تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 39
طوبیٰ صدیقی
°°°°°°
❤️❤️❤️
پارلر والی مرحا کو تیار کر کے جاچکی تھی۔
بلڈریڈ کلر کی چولی اور ریڈ ہی لہنگا اس کے کھلے کھلے رنگ پہ بہت حسین لگ رہا تھا۔
مرحا کا لہنگا فل ریڈ تھا کہیں بھی کسی بھی اور رنگ سے کوئی کام نہیں تھا۔ ریڈ ہی دو پٹہ تھا جسے سلیقے سے سر پہ سیٹ کیا گیا تھا۔ برائیڈل میک اپ نے اس کو پوری طرح بدل دیا تھا اوپر اس پر روپ بھی اتنا آیا
تھا کہ پارلر والی لڑکیاں بھی اس کی تعریف کیے بنا نہیں رہ پائیں تھیں۔
خوبصورت نفیس سی جیولری، ریان کے نام کی سجی مہندی والے ہاتھوں میں بھری لال چوڑیاں، اور اس کے چہرے پہ بھی نازک سی نتھ نے اس کو سراپہ حسن بنادیا تھا۔ اس کا پری پیکر چہرہ اتنے میک اپ میں بھی دنیا جہاں کی معصومیت سمیٹے ہوئے تھا۔
وہ موم کی گڑیا آن اپنے پیاگھر جانے کے لیے تیار کھڑی
تھی۔
ماشاء اللہ ماشاء اللہ میری گڑیا کتنی خوبصورت لگ رہی ہے۔
رملہ نے کمرے میں داخل ہو کر جب مرحا کو سکے دیکھا تو اس کی بلائیں لینے لگیں۔
انھوں نے فور امر حا کی نظر اتاری تھی وہ لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی کہ اسے کسی کی بھی نظر لگ سکتی تھی۔
آجاؤ بچہ حال پہنچنا ہے بارات سے پہلے۔
رملہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور ایک ہاتھ سے اس کا لہنگا سنبھالا اور اسے کمرے سے باہر لے جانے لگیں۔
مرحا کا لہنگا بہت ہیوی تھا جس کی وجہ سے اسے چلنے کی سہارے کی ضرورت پڑ رہی تھی۔
آرزو کی نانی کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی جس کی وجہ سے اسے صبح صبح ایمر جنسی میں جانا پڑا تھا اب
وہ ڈائریکٹ حال ہی آنے والی تھی ایسے میں مر حار ملہ کے ساتھ اکیلی تھی۔
رملہ مرحا کو باہر لائیں تو ساحر اور ساحل نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
ارے پھوپھو سائیں مرحا کہاں ہے اور یہ آپ کسے لے آئیں۔
ساحل نے شرارت سے کہا تو مر حا کے چہرے پر مسکان کھلی تھی۔
ساحل نے آگے بڑھ کر اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اور اسے ڈھیر ساری دعائیں دی۔
ما شاء اللہ میری گڑیا تو آج چاند کا ٹکڑر الگ رہی تھی۔
ساحر نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
اچھا ایک کام کرو ساحل تم جلدی سے پہلے رملہ پھوپھو سائیں کو لے کر جاؤ حال وہاں یا سر موجود ہے۔ مہمان آنا شروع ہو گئے ہونگے تم پلیز انہیں دیکھو میں بھی مرحا کو لے کر نکلتا ہوں بس شوز پنج کرلوں۔
ساحر نے ساحل سے کہا تو وہ مسکرا کر او کے کرتار ملہ کو لے کر نکل گیا۔
اس وقت گھر میں صرف ساحر اور مرحا موجود تھے۔
ساحر شور چینج کر کے آیا۔ مر حاہال میں بیٹھی تھی۔
مرحا بچہ بس تم دو منٹ رکو میں گاڑی اندر لاتا ہوں باہر مین گیٹ تک چلنا تمھارے کیے مشکل ہو گا اوکے۔
ساحر نے مرحا سے کہا تو اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
مرحا کے چہرے کی خوشی کا اندازہ اس وقت اسے دیکھ کر کوئی بھی لگا سکتا تھا۔ اب بھی وہ مسکر اکر ریان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
ساحر گاڑی میں گیٹ سے اندر لایا تو اس کے پیچھے ہی پانچ ہٹے کٹے آدمی اندر داخل ہوئے۔
اے ے ے سے کون ہو تم لوگ گھر میں کیسے گھس گئے ہو۔
ساحر نے گاڑی سے اتر کر ان آدمیوں کو دیکھا تو غصے سے ان کی جانب بڑھا۔
سلام لالا کیسے ہیں آپ
حاشر کمینگی سے کہتا گھر کے اندر داخل ہوا۔
کیا بد تمیزی ہے حاشر نکلو یہاں سے کیوں آئے ہو تم یہاں۔
