تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 35

از۔"طوبیٰ صدیقی



°°°°°°


💖💖💖


اس خوبصورت روپ میں مرحا کی جھجھک اور اٹھتی جھکتی پلکیں ریان کو بے قابو کر رہیں تھیں۔


ریان کو اس طرح خود کو دیکھتا پا کر مر انروس ہو رہی تھی۔


ہاتھوں میں موجود گیندے کے پھولوں کے کنگن اس کی مخملی ہاتھوں کی شان بڑھا گئے تھے۔


ریان بے خود سا ہو کر مر حا کو دیکھ رہا تھا۔


ریان آہستہ سے چلتا ہو امر حا کے قریب آیا اور اس کے ماتھے پہ لب رکھے۔


ایسا لگ رہا پھولوں سے سجی کوئی پری میرے سامنے کھڑی ہے۔ بہت خوبصورت لگ رہی ہو میری


جان اتنی زیادہ کہ آج تمھارے صدقے میں ریان اپنی جان بھی وار دے۔


ریان نے محبت پاش لہجے میں کہا۔


ایسے تو نہیں بولیں 


مرحا منمنائی۔


تمھیں دیکھ کر میں کیسے اپنا ہوش ناکھوؤں۔


ریان نے مرحا کا چہرہ آئینے کی طرف کر کے کہا۔


خود کو آئینے میں دیکھ کر مرحا اپنے آپ سے ہی شرمائی تھی۔


ریان نے مسکرا کر اسے اپنی باہوں میں بھرا۔


ریان آپ کیسے آئے اور یہ آپ نے کیا حالت بنائی ہوئی ہے۔


مرحا نے ریان کے سینے سے چہرہ اٹھا کر کہا۔


کیا کروں تم سے ملنا بھی تو ضروری تھانا۔ تمھیں دیکھتے بنا میری سانس ہی نہیں آتی۔


اب تمھارے لالا اتنے اچھے بھی نہیں ہیں کہ مجھے آرام سے تم سے ملنے دیتے وہ بھی آج کے دن۔


اس لیے یہ سب کرنا پڑا تا کہ کوئی پہچان ہی نا سکے۔


ریان نے ونک کیا تو مر حا مسکرائی۔


اچھا اب آپ جائیں کوئی بھی آسکتا ہے مجھے لینے۔


مرحا نے ریان سے کہا تو وہ خفگی سے اسے دیکھنے لگا۔


ایسے ہی بھیجو گی بنا کسی گفٹ کے۔


تو نو نوریان پلیز میری لپ اسٹک خراب کی نا آپ نے تو میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔


ریان کی بات پہ مر جانے جلدی سے کہا


مرحا کی جلد بازی پہ ریان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


میری جان تو بہت سمجھدار ہو گئی ہے۔ کتنی آرام سے سمجھ گئی کہ مجھے کونسا گفٹ چاہیے۔


ریان کے لہجے میں شرارت تھی جسے محسوس کر کے مر حاشرم سے چہرہ جھکا گئی۔


ایسے تو میں کہیں نہیں جاؤں گانا تھیں جانے دوں گا۔


ریان نے مرحا کو قریب کر کے اس کے کان میں سرگوشی کی اور اس کے لبوں پہ جھک گیا۔


انداز میں نرمی تھی۔


اس نے مرحا کو جلدی ہی چھوڑ دیا تھاور نہ وہ اس کی سانسیں روک دینے پہ اتر جاتا تھا۔


ریان کی حرکت کے مرحا کے چہرے پر سرخی چاہی تھی جسے دیکھ کر ریان کا دل سر شار ہوا تھا۔


اب آپ جائیں پلیز ریان۔


مر جانے ریان سے کہا تو اس نے اپنی نقلی مونچھیں اور داڑھی واپس سیٹ کی۔


مرحا نے ریان کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر بھیجنے کے لیے دروازہ کھولا مگر ریان کمرے سے ایک پیر باہر نکالتے ہی سامنے کھڑے شخص سے ٹکرایا۔


ہلو ہے راجاؤں شادی کی بہت بہت مبارکباد شیری مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔ 


شاہ میر شایان اور شہیر جو باہر جارہے تھے شیری کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے۔


ان کی حیرت کو دیکھ کر شیری بھی الجھا۔


کیا ہوا ایسے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہو بھائی۔ شیری بھائی آپ یہاں۔ ریان بھائی کہاں ہیں۔


شایان نے شیری کی بات پر سوال کیا تو وہ سوالیہ نظروں سے شایان کو دیکھنے لگا۔


مجھے کیا پتاریان کہاں ہے مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو بھائی اور ویسے بھی اسے گھر پہ ہی ہونا چاہیے تھانا۔


