تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 33

از۔"طوبیٰ صدیقی"


 

°°°°°°


💖💖💖


کل ایمان کا نکاح تھا تو ان کو بھی گھر کے بہت سے انتظامات دیکھنے تھے۔


نور اور عینی اپنے گھر سے واپس آئیں تو مر حا کا سارا سامان ریان نے بھیجوا دیا تھا۔


عینی نور پلیز یہ سب میرے روم میں رکھوانے میں مدد کر دو۔


مرجانے دونوں کو مخاطب کیا تو وہ مرحا کی ہیلپ کرنے لگیں۔


مر جانے اپنے روم میں جا کر سارا سامان او پین کیا۔


ڈل گولڈن کلر کی خوبصورت سی شارٹ شرٹ جس پہ بہت نفاست سے موتیوں کا کام تھا۔ شرٹ کمر


تک تھی اس کے ساتھ ہی گولڈن کلر کا خوبصورت سالہنگا تھا جبکہ دو بٹہ لال رنگ کا تھا۔


مرحا کے ساتھ ساتھ نور اور عینی کو بھی ریان کی چوائس پر رشک آیا۔


اس میں کوئی شک نہیں قاریان کی چوائس بہت زیادہ اچھی تھی


اٹس سو و و و و و پر بیٹی مر حاتم بہت خوبصورت لگو گی اس میں۔


نور نے مرحا کے گال کھنچتے ہوئے کہا تو وہ بلش کرنے لگی۔


کپڑوں کے ساتھ ساتھ میچنگ جیولری میں بڑے سے گولڈن رنگ کے جھمکے تھے۔


ہاتھوں کے لیے چوڑیوں کا خوبصورت سا سیٹ تھا۔


ہیلز کے ساتھ ساتھ ریان نے اسے ایک لپ اسٹک اور کا جل بھیجا تھا۔


مطلب صاف تھا مر حا کو اس سے زیادہ میک اپ کی اجازت نہیں تھی۔


سامان کے ساتھ آخر میں ایک کارڈ رکھا تھا جس پہ لکھا تھا۔


مجھے پورا یقین ہے یہ سب پہن کر میری جان میرے اوپر بجلیاں گراتی پھیرے گی"


" تمهاراریان"


مرحا کے ساتھ ساتھ نور اور عینی نے بھی یہ نوٹ پڑھا تھا۔


مرحا کا شرم سے برا حال ہو رہا تھا۔


جبکہ نور اور عینی مسلسل اسے چھیٹر رہی تھیں۔


نکاح میں بس کچھ گھنٹے رہ گئے تھے۔


ساری تیاریوں پہ ایک آخری نظر ڈال کر مر جانور اور عینی تیار ہونے جانے ہی والی تھی کہ ساحر گھر میں داخل ہوا۔


اففف لالا کہاں چلے گئے تھے آپ تیار نہیں ہونا کیا ٹائم دیکھیں دو گھنٹے میں نکلنا ہے ہمیں۔


مرحا ساحر پہ غصہ کرتی آگے آئی مگر ساحر کے ساتھ ایک عورت کو دیکھ کر وہ چونکی تھی۔


ساحر اپنے ساتھ یا سر اور رملہ کو لے کر آیا تھا یہ خطرے سے خالی تو نہیں تھا مگر وہ اپنی خوشی کے اس


خاص موقعے پر اپنی پھوپھو سائیں کو شامل کرنا چاہتا تھا۔


ساحر نے رملہ کے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کر انہیں مرحا کے سامنے کھڑا کیا۔


مرحا بنا پلک چھے گائے انہیں دیکھ رہی تھی۔


ان کی آنکھیں ان کا نقشہ حد سے زیادہ مرحا سے ملتا تھا۔


پہچانیے کون ہے یہ۔


ساحر نے رملہ سے مسکرا کر کہا جو پہلے ہی رحا کو دیکھ رہی تھیں۔


اس کا چہرہ مجھ سے کتنا ملتا ہے۔


رملہ نے ساحر کو دیکھ کر کہا۔


آپ سے کیسے نہیں ملے گا چہرہ آپ کے سب سے پیارے لالا سائیں کی شہزادی جو ہے۔


ساحر نے محبت سے کہا تو وہ حیرت سے مرحا کو دیکھنے لگیں۔


آصف لالا سائیں کی بیٹی۔


انہوں نے ساحر کو دیکھ کر تصدیق چاہی تو اس نے مسکرا کر ہاں میں گردن ہلائی۔


مرحانم آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔


اس کے بابا کہتے تھے کہ وہ اپنی پھوپھو سائیں کی فوٹو کاپی ہے اور آج اسے یقین ہو گیا کہ اس کے بابا بالکل ٹھیک کہتے تھے۔


پھوپھو سائیں۔


مرجانے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔


ہاں مرحا یہ ہماری پھوپھو سائیں ہیں ہماری اکلوتی پھوپھو سائیں۔


ساحر نے مرحا کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔


مرحا ان کے گلے لگی تو آنسو خود با خود اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔


رملہ کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے جذبات کس طرح بیان کرے آصف اور رمشاء کی ڈیتھ کا انہیں پتا لگ چکا تھا۔