ساحر کو گڑ بڑی کا احساس ہوا۔
ارے لالا اپنی محبت اپنی جان من مرحا کو لینے آیا ہوں
حاشر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔
اپنی بکواس بند کرو حاشر بیوی ہے وہ ریان کی تم چلے جاؤ یہاں سے ریان کو پتا لگانا تو تمھیں قبر میں اتارنے میں وقت نہیں لگائے گا دو۔
ساحر نے غصے سے کہا تو حاشر ہننے لگا۔
بابا باوه ر یان جب تک یہاں پہنچے گا ناتب تک میں مرحا کو اس سے بہت دور لے جاؤں گالالا۔
حاشر نے ہنستے ہوئے کہا۔
ساحل اپنا موبائل گھر بھول گیا تھا جس کی وجہ سے رملہ کو حال چھوڑ کر وہ واپس آیا تھا مگر گھر کے باہر حویلی کی گاڑی کھڑی دیکھ کر اس کی چھٹی ہنس نے اسے کچھ غلط ہونے کا سگنل دیا۔
وہ اپنی گاڑی سے اتر کر تیزی سے اندر آیا جہاں حاشر کے ساتھ اس کے پانچ ساتھی کھڑے تھے۔
ساحل جو دیکھ کر حاشر کا ماتھا ٹھنکا۔
ارے واہ جی واہ ساحل صاحب بھی یہاں موجود ہیں کیا بات ہے میرا ساتھ چھوڑ کر تم اپنے لالا کے ساتھ کھڑے ہو گئے کیا ساحل اتنے سالوں کی وفاداری کا بھی پاس نہیں رکھا تم نے۔
حاشر نے ساحل سے کہا۔
حاشر تم غلط کر رہے ہو فضول میں بات کو نہیں بڑھاؤ اور جاؤ یہاں سے یہ کیا تماشا ہے میں نے تمھیں سمجھایا تھانا کہ مرحا سے دور رہو اب وہ کسی کی بیوی ہے نکال دو اس کا خیال دماغ سے۔ ساحل نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
ساحر نے ان کی نظروں سے بیچ کر یا سر کو فورا گھر آنے کا اور ریان کو ساتھ لانے کا میسج کر دیا تھا۔ ساحر کو موبائل استعمال کرتا دیکھ ایک آدمی نے آگے بڑھ کر ساحر کے ہاتھ سے موبائل چھین کر توڑ دیا مگر خوش قسمتی سے میسج سینڈ ہو چکا تھا۔
تم سیدھے طریقے سے جا رہے ہو یا میں اپنے طریقے سے نکالوں تمھیں۔
ساحل نے غصے سے کہا تو حاشر نے اپنے سامنے کھڑے آدمی کو اشارہ کیا جس نے ساحل کو کندھے سے
پکڑ کر اپنے سامنے کیا اور تیز دھار چاقو اس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔
ساحل کی دلخراش چیخ پہ ساحر فورا تڑپ کر اس کی طرف بھاگا تھا۔
ساحل ساحل تم ٹھیک ہونا۔
ساحر نے ساحل کو تھاما ہوا تھا۔
یہ کیا ہے حاشر تم پاگل ہو گئے ہو کیا دفاع ہو جاؤ یہاں ہے۔
ساحر نے بیچ کر کہا۔
باہر سے شور کی آواز مرحا کے پاس بھی پہنچی تھی جس سے وہ گھبرائی تھی۔ اس نے ہمت کر کے اپنا لہنگا سنبھالا اور باہر کی جانب قدم بڑھائے اس کے لیے چلنا مشکل ہو رہا تھا مگر وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باہر کی جانب آرہی تھی۔
افففف لالا میں نہیں کرنا چاہتا تھا یہ سب مگر کیا کروں مجبور ردیا آپ لوگوں نے۔ ٹائم نہیں ہے میرے پاس چلیں شاباش آپ سنبھالیں اپنے بھائی کو میں چلا اپنی مرحا کے پاس۔
حاشر نے اندر کی جانب قدم بڑھائے تو ساحر نے اسے پیچھے گھسیٹ کر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔
حاشر نے غصے سے ساحر کو دیکھا پھر آنکھ کے اشارے سے اپنے آدمی کو اشارہ کیا۔
ساحر اس نے حاشر کا گریبان پکڑا مگر پیچھے سے حاشر کے آدمی نے اس کے سر پہ لوہے کی روڈ دے ماری
ساحر کے سر پہ پہلے ہی بہت گہری چوٹیں آچکی تھیں جس کی وجہ سے وہ ایک ہی وار میں خود کو سنبھال نہیں پایا۔
درد کی لہر اس کے سر میں اٹھی تھی اور پھر وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔ لالا
مر حادروازے پر کھڑی چیچنی تھی
ساحر اور ساحل کی حالت دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔
ڈر سے اس کا وجود کانپنے لگا تھا۔
