تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 34
از۔"طوبیٰ صدیقی"
°°°°°°
❤️❤️❤️
اگر کوئی دیکھ لیتا تو کیا سوچتا اس لیے وہ گارڈن میں آیا کیونکہ ایمان کے کمرے کی کھٹر کی گارڈن میں کھلتی تھی۔
ساحر نے اوپر کھڑ کی کی طرف دیکھا پھر آس پاس نظر دوڑائی۔
شاہ میر شایان نے گھر کو دلہن کی طرح اپنے ہاتھوں سے سجایا تھا اور اس کے بعد سیڑھی کو گارڈن میں ہی رکھ دیا تھا۔
اب ساحر کے کام اس سیڑھی نے ہی آنا تھا۔
ساحر سیڑھی اٹھا کر لایا اور بنا آواز کیسے اسے ایمان کے کمرے کی کھٹر کی پر سیٹ کیا۔
آس پاس دیکھا مگر سب شاید سو چکے تھے۔
ساحر آہستہ آہستہ سیڑھی سے چڑھتا ہوا ایمان کی کھٹڑ کی پہ پہنچا تو اس نے شکر ادا کیا کہ کھٹر کی بند نہیں تھی صرف پردہ ڈالا ہوا۔
اس نے پردہ ہٹایا اور کمرے کے اندر کو د گیا۔
کمرے میں آکر اس کی نظر سامنے بیڈ پر پڑی جہاں ایمان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سورہی تھی۔
وہ ساحر کا انتظار کرتے کرتے نیند میں اتر گئی تھی اس بات کا اندازہ اس کے کپڑوں سے لگایا جا سکتا تھا۔ اس وقت ایمان نکاح کی ہی ڈریسنگ میں موجود تھی۔
ساحر کے چہرے پہ خوبصورت تبسم بکھرا۔
نور عینی اور مرحا کافی دیر تک باتیں کرتی رہیں مگر پھر شاہ میر کی کال آنے پہ نور کو اٹھ کر جانا پڑا۔
عینی کو بھی اپنے کیس سے ریلیٹڈ ایک آن لائن میٹنگ اٹینڈ کرنی تھی جس کی وجہ سے وہ بھی مرحا کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔
شیر از بھی اسی کیس کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا جس کی وجہ سے وہ ایمان کا نکاح بھی اٹینڈ نہیں کر پایا تھا۔
نور اور عینی کے جانے کے بعد مرحا بھی سونے کی تیاری کرنے لگی تبھی اس کا فون بجا۔
ریان کی کال آتی دیکھ مرحا مسکرائی۔
مرجانے کان سے مو بائل لگایا۔
میری جان جان من جان تمنا جان جگر میری ٹیڈی بیئر میری بے بی ڈول میر ابچہ میری زندگی۔۔۔
ریان کی محبت سے بھر پور آواز مر حاجو کھکھلانے پہ مجبور کرگئی۔
مرحا کی کھلکھلاہٹ سن کر ریان کے چہرے پہ زندگی سے بھر پور مسکراہٹ آئی تھی۔
بے بی بعد میں کھکھلانا پہلے ویڈیو کال پر آؤ میں نے اپنی جان کو دیکھنا ہے۔
ریان کی بات سن کر مرحا مسکرائی۔
ریان ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو ملے تھے ہم۔
مرحا نے ریان سے کہا تو اس ٹھنڈی آہ بھری۔
میری جان ہمیں ملے ہوئے دو گھنٹے سینتالیس منٹ انیس سیکنڈ ز ہو گئے ہیں۔
ریان نے کہا تو مر حا کو ہنسی آئی۔
آپ تو ایک ایک لمحے کا حساب لگا کر بیٹھے ہیں ریان۔
مرجانے مسکراتے ہوئے کہا۔
دیکھ لو میری جان میری محبت کا عالم اور ایک تم ہو جو اتنے پیار کرنے والے شوہر کو تڑپاتی رہتی ہو۔
ریان نے شرارت سے کہا۔
میں نے آپ کو کب تڑ پایا۔
مرحانے حیرانگی سے پوچھا۔
تڑپاتی ہی تو ہو ۔ ایک چھوٹی سی کس کے لیے۔
ریان کے لیے میں بے چارگی تھی ۔
ریان آپ بھی نا بہت ۔
