تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 38
طوبیٰ صدیقی
°°°°°°
💖💖💖
پیاری بہنوں کریڈٹ کارڈ چلے گا۔ دل کھول کر شاپنگ کرنا۔ کیونکہ کیش یا چیک تو میں نہیں لایا۔
شمایان نے کارڈ ہوا میں لہرایا تو ایمان اور ماریہ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
ریان شیری اور شہیر حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے کیونکہ اس نے تو کہا تھا کہ وہ ایک روپیہ دیے بنا اپنے کمرے میں جا کر دیکھائے گا۔
یہ ان کو کیا ہو گیا جل تو کچھ اور ہی بول رہے تھے۔
شہیر نے سرگوشی کی۔
بیوی سے ڈر گیا ہو گا کہیں روم میں دیر سے آنے پہ مار ہی نالگا دے۔
شیری کی بات پہ دونوں کا قہقہ چھوٹا تو ایمان ماریہ اور شایان انہیں دیکھنے لگے۔
تینوں ایک ساتھ چپ ہو گئے۔
ٹھیک ہے ہم کام چلا لیں گے۔
ایمان نے کارڈ کیا اور ماریہ نے اس کا روم کھولا تو فورا روم میں بھاگ گیا اور اندر سے روم لاک کر لیا۔
ایماااان
ماریہ نے صدمے سے اسے پکارا۔
کیا ہو ابھا بھی۔
ایمان نے پوچھا۔
چونا لگا گئے شایان بھائی ہمیں۔
ماریہ نے کارڈ ایمان کو دیکھایا
ایمان کے ہاتھ سے ریان نے کارڈ کے کر چیک کیا تو وہ اپنی ہنسی روک نہیں پایا۔
شایان ان دونوں کو اپنا ایکسپائر کریڈٹ کارڈ دے کر چلا گیا۔
ہا ہا ہا سو سیڈ لیڈیز مگر ایک آئیڈیا دوں۔
شیری نے سر گوشی نما انداز میں کہا تو ایمان اور ماریہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگیں۔
کل عینی کے سامنے بول دینا شایان نے تمھیں نیک نہیں دیا لڑ کی سمجھ کر پاگل بنا دیا پھر شایان سے کیش
کارڈ سب وہ خود نکلوالے گی۔
شیری کی بات پہ سب بہنے تھے۔
شاہ میر نے روم لاک کیا اور نور کی طرف دیکھا۔
وہ اپنا سارا حسن سمیٹے بیڈ پہ اپنا لہنگا پھیلائے جھکی نظروں کے ساتھ بیٹھی تھی۔
شاہ میر چلتا ہو انور کے پاس آیا اور اس کے سامنے بیٹھا۔
آنکھیں اس کے حسین چہرے کا دیدار کر رہی تھیں۔
نور نروس ہونے کی وجہ سے اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
شاہ میر نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔
کیوں ان پر ظلم کر رہی ہو اتنی پیاری نازک سی انگلیاں ہیں۔
شاہ میر نے کہہ کر نور کا ہاتھ چوما تو اس کا سر شرم سے اور جھک گیا۔
بہت بہت بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ شاید اتنی خوبصورت دلہن میں نے دیکھی ہی نہیں ہے یا آج میرا نظریہ بدل گیا ہے۔
شاہ میر نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
شاہ میر نے سائڈ ٹیبل کی دراز سے ایک ڈبی نکالی اور کھول کر نور کے سامنے کی۔
میری پیاری سی بیوی منہ دیکھائی۔
شاہ میر نے مسکرا کر کہا اور ڈبی میں سے نفیس سا گولڈ کا بریسلیٹ نکال کر نور کی نازک کلائی میں پہنایا۔
ارے واہ یہ تو تمھاری کلائی میں جاکر اور چھپکنے لگا۔
شاہ میر نے مسکرا کر کہا اور نور کی کلائی پر بندھے بریسلیٹ پر اپنے لب رکھے۔
نور نے اپنا ہاتھ شاہ میر کے ہاتھ سے نکالنا چاہا مگر اس نے نور کی کلائی اور مضبوطی سے تھامی۔
نور اس وقت بہت زیادہ نروس ہو رہی تھی۔
اس کا شر مایا گھبر ایا روپ شاہ میر کی دل کی دھڑکنوں میں الگ ہی رقص پیدا کر رہا تھا۔
شاہ میر نور کے اور قریب ہو ا تو وہ بیڈ کراؤن سے جاگی۔
شاہ میر کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔
میری جان پیچھے راستہ ختم ہو گیا اب تمھیں میری ہی باہوں میں آنا ہے۔
شاہ میر نے کہہ کر بیڈ کراؤن کے دونوں طرف اپنے ہاتھ رکھے اور نور کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔
شاہ میر کی گرم سانسیں نور کے چہرے کو جھلسا رہی تھیں۔
نور نے اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کر رکھی تھی۔
شاہ میر نے اس کی نتھ پہ اپنے لب رکھے تو نور نے اپنا دوپٹہ دونوں ہاتھوں میں جکڑ لیا۔
دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا۔
شاہ میر کو اس کا گھبرانا محظوظ کر ہا تھا۔
اس نے آہستہ نور کی کمر کے گرد اپنے ہاتھ رکھے اور جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا۔ وہ بے ساختہ شاہ میر کے سینے سے جالگی۔
اپنے ہاتھ سے نتھ کھول کر نور کے لبوں کو اپنی قید میں لے گیا۔
نور کی سانسوں کو اپنی سانسوں میں الجھا کر شاہ میر جیسے ہوش کھو گیا تھا۔
نور کی سانسوں کو تنگ کر کے وہ پیچھے ہوا تو نور شرما کر اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی۔ شاہ میر نے مسکرا اسے اپنی باہوں میں بھرا۔
شاہ میر نے پوری رات اس پر اپنی چاہت کی بارش کی تھی۔
کسی بہت قیمتی چیز کی طرح وہ بہت محبت اور چاہت سے نور کو اپنا بنا گیا تھا۔
نور شاہ میر کی محبت پا کر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی۔
نور کے روم روم پہ شاہ میر اپنی محبت کی مہر لگا گیا تھا۔
شایان کمرے میں آیا تو عینی آئینے کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اتار رہی تھی۔
عینی ڈارلنگ بہت زیادہ جلدی نہیں ہو رہی تھی تمھیں سب اتارنے کی۔ کم سے کم اپنے شوہر سے تعریف تو وصول کر لیتیں۔
شایان نے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر خفگی سے کہا۔
اففف شایان تمھیں نہیں پتا ایسا لگ رہا تھا کسی نے مجھے زنجیروں میں قید کر لیا ہے۔ تمھیں پتا ہے نا مجھ سے یہ سب نہیں پہنا جاتا یار۔
عینی نے بے چارگی سے کہا تو شایان مسکرایا۔
اس نے سوچ بھی کیسے لیا تھا کہ عینی میڈم بیڈ پہ بیٹھی شرماتی گھبراتی اس کا انتظار کر رہی ہو گی۔
شایان نے سرد آہ بھری اور عینی کی ہیلپ کرنے لگا۔
اس نے عینی کے بالوں سے چین نکالی تو اس کے بالوں میں لگا ایکسٹینشن نکل کر شایان کے ہاتھوں میں آگیا۔
شایان سٹپٹا گیا۔شایان کی شکل دیکھ کر عینی کو شرارت سوجھی۔
شایااااان یہ کیا تم نے میرے بال ہی جڑ سے نکال دیے۔
عینی نے آنکھوں میں غصہ لے کر اسے دیکھ کر کہا۔
عینی سنن نہیں یار یہ میں نے سن نہیں پتا نن نہیں کیسے ہو گیا۔
شایان کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں تھیں مگر شایان کا ہاتھ ایکسٹینشن کے اوپری حصے پہ گیا تو وہ اس کو صحیح سے چیک کرنے لگا۔
عینی مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
مینی کی بچی اس وگ کو تم بال بول رہی ہو میری جان نکال دی تم نے۔
شایان نے غصے سے کہا تو عینی زور زور سے ہننے لگی۔
با بابا با تم سچ میں بے وقف ہو یا میرے سامنے بنتے ہو میر یسلی ایسے ہی کیا کسی کے بال ہاتھ میں آجائیں گے ہا ہا ہا ہا۔
عینی زور زور سے ہنس رہی تھی۔ شایان اس کی مسکراہٹ میں کھویا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا مینی کی مسکراہٹ بہت خوبصورت تھی۔
دیکھنے میں وہ بالکل انگریز لگتی تھی۔شایان اسے بنا پلک چھپکے دیکھے گیا۔