شیری نے شایان کو کہا۔


شیری بھائی ریان بھائی آپ کے ساتھ نہیں تھے۔


شاہ میر نے سوال کیا۔


ارے نہیں میرے بھائی میرے ساتھ کیسے ہو گا وہ میں تو خود تھوڑی دیر پہلے ہی سکھر سے آیا ہوں۔


ماریہ اور علیشو کو مرحابھا بھی کے گھر چھوڑ کر ڈائریکٹ یہیں آرہا ہوں۔


پر تم لوگ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو ریان کا۔


شیری نے تفصیل بتا کر پوچھا۔


کیونکہ ریان بھائی دو پہر سے غائب ہیں یہ کہہ کر کہ وہ آپ سے ملنے جارہے ہیں انہیں آپ سے کام ہے


میں نے دو گھنٹے پہلے بھی انہیں کال کی تو انہوں نے کہا کہ وہ آپ کے ساتھ ہیں۔


شایان کی بات پہ شیری قہقہہ لگا ہنسا تھا۔


با بابا مطلب وہ تم لوگوں کو میرے نام کا چونا لگا کر چلا گیا اپنی منکوحہ سے ملنے۔


شیری نے ہنستے ہوئے کہا۔


شاہ میر اور شایان حیرت اور صدمے میں تھے۔


ریان نے کتنی آرام سے انہیں پاگل بنا دیا تھا۔ بیچارے دونوں اپنی اپنی دلہنوں کو دیکھ ؟ بنا بھی نہیں سکے تھے اور ریان ڈائریکٹ ملنے چلا گیا تھا۔


شیری کا ہنس ہنس کا براحال ہو رہا تھا۔


ہنسی تو تینوں کو بھی آرہی تھی۔


کہاں سالے کو پیار محبت سے الرجی تھی اور کب کہاں محبت میں کیا کیا کرتا پھر رہا ہے۔


شیری کی بات پہ تینوں کا قہقہہ ہال میں گونجا۔


ابھی دیکھو ریان کی کلاس لگواتا ہوں۔


شیری نے کہہ کر اپنا موبائل نکالا۔


آپ کیا کرنے لگے ہیں شیری بھائی۔


شہیر نے پوچھا


ساحر کو کال کر کے بتانے لگا ہوں کہ زرا اپنے گھر کی ابھی طرح تلاشی لے لو۔


شیری نے کہا تو سب ہنس پڑے۔


ساحر جو ذالفقار صاحب اور باقی سب کے ساتھ بیٹھا تھا شیری کی کال آتی دیکھ کر فورا کال اٹھائی۔


ہاں شیری بولو۔


ساحر نے موبائل کان سے لگا کر کہا۔


ریان کے پیارے سالے صاحب زرا اپنے گھر کی تلاشی لے لو کوئی چھپا تو نہیں بیٹھا۔


شیری کی بات پہ ساحر الجھا۔


کیا مطلب ہے سب خیریت ہے۔


ساحر نے شیری سے پوچھا تو وہ ہنسنے لگا۔


بھائی ریان صاحب سب کو میرے نام کا چونا لگا کر اپنی بیگم سے ملنے گئے ہوئے ہیں تم زرا دیکھو تو


تمھارے بہنوئی صاحب اس وقت کہاں ہیں۔


شیری کی بات پہ ساحر حیرت سے سب کو دیکھنے لگا۔


ریان یہاں ہے تم شیور ہو۔


ساحر نے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔


ون ہنڈریڈون پر سنٹ شیور ہوں جاؤ چھان بین کرد

شیری نے کہہ کر کال کاٹ دی۔


ذالفقار صاحب احتشام صاحب شعیب صاحب سهیل صاحب سب نے ہی ساحر کی گفتگو سنی تھی۔


کیا ہوا بیٹا کیاریان یہاں آرہا ہے۔


احتشام صاحب نے پوچھا تو وہ کھل کر مسکرایا۔


انکل وہ آنہیں رہا پتا نہیں کب سے گھر میں ہی کہیں چھپا بیٹھا ہے۔


مجھے پتا تھا یہ لڑکا کچھ نا کچھ ضرور کرے گا یہ گھر سے نکلا تھا تب ہی مجھے اس پہ شک ہو گیا تھا۔ اتنا شریف تو ہر گز نہیں ہمارا پوتا۔


ساحر کی بات پر ذوالفقار صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تو سب ہی بننے لگے۔


ساحر میرے ہوتے کو کان سے پکڑ یہاں لانا۔


ساحر جو اندر ریان کو دیکھنے جارہا تھا ذالفقار صاحب کی بات پہ ہنستے ہوئے گھر کے اندر کی طرف بڑھ گیا۔