اب مرحا اس کے سب سے پیارے لالا کی بیٹی تھی وہ لالا جنہوں نے ہمیشہ اس سے صرف محبت کی اس کی عزت کی اس کو باپ اور بھائی دونوں کا پیار دیا تھا۔


پھر وہ دور ہو گئیں وہ سب سے دور ہو گئیں۔


ان ظالموں نے انہیں سب سے دور کر دیا۔


آج اپنے بھائی کی نشانی کو دیکھ کر ان کا دل بھر رہا تھا۔


مرحا کو سینے سے لگائے وہ کتنی ہی دیر تک اپنے آنسو بہاتی رہیں۔


نور اور عینی بھی کھڑی اس ایموشنل لمحے کی قید میں تھی۔


اچھا بس بس لیڈیز پلیز میر انکاح ہے آج آپ لوگ تو رونے کا مقابلہ لگا کر بیٹھ گئیں۔


میری دلہن میرا انتظار کر رہی ہو گی اس لیے اب نورونا دھونا۔


مرحا پھوپھو سائیں کو لے کر جاؤ اور انہیں تیار کر وا اور تم سب بھی جلدی جلدی ریڈی ہو جاؤ۔


ساحر نے مرحا کے ساتھ ساتھ نور اور عینی کو مخاطب کر کے کہا تو وہ بھی رملہ سے ملتی انہیں لے کر تیار ہونے چلی گئی۔


ایمان شیشے کے سامنے بیٹھی خود کو دیکھ رہی تھی۔


کچھ ہی دیر میں اس کا نکاح تھا۔


پارلر والی نے اس کے خوبصورت چہرے کو اپنی مہارت سے اور بھی زیادہ نکھار دیا تھا۔


وائٹ کلر کے لہنگے میں ایمان اس وقت آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی۔


بالوں کو بہت مہارت سے سیٹ کیا گیا تھا۔


اس کے ہاتھوں میں ساحر کے نام کی مہندی نے خوب رنگ چڑھایا تھا۔


ایمان تیار ہو رہی تھی تب ہی سمینہ بیگم کمرے میں آئیں۔


اپنی بیٹی کو اس طرح سجاد دیکھ ان کا دل بھر آیا تھا۔


بچیاں کتنی جلدی بڑی ہو جاتی ہیں۔


میری بیٹی بہت خوبصورت لگ رہی ہے اللہ تعالیٰ تمھیں ہر بری نظر سے بچائے۔


سمینہ بیگم نے ایمان کا ماتھا چوم کر کہا۔


ساتھ ہی اس کے کان کے پیچھے نظر کا ٹیکہ بھی لگا دیا کیونکہ اس وقت ایمان نظر لگ جانے کی حد تک


خوبصورت لگ رہی تھی۔


ماما آپ ایسے روئیں گی تو میں بھی رو دوں گی۔


ایمان نے آنسوؤں کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔


بس کچھ ہی دیر میں وہ کسی اور کی ہونے والی تھی۔


اس کے باپ کا نام ہمیشہ کے لیے اس کے نام سے جدا ہونے والا تھا۔


یہ لمحہ جتنا خوشی سمیٹے ہوئے تھا اتنا ہی غم بھی لیے تھا۔


سمینہ بیگم نے ایمان کو گلے لگایا اور خود کو رونے باز رکھا۔


اچھا چلو لڑکیوں جلدی سے تیار کر دو میری بیٹی کو لڑکے والے آتے ہی ہونگے۔


ہمیں ان سے پہلے بال پہنچتا ہے۔


سمینہ بیگم انہیں ہدایت دیتیں اپنے صاحبزادوں کو دیکھنے چلی گئیں کہ وہ تیار ہوئے یا نہیں۔


سمینہ بیگم کو پتا تھا اس وقت سب کے سب ریان کے ہی کمرے میں ہونگے تو اس لیے انہوں نے


ڈائریکٹ ریان کے کمرے کا ہی رخ کیا تھا۔


سمینہ بیگم م نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے نظر پڑتے ہی ان کے منہ سے ماشاء اللہ نکلا تھا۔


ان کے چاروں بچے اپنے شہزادوں جیسی آن بان لیے تیار کھڑے تھے۔


چاروں بھائیوں نے سیم ڈریسنگ کی ہوئی تھی۔


وائٹ کاٹن کی شلوار قمیض اور اس کے اوپر براؤن شال لے رکھی تھی۔


وہ چاروں ہی اتنے جاذب نظر لگ رہے تھے کہ سمینہ بیگم کو ڈر ہونے لگا کہیں ان کے بچوں کو نظر ہی نا لگ جائے۔


بچے تو ان کے سارے ہی بہت خوبصورت تھے مگر ریان اب بھی ان سب میں نمایا نظر آرہا تھا۔


انہوں نے اپنے بچوں کی نظر اتاری۔


میرے شہزادے تیار ہو گئے ہیں تو ہال کا رخ کر لیں۔


ایمان کو میں لے کر آؤں گی آپ لوگ ہال پہنچو یہ ناہو لڑکے والے پہلے پہنچ جائیں۔


سمینہ بیگم نے مسکرا کر کہا تو چاروں نے ان کی ہاں میں ہاں ملا کر بال جانے کے لیے نکلنے لگے۔