شایان کو ایسے دیکھ کر عینی ہنسی روک کر مسکراتی ہوئی اپنی چوڑیاں اتار نے لگی۔
شایان آہستہ سے چلتا ہوا امینی کے پیچھے آکر کھڑا ہوا اور اسے باہوں میں بھرا۔
شایان کے قربت پہ عینی کے دل نے ایک بیٹ میں کی۔ اس ہاتھ ست پڑے تھے۔
شایان نے اس کے کندھے پہ اپنے لب رکھے تو عینی گھبر اگر شایان کی طرف پلٹی۔
شایان نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔
معینی کے کندھے سے تھوڑے نیچے آتے بال اڑ کر اس کے حسین چہرے پر بکھر رہے تھے۔
شایان نے اس کے بالوں کو پیچھے کیا۔
شایان کی آنکھوں میں جذ باتوں کا سمندر دیکھ کر عینی نے کا دل زور سے دھڑ کا تھا۔
عینی ڈارلنگ تمھیں اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھو میں کیا چاہتا ہوں۔
شایان کی بات پہ عینی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ شایان مسکر اکر اسے دیکھ رہا تھا۔
شایان نے جھٹکا دے کر اسے اپنے اور قریب کیا۔ عینی اور شایان کے چہرے کے بیچ صرف ایک انچ کا فاصلہ رہ گیا۔
شایان کی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر کے عینی نے نظریں جھکائیں۔
عینی ڈارلنگ اجازت ہے۔
شایان نے خمار آلود لہجے میں کہا تو اس نے شایان کے سینے پہ اپنا چہرہ چھپا لیا۔
مینی کا اقرار شایان کے بے تابی کو اور بڑھا گیا تھا۔
عینی کو اپنی باہوں میں اٹھا کر شایان نے بیڈ پہ لٹایا اور عینی کے چہرے پہ جھکا۔
اس کے لبوں پر اپنی تشنگی مٹا کر وہ پیچھے ہو اتو عینی کا چہرہ شرم و حیا سے سرخ پڑ گیا تھا۔
شایان نے مسکرا کر اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھے۔
شایان نے پورے حق سے اسے اپنا بنایا تھا۔
مینی کو اپنے رنگ میں رنگ کر شایان نے اسے اپنی پناہوں میں چھپالیا۔
مرحا کی صبح آنکھ کھلی تو باہر سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
آج اس کی بارات تھی آج اس نے ریان کے پاس چلے جانا تھا ہمیشہ کے لیے۔
اس بات کو سوچتے ی مرحا کے چہرے پہ مسکراہٹ بھر گیا۔
اس نے موبائل اٹھایا تو ریان کی اتنی ساری مسڈ کالز دیکھ کر وہ پریشان ہوئی۔
اس نے جلدی سے ریان کا نمبر ڈائل کیا تو اس نے پہلی ہی رنگ پر کال اٹھائی۔
ہیلو مر حامیری جان تم ٹھیک ہونا کہاں تھیں یار میں نے تمھیں کتنی کالز کی اتنا پریشان ہو گیا تھا میں تمھیں اندازہ ہے۔
ریان کی آواز میں فکر مندی تھی۔سوری ریان کل رات پھوپھو سائیں سے باتیں کرتے کرتے کب آنکھ لگی پتا ہی نہیں چلا۔
مرجانے معذرت کی۔
کوئی بات نہیں میرا بچہ اتنی سے بات کے لیے اب سوری نہیں بولو۔ ابھی اٹھی ہو سو کر۔
ریان نے سوال کیا۔
جی ابھی ابھی آنکھ کھلی ہے۔
مرجانے جواب دیا تو ریان مسکرایا۔
ہم اچھی بات ہے نیند پوری کر لی تم نے اپنی ویسے بھی آج رات تمھاری نیندیں اڑا ہی دوں گا میں۔
ریان کی بات پہ مرحا کی زبان تالو سے چپک گئی۔
بے بی ڈول شرمانا چھوڑو آج رات یہ ساری شرم ہو ا ہونے والی ہے۔
ریان نے پھر شرارت سے کہا۔
ریان پلیز نہیں کریں نا۔ مرحا منمنائی۔
بے بی ابھی تو کچھ کیا ہی نہیں کروں گا تو آج رات تمھیں ڈھیر سارا پیار۔
ریان نے محبت سے کہا۔مرحا کچھ بول ہی نہیں پائی۔ شرم سے اس کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکل پار ہا تھا۔ اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ ریان کہ دیوانگی سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔ آج رات تو ریان نے کوئی لحاظ ہی نہیں رکھنا تھا۔
