تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 36
طوبیٰ صدیقی
°°°°°°
💖💖💖
اب اسے ریان سے بات کرنی تھی جب ایمان کو کوئی اعتراض نہیں تھا تو پھر باقی کسی نے بھی اعتراض نہیں کرنا تھا۔
ساحر نے ایمان کو اپنی باہوں میں بھرا ہوا تھا۔
اب جاؤ چینج کر لو کچھ دیر اور ایسے رہیں تو میں اپنا کنٹرول کھو دوں گا۔
ساحر کی بات پر ایمان جلدی سے اس سے الگ ہو کر ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔
ساحر کے چہرے پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ تھی۔
ایمان نے جب سے مرحا کی تصویر ریان کو بھیجی تھی ریان تب سے بے قرار ہو امر حاکو کالز پہ کالز کر رہا تھا مگر مر حاکال اٹھا ہی نہیں رہی تھی۔
ریان نے کافی دیر تک مرحا کو کال کرنے کی کوشش کی مگر جب اس کا کوئی جواب نہیں آیا تو ریان نے ٹھنڈی آہ بھر کے عینی کو اپنے دوسرے نمبر سے کال کی۔
یہ نمبر ریان صرف کام کے وقت استعمال کرتا تھا جب بھی کبھی کوئی کیس ہل کرنا ہو تا تو عینی شیری اور
ایک دو اور لوگ ریان سے اس نمبر پر رابطہ کرتے تھے۔
ریان کے در کنگ نمبر سے کال آتی دیکھ عینی فورا سائیڈ پر آئی اور کال اٹھائی۔
اسلام و علیکم سر۔
عینی نے پروفیشنل انداز میں سلام کیا اسے یہی لگا تھا کہ ریان نے شاید کیس سے ریلیٹڈ بات کرنی ہے۔
عینی تمھارے لیے ایک آڈر ہے اور تمھیں ہر حال میں اس آرڈ کو ماننا ہے ڈو یو گیٹ دیٹ۔
ریان نے بھی پروفیشنل انداز میں کہا۔
اپنی تھنگ سر
عینی نے جواب دیا مگر ریان کی بات سن کر اس کا منہ کھل گیا۔
ریان بھائی سیر یسلی آپ نے یہ بولنے کے لیے اپنے پرائیوٹ نمبر سے کال کی ہے۔
عینی نے حیرت سے کہا۔
لیس مسز شایان حیدریہ آپ کے لیے میرا آرڈر ہے او کے۔
دس منٹ میں مجھے رپورٹ کریں۔
ریان نے کہ کال کاٹ دی جبکہ عینی گہری سانس لے کر رہ گئیں۔
ریان مرحا کے گھر کے قریب کھڑا تھا جب عینی کا میسج آیا۔
ڈن سر "
ریان کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی وہ چلتا ہوا گیٹ تک آیا تو چوکیدار نے فورا اسے سلام کیا۔ "سلام ریان صاحب "
واعلیکم السلام تمھارے لیے ایک کام ہے لالا اپنے ساحر صاحب کو پتا نہیں لگنے دینا میں آیا ہوں۔
ریان کہہ کر اندر بڑھ گیا جبکہ چوکیدار کندھے اچکا کر واپس اپنی کرسی پہ بیٹھ گیا۔
عینی نے ریان کے کہنے کے مطابق مرحا کا کمرہ بالکل خالی کروادیا تھا۔
وہ آرزو اور نور کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اور مرحا سے کہا تھا کہ وہ تھوڑار بیٹ کرلے۔
عینی کی بات مان کر سب ہی اس کے روم سے چلے گئے تھے۔
ایمان ویسے بھی ساحر کے ساتھ تھی ریان کا راستہ بالکل کلیئر تھا۔
مر حاڈوپٹے سے بے نیاز بیٹھی ہاتھ پاؤں دھونے کا سوچ رہی تھی۔ اس کی باڈی پر لگا ابتن اسے ایچینگ کرنے لگا تھا۔
اس سے پہلے وہ واشروم جاتی ریان روم کا دروازہ کھول کر اندر آیا۔
مرحا کا چہرہ اپنے وارڈروب کی طرف تھا۔ وہ یہی سمجھی تھی کہ مینی نور آرزو یا ایمان میں سے ہے کوئی ہو گا۔
اس لیے مر جانے دھیان ہی نہیں دیا جبکہ ریان مرحا کا یہ روپ آنکھوں میں بسائے قدم اس کی طرف اٹھا رہا تھا۔
میں تو شاور لینے کا سوچ رہی ہوں مجھے بہت ایچینگ ہو رہی ہے۔
ضرور او بے بی اور میں بھی آگیا ہوں تمھاری ہیلپ کے لیے آؤ میں تمھاری ہیلپ کر دوں۔
