تیرا عشق مرہم سا ہے

 40 قسط نمبر 

طوبیٰ صدیقی


 

°°°°°°


💖💖💖


ریان اس لوکیشن پر پہنچ چکا تھا جہاں مر حا کالو کٹ لاسٹ لوکیشن شو کر رہا تھا۔ ریان بائیک سے اترایہ ایک حویلی تھی۔ ریان کو وہی زمین پہ مر حاکو لوکٹ مل گیا تھا۔


اس نے لوکٹ اٹھا کر مٹھی میں دبایا اور واپس بائیک پہ بیٹھا۔


سب لوگ پہنچ چکے تھے۔


ریان نے بائیک کو ریس دی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔


ریان بائیک حویلی کے اندر گھسا کر لے گیا۔


اماں صاحب امجد اور ماجد جو سکون سے بیٹھے ساحر کی بے بسی پر ہنس رہے تھے ریان کو اندر آتے دیکھ ایک دم بوکھلا گئے۔


ریان مرحا کو بچاؤ او پر وہاں۔


ساحر نے ریان کو دیکھ کر چلا کر کہا تو وہ ساحر کے بولتے ہی اوپر کی طرف بھاگا تھا۔


حاشر نے مرحا کو کمرے میں لا کر بیڈ پہ نچا اور اس کا دوپٹہ اس کے وجود سے کھینچ کر نکالا۔


چھوڑ دو مجھے بچاؤ کوئی پلیز مجھے بچاؤ۔


مر حار ورہی تھی۔ وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی حاشر کی پہنچ سے دور جانے کی مگر حاشر نے اس کے پیروں کو قابو میں لے لیا تھا۔


میری جان آج تمھیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔


حاشر نے کہہ کر مر حا کے چہرے پہ جھکنا چاہا۔


چھوڑ دو مجھے پلیز ز ز ز رحم کرو چھوڑو مجھے۔


مرحا اپنے ہاتھ ہلاتی اسے روک رہی تھی۔


مرحا کے رونے میں تیزی آگئی تھی۔


اس سے پہلے حاشر اس کے لبوں پہ جھکتا ریان نے زور دار لات ماری کر دروازے کو کھولا تھا۔


حاشر جس طرح مرحا کو کنٹرول کیے ہوئے تھا ریان کا وہ دیکھ کر خون کھول اٹھا۔


ریان۔ ریان پلیز مجھے بچائیں۔


مرحا چلائی تھی۔


ریان نے آگے بڑھ کر گھسیٹ کر حاشر کو کمرے سے نکالا اور سیڑھیوں سے دکھا دے دیا وہ سیڑھیوں سے بل کھاتا نیچے گرا جس سے اس کا سر پھٹا۔


ریان کمرے میں واپس آیا تو مر جا بھاگ کر ریان کے گلے لگی تھی۔ ریان نے اسے خود میں کس کر بھینچ لیا تھا۔


مر حازار و قطار رو رہی تھی۔


آپ نہیں آتے تو میں مر جاتی ریان میں نہیں جی پاتی۔


مرجانے روتے ہوئے کہا۔


ریان نے مرحا کے ماتھے پہ لب رکھے۔


ایسا کیسے ممکن تھا میں نہیں آتا مجھے تو آنا تھا نا میر ابچہ بس چپ ہو جاؤ میں آگیا ہوں نا اب سب ٹھیک


 ریان اس نے مجھے ہاتھ لگا یاریان وہ مجھے بری طرح چھو رہا تھا۔


مرحا معصوم بچے کی طرح ریان سے شکایت کر رہی تھی۔


مرحا کی آواز کی تڑپ ریان کو بھی تڑ پاگئی تھی۔


میں اس کے ہاتھ سلامت نہیں رہنے دوں گا مر حامیر اوعدہ ہے تم سے پلیز چپ ہو جاؤ چلو یہاں سے۔


ریان نے مرحا پہ دوپٹہ ڈالا اور اس کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے تھام کر نیچے لے آیا۔


عینی شاہ میر شیری ساحل سب آچکے تھے۔


عینی نے اماں صاحب کو گن رکھ کر کنٹرول کیا تھا جبکہ امجد اور ماجد کے شاہ میر اور شیر ی نے دو دو تھپڑ لگائے تھے۔


ساحل نگواریت سے ان سب کو دیکھ رہا تھا۔ کتنے گر گئے تھے یہ لوگ ساحل کو خود پر غصہ آنے لگا کہ وہ اب تک ان لوگوں کی صحبت میں رو رہا تھا ان کو اپنا سمجھ رہا تھا۔


ساحر نے حاشر کا گریبان پکڑ کر ایک ساتھ کئی تھپڑا سے رسید کیے تھے۔


یا سر کو شایان نے لوکیشن سینڈ کر دی تھی جس کی مدد سے وہ بھی رملہ کو لے کر پہنچ گیا تھا۔


