تیرا عشق مرہم سا ہے


قسط نمبر 41


طوبیٰ صدیقی





°°°°°°


❤️❤️❤️


ساحر آپ ٹھیک ہے ہیں نا ساحر آپ کو آپ کو چوٹ لگی تھی نا ساحر آپ کو زور سے تو نہیں لگی نا ساحر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں کیا کرتی ساحر آپ مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جائیں کہیں بھی نہیں جائیں گے۔


ایمان روتے ہوئے بول رہی تھی۔ ساحر ایمان کی کنڈیشن اچھے سے سمجھ رہا تھا۔


ساحر ایمان کی کمر سہلا رہا تھا۔


ساحل کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ ساحر کو ایک محبت کرنے والے جیون ساتھی کا ساتھی مل گیا تھا جو اسے ہر غم سے دور لے آئے گی۔


ایمان ادھر دیکھو میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کچھ نہیں ہوا۔


ساحر کی آنکھیں نم تھیں وہ ٹھیک ہو کر بھی ٹھیک نہیں تھا۔ اس کی بہن اتنی بری حالت میں تھی اور وہ کچھ نہیں کر پار ہا تھا۔


ساحر ساحل کو بھیج کر ایمان کو اپنے ساتھ مر حاوالے وارڈ میں لے آیا۔


ریان کی سسکیاں پورے وارڈ میں گونج رہی تھیں۔ احتشام اسے اپنے ساتھ لگائے بیٹھے تھے۔


ایمان اپنے جان سے پیارے بھائی کو اس حال میں دیکھ کر تڑپ گئی تھی۔


بھیو۔ ایمان گھٹنوں کے بل ریان کے سامنے بیٹھی تو اس نے نظر اٹھا کر ایمان کو دیکھا۔


رورو کر ریان کی آنکھیں سوج گئی تھیں آں کھوں میں سرخی چھائی ہوئی تھی۔


ایمان ریان کے سینے سے لگی تو اس نے اپنی بہن کے گرد کے حصار بنایا


بھیو مر حا ٹھیک ہو جائے گی آپ دیکھنا وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی پھر ہم سب مل کر بہت دھوم دھام سے آپ کی بارات لے کر جائیں گے اور اسے ہمیشہ کے لیے گھر لے آئیں گے۔ وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی بھیو۔ ڈاکٹر ز خدا تھوڑی ہیں جو وہ کچھ بھی بول دیں گے۔


آپ نے ہمیشہ سب کے ساتھ اچھا کیا ہے کبھی کسی کا برا نہیں سوچا کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی تو اللہ تعالی آپ کو بھی ایسی تکلیف نہیں دے گا آپ کے ساتھ کچھ برا نہیں ہو گا بھیو۔ ایمان نے روتے ہوئے کہا۔


وہ تو خود اپنے آپ کو نہیں سنبھال پارہی تھی مگر اپنے بھائی کو تڑپتا دیکھ نا جانے کہاں سے وہ یہ سب بولنے کی ہمت کر پائی تھی۔


ریان نے کچھ نھیں کہا بس اس کے کندھے پہ سر کر آنسو بہاتا رہا۔


سب لوگ پریشان تھے چار گھنٹے ہو چکے تھے مرحا کا آپریشن ابھی تک چل رہا تھا ہر کوئی بس یہی دعا کر رہا تھا کہ مر جا ٹھیک ہو جائے۔ 


سب ڈاکٹر کے آنے کا انتظار کرنے لگے تب ہی آپریشن تھیٹر سے دونر سر زباہر کی طرف بھاگی تھی اور


کچھ ہی دیر میں ایک اور ڈاکٹر ان کے ساتھ آپریشن تھیٹر میں داخل ہوا تھا۔


ایک نرس اندر جانے لگی تو ریان نے اسے روکا۔۔


سٹر میری مر حاوہ وہ ٹھیک ہے نا۔۔۔


ریان نے بے چینی سے پوچھا تھا۔


دیکھیں ان کی حالت خراب ہو رہی ہے ان کی ہرٹ بیٹ رک گئی ہے ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے پلیز آپ میرا راستہ چھوڑیں۔


نرس کہہ کر ندر بڑھ گئی جبکہ ریان وہی گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔


نرس کی بات سن کر سب ہی رونے لگے تھے۔


ریان ذالفقار صاحب کے پاس آیا اور ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کے آگے ہاتھ جوڑ لیے۔


دادا جان آپ۔۔ آپ جائیں ۔۔ آپ اندر جائیں آپ کی بات ۔۔۔ مرحا آپ کی بات مانتی ہے نا۔۔ ہر بات مانتی ہے۔۔ آپ ۔۔ آپ اسے بولیں نا جا کر ۔۔ وہ وہ ایسا نہیں کرے۔۔ میرے ساتھ وہ ایسا نہیں کرے دادا جان۔۔ پلیز آپ ۔۔ اسے سمجھائیں بولیں اسے۔۔۔ میں نہیں سکتا۔۔ اس کی جدائی۔۔۔