حاشر نے مرحا کو دیکھا تو اس کی نیت خراب ہونے لگی۔
افففف ظالم حسینہ اتنی بھی حسین لگنے کی کیا ضرورت تھی۔ تمھارا یہ حسن تو مجھے پاگل کر دیگا۔
حاشر مرحا کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔
مرحانے ڈر کر اپنے قدم پیچھے لینا شروع کر دیے۔ اس نے بھاگنا چاہا مگر بھاری لہنگے کی وجہ سے حاشر نے اسے پکڑ لیا۔
چھوڑو مجھے چھوڑو۔۔۔ لالا بچائیں لالا پلیز بچائیں۔
مرحا چلا رہی تھی تب ہی ساحل نے لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ کر ساحل کو مرحا سے دور کرنے کی کوشش کی مگر اس کے آدمی نے ساحل کو پکڑ کر اس سر دیوار پر دے مارا جس سے اس کے سر سے خون بہنے لگا۔
ساحل لالا۔۔۔ مرحا چلائی تھی۔
مرحا کی نازک کلائی حاشر کے مضبوط ہاتھوں میں تھی۔ وہ چاہ کر بھی اپنا ہاتھ چھڑوا نہیں پارہی تھی۔
چھوڑو وو۔ مجھے چھوڑو پلیز چھوڑ دو۔۔ لالا پلیز اٹھیں ساحر لالا بچائیں پلیز انھیں ۔۔ ساحل لالا اٹھ جائیں
پلیززز۔۔ چھوڑو میر اہاتھ ۔۔
مر حادیوانہ وار چیخ رہی تھی۔
اس ساحر کو گاڑی میں ڈالو۔
حاشر نے حکم دیا تو اس کے آدمیوں نے ساحر کے وجود کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔
لالا اٹھ جائیں پلیززز۔۔ ریااااان
مرحا نے ریان کو پکارا تھا مگر ریان اس سے اتنا دور تھا کہ اس کی پکار سن ہی نہیں سکتا تھا مگر اس کی پکار ریان نے محسوس کی تھی
ریان آئینے کے سامنے پریشان کھڑا تھا۔ اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہو گیا تھا۔
ریان۔۔ ریان۔۔
سمینہ بیگم نے اسے دوبار پکارا مگر وہ گم سم کھڑا رہا۔
ریان۔۔ سمینہ بیگم نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ چونکا۔ ماتھے پہ پسینے کی بوندیں واضح تھی وہ اس
وقت سیڑھیوں پہ کھڑا تھا مگر اس کے قدم جیسے من بھاری ہو گئے تھے۔
جی ماما۔ ریان نے انہیں دیکھ کر کہا تو سمینہ بیگم پریشان ہوئیں۔
ریان تم ٹھیک ہو کیا ہوا ہے تمھارا چہرا اترا اترا ہے پینے پلیبھی آرہے ہیں۔
سمینہ بیگم کی بات پہ ریان نے ماتھے پہ ہاتھ لگایا جہاں پینے کی بوندیں واضح تھیں۔
ماما مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے عجیب سی بے چینی ہو رہی ہے کل سے کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہے مگر کیا
مجھے سمجھ نہیں آرہا۔
ریان نے اپنی ماں کے سامنے اپنی پریشانی بتائی۔
بیٹا اتنا کیوں پریشان ہو رہے ہو دیکھو سب ٹھیک ہے کچھ دیر میں مرحا تمھارے پاس ہو گی پھر تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ چلو دیر ہو رہی ہے بارات لے کر نکلنا ہے۔
سمینہ بیگم نے مسکرا کر کہا تو ریان نے بھی گہری سانس لے کر مسکرانا چاہا مگر وہ مسکر ا بھی ناسکا۔
ریان نیچے پہنچا تو سب لوگ بارات کے جانے کے لیے تیار کھڑے تھے دادا جان نے اس کی نظر اتاری اور صدقہ دیا۔
سب لوگوں کے چہرے پر خوشی تھی سوائے ریان کے۔
یا سر کو ساحر کا میسج ملا تو وہ پریشان ہو کر فورا گھر کی طرف آیا تھا۔ رملہ پھو پھو کو اس نے اویس صاحب کلاور سہیل صاحب کی نگرانی میں چھوڑا تھا۔
یا سر گھر پہنچا تو میں گیٹ کھلا ہوا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا اندر آیا مگر ساحل کو خون سے لت پت دیکھ کر اس کے چہرے پہ خوف چھایا تھا۔
گارڈن بکھر اہو اتھا۔
یا سر نے بھاگ کر پورا گھر چھانا مگر پورا گھر خالی تھا ساحر اور مر حا کہیں نہیں تھے۔
ساحر کا موبائل بھی گارڈن میں ٹوٹا پڑا تھا۔
مرحا کی ٹوٹی چوڑیوں کے ٹکڑے بھی پڑے تھے۔