رملہ کو دیکھ کر اماں صاحب امجد اور ماجد کی آنکھوں میں خوف اتر آیا تھا۔ ریل


امان صاحب نے اسے پکارا تو وہ مسکرائی۔


اں رملہ کیوں خوشی نہیں ہوئی اپنی بیٹی کو دیکھ کر۔


رملہ نے کہا تو اماں صاحب کچھ کہہ نہیں سکیں۔ آج ان کا سارا کیا کر ایا سامنے آنے والا تھا۔


ریان نے مرحا کو اپنے بازؤں سے تھام رکھا تھا۔ ریان چلتا ہو اماں صاحب کے سامنے آیا۔


آپ کیسی عورت ہیں خود ایک عورت ہو کر آپ کو زرا شرم نہیں اس پینچ حرکت کو کرتے ہوئے۔


پوتی ہے نا یہ آپ کی آپ کے بیٹے کی اولاد آپ کیسے کر سکتی ہیں اس کے ساتھ ایسا بلکہ اس کے ہی نہیں آپ مرحا کے ماں باپ کے ساتھ بھی کیسے کر سکتی ہیں کوئی ماں اپنی ہی اولاد کو کیسے مار سکتی ہے کیسے لائیں آپ اپنے اندر اتنی ہمت طاقت کہ اپنے ہی بیٹے کو جان سے مار ڈالا آپ نے۔


حویلی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔


نہیں تھا وہ میرا بیٹا آصف میرا بیٹا نہیں تھا وہ اور لیس خان اور اس کی پہلی بیوی پر وین کا بیٹا تھا۔


اماں صاحب کے الفاظ یہ سب حیرت سے انہیں دیکھنے لگے۔


مر حا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔


آصف چھ ماہ کا تھا جب اس کی ماں اس دنیا سے چل بھی تھی میں سہیلی تھی اس کی۔


اور لیس خان بہت امیر تھا پروین کے مرنے کے بعد میں نے اور لیس صاحب سے شادی کر لی۔


آصف سے مجھے پہلے بھی کوئی لگاؤ نہیں تھا مجھے بس اور لیس خان کی دولت چاہیے تھی۔


مگر اس نے اپنی ساری دولت اس آصف کے نام کر دی بچپن میں ہی۔


پھر میں اپنے بچوں کو دنیا میں لائی امجد اور ماجد کو۔


ان کے بعد اور لیس خان کو ایک بیٹی کی خواہش ہونے لگی مگر مجھے یہ اولاد نہیں چاہیے تھی میں نے بہت کوشش کی تھی کہ رملہ اس دنیا میں نا آسکے مگر اس نے پیدا ہو کر میری زندگی اور عذاب کر دی۔


جو تھوڑی بہت توجہ اور لیس خان مجھے دینے لگے تھے وہ بھی اس رملہ نے چھین لی۔


اور لیس خان نے دوبارہ وشیعت بنوائی اور امجد ماجد اور رملہ کو صرف دس دس پر سنٹ دیا باقی کا سب اس


آصف کو دے دیا۔ پھر جب ساحر کی پیدائش ہوئی تو گاؤں کی کئی ساری زمین اسے دے دی۔


اماں صاحب کی بات پہ ریان کے ساتھ ساتھ سب شوکڈ تھے۔


آپ نے دولت کے چکر میں آصف تایا کو مروادیا۔


ساحر نے دکھ سے پوچھا۔


جب تک وہ حویلی سے دور تھا مجھے مسئلہ نہیں تھا جب وہ یہاں دوبارہ آیا تو میں نے اسے آفر کی کہ مرحا کی شادی کر دے حاشر سے کیونکہ ہمیں پتہ لگ گیا تھا کہ آصف نے ساری جائیداد مرحا کو دے دی ہے۔


لیکن اس نے میری بات نہیں مانی میں نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔ سے بنا دیا۔


اور رملہ پھو پھو سائیں ان کو کیوں قید کیا آپ نے۔ 


ساحر نے سوال کیا۔


میں بتاتی ہوں ساحر یہ تو صرف ایک چھوٹی سی سچائی ہے جو تمھارے سامنے آئی ہے۔


ابھی تو بہت کچھ باقی ہے۔


رملہ نے انکھوں میں نفرت لیے سامنے کھڑی عورت کو دیکھا جو کہنے کو اس کی ماں تھی۔


آج سے سترہ سال پہلے بابا جانی کے انتقال کے پانچویں دن ندرت بھا بھی نے امجد لا لا ماجد لالا اور اماں صاحب کو باتیں کرتے سنا تھا۔


اماں صاحب نے کہا تھا کہ اور لیس خان کو تو میں نے راستے سے ہٹا دیا ہے اب بس ہمیں صبر سے کام لینا ہے میں آرام سے آصف کو بھلا پھسلا کر ساری جائید ادواپس لے لوں گی۔