میں نہیں ہے سکتا اداجان


ایسا۔۔ بابا آپ۔۔ آپ پلیز اسے بولیں۔۔ کہیں اس سے۔۔ وہ نہیں کرے میرے ساتھ ایسے


ماما۔۔ آپ کو تو ماں ۔۔ ماں مانتی ہے نا۔۔ آپ بولیں نا اسے۔۔ اس کو بولیں مجھے چھوڑ کر۔۔ نہیں جائے وہ مجھے چھوڑ کر ماما۔۔ میں مر جاؤں گا۔


ریان سب کے پاس آکر التجا کر رہا تھا کہ کوئی اسے اس کی مرحا سے ملا دے کوئی مرحا کو سمجھا دے


ریان کی تڑپ اس تک پہنچادے۔۔


مگر کوئی اسے کیا ہی تسلی دیت یہاں تو سب ہی بکھر گئے تھے ۔۔ مرحاااااااا۔۔


ریان نے بیچ کر مرحا کو پکارا تھا اور پھر دوبارہ زار و قطار رونے لگا۔ اس کی زندگی اس سے دور جارہی تھی۔


اسے اپنا دل بند ہو تا محسوس ہو رہا تھا اسے کسی بھی حال میں مر حاوا پس چاہیے تھی۔


مر حاریان کی جینے کی وجہ بن گئی تھی ریان مرحا سے عشق کرتا تھا اسے بس اتناب پتہ تھا کہ مرحا اس سے دور ہوئی تو وہ مر جائے گا۔


اسے اپنا سب کچھ لٹتا محسوس ہو رہا تھا۔


ساحر ٹوٹ گیا تھا بری طرح ٹوٹ گیا تھا ابھی وقت ہی کتنا ہوا تھا اسے مرحا سے ملے ایک بھائی ہونے کا مان ملے اس نے اس احساس کو محسوس کیسے دن ہی کتنے ہوئے تھے جو آج اللہ تعالی اس سے یہ احساس ہی دور کر رہے تھے۔


سب کے لبوں پہ بس ایک ہی دعا تھی مرحا ٹھیک ہو جائے اسے اللہ زندگی دے دے ورنہ اگر وہ چلے گئی تو ریان نے بھی اس کے ساتھ ہی اس دنیا سے چلے جانا تھا سب کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا۔


 ریان بچوں کی طرح سبک سبک کر اپنے رب کے آگے مرحا کی زندگی مانگ رہا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹہ اور گزر چکا تھاڈاکٹرز کی ٹیم ابھی بھی اندر تھی۔


ڈاکٹر ابھی تک کچھ نہیں بتارہے تھے۔


ایک ایک سیکنڈ ریان کے لیے بھاری ہو رہا تھا۔


مرحا کا دوپٹہ اس نے اب بھی مضبوطی سے تھاما ہو اتھا۔


سب نے ریان کو سمجھایا تھا تسلی دی تھی کہ مرحا ٹھیک ہو جائے گی۔


دادا جان نے اسے وہی بات سمجھائی جو وہ ہمیشہ اسے سمجھاتے آئے تھے۔


ریان بیٹا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ اللہ تو ان کو در بدر نہیں چھوڑتا جو اس کے ماننے والے نہیں ہیں ہم تو پھر بھی مسلمان ہیں۔


ہمیں اللہ کی ذات پر یقین ہونا چاہیے کہ وہ سب ٹھیک کر دے گا کیونکہ صرف وہی ہے جو ہر چیز پر قادر ہے زندگی اور موت دینا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے نا اور پتا ہے انسان کو اللہ پاک اس کے گمان کے مطابق دیتا ہے۔


‏انسان اللہ سے جیسا گمان رکھتا ہے اللہ اسے ویسا ہی عطا کرتا ہے۔


تم اللہ پر یقین رکھو کہ وہ تمھیں مرحا کو واپس دے گا ضرور دے گا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے صرف وہی پاک ذات ہے جو انسان کو ہر مشکل کے بعد آسانی دیتی ہے تم پورے ایمان کے ساتھ اللہ پر یقین رکھ کر دعا کرو دیکھنا اللہ پاک تمھیں مرحا سے دور نہیں کرے گا وہ تم دونوں کو ضرور ملائے گا۔


دادا جان کی بات سن کر ریان تھوڑا سنبھلا تھا اس نے وضو کیا اور اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو گیا۔ تقریباً گھنٹے بھر بعد وہ دعا کر کے لوٹا تھا اور پہلے سے تھوڑا پر سکون تھا۔