ہاں ہاں میں بہت رومانٹک ہوں بے بی لیکن مجھے اپنار و مانس نکالنے کا موقع تو دو۔
مرحا کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ریان بول پڑا۔
افففف ریان
مر حاشر مائی تھی۔
اچھا اب شرمانا چھوڑو ویڈیو کال پہ آؤ۔
ریان مجھے نیند آرہی ہے۔
مر حامیچ میں اس وقت نیند سے بوجھل ہو رہی تھی ریان اس کی آواز سے اندازہ لگا چکا تھا مگر وہ اپنے دل کا کیا کرتا جو مر حا کے لیے ہر وقت تڑپتا رہتا تھا۔
بے بی تم سو جانا بس موبائل ایسے رکھ کر سونا کہ تمھارا چہرہ میری نظروں کے سامنے رہے۔
مجھے ایسا لگے گا جیسے تم میرے پاس ہو۔
ریان کی بات پر مرحا کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ کھلی۔
ریان کی وڈیو کال آنے لگی تو مر جانے گہری سانس لے کر ویڈیو کال اٹینڈ کی۔
مگر مرحا پہ نظر پڑتے ہی ریان کے ماتھے پہ بل پڑے تھے۔
مرحا تمھارا لو کٹ کہاں ہے۔
ریان نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
وہ ابھی اتارا ہے سونے کے لیے صبح پہن لوں گی۔
مرحانے منمناتے ہوئے کہا۔
تمھیں میری بات سمجھ نہیں آئی تھی میں نے کہا تھا نا اس کو اپنے گلے سے نہیں اتار نا کسی بھی قیمت پر
یہ تمھارے گلے سے نہیں اترنی چاہیے مر حافورا پہنوں واپس اسے۔
ریان نے غصے سے کہا تو مر جانے جلدی سے سائیڈ ٹیبل سے چین لوکٹ اٹھایا اور واپس گلے میں پہن لیا۔
ریان کے غصے سے مرحا کی آنکھوں میں نمی اتری تھی۔
وہ تو صرف ریان کی محبت کی عادی تھی اس کا یہ غصہ بھلا وہ کہاں سہہ سکتی تھی۔
میری جان۔
ریان نے محبت سے مرحا کو پکارا جو اپنا چہرہ جھکائے بیٹھی تھی۔
ریان کے پکارنے پر اس نے اپنا چہرہ اٹھایا تو مر حاکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ریان تڑپ گیا۔
میری جان میر ابچہ پلیز رو نہیں اچھا آئی ایم سوری میرابچہ میں کبھی آئیندہ غصہ نہیں کروں گا پلیز چپ ہو جاؤ۔
ریان نے پریشان ہو کر کہا۔
مر جانے اپنے آنسو صاف کیے اور منہ پھلا کر دوسری طرف پھیر لیا۔
میری جان ناراض ہو گئی۔
بے بی سوری نا پلیز مجھے بس غصہ آگیا میں نے تمھیں منع کیا تھانا اسے مت اتار نا اس لیے بس غصہ آگیا
تھا پلیز تم ناراض نہیں ہو میں آئیندہ کبھی غصہ نہیں کروں گا آئی پر دمس۔
ریان کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔
مرحا نے ریان کو دیکھا جو اپنے کان پکڑے بیٹھا تھا۔
اٹس اوکے لیکن اگر آئیندہ آپ نے مجھے ڈانٹا یا غصے میں بات کی تو میں آپ سے کبھی بھی بات نہیں کروں گی۔
مرجانے معصوم سی دھمکی دی۔
اپکا پرومس میرابچہ میں کبھی ایسا نہیں کروں گا اب۔
ریان کی بات پر مرحا مسکرائی۔
مرحا کی مسکراہٹ دیکھ کر ریان کی جان میں جان آئی۔
وہ مرحا کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی آنسوؤں کی وجہ بنا تو ریان کے لیے مرنے کے برابر تھا۔
ریان مجھے نیند آرہی تھی۔
مرحا کو دیکھ کر ریان کو اندازہ تھا وہ نہیں جاگ سکے گی۔