بابا جان کو ہارٹ اٹیک نہیں آیا تھا اماں صاحب نے بابا جان پر تکیہ رکھ کر ان کا دم گھوٹا تھا۔


یہ بات بھی مجھے ندرت بھابھی نے بتائی تھی۔


لیکن جب ہم لوگ باتیں کر رہے تھے تب ماجد لالا نے ہماری باتیں سن لیں۔ اس دن اماں صاحب اور ماجد لالا نے ندرت بھابھی کو بہت مارا تھا اماں صاحب نے مجھے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے کسی کے سامنے منہ کھولا تو وہ مجھے بھی جان سے مار دیں گی۔


ان دنوں رمشاء بھا بھی سائیں کی طبیعت خراب چل رہی تھی آصف تا یا انہیں ڈاکٹر کے پاس شہر کے کر گئے ہوئے تھے۔


مجھے ان کے آنے کا انتظار تھا


جب اماں صاحب اور ماجد لالا نے ندرت بھا بھی سائیں کو مارا تو انہوں نے اپنے چچازاد بھائی کو بلا لیا تاکہ وہ یہاں سے چلی جائیں مگر اماں صاحب اور ماجد لالا کو شک تھا کہ وہ یہاں سے جاکر اپنا منہ کھول دیں گی۔ اس لیے انہوں نے ان دونوں پہ الزام لگایا کہ ان دونوں کے آپس میں تعلقات تھے اور انہیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ مگر ایسا کچھ نہیں تھا ایسا کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا کیوں کہ وہ دونوں دودھ شریک بہن بھائی تھے۔


اور یہ بات اماں صاحب اور ماجد لالا بھی جانتے تھے اس کے باوجود بھی انہوں نے ان دونوں پہ اس قدر گھٹیا الزام لگایا۔


ندرت بھا بھی سائیں اور ان کے رضاعی بھائی کے مرنے کے بعد حویلی میں عجیب خوف وہر اس پھیل گیا تھا۔


رمشاء بھا بھی سائیں کی طبیعت حویلی کے ماحول سے اور خراب ہونے لگی تھی۔


قتل کے اگلے روز میں نے لالا کو سب بتانے کا سوچا مگر پھر اچانک ہی سومیہ بھا بھی سائیں نے خود کشی کرلی۔


حویلی کی فضا اور سوگوار ہو گئی


ساحر اور ساحل تم دونوں کی ماں نے خود کشی اس شخص کی وجہ سے کی تھی۔


رملہ نے کہتے ہوئے امجد کی طرف انگلی اٹھائی۔


ساحر اور ساحل دونوں نے حیرانگی سے اپنے باپ کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر خوف کے آثار صاف ظاہر تھے۔


امجد لالا کو جو اکھیلنے کی عادت تھی۔ سومیہ بھابھی کی خود کشی کرنے سے ایک دن پہلے جس دن ندرت بھابھی کا قتل ہوا تھا اس روز بھی امجد لالا نے جو اکھیلا تھا جس میں وہ ہار گئے اور ان لوگوں نے ہارنے کی صورت ان سے انکی بیوی کی ایک رات کی قربت مانگی تھی۔ اور یہ بیغیرت آدمی اپنی بیوی کو ایک رات کے لیے اپنے دوستوں کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔


وہ تو پہلے ہی ظلم کا شکار ہو چکی تھیں۔ اس لیے اس ظلم سے بچنے کے لیے انہوں نے خود کشی کر لی۔ تم


دونوں کی ماں کا قاتل یہ شخص ہے۔


رملہ نے روتے ہوئے کہا۔


ساحل اور ساحر دونوں کی آنکھوں میں خون اترا تھا۔


آپ کی وجہ سے آپ کی وجہ سے میں بچپن میں ہی اپنی ماں کی ممتا سے دور ہو گیا۔ آپ کی وجہ سے ہم


بن ماں کے پہلے۔ اس سب کے پیچھے آپ تھے۔


ساحل غصے سے کھڑا اپنے باپ سے سوال کر رہا تھا۔


ساحر تم ہمیشہ سوچتے آئے ہوتا کہ یہ سب تم سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔


رملہ نے ساحر کے پاس جاکر کہا تو اس نے نم آنکھوں سے اثبات میں سر ہلایا۔


اس کی وجہ بھی میں تمھیں بتاتی ہوں۔


سومیہ بھابھی کے ساتھ تمھارے اس باپ نے شادی سے پہلے اجتماعی زیادتی کی تھی۔ ان کے گھر والوں کو ڈرا کر خاموش رہنے کو کہا مگر جب ان کے گھر میں یہ بات پتہ لگی کہ وہ ماں بننے والی ہے تب سزا کے طور پر بابا جان نے سومیہ بھا بھی کی شادی اسی شخص سے کروادی۔