اس نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا تھا اس گمان کے ساتھ کہ وہ رب اسے اس آزمائش سے ضرور نکالے گا اللہ تعالی اس کی مرحا کو بالکل ٹھیک کر دے گا۔


ریان کے آنسو رک چکے تھے مگر پھر بھی اس کی آنکھوں سے اس کے درد اور کرب کو کوئی بھی دیکھ سکتا تھا۔


ریان آکر بیٹھا تو دس منٹ بعد آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر ز باہر آئے۔


ریان کے ساتھ باقی سب بھی بے چینی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھے۔


دیکھیں ہم نے گولیاں نکال دی ہیں۔ سینے میں گولی لگنے کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں دشواری ہے۔ آپریشن کے بیچ میں ان کی ہرٹ بیٹ رک گئی تھی مگر اللہ کا کرم ہوا کہ سی پی آر سے ان کا ہرٹ پھر سے پمپ کرنے لگا۔


پیشنٹ اب خطرے سے باہر ہیں مگر ابھی اڑتالیس گھنٹوں تک ان کو مصنوعی سانس ہی دی جائے گی اس کے بعد ان کی کنڈیشن کو دیکھا جائے گا۔


ڈاکٹر کی بات پہ سب کے دلوں کو سکون ملا تھا ریان کی آنکھوں میں نمی آئی جسے صاف کر کے اس نے ڈاکٹر کو ہی گلا لگا لیا۔


تھینک یو سو مچ ڈاکٹر صاحب تھینک یو سونچ۔


ریان نے ڈاکٹر سے کہا تو وہ مسکرائے۔


ایک بات اور ہے۔


ڈاکٹر نے سب کو دیکھ کر کہا تو ریان ان سے الگ ہوا۔


کیا بات ہے ڈاکٹر سب ٹھیک ہے نا۔


ساحر نے بے چینی سے پوچھا۔


پیشنٹ کے پیر ٹینٹس ہیں موجود۔ ڈاکٹر نے سوال کیا تو ریان نے نامیں گردن ہلائی۔


نہیں ڈاکٹر اس کے پیرینٹس کی ڈیتھ ہو چکی ہے آپ کو جو بھی بات کرنی ہے مجھ سے کریں میں اس کا شوہر ہوں۔


ٹھیک ہے آپ میرے ساتھ آئے کی


ریان کی بات سن کر ڈاکٹر اسے اپنے کیبن میں لے گئے۔


ایمان اور ساحر بھی ریان کے ساتھ ہی ڈاکٹر کے کیبن میں گئے تھے۔


ڈاکٹر نے ان تینوں کو کہا تو ریان اور ساحر بیٹھ گئے جبکہ ایمان ساحر کے کندھے پہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔


ڈاکٹر کیا بات ہے سب ٹھیک ہے نا کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ہے۔


ریان نے بے چینی سے پوچھا۔


دیکھیں مسٹر ریان پریشانی کی بات تو ہے۔


آپ کیونکہ ان کے ہسبینڈ ہیں تو یہ بات آپ کو معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔


ڈاکٹر کی بات پہ تینوں الجھ گئے۔


ڈاکٹر صاف صاف بتائیں کیا بات ہے۔


ریان کے چہرے پہ پریشانی صاف ظاہر تھی۔


دیکھیں مسٹر ریان مرحا کے دو گولیاں پیٹ میں لگی تھیں جبکہ ایک ان کے سینے میں لگی تھی۔


پیٹ میں گولیاں لگنے کی وجہ سے وہ اپنی ماں بننے کی صلاحیت ہمیشہ کے لیے کھو چکی ہیں۔ آئی ایم سوری ٹو سے بٹ آگے فیوچر میں وہ کبھی بھی ماں نہیں بن پائیں گی۔


ڈاکٹر کی بات پر ایمان اور ساحر کے چہرے پر تکلیف کے آثار ظاہر ہوئے جبکہ ریان اب بھی بیٹھا بے چینی سے ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔


ڈاکٹر آپ یہ سب کیا بات کر رہے ہیں آپ مجھے بس یہ بتائیں میری بیوی ٹھیک ہے یا نہیں ہے اسے


کوئی پریشانی تو نہیں ہے ناوہ بالکل ٹھیک ہے نا۔


ریان نے ایسے سوال کیا جیسے اسے ڈاکٹر کی بات سے فرق ہی نا پڑا ہو۔


نہیں مسٹر ریان کوئی خطرے کی بات نہیں ہے آپ کی بیوی بالکل ٹھیک ہو جائیں گی ہاں انہیں کافی عرصے تک سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے اس کے لیے آپ کو ان کا بہت خاص خیال رکھنا ہو گا باقی بس ایک جو مسئلہ آگے لائف میں آئے گا وہ میں نے آپ کو بتا دیا ہے۔


مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا ڈاکٹر میری بیوی خطرے سے باہر ہے وہ ٹھیک ہے میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔


ریان نے کہا تو ڈاکٹر نے مسکرا کر ریان کو دیکھا۔


مجھے آپ کی بات سن کر بہت خوشی ہوئی مسٹر ریان آپ جیسے بہت کم مرد ہیں اس دنیا میں۔ ورنہ اولاد


نا ملنے کی وجہ سے لوگ تو بیویوں کو چھوڑنے میں وقت نہیں لگاتے۔


ڈاکٹر نے مسکرا کر ریان سے ہاتھ ملایا۔


ریان ایمان اور ساحر کے ساتھ باہر آیا تو ساحر نے ریان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔


ریان تمھیں سچ میں فرق نہیں پڑتا یہ بہت بڑی بات ہے۔


ساحر نے افسردگی سے کہا۔


نہیں ساحر میرے لیے مرحا سے بڑھ کر اپنی ذات بھی نہیں ہے۔


میرے لیے مرحا کی زندگی سب سے زیادہ ضروری ہے۔


اولاد کے بارے میں تو ابھی میں نے کچھ بھی نہیں سوچا تھا اور اگر میرے پاس مرحا ہی نہیں ہو گی تو کوئی بھی چیز بھلا کیا معنی رکھتی ہے۔


اللہ تعالیٰ نے مجھے مرحا کو لوٹا دیا میرے لیے بس سب سے خوشی کی بات یہی ہے۔


ریان نے نم آنکھوں سے مسکرا کر کہا۔


اور تم دونوں سے ایک ریکوئسٹ ہے پلیز ایمان ساحر یہ بات ہم تینوں کے بیچ رہنی چاہیے کسی کو بھی یہ


بات پتانا لگے اسپیشلی مرحا کو اس بارے میں کبھی بھی پتا نہیں چلنا چاہیے۔


میں نہیں چاہتا وہ کبھی بھی اپنے اندر کوئی بھی کمی محسوس کرے۔


ریان کی آنکھوں میں کوئی درد کوئی دکھ نہیں تھا۔ اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول کر لی تھی اسے مرحا کا


ساتھ واپس مل گیا تھا وہ اسی میں خوش تھا۔


ساحر نے ریان کو گلے لگایا۔


ریان آج میں مرحا کی طرف سے بالکل بے فکر ہو گیا۔ مرحا کے پاس جب تک تم ہو بھلا میری بہن کو


کوئی دکھ کیسے ہو سکتا ہے۔


ساحر کی بات پر ریان کے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ کھلی تھی۔


بھیو یہ بات ہم کسی کو نہیں بتائیں گے یہ بات ہم تینوں کے بیچ رہے گی ہمیشہ۔


ایمان نے بھی مسکرا کر کہا تو ریان نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔


ریان ایک دفعہ بھی مرحا کے روم میں نہیں گیا تھا جبکہ باقی سب اس کے پاس ہو کر آئے تھے۔


وہ شاہ میرے ملنے گیا تھا اس کے بھائی نے بھی تو اس کی خاطر اپنے آپ کو زخمی کر لیا تھا۔


ریان کہاں جارہے ہو۔


ریان شاہ میر سے مل کر ہسپتال سے باہر جانے لگا تو ساحر نے اسے روکا۔


حساب کتاب کرنے جارہے ہوں۔ اس ایک ایک تکلیف کا جو میری مرحانے برداشت کی ہے۔


ریان نے جواب دیا تو ساحر پریشان ہوا۔


ریان یہ سب بعد میں دیکھا جائے گا ابھی تم مرحا کے پاس رہو۔


ساحر نے ریان کو روکنا چاہا۔


نہیں ساحر مرحا کے ہوش میں آنے سے پہلے میں اس کے گناہگاروں کو سزا دے کر رہوں گا۔ میں


اس وقت تک مرحا کے سامنے نہیں جاؤں گا جب تک میں اس کے جسم سے بہے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب نالے لوں۔


میں اس کے مجرم کو سزا دے کر ہی مرحا سے ملوں گا


ریان ساحر کو کہہ کر نکل گیا جبکہ ساحر پریشان ہو گیا تھا

ساحر نے جلدی سے شیری کو کال ملائی تھی اس وقت سب لوگ جاچکے تھے ہسپتال میں زیادہ لوگوں کو رکنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے اس وقت شاہ میر کے پاس نور تھی جبکہ مرحا کے پاس ریان ساحر اور ایمان رکے تھے۔