اچھا تم موبائل ایسے رکھ لو کہ میں تمھارا چہرہ دیکھ سکوں پھر سو جاؤ۔
ریان کے کہنے کے مطابق مر جانے تکیے کے ساتھ موبائل لگایا اور خود بلینٹ اوڑھ کر لیٹ گئی۔
ریان کے سامنے مرحا کا چہرہ واضح تھا۔
ریان خود بھی اسی طرح اپنا موبائل لگا کر لیٹ چکا تھا۔
کچھ ہی لمحے میں مرحا نیند میں اتر گئی تھی۔
مرحا کا معصوم چہرہ ریان کے دل کو سکون دے رہا تھا۔
مرحا کو دیکھتے دیکھتے ریان بھی کب نیند میں چلا گیا اسے پتا نہیں لگا۔
ساحر آرام سے چلتا ہوا ایمان کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔
ایمان کا چہرہ اس وقت ساحر کو اپنے دل کے بے حد قریب لگ رہا تھا۔
ساحر نے قریب آکر اس کے ماتھے پہ لب رکھے۔
اپنے چہرے پہ گرم سانسیں محسوس کر کے ایمان کی آنکھ کھلی۔
ساحر آپ۔۔
ایمان کو کچھ بھی بولنے کا موقع دیے بنا ساحر اس کے لبوں پہ جھکا اپنی تشنگی مٹانے لگا۔
ایمان کو اپنی سانس رکتی محسوس ہوئی حتی کہ اس کی آنکھ سے آنسو چھلک پڑا۔
اس کی سانسیں ساحر کی محتاج ہو گئی تھی۔
منہ میں خون کا ذائقہ گھلتا محسوس ہوا تو ساحر پیچھے ہوا۔
ساحر کے پیچھے ہونے پر ایمان گہری گہری سانسیں لینے لگی۔
ساحر مسکرا کر گہری نظروں سے ایمان کو دیکھ رہا تھا۔
ایمان کا شرم سے برا حال ہو گیا تھا وہ اپنی نظر میں بھی نہیں اٹھا پارہی تھی۔
ساحر نے ایمان کو اپنے قریب کیا تو اس نے اپنی سانس روک لی۔
یہ تمھاری سزا تھی۔
ساحر نے اپنے ہاتھ اس کے آگے کرتے ہوئے کہا جہاں ایمان کے ناخن کی وجہ سے ہلکا سانشان پڑ گیا تھا۔
ساحر نے ایمان کا چہرہ اٹھایا جہاں شرم و حیا کے خوبصورت رنگ بکھرے ہوئے تھے۔
بہت محبت سے اس کے ماتھے پر لب رکھے تو اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
ساحر کی جان تمھارا بہت شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے۔ میری زندگی میں اپنی محبت کے رنگ بکھیرنے کے لیے۔
ساحر نے محبت پاش لہجے میں کہا تو ایمان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
آپ کا شکریہ مجھ سے اتنی محبت کرنے کے لیے مجھے اپنا بنانے کے لیے۔
ایمان نے مسکر اکر ساحر کو دیکھ کر کہا تو اس نے جھک کر ایمان کے گال پہ لب رکھے۔
ایمان ہمیشہ میرے ساتھ رہنا کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑنا میں پہلے ہی بہت سی نفرتوں کا شکار رہ چکا ہوں تم دور ہو گئیں نا تو ساحر بے جان ہو جائے گا۔
میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں ساحر۔ آپ کی ہر مشکل میں ہر پریشانی میں خوشی میں غم میں ہر قدم میں آپ کے ساتھ ہوں۔
ایمان نے ساحر کی بات پہ کہا۔
آئی لو دیو ایمان۔ ساحر خان آج سے صرف اور صرف تمھارا ہوا۔
میں وعدہ کرتا ہوں میں ہمیشہ تمھیں خوش رکھوں گا تمھاری خوشی میرے لیے سب سے پہلے ہو گی
تمھیں مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔
ساحر نے ایمان کو اپنی باہوں میں بھرا۔
آج پورے استحقاق سے ساحر نے ایمان کو اپنے قریب کیا تھا۔
