تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 37
طوبیٰ صدیقی
°°°°°°
💖💖💖
مہندی والی نے بہت مہارت سے ان کے ہاتھوں پیروں کو سجایا تھا۔
سمینہ بیگم تو اپنی تینوں بہوؤں پہ واری صدقے جاری تھیں۔
انہوں نے ڈھیر ساری دعائیں ان تینوں کو دی تھیں۔
عمل بھی بہت مسکرا کر سب کے ساتھ انجوائے کر رہی تھی۔ کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا اس وقت اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔
سمینہ بیگم عمل اور ایمان بھی مہمانوں کے جانے کے کافی دیر بعد بھی بیٹھی رہی تھیں۔
آرزو مرحا کی بارات تک یہی رکی ہوئی تھی جبکہ اس کی ماما اس کی نانی کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی
وجہ سے کسی پروگرام میں شرکت نہیں کر سکی تھیں۔
سب کے جانے کے بعد نور عینی اور مرحا اپنے اپنے کمروں میں چلی گئی تھی۔
کل بارات تھی نور اور عینی کو اس وقت آرام کی بہت ضرورت تھی۔
مر حاکل گھر میں رکھنے والی تھی وہ مایوں بیٹھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ بارات میں شرکت نہیں کر سکتی تھی۔
رملہ پھوپھو سائیں اس کے پاس رکی ہوئی تھیں اور یاسر نے بھی گھر ہی رکھنا تھا کیونکہ ساحر کو بارات کا پروگرام لازمی اٹینڈ کرنا تھا۔
نور اور عینی سو چکی تھیں جبکہ مرحا اپنے ماما بابا کی تصویر ہاتھ میں پکڑے رملہ کی گود میں سر رکھے لیٹی تھی۔
رملہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلارہی تھیں۔
پھوپھو سائیں بابا آپ سے بہت پیار کرتے تھے۔
آپ کو پتا ہے وہ جب بھی میرے سر پہ بوسہ دیتے تھے تو دو بار دیتے تھے کہتے تھے ایک میری مرحا کا اور دوسرا میری پیاری بہن کا کیونکہ میری مرحا کی صورت اللہ نے مجھے میری بہن بھی لوٹادی ہے۔
وہ ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ میں بالکل آپ کی طرح ہوں۔
مرحا نے مسکرا کر رملہ کو دیکھ کر کہا تو ان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
لالا بہت پیار کرتے تھے مجھ سے۔ بابا جانی اور لالا ہی تو تھے جنہوں نے ہمیشہ مجھے پیار دیا عزت دی۔
اماں صاحب نے تو کبھی بھی مجھے ممتا کا احساس ہی نہیں دلایا تھا۔ اور ماجد لالا امجد لالا وہ صرف وہ کرتے
تھے جو اماں صاحب کہتی تھیں۔
مگر لالا نے مجھ سے بہت پیار کیا ہے ہمیشہ میرا خیال رکھا ہے۔ آج اتنے سال بعد میں آزاد بھی یوں تو لالا اتنی دور کے گئے کہ میں نے سے کبھی بات بھی نہیں کر سکتی کبھی انہیں دیکھ بھی نہیں سکتی۔
رملہ کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔
مرحا بھی اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پائی تھی۔
رملہ نے مرحا کو گلے لگایا پھر خود کو مضبوط کر کے مرحا کے آنسوؤں کو صاف کیا۔ وہ اپنے بھائی کی آخری نشانی کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دے سکتی تھیں۔
ریان بہت پیار کرتا ہے تم سے مجھے بہت خوشی ہے میری جان تھیں اتنا چاہنے والا شخص ملا ہے۔
رملہ نے بات کا رخ موڑا۔
ریان کے نام پر مرحا کے چہرے پر مسکان آئی تھی۔
وہ بہت چاہتے ہیں مجھے پھو پھو سائیں۔
اگر ریان نا ہوتے تو پتا نہیں میں کیسے خود کو سنبھالتی۔ وہ اس وقت سے میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہیں جس وقت میں بالکل بے آسرا تھی۔
انہوں نے کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا میرے لیے حویلی والوں سے دشمنی مول لی۔