مرحا کی بات پر ریان نے پیچھے کھڑے ہو کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔
ریان کی آواز پہ مرحا اچھل پڑی تھی اور اسی جلد بازی میں وارڈروب کا ڈور اس کے سر پہ لگا۔ آوچ۔۔
مر حامیری جان ٹھیک ہو نا زور سے تو نہیں لگی۔ کیا کرتی ہو یار ایسے اچھل رہی ہو جیسے میں کوئی بھوت
ہوں۔ لگالی نا اپنے چوٹ تم بالکل اپنا خیال نہیں رکھتیں۔
ریان نے فکر مندی سے مرحا کو بیڈ پہ بیٹھایا اور اس کا سر سہلانے لگا۔
ریان میں ٹھیک ہوں۔
مرجانے آہستہ سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
ریان کے چہرے پر پریشانی واضح نظر آرہی تھی۔
کہاں ٹھیک ہو اتنی زور سے آواز آئی ہے ڈور لگنے کی تم نادھیان سے نہیں کرتی کچھ بھی۔
ریان نے غلطی سے کا تو مر ا مسکرائی
آپ ہیں نامیر اخیال رکھنے کے لیے۔
مرجانے معصومیت سے کہا تو ریان نے اس کے ماتھے پہ لب رکھے۔
میں ہمیشہ ہوں میری جان ہمیشہ ہر قدم پر تمھارا خیال رکھوں گا مگر تم نے بھی تو اپنا خیال رکھنا ہے نا میرے لیے۔
ریان نے محبت سے کہا تو مر جانے اثبات میں سر ہلایا۔
ریان آپ یہاں پھر آگئے کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔
مرحانے ناراضگی سے اسے دیکھ کر کہا۔
بے بی سب کو چھوڑو تم یہ سوچو اس وقت تمھیں اس حال میں دیکھ کر میں کیا سوچ رہا ہوں۔
ریان کی مسکراتی نظریں خود پہ محسوس کر کے مرحا کو اپنی حالت کا خیال آیا۔
وہ بناڈو پٹے اتنی چھوٹی آہستین اور ڈیپ گلے کے ساتھ ٹراؤزر پہنے جس کی لینتھ اتنی چھوٹی تھی کہ
مرحا کی دو دھیار نگت والی پنڈلیاں صاف دیکھ رہی تھیں۔
مر جانے اٹھ کر دو پٹہ اوڑھنا چاہا مگر ریان نے اسے واپس بیڈ پر بیٹھا دیا اور خود اس پہ جھکا۔
بے بی اب کیا فائدہ دوپٹے گا۔
اور ویسے بھی کو نسا میں کوئی غیر ہوں۔
شوہر ہوں تمھارا تم پہ پر اوراق حاصل ہے مجھے۔
ریان نے خمار آلود لہجے میں کہا۔
در در ریان۔۔ پلیز ۔۔ نن نہیں۔۔۔
مرحابے بی آپ کی اچھی بھلی زبان کو میرے پاس آتے ہی مرگی کے دورے کیوں پڑنے لگتے ہیں۔ اب تم نے ہکلا کر الفاظ ادا کیے ناتو میں تمھارے منہ میں ہی اپنے طریقے سے ان الفاظوں کا گلا گھونٹوں گا۔
ریان نے مسکرتی نظروں سے کہا۔
لہجے میں محبت تھی۔
ریان کی بات پر مرحا اور بھی نروس ہو گئی۔
ریان نے جھک کر اس گال پہ لب رکھے تو مر حا کا دل زور سے دھڑکا تھا۔
ریان نے دوسرے گال پر بھی لب رکھے تو مر جانے اسے شرٹ سے پکڑ کر دور کیا۔
ریان۔۔ پپ پلیز نہیں کلک کریں۔
مرحا تیز ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے دوبارہ ہکلائی تو ریان اس کے لبوں کو قید میں لے گیا۔
اپنی تشنگی مٹاتے ہوئے وہ مرحا کی سانسوں کو الجھا چکا تھا۔
مرحابے چاری اس کی پناہوں میں پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔
اپنی محبت مرحا کے لبوں پہ۔ لٹا کر ریان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
مرحا کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح سرخ پڑ گیا تھا جبکہ وہ خود گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔
بے بی ڈول تم اتنی سی محبت پہ گھبرا جاتی ہو جب میری دسترس میں آؤ گی میرے روم میں میرے پاس ہو گی تب تمھاری کیا حالت ہو گی۔
ریان کی بات پر مرحا کے کانوں تک سے دھواں نکلنے لگا۔
