تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 32

از۔"طوبیٰ صدیقی"


 

°°°°°°


❤️❤️❤️


شاہ میر کا چہرہ ایک دم سیر لیس ہوا۔


عمل جو تم نے آج کرنے کی کوشش کی ہے نہ مجھے تم پہ حیرت ہوتی ہے تم اتنا کیسے گر سکتی ہو۔


ایک بات یاد رکھنا عمل آئیندہ اگر تم نے ریان بھائی کے خلاف کوئی بھی سازش کی تو اچھا نہیں ہو گا۔


اپنے دماغ میں ایک بات بیٹھا لو میری نظر ہر وقت تم پر رہے گی اس لیے اپنے خرافاتی دماغ کو سکون دو اور کوئی بھی فضول حرکت کرنے سے گریز کرو۔


اگر تم نے دوبارہ مرحا اور ریان بھائی کے خلاف کوئی بھی پلیننگ کی تو یاد رکھنا میں تمھارا بہت بر احال کروں گا۔


شاہ میر عمل کو وارن کرتا اس کے کمرے سے نکل گیا۔


شاہ میر کے جانے کے بعد عمل کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی۔


تم میرے اگلے قدم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے شاہ میر ۔


تم ہو سکتے ہو گے اپنی محبت سے دستبردار مگر میں نہیں ہو سکتی ریان صرف میرا ہے اسے میں کسی اور کا نہیں ہونے دوں گی۔


بے شک مرحا اس کے نکاح میں ہے مگر میں مر حاکو ریان کی زندگی سے نکال کر ہی رہوں گی۔


ایک بار مر حاہمارے بیچ سے چلی گئی تو ریان صرف میر ا ہو جائے گا۔


عمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔


عمل اپنی ضد میں اتنی اندھی ہو گئی تھی کہ اسے یہ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ ریان مرحا کے بنازندہ ہی نہیں رہ سکے گا۔


محبت صرف حاصل کرنے کا نام نہیں ہوتا مگر یہ بات عمل کی سوچ سے بہت پرے تھی۔


عمل اور حاشر ریان اور مر حا کو الگ کرنے کی اپنی آخری چال چلنے والے تھے اور اس آخری میں چال میں وہ کس حد تک کامیاب ہو سکیں گے یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا۔


حاشر اور عمل کے ارادے ریان اور مرحا کی زندگی میں جو طوفان لانے والے تھے وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔


سب شادی کی تیاریاں شروع کر چکے تھے سب کی خوشی قابل دید تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا آنا والا وقت ان کی زندگیوں میں کیا قیامت لانے والا ہے۔


اگلے دن ساحر ذالفقار صاحب کے کہے کے مطابق سہیل صاحب اور اولیس صاحب کو لے کر آگیا تھا۔


اب بس شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی۔


سب مرد حضرات اس وقت باہر گارڈن میں بیٹھے تھے۔


سردیوں کا موسم شروع ہو چکا تھا اور دھوپ کی آنکھ مچولی بھی شروع ہو گئی تھی۔ نرم گرم دھوپ سے اس وقت سب ہی بیٹھے لطف اندوز ہو رہے تھے۔


اولیس بیٹا اس جمعے کو ساحر اور ایمان کا نکاح ہے۔


ایمان کا نکاح ہم پہلے اس لیے رکھ رہے ہیں تاکہ ساحر اور ایمان ایک جوڑے کی صورت باقی بچوں کی رسمیں ادا کریں۔


ذو الفقار صاحب نے اویس صاحب سے کہا۔


یہ تو بہت اچھا فیصلہ ہے اباجی۔ ماشاء اللہ اللہ پاک سارے بچوں کو ہمیشہ ہنستا بستار کھے۔


اولیس صاحب نے مسکرا کر کہا تو سب کے نے آمین کہا۔


اچھا اس کے بعد ہفتے والے دن نور عینی مرحا ان تینوں کی مایوں کی رسم ادا کی جائے گی۔


اب تم لوگ یہ بتاؤ کہ لڑکوں کی بھی رسم ساتھ میں کرنی ہے یا پھر علیحدہ علیحدہ۔


ذوالفقار صاحب نے سب کی رائے لی۔


بابا ساتھ ہی ٹھیک رہے گی کیونکہ ماشاء اللہ سے تینوں کا نکاح تو ہو چکا ہے۔


احتشام صاحب نے کہا تو شعیب صاحب نے بھی ان کی بات سے اتفاق کیا۔


بابا میرے خیال سے علیحدہ کرتے ہیں رسمیں۔


اور بارات تک آپ کے تینوں پوتوں کا دلہنوں سے پردہ رہے گا۔


کمینہ بیگم نے مسکرا کر کہا تو ساحر سبیل صاحب اور اولیس صاحب نے اتفاق کیا۔ مجھے بھی یہی ٹھیک لگتا ہے اباجی بھا بھی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ زرابچوں کو تھوڑا تو پریشان کیا جائے۔