سب لوگ ہال پہنچ چکے تھے۔


ساحر کا سب نے بہت بہترین طریقے سے ویلکم کیا تھا۔


آف وائٹ کر تا شلوار پہ گولڈن کلر کا پرنس کوٹ پہنے ساحر بہت ہینڈ سم لگ رہا تھا۔


مرحا کو دیکھ کر ریان کی نظریں اس پر سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔


مرحا اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ ریان اسے دیکھ کر سانس تک لینا بھول گیا تھا۔


اوپر سے مرحا کا شر مایا گھبر ایا روپ ریان کے دل میں اتر رہا تھا۔


ساحر نے ریان کی پوری فیملی سے رملہ پھو پھو سائیں سے ملوایا تھا۔


ریان نے بہت محبت اور احترام سے انہیں اپنی خوشیوں میں خوش آمدید کیا تھا۔


ر ماه کوریان مرحا کے لیے بالکل پر فیکٹ لگا تھا۔


ان دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت تھی جو بھی ان دونوں کو ساتھ دیکھتا تعریف کیے بنا نہ رہ پاتا۔


ریان کا مر حاکو بار دیکھ کر مسکرانا اسے بلش کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔


شاہ میر بھی نور کا ہاتھ تھا مے سب لوگوں سے مل رہا تھا۔


شایان بھی عینی کو ساتھ لیے سب سے اسے ملوار ہا تھا۔


آرزو نے بے بی پنک کلر کا ڈریس پہنا ہوا تھا جس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی شہیر بار بار اس کو


دیکھتا تو وہ آگے سے منہ چڑا کر اسے ہننے پر مجبور کر دیتی۔


اولیس بیٹا نکاح کی رسم شروع کریں۔


والفقار صاحب نے اولیس صاحب کو مخاطب کر کے کہا تو انہوں نے ہامی بھری۔


جاؤ بچوں ایمان کو لے کر آؤ۔


ذالفقار صاحب نے کہا تو ریان سمیت تینوں بھائی ایمان کو لینے چلے گئے۔


ایمان اس وقت برائیڈل روم میں موجود تھی۔


ریان شاہ میر شہیر اور شایان اندر آئے تو اپنی بہن کو دیکھ کر چاروں بھائی اس کی بلائیں لینے لگے۔


آج ان کی جان سے پیاری بہن کیسی اور کی ہونے جارہی تھی۔


ریان نے ایمان کے ماتھے پر بوسہ دیا تو وہ مسکرائی۔


بہت پیاری لگ رہی ہے میری گڑیا اللہ پاک نصیب اچھے کرے۔


ریان کے کہنے پہ سب نے آمین کہا تھا۔


ریان شاہ میر شایان اور شہیر ایمان کو پھولوں کی چادر کے سائے میں لا رہے تھے۔


ایمان کے چہرے پر اس وقت لال دوپٹے سے گھونگھٹ نکلا ہوا تھا۔


وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسٹیج کی طرف جارہی تھی جہاں ساحر بیٹھا بے تاب نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔


اسٹیج کے بیچ میں پھولوں کا پردہ رکھا گیا تھا جس کی ایک طرف ساحر بیٹھا تھا اور دوسری طرف ایمان کے لیے جگہ رکھی گئی تھی۔


ریان نے لا کر ایمان کو صوفے پر بیٹھا یا اور خود اس کے ایک طرف بیٹھ گیا۔


ایمان نے ریان کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ جبکہ ریان نے اس کے کندھے سے تھام کر اسے تحفظ کا احساس دیا ہو ا تھا۔


ساحر کے ساتھ سہیل صاحب اور اولیس صاحب بیٹھے تھے باقی سب لوگ قریب قریب کھڑے تھے۔


چاروں بھائیوں نے سیم ڈریسنگ کی ہوئی تھی۔


وائٹ کاٹن کی شلوار قمیض اور اس کے اوپر براؤن شال لے رکھی تھی۔


وہ چاروں ہی اتنے جاذب نظر لگ رہے تھے کہ سمینہ بیگم کو ڈر ہونے لگا کہیں ان کے بچوں کو نظر ہی نا لگ جائے۔


بچے تو ان کے سارے ہی بہت خوبصورت تھے مگر ریان اب بھی ان سب میں نمایا نظر آرہا تھا۔


انہوں نے اپنے بچوں کی نظر اتاری۔


میرے شہزادے تیار ہو گئے ہیں تو ہال کا رخ کر لیں۔


ایمان کو میں لے کر آؤں گی آپ لوگ ہال پہنچو یہ ناہو لڑکے والے پہلے پہنچ جائیں۔


سمینہ بیگم نے مسکرا کر کہا تو چاروں نے ان کی ہاں میں ہاں ملا کر بال جانے کے لیے نکلنے لگے۔


سب لوگ ہال پہنچ چکے تھے۔


ساحر کا سب نے بہت بہترین طریقے سے ویلکم کیا تھا۔


آف وائٹ کر تا شلوار پہ گولڈن کلر کا پرنس کوٹ پہنے ساحر بہت ہینڈ سم لگ رہا تھا۔


مرحا کو دیکھ کر ریان کی نظریں اس پر سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔


مرحا اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ ریان اسے دیکھ کر سانس تک لینا بھول گیا تھا۔


اوپر سے مرحا کا شر مایا گھبر ایا روپ ریان کے دل میں اتر رہا تھا۔


ساحر نے ریان کی پوری فیملی سے رملہ پھو پھو سائیں سے ملوایا تھا۔


ریان نے بہت محبت اور احترام سے انہیں اپنی خوشیوں میں خوش آمدید کیا تھا۔


ر ماه کوریان مرحا کے لیے بالکل پر فیکٹ لگا تھا۔


ان دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت تھی جو بھی ان دونوں کو ساتھ دیکھتا تعریف کیے بنا نہ رہ پاتا۔


ریان کا مر حاکو بار دیکھ کر مسکرانا اسے بلش کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔


شاہ میر بھی نور کا ہاتھ تھا مے سب لوگوں سے مل رہا تھا۔


شایان بھی عینی کو ساتھ لیے سب سے اسے ملوار ہا تھا۔


آرزو نے بے بی پنک کلر کا ڈریس پہنا ہوا تھا جس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی شہیر بار بار اس کو


دیکھتا تو وہ آگے سے منہ چڑا کر اسے ہننے پر مجبور کر دیتی۔


اولیس بیٹا نکاح کی رسم شروع کریں۔


والفقار صاحب نے اولیس صاحب کو مخاطب کر کے کہا تو انہوں نے ہامی بھری۔


جاؤ بچوں ایمان کو لے کر آؤ۔


ذالفقار صاحب نے کہا تو ریان سمیت تینوں بھائی ایمان کو لینے چلے گئے۔


ایمان اس وقت برائیڈل روم میں موجود تھی۔


ریان شاہ میر شہیر اور شایان اندر آئے تو اپنی بہن کو دیکھ کر چاروں بھائی اس کی بلائیں لینے لگے۔


آج ان کی جان سے پیاری بہن کیسی اور کی ہونے جارہی تھی۔


ریان نے ایمان کے ماتھے پر بوسہ دیا تو وہ مسکرائی۔


بہت پیاری لگ رہی ہے میری گڑیا اللہ پاک نصیب اچھے کرے۔


ریان کے کہنے پہ سب نے آمین کہا تھا۔


ریان شاہ میر شایان اور شہیر ایمان کو پھولوں کی چادر کے سائے میں لا رہے تھے۔


ایمان کے چہرے پر اس وقت لال دوپٹے سے گھونگھٹ نکلا ہوا تھا۔


وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسٹیج کی طرف جارہی تھی جہاں ساحر بیٹھا بے تاب نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔


اسٹیج کے بیچ میں پھولوں کا پردہ رکھا گیا تھا جس کی ایک طرف ساحر بیٹھا تھا اور دوسری طرف ایمان کے لیے جگہ رکھی گئی تھی۔


ریان نے لا کر ایمان کو صوفے پر بیٹھا یا اور خود اس کے ایک طرف بیٹھ گیا۔


ایمان نے ریان کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ جبکہ ریان نے اس کے کندھے سے تھام کر اسے تحفظ کا احساس دیا ہو ا تھا۔


ساحر کے ساتھ سہیل صاحب اور اولیس صاحب بیٹھے تھے باقی سب لوگ قریب قریب کھڑے تھے۔


سیده ایمان حید ر ولد سید احتشام حیدر آپ کا نکاح ساحر خان ولد امجد خان سے طے پایا ہے کیا آپ کو یہ


نکاح قبول ہے۔


قاضی صاحب کی آواز گونجی۔


سب خامشی سے نکاح کی رسم دیکھ رہے تھے۔


ایمان کے ہاتھ پر ریان نے مضبوطی سے اپنار کھا تو اس کے با مشکل لفظ ادا ہوئے۔


" قبول ہے "


اور پھر دو دفع اور پوچھنے پر ایمان نے اپنے دل کی پوری رضامندی سے خود کو ساحر کو سونپ دیا تھا۔


اب قاضی صاحب نے اس کی رضا مندی لی۔


ساحر خان ولد امجد خان آپ کو سیده ایمان حید ر ولد سید احتشام حیدر آپ کو اپنے نکاح میں قبول ہیں.


قاضی صاحب کی آواز پہ ساحر نے ایمان کو دیکھ کر اسے اپنے نکاح میں قبول کیا۔


ساحر کے قبول کرنے کے بعد دعا کے لیے سب کے ہاتھ اٹھے تھے۔


ریان سمیت سب کی آنکھیں نم ہو ئیں تھی۔


پھر مبارکبادی کا سلسلہ شروع ہوا۔


چلیں لالا جائیں اپنی دلہنیا کا گھونگھٹ تو اٹھائیں۔


مرجانے ساحر سے کہا تو سب مسکرائے۔


ساحر اس پردے کے بیچ سے نکل کر ایمان کے سامنے آیا اور اسے بہت محبت سے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا اور اس کا گھونگھٹ اٹھایا۔