ریان کی بے باک باتیں اس کو ٹھیک ٹھاک گھبراہٹ میں ڈال دیتی تھیں۔
ریان جا کر بیڈ پہ لیٹا اور مرحا کو اشارے سے اپنے پاس لیٹنے کو کہا۔
مرجانے نا میں گردن ہلائی مگر ریان کی گھوری پہ وہ فوراً اپنی دھڑکنیں سنبھالتی اس کے پاس جا کر لیٹ گئی۔
مرحا کا سر ریان کے ہاتھ پہ تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے ریان نے مرحا کا ایک ہاتھ تھاما ہو اتھا۔
وہ کروٹ لیے لیٹا مر حا کو گہری نظروں سے دیکھ رہا جس کے چہرے پہ اس کی شرم و حیا کے خوبصورت رنگ بکھرے ہوئے تھے۔
ریان کی قربت اور اس کے پاس سے آتی پر فیوم کی خوشبو مرحا کے دل کی دھڑکنوں میں شور مچارہی تھیں۔
ریان کافی دیر تک مرحا کے پاس لیٹا اس سے باتیں کرتا رہا۔
ریان کی باتوں پر کبھی مرحا گھبراتی کبھی شرماتی اور اس کے ہی سینے میں سر چھپا لیتی۔
باتیں کرتے کرتے مرحا نیند میں اتر گئی تو ریان کافی دیر تک اس کا دیدار کرتا رہا۔
فجر کے ٹائم ریان آرام سے مرحا کو تکیے پہ لیٹا کر چلا گیا۔
شاہ میر کی کال آنے پہ نور بھی اس سے ویڈیو کال پر کافی دیر تک باتیں کرتی رہی شاہ میر کی محبت بھری نظریں نور کے دل کو پر سکون کر گئی تھیں۔
شایان نے بھی عینی کو کافی بار کال کی مگر عینی نے تو اسے سر پہ نا چڑھانے کی قسم کھا رکھی تھی۔
آرزو اور ایمان کتنی بار عینی کو بول چکی تھیں کہ ایک بار اس سے بات کرلے مگر عینی نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔
شایان بیچارہ مینی کی اس حرکت پہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔
مینی ڈارلنگ بس ایک دن کی بات ہے اس کے بعد تم نے آنا تو میرے پاس ہی ہے دیکھنا تمھارا کیا حال کرتا ہوں میں۔
شایان خیالوں سے عینی سے مخاطب تھا۔
اب کس نے کس کا حال خراب کرنا تھا یہ تو وقت ہی بتاتا کیونکہ یہاں ایک سیر تھا تو دوسراسواسیر ۔
حاشر بیغام حاکی تصویر یں زوم کر کے دیکھ رہا تھا۔ اس کی مایوں کی تصویر یں جو عمل نے اسے بھیجی تھیں۔
حاشر کی نظر سے ایک تصویر گزری تو اس نے اس تصویر کو زوم کیا۔
اس تصویر میں ریان اور مرحا ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔
مسکر الوریان حیدر جتنا مسکرانا ہے مسکرالو بہت جلد تم رونے والے ہو۔
میں مرحا کو تمھاری پہنچ سے اتنی دور لے جاؤں گا کہ تم اس کی پر چھائی کو بھی ڈھونڈ نہیں پاؤ گے۔ بس آج کی اور کل کی رات گزر جائے اس کے بعد مر حامیری ان باہوں میں ہو گی۔
ایک بار میں نے مرحا کو حاصل کر لیا تو تم خود اسے تلاق دوگے ریان حیدر تمھیں مرحا کے وجود سے نفرت ہو جائے گی جب وہ تمھاری بیوی ہو کر کسی اور کی سیج سجائے گی۔
تم اسے طلاق دو گے اور پھر مرحا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے پاس آجائے گی۔ اور مرحا کے ساتھ ساتھ اس کی ساری پراپرٹی بھی میری ہو گی۔
حاشر مرحا کو تصویر کو گندی نظروں سے دیکھتے ہوئے خیالوں میں ریان سے مخاطب تھا۔
اس نے ریان کو ہرانے کا پورا انتظام کر لیا تھا۔
یچ چھوڑو میر اراستہ ۔
اس کی نازک سی آواز نکلی تھی۔ اصل میں تو اس کی سانسیں اٹک چکی تھیں۔
یہ روز کا معمول تھا۔ یہ ایک گرلز کالج کے باہر کا منظر تھا۔
سیکنڈری گرلز کالج جو ساحر نے بہت محنت سے گاؤں کی لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے لیے کھولا تھا۔