ریان کے بنا تو اب میں اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
مرحا نے مسکرا کر کہا تو رملہ نے اس کا ماتھا چوم کر اسے ڈھیر ساری دعائیں دی۔
خیر سے شایان شاہ میر کی بارات کا دن بھی آگیا۔
ہر طرف بارات کی تیاری چل رہی تھی۔
شایان شاہ میر کا کمرہ اب تک ایک ہی تھا مگر اب سمینہ بیگم نے شایان کے لیے ایک الگ کمرہ تیار کروا دیا تھا۔
دونوں کے کمروں کو اپ گریڈ کر کے بہت خوبصورتی سے سجاداد یا گیا تھا۔
نور اور عینی کا سامان بھی ان کے کمروں میں اڈجیسٹ کر دیا تھا۔
اس وقت دونوں کے کمرے گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہے تھے۔
شایان شاہ میر دونوں اپنے اپنے کمروں میں تیار ہو رہے تھے۔
باقی سب بھی بارات نکلنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
ریان اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھا۔
آج اس کا دل عجیب محسوس کر رہا تھا۔
ریان سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اس کا دل اتنا بے چین کیوں ہے۔ بار بار مر حا کا خیال اسے گھیرے ہوئے تھا۔
اسے لگا شاید وہ مر حاکو زیادہ یاد کر رہا ہے اس لیے بے چین ہے۔
اس نے کچھ سوچتے ہوئے مرحا کا نمبر ڈائل کیا۔
مرحا اس وقت نور اور عینی کے کمرے میں موجود تھی دونوں اس وقت دلہن کے روپ میں کھڑی قیامت ڈھارہی تھیں۔
ریڈ اور گولڈن کلر کے برائیڈل لہنگے اور خوبصورتی سے کیے گئے میک اپ میں وہ دونوں ہی بہت حسین لگ رہی تھی۔
بے بی ڈول آپ دلہن نہیں بنی۔
عیشو نے مرحا کے پاس آکر کہا۔
مرحانے عیشو کو مسکرا کر گود میں اٹھایا اور اس کے دونوں گال چومے۔
میں کل بنوں گی دلہن اور آپ مجھے یہ بتائیں کہ بے بی ڈول کس نے سیکھایا آپ کو بولنا۔
مر جانے اس کے گال کھینچتے ہوئے کہا۔
ریان چاچو نے انہوں نے تہا آپ بے بی ڈول ہو۔ تیوت کی ڈول۔
عیشو کی بات پہ مرحا کے گال سرخ وہی سب نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا۔
می ثواب یہ آپ کی چاہتی ہیں آپ ان کو چاچی بولو ماریہ نے عیشو کو سمجھایا تو وہ گردن نا میں ہلانے لگی۔
نہیں یان چاچو نے تہا ہے کہ یہ ڈول ہیں تو میں انہیں صرف چاچی نہیں بولوں دی میں انہیں ڈول چاچی بولوں گی۔
عیشو کی پیاری پیاری باتوں پہ سب ہنسے تھے۔
مرحا کا موبائل بجا تو سب نے او و و و و کیا۔
مرحا مسکراتی ہوئی موبائل لے کر کمرے سے نکل گئی کیونکہ ان لوگوں نے شور کر کے مرحا کو بات نہیں کرنے دینا تھا۔
ہیلو۔
مرحانے موبائل کان سے لگا کر کہا۔
کیسی ہے میری جان۔
محبت بھرے لہجے میں پوچھا گیا۔
میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔
میں بھی بالکل ٹھیک ہوں۔
مرحا کی بات کا جواب بھی محبت سے دیا گیا۔
ریان نے مرحا کو پکارا اس کی پکار میں عجیب سی بے چینی تھی جو مر جانے محسوس کی تھی۔
جی۔ مرجانے مدھم آواز میں کہا۔
بہت پیار کرتا ہوں تم سے کبھی مجھ سے دور نے جانا میں جی نہیں سکوں گا۔
ریان کا لہجہ عجیب تھا ڈرا ہو اسہما ہو ا سا۔
ریان میں بھلا آپ کو چھوڑ کر کیوں جاؤں گی میں ہمیشہ آپ کے پاس ہوں۔ کیا ہوا ہے آپ ٹھیک ہیں تا۔
مر جانے فکر مندی سے پوچھا۔
ہاں میرابچہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم مجھے یہ بتاؤ تم نے مجھے اپنی مہندی کیوں نہیں دیکھائی۔