اولیس صاحب نے کہا تو سب ہننے لگے۔


بھئی شاہ میر اور شایان کی تو میں پھر بھی گارنٹی کے سکتا ہوں مگر ریان اپنی دلہن کو دیکھے بنارہ لے یہ تو نا ممکن سی بات ہے۔


ذو الفقار صاحب نے کہا تو سب نے قہقہہ لگایا۔


سب ہی جانتے تھے ریان مرحا کے جانے کے بعد سے دیوانہ ہوا پھر رہا تھا۔


چلو پھر ٹھیک ہے ہفتے کو تینوں لڑکیوں کی مایوں کی رسم ہو گی اور اگلے دن یعنی اتوار کو ڈھولکی و غیر درکھ


لینا ایمان نے خاص کہا تھا ڈھولکی کا الگ سے ایک پروگرام ہونا چاہیے۔


اس میں بچیوں کے مہندی وغیرہ لگ جائے گی۔


اور یہاں بھی بچوں نے جو محفل لگانی ہو گی وہ لگالیں گے۔


پھر پیر کو سہیل کی طبیعت کے باعث پہلے شایان اور شاہ میر کی بارات جائے گی اور منگل کو ریان کی بارات لے کر جائیں گے۔


پھر اس کے اگلے دن میں ہیوں کا ساتھ میں ولیمہ ہو گا۔


ذالفقار صاحب کی بات پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔


سب نے خوشی سے اس پہ ہامی بھری اس کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔


ساحر گھر کے اندر آیا اس نظریں دشمن جان کو ڈھونڈ رہی تھیں۔


ساحر بیٹا نکاح تک آپ کا بھی ایمان سے پردہ ہے۔


سمینہ بیگم نے ساحر کے کان کھینچ کر کہا تو وہ مسکرا دیا۔


جی جی بالکل ہم پر دے کا پورا خیال رکھیں گے مگر ایک بار تو ملنے کی اجازت دیں نکاح کی شاپنگ اس سے ڈسکس کرتی ہے۔


ساحر نے بھانا بنایا تو سمینہ بیگم مسکرادیں۔


کل سے اداس ہے بہت کل بھی بہت روئی ہے نکاح کے لیے جہاں خوشی ہے وہاں پہ اپنے بابا کا نام الگ کرنے کا دکھ بھی ہے۔


سمینہ بیگم کی بات پہ ساحر نے اثبات میں سر ہلایا۔


آپ فکر نہیں کریں اس کی اداسی دور کر دوں گا مگر میڈم ہیں کہاں۔


ساحر نے مسکرا کر پوچھا تو سمینہ بیگم نے چھت کی طرف اشارہ کیا اور کچن کی طرف چلی گئیں۔


ساحر سیڑھیاں چڑھتا چھت پہ پہنچا تو ایمان جھلے پہ آنکھیں بند کیے بیٹھی کانوں میں ہینڈ فری لگائے کچھ سن رہی تھی۔


ساحر دیوار سے ٹیک لگائے دشمن جان کو دیکھنے لگا۔


ساحر کی خوشبو کو اپنے ارد گرد محسوس کر کے ایمان نے اپنی آنکھیں کھولیں۔


ساحر آرام سے کھڑ اتک رہا تھا۔


ایمان ایک دم سیدھی ہوئی اور کان سے ہینڈ فری کھینچ کے نکالی۔


اس کے کھلے بال ہو اسے بار بار اس کے چہرے کے گرد بکھر رہے تھے۔


ساحر کو یہ منظر بہت دلکش لگ رہا تھا۔


آپ۔۔ آپ۔۔ کب آئے۔


ایمان نے مدھم آواز میں پوچھا۔


یہ چھوڑو یہ بتاؤ یہ کل سے مجھے اگنور کیوں کیا جارہا ہے۔


ساحر نے نے خفگی سے اسے دیکھ کر کہا تو ایمان نظریں چرا گئی۔


اگنور تو نہیں کیا وہ بس میں ۔۔


ایمان کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے سچ تو یہ تھا کل سے نکاح کا سن کر اس کو ساحر سے عجیب سی شرم محسوس ہو رہی تھی۔


ساحر ایمان کے پاس آیا۔


میری جان کیوں اداس ہے۔


ایمان کا چہرہ اوپر کر کے پوچھا۔


ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا مگر اس کی آنکھوں میں آتی نمی ساحر پہ سب ظاہر گئی تھی۔