ساحر کے پاس سے آتی پر فیوم کی خوشبو ایمان کو سکون بخش رہی تھی۔
جائز رشتے کا احساس ہی اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ دوا جنبی بھی ایک دوسرے کے لیے جان سے زیادہ عزیز ہو جاتے ہیں۔
نکاح کے دو بول انسان کے دل کو پوری طرح اپنے محرم کی محبت میں ڈوبا دیتا ہے۔
ساحر نے ایمان کو الگ کیا اور نرمی سے اس کے لبوں پہ جھکا۔
ایمان کی قربت کا احساس ساحر کو سر شار کر رہا تھا۔
ساحر نے اس کے لبوں کو آزادی دی تو ایمان شرما کر ساحر کے ہی سینے میں اپنا چہرہ چھپ گئی۔
ساحر ایمان کو اپنا بنا کر دل و جان سے بہت خوش تھا۔
اچھا میری جان کل کا ڈریس صبح تک آجائے گا تمھارے پاس شام میں وہی پہننا۔
ساحر نے ایمان کو کہا تو اس نے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلائی۔
تھوڑا اور وقت ایمان کے ساتھ گزار کر ساحر واپس اسی راستے سے چلا گیا۔
ساحر کے جانے کے بعد ایمان کے چہرے پہ ساحر کی چاہت کے رنگ کھلے تھے۔
ایمان نے اپنے رب کا شکر ادا کیا تھا کہ اس کے اللہ نے اس کے نصیب میں ساحر جیسا شخص لکھا جو اس سے اتنی محبت کرتا ہے۔
ذالفقار صاحب کے گھر میں صبح سے ہی افرا تفری کا عالم تھا۔
آج نور عینی اور مرحا کی مایوں کی رسم تھی۔
مایوں کی رسم میں صرف لیڈیز انوائیٹنڈ تھیں
سمینہ بیگم صبح سے تیاریوں میں لگی ہوئی تھیں۔
ایمان بھی ان کی ہیلپ میں لگی تھیں۔
آج تو عمل بھی آگے بڑھ چڑھ کر سارے کاموں میں مدد کر رہی تھی ورنہ وہ تو جیسے سب سے کٹ کے ہی بیٹھ گئی تھی۔
مایوں کے ڈریسز شاہ میر نے نور کے لیے شایان نے عینی کے لیے اور ریان نے مرحا کے لیے خود پسند کیے تھے۔
سمینہ بیگم کو دو پہر تک سارا سامان سجا کر لڑکی والوں کی طرف پہچانا تھا۔
ریان بھائی آج کا کوئی خاص پلان تو نہیں ہے آپ کا۔
آج ہم چاروں باہر چلتے ہیں ویسے بھی ہم تو انو ایکٹڈ ہی نہیں ہیں رسم میں تو گھر میں رہ کر دل جلانے سے تو بہتر ہے۔
شایان نے ریان کے کمرے میں آکر کہا۔
ریان ابھی ابھی سو کر اٹھا تھا۔
آ آ آ ہم ہاں چل سکتے ہیں مگر میں تھوڑا لیٹ تم لوگوں کو جوائن کروں گا مجھے کچھ ضروری کام ہے اس لیے۔
ریان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
شایان نے باغور ریان کو چہرہ دیکھ رہا تھا۔
اب ایسے کیوں گھور رہے ہو بھی۔
ریان نے شایان سے نظر چراتے ہوئے کہا۔
بھائی آپ کا ضروری کام مرحا بھا بھی کی طرف تو نہیں ہے۔
شایان نے کھو جتی نظروں سے پوچھا۔
ارے نہیں بھئی اتنا بھی ویلا نہیں ہوں میں یار کچھ ضروری کام ہے شیری کے پاس جانا ہے مجھے۔
اس سے مل کر تم لوگوں کو جوائن کروں گا۔
ریان نے شایان سے کہا تو وہ مطمئن ہو گیا۔
ٹھیک ہے بھائی پھر ہم سب رات میں پارٹی کرتے ہیں۔
ریان نے مسکرا کر ہامی بھری۔
شایان کمرے سے چلا گیا تو ریان نے سرد آہ بھری تھی۔
افففف مرحابے بی تمھارا عشق مجھ سے کیا کیا کروائے گا۔
ریان نے مسکرا کر سوچا پھر فریش ہونے چلا گیا۔