ساحر سب سے پہلے مرحا کے روم کی طرف گیا تھا کیونکہ مرحا اس وقت اندر تھی تو ریان بھی یقینا وہی موجود تھا۔


ساحر نے مرحا کے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا مگر ساحر کے روم کھولنے سے پہلے ہی دروازہ کھلا اور ریان جو باہر آرہا تھا ساحر سے ٹکرایا۔


ایک لمحے کے میر ساحر ریان کو پہچان نہیں پایا اور ایک انجان انسان کو مرحا کے روم سے نکلتا دیکھ کر


ساحر نے فورا اس کا گریبان پکڑا۔


لالا نہیں پلیز آپ غلط سمجھ رہے ہیں یہ کوئی غیر نہیں ہیں ریان ہیں۔


مرحا سمجھ گئی تھی کہ ساحر ریان کو پہچان نہیں پایا ہے اس لیے وہ فورا بیچ میں آئی۔


ساحر نے ریان کا گریبان چھوڑا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔


وہ ریان حیدر جو پورے خاندان کا سب سے ہینڈ سم لڑکا مانا جاتا تھا اس وقت جس حالت میں کھڑا تھا اس کو پہچاننانا ممکن تھا۔


ساحر حیران پریشان کھڑاریان کو دیکھ رہا تھا جو بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ اپنی نقلی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔


ریان۔۔ یہ تم ہو۔۔ یہ تم ۔۔ تم کیا بنے ہوئے ہو۔


ساحر نے حیرت سے پوچھا۔


کیا کروں تم سب جو مجھ پہ ظلم کر رہے ہو اس کے بعد مجھے کچھ تو کرنا تھانا۔


مجھ پہ میری ہی بیوی سے ملنے پر پابندی لگادی اب میں معصوم کیا کرتا بھلا۔


ریان نے منہ بناتے ہوئے کہا۔


ساحر اپنا سر پکڑ کر رہ گیا لیکن جو اس کے بعد ساحر کی ہنسی چھوٹی تھی وہ قابل دید تھی۔


آئی کانٹ بیلیو وریان تم تو بابابابا تم سچ میں پیار میں پاگل ہو گئے ہو۔


ساحر نے بنتے بنتے کہا۔


مرحا بیچاری سر جھکائے مجرموں کی طرح کھڑی تھی۔


اچھا اچھا اب زیادہ دانت نہیں نکالو اپنی بیوی سے ملنے آیا تھا مل لیا اب میں چلا۔


ریان کہہ کر جانے لگا تو ساحر نے اس کا کان پکڑا۔


بیٹا جی اب آپ آگئے ہیں تو اتنی بھی کیا جلدی ہے جانے کی زرا باہر تو چلیں دادا جان نے بلایا ہے آپ کو۔


ساحر نے مسکراتے ہوئے کہا۔


واٹ دادا جان کو کیسے پتا میں یہاں ہوں۔


ریان کو حیرت کا جھٹکا لگا۔


آپ جس کے نام کا چونا لگا کر گھر سے نکلے تھے وہ آپ کے گھر ہی تشریف لے گئے اس لیے یہ خبر


پورے جہاں میں نشر ہو گئی ہے کہ ریان اپنی بیوی سے ملنے گیا ہے وہ بھی سب سے چھپ کر ۔


مرحا بچہ تم جاؤ باہر سب انتظار کر رہے ہیں۔


ساحر کی بات پر ریان نے سر پہ ہاتھ مارا۔


شٹ یار ہو گیا عزت کا فالودہ۔


یہ سب تمھاری وجہ سے ہو رہا ہے ساحر کے بچے تم میری بیوی کو لے کر نہیں جاتے تو یہ سب نا ہوتا۔


ریان نے ساحر کو گھورتے ہوئے کہا۔


اب یہ ڈرامے بازی بند کرو اور چلو باہر ۔


ساحر ریان کے کان پکڑتے ہوئے باہر لایا جہاں سب لوگ بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔


لیجیے دادا جان آگئے آپ کے پوت۔


ساحر نے ریان کو دادا جان کے سامنے کھڑا کیا۔


ریان بہت مشکل سے اپنی چہرے پہ ہنسی آنے سے روک رہا تھا۔


دادا جان کے ساتھ ساتھ وہاں پہ موجود سب لوگ ہی ریان کو اس حال میں دیکھ کروبی دبی ہنسی ہنس رہے تھے۔


ساحر نے ریان کی نقلی موچھوں اور داڑھی کو ہٹایا اور اس کی وگ بالوں سے الگ کی تو ریان کے بھورے سلکی بال ماتھے پہ بکھر گئے جسے اس نے بہت اسٹائل سے پیچھے کیا تھا۔


عینی نور آرزو اور ایمان جن نظروں سے مرحا کو دیکھ رہی تھیں بے چاری شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی۔