سومیہ بھابھی کے ساتھ لالا اور اس کے دوستوں نے زیادتی کی تھی۔ وہ معصوم اپنے ہی مجرم کے نکاحمیں آگئیں۔ شادی کے دو مہینے بعد جب تمھاری پیدائش ہوئی تب تمھارے باپ اور اماں صاحب نے تمھیں یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ تم پتا نہیں کس کی اولاد ہو۔


مگر میں بابا جان آصف لالا اور رمشاء بھا بھی سائیں جانتی تھیں کہ تم اس حویلی کی اولاد ہو کیونکہ تمھارے نقوش سب بابا جان سے ملتے تھے۔


سومیہ بھا بھی تم سے کبھی نفرت نہیں کرتی مگر ان لوگوں نے ان کے دماغ میں بھی یہی بھرا کہ تم پتا نہیں کس کا خون ہو تمھاری رگوں میں حویلی کا خون ہے بھی یا نہیں۔


لالا ان دونوں شہر تھے مجھے بس ان کے آنے کا انتظار تھا مگر اماں صاحب نے مجھے ہی قید کر دیا مجھے سولہ سال تک اپنی قید میں رکھا۔


یہ عورت ماں کہلانے کے قابل ہی نہیں ہے یہ عورت ڈائن ہے ڈائن جو اپنے ہی شوہر کو نگل گئی ہماری حویلی کی خوشیاں نگل گئی۔


انہوں نے مجھے کبھی پیار نہیں دیا صرف اس لیے کہ میں ایک ان چاہی اولاد تھی۔


یہ عورت ماں کہلانے کے قابل نہیں ہے۔


رملہ پھوٹ پھوٹ کر رودی تو مر جانے آگے بڑھ کر انہیں سنبھالا تھا۔


ساحر ٹوٹ گیا تھا یہ انکشاف بہت خوفناک تھا۔


ساحر تکلیف سے چہرہ ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گیا۔ وہ ایک ریپ چائلڈ تھا۔ بے شک وہ اپنے باپ کی ہی


اولاد تھا مگر اس کی ماں نے اسے وقت محسوس کیا تھا جب وہ ایک ناجائز وجو د تھا۔ سب ہی افسر دو تھے۔


ساحل نے آگے بڑھ کر ساحر کے ہاتھوں کو تھاما تھا۔


لالا آپ کیوں ایسے افسردہ ہو رہے ہیں۔ آپ اسی حویلی کا خون ہیں۔ آپ میرے لالا ہیں اس حویلی کے وارث ہیں۔ آپ کیوں تکلیف میں ہیں ہمیں تو ان لوگوں سے تکلیف کا حساب کتاب لینا ہے دادا جان کو دی ہوئی تکلیف چاچی سائیں کو دی ہوئی تایا جان تائی سائیں کو دی ہوئی تکلیف اور خاص طور پر


ہماری ماں کو دی ہوئی تکلیف کا حساب لینا ہے ہم نے ۔


ساحل نے کہہ کر امجد کا گریبان پکڑا۔


آج افسوس ہو رہا ہے مجھے بے حد افسوس کہ اپنے لالا کو چھوڑ کر میں تم جیسے لوگوں کو اپنا سمجھتا رہا تم لوگوں کے اشارے پہ ناچتا رہا


ساحر نے ساحل کو پکڑ کر پیچھے کیا۔


ساحل ان لوگوں کے منہ نہیں لگو ہم ان کو سزا دلوائیں گے ہر گناہ کی سزا۔


ساحر نے غصے بھری نظروں سے ان سب کو گھورا تھا۔


تو ادھر آتیر اسارا حساب کتاب تو میں خود کروں گا۔


ریان نے کہہ کر حاشر کو پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔


ریان نے حاشر کے منہ ایک مکا جڑا اور پھر ریان رکا نہیں اس نے حاشر کو بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔


تیری اتنی ہمت تو نے میری مرحا کی عزت پر ہاتھ ڈالا تو نے میری بیوی پہ ہاتھ ڈالا۔


ریان نے کہہ کر حاشر کے ہاتھ کو جھٹکے سے توڑا تو اس کی دلخراش پینچ حویلی میں گونجی۔


ارے او د و ساحل روک اسے میرے بچے کو مار دے گا یہ۔


امان صاحب نے ساحل سے التجا کی تو وہ تنزیہ ہنسا۔


ہ نہ یہ اسی لائق ہے اماں صاحب اس نے جو کیا ہے اس کا حساب تو اسے دینا ہی ہو گا چھوڑ نامت ریان اس کو۔