سمینه بیگم سارا سامان مرحا کے گھر پہنچا آئی تھیں۔
ساحر نے ان کے ہی ہاتھ ایمان کی ساری چیزیں بھیج دی تھیں۔
ایمان اپنے کمرے میں بیٹھی ساری چیز میں دیکھ رہی تھی۔
ڈارک گرین کی گھٹنوں تک آتی فل گھیر والی فراک جس کے ساتھ ہم رنگ چوڑی دار پاجامہ تھا اور
گرین ہی دو پٹہ تھا جس پہ گولڈن رنگ کا بارڈر تھا۔
فراک بہت زیادہ بھری ہوئی بھی نہیں تھی اور ناہی زیادہ سمپل تھی۔
گلے پر گولڈن رنگ سے بہت خوبصورت کام بنا ہوا تھا اور آہستینوں پر بھی سیم سیم گولڈن کام تھا۔
فراک کے پورے گھیر میں گولڈن رنگ کا خوبصورت سا بارڈر بنا تھا۔
ڈریس بہت ہی خوبصورت تھا اور ایمان کی دو دھیار نگت پہ بہت بیچنے والا تھا۔
ڈریس کے ساتھ کی جیولری ہیلز بھیج چوڑیاں ساحر نے ایک ایک چیز بھیجوائی تھی۔
ایمان ستائشی نظروں سے سمینہ بیگم کے ساتھ بیٹھی سب دیکھ رہی تھی۔
ما شاء اللہ سب چیزیں بہت اچھی ہیں۔ تم بہت خوبصورت لگو گی میری جان۔
سمینہ بیگم نے ایمان کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
ایمان کے چہرے کی خوشی دیکھ کر سمینہ بیگم کے دل سے ڈھیروں دعائیں نکلی تھیں۔
نور اور عینی اس وقت مرحا کے روم میں موجود تھیں۔
تینوں کا سامان آچکا تھا۔
شاہ میر نے نور کے لیے دھانی کلر کی فل بھری ہوئی لانگ فراک پسند کی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کی میچنگ کی ساری چیزیں موجود تھیں۔
شایان نے عینی کے لیے مہندی کلر کی فل کام والی شرٹ کے ساتھ اسٹائلش ساپلازو پسند کیا تھا اور باقی ساری میچنگ کا چیزیں بھی ساتھ بھیجی تھیں۔
مرحا کی ڈریس فل پیلے رنگ کی رنگ تھی۔
گھٹنوں سے تھوڑی اوپر آتی پیلے رنگ کی شرٹ جس پہ گولڈن رنگ کا ہینڈ ورک ہو ا تھا۔
ساتھ میں غرارہ تھا اور ہم رنگ دو پٹہ جس کے بارڈر پہ گوٹے کا کام تھا۔
تینوں کی ڈریسز اپنی اپنی جگہ بے حد خوبصورت تھیں۔
تینوں کے لیے ہی پھولوں کی جیولری بھیجی گئی تھی۔
بس مرحا کی جیولری پورے پیلے رنگ کے گیندے کے پھولوں سے بنی تھی جبکہ نور اور عینی کے جیولری موتیا اور گلاب کے پھولوں کی تھی۔
ساحر نے پارلر والی کو گھر پہ ہی بلوانے کا کہا تھا تو انہیں تیار ہونے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔
مرحا کے لیے ریان کا سخت آرڈر تھا کہ اس کو پیک آپ میں نا نہلایا جائے بس ہلکا ہلکا ساہی میک اپ کیا جائے کیونکہ ریان کے مطابق مرحا اگر زیادہ تیار ہونا شروع ہو جائے گی تو اس کے چہرے کی معصومیت ختم ہوتی جائے گی۔
پارلر والی نے آکر تینوں کو تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔
باہر کا سارا انتظام ساحر کر چکا تھا پورے گارڈن کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
ساحر نے کوئی اسٹیج نہیں بنوایا تھا مگر دلہنوں کے بیٹھنے والے حصے کو بہت ہی خوبصورتی سے تیار کیا گیا تھا۔
سینٹر میں ایک جھولا رکھا گیا تھا جس کو پھولوں سے پورا ڈھک دیا گیا تھا۔