مرحابے بی اب اپنی سوچوں سے باہر نکلیں اور جا کر ناشتہ کریں تھوڑی جان بنائیں۔ میری شد تیں سہنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہے تمھیں۔
ریان کی بات پہ مر حاشرم سے پانی پانی ہو گئی۔ ہائے۔
مر جانے ہائے کہہ کر کال کٹ کر دی۔
ریان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی مگر اس کا دل کل سے عجیب سی بے چینی کی گرفت میں تھا۔
مرحا سے بات کر کے بھی اس کی بے چینی ختم نہیں ہو رہی تھی مگر اپنے دماغ میں کوئی بھی غلط سوچ لانے کے بجائے اس نے استغفار پڑھا اور نیچے چلا گیا۔
آج ویسے بھی مر جانے اس کے پاس آجانا تھا اس لیے وہ بس خوش رہنا چاہتا تھا۔
مگر اس بے چارے کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی بے چینی یوں ہی نہیں ہے۔ کوئی ہے جو اس کی خوشیوں پہ نظر لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی خوشیوں کو بہت جلد گرہن لگنے والا ہے۔
مرحا فریش ہو کر اپنے کمرے سے باہر آئی تو ساحر کسی کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔
اس شخص کی پیٹ مرحا کی طرف تھی اس لیے وہ سمجھ نہیں پائی کون ہے۔
گڈمارننگ لالا۔
مرحا ساحر سے کہہ کر آگے آئی مگر ساحر کے ساتھ بیٹھے ساحل کو دیکھ کر مرحا کی آنکھوں میں خوف اتر آیا۔
اس کے چہرے کی پریشانی اور ڈر دیکھ کر ساحل کو شرمندگی ہوئی تھی۔
مر حامیری گڑیا ڈرو نہیں ادھر آؤ اپنے لالا کے پاس۔
ساحر نے مرحا کا ہاتھ تھاما اور اسے لا کر اپنے ساتھ بیٹھایا۔
مرحا اب بھی خوفزدہ نظروں سے ساحل کو دیکھ رہی تھی جسے محسوس کر کے ساحل شرمندہ ہو کر رہ گیا تھا۔
مر حا ساحل تم سے معافی مانگنے آیا ہے۔
ساحر کی بات پہ مر جانے نظریں اٹھا کر ساحر کی طرف دیکھا۔
کسی بات کی معافی لالا مجھ سے میرے ماں باپ کو چھینے کی، میری زندگی اندھیروں سے بھرنے کی یا
اپنے کزن کے ساتھ مل کر مجھے دھمکانے کی مجھے ہر اساں کرنے کی معافی۔
مرجانے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
ساحل گہری سانس لے کر مر حا کے قدموں میں آکر بیٹھا تو اس نے اپنا چہرہ پھیر لیا۔مرحا میں جانتا ہوں میری وجہ سے تمھیں بیت تکلیف پہنچی ہے مگر یقین کرو تایا جان اور تائی جان کو مارنے میں میرا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔
ہاں میں حاشر کے ساتھ ملا ہو ا تھا کیونکہ اس نے مجھے یہی ظاہر کیا تھا کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔
نا مجھے اماں صاحب کے پلان کا پتا تھا کہ وہ تایا جان اور تائی جان کو جان سے مار دیں گے۔
مرحا میں نے حاشر کو بھی تمھارے نکاح کے بعد سمجھایا کہ وہ تمھارا پیچھا چھوڑ دے مگر وہ اس بات پر مجھ سے ہی لڑ بیٹھا۔
میں سالوں تک اپنے لالا سے دور رہا۔ مجھے کبھی لالا کے قریب کبھی نہیں جانے دیا گیا مگر وہ ہمیشہ مجھے اچھی باتیں سمجھاتے آئے تھے۔ پر میں بد نصیب ان کی باتوں کو سن کر سمجھ کر بھی نا سمجھ بنا رہا۔
میں جانتا ہوں میں نے تمھیں بیت تکلیف ہے پلیز مجھے معاف کر دو مرحا میرا اس سب میں قصور
صرف اتنا تھا کہ میں ان سب کے کہنے پہ چل رہا تھا۔
انہیں گاؤں کی اور حویلی کی لالچ ہے۔ مگر مجھے اس سب کا کوئی لالچ نہیں ہے۔
کیونکہ ساحر لالا اور مجھ میں ایک ہی عورت کا خون دور رہا ہے۔ میں ان سے کتنا ہی بھاگ لوں حقیقت یہی ہے کہ مجھے لالا بہت عزیز ہیں۔