ساحل نے اماں صاحب کو کہہ کر ریان سے اسے اور مارنے کو کہا۔


شمایان ہر چیز ریکارڈ ہو گئی۔


شیری نے شایان کو آواز لگائی تو گیٹ کی طرف سے اندر آیا۔


شیری نے اسے گیٹ پہ ہی رک کر ویڈیو ریکارڈ کرنے کا کہا تھا تا کہ ان لوگوں کے سارے گناہ ثبوت کے ساتھ موجود ہوں۔


جی شیری بھائی سب ریکارڈ ہو گیا۔ یہ لوگ لمبے عرصے کے لیے جیل جائیں گے۔


شایان نے ویڈیو ریکار ڈر شیری کے حوالے کیا۔


ریان بس کرو اسے اب قانون خود سزادے گا۔


ساحر نے ریان کو پکڑ کر حاشر سے الگ کیا۔


مرحانم آنکھوں سے ریان کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے وعدہ کیا تھا اس کی حفاظت کرے گا ہمیشہ اور اس


نے اپنا وعدہ نبھایا تھا اس نے ہر موڑ پہ مرحا کی حفاظت کی تھی۔


ریان مرحا کے پاس آیا اور اس کے ماتھے پہ لب رکھ کر اسے اپنی باہوں میں بھر اتھا۔


ریان کے دل میں سکون اتر تا محسوس ہوا تھا اس کی مرحابا حفاظت اس کے پاس پہنچ گئی تھی۔


مینی نے اماں صاحب کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالی اور انہیں باہر لے جانے لگی۔


ساحر اور ساحل بھی باہر کی طرف جارہے تھے۔


شایان اور یاسر نے امجد اور ماجد کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈلوا کر ان کو پکڑ رکھا تھا۔


شیری حاشر کے پاس آکر اسے لے جانے لگا مگر حاشر نے اپنے پاؤں کی طرف چھپا چاقو نکال کر شیری کے ہاتھ پہ وار کیا جس سے اس کی گن نیچے گرمی۔


حاشر نے شیری کو دھکا دیا اور گن اٹھا کر ریان کی طرف گن کا رخ کیا۔


ریان حیدر تم مجھ سے نہیں جیت سکتے کبھی بھی نہیں۔


حاشر نے کہہ کر ریان کی طرف ایک کے بعد تین فائر کیے۔


مرحا اور ریان نے جب حاشر کی اپکار پہ اس کی طرف دیکھا تو وہ ریان پر گن گانے اس کا نشانہ لیے کھڑا تھا۔


حاشر نے جب ریان پر گولیاں چلائیں تو مر حاریان کے سامنے آگئی۔


دو گولیاں مرحا کے پیٹ میں لگی جب کہ ایک گولی اس کا سینا چیر گئی تھی۔


ریان ساکت ہو گیا۔ بالکل ساکت۔


گولیوں کی آوازیں سب کو اپنی طرف متوجہ کر گئی تھیں۔


حاشر نے مرحا کو گولی لگتے دیکھا تو اس نے ایک اور گولی ریان کی طرف چلائی مگر شاہ میر جو حاشر جوپکڑنے آرہا تھا اس گولی کی زد میں آگیا۔


گولی شاہ میر کا کندھا زخمی کر گئی تھی۔


یہ سب اتنی اچانک ہوا کہ کسی کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں لگا تھا۔


عینی نے اپنی گن سے حاشر کے ہاتھ کا نشانہ لیا جس سے اس کے ہاتھ سے گن گری۔


شیری نے فوراً حاشر کو پکڑا تھا مگر وہ پاگلوں کی طرح ہننے لگا۔


دیکھوریان حیدر دیکھو اپنی مرحا کو پل پل مرتا دیکھو کر دیا میں نے تمھاری مرحا کو تم سے دور ہاہاہا۔


حاشر کو شیری زبر دستی ہتھکڑیاں پہنا کر باہر لے گیا۔


ساحر ساحل شایان سب مرحا کی طرف بھاگے تھے۔


شایان نے جاکر شاہ میر کو پکڑا جو درد سے گھٹنوں کے بل بیٹھا تڑپ رہا تھا۔


ریان نے مرحا کا وجود اپنی باہوں میں بھرا۔


ممم مرحا۔۔ مم مرحا۔۔ آآآ آنکھیں۔ آنکھیں کھولو۔۔ مرحام میری جان ۔۔۔ پیپ پلیز آ آ آنکھیں کھولو۔


ریان مرحا کا گال تھپتھپارہا تھا آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔


مر جانے ہلکی سی آنکھیں کھولی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔


دریان۔۔ آئی لو ویو۔


مرحا کے منہ سے توڑ توڑ کر لفظ ادا ہوئے تو ریان کو مرحا کی بات یاد آئی۔


 جس دن زندگی کا آخری دن ہو گا اس دن بولوں گی آئی لو ویو۔


منن نہیں نہیں مت بولو مر حاپپ پلیز نمن نہیں بولو تم بس بس تم مجھ سے بات کرو مر عامر حا۔ ریان نے مرحا کا گال تھپتھپایا مگر اس کے وجود میں حرکت رک گئی۔ آنکھیں بند ہو گئیں۔


