تیرا عشق مرہم سا ہے
قسط نمبر 31
از۔"طوبیٰ صدیقی"
°°°°°°
💖💖💖
شایان نے مصنوعی ڈرتے ہوئے کہا تو سہیل صاحب اور نور بننے لگے جبکہ عینی کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ بکھر گئی۔
ارے ہاں ریان بھائی آگئے ہیں تو دادا جان بلا رہے ہیں سب کو باہر ۔
شایان نے سہیل صاحب کو بتایا تو وہ اٹھنے لگے۔
شایان نے انہیں سہارا دیا۔
نور اور عینی بھی ان کے ساتھ ہی بال میں پہنچی تھیں جہاں ریان اور مر حاسب کے ساتھ بیٹھے تھے۔
مرحا اور ریان کے چہرے کی خوشی اور سکون سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر گیا تھا۔
سمینہ بیگم نے دونوں کی نظر اتاری تو وہی دوسری طرف عینی ایمان اور نور مر حا کو الگ بیٹھا کر چھیٹر نے لگیں۔
ارے مرحا بے بی آپ کے گال تو بڑے پنک پنک ہو رہے ہیں ایسا بھی کیا ہو گیاریان بھائی کے ساتھ ام آپ اتنا بلش کر رہی ہیں۔
مینی نے مرحا کے کندھے سے کندھا مارتے ہوئے کہا۔
ہاں بھٹی اور ریان بھیو کو تو دیکھو نظر میں ہٹ ہی نہیں رہی مرحا پر ہے۔
ایمان نے مرحا کو چھیڑا۔
مز اتو ابھی آئے گا جب دادا جان ریان بھائی کو مرحا کے جانے کا بتائیں گے۔
نور نے ہنستے ہوئے کہا تو ایمان اور عینی بھی بننے لگیں جبکہ مرحا ان کی بات پہ کنفیوز ہوئی تھی۔
کیوں بھئی یہ کیا بات ہوئی یہ کس طرح کی خواہش ہے۔
ریان کی آواز پر سب اس کی طرف دیکھا جو دادا جان کی بات سن کر ایک دم کھڑ ا ہوا تھا۔
ریان بیٹا اس میں کچھ غلط نہیں ہے ساحر چاہتا ہے مرحا کی شادی اس کے گھر سے ہو تو اس میں تمھیں سپورٹ کرنا چاہیے۔
ذوالفقار صاحب نے سمجھایا۔
دادا جان یہ تو بہت غلط بات ہے ایسے تو نہیں ہو تا نکاح کے بعد آپ میری بیوی کو مجھ سے دور کر رہے ہیں ایسا تو آپ کو نہیں کرنا چاہیے میں اس بات پہ بالکل ایگری نہیں ہوں مرحا کہیں نہیں جائے گی شادی ہو گی اسی گھر سے ہو گی۔
ریان نے اپنا فیصلہ سنایا۔
ساحر شایان شاہ میر شہیر کے ساتھ باقی سب لڑکیاں بھی اپنی مسکراہٹ روکے ریان کو دیکھ رہی تھیں جبکہ مرحا ابھی بھی کنفیوز تھی۔
ریان میری بات سنو۔
تم تو رہنے دو بھائی میرے پیار کے دشمن ہی بن گئے ہو تم۔ میری بیوی سے مجھے دور کر رہے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔
ساحر نے ریان کو سمجھانا چاہا مگر ریان اسے ہی گھور کر اپنی بات کہہ کر چپ کروادیا۔
ساحر نے ریان کی بات پہ بہت مشکل سے اپنی جنسی کنٹرول کی تھی۔
ریان یہ ہمارا فیصلہ ہے مرحا عینی اور نور تینوں کی شادی ساحر اپنے تایا کے گھر سے کرے گا بس بات ختم۔
ذوالفقار صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا۔
دادا جان آپ کیوں نہیں سمجھ رہے میرے دن کا آغاز نہیں ہو تامر حا کو دیکھے بنا۔
ریان کی بات پر ساری ینگ پارٹی نے او و و و و و و کیا تھا جبکہ بڑے اپنی مسکراہٹ تک نہیں چھپا پائے تھے۔
مرحا تو شرم سے اپنا سر ہی جھک گئی تھی۔
ریان اپنے جذبات کا اظہار کتنے آرام سے سب کے سامنے کر دیتا تھا۔