مرحا مجھے معاف کر دو پلیز میں ہاتھ جوڑتا ہوں۔
ساحل نے مرحا کے آگے ہاتھ جوڑے تو اس نے فوراً اس کے ہاتھوں کو تھاما۔لالا مجھے شرمندہ نا کریں آپ بڑے ہیں ایسے ہاتھ نہیں جوڑیں۔
میں نے معاف کیا آپ کو مگر اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو ایسے ہی نہیں چھوڑوں گی۔
مرحا کی بات پر ساحل نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
ہم مل کر انہیں ان کے کیے کی سزا دیں گے۔
ساحل کی بات پہ ساحر اور مر حادونوں مسکرائے تھے۔
ساحل کسی اور سے بھی ملوانا ہے تمھیں۔
ساحر کی بات پر ساحل اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
ساحر رملہ کے پاس گیا جو ہال کے دروازے کے پاس کھڑی تھیں۔
ساحر نے ان کا ہاتھ تھاما اور اسے ساحل کے سامنے لاکر بیٹھایا۔
ساحل حیرت سے کبھی مرحا کو تو کبھی رملہ کو دیکھنے لگا۔
لالا یہ ۔۔ یہ تو پھو پھو سائیں ہیں۔
ساحل نے حیرانگی سے ساحر کو دیکھا۔
ہاں رملہ پھوپھو سائیں۔
ساحر نے جواب دیا۔
پر لالا یہ آپ کو کہاں ملیں۔ ہم نے تو سنا تھا کہ پھوپھو سائیں آپ ملک سے ہی باہر چلی گئیں تھیں۔ساحل نے انہیں گلے لگاتے ہوئے کہا۔
وہ باہر کہیں نہیں گئی تھیں ساحل وہ حویلی میں تھیں ہمیشہ سے۔
ساحر کی بات پہ ساحل کو جھٹکا لگا۔
پھر ساحر ا سے ایک ایک بات بتانے لگا۔ جسے سن کر ساحل حیرت اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں تھا۔
مجھے یقین نہیں آرہا اماں صاحب کا یہ روپ تو میں کبھی دیکھ ہی نہیں سکالا لا۔ یہ سب کیوں کیا انہوں نے مجھے سمجھ نہیں آرہاوہ اس حد تک کیسے چلی گئیں۔
تم اس عورت کو نہیں جانتے ساحل بیٹا وہ عورت نہیں ہے شیطان ہے شیطان۔ ماں کہلانے کے لائق نہیں ہے وہ۔
آج رملہ کے منہ سے پہلی بار کوئی اس طرح کی بات نکلی تھی۔
اچھا چھوڑیں پھوپھو سائیں۔ ابھی بہت ساری تیاری کرنی ہے آخر میری گڑیا کی شادی ہے آج۔
ساحر نے مسکرا کر مر حا کو کندھے سے لگایا۔
ساحل بھی سمجھ گیا تھا کہ ساحر ا بھی اس ٹاپک سے بیچ رہا ہے اس لیے اس نے بھی کوئی بات نہیں کی۔ ایک بات اور ہے جس پہ شاید تم مجھ سے ناراض بھی ہو سکتے ہو۔
ساحر نے اپنے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
ہاں پتا ہے مجھے آپ نے منگنی کر لی اور مجھے بتایا بھی نہیں۔ساحل نے منہ بنا کر کہا۔
نکاح۔۔ نکاح ہو چکا ہے میرا۔
ساحر کی بات پہ ساحل حیرت سے ساحر کو دیکھنے لگا۔
لالا آپ۔۔ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں آپ نے نکاح بھی کر لیا یہ خبر تو مجھے پتا ہی نہیں لگی۔ لالا یہ زیادتی ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا آپ کو۔
ساحل نے ناراضگی دیکھائی۔
مجھے پتا نہیں تھا میر ابھائی میری خوشیوں میں شامل ہونا چاہے گا مجھے تو ہمیشہ حویلی کے لوگوں سے دھتکار ہی ملی ہے۔
ساحر کی آواز میں درد تھا۔
لالا خدا کی قسم جب جب آپ سے کوئی بد تمیزی سے بات کرتا تھا یا اماں صاحب آپ کو کچھ کہتی تھیں مجھے بہت بر الگتا تھا۔ میں اس جگہ سے ہی چلا جاتا تھا۔
ساحل نے ساحر کو کندھوں سے تھام کر کہا۔
ساحر یہ بات جانتا تھا اس نے خود اس چیز کو دیکھا تھا جب بھی اماں صاحب اسے کچھ کہتی تھیں ساحل آگے پیچھے ہو جاتا تھا۔اچھا چلو یہ سب چھوڑو آج کوئی غم کی باتیں نہیں ہوں گی آج صرف ہم اچھی اچھی باتیں کریں گے آج میری گڑیار خصت جو ہو رہی ہے۔