اور اس کے ساتھ ایک صوفہ رکھا تھا۔
کیونکہ رسم ایک ایک کر کے ہوئی تھی تو رسم کے لیے ایک دلہن نے جھولے پر بیٹھنا تھا تو باقی دونے صوفے پر۔
سہیل صاحب نے ساری تیاری دیکھی تو ساحر کو شاباشی دیے بنا نہیں رہ پائے۔
ماشاء اللہ ساحر تم نے تو پورے گارڈن کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔
اتنی خوبصوری سے تم نے سب سجوایا ہے۔
سہیل صاحب نے ساحر کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا ت وہ مسکرایا۔ انکل میری تین تین بہنوں کی رسم ہے بھلا میں کوئی کمی کیسے رہنے دیتا۔
ساحر کی بات پر سہیل صاحب نے ساحر کو ڈھیر ساری دعائیں دی۔
اچھا چلیں آپ بھی جلدی سے ریڈی ہو جائیں۔ سب مہمان آنے والے ہونگے۔
میں نے سمینہ آنٹی سے کہا ہے کہ وہ دادا جان احتشام انکل اور شعیب انکل کو لے آئیں وہ لوگ رسم کر کے چلے جائیں گے تو آپ چاہیں تو ان کے ساتھ چلے جائے گا۔ یہاں شور شرابہ ہو گا آپ کی طبیعت نا خراب ہو جائے۔
ساحر نے سہیل صاحب سے کہا تو انہیں بھی ساحر کی بات ٹھیک لگی۔ زیادہ شور سے ان کے سر میں درد اٹھنے لگتا تھا ایسے میں ان کا چکے جانا ہی بہتر تھا۔
ریان کھڑا آئینے میں خود کو دیکھ رہا تھا۔ اس وقت وہ ایک ہوٹل کے روم میں موجود تھا۔
اس وقت کوئی بھی ریان کو دیکھتا تو پہچان نہیں پاتا۔
کندھے تک آتے بالوں کی وگ ، نقلی گھنی مونچھیں ، آنکھ کے نیچے ایک بڑا سا مسیح۔
انگھوٹیاں۔ ہاتھوں میں چاندے کے دو موٹے سے کڑے دونوں ہاتھوں کی دو دو انگلیوں میں پتھر کی انگھ
نیلے رنگ کا کرتا پاجامہ اور اس پہ گلے میں ایک کالے رنگ کا کپڑا اڈا لے وہ ایک دیہاتی لگ رہا تھا۔
کوئی بھی اسے پہچان نہیں سکتا تھا۔
مرحابے بی دیکھو زرا تمھارے پیار میں ریان حید ر کیا سے کیا بن گیا ہے۔
خود پر ایک مسکراتی نظر ڈال کر مرحا سے خیالوں میں مخاطب ہوا۔
وہ اس وقت مرحا سے ملنے کو بے تاب تھا۔
اپنا موبائل اور گاڑی کی چابیاں اٹھائی اور چل دیا اپنی جان سے عزیز منکوحہ سے ملنے۔
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ریان ایسا کچھ کر سکتا ہے۔
مرحا کو بنا دیکھے وہ ایک دن بھی نہیں گزار سکتا تھا اور ویسے بھی کل ڈھولکی تھی اور پھر پر سوں شاہ میر شایان کی بارات میں مرحا نہیں آنے والی تھی اور کل کا اور پر سوں کا ذدن اتنا مصروف ہونے والا تھا کہ ریان کا مرحا سے ملنا بہت زیادہ مشکل تھا ایسے میں بھلاریان دو دن کی دوری کیسے برداشت کر سکتا تھا اس لیے اسے آج لازمی اپنی جان سے ملنا تھا۔
ریان مرحا کے گھر کی طرف چل دیا تھا۔ وہ اپنی پیاری سی بیوی کو مایوں کی دلہن بنے دیکھنے کو بے تاب تھا۔
ریان نے مرحا کے گھر سے دور مین روڈ کی طرف گاڑی کھڑی کی اور پیدل چلتا ہوا اس کے گھر کے پاس آیا۔
مہمانوں کی آمد ورفت شروع ہو گئی تھی۔
گھر لائٹوں سے سجا ہو اتھا۔
ریان گھر کے قریب آیا جہاں کیٹرنگ والوں کی گاڑی کھڑی تھی اور ان کے آدمی گھر میں سامان رکھوا رہے تھے۔