یا سر ساحل کے پاس آیا اور اس کے چہرے پر پانی ڈالا۔
ساحل نے آنکھیں کھولیں۔
یا۔۔ یا سر مر حا۔۔ لالا ۔۔۔ وہ حاشر ۔۔ انہیں لے گیا۔۔ جلدی۔۔ کچھ کرو۔۔ ررر۔ ریان کو۔۔ بتاؤ۔۔ وہ کچھ ۔۔ نماط کر دے گا۔۔
ساحل نے سنبھلتے ہوئے کہا تو یا سر کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔
ساحل سائیں آپ ہسپتال چلیں آپ ٹھیک نہیں ہیں۔
یا سر کی بات پہ ساحل نے گردن نا میں ہلائی۔
یا سر میں۔۔ ٹھیک ہوں۔۔ میں اس کنڈیشن۔۔ کو سنبھال سکتا۔۔ ہو۔۔ تم مرحا کو ۔۔ بچاؤ۔۔
ساحل کی بات پر یا سر اندر بھاگا اور ایک دو پٹہ لا کر ساحل کے پیٹ پر کس کر باندھا تا کہ اس کا خون رک جائے اسے ساتھ میں پانی پلایا وہ اسے اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔
اس نے ساحل کو سہارا دے کر گاڑی میں ڈالا اور ریان کے گھر کی طرف چل دیا۔
بارات جانے جو تیار کھڑی تھی۔ سب ہال میں ہی موجود تھے کہ جب یا سر ساحل کو سہارا دیتا اندر داخل ہوا۔
یا سر کو ساحل کے ساتھ اس حال میں دیکھ کر سب پریشان ہوئے تھے۔
یا سر کیا ہوا ہے ساحل تم ٹھیک ہو۔
ریان نے پریشانی سے پوچھا۔ ساحل کے بارے میں ساحر اسے صبح ہی بتا چکا تھا اس لیے اس کی
موجود گی پہ اس نے کوئی ہنگامہ نہیں کیا تھا۔
شیری اور مینی بھی آگے آئے تھے۔
ریان بھائی حاشر وہ حاشر ساحر لالا اور مرحا کو لے گیا۔
یا سر کے الفاظ تھے یا کوئی تیز دھار منجر جس نے ریان کے دل کو چیر دیا۔
لک کیا کیا بول رہے ہو یا سر۔
ریان کو اپنی گھبراہٹ کی وجہ سمجھ آگئی تھی وہ پریشان تھا اس کا دل کل سے بے چینی کا شکار تھا۔
ریان ۔۔ وہ حاشر اپنے ۔ آدمیوں کے ساتھ آیا تھا۔۔ اس نے لالا۔۔۔ کو بھی زخمی کر دیا۔۔ میں نے
روکنا چاہا تو ۔۔ اس نے۔۔ مجھ پہ۔۔ بھی وار کر دیا۔۔ وہ مرحا اور ۔۔ لالا دونوں کو۔۔ لے گیا۔۔
حاشر نے توڑ توڑ کر لفظ ادا کیے تھے۔
شاہ میر شایان ڈریسنگ کرو ساحل کی فاسٹ۔
شیری نے ان دونوں سے کہا تو وہ ہاں میں گردن ہلا کر جلدی سے اس کی مرہم پٹی کرنے لگے۔
ریان کے پیروں سے کسی نے زمین کھینچ لی تھی۔
ریان ہمیں مرحا کو ڈھونڈنا ہے او کے اس طرح پریشان نہیں ہو ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔
شیری نے اسے کندھوں سے تھام کر کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
عمل کھڑی مسکرا کر سب دیکھ رہی تھی۔ اسے سکون مل گیا تھا۔ فائینلی مرحا اس کی زندگی سے نکل گئی تھی اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔
ریان بھائی مرحا کے گلے کا لوکٹ اس سے ہم اس کی لوکیشن نکال لیں گے۔
عینی نے ریان کو یاد دلایا تو وہ بھاگ کر اپنے روم سے لیپ ٹاپ لے کر آیا اور اپنا موبائل اس سے کنیکٹ کیا۔
یہ بات سن کر عمل کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں تھی۔۔ وہ اپنا پلان فیل نہیں ہونے دے سکتی تھی اس لیے وہ خامشی سے نظر بچاتی اپنے روم میں آگئی اور فورا حاشر کو کال ملائی۔
عینی کی نظر سے عمل کا یوں غائب ہونا بیچ نہیں پایا تھا۔ شاہ میر اسے ساری حقیقت بتا چکا تھا اس لیے وہ عمل پہ نا محسوس انداز میں نظر رکھے ہوئے تھی ابھی اس کا یوں نائب ہونا اسے الجھا گیا تھا۔
ریان بھائی خاموشی سے میرے پیچھے آئیں۔
مینی نے کہا اور عمل کے پیچھے پیچھے خاموشی سے چل دی۔
عمل نے کمرے میں آکر حاشر کو ملائی۔
ہیلو بات سنو میری غور سے اس مرحا کے پاس ایک لوکٹ ہے جس سے ریان اس کی لوکیشن کا پتا لگا سکتا ہے وہ لوکٹ فورا اس سے کے کر پھینک دو۔