ریان ادھر آؤ میری بات سنور ساحر نے ریان کو کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے بیٹھایا۔
ریان ہم میں سے کوئی مرحا کو تم سے دور نہیں کر رہا ہم مرحا کو ہمیشہ کے لیے تمھیں سونپ رہے ہیں پورے طور طریقوں کے ساتھ۔
آج آصف تا یا زندہ ہوتے تو وہ بھی تو مر حا کی شادی ایسے ہی کرتے نا جیسے میں کرنا چاہتا ہوں۔
پلیز ریان میری بات سمجھو بس کچھ دن کی بات ہے پھر تو مرحا تمھارے پاس آجائے گی ناہمیشہ کےلیے۔
ساحر بہت اطمینان سے ریان کو سمجھایا۔
ریان نے گہری سانس لی۔
او کے فائن اگر مر حا جانا چاہتی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
ریان نے مرحا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ریان نے مرحا کو آنکھوں کے اشارے سے جانے سے منع کیا
مرحا بیٹا آپ کو مسئلہ تو نہیں ہے۔
ذو الفقار صاحب نے مرحا سے پوچھا۔
نہیں دادا جان مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جیسا آپ سب کو ٹھیک لگے۔
مرجانے مدھم آواز میں کہا اور ریان سے نظریں چرائی ۔
ریان نے مرحا کو گھورا تھا مگر مر جانے اس کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز کیا تھا۔
بس تو ٹھیک ہے ساحر بیٹا یہ طے پایا تم سہیل صاحب کے ساتھ تینوں بچیوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔
شادی پورے دھوم دھام سے ہو گی۔
آج پیر ہے اور اس جمعے کو تمھارا اور ایمان کا نکاح ہو گا۔
کل تم اولیس صاحب کو لے آؤ تو ہم باقی فنکشنز کی ڈیٹ فکس کر لیں گے۔
ذو الفقار صاحب نے ساحر کو مخاطب کیا۔
ٹھیک ہے دادا جان جیسا آپ کا حکم۔
ساحر نے سر خم کر کے کہا۔
ریان غصے سے اٹھ کر سب کے بیچ سے چلا گیا۔
مرحا کا دل دکھا تھا وہ جانتی تھی ریان اس سے ناراض ہو گیا ہے مگر وہ بھی کیا کرتی۔
اسے جانے سے پہلے ریان کو منانا تھاور نہ اس کی شادی کی خوشیاں پھیکی پڑ جائیں گی۔
ریان کا غصے سے برا حال ہو رہا تھا۔
اس نے مرحا کو منع بھی کیا تھا مگر وہ اس کا اشارہ سمجھ کر بھی نا سمجھ بن گئی۔
مرحابے بی جو آپ نے کیا ہے اس کی سزا تو آپ کو جاتے جاتے لے کر جانی ہو گی۔
کافی دیر کمرے میں ٹہلتے ٹہلتے ریان خیالوں میں مرحا سے مخاطب ہو ا تھا۔
ریان نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔
اس کا ارادہ مرحا سے مل کر اس کو سزا دینے کا تھا۔
مرحا اپنا ضروری سامان پیک کر رہی تھی تب ہی ریان کمرے میں داخل ہوا اور کمرے کو اندر سے بند کر دیا۔
ریان آپ مجھ سے۔۔
مرحا کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے کیونکہ ریان نے تیزی سے اس کی طرف بڑھ کر اس کے ہونٹوں کو قید میں لیا تھا۔
انداز میں انتہا کی شدت تھی۔
ریان مرحا کو اپنے انداز میں سزا دے رہا تھا۔
مرحا اس کی قید میں پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔
مرحا نے ریان کو دور کرنے کی کوشش کی تو اس نے مرحا کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ایک ہی ہاتھ سے قید کر لیا۔