ایمان کا شر ما یا گھبر ایا روپ ساحر کے سامنے آیا تو اس کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔


ایمان کا روپ ساحر کے دل میں جذ باتوں کا طوفان اٹھا رہا تھا۔


ساحر نے ایمان کے ماتھے پہ اپنے محبت کی مہر ثبت کی تو سب نے تالیاں بجائیں۔


نکاح مبارک کو زوجہ محترمہ۔


ساحر نے ایمان کے کان میں سرگوشی کی تو اس نے مسکرا کر اپنا چہرہ جھکا لیا۔


آج ایمان اور ساحر ہمیشہ کے لیے ایک ہو گئے تھے۔


ان کی جوڑی بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی ہر کوئی انہیں مبارکباد دیتا اور ڈھیر ساری دعائیں دیتا


نظر آرہا تھا۔


اپنی بیٹی کی ذمہ داری ادا کر کے احتشام صاحب اور سمینہ بیگم بھی بہت خوش تھیں۔


نکاح کی رسم ادا ہو چکی تھی۔


ساحر اور ایمان کا فوٹو شوٹ چل رہا تھا۔


مرحا انہیں کے پاس کھڑی اپنے موبائل سے دونوں کی تصویر میں بنارہی تھی۔


بیوی اپنے شوہر پر بھی نظر کرم کر دو کیا دوسروں کی تصویر میں بنانے میں لگی ہو۔


ریان نے مرحا کے کان میں آکر کہا تو وہ ایک دم ڈر گئی۔


ریان مرحا کے اس طرح ڈرنے پر محفوظ ہوا تھا۔


ارے واہ اب اپنے ہی شوہر سے ڈرا جائے گا۔


ویسے تمھیں ڈرنا بھی چاہیے بس کچھ ہی دن کی بعد تم میری ان پناہوں میں ہو گی۔


ریان کی زو معنی باتوں سے مرحا کے چہرے پر سرخی چھائی تھی۔


آپ بھی ناریان کہیں بھی شروع ہو جاتے ہیں۔


مرجانے مدھم آواز میں ریان کو گھور کر کہا تو وہ دل کھول کر مسکرایا۔


ہم تو ایسے ہی ہیں۔ بیوی ہو میری تم سے محبت بھری باتیں کرنے کے لیے میں کسی سے ڈروں گا کیا۔


ریان کی بات پہ مر جانا میں سر ہلا کر رہ گئی۔


اس معاملے میں تو ریان سے بحث ہی فضول تھی وہ اپنی محبت کا اظہار کھل کر کرنے کا عادی تھا۔


مگر ریان کا یہ انداز مرحا کو شرم سے پانی پانی کر دیتا تھا۔


بیوی یہاں ایسے بلش مت کرو میرے جذبات آؤٹ آف کنٹرول ہو گئے نا تو تم سنبھال بھی نہیں پاؤ گی


مجھے۔


ریان نے پھر مرحا کے کان میں سرگوشی کی تو مر جانے دوبارہ اسے گھوری سے نوازا۔ ریان نے مسکرا کر مر حا کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے ساتھ برائڈل روم میں لے گیا جو اس وقت خا خالی پڑا تھا۔


ریان آپ کیا کر رہے ہیں لوگ دیکھ رہے ہیں کیا سوچیں گے۔


مرحا نے ریان کے ہاتھ سے ہاتھ نکالنا چاہا مگر ریان کی پکڑ اتنی ہلکی بھی نہیں تھی کہ مرحا اپنا ہاتھ چھڑوا پاتی۔


ریان نے مرحا کو برانڈل روم میں لاکر اندر سے لاک لگایا تو مر حا کے جان نکلنے لگی۔


اس وقت وہ ریان کی قربت سہنے کی کنڈیشن میں ہر گز نہیں تھی۔


روم لاک کر کے ریان نے مسکرا کر مر حا کو دیکھا جو نروس سی کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔


اب میری بے بی ڈول کہاں بھاگے گی۔


ریان مسکرا کر کہتا مر حا کے قریب آیا اور جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا۔


مر حانوٹی ڈال کی طرح ریان کی باہوں میں سمائی۔


در ر ر ریان ۔۔۔ پلیز ۔۔۔ سب باہر سب مہمان۔۔ ہیں۔۔


ریان کا پاس آنا مر حاکو بو کھلا چکا تھا۔


الفاظ ٹوٹ کر مرحا کے منہ سے نکلے۔


باہر ہیں سب تم اپنی اور میری بات کرونا یہاں صرف ہم دونوں ہی ہیں۔


ریان نے مرحا کے کان کے قریب سر گوشی کی۔


ریان کی گرم سانسیں مرحا کے چہرے کو جھلسارہی تھیں۔


در ریان ۔۔ پلیز۔۔ ن ن ن نہیں ۔۔


مرحا نے ریان کو دور کرنا چاہا تو اس نے مرحا کی کمر پہ اپنی پکڑ اور سخت کر دی۔


بے بی جب پتا ہے دور نہیں جاسکتیں تو یہ معصوم سی کوششیں مت کیا کرونا کیونکہ تمھاری یہ معصوم سی کوششیں میرے جذباتوں کو اور زیادہ بھڑ کاتی ہیں۔