عمل نے حاشر سے کہا تو اس نے اسے تسلی دی کہ وہ ریان کو مر حاتک نہیں پہنچنے دے گا۔
عمل نے حاشر سے بات کر کے کال کٹ کی جیسے ہی وہ مڑی ایک زناٹے دار تھپڑ نے اس کو بیڈ پر گرا دیا۔
عمل نے بے یقینی سے چہرے پہ ہاتھ رکھ کر دیکھا تو عینی آنکھوں میں طیش لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
مینی کے پیچھے ریان شایان شاہ میر اور شیری کھڑے تھے۔
عمل سنبھل کر کھڑی ہوئی تو ریان نے آگے بڑھ کر اس کا گلہ دبوچا۔
مرحا کہاں ہے عمل۔ جو اب دو مرحا کہاں ہے۔ میں نے کہا تھا نا کہا تھانا اس سے دور رہنا بولا تھا نا میں نے اسے تمھاری وجہ سے کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔
ریان اس کے منہ پر دھاڑا تھا۔
عمل کی گردن پہ اس کی گرفت سخت ہو گئی تھی
شیری شایان اور شاہ میر نے مل کر اسے بہت مشکل سے کنٹرول کر کے عمل سے دور کیا۔
چھوڑ مجھے شیری میں جان لے لوں گا اس کی۔ میں نے وارن کیا تھا اس کو میں نے کہا تھا مر حاکو ہرٹ نے کرنا میں بہت بر احشر کروں گا مگر اس نے میری بات نہیں مانی میں جان سے مار دوں گا اسے۔ ریان غصے سے چیخ رہا تھا۔
ریان اس وقت مرحا کو ڈھونڈنا ہے اس سے بعد میں نمٹیں گے ہم ابھی مرحا کا ملنا زیادہ ضروری ہے چلو میرے ساتھ۔
شیری زبر دستی ریان کو باہر لایا تھا۔
ریان کی چیخ پکار سب نے سنی تھی اس وقت وہ ایک بھر اہوا شیر لگ رہا تھا جسے کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
عینی نے عمل کو بالوں سے پکڑا اور اسے گھسیٹتے ہوئے ہال میں لائی۔
عینی نے زور دار تھپڑ کی وجہ سے اس کے ہونٹ سے خون رسنے لگا تھا۔
سب گھر والے حیران پریشان تھے ۔
اے لڑکی چھوڑو میری بچی کو تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری بچی پہ ظلم کرنے کی۔
عمل کی ماں نے آکر فورا اسے چھڑوانا چاہا تھا۔
آپ کی یہ بچی بچی نہیں ہے شیطان ہے شیطان اس حاشر ساتھ مل کر اس نے مر حا کو غائب کروایا ہے۔
عینی اتنی زور سے دھاڑی تھی کہ وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہوئی۔
ریان بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پہ سے ٹرینگ سسٹم موبائل پر کنورٹ کر رہا تھا تا کہ مرحا کی لوکیشن اس کے موبائل پہ رہے۔
ریان نے اپنی شیروانی اتار دی تھی۔ اس نے موبائل ہاتھ میں تھاما اور باہر کی طرف بھاگا تھا۔
شیری نے عینی کو چینج کر کے پیچھے آنے کی ہدایت کی اور خود بھی ریان کے پیچھے نکل گیا۔ شایان شاہ میر کے ساتھ ساحل بھی ریان کے پیچھے گیا تھا۔
اس وقت وہ خود ڈرائیونگ نہیں کر سکتا تھا اس لیے شایان اسے اپنے ساتھ کار میں لے گیا تھا۔
ریان اپنی بائیک پہ گیا تھا جبکہ شاہ میر نے بھی بائیک ہی نکالی تھی۔
سب لوگ ریان کے پیچھے ہی تھے کیونکہ لوکیشن ریان کے پاس ہی آرہی تھی۔
عینی کپڑے چھینج کر دس منٹ میں ہی شایان کی بائیک پر نکل گئی تھی۔
یا سر نے حال پہنچ کر سب مہمانوں سے معذرت کری تھی اور سہیل صاحب کو اولیں صاحب کے ساتھ ہی بھیج دیا تھا۔
رملہ نے ضد لگائی تھی کہ وہ بھی ان لوگوں کے پاس جانا چاہتی ہیں حویلی والوں کو ان کے کیے کی سزامل جانی چاہیے۔
رملہ کی بات پہ یا سر بھی ساحل سے کونٹیکٹ کر کے ان لوگوں کے پیچھے ہی نکل گیا تھا۔
ریان بہت زیادہ رش بائیک چلا رہا تھا۔ مرحا کی لوکیشن اب بھی آن تھی جس کا مطلب تھا وہ اوکٹ اب بھی مرحا کے پاس تھا۔ ریان کو کچھ بھی غلط ہونے سے پہلے مرحاتک پہنچنا تھا اور ساحر کو بھی با حفاظت گھر واپس لانا تھا۔