ریان نے بات کا رخ موڑا وہ مرحا کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کا دل پتا نہیں کیوں اتنا پریشان تھا۔
وہ سب نے کہا تھا کہ آپ میری مہندی بارات والے دن ہی دیکھ سکیں گے۔ اس سے پہلے میں آپ کو نا دیکھاؤں آپ کا نام لکھا ہو انا مہندی پہ اس لیے ۔ آپ نے بارات میں ڈھونڈنا ہو گا۔
مرحانے منمناتے ہوئے کہا۔
ریان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔
یہ بھی ٹھیک ہے پاس سے بیٹھ کر دیکھنے کا مزہ ہی اور ہے۔
ریان نے شرارت سے کہا تو مر حاشر مائی۔
آپ تیار ہو گئے۔
مرجانے سوال کیا۔
ہم تقریبا تیار ہو گیا ہوں۔
ریان نے جواب دیا۔
اچھا سنو اپنا بہت خیال رکھنا مر حا اور لوکٹ اپنے گلے سے نہیں نکلنے دینا کچھ بھی ہو جائے۔
ریان نے مرحا سے دوبارہ کہا تو اس نے ریان کو تسلی دی کہ وہ لوکٹ کو اپنے گلے سے نہیں نکلنے دے گی۔
ریان نے مرحا سے بات کر کے شیری کو کال ملائی۔
ہاں ریان بولو میں بس نکل رہا ہوں گھر سے تھوڑی دیر میں پہنچ جاؤں گا۔
شیری نے کہا۔
شیری مرحا کے گھر کے چاروں طرف سیکیورٹی کے لیے پولیس والوں کو کھڑا کرو۔
ریان کی بات پہ شیری چونکا۔
کیا ہو اریان سب ٹھیک ہے نا۔
اس نے فکر مندی سے پوچھا۔
پتا نہیں بس میرا دل گھبر ارہا ہے آج ساحر بھی گھر پہ نہیں ہو گا پلیز تم پولیس فورس ارینج کر دو۔
ریان کی پریشانی سمجھتے ہوئے شیری نے اسے یقین دلایا کہ وہ مرحا کے گھر کے چاروں طرف سیکیورٹی
فراہم کر دے گا جس سے ریان تھوڑا مطمئن ہو گیا تھا۔
شیری نے فورا ہی اپنی ٹیم سے بات کر کے مرحا کو سیکیورٹی فراہم کر دی تھی۔
ساحر مرحا کو خیال رکھنے کا بول کر نور عینی سہیل صاحب ماریہ اور علیشو کو لے کر ہال کی طرف چلا گیا تھا۔
شیری اسے سیکیورٹی کے بارے میں بتا چکا تھا اس لیے وہ بی مطمئن ہو گیا تھا۔
گھر پہ مرحا کے پاس رملہ اور یا سر موجود تھے۔
ہال میں سب بارات کا انتظار کر رہے تھے کہ تبھی باہر سے ڈھول اور آتشبازی کی آوازیں آنے لگیں۔
دو شہزادے پوری شان و شوکت کے ساتھ اپنی شہزادیوں کو لینے پہنچ چکے تھے۔
گولڈن کلر کی شیروانی پہنے شاہ میر شایان بہت ہینڈ سم لگ رہے تھے۔
ریان اور شہیر نے وائٹ شلوار قمیض پہ گرے پر نس کوٹ پہن رکھا تھا جو سن دونوں پہ بہت بیچ رہا تھا۔
ایمان نے فل گولڈن کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا۔ لائٹ میک اپ ماتھے پہ ٹیکہ سجائے بالوں کو کھلا چھوڑے وہ ساحر کے دل میں اتر رہی تھی۔
ساحر نے وائٹ کرتا پاجامہ پر گولڈن کلر کی واسکٹ پہن رکھی تھی۔
تازہ پھولوں کی پتیوں سے بارات کا شاندار استقبال کیا گیا تھا۔
شاہ میر اور شایان کولے جا کر اسٹیج پر بیٹھا یا دیا گیا تھا۔
ساحر سارے مہمانوں سے مل رہا تھا۔ اس نے ایک اچھے بھائی کی طرح نور اور عینی کی ذمہ داری کو با خوبی نبھایا تھا۔ سہیل صاحب کو اس نے ایک کام بھی نہیں کرنے دیا تھا ہر چیز اس نے خود ہینڈل کی تھی۔
ریان بھی اپنے دادا جان کے ساتھ کھٹر اسب سے مل رہا تھا۔
لائٹس بند ہوئیں اور اسپاٹ لائٹ اون ہو کر نور اور عینی پر پڑی جو سہیل صاحب کا ہاتھ تھامے ہوئیں تھی۔
سہیل صاحب بیچ میں تھے ایک طرف نور تھی اور ایک طرف مینی۔
دونوں دلہنوں پہ خوب روپ چڑھا تھا۔
شاہ میر اور شایان بنا پلک جھپکائے حسن کی دیویوں کو دیکھ رہے تھے جو شاہانہ انداز میں چلتی ان کی طرف آرہی تھیں۔