ریان ہمیں یقین نہیں آرہا یہ تم ہو ۔ کیا بچپنا ہے یہ سب۔


ذا الفقار صاحب نے اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے کہا۔


دادا جان آپ سب کی غلطی ہے مجھے میری بیوی سے کیوں دور کیا تھا۔


ریان کہتا ہو امر حا کے برابر میں جا کر بیٹھ گیا۔


مرحانے گھبر اگر ریان کو اور باقی سب کو دیکھا اور پھر شرمندہ ہو کر نظریں جھکا گئی۔


بھی اتنے بھی بے صبرے نہیں ہوتے دو دن بعد مر جانے آپ کے پاس ہی آنا تھا۔ ایمان نے ریان سے کہا۔


یار دو دن میں بہت سارے گھنٹے ہوتے ہیں میں کیوں اتنا وقت دور رہوں اپنی بیوی سے۔


ریان نے مرحا کے جھکے چہرے کو دیکھ کر کہا۔


اففف اللہ ریان بھائی آپ کا تو جواب ہی نہیں ہے بیچ میں مرحا بہت لکھی ہے اتنا پیار جو کرتے ہیں آپ اس سے۔


آرزو نے مسکراتے ہوئے کہا۔


لکی تو میں ہوں جو مجھے اتنی پیاری اتنی اچھی لڑکی کا ساتھ ملا ہے۔


ریان کے لہجے میں مرحا کے لیے محبت ہر کوئی محسوس کر سکتا تھا۔


اچھا چلو اب باتیں نا بناؤ اور جاؤ اب یہاں سے گھر وہاں تمھارا یار تمھارا انتظار کر رہا ہے۔


احتشام صاحب نے ریان سے کہا تو وہ گردن نا میں ہلانے لگا۔


اب تو میں سب کے سامنے آہی گیا ہوں تو پھر بھلا جانے کا کیا مقصد ہے اب تو میں کہیں نہیں جانے والا بابا ریان نبکراتے ہوئے کہا۔


ریان بیٹا بہت بری بات ہے چلو شرافت سے جاؤ۔ وہاں شاہ میر اور شایان بھی تو ہیں نا سیکھو ان سے


کچھ۔


سمینہ بیگم نے مصنوعی گھورتے ہوئے کہا۔


ماما آپ ان دونوں کو بھی بلا لیں لیکن میں تو اب کہیں نہیں جانے والا۔ مجھے پورا حق ہے اپنی بیوی کو اس روپ میں دیکھنے کا۔


ریان نے مسکرا کر کہا تو مرحا اور زیادہ نروس ہو گئی۔


اسے ریان سے اتنی بے باکی کی امید ہر گز نہیں تھی۔


ریان کی باتیں سب کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیر گئیں تھیں۔


عمل دور کھڑی یہ سارا تما شا د یکھ کر جل بھن رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ مر حا کو کہیں غائب کر دے مگر اسے صبر کرنا تھا پرسوں تک کا صبر اس کے بعد تو ریان اس کا ہی تھا کیونکہ وہ مر حاکو ریان کی زندگی سے نکالنے کے لیے حاشر کے ساتھ مل کر بہت بڑا پلان بنا چکی تھی۔ بس کچھ گھنٹے اور پھر ریان عمل کے مطابق اس کا۔


ریان کی ضد کے آگے سب ہار چکے تھے۔ سب نے بہت کوشش کی کہ اسے بھیج دیا جائے مگر وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں تھا۔


ریان کی بس ایک ہی ضد تھی وہ پورے فنکشن مرحا کے ساتھ رہے گا۔ اور پھر سب نے ہی اس کی ضد کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔


سمینہ بیگم نے شیری اور شہیر کے ساتھ شایان اور شاہ میر کو بھی بلوالیا تھا۔


ریان بھی کپڑے چینج کر کے لیمن کلر کے کرتے اور وائٹ شلوار میں مرحا کے ساتھ بیٹھا تھا۔


شاہ میر کے آنے کے بعد نور کی بھی نظریں جھک چکی تھی جبکہ عینی کا فلحال شایان سے شرمانے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔


شہیر بھی آرزو کے پیچھے دل تھامے گھوم رہا تھا جس سے وہ بری طرح چڑ رہی تھی اور یہی چیز شہیر کو مزہ دے رہی تھی۔


کیا بات ہے بھی ریان صاحب آپ کے کیا کہتے ہیں۔ تم نے تو اپنے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کا بھی بھلا کر دیا۔


