سے مرحا کو اپنی باہوں میں لے کر باہر نکالا اور اسے اندر لایا


جہاں دادا جان اور سمینہ بیگم کھڑی تھی۔


مر جانے دونوں کو سلام کر کے ان کا ہاتھ چوم کر ماتھے پہ لگایا۔


ریان کو اس کی یہ ادا بہت پسند تھی۔


میری بچی کیسی ہے۔


سمینہ بیگم نے اسے آرام سے اپنے ساتھ لگا کر کہا۔


میں ٹھیک ہوں۔


مرحا نے مسکرا کر جواب دیا۔


مرحا بیٹے آؤ پہلے اس پہ چھری پھیرو۔


دادا جان نے مرحا کو اپنے پاس بلایا اور چھری اس کے ہاتھ میں پکڑائی۔


وہ اسے ایک کالے بکرے پر چھری پھیرنے کا بول رہے تھے۔


انہوں نے مرحا کا صدقہ دینا تھا ان کی بچی اتنی بڑی مشکل سے نکل کر آئی تھی۔


مرحا کو گھبراتے ہوئے دیکھ کر مرحا کے ہاتھ پر ریان نے اپنا ہاتھ رکھا اور چھری بکرے کی گردن پر لے کر گیا۔


مر جانے ڈر کر ریان کے سینے پہ اپنا چہرہ چھپالیا تھا۔


ہو گیا۔ ریان نے مسکرا کر کہا اور چھری ساتھ کھڑے ملازم کو پکڑائی۔


آجاؤ بچے سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔


ریان نے مسکرا کر دوبارہ اسے اپنی باہوں میں اٹھایا تھا۔


وہ بہت احتیاط کر رہا تھا کہ مرحا کو زرا بھی تکلیف نا ہو۔


جیسے ہی ریان مرحا کو لے کر اندر داخل ہوا۔


پھولوں کی پتیوں نے ان کا ویلکم کیا۔


"ویلکم ہوم "


سب ایک آواز میں پیچ کر بولے تھے۔


شایان شاہ میر نور عینی شهیر آرزو ساحل ساحر ایمان سب ہی لوگ موجود تھے۔


مرحا کے چہرے پہ بہت خوبصورت مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر ریان کے لب بھی مسکرارہے تھے۔


ریان نے لاکر مرحا کو ہال میں رکھے صوفے پر آرام سے بیٹھایا اور اس کی کمر کے پیچھے کوشنز کو ایڈ جسٹ کیا۔


ریان کی اتنی فکر سب کو ہی مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔


مرحا کے آتے ہی اس گھر میں خوشیاں واپس آگئی تھیں۔


پورے ہال میں لائیٹس اور پھولوں سے بہت خوبصورت ڈیکوریشن ہوئی تھی۔


سب باری باری مرحا سے ملے تھے۔


ایک چہرہ تھا جو بیت انجان تھا۔


مر جانے ساحل اور ساحر کے ساتھ کھڑی لڑکی کو دیکھا جو بالکل انجان تھی۔


مرحا کے چہرے کی کنفیوژن کو دیکھتے ہوئے ریان نے اسے اپنے پاس بلایا۔


مرحا اس سے ملو یہ ہے پاکیزہ تمھاری چھوٹی بھا بھی۔ تمھارے ساحل لالا کی منگیتر ۔


ریان کی بات پر مرحا حیرت سے ساحر اور ساحل کو دیکھ رہی تھی۔


لالا آپ نے منگنی کر لی وہ بھی میرے بنا۔


مرجانے منہ بنا کر ساحل کو کہا تو وہ مسکراتا ہو امر حا کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا۔


میں بھلا ایسی گستاخی کر سکتا ہوں۔ ابھی صرف رشتہ ڈن کیا ہے جلد ہی نکاح کرنے کا پروگرام ہے


میرا۔


‏خوش تھی ۔ 


ساحل کی بات پہ مرحا بے حد


اسے پاکیزہ بہت اچھی لگی تھی۔


اس نے اپنے چہرے کے گرد ہمیشہ کی طرح دو پٹہ اسکارف کی صورت لے رکھا تھا جس میں اس کا چہرہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ اور پاکیزہ یا سر کی بہن ہے یہ جان کر تو اسے اور بھی زیادہ خوشی ہوئی تھی۔ ساحل نے ساحر سے بات کر یا سر سے اس کی بہن کا ہاتھ مانگ لیا تھا۔


ساحل بدل چکا تھا پہلے بھی اس میں بس خامہ یہی تھی کہ وہ شراب پیتا تھا اور صرف حویلی والوں کو صحیحسمجھتا تھا مگر حاشر سے جھگڑے کے بعد اس نے شراب بھی چھوڑ دی تھی اور اب ساحر کی پر چھائی ہی معلوم ہوتا تھا۔


ساحر نے پاکیزہ کی خوشیوں کی گارنٹی خود لی تھی تو یاسر کے پاس ویسے بھی انکار کا جواز نہیں بچا تھا۔ ساحر پہ تو وہ خود سے زیادہ بھروسہ کرتا تھا۔ پاکیزہ نے بھی اپنے بھائی کے حکم پہ فرمابرداری سے سر جھکا لیا تھا۔


اب مر جا گھر آچکی تھی تو وہ جلد ہی پاکیزہ کے ساتھ نکاح کے پاکیزہ بندھن میں بندھ جانا چاہتا تھا۔