ریان نے کہہ کر مرحا کے ماتھے پہ لب رکھے تو اس کی آنکھیں شرم سے بند ہو گئیں۔


ریان کی قربت اس وقت اس کی دھڑکنوں کو بے قابو کر رہی تھیں۔


تمھیں اندازہ بھی ہے تم کتنی خوبصورت لگ رہی ہو۔


تمھارا یہ روپ مجھے پاگل کر رہا ہے بے بی ڈول۔


ریان نے مدھم آواز میں کہا اور اس کے دائیں گال پہ اپنے لب رکھے۔


مرحا خود میں سمٹی تھی۔


اتنی خوبصورت لگ کر تم چاہتی ہو میں تم سے دور رہوں ہائے ظالم اتنا ظلم کوئی اپنی ذات پر کیسے کر سکتا ہے۔


ریان نے خمار آلود لہجے میں کہہ کر مرحا کے بائیں گال پہ لب رکھے۔


در و دریان


مرحا کے آواز دم توڑ رہی تھی۔ ریان کی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر کے مرحا اس وقت برف کی مانند پگھل رہی تھی۔


ریان کی جان ریان تم سے بے پناہ عشق کرتا ہے۔


اس دل کی دھڑکن ہو تم میری زندگی کا سکون میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو تم۔


تمھارے بنا تو ریان اب کچھ بھی نہیں ہے۔


ریان نے مدھم آواز میں کہا۔


ریان کے اظہار پہ مرحا کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اور یہی پر ریان کو صبر ٹوٹا تھا۔


ریان ایک ہاتھ مرحا کے چہرے پر رکھ کر اس کے لبوں پہ جھکا تو مر جانے ریان کے کندھوں پہ اپنی پکڑ سخت کری۔


انداز میں شدت تھی۔


وہ اس وقت ریان کے رحم و کرم پر کھڑی تھی۔


ریان نے اسے اس طرح پکڑ رکھا تھا کہ وہ چاہ کر بھی بل نہیں پارہی تھی۔


اپنی دل کی خواہش پوری کر کے ریان پیچھے ہو ا تو مر حا کی سانس واپس آئی۔


اس نے شکایتی نظروں سے ریان کو دیکھا تھا جو اپنے جنون میں مرحا کی سانس تک روکنے کے در پہ پہنچ جاتا تھا۔


مرحا کی نظروں کو سمجھ کر ریان کھل کر ہنسا۔


کیا کروں میری جان تم ہو ہی اتنی کیوٹ دل بے قرار صبر کر ہی نہیں پاتا۔


ریان نے ونک کر کے کہا۔


ریان آپ نے میری ساری لپ اسٹک خراب کر دی اب میں ایسے باہر جاؤں گی کیا۔


مرحا نے خفگی سے مدھم آواز میں کہا۔


بے بی میرے پاس تمھاری ہر پریشانی کا حل ہے۔


ریان نے کہہ کر اپنی پوکٹ سے لپ اسٹک نکالی۔


یہ لپ اسٹک سیم و ہی لپ اسٹک تھی جو ریان نے مرحا کو دی تھی۔


مرحا حیرت سے لپ اسٹک دیکھ رہی تھی۔


ریان آپ جیب میں لپ اسٹک لے کر گھوم رہے ہیں۔


ور یہ تو اپ ایک ہے جو آپ نے مجھے کل دی تھی۔


مرحانے حیرت سے ریان کے ہاتھ سے لپ اسٹک لے کر چیک کی۔


ہاں میری جان یہ وہی لپ اسٹک ہے بالکل سیم شیڈ کی۔


کل میں نے دو سیم لپ اسٹک لی تھیں۔


ایک تمھیں بھیج دی تھی اور ایک اپنے پاس رکھی تھی کیونکہ مجھے پتا تھا تمھیں آج اس فنکشن میں لپ اسٹک کی ضرورت ضرور پڑے گی۔


ریان نے زو معنی انداز میں کہا تو مر حاشرم سے نظریں جھکا گئی۔


مر جانے اپنی لپ اسٹک ٹھیک کی تو ریان نے اسے پیچھے سے آکر ہگ کیا۔


بے بی میری تم پہ پھر نیت خراب ہو رہی ہے تم اتنی پیاری کیوں ہو۔


ریان نے مرحا کے گال کھینچتے ہوئے آئینے میں دیکھ کر کہا۔


ریان خبر دار جواب آپ نے میری لپ اسٹک خراب کی آپ کو اور کچھ نہیں آتا۔


مرحانے گھور کر کہا تو ریان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


آتا تو بہت کچھ ہے میری جان بس زرا شادی ہو جانے دو تم خود حیران رہ جاؤ گی تمھارے ریان کو کیا کیا آتا ہے۔


ریان نے شرارتی لہجے میں کہا۔


ریان آپ بہت گندے بچے بن گئے ہیں۔


مرجانے اپنی شرم چھپاتے ہوئے کہا تو ریان نے ہنستے ہوئے مرحا کو آئینے کے سامنے کھڑا کیا اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہوا۔