ساحر کی بات پر رملہ اور ساحل بھی مسکرائے تھے۔
مرحا کے چہرے پہ بھی شرمیلی سی مسکراہٹ کھلی تھی۔
مرحا بچہ تم جاؤ ناشتہ کرو اور ابھی ریسٹ کر لو پھر پارلر والی آجائے گی تو تمھیں آرام نہیں ملے گا۔
اور اپنا سامان ایک بار دیکھ لو کچھ کمی ہے تو بتا دوں۔ ویسے تو ہو گی نہیں آخر ریان نے بھیجا ہے سب۔
ساحر نے مسکرا کر کہا تو مر جا بھی شرماتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
رملہ بھی مرحا کے ساتھ ہی اندر چلی گئیں تھیں۔
ساحل اور ساحر باہر چلے گئے تو انہیں یا سر نظر آیا۔
ساحل نے یاسر سے بھی معذرت کی کیونکہ اس کی ضد کی وجہ سے پاکیزہ پر انگلی اٹھائی گئی تھی اور اس نے یا سر کو ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ پاکیزہ اب اس کی بھی عزت ہے اس لیے وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا جس سے اس کا نام خراب ہو۔
ساحل کی بات پہ یاسر نے اسے اور ساحر کو دیکھا تو ساحر نے اسے بتا دیا کہ ساحل اس کی بہن کو پسند کرنے لگا ہے۔یا سر نے کچھ نھیں بولا مگر ساحر جانتا تھا کہ ساحل کے ماضی میں رہی حرکتوں کی وجہ سے یا سر اتنی آسانی سے ساحل پر بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔
ساحر نے یا سر کو وعدہ دیا تھا کہ وہ پاکیزہ کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دے گا اور ساحر کا وعدہ تو یا سر کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا اس لیے وہ مطمئن ہو گیا
عینی کی آنکھ اپنے چہرے پر پڑتی گرم سانسوں سے کھلی۔
شایان حیدر تم دور رہو مجھ سے پوری رات تم نے میری نیند عذاب کر کے رکھی اب پھر صبح اٹھتے ہی چھچھوری حرکتیں شروع ہو گئی تمھاری خبر دار جو تم میرے پاس بھی آئے۔
مینی شایان کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ شایان جو یہ سوچ رہا تھا کہ اب عینی اس سے ضرور شرمائے گی یہاں بھی وہ غلط ثابت ہوا۔ شایان حیدر تمھارے نصیب میں شرمیلی لڑکی لکھی ہی نہیں ہے مان لو اس بات کو۔
شایان نے دل میں سوچ کر عینی کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری تھی۔
عینی ڈارلنگ تمھارا دماغ میں رات کو درست کروں گا اپنے طریقے سے ابھی کے لیے تم جاؤ اور تیار ہو آج بھائی کی بارات ہے بہت کام ہونگے۔
شایان نے عینی کو گھور کر کہا تو وہ اپنے بالوں کو جھٹکتی وارڈروب سے اپنے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلی گئی۔
عینی باہر آئی تو شایان بلو جینز پر سی گرین ٹی شرٹ پہنے بالوں میں برش کر رہا تھا۔
عینی کو دیکھ کر شایان کے ہاتھ سست ہوئے۔
ڈارک پنک کلر کی شارٹ شرٹ جس پر سلور سے ہلکا ہلکا کام کیا گیا تھا۔
ساتھ سیم کلر کا کیپری پہنے عینی شایان کے دل میں اتر رہی تھی۔
کیا بات ہے میری قربت نے تو تمھیں اور زیادہ نکھار دیا ہے۔ شایان نے مسکرا کہا تو عینی نے اتراتے ہوئے اپنے بالوں کو ہاتھ سے سیٹ کیا۔
ڈینز ہسبینڈ میں آپ کی قربت سے پہلے سے ہی بہت حسین ہو سو بلا وجہ کا کریڈٹ نادیں خود کو۔ مینی شیشے کے سامنے آکر کھڑی ہوئی۔
با تم تو بندہ کوئی مالک بات بھی نہیں کرسکتا , شمایان نے منہ بنا کر کہا۔
عینی نے آنکھوں میں کاجل لگا یا مہکار الگا یا لائٹ سابلش لگایا اور ڈریس کی میچنگ کی لپ اسٹک لگائی۔