ریان کی شدت مرحا کی برداشت سے باہر تھی۔
مرحا کی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے۔
اپنا غصہ مرحا کے ہونٹوں پہ نکال کر ریان مرحا سے دور ہوا تو وہ گہری سانس لیتی ناراض نظروں سے ریان کو دیکھنے لگی۔
ہونٹ کے سائیڈ پر ریان اسے زخم دے چکا تھا جسے دیکھ کر ریان کے چہرے پہ دلفریب تبسم بکھر اتھا۔
ایسے مت دیکھو یہ سزا ہے تمھاری شکر کرو بہت آسان سی سزادی ہے میں نے تمھیں۔
ریان نے گھور کر کہا تو مر جانے ناراضگی سے اپنا چہرہ جھکا لیا۔
ریان نے مرحا کا چہرہ اوپر کیا تو اس کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔
یہ اچھا ہے بیوی ایک تو ظلم خود کرو اور رونے بھی خود لگ جاؤ۔
ریان نے محبت سے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
آپ بہت گندے ہیں۔
مرحا کی بات ریان نے قہقہہ لگایا۔
بے بی ابھی تو ایسا کچھ کیا ہی نہیں ہے مگر بہت جلد تھوڑا سا گند ایچہ بننے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
ریان نے ونک کیا تو مر جانے اپنے نازک سے ہاتھ کا مکا بنا کر ریان کے سینے پہ جڑا۔
ریان نے مسکرا کر اسے اپنی باہوں میں بھرا۔
میں تمھیں بہت مس کروں گا مر حاتمھیں پتا ہے نامیر ا گزارا نہیں ہے تمھارے بنا یہ دو ہفتے کیسے گزریں گے نا یہ مجھے ہی پتا ہے بس۔
ریان نے خفگی سے کہا۔
ریان پتا بھی نہیں لگیں گے دو ہفتے پلیز آپ ناراض نہیں ہوں میں روز آپ سے بات کیا کروں گی نا۔
مرحا نے ریان کو سمجھایا تو اس نے گہری سانس لی۔
ہم کرنا پڑے گا بر داشت اب یہ غم۔ کیونکہ اس کے بعد تم ہمیشہ کے لیے میری دسترس میں ہو گی۔
ریان نے مرحا کے ماتھے پہ لب رکھے۔
آئی لو د یو میری جان اینڈ آئی ویل مس یو ویری بیچ۔
ریان نے محبت پاش لہجے میں کہا تو مر حا مسکرائی۔
مر حاریان سے محبت کرتی تھی مگر اس میں اظہار کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو پاتی تھی۔
آج بھی ریان کے اظہار پہ وہ صرف مسکرائی تھی مگر ریان نے اس سے کوئی شکایت نہیں کی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا مر حابے شک اظہار نا کرے مگر وہ بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتی ہے جتنا وہ اس سے کرتا ہے۔
ریان نے مرحا کا بیگ ایک ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں مرحا کا ہاتھ قید تھا۔
ریان نے سامان ساحر کے حوالے کیا اور ساحر کے ہاتھ میں مر حا کا ہاتھ تھامایا۔
میری امانت ہے یہ اسے چھوٹی سی بھی تکلیف ہوئی نا تو بہت برا ہو گا بہت خیال رکھنا مر حاکا۔
ریان نے ساحر کو کہا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ آئی جبکہ ساحر اس کے سامنے سر جھکا گیا۔ جیسا آپ کا حکم۔
ساحر نے ریان سے کہا اور نظریں ادھر اُدھر گھمائیں۔
اس کی نظر میں ایمان کو ڈھونڈ رہی تھیں مگر وہ دشمن جان تو سامنے آنے کو تیار ہی نہیں تھیں۔