ویسے تو کسی کی ہمت نہیں تھی کہ کوئی یہاں کی کسی لڑکی کو چھیڑ سکتا کیوں گاؤں کا یہ حصہ ساحر کی ملکیت تھا اور اس حصے میں ایسا کچھ بھی کرنے والوں کو ساحر کڑی سے کڑی سزا دیتا تھا مگر ساحر کافی عرصے سے گاؤں نہیں آیا اس کی غیر موجودگی میں یاسر نے بہت اچھے سے سب سنبھالا ہوا تھا۔
اب چونکہ یا سر بھی یہاں موجود نہیں تھا تو گاؤں کے آوارہ لڑکے روز کالج کی چھٹی کے ٹائم کھڑے لڑکیوں کو چھیڑ رہے ہوتے تھے۔
یہ روز کا معمول ہو گیا تھا۔ وہ روز اپنی سہیلیوں کے ساتھ یہاں سے گزرتی تھی۔ مگر آج بد قسمتی سے وہ اکیلی تھی اور اسے اکیلا دیکھ کر وہاں موجود پانچ لڑکوں نے اس کا راستہ روکا تھا۔
وہ اس وقت مکمل حجاب میں تھی دوپٹہ اسکارف کی صورت اچھے طرح سلیقے سے چہرے کے گرد لپٹا ہوا تھا۔
جبکہ ایک شال الگ سے اس نے اپنے اوپر ڈال رکھی تھی۔
اس حجاب میں بھی اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن معلوم ہوتا تھا۔
وہ کوئی بہت زیادہ حسین نہیں تھی رنگ صاف تھا مگر اس کے چہرے کے نقوش اور سادگی اسے باقی لڑکیوں میں منفر د بناتے تھے۔
آج وہ یہاں اکیلی ان آوارہ لڑکوں کے بیچ پھس گئی تھی۔ کیچ چھوڑو راستہ۔۔
اس نے دوبارہ ہمت کر کے زرا اونچی آواز میں کہا تو ان پانچوں کے قہقہے چھوٹے۔
ارے چڑیا اتنا چو چو نہیں کرتے۔ چھوڑ دیں گے راستہ بھی زرا اپنے دل کو اور نظروں کو تسکین تو پہنچا لینے دو۔
ایک لڑکے نے آگے بڑھتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا تو اس نے ہمت کر کے ایک تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کیا۔
اس کو آج تک کسی لڑکے نے ہاتھ نہیں لگایا تھا اور یہ گلی کے آوارہ کتے اسے چھوئیں ایسا تو وہ کبھی ہونے نہیں دے سکتی تھی۔
وہ اپنے بھائی کا غرور تھی۔ وہ بھلا ان کتوں سے کیوں ڈرتی۔
اس کا نازک دل اندر سے سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا مگر وہ چہرے پہ اپنے ڈر کے آثار چھپائے ہوئے تھی۔
سالی تیری اتنی ہمت تو نے مجھے مارا۔
اس لڑکے نے اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑنا چاہا تو اس نے پانی سے بھر اتھرماس اس کے سر پر دے مارا۔
ضرب اتنی زور کی لگی کہ وہ لڑکا درد سے اچھل پڑا تھا۔
کیا بات ہے بڑے پر نکل آئے ہیں ان چڑیوں کے مگر ہمیں پر کاٹنے آتے ہیں۔
دوسرا لڑکا اس کی طرف آگے بڑھنا لگا اس سے پہلے وہ لڑکا اس سے اس کی شال کھینچتا کسی نے بہت
مضبوطی سے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر جھٹکا دے کر گھمایا تھا۔
سائیں۔۔ ساحل سائیں۔۔ میرا ہاتھ درد کر رہا ہے سائیں رحم کریں۔
ساحل کو دیکھ کر اس لڑکے نے گڑ گڑانا شروع کر دیا۔
ابے سالوں تم لوگوں کی ہمت کیسی ہوئی اسے ہاتھ بھی لگانے کی جانتے ہو کون ہے یہ۔
یہ یاسر کی بہن ہے۔
اسے پتا لگانا تو ٹکڑے کر دے گا تم لوگوں کے۔
ساحل نے غصے سے کہا۔
ساحل میں ہر طرح کی برائی موجود تھی مگر اس نے کبھی کسی لڑکی کو میلی نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ اور خاص کر یا سر کی بہن پہ کسی کی گندی نظر دیکھ کر اس کا خون کھول گیا تھا کیونکہ کچھ بھی تھا بے شک یا سر ساحر کا خاص آدمی تھا مگر اس کے باپ نے اس کے دادا جان کی بہت خدمت کی تھی بہت ساتھ دیا تھا۔
ایک یہی وجہ تھی کہ وہ یا سر کے گھر والوں کی عزت کرتا تھا۔