ریان کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔
وہ خاموشی سے چلتا ہوا ان کیٹر نگ والوں کے ساتھ ساتھ اندر داخل ہوا۔
چوکیدار کا دھیان دوسری طرف ہونے کی وجہ سے ریان اس کی نظروں میں نہیں آسکا تھا۔
ریان کی نظر اندر آکر گارڈن کی طرف پڑی تو وہ دل کھول کر مسکرایا۔
کیا بات ہے سالے صاحب تیاری تو بڑی بہترین کی ہے آپ نے۔
ریان نے دل میں ساحر سے کہا۔
ابھی چند ہی مہمان تھے جو گارڈن میں لگی ٹیبلز کے پاس کھڑے تھے۔
ریان خاموشی سے چلتا ہوا اندر کی طرف آیا۔
بال خالی پڑا تھا ملازمہ بھی باہر ہی کے کام دیکھ رہی تھی۔
مرحا کے کمرے سے شور کی آوازیں آرہی تھیں مطلب صاف تھا اس وقت سب لڑکیاں اس کے کمرے میں موجود تھیں۔
قسمت ریان پر مہرباں تھیں کہ ساحر بھی ابھی اپنے روم میں ریڈی ہو رہا تھا۔
ریان مرحا کے روم کے ساتھ بنے روم میں چھپ گیا اور دروازے کو معمولی ساکھول دیا۔
یہ وہ روم تھا جو مرحا اور اس کے بابا میوزک کے لیے استعمال کرتے تھے۔
ریان نے مرحا کو ایک میسیج چھوڑ دیا تھا کہ جب وہ تیار ہو جائے تو اسے کال کرے لازمی جس پہ مرحا کا او کے کا میسج آچکا تھا۔
اب مر حاریان کو کال ہی تب کرتی جب سب اس کے کمرے سے چلے جاتے۔
بس ریان کو اسی لمحے کا ویٹ تھا۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ساحر کی آواز سنائی دی۔
میری پیاری بہنوں جلدی تیار ہو جائیں آپ کے سسرال والے آگئے ہیں۔
ساحر نے مرحا کے روم میں کھڑے ہو کر کہا۔
لالا تینوں برائیڈ ز ریڈی ہیں میں لے آؤں ان کو ۔
آرزو نے ساحر سے کہا تو اس نے آرزو کو تینوں کو لانے کا بولا۔
چلیں آجائیں سب انتظار کر رہے ہیں۔
آرزو نے نور عینی اور مرحا سے کہا۔
تینوں تیار ہو کر بے تحاشہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔
ویسے تو وہ تینوں ہی پیاری تھیں مگر ہلکا ہلکا سا میک اپ ان کی خوبصورتی کا چار چاند لگا گیا تھا۔
تم لوگ جاؤ میں دس منٹ میں آئی۔
مرجانے مدھم آواز میں کہا۔
کیوں بھئی آپ کو دس منٹ کیوں رکنا ہے کیا جیجو سے بات کرتی ہے۔
آرزو نے مرحا کو چھیڑا۔
ہاں ان سے ہی بات کرنی ہے اگر نہیں کی تو ان کا بھروسہ نہیں ہے یہاں ہی ٹپک جائیں گے اس لیے
پلیز میرے لیے مشکل ناکھڑی کریں آپ سب تشریف لے جائیں۔
مرحا کی بات پہ سب کا قہقہہ چھوٹا تھا۔
کوئی شک نہیں ہے اس میں ریان بھائی کا بھروسہ نہیں ہے وہ آبھی سکتے ہیں۔
عینی نے کہا تو مر جا بھی کھکھلائی۔
اچھا ٹھیک ہے جلدی آجانا مگر ۔
آرزو نے مرحا سے کہا اور عینی اور نور کولے کر کمرے سے نکل گئی۔
ریان نے سب کو جاتے دیکھا تو خامشی سے کمرے سے نکل کر جھانکا۔
راستہ بالکل صاف تھا۔
ریان خامشی سے میوزک روم سے نکلا اور مرحا کے روم میں آگیا۔
مرحا کے روم میں داخل ہوتے ہی ریان نے روم اندر سے لاک کیا۔
مر حاجو ریان کا نمبر ڈائل کر رہی تھی دروازہ بند ہونے کی آواز سے مڑی تو انجان شخص کو دیکھ کر
موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
مرحا کی آنکھوں میں خوف اترا۔
کلک کون ہو نقنت تم۔۔
مرحا نے خوفزدہ ہو کر ساحر کو آواز لگانی چاہیے مگر ڈر سے اس کی آواز ہی نکل پارہی تھی۔
مر حامیری جان میں ہوں ریان لالا کو بلا کر کیا میر اپلان برباد کرو گی۔
ریان کی آواز سن کر مر حاضیرت سے دیکھنے لگی۔
در و دریان مرحا نے کپکپاتے ہونٹوں سے ریان کو پکارا تو اس نے اپنی نقلی مونچھیں اور ڈارھی ہٹائی۔
ریان کو دیکھ کر مرحا تیزی سے آکر اس کے گلے لگی تھی۔
مرحا کا جسم خوف سے کانپنے لگا تھا۔
مرحا میری جان کیا ہو گیا اتنا کیوں ڈرگئی میرابچہ میں ہوں ریان ایسے ڈرو گی مجھ سے بھی۔
ریان نے اس کی کمر سہلاتے ہوئے کہا۔
آپ یہ کیا بنے ہوئے ہیں ریان میں بہت ڈر گئی تھی مجھے لگا تھا کوئی پھر مجھے آپ سے دور کرنے آگیا۔
مرحا کی آواز رندھی ہوئی تھی۔
ریان نے اپنی باہوں کا گھیر اسخت کیا۔
ایسے کیسے کوئی آجائے گا تمھیں مجھ سے دور کرنے کیسی کی اتنی ہمت جو میری جان کو مجھ سے دور کر دے ہم۔ چلو بس اپلب ریلیکس ہو جاؤ او کے کوئی تمھیں مجھ سے الگ نہیں کر سکتا۔
ریان مر حاجو محبت سے مدھم لہجے میں سمجھا رہا تھا۔
مگر وہ کہاں جانتا تھا آنے والا وقت اسے مرحا کے لیے کتناثر پانے والا ہے۔
ساحر کی نظر ایمان پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی۔
اس کے پسند کیے کپڑوں میں وہ بے تحاشہ حسین لگ رہی تھی۔
ریان مسکر اگر سب سے ملا اور پھر ایمان کے قریب جا کر کھڑا ہوا۔
ماشاء اللہ آج تو چاند زمین پر اتر آیا ہے۔
ساحر نے ایمان کے کان میں جھک کر کہا۔
ایمان نے مسکر اگر ساحر کو دیکھا لیکن اس کی نظروں کی تاب نالاتے ہوئے اپنی نظریں جھکا گئی۔
ساحر کی آنکھوں میں اس وقت جذبات کا جو سمندر تھا ایمان کے لیے سمجھنا مشکل نہیں تھا۔
آپ کا ارماں آپ کا نام میر اترانہ اور نہیں "
ان جھکتی پلکوں کے سو ادل کا ٹھکانا اور نہیں "
" جچتا ہی نہیں آنکھوں میں کوئی"
" دل تم کو ہی چاہے تو کیا کیجیے "
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
ایمان کو شر ما تا دیکھ ساحر نے اس کے کان میں گنگنا یا تو وہ اور
شرما کر اس سے دور جا کر کھڑی ہو گئی۔
ساحر کی مسکراتی نظریں مسلسل اسے محبت کا پیغام دے رہی تھیں جس سے ایمان کی خود کی دھڑکنیں بے چین ہو رہی تھیں۔
مرحا بے بی تم ایسے ہی مجھ سے لگ کر کھڑی رہیں نا تو میں پھر کنٹرول کھو دوں گا۔ پھر شکایت نہیں کرنا مجھ سے۔
ریان نے شرارت سے کہا تو مر حا نظر جھکا کر اس سے دور ہوئی۔
ریان نے نظر بھر کر اسے دیکھا۔
یلو گلر کے ڈریس میں اس کا حسن بہت کھل رہا تھا۔
ماتھے کے بیچ میں آتا گیندے نے پھولوں کا ٹیکہ اس کے چہرے کو چار چاند لگارہا تھا۔
بالوں کرل کر کے آگے کھلا چھوڑا ہوا تھا۔
چہرے پہ ریان کے آرڈر کے مطابق ہا کا ہا کا ساہی میک اپ کیا گیا تھا۔
لبوں پہ بے بی پنک لپ اسٹک ریان کو چین لوٹ رہی تھی۔
❤️❤️❤️
0 Comments
Post a Comment