اپنی پوکٹ سے اس نے ایک چین لوکٹ نکالا۔


گولڈ کی چین میں گول سالوکٹ ڈالا ہوا تھا جس پہ جان ریان لکھا تھا۔


ریان نے مرحا کے بالوں کو ایک طرف کر کے مرحا کو لوکٹ پہنایا۔


مرجانے مسکرا کر آئینے میں ریان کو دیکھا۔


یہ بہت خوبصورت ہے ریان تھینک یو۔


مرحانے مسکرا کر کہا تو ریان کے لبوں پہ بھی مسکراہٹ آئی۔


مرحا اس کو کبھی بھی اپنے گلے سے الگ نہیں کرنا چاہے کچھ بھی ہو جائے یہ تمھارے گلے سے نہیں اترنی چاہیے۔


ریان نے مرحا کو دیکھ کر کہا تو اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔


میں اسے نہیں اتراؤں گی۔


مرحا کی بات پر ریان مگر ایان


دروازے پہ ہوئی دستک نے دونوں کو متوجہ کیا۔


افففف کوئی سکون لینے ہی نہیں دیتا۔


ریان نے دروازے کو گھور کر کہا اور جا کر دروازہ کھولا تو سامنے عینی نور اور آرزو کھڑی تھیں۔


ریان بھائی آپ کی میٹنگ ختم ہو گئی ہو تو ہم اندر آجائیں۔


عینی نے شرارت سے کہا تو ریان نے مسکرا کر ان لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دی اور خود باہر چلا گیا۔


اہم اہم کیا بات ہے مر حاڈار لنگ آپ نے تو بلش نہیں لگایا تھا پھر یہ آپ کے گال اتنے لال لال کیوں ہو رہے ہیں۔


نور نے مرحا کو چھیڑا۔


ارے آپی سمجھا کرو ناریان بھائی نے نیچرل بلش لگایا ہو گا نا۔


عینی نے ونک کر کے کہا تو سب بہنے لگیں۔


عینی کی بچی سدھر جاؤ۔


مرجانے مصنوعی گھورتے ہوئے کہا لیکن اس کے چہرے کی مسکان ریان کی محبت کا ثبوت دے رہی تھی۔


ویسے ماننا پڑے گاریان بھائی ہیں بہت رومانٹک۔ ان کی تو مرحا پہ سے نظر ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی


اشاروں ہی اشاروں میں باتیں چل رہی تھیں دونوں کی ۔


آرزو نے بھی اپنا حصہ ڈالا تو مر جانے اس کے کندھے پہ چپت لگائی۔


تم سب بہت بد تمیز ہو۔


مر حاشر ماتی ہوئی باہر بھاگ گئی لیکن اپنے پیچھے ہٹنے کی آواز میں اسے سنائی دی تھیں۔


جان من اتنی حسین لگنے کی کیا ضرورت تھی۔


ساحر نے ایمان کے کان میں سرگوشی کی۔


کیوں آپ جل رہے ہیں دلہے سے زیادہ دلہن خوبصورت لگ رہی ہے۔


ایمان نے بھر پور جواب دیا جس سے ساحر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


میں کیوں جلوں گا آخر دلہن بھی تو میری ہے۔


ساحر نے مسکرا کر کہا۔


میں سوچ رہا ہوں ڈائریکٹ تمھیں رخصت کروا کر لے جاؤں۔


تمھارا یہ حسن مجھے بے قرار کر رہا ہے میری جان۔


ساحر نے ایمان کے کان میں سرگوشی کی تو اس نے بے ساختہ ساحر کو گھورا۔


سوچے گا بھی نہیں ایس میں تو نہیں ہورہی ابھی رخصت ایمان نے گھور کر کہا تو ساحر کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


کیوں میری جان کو ڈر لگ رہا ہے۔


ساحر نے ایمان کو چھیڑا۔


میں کیوں ڈروں گی آپ سے۔


ایمان نے اتراتے ہوئے کہا۔


آج رات میرا انتظار کرنا اور کپڑے چھینج نہیں کرنا پھر بتاؤں گا تم کیوں ڈرو گی مجھ سے۔


ساحر کی زو معنی باتوں سے ایمان گھبرائی تھی۔


لوا بھی تو تم ڈر ہی نہیں رہی تھیں اب گھبرارہی ہو۔


ساحر نے کان میں سرگوشی کی تو ایمان نے اپنا نا خن ساحر کے ہاتھ پہ گاڑھا۔


آ ۔۔ میری جنگلی بلی رات میں تیار رہنا اس کا حساب تو رات میں لوں گا۔


ساحر نے مدھم آواز میں کہا تو ایمان نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔


ساحر ایمان کا دماغ رات میں صحیح سے ٹھکانے لگانے والا تھا۔


ان دونوں کو ایک ساتھ ہنستا مسکراتا دیکھ کر سب ہی انہیں دعائیں دے رہے تھے۔


نکاح کا پروگرام بہت اچھے سے ہو گیا تھا۔


کتاب


احتشام صاحب ذالفقار صاحب شعیب صاحب اور سمینہ بیگم نے سب مہمانوں کو رخصت کیا۔


ساحر نے بھی ان لوگوں سے اجازت لی اور گھر کی طرف روانہ ہوا۔


کل عینی نور اور مرحا کی مایوں تھی۔


ساحر کو بہت سارے انتظامات دیکھنے تھے یہ رسم صرف لڑکیوں کی تھی اس لیے گھر میں ہی ساحر نے مایوں کا پروگرام رکھا تھا گارڈن اتنا بڑا تھا کہ آرام سے وہاں مایوں کا پروگرام ہو سکتا تھا۔