بے شک وہ اماں صاحب کی پرورش میں پلا تھا مگر اس میں کہیں نا کہیں ساحر جیسا دل بھی دھڑکتا تھا مگر
اس نے اس دل کی کبھی بھی نہیں سنی تھی۔
وہ ہمیشہ وہ کرتا آیا تھا جو اسے اماں صاحب اور اس کا باپ کرنے کو کہتا۔
ساحل کے دل میں ساحر کے لیے جذبات تھے مگر وہ ہمیشہ انہیں دباتا آیا تھا۔
سائیں غلطی ہو گئی ہمیں نہیں پتا تھا کہ یہ یا سر کی بہن ہے۔
ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر ہاتھ جوڑے۔
اچھا مطلب یا سر کی بہن ہے تو تم لوگوں کو معافی چاہیے اور دوسروں کی بہنوں کا کیا ہاں۔
آج کے بعد اس جگہ تم لوگ مجھے نظر آئے نا یا پھر میرے کانوں تک یہ بات پہنچی کہ کالج کی لڑکیوں کو
تم لوگوں کی وجہ سے مشکلات آرہی ہیں تو بیچ چوراہے پر لڑکا کر کوڑے پڑواؤں گا سمجھے۔
ساحل نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔
سائیں ہم نہیں کریں سائیں آج کے بعد یہاں نہیں آئیں گے۔
دوسرے لڑکے نے بھی منت کی۔
ساحل کی چنگھاڑتی آواز سے وہ سارے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔
ساحل پیچھے مڑا جہاں وہ لڑکی آنکھ میں نمی لیے کھڑی تھی۔
ایک پل کے لیے ساحل کی نظر میں اس کے چہرے پر جم سی گئیں تھی۔
اس کا پر نور چہرہ ساحل کو بھلا لگا تھا۔
کیا نام ہے تمھارا۔
ساحل کی آواز میں نرمی تھی جسے محسوس کر کے وہ خود بھی اندر سے حیران تھا۔
پاکیزہ۔۔
اس نے مدھم آواز میں جواب دیا۔
بہت اچھا نام ہے۔
تم نے بہت اچھا کیا تھپڑ مار کر۔
لڑکیوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ضروری نہیں ہے ہمیشہ ان لوگوں کو اپنے تحفظ کے لیے مردوں کی ضرورت پڑے ایک لڑکی کے اندر اتنی ہمت طاقت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی عزت کی طرف بڑھتے ہاتھ کو جڑ سے اکھاڑ سکے۔
چلو میں تمھیں گھر چھوڑ دوں۔
ساحل کے کہنے پہ پاکیزہ نے فورانا میں گردن ہلائی۔
میں۔۔ خود چلی جاؤں گی۔ آپ کا بہت شکریہ آپ اچھے انسان ہیں۔
پاکیزہ کہہ کر آگے بڑھ گئی جبکہ ساحل وہی کھڑا اس کے الفاظوں میں کھو گیا۔
اچھا انسان۔۔
ساحل نے زیر لب دہرایا۔
پھر اپنا سر جھٹک کر واپس چلا گیا۔
آج اس نے گاؤں کے کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا تھا کہ لڑکیوں کے کالج کے راستے میں کچھ بد معاش لڑکے لڑکیوں
کو روک کر انہیں پریشان کرتے ہیں۔
یہ سن کر ساحل کالج کی طرف آیا تھا ور نہ وہ کبھی بھی ساحر کے حصے کی طرف نہیں آتا تھا۔
یہاں آکر جب اس نے لڑکوں کو یاسر کی بہن سے بد تمیزی کرتے دیکھا تو اس کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔
اس لیے اس آکر اس کی مدد کی۔
گھر میں شادی کی تیاری تقریباً ساری ہی ہو چکی تھی آج ویسے تو کوئی بھی فنکشن نہیں تھا بس گھر میں ہی ڈھولکی تھی اسی میں تینوں دلہنوں کے مہندی لگتی تھی۔
ایمان کو ساحر صبح ہی واپس چھوڑ گیا تھا اب وہ رات میں سمینہ بیگم اور عمل کے ساتھ آنے والی تھی۔
بچے رات میں دیر سے سونے کی وجہ سے ابھی تک اٹھے نہیں تھے۔
ایمان بھی گھر آکر سو گئی تھی کیونکہ رات میں کافی دیر تک ساحر کے ساتھ باتیں کرتی رہی تھی پھر صبحتک ساری لڑکیاں جاگتی رہی تھیں سوائے مرحا کے اس کی آنکھ فجر کی اذان سے کھلی تو ریان کہیں نہیں تھا مگر اس کی خوشبو مر حا کو اب بھی اپنے آس پاس محسوس ہو رہی تھی۔