شیری نے ریان کو چھیٹر اتھا۔


دیکھ اور یان جیسا کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔


ریان نے ونک کیا تو شیر کی دل کھول کر ہنسا۔


ساحر ایمان کے ساتھ تصویر میں بنا رہا تھا۔


سب سے پہلے مرحا کی رسم کی گئی تھی کیونکہ وہ سب سے بڑی بہو تھی۔


ریان مرحا کے ساتھ ہی بیٹھا تھا سب نے ان دونوں کو میٹھائی کھلائی تھی اور انہیں بہت ساری دعائیں دی تھیں۔


اس کے بعد نور کی اور پھر عینی کی رسم کی گئی تھی۔


ریان کی شرارت بھری باتوں نے محفل کو اور رونق بخش دی تھی۔


اب کل ڈھولکی تھی جس میں صرف چند لوگ ہی بلائے گئے تھے وہ بھی سب لیڈیز ہی تھیں اور اس بار ریان پر سخت پہرے لگنے والے تھے۔


مایوں کی رسم بہت بہترین انداز میں نمنی تھی۔


ریان کی موجودگی نے ماحول کو ایک الگ ہی رونق بخش دی تھی۔


یہ ریان حیدر چھ مہینے پہلے کے ریان حیدر سے بالکل مختلف تھا۔ مرحا کے پیار میں وہ سر سے پاؤں تک بدل گیا تھا۔


وہ سلجھا ہو سمجھدار سائر کا اب بہت زیادہ شرارتی سا ہو گیا تھا اور یہ صرف اور صرف اس کی زندگی میں مرحا کی موجودگی کی وجہ سے ہوا تھا۔


گھر کے سب ہی افراد ریان کو اس روپ میں دیکھ کر بہت خوش تھے۔


مرحا کی چاہت اس کا عشق ریان کے روم روم پہ چھا گیا تھا۔ کہتے ہیں نا ایک مرد صرف اپنی پسندیدہ عورت کے لیے ہی خود کو بدل سکتا ہے۔


ریان نے بھی اپنی پسند کے لیے خود کو بدل لیا تھا کیونکہ مرحا جس حادثے سے گزری تھی اس کے بعد اسے زندگی میں نارمل کرنے کے لیے ریان کا ایسا کر ناضروری تھا۔


مرحانے اس کے دل پہ دستک تو اسی دن دے تھی جس دن اس نے ریان کا ساتھ پاکر اس کے سینے سے سر ٹکا کر اپنے آنسوؤں بہائے تھے۔ اس کے بعد مرحا کے لیے ریان کے دل میں محبت بڑھتی چلی گئی تھی۔ وہ شروع میں خود اس احساس سے بھاگ رہا تھا مگر مر حا کا عشق کچھ اس طرح ریان پر سوار ہو ا تھا کہ وہ ہر چیز بھلا کر صرف مرحا کا ہو کر رہ گیا۔


مر حاریان کے لیے کیا ہے اس کا اندازہ وہاں موجود ہر انسان کو تھا۔ عمل کو بھی ریان کی دیوانگی اچھی طرح نظر آرہی تھی مگر وہ پھر بھی اس دیوانگی کو ان دیکھا کر رہی تھی۔


وہ مرحا کو ہمیشہ کے لیے ریا سے دور کرنا چاہتی تھی بنا یہ سوچے کہ اس طرح وہ ریان کو ہی موت کے منہ میں دھکیل رہی ہے۔


کل ڈھولکی تھی جو گھر کے اندر ہی ہال میں ہوئی تھی۔


زیادہ لوگ اس میں مدعو نہیں تھے کیونکہ یہ صرف ایمان کی ضد پہ رکھی گئی تھی۔


کل بس سب نے تھوڑا شور شرابہ کرنا تھا ناچ گانا کرنا تھا اس کے بعد تو نور اور عینی کی رخصتی ہو جانی تھی۔


تینوں دلہنیں مایوں بیٹھ گئی تھیں۔


اس وقت وہ تینوں ہی کپڑے تبدیل کر کے بیلو کلر کی سیلیو و لیس کمیز اور پنڈلیوں تک آتے پاجامے میں ملبوس تھیں۔


ایمان اور آرزو آج میبیں رکی تھیں اور اس وقت وہ مرحا کے کمرے میں بیٹھی تینوں کو اجتن سے نہلا چکی تھیں۔


مر حانور اور عینی کے ہاتھوں پاؤں چہرے ابتن میں رنگے ہوئے تھے۔


مرحا اور نور تو اس کو بہت انجوائے کر رہی تھیں مگر عینی خوب چڑی تھی لیکن ایمان اور آرزو نے اس کی ایک بھی نے بغیر اسے خوب ابتن لگایا تھا۔