ریان نے اتنی تکلیف سے مرحا کو پکارا تھا کہ سب کے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔


ریان مرحا کو ہسپتال لے جانا ہے جلدی کرو ٹائم نہیں ہے۔


ساحر نے ہمت کرتے ہوئے کہا تو ریان نے فوراً اسے اپنی باہوں میں بھرا اور دیوانہ وار باہر بھاگا تھا۔


ریان مرحا کو اپنی گود میں ہی لے کر گاڑی میں بیٹھا۔


شیری نے اپنی فورس بلا کر ان چاروں کو جیل بھجوادیا تھا۔


اس وقت سب مرحا اور شاہ میر کو ہسپتال لے جارہے تھے۔


ریان کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو گئیں تھیں۔ اس نے چھوٹے بچے کی طرح مرحا کو باہوں میں بھر اہوا


تھا۔ ریان کا سفید کر تامر حا کے خون سے لال ہو چکا تھا۔


ریان کا تڑپ کر بار بار مر حا کو پکار ناسب کو رونے پر مجبور کر گیا تھا۔


ایمان اور نور رسمینہ بیگم کے کمرے میں موجود تھیں جبکہ عمل کو انہوں نے ایک کمرے میں بند کر رکھا تھا


احتشام صاحب اور شعیب صاحب ذالفقار صاحب کے پاس موجود تھے۔


ابھی تک ان کے پاس کوئی خبر نہیں آئی تھی۔


سب لوگ ہی پریشان تھے اور دعا گو تھے کہ مرحا جلد سے جلد مل جائے اور ساحر بھی خیریت سے آجائے۔

ایمان نے اپنا رو رو کر برا حال کر لیا تھا۔ وہ مرحا کے لیے بہت پریشان تھی لیکن جب سے اسے پتا لگا تھا کہ ساحر کو زخمی کر کے لے جایا گیا ہے تب سے ایمان کی حالت خراب ہو گئی تھی۔ ساحر کے پہلے بھی سر میں جو چوٹیں آئی تھیں اس کے بعد اس طرح دوبارہ سر پہ چوٹ آنا ایمان کو ڈرا گیا تھا۔


ایمان میری جان بس کرو بیٹاریان گیا ہے نا اور باقی سب بھی گئے ہیں نا وہ مرحا اور ساحر کولے کر ہی آئیں گے پلیز میری جان ایسے رو رو کر خود کو ہلکان نہیں کرو۔


سمینہ بیگم نے اسے سمجھایا تھا۔


نور بھی بیٹھی مسلسل اسے سمجھارہی تھی۔


ماما ساحر کو کچھ ہو گیا تو میرا کیا ہو گا میں کیسے جیوں گی ان کے بغیر ماما میں نے تو انہیں اپنا سب کچھ مان لیا ہے ماما ساحر کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔


ایمان نے روتے ہوئے کہا تو سمینہ بیگم نے اسے گلے لگایا۔


میری جان کچھ نہیں ہو گا ساحر لاکا کو ریان بھائی مرحا اور ساحر لالا دونوں کو بالکل صحیح سلامت لے کر آئیں گے۔


نور نے ایمان کو سمجھایا۔


بھا بھی ساحر کے سر پہ پہلے بھی چوٹ آچکی ہے جس سے وہ کوما میں چلے گئے تھے ڈاکٹر نے کہا تھا ان کے سر په زور دار چوٹ ان کی جان بھی لے سکتی ہے۔


میں ساحر کے بنا نہیں جی سکتی بھا بھی میں بہت پیار کرتی ہوں ان سے۔


ایمان نے روتے ہوئے کہا۔


آج ساحر اس کے منہ سے اس اعتراف کو سن لیتا تو ایمان کو اپنے سینے میں چھپا لیتا۔


ایمان کو رو رو کر بخار چڑھ چکا تھا مگر نا تو وہ کچھ کھانے کو تیار تھی ناہی دوا لینے کو تیار تھا


ریان اور ساحر مرحا کو لے کر ہسپتال پہنچے۔ باقی سب بھی ان کے پیچھے پیچھے ہی ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔


مرحا کی سانس اکھڑ نے لگی تھی۔ اس کا خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔


ریان اسے باہوں میں بھر کے ہی ایمر جنسی وارڈ میں بھاگا تھا۔


ڈاکٹر نے مرحا کی حالت دیکھ کر فورا اسے آپریشن تھیٹر میں شفٹ کیا۔


ویسے تو یہ پولیس کیس تھا مگر عینی اور شیری کی موجودگی کی وجہ سے ڈاکٹر فورا اپنے کام میں لگ گئے تھے۔