حید ر ہاؤس میں تو ابھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
آج سارے لڑکوں کا رات پارٹی کا پلان تھا جس کا انتظام انہوں نے چھت پر کرنا تھا کیونکہ کل توریان کی بے صبری کی وجہ سے ان کا پلان خراب ہو چکا تھا مگر اب کی بار شیر ی نے اسے سختی سے وارن کیا تھا۔۔
کہ وہ کوئی بھی حرکت نہیں کرے گا اور اچھے دلہوں کی طرح ہمارے ساتھ پارٹی انجوائے کرے گا جسے ریان نے دل پر پتھر رکھ کر مانا تھا۔
ماریہ اور عیشو ویسے بھی رات مرحا کے گھر رکنے والی تھیں ایسے میں شیری کو بھی کوئی پریشانی نہیں تھی۔
ساحر نے دو پہر تک ہی بال کو پوری طرح سجوا دیا تھا۔
فرشی سیٹینگ کی گئی تھی دلہنوں کے بیٹھنے والے حصے کو تین بڑے بڑے کشنز سے تیار کیا تھا اور اس
کے پیچھے والی دیوار کو پھولوں کی لڑیوں سے سجایا گیا تھا۔
پورا ہال اس وقت میلو گرین اور اور پنج کلر کے رنگوں سے آراستہ تھا۔
ساحر نے ایک مسکراتی نظر پورے بال پر ڈالی۔
ماشاء اللہ ماشاء اللہ یہ سب تم نے کیا ہے ساحر۔
رملہ پھوپھو سائیں گھر میں داخل ہوئیں تو ہال کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں۔ اسلام و علیکم پھوپھو سائیں۔
کیسی ہیں آپ۔
ساحر نے انہیں گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔
یا سر سے کہہ کر ساحر انہیں آج بلوا چکا تھا اور اب وہ آج اور کل یہیں رکنے والی تھیں۔
یہ سب بہت خوبصورت ہے ساحر ماشاء اللہ سے۔
مرحا کہاں ہے۔
رملہ نے ساحر سے پوچھا۔
وہ اپنے کمرے میں ہے آپ چلی جائیں۔
ساحر نے انہیں مرحا کے کمرے کی طرف بھیج دیا۔
کیا بات ہے یا سر کیوں پریشان ہو۔
ساحر نے انہیں بھیج کر یا سر سے پوچھا۔
میں پریشان۔۔ نہیں تولالا میں تو پریشان نہیں ہوں۔
یا سر نے مسکر اکر کہا تو ساحر مسکرایا
یا سر تم مجھ سے کچھ چھپا نہیں سکتے اس لیے کوشش بھی مت کرو اور بتاؤ کیا وجہ ہے تمھاری پریشانی کی۔
ساحر کی بات پہ یا سر شرمندہ ہوا۔
لالا گاؤں میں گرلز کالج کے پاس کچھ لڑکوں نے بد تمیزی مچائی ہوئی تھی۔
کل ان لڑکوں نے پاکیزہ کے ساتھ بھی بد تمیزی کرنے کی کوشش کی تو ساحل سائیں نے اسے ان
لوگوں سے بچایا اور لڑکوں کو بھی ٹائٹ کر دیا۔
ساحر کو یہ سن کر خوشی ہوئی تھی۔
کیا واقعی ساحل نے۔
ساحر نے پوچھا تو یا سر نے اثبات میں سر ہلایا۔
چلو کوئی تو اچھا کام کیا اس نے ورنہ مجھے تو لگتا تھا کہ اس کے اندر سے بھی انسانیت ختم ہو گئی ہے۔
میں اسے بہت سمجھاتا ہو یا سر ہمیشہ سمجھاتا آیا ہوں کہ برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے مت چلے اس رستے پہ جس پر چل کر آخر میں اس کے حقے میں ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نا آئے۔
مگر وہ ہمیشہ میری بات سنی ان سنی کر دیتا تھا آج مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے سن کر کہ اس نے بھی کوئی اچھا کام کیا ہے۔
ساحر کی آواز میں تکلیف یا سر آرام سے محسوس کر سکتا تھا۔
ساحل بھائی تھا ساحر کا وہ اپنے بھائی کو بہت چاہتا تھا مگر ان کے بیچ ہمیشہ ایک دیوار کھڑی رہی جسے صاحب نے کھڑا کیا تھا۔
وہ کوشش کے باوجود بھی ساحل کو سیدھے رستے پہ چلا نہیں سکا تھا۔
ایک دن ساحل سائیں بھی صحیح رستہ اپنا لیں گے آخر وہ ساحر خان کے بھائی ہیں۔