مرحا کافی دیر سب کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہی پھر سمینہ بیگم نے ریان سے خود ہی کہہ کر مرحا کو اس کے روم میں لے جانے کا بول دیا تا کہ وہ آرام کر سکے زیادہ دیر بیٹھے رہنا بھی اس کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔


ریان مرحا کو باہوں میں بھرے روم میں لایا۔


مر حا کا دل سو کی اسپیڈ سے بھی تیز دھڑک رہا تھا۔


آج وہ پورے حق سے ریان کی بیوی کے روپ میں اس کے کمرے میں آئی تھی۔


کمرے میں صرف کنڈ یلز جل رہی تھیں۔ ایک ڈم سی لائٹ آن تھی۔ فرش پہ پھولوں کی پتیوں سے


ویلکم میری جان لکھا تھا۔


پھولوں کے بڑے بڑے دوبکے رکھے ہوئے۔


سادگی میں بھی کمرے میں ایک دلفریب ماحول بنا ہو اتھا۔


ریان نے مسکرا کر مرحا کو بیڈ پہ لٹایا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا۔


ریان نے مرحا کو اپنی باہوں میں بھر اتھا۔


وہ کب سے مرحا کو اپنے سینے سے لگانے کے لیے بے چین تھا۔


مرحا کو سینے سے لگائے وہ پر سکون سا اس کی خوشبو کو محسوس کر رہا تھا۔


مرحا کو بھی ریان کی پناہوں میں سکون ملا تھا۔


یہ جائز رشتے کا احساس تھا۔


ایک دوسرے کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے وہ دونوں ہی کھوئے ہوئے تھے۔


ریان نے اپنا چہرہ پیچھے کر کے مرحا کے ماتھے پہ لب رکھے تو اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔


ویسے تو تم میری زندگی میں بہت پہلے ہی شامل ہو چکی تھیں مگر آج تم پوریے حق سے میرے قریب ہو


میری جان ویلکم ٹومائی لائف مائی سوئیٹ بیوٹیفل وائف۔


ریان نے مسکرا کر کہا اور نرمی سے اس کے چہرے پہ جھکا تھا۔


اس کے لمس میں بے حد نرمی تھی وہ اپنی مرحا کو زرا سی بھی تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔

اپنے دل کو سمجھا کر وہ جلد ہی پیچھے ہوا تو مرحا اس کے سینے پہ اپنا چہرہ چھپا گئی چہرے پہ شرمیلی سی مسکان نے جگہ بنائی تھی۔

مرحا دوا کھا کر گہری نیند میں چلی گئی تھی۔ ریان اس کے قریب بیٹھا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا۔

نظریں اس کے معصوم چہرے پر نکلی ہوئی تھیں۔

لیوں کی تراش میں خوبصورت مکان تھی۔

مرحا اس کے لیے کب اتنی ضروری ہو گئی تھی اسے خود بھی پتا نہیں لگا تھا۔ اس چھوٹی سی لڑکی میں اس کی جان بستی تھی۔ مرحا اس کے لیے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری تھی۔

اب بھی وہ مسلسل اسے دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اگر مر جانا ہو تو اس کی زندگی کتنی بے رنگ ہو جائے گی۔

مرجانے اپنی معصومیت سے اس کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا تھا۔

ایسا نہیں تھا کہ ریان نے خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی بہت خوبصورت سے خوبصورت لڑکیاں ریان کے ارد گرد گھومتی رہی تھیں مگر ریان نے کبھی نظر بھر کر بھی کسی لڑکی کو نہیں دیکھا تھا۔

مگر مرحا کے چہرے کے خوبصورت نقوش اور اس پر اس کی بے تحاشہ معصومیت نے ریان کا دل بدل دیا تھا اس کی معصومیت نے ہی ریان کو اپنا اسیر کیا تھا۔

ریان جو ہمیشہ لڑکیوں سے کوسوں دور رہتا تھا مر حا کی معصومیت نے اسے اپنی طرف کھینچ کر اس کے

دل میں ایک ایسا مقام بنالیا تھا کہ اس مقام پر اب کوئی اور نہیں آسکتا تھا۔

مرحا اس کے دل میں دھڑکن بن کر دھڑکنے لگی تھی۔

یہی سب سوچتے سوچتے ریان کب نیند میں اترا اسے پتا نہیں لگا۔

عینی ڈارلنگ کبھی اپنے شوہر پہ بھی نظر کرم کر دیا کرو ہر وقت اپنے کام میں ہی الجھی رہتی ہو۔

شایان جو کب سے بیٹھا مینی کے فری ہونے کا انتظار کر رہا تھا دو گھنٹے گزر جانے کے بعد چڑ کر بولا۔

عینی نے ایک نظر شایان کی طرف دیکھا۔ وہ شایان کے ساتھ بہت زیادتی کر جاتی تھی اسے خود بھی

اندازہ تھا اپنے کام کی وجہ سے وہ شایان کو بالکل ٹائم نہیں دے پارہی تھی۔

عینی نے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا اور مسکر اکر شایانکے سامنے آکر بیٹھی۔

شایان عینی کو مسکراتا دیکھ گھبر آیا تھا۔ عینی اور اس کو مسکرا کر دیکھ کر پاس آکر بیٹھے یہ تو نا ممکن والی بات

ہو گئی تھی شایان کے لیے۔

شایان آنکھیں سکوڑ کر عینی کو دیکھنے لگا۔

عینی نے شایان کے ہاتھ پکڑے تو وہ حیرانگی سے عینی کو دیکھنے لگا۔