نور اور عینی جب اسٹیج کے پاس پہنچی تو سہیل صاحب نے عین کا ہاتھ شایان کو تھامایا اور نور کا ہاتھ شاہ میر کو۔ ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑا تھا آج وہ اپنی جان سے عزیز بیٹوں کو کسی اور کے سپر د کر گئے تھے۔
اسٹیج بہت بڑا تھا جس پر دو بڑے صوفے رکھے تھے ایک شاہ میر اور نور کے لیے اور ایک عینی اور شایان کے لیے۔
ان دونوں نے آرام سے لے جاکر عینی اور نور بیٹھا یا اور خود ان کے برابر میں بیٹھ گئے۔
سب نے ان لوگوں کو مبارکباد دی۔ پھر فوٹو سیشن شروع ہوا تو کھانا لگا دیا گیا۔
کھانے سے فارغ ہو کر رخصتی کا شور اٹھا تو نور اور عینی کا دل غمگین ہو گیا وہ اپنے بابا کو چھوڑ کر پیا گھر جارہی تھیں۔
سهیل صاحب نے دونوں کو گلے سے لگایا تو وہ خود بھی اپنے آنسو روک نہیں پائے۔
ساحر لالا بابا کا خیال رکھیے گا۔
نور نے ساحر سے کہا تو اس نے مسکرا کر ان دونوں کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا۔
تم لوگ بے فکر رہو۔ ہمیشہ خوش رہو ۔ اللہ تعالیٰ تم دونوں کی نئی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے۔
ساحر نے دل سے دعا اور پھر شاہ میر اور شایان کی طرف آیا۔
میری بہنوں کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے ان کا ہمیشہ خیال رکھنا۔
ساحر نے دونوں سے ملتے ہوئے کہا تو دونوں نے ہی اسے مطمئن کیا تھا۔
اور پھر شاہ میر اور شایان اپنی اپنی دلہنوں کو رخصت کر کے لے گئے۔ نور اور عینی اپنی زندگی کی طرف قدم بڑھا گئیں۔
ساحل کل سے عجیب سی بے چینی میں گھرا ہوا تھا۔
پاکیزہ کا چہرہ بار بار اس کی آنکھوں میں لہرا رہا تھا۔
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی اس کے دماغ میں اس طرح سے چپکا ہو۔
اپنی بے چینی اور دلی کیفیت سے مجبور ہو کر ساحل نے اپنی جیپ نکالی اور گرلز کالج کے راستے پر ڈال دی۔
لڑکیوں کی چھٹی کا وقت ہو گیا تھا۔ پاکیزہ نے بھی یہیں سے گزرنا تھا۔
ساحل جیپ سے اتر کر کھڑا بے چین نظروں سے اس کا انتظار کرنے لگا۔
اور پھر وہ پاکیزہ چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آہی گیا۔
چہرے کے گرد دو پٹہ اسکارف کی صورت لینے اور اپنے وجود پر شال ڈالے وہ اپنی سہیلی کے ساتھ مسکراتی ہوئی آرہی تھی۔
پاکیزہ ساحل کے سامنے سے نظریں جھکا کر نکلنے لگی تو ساحل نے اسے پکارا۔
پاکیزہ کے ساتھ اس کی دوست بھی رکی تھی۔ ڈر سے اس کی دوست کا تو براحال ہو اتھا حویلی والوں کا قبر کون نہیں جانتا تھا۔
تم جاؤ۔ مجھے اس سے کام ہے۔
ساحل نے پاکیزہ کے ساتھ کھڑی لڑکی سے کہا تو وہ بوتل کے جن کی طرح غائب ہو گئی۔
پاکیزہ پریشانی نظریں جھکائے کھڑی تھی۔
ساحل : تم نے کسی کا خون کیا ہے۔
پاکیزہ: جی۔
حیرت بھرے لہجے میں بولی۔
ساحل: کسی کے پیسے چرائے ہیں۔
پاکیزہ: یہ آپ کیا بول رہے ہیں۔
ساحل: یا کوئی اور کانڈ کیا ہے۔
پاکیزہ: ن نہیں میں نے کچھ بھی نہیں کیا آپ یہ سب کیا بول رہے ہیں۔
آواز میں نمی تھی۔
جب تم نے کچھ کیا ہی نہیں ہے تو یہ مجرموں کی طرح سر کو جھکائے کیوں کھڑی ہو آنکھوں سے آنکھیں ڈال کر بات کرو۔
ساحل کی بات پہ پاکیزہ نے نظر اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا۔
کالی سیاہ آنکھوں پہ گھنی پلکوں کا جھرمٹ۔
ساحل اس کی آنکھوں میں کہیں کھو گیا تھا۔
اس نے فوراً نظریں چرائی تو ساحل سنبھلا۔
سائیں مجھے گھر جانا ہے خدارا مجھے جانے دیں میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔
پاکیزہ نے سہے لہجے میں کہا۔
کیا کہا تم نے۔
ساحر نے نرمی سے پوچھا۔
مجھے جانے دیں میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔
پاکیزہ نے دہرایا۔
نہیں نہیں اس سے پہلے تم نے مجھے کیا پکارا۔
ساحل دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا جس سے پاکیزہ پزل ہو رہی تھی۔
سس سائیں۔۔
پاکیزہ نے دہرایا۔
دوبار بولو۔
ساحل کی فرمائش پر پاکیزہ نے نظر اٹھا کر ساحل کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
وہ دوبارہ اپنی نظریں جھکا گئی۔
س سائیں۔
پاکیزہ کے دوبارہ بولنے پر ساحل کے لبوں پہ مسکراہٹ چھائی تھی۔
سائیں تو اسے ہر دوسرا بندہ ہی بلاتا تھا مگر آج سے پہلے اسے یہ لفظ اتنا اچھا نہیں لگا تھا۔
میں جاؤں۔
پاکیزہ نے مدھم آواز میں پوچھا۔
گاڑی میں بیٹھو میں چھوڑ دوں گا دھوپ میں پیدل چل کر کیوں اپنا چہرہ خراب کرو گی۔
ساحل کی بات پہ پاکیزہ نے گھبراتے ہوئے فوراً نا میں گردن ہلائی تھی۔ جسے ساحل نے ان دیکھا کر دیا۔
سائیں مجھے عادت ہے میں چلی جاؤں گی خدار امیر اتماشا بنے گارحم کریں سائیں۔
پاکیزہ نے نم آنکھوں سے کہا۔
کسی کی اتنی جرت نہیں ہے کہ وہ میرے ساتھ کھڑے انسان کا تماشا بنا سکے ۔ ساحل خان نام ہے میرا کوئی عام انسان نہیں ہوں میں جو مجھ سے جڑے کسی بھی انسان پہ کوئی انگلی اٹھا کے گا اور میں خاموشی سے دیکھوں گا۔
ساحل نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے کہا تو وہ اور گھبراگئی۔
پاکیزہ نے بہت کوشش کی مگر ساحل نہیں مانا مجبور اسے ساحل کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔
گاؤں کے چند لوگوں نے یہ منظر حیرت سے دیکھا تھا۔
ساحل نے اپنی جیپ یا سر کے گھر کے باہر روکی تو پاکیزہ فورا اتر کر اندر جانے لگی۔
اندر نہیں بلاؤ گی چائے پانی کچھ نہیں پوچھو گی۔
ساحل کی بات پہ پاکیزہ مڑی۔
نہیں ۔۔ لالا نہیں ہیں گھر پہ اور میر امعیار یہ گوارا نہیں کرتا کہ میں کسی اجنبی شخص کو اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں گھر کے اندر بلاؤ۔
بہت معذرت سائیں میرے لیے میری عزت بہت عزیز ہے۔
پاکیزہ کہہ کر گھر کے اندر چلی گئی اور دروازہ اندر سے بند کر دیا۔
ساحل دل کھول کر مسکرایا تھا۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اسے اس طرح جواب دے پاتا اور یہ لڑکی اسے کیا بول گئی تھی مگر ساحل کو بالکل برا نہیں لگا بلکہ اس کے اس طرح خود کو چھپانے پر ساحل کے دل کو نا جانے کیوں سکون ملا تھا۔
اپنی گھنی مونچھوں کو تاؤ دیتا مسکرا کر اس کے گھر کے پاس سے چلا گیا۔
عینی اور نور کو رخصت کر کے ساحر سہیل صاحب کو لے کر گھر آیا۔
سہیل صاحب کو ان کمرے میں چھوڑ کر دوادی اور انہیں ریسٹ کرنے کا بول کر ساحر یا سر کے پاس چلا
گیا جس نے آتے ہی ساحر سے کہا تھا کہ اسے ضروری بات کرنی ہے۔
ہاں یا سر کیا ہو اسب خیریت ہے۔
ساحر نے گارڈن میں ڈالی کرسی پر بیٹھ کر پوچھا اور یا سر کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ساحر نے ہمیشہ یاسر کو دوست کی طرح رکھا تھا اس نے کبھی اس کے اور اپنے بیچ امیری غریبی چھوٹے بڑے کا فرق نہیں آنے دیا تھا۔
یا سر ساحر سے عمر میں دس سال بڑا تھا مگر وہ ہمیشہ ساحر کو لالا ہی کہتا تھا۔
اور ساحر بھی ہمیشہ اسے اپنے سگے رشتے کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا۔