ساحر ایمان کو شوہر تھا اس کی جان سے پیاری بہن کا سھاگ تھا وہ۔ جاتے وقت اس نے ایمان کی آنکھوں میں امید دیکھی تھی کہ اس کا بھائی اس کے شوہر کو واپس لے آئے گا۔
ریان کو کیسے بھی ان دونوں کو صحیح سلامت واپس لانا تھا۔
اس کی آنکھوں میں بار بار مرحا کا معصوم چہرہ لہرا رہا تھا وہ زندگی تھی اس کی مرحا پہ ایک آنچ بھی نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔ اس نے دل سے دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کی مرحا کی حفاظت کریں اور جلد اسے مرحاتک پہنچادیں۔
حاشر نے عمل کے کہنے پہ مر حا کو اچھی طرح دیکھا تھا مگر اس کے گلے میں کوئی لوکٹ نہیں تھا۔
حاشر مطمئن ہو گیا تھا شاید مر جانے وہ لوکٹ پہنا نہیں ہے۔
گھر پہ کھینچا تانی میں وہ لوکٹ مرحا کے گلے سے گرا تھا جس کو اس نے فورا تھاما تھا کیونکہ اسے ریان کی بات یاد تھی کہ یہ لوکٹ اپنے گلے سے نہیں اتر نے دینا اس لیے اس نے اس لوگٹ کی چین وہی پھینک دی تھی اور لوکٹ کو اپنی مٹھی میں دبالیا تھا۔
اس وقت بھی وہ لو کٹ مرحا کے زخمی ہاتھ میں موجود تھا۔ زور سے کلائی پکڑنے کی وجہ سے مرحا کی چوڑیاں ٹوٹ گئی تھیں جو اس کے ہاتھوں کو بھی زخمی کر گئی تھیں۔
مرحا کی سسکیاں گاڑی میں گونج رہی تھیں۔
مرحا کے دل سے بس ایک دعا نکل رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ جلد سے جلد ریان کو اس کے پاس بھیج دیں۔
ارے ارے مرحابے بی کتنا رو گی دیکھو تو کتنی آنکھیں سو جالی ہیں تم نے رورو کر۔
حاشر نے اس کے چہرے کو چھونا چاہا تو اس نے اس کا ہاتھ پیچھے دھیکلا۔
حاشر نے غصے سے اس کی گردن دبوچی اور اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کیا۔
زیادہ اکثر مجھے مت دیکھا نا بے بی میں ریان نہیں ہوں جو تمھیں پلکوں پہ بیٹھاؤں گا۔
ہاں اگر آج کی رات مجھے تمھارے اس حسن سے سکون ملا تو پھر شاید میں تمھیں پلکوں پہ بیٹھاؤں۔
حاشر نے کمینگی سے ہنستے ہوئے کہا۔
حاشر نے جھٹکے سے مرحا کو چھوڑا۔
حاشر نے موبائل نکالا اور اماں صاحب کو کال ملائی۔
اماں صاحب ساری تیاری ہو گئی اچھے سے سجواد یجیے گا میرے کمرے کو آج رات بہت خاص ہے میرے لیے۔
حاشر نے مسکراتی نظروں سے مرحا کو دیکھ کر کہا۔
حاشر کی بات سن کر مر حا کو اور ڈر لگنے لگا تھا۔
اپنے قریب آنے کی اجازت اس نے ریان کے سوا کسی کو نہیں دی تھی وہ شوہر تھا اس کا۔ ریان کے
نکاح میں تھی وہ ایسے میں حاشر سوچ بھی کیسے سکتا تھا اتنی گھٹیا بات۔
رو د دیکھو پیپ پلیز مجھے بھی چھوڑ دو میں میں نمن نکاح میں ہوں ریان کے۔
مر جانے رندھی ہوئی آواز میں با مشکل کہا تھا۔
جانتا ہوں تم اس کے نکاح میں ہو مگر سوچو اس کے نکاح میں ہو کر جب تم میرے ساتھ میرے بیڈ کی زینت بنو گی تب کیا ہو گا۔ دو منٹ لگائے گا تمھارا ریان تمھیں چھوڑنے میں۔
حاشر کی بات پر مرحا کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ مطلب حاشر جانتے ہوئے کہ وہ ریان کے نکاحمیں ہے پھر بھی یہ سب کر رہا تھا۔
مرحا کو آنے والے وقت سے خوف آنے لگا تھا مگر اس نے ڈرنا نہیں تھا اسے ان شیطانوں سے ڈرنا نہیں تھا۔
تم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو گے۔۔
ریان تمھیں جان سے مار دیں گے ۔ وہ مجھے بچانے آئیں گے مجھے تم سے بچا کر لے جائیں گے تم کچھ بھی
نہیں کر پاؤ گے۔ ریان تمھاری بہت بری حالت کریں۔ مرجانے غرا کر کہا۔
حاشر اس کی اتنی ہمت دیکھ کر زور سے ہنسا تھا۔