ریان مرحا کا دو پٹہ اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے زمین پہ بیٹھتا چلا گیا۔


شاہ میر بھی گولی کے اثر سے بے ہوش ہو گیا تھا۔


عینی اور شایان شاہ میر کے معاملے کو ہینڈل کر رہے تھے جبکہ ساحر ساحل شیری اور یاسر ریان کے ساتھ موجود تھے۔


ریان کو دیکھ کر شیری اپنے امڈ آنے والے آنسوؤں کو روک نہیں پارہا تھا۔


ریان کسی چھوٹے بچے کی طرح مرحا کے دوپٹے کو سینے سے لگائے خوفزدہ سا بیٹھا تھا۔


آنسوؤں سے اس کا چہرہ تر ہو رہا تھا۔


شیری گھر پہ کال کر دو سب لوگ پریشان ہونگے۔


ساحر نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔


شیری اثبات میں سر ہلا تا گھر کال کرنے لگا۔


اس وقت گھر پہ سب لوگ ہال میں بیٹھے تھے احتشام صاحب اور شعیب صاحب کے ساتھ ساتھ ذالفقار صاحب اور شہیر نے بھی ایمان کو دوا کہلانے کی پوری کوشش کی تھی مگر وہ بہ ضد تھی کہ جب


تک وہ ساحر کو دیکھ نہیں لیتی تب تک نا کچھ کھائے گی ناد والے گی۔


سب ایمان کے پاس بیٹھے تسلی دے رہے تھے تب ہی شہیر کے پاس شیری کی کال آنے لگی۔


ہیلو شیری بھائی سب ٹھیک ہے نا آپ لوگ کہاں ہیں۔


شہیر کو کال پر بات کرتے دیکھ ایمان بے چینی سے شہیر کے پاس آئی تھی۔


شیری کی بات سن کر شہیر کی آنکھوں سے بے اختیار آنسوؤں نکلے جس سے سب گھر والے پریشان ہو گئے تھے۔


ٹھیک ہے بھائی۔ ہم آتے ہیں۔


شہیر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔


شہیر کیا ہوا ہے کیا بولا شیری بھائی نے تم کیوں رو رہے ہو جواب دو۔


ایمان نے بے چینی سے سوال کیے۔


مرحا کو گولیاں ۔۔ گولیاں لگی ہیں۔۔۔ اس کی حالت بہت خراب ہے۔۔ اور شاہ میر بھائی کے بھی ۔۔ ایک گولی لگی ہے۔۔ کندھے پہ ۔۔ سب لوگ ہسپتال میں موجود ہیں۔


شہیر نے اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے بتایا۔


ایمان شہیر کی بات سن کر لڑکھڑائی تو شہیر نے اسے فورا تھاما تھا۔


مرحا اور شاہ میر کی حالت کا سن کر سب لوگ ہی پریشان ہو گئے تھے۔ سمینہ بیگم رونے لگیں تھیں۔


ان کے بچے اتنی تکلیف میں تھے۔


نور خود کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی آنسوؤں کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔


سب ہی لوگ فوراً ہسپتال کے لیے بھاگے تھے۔


شاہ میر کا آپریشن ہو ا تو ڈاکٹر باہر آیا۔


گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے گولی نکال دی گئی ہے پیشنٹ خطرے سے باہر ہیں اب۔


ڈاکٹر نے آکر بتایا تو عینی اور شایان نے شکر کا سانس لیا۔


شایان کو شاہ میر کے پاس چھوڑ کر عینی ریان کی طرف گئی۔


شاہ میر جیجو ٹھیک ہیں اب خطرے کی بات نہیں ہے۔


عینی نے آکر بتایا تو ساحل ساحل اور شیری کی جان میں جان آئی۔


ریان نے بھی عینی کی بات سنی تھی اور دل میں شکر ادا کیا تھا مگر وہ بالکل ساکت بیٹھا تھا۔


ریان خود کو سنبھالو مر حاٹھیک ہو جائے گی۔


شیری نے ریان کو اٹھانا چاہا مگر وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔


اسے ٹھیک ہونا ہو گا اسے میرے لیے ٹھیک ہونا ہو گا اسے کچھ ہو گیا تو میں بھی مر جاؤں گا۔


ریان نے مدھم آواز میں کہا جبکہ اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔


آنکھوں سے آنسوں مسلسل بہہ رہے تھے۔ دوپٹہ یوں ہی سینے سے لگارکھا تھا۔


ڈاکٹر باہر آیا تو سب ڈاکٹر کی طرف بڑھے ریان بھی تیزی سے ڈاکٹر کے قریب آیا تھا۔


دیکھیں پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہے سینے پہ گولی لگنے کی وجہ سے انہیں مصنوعی سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی ہے۔ بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے آپ لوگ پلیز بلڈ کا انتظام کریں انہیں بلڈ کی ضرورت ہے۔