ساحر نے ایک گہری سانس لی اور سب سے اجازت لے کر سہیل صاحب کے ساتھ نور عینی اور مرحا کو کے کر روانہ ہو گیا۔
عمل نے اپنے کمرے کے دروازے سے کھڑے ہو کر یہ سارا منظر دیکھا تھا۔
اس نے موبائل پہ نمبر ڈائل کیا اور موبائل کان سے لگایا۔
مرحا یہاں سے نکل چکی ہے۔ شادی کی ڈیٹ کل فکس ہو گی میں خود تمھیں آگاہ کر دوں گی۔
مر حاریان کی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا کیا کرنا ہے کیا نہیں یہ مجھے بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے۔
مجھے بس ریان سے مطلب ہے تم جو چاہے مرحا کے ساتھ کرو۔
عمل نے اپنی بات کہہ کر کال ڈسکنیکٹ کر دی۔
چہرے پہ گہری مسکراہٹ تھی۔
وہ مرحا اور ریان کو الگ کرنے کا پورا انتظام کر چکی تھی۔ اب بس صحیح وقت کا انتظار تھا۔
کال سننے کے بعد حاشر کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی تھی۔
اب بس عمل نے اسے شادی کی ڈیٹ بتانی تھی اور پھر آگے سارا کام اس نے کرنا تھا۔
مرحاجی تیار ہو جائے آپ کا حاشر بہت جلد آپ کو اپنا بنالے گا۔
حاشر نے مرحا کی تصویر دیکھتے ہوئے کہا۔
عمل نے حاشر کا پتا کر کے اس کے ساتھ ہاتھ ملا لیا تھا۔
عمل کو ریان چاہیے تھا جبکہ حاشر مرحا کو پانے کے لیے پاگل ہو رہا تھا۔
اب دیکھنا یہ تھا وقت اور قسمت عمل اور حاشر کا کتنا ساتھ دیتی ہے۔
ساحر مرحا سبیل صاحب نور اور عینی کو لے کر جا چکا تھا۔
ایمان سمینہ بیگم اور احتشام صاحب کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھی تھی۔
کچھ دن بعد اس کا نکاح تھا اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے ساحر کے نام ہو جانی تھی۔
اپنے بابا کا نام ہٹا کر ہمیشہ کے لیے ساحر کے نام سے جڑ جاتا تھا۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ خوش نہیں تھی۔ ساحر ایک بہت اچھا انسان تھا۔
وہ کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل ہو سکتا تھا۔
پر کشش سا چہرہ ملکی ڈارھی گھنی مونچھیں چھ فٹ کو چھوتی ہوئی ہائٹ۔
سلجھا ہو ا سادہ طبیعت کا مالک ہاں یہ الگ بات تھی اس کی شوخ سائیڈ صرف ایمان کے سامنے کھلی تھی
اور وہ صرف ایمان کے لیے ہی اپنی شخصیت سے ہٹ کر شوخ اور رومانٹک تھا۔
نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جس کی خوشی ہر لڑکی کو ہوتی ہے مگر اس میں ماں باپ سے بچھڑنے کا دکھ بھی ساتھ ہوتا ہے۔
جہاں ایمان کو ایک محبت کرنے والے شخص کا ساتھ پانے کی خوشی تھی وہی اپنے ماما بابا کے لیے پرائی ہو جانے گا غم بھی تھا۔
ابھی بھی وہ احتشام صاحب کے سینے سے لگی آنسو بہار ہی تھی۔
ایمان میر ابچہ کیا ہو گیا ہے میری گڑیا کو ایسے کیوں رورہی ہے میری گڑیا۔
احتشام صاحب نے پیارے اس کے ماتھے پہ بوسا دیتے ہوئے کہا۔
ہاں میرا بیٹا کیا ہو گیا ہے ابھی ہم کو نسا آپ کی رخصتی کر رہے ہیں ابھی تو آپ ہمارے پاس رہیں گی نا۔
سمینہ بیگم نے بھی اسے پیار سے سمجھایا تو ایمان نے احتشام صاحب کے سینے سے سر اٹھا کر اپنی آنکھیں صاف کیں۔