واہ بھئی واہ چڑیا کی بھی آواز نکلنے لگی ہے۔ میری جان تمھاراریان تمھیں ڈھونڈ بھی نہیں پائے گا تمھیں کیا لگ رہا ہے میں تمھیں حویلی لے کر جاؤں گا تاکہ ریان آئے اور تمھیں لے جائے نابے بی نا میں تمھیں دوسرے گاؤں لے جارہا ہوں۔ ریان سے بہت دور ۔
حاشر نے ہنستے ہوئے کہا۔
ریان پلیز آجائیں آپ کے سوا مجھے کسی نے ہاتھ لگایا تو میں مر جاؤں گی ریان آپ کی مر حامر جائے گی۔
مرجانے روتے ہوئے زیر لب ریان کو پکارا تھا۔
ہمت رکھنا میری جان تمھارا ریان تمھیں کچھ نہیں ہونے دے گا میں بچالوں گا تمھیں مرحا میرے ہوتے ہوئے تمھیں کوئی غلط نظر سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ بس ہمت رکھنا میری جان میں آرہا ہوں تمھارے پاس۔
ریان دل ہی دل میں مرحا سے مخاطب تھا۔
کانوں میں بلوٹوتھ لگا تھا جس سے وہ گروپ کال کے ذریعے سب سے رابطے میں تھا۔
ریان نے مرحا کو جو لوکٹ دیا تھا وہ کوئی معمولی لوکٹ نہیں تھا اس میں ایک ٹریکینگ ڈیوائس لگی تھی۔
یہ بھی عینی کا ہی آئیڈیا تھا جس کی وجہ سے آج وہ آرام سے مر جاتک پہنچ سکتے تھے۔
ریان کی نظر موبائل پر موجود سسٹم پر پڑی۔
مرحا کا لوکٹ ایک جگہ رک گیا تھا شاید حاشر اسے اس جگہ لے کر پہنچ چکا تھا جہاں اسے پہنچنا تھا۔
ریان نے بائیک کی اسپیڈ اور تیز کر دی تھی۔
سب لوگ ہی اس کے پیچھے آرہے تھے۔
حاشر نے مرحا کی کلائی پکڑ کر اسے کھینچ کر باہر نکالا۔
یہ بھی ایک حویلی تھی مگر یہ لال حویلی نہیں تھی یہ الگ جگہ تھی۔ مر جانے اس جگہ کو نہیں پہچانا تھا۔
دو آدمیوں نے ساحر کے بے جان وجود کو دوسری گاڑی سے نکالا۔
لالا ساحر لالا ساحر لالا انھیں پلیز آنکھیں کھولیں اپنی لا لا پلیز اٹھ جائیں۔
مرجانے ساحر کو دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیا۔
حاشر نے ایک زور دار تھپڑ مرحا کے چہرے پر مارا تو سنبھل نہیں پائی اور زمین پر گری۔
گرنے کی وجہ سے اس کا لوکٹ ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔
حاشر نے مرحا کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا تو اس کا دوپٹہ جو پن سے اٹکا ہوا تھا سر سے پھسل گیا۔
حاشر گھسیٹتا ہوا اسے ہال میں لایا جہاں اماں صاحب ماجد امجد موجود تھے۔
حاشر نے لا کر مر حاکو اماں صاحب کی طرف پھینکا تو وہ ان کے قدموں میں جاگری۔
اماں صاحب کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔
شاباش حاشر شاباش تم نے ہمارا دل خوش کر دیا آخر اس لونڈیا کو تم لے ہی آئے۔
اماں صاحب نے مرحا کو دبوچتے ہوئے کہا۔
ان کی پکڑا اتنی سخت تھی کہ مرحا کو اپنا جبڑا ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔
حاشر کے آدمیوں نے ساحر کو ایک کرسی پر بیٹھا کر باندھا تو حاشر نے پانی کا جگ اٹھایا اور ساحر پر انڈیل دیا۔
اٹھولا لا اٹھو دیکھو اپنی بہن کی بربادی دیکھو۔ دیکھو حاشر خان جیت گیا دیکھو حاشر نے ہرادیا اس ریان کو لے آیا میں مرحا کو سب سے دور ۔ بابا بابا۔
حاشر نے اس کا گال تھپتھپایا اور دوبارہ اس پر پانی ڈالا تو ساحر کی آنکھیں کھلنے لگیں۔
مرحا۔۔ اس نے مدھم آواز میں مرحا کو پکارا۔
لالا انھیں پلیز لا لا اٹھ جائیں۔
مرحا کی آواز کانوں سے پڑتے ہی ساحر نے خود کو سنبھالتے ہوئے آنکھیں کھولی تو سامنے کا منظر اس کے سامنے ظاہر ہوا۔
اماں صاحب مرحا کی کلائی پکڑی ہوئی اسے ساحر کی طرف آنے سے روک رہی تھیں۔
ایک صوفے پہ امجد اور ماجد دونوں بیٹھے تھے۔ جبکہ حاشر اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