ساحر ریان کے پیچھے نہیں جاسکتا تھا کیونکہ ایمان مرحا کے پاس اور نور شاہ میر کے پاس اکیلی تھی۔


ہیلو شیری۔


ساحر نے شیری کو کال ملائی۔


ہاں ساحر بولو۔


شیری نے فورا کال اٹھائی تھی۔


شیر ی ریان غصے سے نکلا ہے وہ حاشر کے پاس جائے گا پلیز تم دیکھ لو اسے۔


ساحر نے کہا تو شیری نے اسے تسلی دی۔

ساحر تم پریشان نہیں ہو میں اس وقت پولیس اسٹیشن میں ہی ہوں ریان یہاں آئے گا تو میں دیکھ لوں گا۔


شیری کی بات پہ ساحر بھی مطمئن ہو گیا تھا۔


حید ر ہاؤس کے بال میں اس وقت سمینہ بیگم اور سمرین بیگم بیٹھی تھیں


سمینہ میری بچی کو معاف کر دو اس نے ریان کی محبت میں آکر یہ سب کرا ہے تم تو جانتی ہونا اسے خدا کے لیے معاف کر دو اسے۔


سمرین بیگم نے ہاتھ جوڑے مگر سمینہ بیگم نے ان کی طرف سے چہرا پھیر لیا۔


سمرین مجھ سے کوئی امید نہیں رکھو عمل نے کوئی چھوٹی سی غلطی نہیں کی ہے اس نے گناہ کیا ہے۔


مرحا کو موت کے منہ میں پہنچادیا تمھاری بیٹی نے۔


ریان نے سختی سے منع کیا ہے اسے سزا ضرور ملے گی۔


سمینہ بیگم کہہ کر جانے لگیں تب ہی عینی دولیڈی کانسٹیبل کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔


اس حادثے کے بعد سب کو ہی پتہ لگ چکا تھا کہ عینی کی کیا پہچان ہے۔


ماما عمل کو لے آئیں اس کے خلاف اریسٹ وارنٹ ہے اسے گرفتار کرنا ہے۔


عینی نے کہا تو سمرین پیلم رونے لگیں۔


نہیں خدا کے لیے میری بچی کو چھوڑ دو۔ اسے معاف


کر دو۔


کوئی معافی نہیں ملے گی آپ کی بیٹی کو۔


ریان کہتا ہو اگھر میں داخل ہوا۔


مینی تم ابھی تک یہیں ہو گھسیٹ کر لاؤ اسے کمرے سے۔


ریان نے غصے سے کہا۔


جی بھائی۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


عینی کہہ کر عمل کے کمرے میں گئی اور اسے گھسیٹ کر لے آئی۔


چھوڑو مجھے ریان پلیز مجھے معاف کر دو میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں پلیز مجھے معاف کر دوریان۔


عمل نے آتے ہی ریان کو پکڑنا چاہا مگر ریان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ عینی کی گرفت میں دوبارہ آگئی۔


تمہیں تمھارے کیے کی سزا ضرور ملے گی عمل آج میری مرحا تمھاری وجہ سے اس حال میں ہے تم نے اس حاشر کے ساتھ مل کر اسے اغواء کروایا تم اسے ایک ایک چیز کی رپورٹ دیتی رہیں تمھاری وجہ سے میری مرحا مجھ سے ہمیشہ کے لیے دور ہونے والی تھی تمھیں میں نے کہا تھا نا کہ میری مرحا کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے مگر تم نے اس بات کو ہلکے میں لیا تھا۔


شکر کرو تم زندہ کھڑی ہو ورنہ اگر تم لڑکی نا جو تمہیں نا عمل تو ٹرسٹ می میں تمھیں یہیں کے یہیں زندہ گاڑھ دیتا۔


ریان نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔


ریان کی آنکھوں میں غضب اور نفرت دیکھ کر عمل کچھ نہیں بول پائی۔


عینی نے اس کے ہتھکڑیاں لگائیں اور اسے لے گئی۔


رات کا وقت ہو چکا تھا۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ایک پولیس اہلکار حاشر کے پاس آیا اور لوک اپ کا دروازہ کھول کر کھانا اندر رکھا۔


کھانا رکھ کر وہ دروازہ پر تالے لوگ کرنے کے بجائے صرف انکا کر چلا گیا۔


حاشر نے جب دیکھا کہ تالا نہیں لگا ہوا تو اس نے جلدی سے اٹھ کر تالا کھولنا چاہا۔


تھوڑی محنت سے تالا کھل گیا۔


حاشر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ بکھر گئی۔


حاشر نے آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر باہر کی طرف جھانکا جہاں ایک پولیس اہلکار موجود تھا جو کرسی پر سر


ٹکائے سو رہا تھا اور ایک پولیس اہلکار جو اسے کھانا دے کر گیا تھا وہ واشروم چلا گیا تھا۔