ڈاکٹر کی بات سن کر سب ہی تڑپ گئے تھے۔


ڈاکٹر ۔۔ ڈاکٹر پلیزز


آپ آپ میری مرحا کو بچالیں۔۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے میری مرحا کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔ ریان نے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ کر التجا کی۔


ریان کی حالت دیکھ کر سب ہی بکھر رہے تھے۔


دیکھیں ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر میں آپ لوگوں کو کوئی جھوٹی امید نہیں دینا چاہتا آپ لوگ مینٹلی طور پر ہر چیز کے لیے تیار رہیں۔ باقی ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں آگے اللہ کی مرضی آپ لوگ دعا کیجیے۔


ڈاکٹر کے الفاظ تھے یا خنجر سب کے دل چیر گئے تھے۔


ریان نامیں گردن ہلا تا کچھ سوچتے ہوئے ڈاکٹر کو دھکا دے کر آپریشن تھیٹر میں داخل ہوا۔


مر حامیری جان پلیز تم نے اٹھنا ہے او کے تم اپنے ریان کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گی سمجھیں تم نے اگر میری بات نہیں مانی تو میں کبھی تم سے بات نہیں کروں مرحا پلیز مجھ پر رحم کرو تمھیں ٹھیک ہونا ہے مرحاضد ا لیے مجھ پہ ظلم مت کر نامر حاتم نے اپنے ریان کے لیے ٹھیک ہونا ہے۔


ریان پاگلوں کی طرح اندر آجر چیخ رہا تھا ساحر اور شیری نے اسے مشکل سے کنٹرول کر کے باہر نکالا تھا جبکہ وہاں موجود ڈاکٹرز بھی ریان کی حالت سمجھ رہے تھے اس لیے انہوں نے ساحل کی معذرت پر کچھ نہیں کہا۔


ساحر شیری چھوڑو مجھے میری مرحا کو میری ضرورت ہے تم سمجھ نہیں رہے ہو وہ ڈر رہی ہو گی اسے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا مجھے اس کے پاس جانا ہے ساحر پلیز مجھے چھوڑو۔


ریان کو قابو کرنا مشکل ہو رہا تھا۔


اس وقت ریان کوئی دیوانہ لگ رہا تھا۔


عینی ریان کی حالت دیکھ کر رو پڑی تھی۔ یہ لمحہ سب سے زیادہ ریان کے لیے تکلیف دہ تھا۔


ریان کی طرف آتے سب ہی گھر والوں نے ریان کی یہ دیوانگی دیکھی تو احتشام صاحب نے آکر اسے فورا پکڑ اپنے گے سے لگایا تھا۔


ذالفقار صاحب وہی کرسی پہ افسردہ سے بیٹھ گئے تھے۔

باپ کا کندھا ملتے ہی ریان ٹرپ ٹرپ کر رو پڑا تھا اس کے رونے کی آواز سب کو رولا گئی تھی۔

ریان میر ابچہ سنبھالو خود کو بیٹا مر حا ٹھیک ہو جائے گی ایسے ہمت نہیں ہارتے۔

احتشام صاحب نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا

بابا د یکھیں نا یہ ڈاکٹر کیا کہہ گیا ہے میری مرحا مجھ سے دور نہیں جائے گی باباوہ پیار کرتی ہے مجھ سے بابا وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ڈاکٹر کیسے بول سکتے ہیں کہ وہ امید نہیں دلا سکتے وہ مجھے مرحا کے پاس نہیں جانے دے رہا بابا مر حاکو میری ضرورت ہے۔

ریان کی آواز میں اتنی تڑپ تھی کہ اگر مرحا اس وقت یہ آواز سن لیتی تو ریان کو کبھی رونے نہیں دیتی مگر وہ تو خود زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔

ایمان شہیر اور نور کے ساتھ پہلے شاہ میر کی طرف گئی تھی۔

نور کا بھی رو رو کر براحال ہو گیا تھا۔

ایمان نور اور شہیر کو چھوڑ کر مر حاوالے وارڈ میں جانے لگی تو ساحر اور ساحل اسی طرف آرہے تھے۔

ایمان ساحر کو سامنے دیکھ کر خود پر کنٹرول نہیں کر پائی اور بھاگ کے آکر ساحر کے سینے سے لگی زار و قطار رونے لگی۔

ساحل اور مرحا کا بلڈ گروپ سیم تھا جس کے لیے وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق بلڈ دینے کے لیے جارہے تھے۔ ساحر کا دھیان ساحل کی طرف تھا اس لیے وہ ایمان کو دیکھ نہیں پایا۔

ایمان میری جان۔

ساحر نے ایمان کو اپنی باہوں میں بھینچا تھا۔