ساحر سمجھ چکا تھا یہ سب ان لوگوں کی چال تھی یہ سب حاشر نے اکیلے نہیں کیا تھا اس میں یہ لوگ بھی شامل تھے اور یہ جگہ بھی کوئی دوسری تھی ساحر بھی اس جگہ سے انجان تھا۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ امجد کو بھی اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ کیوں لائے ہو تم لوگ مرحا کو یہاں کیا مقصد ہے تم لوگوں کا۔
ساحر نے بیچ کر کہا۔ اس کا سراب بھی بہت دکھ رہا تھا۔
ہاہاہا مر حا کو تو حاشر لایا ہے آخر میرے بیٹے کی پسند ہے اسے ہی ملے گی۔
اماں صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔
آپ کو شرم آنی چاہیے وہ نکاح میں ہے ریان کے۔
ساحر غصے سے چیخا۔
ارے تو کیا ہوا اس سب کے بعد تو ریان اسے ویسے ہی طلاق دے ہی دے گانا۔
اماں صاحب کے چہرے پہ اب بھی مسکراہٹ تھی۔
حاشر مرحا کی طرف بڑھا تو وہ رونے لگی۔
نمن نہیں پلیز ززز۔۔۔ کیچ چھوڑ دو مجھے ۔۔ میرے۔۔ پیپ پاس نئن نہیں آنا۔۔
مر حا روتے ہوئے اس سے دور ہونے کی کوشش کر رہی تھی مگر اماں صاحب نے اس کی کلائی مضبوطی سے پکڑ رکھی تھی۔
حاشر دور رہ میری بہن سے میں جان لے لوں گا تیری کمینے میری بہن کو ہاتھ بھی مت لگانا۔
ساحر نے چیخ کر کہا وہ خود کو رسیوں سے آزاد کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔
حاشر نے مرحا کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اس کی کمر کے گرد اپنے باز و حائل کیے اور اسے گرد اپنے باز و حائل کیے اور اسے گود میں اٹھالیا۔ چھیچ چھوڑو مجھے نہیں کرو رحم کرو پلیز جانے دو مجھے چھوڑ دو لالا پلیز مجھے بچائیں لالا۔
مر حا روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔ بن پانی کی مچھلی کی طرح پھڑ پھڑا رہی تھی مگر حاشر نے اسے نہیں چھوڑا۔
حاشر چھوڑ دے میری بہن کو میں جان لے لوں گا تیری چھوڑ دے اسے خدا کا خوف کر وہ نکاح میں ہے۔۔۔
حاشر بری طرح چیخ رہا تھا مگر حاشر کو تو جیسے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔
اماں صاحب سکون سے بیٹھی پان کھا رہی تھیں جبکہ امجد اور ماجد سکون سے بیٹھے سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔
آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے ایک معصوم کے ساتھ آپ لوگ ایسی زیادتی کیسے کر سکتے ہیں۔
ساحر نے غصے سے سامنے بیٹھے بے حس لوگوں کو بولا جو ساحر سے ایسے انجان بنے بیٹھے تھے جیسے وہ یہاں موجود ہی نا ہو
ساحر بے بسی کی انتہا پہ تھا۔
ساحر نے آنکھیں بند کر کے اپنا سر اوپر اٹھایا۔
اے میرے اللہ میں بے بس ہوں لاچار ہوں تو رحیم ہے میرے مالک تو ہر چیز پر قادر ہے تجھے واسطہ
ہے میرے اللہ ساری زندگی میں نے کوئی ایک عمل ایسا کیا ہوا جس سے تو راضی ہوا ہو تو میرے رب تو اس معصوم کو بچالے میرے اللہ مرحا کی عزت کی حفاظت کرنا اسے بچالے میرے اللہ تو رحم کرنے والا ہے ہم گناہگار بندے ہیں اللہ تو ہم پر رحم کر دے میرے مالک میری بہن کو بچالے میری بہن کی عزت کی حفاظت فرما۔
ساحر نے اپنے رب کے آگے جھولی پھیلائی تھی آنسو اس کی آنکھ سے بہہ نکلے تھے۔ آج مرحا کے ساتھ کچھ بھی غلط ہو جاتا تو وہ تو جیتے مر جاتا کیا منہ دیکھاتا وہ اپنی بہن کو ریان کو کہ وہ اپنی بہن کی حفاظت نہیں کر سکا۔ اس نے اپنے رب سے دعا مانگی تھی اور اللہ تو غفور و رحیم ہے وہ اپنے بندوں کو دکھ تکلیف میں اکیلا نہیں چھوڑ تا وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور جس تڑپ سے ساحر نے دعا کی تھی بھلا کیسے ممکن تھا کہ اس کا رب اس کی دعا نہیں سنتا۔
0 Comments
Post a Comment