لالا آپ ساحل سائیں سے بات کریں میری بہن کی عزت خراب نا کریں۔ کیوں اس کا تماشا بنارہے ہیں وہ گاؤں میں۔
یا سر کی بات پہ ساحر آگے کو ہو کر بیٹھا۔
کیا مطلب ہے یا سر کھل کر بتاؤ ہوا کیا ہے۔
لالا ساحل سائیں نے پاکیزہ کو آج کالج کے باہر روکا اور پھر خود زبر دستی اسے گھر تک چھوڑنے گئے۔
گاؤں کے کچھ لوگوں نے یہ سب دیکھا اور پھر شام میں پاکیزہ کو جاکر بہت باتیں سنائیں کہ وہ۔۔
وہ سائیں کے ساتھ عیاشیاں کر رہی ہے۔ ان کو پھنسا رہی ہے۔
لالا میری بہن معصوم ہے وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتی آپ خود بھی جانتے ہیں اسے۔
پاکیزہ کی کال آئی تھی میرے پاس وہ بہت دور ہی تھی لالا میں اپنی بہن کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔
یاسر نے ساحر کو پوری بات بتائی تو اس کے ماتھے پر بل پڑے۔
تم رکو میں ابھی ساحل سے بات کرتا ہوں۔
ساحر نے موبائل نکالا اور ساحل کا نمبر ملایا۔
ساحل ڈیرے پر بیٹھا پاکیزہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔ موبائل بجا تو ساحل نے چونک کر موبائل دیکھا جہاں ساحر کی کال آرہی تھی۔
واہ بھئی ان کو بھی ہماری یاد آتی ہے مجھے تو لگا تھا آپ بھول گئے ہیں آپ کا کوئی بھائی بھی ہے۔
ساحل نے موبائل کو گھورتے ہوئے کہا اور کال اٹھائی۔
کیسے ہیں لالا آج میری یاد کیسے آگئی آپ کو۔
ساحل کی مسکراتی آواز ساحر کے کانوں میں پڑی۔
ساحل یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے تم نے ہاں۔
ساحر کی بات پہ ساحل اٹھ کر بیٹھا۔
اب میں نے کیا کر دیا ہے کون سا تماشا لگا لیا۔
ساحل نے حیرانگی سے پوچھا کیونکہ وہ تو کافی دن سے انسانوں کی طرح رہ رہا تھا۔ کئی دن سے تو اس نے شراب کو بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا اور ناکسی سے لڑا تھا۔
ساحل تم نے یا سر کے بہن کو زبردستی اپنی گاڑی میں بیٹھا کر اس کے گھر چھوڑا وجہ جان سکتا ہوں میں۔ تمھیں اندازہ ہے اس لڑکی کو کتنی باتیں سنی پڑی ہیں تمھاری اس حرکت کی وجہ سے گاؤں والوں نے اس کے کردار پر انگلی اٹھائی ہے۔ کیا تم بھول گئے ہو یا سر کے باپ کے ہم پر کتنے احسانات ہیں۔
میں تم سے اس سب کی امید نہیں رکھتا تھا ساحل مجھے ایک چیز کا غرور تھا کہ کم سے کم میر ابھائی عورتوں کی عزت کرتا ہے مگر تم نے آج مجھے غلط ثابت کر دیا۔
ساحر کی باتوں سے ساحل کے ماتھے کی رگیں تئی تھیں۔
لالا کس نے بکو اس کی ہے پاکیزہ کے بارے میں آپ نام بتائیں مجھے اس کی طبیعت صاف کرتا ہوں میں۔
ساحل کے انداز پہ ساحر ٹھٹکا تھا۔
یہ تو ساحل کا انداز نہیں تھا وہ تو ہمیشہ ساحر کے ڈانٹنے پر اس سے بد تمیزی کر جاتا تھا مگر آج اس کے انداز میں غصہ تھا مگر بد تمیزی نہیں تھی۔
کس نے کیا کس نے نہیں تم یہ چھوڑو ساحل مگر تمھیں اللہ کا واسطہ ہے اس معصوم لڑکی کے لیے مشکلیں مت پیدا کرو ابھی یا سر بھی نہیں ہے وہاں وہ معصوم اکیلے نہیں کر سکتی سب نہیں۔ اب تم اس کے آس پاس بھی کہیں نہیں جاؤ گے ۔
ساحر نے ساحل کو سمجھایا۔
لالا میں اسے مشکل میں ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا مجھے اچھی لگنے لگی ہے وہ جب سے اسے پہلی بار دیکھا ہے نامیر اول ہی میرے بس میں نہیں ہے ہاں لیکن اگر میری وجہ سے اس کو تکلیف پہنچی ہے تو میں اس بات کا دھیان رکھوں گا کہ آئیندہ ایسا کچھ نا ہو۔
آپ گاؤں آئیں گے تو آپ سے تفصیلی بات کروں گا۔