ایمان نے خاموشی سے تینوں کی تصویریں بنا کر ان کے دولہوں کو سینڈ کر دی تھیں۔


ساحر کر کمرے میں آنے کی اجازت بالکل نہیں تھیں کیونکہ مر جانور اور عینی کی کنڈیشن ایسی نہیں تھی کہ وہ ساحر کے سامنے جاسکیں اس لیے ایمان نے ساحر کو چلتا کر دیا تھا۔


وہ جو ایمان کے رکنے پہ بے حد خوش تھا ایمان کا اس طرح خود کو کمرے میں بند کر لینے پہ تلملا کر رہ گیا۔


ٹھیک ٹھیک۔۔ دروازہ بجا تو ایمان نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا۔


یہ ساحر تھا جو چوتھی بار آرہا تھا ایمان کو بلانے مگر وہ اس وقت مستیوں میں لگی تھی۔ اس کا ساحر کے پاس جانے کا کائی موڈ نہیں تھا۔


ویسے بھی ایمان کو پتا تھا پہلے ساحر صرف نکاح نا ہونے کی وجہ سے اس سے دوری بنائے رکھتا تھا مگر اب تو نکاح ہو چکا تھا ایمان کو پورا یقین تھا ساحر اس کا حال بے حال کر دے گا اس لیے وہ اور بھی ساحر سے دوری بنائے ہوئے تھی۔


افففف تمھارے لالا کو چین نہیں ہے۔


ایمان نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔


لڑکی تو تم چلی جاؤ نا کیوں میرے لالا کو پریشان کر رہی ہو۔


مر جانے گھور کر کہا۔


اچھا بچو ابھی ریان بھائی کو کال کرتی ہوں اور بولتی ہوں اپنی جان عزیز بیوی کو آکر اس روپ میں تو دیکھیں۔


ایمان کی بات پہ مر جانے پریشان ہو کر فورانا میں گردن ہلائی۔


ہو سکتا ہے وہ لمحہ ضائع کیسے بنا تمھیں ابھی کے ابھی رخصت کر کے لے جائیں۔


آخر اس وقت وہ تمھیں دیکھ کر بھلا کنٹرول کیسے کریں گے۔


عینی نے بھی لقمہ دیا۔


سب زور زور سے ہننے لگی۔


تم سب بہت بد تمیز ہو یار ایسے تو نہیں کرو میرے ساتھ آج جو انہوں نے کیا ہے وہ کیا کم ہے۔


مرحانے معصومیت سے کہا۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


اتنے میں دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔


افففف میں آئی تمھارے لالا سے نمٹ کر ۔


ایمان کہہ کر دروازہ کھول کر باہر نکلی اور دروازہ بند کر دیا۔


ساحر کیا ہو گیا ہے آپ کو اندر کتنا مزہ آرہا ہے آپ مجھے انجوائے بھی نہیں کرنے دے رہے۔


ایمان نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔


ایمان میری جان آپ پچھلے تین گھنٹے سے انجوائے ہی کر رہی ہیں تھوڑا مجھ پر بھی رحم کرو کیوں تڑپا رہی ہو اتنا۔


ساحر نے بے چارگی سے کہا۔


میں یہاں آپ کے لیے تھوڑی رکی ہوں۔


ایمان نے اتراتے ہوئے کہا تو ساحر نے ایک آئیپر واٹھا کر ایمان کو دیکھا۔


ایمان کو سنبھلنے کا موقع دیے بنا ساحر نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اور اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔


س ساحر کیا کر رہے ہیں پلیز چھوڑیں۔


ایمان کی ساری ہو اپل میں نکل گئی تھی۔ وہ ساحر کی باہوں میں بن پانی کی مچھلی کی طرح پھڑ پھڑا رہی تھی۔


ساحر اسے روم میں لایا اور پاؤں سے دروازہ بند کر دیا۔


ہاں میری جان کچھ کہہ رہی تھیں تم۔


ساحر نے گہری نظروں سے ایمان کو دیکھتے ہوئے کہا۔


اس وقت ایمان نے مرحا کے کپڑے پہن رکھے تھے۔


اور نج کلر کی سمپل پلین لان کی کرتی اور وائٹ ٹراؤزر اور اس پہ اور نج اور وائٹ کلر کا دوپٹہ گلے میں


ڈالی ایمان ساحر کے دل میں اتر رہی تھی۔


میک اپ سے پاک چہرہ روشن روشن ساتھا۔


بال کمر پہ کھلے ہوئے تھے۔


ساحر نے آرام سے ایمان کو نیچے اتارا اور ایسے ہی اسے دیکھنے لگا۔


ساحر کی نظرمیں ایمان کو کنفیوز کر دی تھیں۔


حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں۔

آفرین آفرین آفرین آفرین"