ایمان میری جان ایسے نہیں کرونا رونے کی کیا بات ہے ہم ابھی رخصتی تھوڑی ہو رہی ہے جو تم ابھی سے اتنا تو رہی ہو۔


میں جانتا ہوں یہ سب فطری جذبات ہیں مگر تم رومت یار تمھارے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ر ہوتے۔


ساحر نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں پھرتے ہوئے کہا۔


ایمان میری جان جب تک تم نہیں چاہو گی میں تمھیں رخصتی کے لیے فورس نہیں کروں گا سب تمھاری مرضی سے ہو گا پلیز اب رونا نہیں۔


ساحر نے محبت بھرے لہجے میں کہا تو ایمان نے اپنی ہتھیلی آگے کی۔


پرومس۔۔ جب میں بولوں گی ان رخصتی تب ہی ہو گی۔


ایمان کے معصوم انداز پہ ساحر نے مسکرا کر اس کے ہاتھ پہ اپناہاتھ رکھا۔


پکا والا پر و مس میری جان۔


ساحر کے وعدے پہ بھروسہ کر کے ایمان مسکرائی۔


ساحر وہی بیٹھا ایمان سے باتیں کرنے لگا۔


نکاح پہ وہ ہر چیز ایمان کی پسند کی لینا چاہتا تھا مگر کیونکہ اب اس کا پر وہ شروع ہو جانا تھا تو ایمان کو تو وہ لے جا نہیں سکتا تھا اس لیے نکاح کو لے کر اس کی ایک ایک خواہش سن رہا تھا۔


کپڑوں کا اسٹائل کلر جیولری سے کے کر سینڈلز وغیرہ سب ایمان اسے بتارہی تھی جسے وہ اپنے دماغ میں محفوظ کر رہا تھا۔


ذالفقار صاحب نے ہال میں سب بچوں کو بلا کر شادی کی ڈیٹ انائونس کر دی تھی اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ


بارات تک کوئی بھی اپنی دلہن سے نہیں ملے گا جسے سن کر ریان بیٹھا مسکرارہا تھا۔


ریان بیٹا تمھاری یہ شرارتی مسکراہٹ بتارہی ہے تم نے ایسے کسی بھی بات پر عمل نہیں کرنا ہے۔


ریان کو مسکراتا دیکھ احتشام صاحب نے کہا تو اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


میں تو کچھ نہیں بول رہا بابا جان۔


ریان نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔


بیٹا آپ کچھ نا کہیں لیکن آپ کی یہ مسکراتی نظرمیں ناسب بتارہی ہیں۔


ذالفقار صاحب نے ریان کو کہا تو وہ بہنے لگا 


میں اپنی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا بھئی آئی ایم سوری۔


ریان کی بات پر سب کے قہقہے ہال میں گونجے تھے۔


ریان نے شاہ میر اور شایان کو دیکھ کرونک کیا تو دونوں کے چہروں پہ مسکراہٹ گہری ہوئی۔ مطلب صاف تھا کہ ریان کے ساتھ ساتھ وہ دونوں بھی ایسی کسی رسم کو نہیں ماننے والے تھے۔


بھلا نکاح کے بعد اپنی منکوحہ سے دور رہنا آسان تھا کیا۔


اور یہاں تو تینوں ہی اپنی بیگمات کے عشق میں ڈوبے پڑے تھے۔


سب لوگ بہت خوش تھے گھر میں اتنی ساری خوشیاں آگئی تھیں مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان خوشیوں کی مدت کتنی ہے۔


رات کے بارہ بجے سے اوپر کا ٹائم تھا۔


ریان مرحا کے گھر کے باہر کھڑا تھا۔


ایک دن کی دوری اس نے کیسے برداشت کی تھی یہ تو صرف ریان ہی جانتا تھا۔


ریان چلتا ہوا گیٹ کے پاس آیا۔ اس کا ارادہ چوری چھپے اندر داخل ہونے کا تھا مگر وہاں پہ نئے چوکیدار کو دیکھ کر اس کا موڈ خراب ہوا۔


حد ہو گئی ایک دن میں چوکیدار بیٹھا دیا۔ اب کیا کروں۔


ریان ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ مین گیٹ کھلا 


صاحب کون ہیں آپ اور اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں کس سے ملنا ہے آپ کو۔


چوکیدار نے کڑے تیواروں کے ساتھ ریان کو اچھے طرح گھورتے ہوئے پوچھا۔


ارے لالا اتنے غصے میں کیوں ہو آؤ تو زرا بیٹھو تو سہی تھوڑی جان پہچان بنا لیتے ہیں۔


اے ے ے سے لڑکے سب ہو شیاری سمجھ رہا ہوں میں تیری۔ سچ سچ بتا کس مقصد سے آیا ہے یہاں۔