ماما بابا میں ابھی کہیں جاؤں گی بھی نہیں آپ لوگوں کو چھوڑ کر کہہ دیجیے گا اپنے داماد سے خبر دار جو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی بات کی۔
ایمان نے اپنے مالی بابا کو دیکھ کر کہا تو انہوں نے مسکرا کر ایمان کو دیکھا۔
ہاں ہاں اس کے مجال وہ میری گڑیا کو ایسے کیسے لے جائے گا ابھی ہماری گڑیا ہمارے ساتھ ہی رہے گی۔ ریان نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
بھیو۔۔
ایمان ریان کے سینے سے لگی۔
میری گڑیا کو بالکل پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ساحر نے خود کہا ہے جب تک تم نہیں چاہو گی تب تک وہ رخصتی کے لیے کوئی پریشر نہیں ڈالے گا۔
ریان نے ایمان کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
تھینک یو بھیو۔
ایمان نے مسکرا کر ریان کو دیکھ کر کہا۔
ویسے آپ نے بڑا ظلم کیا ہے بیچارے کے ساتھ۔
جاتے جاتے اس کی نظریں آپ کو ڈھونڈ رہی تھیں اور آپ کہاں چھپ گئیں تھیں۔
ریان نے ایمان کے کان میں سرگوشی کی تو ایمان نے شرما کر اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی۔
ایمان کو ایسے شرماتا دیکھ ریان کا قہقہہ کمرے میں گونجا تھا۔
بابا ایمان کے نکاح کی تیاری کے بارے آپ سے بات کرنی تھی مجھے بتائیں آپ کس طرح سے چاہتے ہیں پھر اسی حساب سے میں ساری تیاری دیکھ لوں گا۔
ریان نے احتشام صاحب سے کہا تو وہ ریان کے ساتھ ساری تیاری کے بارے میں ڈس ڈسکشن کرنے لگے۔
ایمان اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ سمینہ بیگم بھی دونوں باپ بیٹے کی تیاری سن رہی تھیں۔
مرحا اپنے گھر پہنچی تو اس کی آنکھیں نم ہوئیں تھی۔
ایک وقت تھا یہ ہنستا بستا گھر کتنی رونق سمیٹے ہوئے تھا مگر آج یہاں صرف خاموشی کا راج تھا۔
مرحانے خوش دلی سے سہیل صاحب نور اور عینی کا ویلکم کیا تھا۔
ساحر نے چار ملازموں کو رکھ لیا تھا۔ ایک ملازمہ نے گھر کے اندر رہ کر گھر کے سارے کام دیکھنے تھے۔
ایک ملازم گھر کے باہر چوکیداری کے لیے کھڑا کیا تھا۔ پہلے والا چوکیدار کہاں غائب ہوا تھا کوئی نہیں جانتا تھا مگر ریان نے ساحر کو بتادیا تھا کہ اس ملازم کا تعلق کہیں نا کہیں حاشر اور ساحل سے تھا اس لیے ساحر اس چوکیدار کو واپس گھر میں رکھنے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا۔
باقی دو ملازم گھر کے باہر کے کاموں کے لیے تھے۔
مرجانے نور اور عینی کو ان کا کمرہ دیکھایا۔
اور کچھ دیر ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
وہ تینوں کافی دیر تک بیٹھی مرحا کے ماما بابا کے بارے میں باتیں کرتی رہیں تھی۔
سہیل صاحب کو ساحر نے اپنے برابر والا کمرہ دیا تا کہ وہ ہر لمحہ ان کے پاس موجود رہ سکے۔
سہیل صاحب کو آرام کا کہہ کر اس نے ایک نظر دوسرے روم میں جھانکا جہاں مر جانور اور عینی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی.