کیونکہ میری خواہش صرف آپ پوری کر سکتے ہیں اماں صاحب میری خواہش کبھی نہیں مانیں گی۔
ساحل کا اند از ساحر کو حیران پریشان کر رہا تھا وہ ایک ہی باری میں ساحر کی بات مان گیا تھا۔
ساحر نے موبائل کان سے ہٹا کر نمبر دیکھا کہ وہ ساحل سے ہی بات کر رہا ہے نا۔
ساحل کیا مطلب ہے کیسی خواہش۔
ساحر نے پوچھا تو ساحل مسکرایا۔
یاسر کی بہن کو اپنی زندگی میں چاہتا ہوں میں۔ پسند کرنے لگا ہوں اسے۔ اور مجھے یقین ہے میر ابھائی میری خواہش ضرور پوری کرے گا۔ آپ آجائیں گے تب بات کروں گا ابھی آپ کسی کو کچھ نہیں بولیے گالالا۔
ساحل کے لہجے میں مان تھا۔ اس نے ساحر سے پہلی بار کوئی خواہش کی تھی مگر اپنے بھائی کی خواہش کے چکر میں وہ کسی معصوم کی زندگی کو مشکل نہیں کر سکتا تھا۔
ٹھیک ہے گاؤں آکر بات کروں گا۔ ابھی فلحال نہیں آسکتا کل مرحا کی بارات ہے۔ مگر تم پلیز پاکیزہ سے دور رہنا۔
کیا واقعی لالا مر حا کی بارات ہے اور آپ نے ہم میں سے کسی کو انوائیٹ بھی نہیں کیا۔
ساحل کے تو آج رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے۔
اچھا تم لوگوں کو تو جیسے بہت فرق پڑتا ہے نا اس کی خوشیوں سے اس کے ساتھ کیا کیا کر چکے ہو تم سب کیا بھول گئے ہو۔
ساحر نے تنزیہ ہنستے ہوئے کہا۔
لالا مر حا کے ساتھ جو ہوا اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے میرا قصور صرف اتنا ہے محجبت سب پتا تھا مگر میں پھر بھی خاموش رہا۔ مگر میں نے حاشر کو سمجھایا تھا کہ وہ مر حا کا پیچھا چھوڑ دے۔ تب سے اس نے مجھ سے بھی بات چیت بند کر دی ہے۔
ساحل کے لہجے میں سچائی تھی جسے ساحر نے صاف محسوس کیا تھا۔
لالا کیا میں بارات میں شرکت کر سکتا ہوں، مجھے مرحا سے معافی مانگنی ہے میں نے بھی اسے حاشر کے ساتھ مل کر بہت ڈرایا ہے۔
ساحل نے اتنے مان سے پوچھا تھا ساحر کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا بولے۔ سمجھ نہیں آیاہ کیا بولے۔
بولیں نالالا کیا میں آسکتا ہوں۔
ساحر کو خاموش پاکر ساحل نے دوبارہ پوچھا۔
ٹھیک ہے آجاؤ مگر ساحل کوئی ہوشیاری نہیں کرنا میں وارن کر رہا ہوں میں میری بہن پر کوئی مصیبت آئی نا تو میں بھول جاؤں گا میں تمھارا بھائی ہوں۔
ساحر کی بات پہ ساحل کو خوشی ہوئی تھی۔
لالا میں کیا ہو شیاری کروں گا اور ویسے بھی میں یہاں کسی کو بتا کر نہیں آنے والا اماں صاحب مجھے زندہ زمین میں گاڑ دیں گی۔
ساحل کی بات پہ ساحر نے اسے آنے کی اجازت دے دی اور پھر کال کاٹ دی۔
ساحر کو آج پہلی بار ایسا لگا تھا کہ وہ اپنی بھائی سے بات کر رہا ہے ورنہ اب تک وہ صرف اماں صاحب کا پوتا بنا گھومتا تھا۔
دوسری طرف ساحل کو بھی آج ساحر سے بات کر کے دلی سکون ملا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے لالا سے دور رہا تھا ان کی کوئی بھی نصیحت اس نے اپنے سر پہ سوار نہیں کی تھی مگر ایسا نہیں تھا کہ وہ ان کی باتوں پر غور نہیں کرتا تھا۔
اماں صاحب نے اسے کبھی ساحر کے قریب نہیں ہونے دیا تھا۔
اب بھی شاید حاشر سے لڑائی کی ہی وجہ سے وہ ساحر سے اس طرح بات کر پایا تھا۔
وہ ہر وقت حاشر کے ساتھ رہتا تھا۔ لیکن جب اس نے مرحا کے نکاح کی خبر سن کر حاشر کو سمجھایا کہ وہ مرحا کا پیچھا چھوڑ دے وہ کسی اور نکاح میں ہے اب تب سے حاشر نے اسے بہت سنائی تھیں اور اس سے تعلق توڑ کر بیٹھ گیا تھا۔