ریان نے اسے مکھن لگانا چاہا مگر چوکیدار کو ساحر نے اتنا ٹائٹ کیا ہوا تھا کہ وہ ریان کے جھانسے میں آنے کو تیار ہی نہیں تھا۔


ریان نے گہری سانس لی اور چوکیدار کو دیکھ کر مسکرایا۔


لالا سچ بتاؤں گا تو مدد کرو گے۔


ریان نے مسکر اکر پوچھا۔


ہم کو میٹھی میٹھی باتوں کے لارے نالگا کون ہے تو اور کیا کام ہے سچ سچ بتا۔


چوکیدار نے اس غصے میں کہا۔


یار لالا اس گھر کا داماد ہوں اپنی منکوحہ سے ملنے آیا ہوں تمھارے اس ساحر صاحب نے تو پابندیاں لگا


دی ہیں تمھیں پتا ہے ایک دن پورا ایک دن گزارا ہے میں نے اپنی بیوی کو دیکھے بنا۔


ریان نے مسکین شکل بنا کر کہا۔


چوکیدار تھوڑا ٹھنڈا پڑا لیکن اب بھی وہ ریان کو شک کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔


ریان نے اپنی پوکٹ سے موبائل نکالا اور مرحا اور اپنے نکاح کی تصویر چوکیدار کو دیکھائی۔


تصویر دیکھ کر چوکیدار ایک دم سیدھا ہوا۔


ارے صاحب جی معاف کرنا غلطی ہو گئی وہ ساحر صاحب کا حکم ہے کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہیں دینی۔


چوکیدار نے جھجھکتے ہوئے کہا تو ریان مسکرایا۔


کوئی بات نہیں لالا مگر اب تمھاری تفتیش ختم ہو گئی ہو تو میں اپنی منکوحہ سے مل لوں۔


ریان نے مسکین شکل بنا کر پوچھا تو چوکیدار نے ہنستے ہوئے مین گیٹ کھولا۔


ریان مسکراتا ہوا اندر داخل ہو اگر اندر آتے ہی اس کی نظر سامنے کھڑے ساحر پی پڑی جو مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔


ریان نے زور سے آنکھیں بیچ کر کھولی تھیں۔


آئیے آئیے بہنوئی صاحب میں نے سوچ بھی کیسے لیا کہ آپ سیدھے طریقے سے شادی تک انتظار کریں گے۔


ساحر نے مسکرا کر کہا تو ریان کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔


بہت ہی سخت پہرے لگارکھیں ہیں تم نے مجھے میری بیوی سے دور کرنے کے لیے۔


ریان نے مصنوعی گھورتے ہوئے کہا تو ساحر کا قہقہ چھوٹا۔


ہاں تم تو جیسے بڑے ان پہروں میں پھننے والے ہونا۔


پر سوں نکاح ہے میرا اس میں دیکھ سکتے تھے تم اپنی بیگم کو اتنی بھی کیا جلد بازی ہے۔


ساحر نے اسے اندر لاتے ہوئے کہا۔


ساحر جی تمھارے نکاح تک کتنے گھنٹے ہو جاتے معلوم بھی ہے پورے بہتر گھنٹے ہو جاتے بھائی رحم کرو


میرے حال پہ اتنے گھنٹے میں کیسے رہوں گا اپنی بیوی سے دور۔


ریان نے ساحر کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے مسکین شکل بنائی۔


ساحر نے ہنستے ہوئے نامیں گردن ہلانے لگا۔


ساحر سوچ لو ایمان کا بھائی ہوں میں بھی یہ وقت تم پر آئے تو مت کہناریان تم بہت ظالم ہو۔


تمھارا نکاح تو ویسے بھی بہت عرصے رہنے والا ہے۔


ریان نے تیر چھوڑا جو بالکل نشانے پر لگا۔


یار تم تو دھمکیوں پہ اتر آئے ہو۔


ساحر نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔


اب کیا کروں جب تم ظالم سماج بنو گے تو مجھے بھی تو کچھ نا کچھ کرنا پڑے گانا۔


ریان نے مسکرا کر ونک کیا۔


اب تم آرام سے بیٹھو میں چلا اپنی بیگم سے ملنے۔


ریان ساحر کی ارے ارے اگنور کرتے مرحا کے کمرے کی طرف چلا گیا اور روم میں جا کر کمرہ اندر سے بند کر دیا۔


اس لڑکے کا کچھ نہیں ہو سکتا۔


ساحر نا میں گردن ہلا تا رہ گیا۔


پیارے میں آیا تو دشمن جان بیڈ پہ فل کمبل اوڑھے نیند کے مزے لوٹ رہی تھیں۔


مرحا کو دیکھ کر ریان کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ بکھری تھی۔