نازک سی جیولری پہنی۔ اپنے بالوں کو سیٹ کیا۔
شایان اس کا ایک ایک عمل غور سے دیکھ رہا تھا۔ہلکی پھلکی تیاری پر ہی وہ سراپائے حسن بنی اس پر بجلیاں گرا رہی تھی۔
تمھارا گھور نا ہو گیا ہو تو ہم چلیں باہر ۔
عینی نے شایان کے آگے چٹکی بجائی تو وہ ہوش میں آیا۔
عینی سر جھٹک کر کمرے سے باہر نکلنے لگی شایان بھی اس کے ساتھ کمرے سے باہر چلا گیا
نور آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھی جبکہ شاہ میر بیڈ پہ لیٹا مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا جس کی وجہ سے نور بلش کر رہی تھی۔
اس کے چہرے پہ شاہ میر کی محبت کے رنگ کھلے ہوئے تھے۔
شاہ میر نے پوری رات نور کو اپنی محبت کی بارش میں بھیگا یا تھا۔
نور کی شرم و حیاشاہ میں کواس کا دیوانہ کرگئی تھی۔
نور نے ڈیپ ریڈ کلر کی لونگ شرٹ جس پر گولڈن رنگ سے خوبصورت کام بنا تھا اس پر چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا۔
ساتھ گولڈن دو پٹہ ایک کندھے پہ ڈالے۔ جیولری پہنے اور لائٹ سامیک اپ کیسے وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔
شاہ میر تو اس پر سے اپنی نظریں ہٹانے کو تیار نہیں تھا مگر آج ریان کی بارات تھی اس لیے کام بھی بہت تھا تو فلحال اپنا دل مار کر اسے باہر جانا تھا۔
نور جان آپ کی رات میں خیر نہیں۔
شاہ میر نے اس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ شرم سے نظریں جھکا گئی۔
شاہ میر نے مسکرا کر اس کے ماتھے پہ لب رکھے اور اس کا ہاتھ تھام کر کمرے سے باہر چلایا۔
ریان نے اپنا پورا کمرہ بہت خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کروایا تھا۔
پورے فرش پر گلاب کی پتیاں تھیں کہ فرش کا کوئی حصہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔
چھت کو ریڈ کلر کی ڈم لائیٹس لگوائیں تھیں جو اس کے کمرے میں ایک سحر انگیز ماحول بنارہی تھیں۔
بیڈ پہ گلاب کی پتیوں سے دل بنا تھا۔
اس کی اور مرحا کی نکاح کی ایک تصویر اس نے بڑے سے فریم میں اپنے بیڈ کے اوپر لگوائی تھی۔
سائیڈ ٹیبلز پہ پھولوں کے بکے رکھے تھے۔ جگہ جگہ آرٹیفیشل کینڈلز رکھی تھیں۔
بیڈ کے چاروں طرف سفید جالی نما پر دہ خوبصورتی سے سجا تھا جس کے اوپری کونوں پر پھولوں کے بکے رکھے تھے۔
ایک سائیڈ کی دیوار پر ریان لو ومر حا پینٹ سے لکھوایا۔گلاب کے پھولوں کی مہکتی خوشبو اس وقت اس کے روم کو ایک الگ ہی تازگی بخش رہی تھیں۔
مرحا کے آنے کی پوری تیاری اس نے کر لی تھی۔ اب بس اسے اپنی جان کا انتظار تھا۔
وہ آئینے کے سامنا کھڑ ا تیار ہو رہا تھا۔آف وائٹ کرتا پاجامہ اس پر گولڈن رنگ کی شیروانی اس پہ بہت بیچ رہی تھی۔
کھلا کھلا چہرہ اور لبوں کی تراش میں مسکراہٹ ریان کو دلفریب بنارہی تھی۔
بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیا تھا۔ ہیزل لائٹ براؤن آنکھوں میں چمک تھی۔
ہلکی ہلکی داڑھی مونچھیں اس کو جاذب نظر بنارہی تھیں۔
وہ اس وقت کسی ریاست کا شہزادہ معلوم ہوتا تھا۔
ہر چیز تیار تھی سب ٹھیک تھا ساری تیاری ہو گئی تھی مگر ریان کا دل اب بھی بہت بے چین تھا اس کے دل میں عجیب سی گھبراہٹ تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
اس نے اللہ سے دعا کی تھی کہ سب کچھ خیریت سے ہو جائے۔
وہ مرحا کو اپنے پاس لانے کے لیے بے تاب تھا بنا یہ جانے کہ اس کی قسمت اسے مرحا سے دور کے جانے والی ہے۔عینی اور نور ایمان کے ساتھ ابھی ابھی پارلر سے آئیں تھیں۔