حاشر کے پاس بہت اچھا موقع تھا اور اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور خاموشی سے چلتا ہوا پولیس اسٹیشن سے باہر بھاگ گیا۔


شاہ میر کو ہوش آچکا تھا۔


نور شاہ میر کے پاس بیٹھی مسلسل آنسو بہارہی تھی۔


نور ۔۔ میری جان میں بالکل ٹھیک ہوں کیا ہو گیا ہے ایسے تو نہیں رونا۔


شاہ میر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔


شاہ میر اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا۔


نور نے شاہ میر کے سینے پہ سر رکھا تو اس نے اس کے گرد اپنی باہوں کا گھیر ابنایا۔


میری جان بالکل ٹھیک ہوں دیکھو اب میں بالکل ٹھیک ہوں کچھ ہوا تو نہیں نا چلو شاباش اب چپ ہو جاؤ اور مجھے دو ادو۔


شاہ میر کی بات پہ نور نے کنفیوز ہو کر سر اٹھایا۔


شاہ میر آپ کو تو دوا ابھی نرس دے کے گئی ہے اب اور کوئی دوا نہیں ہے۔


نور نے کہا تو شاہ میر نے مسکراہٹ چھپائی۔


یہ والی دوا صرف تم دے سکتی ہو نا یار یہ دوائرس سے لیتا ہوا اچھا لگوں گا کیا۔


شاہ میر نے سیریس انداز میں کہا۔


شاہ میر کو ئی دوائیں سچ میں نہیں سمجھ پارہی۔


نور نے پریشان ہو کر کہا۔


شاہ میر نے اپنی انگلی نور کے لبوں پہ رکھ کر وہی انگلی اپنے لبوں پر رکھی تو نور اس کی بات کو سمجھی۔


شاہ میر آپ کو اس حالت میں رومانس سوجھ رہا ہے۔


نور نے مدھم آواز میں کہا تو شاہ میر مسکرایا۔


تو ابھی مجھے انرجی کی ضرورت ہے اب یہ انرجی صرف تم دے سکتی ہو یار یا کہو تو میں نرس کو بلاؤں اس کے لیے۔


شاہ میر کی بات پہ نور نے گھور کر شاہ میر کو دیکھا تو اس نے نور کو ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا اور اس کے لبوں پہ جھک گیا۔


نور کی سانس رکی تو اس نے شاہ میر پہ زور دیا جس سے اس نے نور پہ اپنی گرفت ڈھیلی کی۔


نور کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہو گئی تھیں۔


نور کے چہرے پہ سرخی دیکھ کر شاہ میر کو مزہ آیا تھا۔ وہ کسی نا کسی بات پہ نور کو چھیڑ تا تو وہ اسے گھورتی جس پہ شاہ میر بننے لگتا


ایمان مرحا کے پاس موجود تھی۔


وہ پیارا سا نازک ساوجود مشینوں میں جکڑا ہوا تھا۔


چہرہ پیلا پڑھ چکا تھا ہا تھوں پہ ڈرپ لگی ہوئی تھی۔


مرحا کو اس حالت میں دیکھ کر ایمان کو بہت تکلیف ہو رہی تھی وہ تو اس کی سب سے پیاری دوست تھی۔


مرحا کو ایسے دیکھ کر ایمان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکلے تھے۔


مر حامیری جان جلدی ٹھیک ہو جاؤ تمھیں اندازہ بھی نہیں ہے ہم سب تمھیں اس طرح دیکھ کر کس حال میں ہیں۔


خاص طور پر ریان بھیو وہ بہت تکلیف میں ہیں مرحا ان کی خاطر جلدی ٹھیک ہو جاؤ میری جان۔


ایمان نے مرحا کے ہاتھ پہ نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا تھا۔


مرحا کا وجود بالکل پر سکون تھا اس کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی۔


ایمان کچھ دیر مرحا کے پاس بیٹھ کر واپس باہر آگئی جہاں ساحر سر دیوار سے لگائے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔


ایمان نے ساحر کے برابر میں بیٹھ کر اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔


مرحا بالکل ٹھیک ہو جائے گی آپ پریشان نا ہوں۔


ایمان نے مدھم آواز میں کہا تو ساحر نے اثبات میں سر ہلایا۔


اس کے دماغ میں ساری باتیں ایک بار پھر گونجنے لگی تھیں وہ کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتا تھا مگر ہر ایک


بات اس کے دماغ میں گونج رہی تھی۔


ساحر خالی نظروں سے ایمان کو معصوم چہرہ دیکھ رہا تھا۔


کیا ایمان مجھے چھوڑ دے گی کیا سچائی جاننے کے بعد بھی وہ مجھ سے اتنی ہی محبت کرے گی۔ اسے مجھ سے گھن تو نہیں آئے گی۔