پورے ایک دن کی دوری اس نے سہی تھی مگر اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے پتا نہیں وہ کتنے ٹائم بعد مرحا کو دیکھ رہا ہے۔


مرحا کا پورا وجود کمبل کے اندر تھا بس چہرہ باہر تھا۔


ریان چلتا ہو امر حا کے قریب آیا۔


مرحا سارے جہاں کی معصومیت چہرے پہ سمیٹے اس وقت پیاری سی گڑیا لگ رہی تھی۔


ریان نے مرحا کے چہرے پہ آئی بالوں کی لٹ کو پیچھے کیا اور پیار سے اس کے گال سہلایا۔


مرحا نیند میں کسمسائی۔


اپنے چہرے پر کسی کی گرم سانسیں محسوس کر کے مرحا کی آنکھ کھلی اس سے پہلے کہ وہ چیختی ریان نے


اپنے لبوں سے اس کی پیچ کو اس کے منہ میں ہی تو ڑا تھا۔


مر حاریان کی قربت پہ پھڑ پھڑ ا کر رہ گئی۔


اپنی دل کی خواہش پوری کر کے ریان سیدھا ہوا اور مرحا کا چہرہ دیکھنے لگا جو اس وقت شرم سے لال ہو رہا تھا۔


مر حاریان کو اس وقت اپنے کمرے میں دیکھ کر حیران پریشان کی تھی۔


ریان آپ۔۔ آپ یہاں۔۔ کیسے آئے آپ اندر ۔


الفاظ توڑ توڑ کر زبان سے ادا ہوئے۔


ریان کی او دیتی نظروں سے مرحا پزل ہو رہی تھی۔


میری جان کو تو میری یاد آئی نہیں اس لیے میں خود آگیا اپنی جان کو یہ یاد کروانے کہ کوئی ہے جو ہر پل ہر لمحہ اپنی جان کو بہت مس کر رہا ہے۔


ریان نے خمار آلود لہجے میں کہا۔


ریان کا ہاتھ مسلسل مرحا کے چہرے پہ تھا۔


مرحا اٹھ کر بیٹھی تو ریان بھی اس کے سامنے پاس ہو کر بیٹھ گیا۔


ریان آپ اتنی رات کو یہاں ہیں اگر کسی نے دیکھ لیا اگر لالا نے دیکھ لیا تو۔


مرجانے مدھم آواز میں کہا تو ریان مسکرایا۔


بے بی اپنے لالا کی ٹینشن نہیں لو اپنے سالے صاحب کو بتا کر آرہا ہوں۔


ریان کی بات پہ مرحا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔


کیا ۔ آپ کو لالا نے آنے بھی دیا۔


مرحانے تجس سے پوچھا۔


ہاں بہت سیدھا ہے نا تمھارا لالا جو مجھے ایسے ہی آنے دیتا۔ دھمکی لگا کر آیا ہوں کہ اگر وہ مجھے تم سے


نہیں ملنے دے گا تو میں بھی پھر ظالم بن کر اسے اپنی بہن سے نہیں ملنے دوں گا سمپل۔


ریان نے اپنی حرکت بتائی اور پھر خود ہی ہنسنے لگا۔


کتنی بری بات ہے ریان ایسے کیوں کرا آپ نے۔


مرحانے شکایتی نظروں سے ریان کو دیکھا۔


بے بی زیادہ اپنے لالا کی چمچی نہیں بنو اور یہاں مجھے سکون دو کتنا تڑپا ہوں میں تمھارے لیے پورے ایک دن۔


ریان نے مرحا کو کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے۔


مرحا کی تیز ہوتی دھڑکنیں ریان کو اپنے دل کے ساتھ دھڑکتی محسوس ہو رہی تھیں۔


دور ریان۔۔ پلیز۔۔۔


مر جانے فاصلہ بنانے کی کوشش کی جو بالکل نا مکھن تھا کیونکہ ریان کی پکڑ کافی سخت تھی۔


ریان نے مرحا کو اپنی باہوں میں بھرا۔


تمھارے بنا میرا ایک لمحہ سالوں کے برابر گزرتا ہے میری جان یہ اتنے سارے دن میں کیسے رہوں تمھارے بغیر مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا۔


سب میری محبت کے دشمن بن گئے ہیں اتنے دن کی دوری کھڑی کر دی ہمارے درمیان۔


ریان نے افسردگی سے کہا تو مر حا کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔


ریان کوئی ہمارے پیار کا دشمن نہیں ہے اور یہ دوری بھی تو ہمیشہ کے لیے ایک ہونے کے لیے ہے نا بس کچھ دن کی بات ہے پھر میں ہمیشہ کے لیے آپ کے پاس آجاؤں گی۔