سمینہ بیگم کا حکم تھا کہ ان کی دونوں بہوئیں بہت خوبصورت لگنی چاہیں۔
خوبصورت تو وہ پہلے ہی تھیں مگر چونکہ ان کی کل ہی شادی ہوئی تھی اس لیے اپنی ساس کی خواہش پہ وہ پارلر سے تیار ہو ئیں تھیں۔
نور نے مہرون گلر کی ساڑھی پہنی تھی۔ بالوں کو خوبصورت سا جوڑا اور نفاست سے کیا گیا جس نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے تھے۔
شاہ میر تو اسے دیکھ کر سرا ہے بنا نہیں رہ پایا تھا۔
جس پہ نور کے چہرے پہ شرم سے چھائی سرخی اس کے حسن میں اضافہ کر رہی تھی۔
عینی نے ریڈ کلر کی لانگ میکسی پہنی تھی جس پہ گولڈن رنگ کا خوبصورت کام تھا۔ بالوں کو اسٹیرٹ کر کے کھلا چھوڑا تھا۔
میک اپ بہت لائٹ تھا مگر اس کے لبوں پہ لگی سرخ لپ اسٹک شایان کو گستاخیوں پہ اکسار ہی تھی جسے مینی کی گھوری نے کنٹرول کیا ہوا تھا۔
ایمان نے گولڈن اور کو پر کی فراک پہنی تھی جس پر ریڈنگوں سے کام تھا۔ میک اپ بہت ہی سوفٹ تھا۔ بالوں کا فرنٹ ہیئر اسٹائل بنا کر اس پہ مانگ ٹیکہ سیٹ کیا ہوا تھا اور باقی بال کلر ز کر کے کمر پہ کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔
نکاح کے بعد سے ایمان کے چہرے کا نکھار سب کو سکون دیتا تھا۔ ساحر کی چاہت کے رنگ ایمان کے چہرے پر صاف دیکھائی دیتے تھے جس سے سب ہی گھر والے اسے لے کر ما مطمئن تھے۔
مینی بھا بھی آپ کو پتا ہے آپ کے شوہر محترم نے کیا کرا ہے کل ہمارے ساتھ۔
سب تیار ہو کر ہال میں آچکے تھے۔ شیری بھی اپنی فیملی کے ساتھ آگیا تھا تب ایمان نے ماریہ کے
ساتھ مل کر شایان کو گھیرا۔
شایان نے اپنا سر پکڑ لیا۔
کیا کر رہے بتاؤ مجھے۔
عینی نے ایک نظر شایان کو دیکھ کر پوچھا۔
ایمان نے اسے ساری بات بتائی کہ کسی طرح شایان نے ان لوگوں کو پاگل بنایا۔
ایمان کی بات سن کر سب ہی بننے لگے تھے
شایان اپنا کریڈٹ کارڈ دیں گے پلیز -
مینی نے اتنی محبت اور مسکراہٹ لے کر شایان سے بولا کہ وہ آگے کچھ بول ہی نہیں پایا۔
اس نے خاموشی سے اپنا کارڈ نکال کر عینی کے ہاتھ میں تھاما یا تو عینی نے کارڈ چیک کیا۔
عینی کو اس ٹائم چھیڑ کر وہ اپنی عزت کا جنازہ نہیں نکلوا سکتا تھا۔
شیری شاہ میر اور شہیر کو بے چارے شایان کی شکل دیکھ کر ترس بھی آرہا تھا مگر سب سے زیادہ جنسی
آرہی تھی جسے روکنے کی وہ تینوں ہی بھر پور کوشش کر رہے تھے۔
عینی نے کارڈ ایمان کے ہاتھ میں رکھا۔
یہ لو سویٹ ہارٹ مگر اس میں اب میرا ابھی حصہ ہے۔
عینی نے ایمان سے کہا تو وہ خوش ہو گئی اور عینی کو بھی اس کا حصہ دینے کا وعدہ کیا۔
بے چارہ شایان دو کو حصہ دینے سے بچنے کے چکر میں تین کو حصہ دے بیٹھا۔
شاہ میر شیری اور شہیر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
شایان بہت افسوس ہے ہمیں آپ کی حالت پہ۔
اسے کہتے ہیں سیر کو سوا سیر ملنا۔
شاہ میر کے ساتھ شیری نے بھی لقمہ دیا تو وہ دونوں کو گھورنے لگا۔
شایان بھائی آپ کو اتنی ہو شیاری کی ضرورت ہی کیا تھا اور اسمارٹ بننے کے چکر میں آپ کا تو دیوالیہ ہو گیا۔
شہیر نے بھی بنتے ہوئے کہا۔
عینی نور ایمان اور ماریہ بے چارے کی گر بنتے دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔
گھر کے سب ہی بڑے ان کی یہ مستیاں انجوائے کر رہے تھے۔
0 Comments
Post a Comment