اور ڈھولکی میں صرف کچھ ہی لوگ تھے اس لیے اس کا انتظام گھر کے اندر ہی ہال میں کرنا تھا۔

ان دونوں پروگرام میں لڑکوں کی شرکت ممنوع تھی۔

ایمان اپنے کمرے میں آئی چینج کرنے کی غرض سے اس نے وارڈروب کا رخ کیا لیکن اس سے پہلے ہی اس کا موبائل بیچ پڑا۔

ایمان نے موبائل اٹھایا جہاں ساحر کا نام جگمگار ہا تھا۔

ایک پیاری سی مسکراہٹ اس کے چہرے پہ کھلی تھی۔

ایمان نے کال اٹھا کر کان سے موبائل لگایا۔

سوچنا بھی مت چینج کرنے کا آدھے گھنٹے میں آرہا ہوں میں۔

ساحر کی مسکراتی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو وہ نروس ہوئی۔

کیوں آنا ہے آپ نے ابھی ملے تو تھا نن

ایمان نے اپنا لہجہ مضبوط کرتے ہوئے کہا یہ بات اور تھی کی ساحر اچھے سے جانتا تھا اس وقت ایمان کی

کیا حالت ہو رہی ہو گی۔

میری جان کو نکاح کی مبارکباد دیتی ہے اور منہ بھی تو میٹھا کرنا ہے نا۔ ساحر نے مسکرا کر کہا۔

آپ مبارکباد بھی دے چکے ہیں اور منہ بھی میٹھا کر چکے ہیں۔

ایمان نے یاد دلایا۔

نہیں نا جان من مجھے اپنے انداز میں مبارکباد دیتی ہے اور اپنے ہی انداز میں منہ بھی میٹھا کرنا ہے۔ سمجھا

کرو شوہر کا منہ میٹھا کرنے کا انداز زرا مختلف ہوتا ہے۔

ساحر کے لہجے میں شرارت تھی۔

آپ کی اس طرح کی باتیں کوئی سن لے تو یقین نہیں کرے کہ آپ ساحر ہی ہیں۔

ایمان نے کہا تو ساحر ہنسنے لگا۔

سب کے سامنے تو وہ ہمیشہ سلجھا ہو اسیدھا سادھا شریف سا بنار ہتا تھا۔ جو اس کی اصل شخصیت تھی۔

مگر اس کا یہ روپ یہ اند از صرف اپنی ایمان کے لیے تھا۔

کیتا

تم سب چھوڑو بس میر اویٹ کرو میں آتا ہوں۔

ساحر نے کہہ کر کال کائی تو ایمان اب کی بار سچ میں ڈری تھی۔

اسے اچھے سے اندازہ تھا ساحر اسے ایسے ہی تو نہیں چھوڑے گا۔

اللہ جی یہ تو سچ میں آرہے ہیں اب کیا کروں۔

اللہ کرے کوئی انہیں میرے کمرے باہر ہی روک لے وہ آہی نا سکیں۔

ایمان نے معصوم کی دعا کیا یہ جانے بغیر کے ساحر کو نسا سیدھے طریقے سے اس سے ملنے آنے والا تھا۔

اب ساحر نے کہا تھا تو اسے انتظار تو کرنا تھا اس لیے وہ اپنی ہیلز اتار کر بیٹھ پر سکون سے بیٹھ گئی۔

آج کا دن بہت تھکانے والا تھا۔ پورا دن ایمان کو ایک لمحے کا آرام نہیں ملا تھا اوپر سے ایک جگہ بیٹھے بیٹھے اس کی کمر تک اکڑ چکی تھی۔

تھکاوٹ کی وجہ سے اس کو نیند بھی آنے لگی تھی مگر اس نے ساحر کا انتظار تو کرنا ہی تھا۔

ساحر نے مرحا کے کمرے میں جھانکا تو نور اور عینی اس کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ سہیل صاحب دوا کھا کر سو چکے تھے۔

رملہ کو یا سر کے ساتھ ساحر نکاح کی رسم ادا ہونے کے فوراً بعد بھیج چکا تھا۔

ساحر اس وقت اپنا پرنس کوٹ اتار کر صرف کرتا شلوار پہنے ہوئے تھا۔

ساحر نے اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور باہر نکل گیا۔

ساحر نے اپنی گاڑی ایمان کے گھر سے تھوڑے فاصلے پہ روکی تھی۔

وہ چلتا ہوا گیٹ پہ پہنچا تو ہمیشہ کی طرح چوکیدار لیاقت اپنی نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ساحر خاموشی سے اندر آیا اور گارڈن کا رخ کیا۔

ایمان سے ملنے وہ گھر کے اندر سے نہیں جانا چاہتا تھا۔