مرجانے نرم لہجے میں کہا تو ریان نے اسے الگ کر کے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیا۔


ریان کی نظریں مرحا کے معصوم چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔


ریان کو اس طرح خود کو دیکھتا پا کر مر حاکی نظر میں شرم سے جھکی تھیں۔


اب تم ایسے شرماؤ گی تو میں بیچارہ کہاں کار ہوں گا۔


نرم محبت بھرے لہجے میں کہا گیا۔


ریان۔۔ آپ جائیں اب پلیز۔۔ رحانے مدھم آواز میں کہا۔


چلا جاؤں گا پہلے ایک چھوٹا سا گفٹ تو دے دو تاکہ میراکل کا دن سکون سے گزر جائے۔


ریان کی بات پہ مر جانے پیچھے کھسکنا چاہا مگر ریان نے اسے کمرے پکڑ کر قریب کر کے اس کے ارادے کو ناکام بنادیا۔


بے بی اچھے بچوں کی طرح بات مان لو ورنہ پھر میں گندہ بچہ بن گیا تو پھر شکایت نہیں کرنا


ریان کی نظروں میں شرارت صاف جھلک رہی تھی۔


مرجانے نظریں چرائی۔


اس کی شرم و حیا کو اگنور کر کے ریان اس کے لبوں پہ جھکا۔


مرجانے اسے ہٹانے کی کوشش کی تو اس نے مرحا کے دونوں ہاتھوں کو اپنی قید میں لیا۔


اپنی مرضی پوری کر کے وہ پیچھے ہوا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔


رک کر ایک مسکراتی نظر مرحا پہ ڈالی جو اس کی حرکت پہ اپنی سانس بحال کر رہی تھی۔


اس سے زیادہ رکتا تو جانا اور مشکل ہو جاتا۔


پرسوں ملیں گے نکاح پہ اور تمھار اڈریس میں کل بھیج دوں گا تم نے وہی پہننا ہے۔


ریان کہتا ہوا تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔


ریان کے جانے کے بعد مرحا اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر شرماگئی تھی۔


ساحر لالا میں اور عینی آج شاپنگ پہ جانا چاہتے ہیں اور گھر سے کچھ سامان بھی لانا ہے تو ہم چلے جائیں۔


سب ڈائینگ ٹیبل پہ ناشتہ کر رہے تھے تب نور نے ساحر کو مخاطب کیا۔


ہاں ہاں بالکل جاؤ۔ ویسے تو میں نے گھر پہ ہی ایک ڈیزائینز کو بلوایا ہے وہ اپنے بیسٹ کلیکشن لے کر آئے گی چاہو تو ڈریسز دیکھ لینا۔


ساحر نے مشورہ دیا۔


ٹھیک ہے لالا ہم دیکھ لیں گے باقی چیزوں کے لیے ہم مال چلے جائیں گے اور پھر واپسی پر سامان بھی لے آئیں گے۔


عینی نے کہا تو اس نے مسکرا کر سر کو جنبش دی۔


مرحا بچہ تم بھی اپنے لیے ڈریس پسند کر لینا ٹھیک ہے۔


ساحر نے مرحا سے کہا تو وہ نروس سی ساحر کو دیکھنے لگی۔


لالا وہ ۔۔ اصل میں۔۔ میر اور لیں۔۔


ارے ساحر لا لا مر حا کاڈر ہیں ریان بھائی نے بھیجوانا ہو گانا سمجھا کریں۔


مرحا کے نروس ہونے پہ عینی نے فورا اس کی بات مکمل کی۔


مرحانے شرماتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تو سب بننے لگے۔


دیکھو زر امیری بہن کتنی شرمیلی ہے اور ایک وہ ریان صاحب ہیں انتہا کے بے شرم۔


ساحر نے شرارت سے کہا تو مر جانے فوراً ساحر کو دیکھ کرنا میں گردن ہلائی۔


نہیں لالا ریان بہت اچھے ہیں وہ ایسے نہیں ہیں۔


مرحانے تیزی سے کہا تو سب نے او و و و و کیا۔


مرحا کی نظریں شرم سے جھکی تھیں۔


لالالٹر کی تو پرائی ہو گئی ہے دیکھیں تو اپنے شوہر محترم کے بارے میں کچھ سن بھی نہیں پارہی ہیں۔


عینی نے مرحا کو چھیٹر اتو اس کے چہرے پر ریان کی محبت کے کئی رنگ کھلے تھے۔


مرحا کو دیکھ کر ساحر کے منہ سے بے ساختہ ماشاء اللہ نکلا تھا۔


ساحر نے نوٹ کیا تھا مر حاوالدین کی ڈیتھ کے بعد سے باتونی نہیں رہی تھی۔ اس کی شرارتوں میں بھی بہت کمی آگئی تھی۔