ساحل نے بھی اسے نہیں منایا تھا کیونکہ اس کے حساب سے حاشر غلط تھا۔ جب تک مرحا کا نکاح نہیں ہوا تھا اس نے حاشر کا ساتھ دیا تھا مگر مرحا اب کسی کی بیوی تھی اور ساحل جانتا تھا کہ ریان مرحا سے پیار کرتا ہے۔
ساحرل کو اس بات کا ملال بھی تھا کہ مرحا کے ساتھ بہت غلط ہوا ہے اس لیے اس نے حاشر کو سمجھایا تھا کہ مرحا اس کا نہیں ریان کا نصیب تھی اس لیے وہ اب اس کے بارے میں ناسوچے نگر حاشر نے اسے ہی غدار قرار دے دیا تھا۔
تب سے حاشر اور ساحل میں بات چیت بند تھی جس کی وجہ سے ساحل بیت حد تک سیدھا بھی ہو گیا تھا۔
شراب بھی وہ ہمیشہ حاشر کے ساتھ پیتا تھا مگر اس سب کے بعد سے اس نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا اور خود کو محدود کر لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ آج ساحر کے قریب ہو سکا تھا جس سے اسے بہت سکون بھی ملا تھا۔
ساحل نے ایک چھوٹے بیگ میں اپنے کپڑے ڈالے اور خاموشی سے رات کی تاریکی میں شہر کے لیے نکل گیا۔
نور اور عینی کا گھر میں گرینڈ ویلکم کیا گیا تھا۔
پورا گھر اس وقت گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
نور اور عینی نے جیسے ہی گھر دہلیز سے قدم اندر رکھا تو شہیر اور ایمان نے ان پر پھولوں کی برسات کی تھی۔
گھر میں آتے ہی دادا جان نے سب سے پہلے اپنے دونوں بہوؤں اور پوتوں سے کالے بکرے پہ ہاتھ لگوا کر صدقہ دیا تھا۔
سمینہ بیگم نے نور اور عینی کو زیادہ دیر نہیں روکا تھا کیونکہ فنکشنز میں گیپ نا ہونے کی وجہ سے وہ دونوں ہی بہت تھکی ہوئی تھی۔
ایمان اور ماریہ نے عینی کو روم میں چھوڑ کر دروازہ لاک کر دیا اور چابی اپنے پاس رکھ لی اور پھر نو نور کو اس کے کمرے میں لے جا کر خود گیٹ پر کھڑی ہو گئیں۔
شایان جو مسکراتا ہوا اپنے روم میں جا رہا تھا دروازہ لاک دیکھ کر پریشان ہوا مگر ساتھ والے روم کے باہر ایمان اور ماریہ کو کھڑا دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ کام انہیں کا ہے۔
کیا ہوا آپ دونوں یہاں کیوں کھڑی ہیں۔
شاہ میر نے اپنے روم کے باہر ایمان اور ماریہ کو کھڑا دیکھ سوال کیا۔
کیوں کھڑی ہیں کیا مطلب ٹکٹ لینے کھڑے ہیں اندر ایسے تو آپ نہیں جاسکتے پیسے لگیں گے۔ ایمان نے کہا تو شاہ میر مسکرایا۔
سمینہ بیگم اسے پہلے ہی بتا چکی تھی کہ اپنی جیب گرم رکھنا۔
اچھا جی کتنے پیسے چاہیں آپ لوگوں کو۔
شیری نے آکر پوچھا۔
ریان اور شہیر بھی یہیں آگئے تھے شایان نے بھی اسی طرف کا رخ کر لیا تھا۔
دس لاکھ دیں۔ پانچ میرے پانچ ماریہ بھابھی کے۔
ایمان کی بات پر شاہ میر کا سر چکرا گیا۔
ایمان کیا ہو گیار حم کروا بھی تو میں جاب بھی نہیں کرتا۔
شاہ میر نے مسکین شکل بنائی۔
تو کر لیے گا کل سے ہی جاب ابھی تو آپ پیسے دیں۔
ایمان کی بات پر شاہ میر نے معصومیت سے ماریہ کو دیکھا تو اس کی ہنسی نکل گئی۔
سوری شاہ میر بھائی ایسے مت دیکھیں میں ایمان کے ساتھ ہوں۔
ماریہ نے ہنستے ہوئے کہا تو اس نے اب کی بار ریان اور شیری کو دیکھا۔
ریان نے مسکراتے ہوئے چیک شاہ میر کو تھاما یا جو اس نے ریان کو دیا تھا۔
یہ لو بہنوں اور جان چھوڑو اب میرکی
شاہ میر نے چیک ان کی طرف بڑھایا تو ایمان نے فوراً چیک تھاما۔
اور اس کا راستہ چھوڑا۔
ہاں جی شایان بھائی آپ نے بھی بحث کرنی ہے یا پھر چپ چاپ پیسے دے رہے ہیں۔
ماریہ نے شایان کو دیکھتے ہوئے کہا
0 Comments
Post a Comment