ساحر نے ایمان کے کان میں سرگوشی نما آواز میں گنگنایا۔


ایمان اپنے چہرے پہ آنے والی مسکان کو روک نہیں پائی۔


ساحر نے ایمان کا ہاتھ پکڑا اور اسے ڈریسنگ روم کی طرف لایا۔


ایمان نے ڈریسنگ روم میں دیکھا جہاں ایک سے ایک باربی ڈریسز موجود تھیں۔


ایمان نے حیرانگی سے ساحر کو دیکھا تو وہ مسکرایا۔


میری جان کو کیٹ واک کرنی تھی اس طرح کی ڈریسز پہن کر چلو میرے سامنے کر واب کیٹ واک۔


ساحر نے مسکراتے ہوئے کہا تو ایمان کے چہرے پہ ایکسائٹمنٹ صاف واضح ہوئی تھی۔


کچی میں کر کے دیکھاؤ آپ کو کیٹ واک یہ سب پہن کر ۔


ایمان نے خوش ہو کر پوچھا تو ساحر نے مسکر اکر اثبات میں سر ہلایا۔


ایمان کو چینج کرنے کے لیے چھوڑ کر ساحمہ واپس آیا اور ملکی آواز میں موزیک آن کر دیا۔


منگنی والی رات جب ایمان سے ساحر نے اس کی ساری خواہشیں پوچھی تھی جس میں ایک خواہش یہ


بھی تھی کہ وہ باربی پرنس کی طرح کی ڈریسنگ کر کے کیٹ واک کرنا چاہتی ہے۔


اس ٹائم ساحر نے ایمان کو کہا تھا کہ یہ کتنی عجیب سی خواہش ہے جس پہ ایمان ناراض ہوئی تھی۔


ساحر نے اسی دن سوچ لیا تھا کہ وہ ایمان کی اس خواہش کو پورا کرے گا۔


وہ کسی کے سامنے نہیں مگر اپنے شوہر کے سامنے اس خواہش کو پورا کر سکتی ہے۔


ساحر ایمان کی ہر خواہش کو پورا کرنا چاہتا تھا۔


ساحر کمرے میں موجود سنگل صوفے پر بیٹھا ایمان کا انتظار کرنے لگا۔


دس منٹ بعد ایمان چینج کر کے آئی۔


گھٹنوں سے تھوڑی نیچے آتی بے بی پنک کلر کی فراک جس سے اس کی پنڈلیاں کھلی نظر آرہی تھیں۔ گلا بہت زیادہ ڈیپ تھا اور آہستینے بھی نا ہونے کے برابر تھیں۔


یہ انگریزوں کے طرز پر بنی فراک تھی۔


ساحر کے سامنے اس طرح جانے پہ ایمان کو بہت شرم آرہی تھی۔


ایمان ڈریسنگ روم سے نکل کر سامنے آئی تو ساحر کی نظر میں ایمان پر جم سے گئی تھیں۔


ایمان کا حسن ساحر کو پاگل کر رہا تھا۔


ساحر جانتا تھا ایمان کی یہ اپنی خواہش تھی مگر وہ اس کے سامنے ایسے آنے پر بہت زیادہ نروس ہو رہی ہے اس لیے ساحر نے اسے نارمل کرنے کے لیے اس پہ سے نظریں ہٹائیں۔


چلو چلو اب ایسے کھڑے نہیں ہونا ہے جلدی سے کیٹ واک بھی تو کر کے دکھاؤ۔


ایمان نے گہری سانس لی اور ایک ہاتھ اپنی کمر پہ رکھ کر مسکراتی ہوئی ساحر کو کیٹ واک کر کے دیکھانے لگی۔


اس کے چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت تھی۔


ساحر کی نظریں اور دل ایمان پہ بے ایمان ہونے لگا تھا۔


اسی طرح باقی تینوں بھی پہن کر ایمان ساحر کے سامنے بالکل پروفیشنل انداز میں چلنے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی وہ بات اور تھی کہ ایمان جیسی سیدھی سادھی اور معصوم لڑکی کے لیے یہ کام بے حد مشکل تھا۔


ایمان آخری ڈریس پہن کر ساحر کے پاس سے گزرنے لگی تو اس نے ایمان کی کلائی پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنے اوپر گرایا۔


ایمان اپنا بیلنس ناسنبھالتے ہوئے ساحر کے چوڑے سینے کا حصہ بنی تھی۔


ایمان کے دل نے ایک بیٹ مس کی جبکہ ساحر کا دل تو بے قرار ہو گیا تھا۔


بہت ظلم کر رہی ہو اپنے شوہر پر اتنا حسن دیکھا کر مجھ سے دور رہنے کی امید رکھتی ہو۔


ساحر کا ایک ہاتھ ایمان کی کمر پہ تھا جبکہ دوسرا ہاتھ ایمان کے چہرے پہ آئے بالوں کو کان کے پیچھے


کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔


ساحر کی لو دیتی نظریں ایمان کو شرم سے پانی پانی کر رہی تھیں۔


ایمان نے ساحر پر سے اٹھنا چاہا مگر اس کی پکڑ کمر پہ اتنی سخت تھی کہ وہ بل بھی نہیں پارہی تھی۔ اوپر سے جس طرح کی ڈریس ایمان نے پہن رکھی تھی وہ اسے اور شرمندہ کر رہی تھی۔


ایمان کی جھکی نظریں اور چہرے کی گھبراہٹ ساحر کو گستاخیوں پہ اکسا رہی تھی۔


ساحر نے بہت محبت سے ایمان کے ماتھے پہ لب رکھے۔


باری باری اس کی آنکھوں کو چوما۔


محبت پاش نظروں سے ایمان کے معصوم چہرے کو دیکھ رہا تھا۔


ساحر کی پکڑ ملکی ہوئی تو ایمان فورا ساحر پہ سے اٹھی اور اس کے قریب سے بھاگنے لگی مگر ساحر نے اس کا


ہاتھ پکڑ کر اس کی کوشش ناکام بنادی۔


ایمان کو اپنے دل کی دھڑکنیں کانوں میں گونجتی سنائی دے رہی تھیں۔


زبان تو جیسے بولنے سے ہی قاصر ہو گئی تھی۔


ساحر نے کھڑے ہو کر پیچھے سے اسے اپنی باہوں میں بھرا۔


ایمان۔ سب سے بات کر کے رخصتی کروالوں۔


ساحر نے اتنی محبت سے یہ سوال پوچھا تھا کہ ایمان کا انکار اس کے منہ میں ہی دم توڑ گیا بس گردن بلکی سی نا میں ہلی تھی۔


آئی پرومس تمھارے خوابوں میں رکاوٹ نہیں بنوں گا تم سے دور رہنا میرے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے۔


ساحر کے لہجے کی خماری ایمان کو گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی تھی۔


ابھی نہیں نا پلیز۔


ایمان نے بہت مدھم آواز میں کہا اگر ساحر اس کے بہت قریب نا ہو تا تو شاید سن بھی نا پاتا۔


ابھی نہیں کی وجہ بتاؤ۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


ساحر نے سوال کیا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا۔


ساحر کی گہری نظریں ایمان کو کچھ بولنے ہی نہیں دے رہی تھیں۔


بتاؤ نا جان ابھی کیوں نہیں۔


ساحر نے پھر پوچھا۔


مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔


و ہی مدھم سا لہجہ ۔


تو میں بناؤں گا نا اپنی جان کو ڈاکٹر تم اس بات کی ٹینشن مت لو تم شادی کے بعد بھی آرام سے پڑھائی


میں تم سے اور دور نہیں رہ سکتا میری جان۔


ساحر نے ایمان کے گال سے اپنے گال میں کرتے ہوئے کہا۔


ساحر کے لہجے میں اتنی محبت تھی کہ ایمان کچھ بول ہی نہیں پائی۔


تمھاری خاموشی کو ہاں سمجھوں۔


ساحر نے ایمان کا چہرہ اٹھا کر کہا تو اس نے ساحر کو دیکھ کر دوبارہ نا میں گردن ہلائی


مجھے ڈر لگتا ہے آپ سے۔


ایمان کی معصومیت بھری مدھم آواز ساحر کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔


مجھ سے یا میری قربت ہے۔


ساحر نے مسکرا کر پوچھا۔


آپ کی ۔۔۔ قربت سے۔۔


ایمان نے جھکی نظروں سے کہا۔

ساحر نے ایمان کو چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا۔

میری قربت سے مت ڈرو میری جان میں بہت محبت سے تمھیں سنبھال لوں گا۔ تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا اپنی پلکوں پہ بیٹھا کر رکھوں گا تمھیں میر اوعدہ ہے۔

ساحر کے لہجے سے سچائی جھلک رہی تھی۔

ایمان ساحر کی چاہت کے آگے خود کو بار تا محسوس کر رہی تھی۔

تمھارے فائنل پیپرز کے بعد میں تمھیں ہمیشہ کے لیے اپنا بنالوں گا میری جان بس چار مہینے دے رہا ہوں خود کو میری قربت کے لیے تیار کر لو رہا تمھارا ڈاکٹر بنا تو تمھارا خواب میرا خواب ہے تم ڈاکٹر ضرور بنو گی۔

ساحر نے ایمان سے کہا تو وہ شرما کر اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی۔ ایمان کا یہ اقرار ساحر کو زندگی کی ساری خوشیاں دے گیا تھا۔