جب وہ مرحا سے پہلی بار ملا تھا تب کی مرحا میں اور اب کی مرحا میں بہت فرق تھا۔


تب مرحا کی باتیں اس کی شرارتیں اس کا بچپنا اس گھر میں خوشیاں بکھیرے رکھتا تھا مگر اب مرحا بہت سمجھدار ہو گئی تھی۔


اس کا بچپنا کھو گیا تھا اب وہ بہت زیادہ باتیں بھی نہیں کرتی تھی۔


لیکن اس سب میں سب سے اچھی چیز یہ تھی کہ مرحا اپنے غم سے نکل آئی تھی۔


اس نے گھنٹوں رونا چھوڑ دیا تھا۔


ماں باپ کے ذکر پہ اس کی آنکھوں میں آج بھی نمی آجاتی تھی مگر اب وہ زار و قطار رونے کے بجائے ان کے لیے پڑھائی کرتی تھی ان کے لیے دعا کرتی تھی۔


اور یہ بدلاؤ بھی ریان کی محبت کی وجہ سے ہی تھا۔


ریان کی محبت نے اسے ہر غم سے رہائی دے دی تھی۔


ریان کا سمجھا ناریان کی باتیں مرحا بہت جلدی سمجھ جاتی تھی۔


آج مرحا خوش تھی اس کے چہرے پر شرم وحیا کے خوبصورت رنگ چھائے تھے تو صرف اور صرف ریان کی وجہ سے۔ اس نے مر حا کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔


اس حادثے میں ریان نے مرحا کا ہاتھ تھام کر اسے سہارا دیا تھا اور تب سے اس نے مرحا کو ہر طرحسے پروٹیکٹ کیا تھا۔


مرحا کو اپنی جان بنا کر رکھا تھا۔


ساحر کو یہ سب دیکھ کر بہت خوشی تھی کیونکہ اسے یقین تھا مرحا کو دیکھ کر اس کے ماں باپ بھی


دوسرے جہاں میں خوش ہونگے۔


لالا کہاں کھو گئے ڈیزائنر آگئی ہیں۔


ساحر انہیں سوچوں میں گم تھا کہ مر جانے اس کو کندھوں سے پکڑ کر ہلایا۔


ساحر ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔


ہاں گڑیا تم جاؤ تینوں جا کر سلیکٹ کرو کپڑے میں ابھی آیا۔


ساحر نے مرجانور اور عینی کو بھیجا اور خود جا کر سہیل صاحب کی میڈیسن لایا اور ان کو کھلانے لگا۔ سبیل صاحب مسکرا کر ساحر کو دیکھ رہے تھے۔


کیا ہوا انکل آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں۔


ساحر نے مسکرا کر پوچھا وہ سہیل صاحب کا اسے مسکرا کر دیکھنا نوٹ کر چکا تھا۔


دیکھ رہا ہو ہمارا رب ہمیں کس کس طرح نواز دیتا ہے۔


میرا کوئی بیٹا نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ میرے لیے بیٹیاں کسی سے کم ہیں لیکن تم نے میرے بیٹے کی کمی پوری کر دی ساحر ۔


سہیل صاحب نے مسکر اگر اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔


انکل آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں بس مجھے ہمیشہ اپنی دعاؤں میں شامل رکھیے گا۔


ساحر نے بھی مسکرا کر کہا۔


ساحر بیٹا میرے بعد نور اور عینی کا خیال رکھنا ان کی شادی ہو جائے گی مگر ان کے میکے کو تم آباد رکھنا


انہیں کبھی ایسا محسوس مت ہونے دینا کہ وہ یتیم ہو گئی ہیں۔


سہیل نے نم آنکھوں سے ساحر کے سامنے ہاتھ جوڑے تو اس نے فوراً ان کے ہاتھوں کو تھاما۔


انکل یہ کیا کر رہے ہیں آپ پلیز ایسے مجھے شرمندہ مت کریں پہلی بات تو یہ کہ آپ کو کچھ بھی نہیں ہو گا آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے اور آپ نور اور عینی کے لیے پریشان ناہوں میں ہمیشہ ان کا بڑا بھائی


بن کر ان کے ساتھ کھڑار ہوں گا۔


میرے لیے نور اور عینی بھی مرحا کی طرح ہی رہیں گی ہمیشہ۔


یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔


ساحر نے ان کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تو انہوں نے مسکرا کر ساحر کو گلے لگایا۔