یاسر کی بات پہ ساحر مسکرا کر دل ہی دل میں امین کہہ رہا تھا۔ اس کا بھائی نیکی کی راہ چن لے بھالا اس سے زیادہ کیا خوشی کی بات ہو گی اس کے لیے۔
مہندی والی آچکی تھی تین ایکسپرٹس کو بلایا گیا تھا۔
جو تینوں کے مہندی لگارہی تھیں۔
سمینه بیگم ماریہ ایمان عمل سب آچکے تھے۔
چند ایک جاننے والی لڑکیاں اور عور تیں بھی آگئی تھیں جو خوب رونق لگائی ہوئی تھیں۔
ماریہ آرزو اور ایمان بھی بیٹھی ڈھول کی تھاپ پہ گانے گارہی تھیں۔
مر حانور بہت خوش تھیں جبکہ عینی کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے جسے دیکھ کر سب ہی اس سے
وجہ پوچھ چکے تھے مگر اس نے سب کو یہی کہا کہ اس کے سر میں درد ہے نیند نا ہونے کی وجہ سے۔
اس لیے سب ہی مطمئن ہو گئے تھے۔
عینی کو آج رات اپنے مشن کے سلسلے میں کام تھا مگر وہ اس حالت میں نہیں تھی کہ گھر سے باہر بھی جاسکتی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھی۔
مینی یہ شیری بات کریں گے تم سے۔
ماریہ نے موبائل لاکر عینی کو دیا جسے اس نے لمحہ ضائع کیسے بنا تھاما۔ اسلام و علیکم سر۔
عینی نے سلام کیا۔
و اعلیکم السلام عینی تم پریشان نہیں ہو آج رات کا پلان کل تک ملتوی کر دیا گیا ہے اور تمھاری جگہ ایک دوسرے افسر کو ایک ہفتے کے لیے اس کیس میں شامل کیا ہے تم آرام سے اپنی شادی انجوائے کرو۔
ہاں تمھاری زیادہ ضرورت ہوئی تو تمھیں ہم بلا لیں گے سور یلیکس رہو اور شادی انجوائے کرو۔
شیری نے علینی کو کہا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔
او کے سر تھینک یو سوچ۔
عینی نے مسکرا کر کہا اور کال کاٹ کر موبائل واپس ماریہ کو دے دیا۔
عینی اب پر سکون ہو چکی تھی وہ تب سے اسی لیے پریشان تھی کہ وہ اس سب سے نکل کر کیسے جائے گی۔ لیکن اب اس کی ساری پریشانی دور ہو گئی تھی۔
رملہ اور سمینہ بیگم میں بھی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ سمینہ بیگم نے ان کو اپنے ساتھ نارمل کر لیا تھا جس
کی وجہ سے رملہ اب ان سے آرام سے بات کر پارہی تھی۔
ڈاکٹر نے ساحر سے کہا تھا کہ رملہ بہت جلد بالکل ٹھیک ہو جائیں گی وہ آہستہ آہستہ اپنے ڈیپریشن زون سے باہر آرہی ہیں۔
ساحر چاہتا تھار ملہ جلدی ٹھیک ہو جائیں تاکہ وہ ساری سچائی ان سے جان سکے۔ ابھی اس نے ان سے کوئی ایسا ٹاپک ہی نہیں چھیڑا تھا جو ان کی تکلیف کا باعث بنے۔
شیری سمیت سارے لڑکے اس وقت حید ر ہاؤس کی چھت پر موجود تھے۔
چھت کو بہت اچھے سے ڈیکوریٹ کیا تھا آج کی پوری رات وہ یہیں گزارنے والے تھے۔
ساحر بھی ریان اور شیری کی ضد پر یا سر کے سپر د سب کر کے یہاں آگیا تھا۔
وہ سب اس وقت چھت پہ بیٹھ کر بار بی کیو اور دیگر چیزیں انجوائے کر رہے تھے۔
شیری: ریان بات سنور
ریان: ہاں بولو۔
شیری: سانس ٹھیک سے آرہی ہے نا۔
ریان: کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔
ریان نے کنفیوز ہو کر پوچھا تھا۔
شیری: نہیں وہ مر حا سے بات کیے بنا سانس آرہی ہے نا تمھیں کہیں دل میں در دور د تو نہیں اٹھ رہا
شیری کی بات پہ سب کے قہقہے چھت پہ گونجے تھے۔
زیادہ زبان نا چلاؤ بھولو مت اس سب سے تم بھی گزر چکے ہو۔
ریان نے گھور کر کہا۔
بس بس رہنے دو تمھاری طرح کی حرکتیں پھر بھی نہیں کی تھیں میں نے بتاؤ زراریان صاحب تو اپنا بھیں ہی بدل کر اپنی دلہنیا سے ملنے پہنچ گئے۔