تر مسکراتا ہوا ٹیرس پر چلا گیا۔ اس کا ارادہ ایمان کو کال کرنے کا تھا۔
وہ جاتے وقت اس کا چہرہ اپنی آنکھوں میں بسا کر لے جانا چاہتا تھا مگر وہ تو پتا نہیں کہاں جا چھپی تھی۔
ساحر نے ٹیرس پر آکر ایمان کو کال ملائی تو اس کا نمبر بند جارہا تھا۔
ساحر ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
ایمان جان من آپ اپنے لیے ہی مشکل کھڑی کر رہی ہیں۔ بس تین دن کے بعد ہمار ا نکاح ہے تم ہمیشہ
کے لیے میری ہو جاؤ گی پھر تمھیں ان سب چیزوں کا حساب دینا ہو گا۔
اور ٹرسٹ می میری جان تمھارا ساحر حسا کتاب میں بہت پکا ہے۔
ساحر نے مسکرا کر سوچا اور پھر اویس صاحب کو کل کے دادا جان کے بلاوے کا بتانے کے لیے کال ملانے لگا۔
کل مرحا کے ساتھ ساتھ نور اور عینی کی شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی۔
ریان احتشام صاحب سے بات کر کے اپنے کمرے میں جانے لگا تو عمل نے اس کا راستہ روکا۔
ریان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
کیسے ہیں ریان آپ خوش تو بہت ہو گے نا آپ۔ آخر آپ کو آپ کی محبت جو مل گئی ہے
عمل نے نے مسکر ا کر ریان سے کہا تو وہ آئیبر واٹھا کر عمل کو دیکھنے لگا۔ کیا مقصد ہے تمھارا ان سب باتوں کا۔
ریان نے ناگواری سے پوچھا اس کا عمل کا اس طرح راستہ روکنا ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔
میں تو آپ کو مبارکباد دے رہی ہوں ریان۔ ویسے حیرت ہے آپ تو کہتے تھے کہ آپ اپنے بھائیوں سے بہت محبت کرتے ہو ان کے لیے جان دینے کا بھی جذبہ رکھتے ہو۔
عمل کی بات پہ ریان نے الجھ کر عمل کو دیکھا۔ کیا ہو اریان میری بات نہیں سمجھے۔
آپ نے نے کبھی شاہ میر کی آنکھوں کو نہیں دیکھا۔
اس کی آنکھوں میں مرحا کے لیے محبت نہیں دیکھی۔
عمل کی بات پہ ریان کے ماتھے کی رگیں تنی۔
کیا بکواس کر رہی ہو تم عمل یہ کیسی بے ہودہ بات کر رہی ہو تم۔
ریان نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
ہاہاہاہا۔۔ میں تو آپ کو بیچ سے آگاہ کر رہی ہوں ریان۔
آپ تو مر حامیں اتنا کھو گئے کہ آپ کو شاہ میر کی تکلیف بھی نہیں دیکھی۔
عمل صاف صاف کہو کیا کہنا چاہتی ہو تم۔
ریان نے غصے سے عمل کو دیکھ کر کہا تو وہ مسکرائی۔
میں آپ کو کیا ہی کہوں گی ریان۔ جائیں اپنے بھائی سے پوچھیں کیا جذبات رکھتا تھا وہ مر حاکے لیے۔
کیا وہ مرحا سے محبت نہیں کرتا تھا مر حامیں اس کی جان نہیں بنے لگی تھی۔
بے چارہ آپ کی خاطر ایک لفظ بھی نا بول پایا۔
بہت افسوس ہے مجھے تو شاہ میر کے لیے۔
عمل کی بات پہ ریان کا غصے سے برا حال ہوا تھا۔