بہت سارے سوال تھے جو ساحر کے دماغ میں گونج رہے تھے۔


کیا ہوا آپ ٹھیک نہیں لگ رہے۔


ایمان نے مدھم آواز میں پوچھا۔


ایمان مجھ سے ہمیشہ محبت کرو گی نا کبھی مجھے ناپسند تو نہیں کروگی نا کبھی تمھاری چاہت نفرت میں تو نہیں بدلے گی نا۔


ساحر نے سوال کیا تو ایمان الجھ گئی۔


آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں ساحر میں کیوں آپ سے نفرت کروں گی آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے۔


ایمان نے خفگی سے کہا۔


میں ایک ریپ چائلڈ ہوں ایمان۔


ساحر کی بات پر ایمان ایک دم ساکت ہو گئی۔


ریپ چائلڈ۔


ایمان نے مدھم آواز میں دھرایا۔


ہ اں ایمان میری ماں کے ساتھ شادی سے پہلے ہی میرے باپ نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اجتماعی زیادتی کی تھی۔ میں اپنے باپ کے جرم کی پر چھائی ہوں۔


اسی لیے سب مجھ سے نفرت کرتے تھے میری ماں نے مجھے کبھی ممتا بھر المس نہیں دیا تھا کیوں کہ میں ایک گناہ کی نشانی ہوں۔


کہنے کو میں اپنے باپ کا ہی بیٹا ہوں مگر مجھے میری ماں نے اپنے وجود میں اس وقت محسوس کیا تھا جب وہ شادی شدہ تھی ہی نہیں۔


میں ایک ریپ چائلڈ ہوں ایمان میں جائز ہو کر بھی نا جائز ہوں۔


ساحر کی آواز میں تکلیف تھی آنکھوں میں چھن تھی۔


ایمان نے ساحر کا چہرہ اپنے نازک ہاتھوں میں بھر اتو وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔


ساحر تلخ یادوں اور تلخ باتوں کو بھلا دینا بہتر ہوتا ہے۔ وہ سب ماضی تھا۔ آج کی حقیقت بس اتنی ہے کہ آپ ساحر خان ہیں اور لیس خان کے پوتے۔


میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں ساحر بہت زیادہ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔


آپ قابل ہیں نیک دل ہیں اچھے انسان ہیں ساحر ۔ آئیندہ ایسا خیال بھی اپنے دماغ میں مت لائے گا کہ میں کبھی آپ سے نفرت کروں گی۔


آپ کو پتا ہے میری کیا حالت ہو گئی تھی جب مجھے پتالگا تھا کہ آپ کے سر پر چوٹ آئی ہے وہ لوگ آپ کو زخمی کر کے لے کر گئے ہیں آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتا میں کسی تکلیف سے گزری ہوں اس وقت۔


اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہو تا آپ میرے لیے میر اسب کچھ ہیں۔


آئی لو ویو ساحر میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔


ایمان مدھم آواز میں اپنے جذبات بیان کر کے ساحر کے سینے سے لگی تو اس نے مضبوطی سے اس کے گرد اپنی باہوں کا حصار بنایا۔


ایمان کی باتوں سے اس کو اپنے دل میں سکون اتر تا محسوس ہوا۔


بچپن سے لے کر اب تک کے ہر زخم پر ایمان کی باتیں مرہم لگا گئیں تھیں۔


آئی او د یو ٹو میری جان آئی لوویو ویری ویری بیچ۔


ساحر نے مسکرا کر کہا اور اس کے ماتھے پہ لب رکھے۔


ماتھے پر بوسہ دے کر ساحر ایمان کے ہونٹوں پہ جھکنے لگا تو اس نے آنکھیں دکھا کر اس کے ہونٹوں پر اپنا نازک ہاتھ رکھا۔


آپ اپنے روم میں نہیں ہیں یہ ہسپتال ہے جگہ کا تو لحاظ کریں۔ یہ ہے جگہ لحاظ ایمان نے گھور کر کہا تو ساحر کھل کر مسکرایا


جان من تمھیں جلد از جلد اپنے ہی کمرے میں لے جانے کے ارادے ہیں میرے تیار ہو جاؤ میری شد میں سہنے کے لیے۔


ساحر کی بات پر ایمان نے دوسری طرف چہرہ کر کے مسکراہٹ روکی۔


ساحر بالکل پر سکون ہو چکا تھا ایمان اس کے ساتھ تھی اس کا پیار اس کے ساتھ تھا بس ساحر کو اور کسی بات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔


اب وہ اپنے ماضی کے تلخ باب کو ہمیشہ کے لیے بند کر دینا چاہتا تھا جب ایمان کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا تو ساحر کو بھی یہ سب نہیں سوچنا تھا۔ اس نے اب صرف اپنے مستقبل پر فوکس کرنا تھا۔


حاشر پولیس اسٹیشن سے بھاگ نکلا تھا۔


بھاگتے بھاگتے وہ کافی دور آچکا تھا۔


اس نے سوچا تھا کہ وہ رات کہیں بھی چھپ چھپا کر گزار لے گا اور صبح کی روشنی پھیلتے ہی شہر سے ہی بھاگ جائے گا۔


حاشر بھاگتے بھاگتے ایک سنسان علاقے کی طرف آگیا تھا۔


بار بار اسے محسوس ہوتا جیسا کوئی اسے بہت گہری نظروں سے دیکھ رہا ہے مگر وہ رکا نہیں تھا۔


آخر کار جب وہ بھاگ بھاگ کر تھک گیا تو ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ کے لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔


بھاگ بھاگ کر اس کی سانس پھول گئی تھی۔


ابھی اسے بیٹھے کچھ لمحے گزرے تھے کہ اسے ایسا لگا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔


اس نے خود سے اپنے گرد دیکھا مگر اندھیرے میں اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ سٹریٹ لائٹس کی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔


مگر ہر طرف بھیانک خاموشی تھی۔ آس پاس کوئی جاندار نظر نہیں آرہا تھا۔


ر سکون سے درخت کے سہارے ٹیک لگائے آنکھیں بند کر گیا مگر کچھ ہی لمحوں میں خود کو کسی کی حاشر نظروں کے حصار میں محسوس کر کے اس نے فورا آنکھیں کھولیں تھیں۔


اس نے آس پاس دیکھا تو خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔


اس کے کچھ ہی فاصلے پہ ریان ایک بڑے سے پتھر پہ بیٹھا ترچھی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھ

ا۔ ریان کی آنکھیں اس وقت خون کی مانند لال ہو رہی تھی۔ بال ماتھے پہ بکھرے ہوئے تھے جبکہ وہ اپنے ہاتھ میں موجود خنجر کو گھوما رہا تھا۔


حاشر ریان کو دیکھ کر ڈر سے کانپنے لگا تھا۔


اس نے بھاگنا چاہا مگر ریان کی آواز نے اس کے قدم زنجیر کر دیے۔


سوچنا بھی مت حاشر کوئی فائدہ نہیں ہے تمھاری موت تمھارا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ آج تمھاری موت تو تہہ ہے۔


ریان کی بات پہ حاشر کا دل لرزنے لگا تھا۔


ریان قدم قدم اٹھاتا اس کے سامنے آیا۔ حاشر کے وجود کی لرزش ریان کو سکون دے رہی تھی۔


مجھے معاف کر دو پلیز مجھے معاف کر دو۔

حاشر کے گڑ گڑانے پر ریان ہنسا۔

کہا تھا نا مر حا سے دور رہنا مگر تم نے میری بات نہیں مانی۔

‏ریان حاشر کے گرد گھوم رہا تھا جبکہ خنجر کی نوک اس نے حاشر کے وجود پہ ٹیکائی ہوئی تھی جو اس کے گھومنے کے ساتھ ساتھ حاشر کے جسم پہ رینگ رہی تھی۔

میں نے کہا تھا مر حا کو تکلیف دی تو میں تمھارا بہت براحشر کروں گا۔ مگر تم نے میری بات نہیں مانی۔

کیا سمجھا تھا تم نے مجھے کیا سوچ کر ہلکے میں لی تھی تم نے میری بات۔

ریان نے اس کے سامنے رک کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے سوال کیا۔

ریان کی آنکھیں اس وقت اتنا قہر برسارہی تھیں کہ حاشر اس کی آنکھوں میں دیکھ بھی نہیں پارہا تھا۔

تم نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا میری بیوی کو اپنی گندی نظروں سے دیکھا ان ناپاک ہاتھوں سے چھو تم نے۔

ریان نے کہتے ہیں خنجر کی نوک کھڑی کر کے حاشر کے ہاتھ میں گھونپ دی جس سے خون تیزی سے بہنے لگا۔

عاشر ایک دم پاتا

ریان نے خنجر نکلا نہیں تھا خنجر کو حاشر کے ہاتھ میں کھسائے ہو اسے گھوما رہا تھا جیسے ہاتھ کے اندر ہی وہ اس کی ساری نسیں کاٹ دینا چاہتا ہو۔

حاشر پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا مگر اس کی چینیں ریان کو سکون پہنچارہی تھیں۔

ریان نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے خنجر کھینچا تو خون اور بھی تیزی سے بہنے لگا۔