شیری نے ہنستے ہوئے کہا۔
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
اس وقت ریان اس کے نشانے پہ تھا۔
بات تو صحیح ہے بھائی ہم تو کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے آپ ایسا کچھ کریں گے۔
شایان نے کہا تو شیری نے مسکرا کر شایان کو دیکھا۔
شیری کی مسکراہٹ میں شرارت ہی شرارت تھی۔
شایان بھائی آپ اپنے بھائی کو چھوڑ کر زرا اپنے حال پہ غور کریں جس ایٹم بم کو تم شادی کر کے لا رہے ہو وہ روز تم پہ پھٹ کر تمھاری چھیچھڑے اڑائے گی۔
شیری کی بات پر سب نے قہقہہ لگایا۔
بس بس اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے۔ میری بیوی کو بد نام نہیں کرو آپ لوگ زیادہ۔
شایان نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
با با با تمھاری وہ پیاری بیگم تمھیں لفٹ تو کرواتی نہیں ہے شایان۔
شاہ میر نے ہنستے ہوئے شایان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
اچھا ایسی بات ہے تو کال ملاؤ بھی اپنی بیگم کو اور ڈالو موبائل اسپیکر پر۔
ریان نے مسکرا کر کہا۔
بھائی ابھی وہ مصروف ہو گی نامہندی لگ رہی ہو گی اس کے ۔
شایان نے بہانا بنایا۔
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
ارے ادھر دکھاؤ مجھے موبائل اپنا۔
شیری نے موبائل شایان کے ہاتھ سے چھینا اور عینی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
شایان نے دل ہی دل میں کلمہ پڑھا کیونکہ ابھی عینی اس کی عزت کا جنازہ نکالنے والی تھی۔
شایان دل میں دعا تو نہیں کر رہے کہ عینی تمھاری کال ہی نا اٹھائے۔
ساحر نے شایان کے چہرے کو مسکرا کر غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔
شایان فورا مکر گیا۔ جبکہ دل سے تو دعا یہی نکل رہی تھی کہ عینی کال نا اٹھائے۔
شیری دو بار کال کر چکا تھا کال نہیں اٹھائی گئی۔
تیسری بار کال ملائی تو بھی کال جانے لگی مگر اس بار عینی نے کال اٹھالی اور شایان نے زور سے اپنی آنکھیں میچی تھیں۔
شایان حیدر تمھارے اندر سکون نام کی چیز ہے یا نہیں۔ کل سے تم نے کال کر کر کے پاگل کر دیا ہے
مجھے۔ میرے مہندی لگ رہی ہے اور تمھارا بچپنا ہی ختم نہیں ہو رہا۔
کیا مسئلہ ہے کیوں کال کی ہے۔
مینی کی چنگھاڑتی آواز پہ سب نے مشکل سے اپنا قہقہ روکا
شیری شایان کو آنکھیں دیکھا کر بات کرنے کو بول رہا تھا مگر وہ چپ لگائے ہوئے تھا تب ریان نے زور سے اس کا کان مروڑا۔
لک کیا ہو گیا کال ہی کی ہے نا اتناریٹیٹیوڈ کیوں دیکھا رہی ہو۔
شایان نے بہت ہمت کر کے جملہ ادا کیا۔
میں تمھیں ریٹیٹیوڈ نہیں دیکھا رہی ڈیئر ہسبینڈ میں تمھیں وارن کر رہی ہوں تمھاری وجہ سے میری مہندی خراب ہوئی نا تو میں تمھارا بہت برا حال کروں گی۔
عینی نے غصے سے کہا اور کال کٹ کر دی۔
کال کٹتے ہی سب کے قہقہے بے ساختہ تھے۔
فیلینگ سیڈ فور یو شایان۔
شیری نے ہنستے ہوئے کہا۔
بیچارہ شایان شرمندہ ہو کر رہ گیا تھا۔ عینی کا دماغ تو وہ کل بہت اچھی طرح ٹھیک کرنے والا تھا اس نے
سوچ لیا تھا کل تو عینی کی خیر نہیں تھی۔
ایک دوسرے کو چھیڑتے تنگ کرتے ان سب نے ساتھ بہت اچھا وقت گزارنا تھا۔
مینی نور اور مرحا تینوں کے ہاتھ پاؤں بہت خوبصورتی سے مہندی سے سج گئے تھے۔
0 Comments
Post a Comment