خوش رہو بیٹا اللہ پاک تمھارے دل کی ہر مراد پوری کرے۔


سہیل صاحب نے اسے دل سے دعادی تھی جس پہ ساحر نے زیر لب آمین کہا۔


نور اور عینی اپنے ڈریس سلیکٹ کر کے باقی شاپنگ کے لیے مال جارہی تھیں۔


مرحا کو انہوں نے ساتھ چلنے کو کہا تھا مگر اس کو اور بھی بہت کام تھے جس کی وجہ سے وہ نہیں آسکی تھی۔


مینی کار ڈرائیو کر رہی تھی جبکہ نور اس کے ساتھ ہی آگے بیٹھی تھی۔


ابھی آدھا راستہ ہی گزرا تھا کہ سامنے دو بائیکس سامنے سے آکر رکی۔


عینی نے بروقت بریک لگایا تھاور نہ وہ یقینا اپنی گاڑی سے ان دونوں بائیک والوں کو اڑا چکی ہوتی۔


بائیک پہچاننے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔ 


شاہ میر اور شایان ان کا راستہ روکے کھڑے تھے۔


آپی آپ جیجو کو نا میرے شوہر سے دور رکھنا ورنہ میرے شوہر کی صحبت میں رہ رہ کر جیجو چھچھورے ہو جائیں گے۔


عینی نے نور سے کہا تو اس کی ہنسی نکل گئی۔


مینی گاڑی سے اتر کر باہر آئی جہاں شایان شاہ میر اپنا ہیلمیٹ اتارے کھڑے مسکرارہے تھے۔


جیجو آپ تو مجھے بہت شریف قسم کے لگتے تھے مگر لگتا ہے کچھ لوگوں نے آپ کو بگاڑ دیا ہے۔


عینی نے شاہ میر کو دیکھ کر کہا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنسا جبکہ شایان مسکراتی گہری نظروں سے عینی کو دیکھ رہا تھا۔


اس وقت عینی وائٹ جینز پہ لائٹ گرین شرٹ پہنے اور اوپر سے ایک شارٹ بلیک کوٹ پہنے بالکل انگریز لگ رہی تھی۔


سالی صاحبہ ہم ظلم کے مارے لوگ ہیں کیا کر سکتے ہیں بھلا اب اس طرح سے ملنا پڑ رہا ہے اتنے برے دن آگئے ہیں۔


شاہ میر نے مسکرا کر کہا تو مینی کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ آئی۔


شایان تو بس علی باندھے مینی کو بار نے میں مصروف تھا۔


اب آپ جائیں اپنے شوہر کے ساتھ میں چلا اپنی بیوی کو لے کر۔


شاہ میر کہتا ہو انور کی طرف آیا جو گاڑی کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔


شاہ میر کو قریب آتے دیکھ نور کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔


بیگم صاحبہ اجازت ہو تو یہ بندہ ناچیز کچھ وقت آپ کے ساتھ گزار سکتا ہے۔


شاہ میر نے اتنی محبت سے پوچھا کہ نور منع بھی نہیں کر پائی۔


شاہ میر نے وہی ایک شاپ کے پاس اپنی بائیک کھڑی کی اور نور کے ساتھ آکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔


نور کو بائیک سے ڈر لگتا تھا جس وجہ سے شاہ میر نے کار میں ہی جانا بہتر سمجھا۔


شاہ میر زن سے گاڑی بڑھا کے لے گیا۔

کیا ہے شایان کیوں ایسے گھور رہے ہو۔

عینی نے شایان کے مسلسل دیکھنے پہ چڑ کر کہا۔

عینی ڈارلنگ آپ کو ہر طرح سے گھورنے کا لائیسنس ہے میرے پاس۔

اچھا چلو منہ نا بناؤ آو بیٹھو۔

شایان نے عینی کے منہ کے زاویے بگڑتے دیکھ کر کہا۔

عینی نے گہری سانس لی اور شایان کے ساتھ بیٹھ گئی۔

شایان کو اس نے ادھر اُدھر کہیں نہیں لے جانے دیا تھا وہ اسے سیدھے مال لائی تھی۔

عینی نے شایان کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ عینی کو کہیں اور لے کر گیا تو وہ چلتی بائیک سے کو دجائے گی۔ شایان کو عینی پر زرا بھروسہ نہیں تھا وہ بول رہی تھی تو کود بھی سکتی تھی اس لیے اس نے رسک نا لیتے ہوئے عینی کو مال لانا ہی بہتر سمجھا۔

شاہ میر بھی نور کی ضد پہ اسے شاپنگ پہ ہی لایا تھا۔

عینی اور نور کے ساتھ دونوں نے اچھا وقت گزارا تھا اور پھر انہیں ان کے گھر ڈراپ کر دیا تھا۔