اپنی بکو اس بند کرو عمل شاہ میر کا نکاح ہو چکا ہے نور سے وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا سمجھیں تم۔
ریان کی آنکھیں غصے سے سرخ پڑ گئیں تھیں۔
میں کوئی بکو اس نہیں کر رہی جائیں جاکر اپنے بھائی سے خود پوچھ لیں ساری حقیقت اور پھر سوچے گا
آپ نے اپنے بھائی کے ساتھ صحیح کیا یا غلط۔
عمل ریان کو اسمائل پاس کرتی وہاں سے چلی گئی جبکہ ریان کا سکون برباد ہو چکا تھا۔
شاہ میر ۔۔۔ شاہ میر ۔۔ شاہ میر
ریان غصے سے شاہ میر کو آواز دینے لگا۔
اس کی آواز میں پورے گھر میں گونج رہی تھیں جسے سن کر سب لوگ اپنے کمروں سے باہر آگئے۔
کیا ہو گیا ہے ریان کیوں چیخ رہے ہو ذالفقار صاحب نے کمرے سے نکل کر پوچھا۔
ریان کو غصے میں دیکھ کر سب ہی پریشان ہو گئے تھے۔
شاہ میر
ریان نے ایک بار پھر چلا کر شاہ میر کو آواز لگائی تو وہ بھاگتا ہو اہال میں آیا۔
جی بھائی۔
شاہ میر نے ریان کے سامنے آکر کہا۔
شاہ میر حیدر میں تم سے آج جو بھی پوچھوں گا تم نے اس کا مجھے بالکل صحیح اور سچ جواب دینا ہے سمجھے تم۔
ریان نے غصے سے کہا تو شاہ میر بھی پریشان ہو ا تھا۔
ریان کا اتنا غصہ اس کی سمجھ نہیں آیا تھا۔
عمل اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑی اپنی ماں کے ساتھ سارا تما شاد یکھ رہی تھی۔
دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے مقابل لانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
بھائی میں آپ سے کچھ بھی کیوں چھپاؤں گا آپ پوچھیں کیا بات ہے آپ اتنا غصے میں کیوں ہیں۔
شاہ میر نے تحمل سے کہا۔
تم مرحا سے محبت کرتے تھے۔
ریان کے سوال پر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
ایمان شایان شاہ میر سمیت گھر کے سب ہی بڑے بھی حیرت سے ریان کو دیکھ رہے تھے جبکہ شاہ میر
کے پیروں سے کسی نے زمیں کھینچی تھی۔
شاہ میر کی نظر بے ساختہ عمل کے کمرے کی طرف اٹھی تھی جو مسکرا کر سب دیکھ رہی تھی۔
مطلب وہ ریان کو سب بتا چکی تھی۔
بھائی آپ میری بات سنیں میرا اب نکاح ہو گیا ہے نور سے اور آپ اس طرح سے مت سوچیں۔
شاہ میر میں نے پوچھا تم مرحا سے محبت کرتے تھے ہاں یا ناں۔
شاہ میر کی بات پر ریان غصے سے دھاڑا تھا۔
بھائی آپ یہ سب۔۔
کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔
شاہ میر مجھے صرف سچ سننا ہے صرف اور صرف سچ۔۔
شاہ میر کے کچھ بھی بولنے سے پہلے ریان نے اسے وارن کیا۔
جواب دو مجھے شاہ میر تم مرحا سے محبت کرتے تھے۔
ریان کے دوبارہ سوال کرنے پر شاہ میر نے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنا سر ہاں میں ہلایا تھا۔
سب حیرت سے شاہ میر کو دیکھنے لگے یہ کیسا انکشاف ہوا تھا سب پہ سمجھ کی سمجھ سے باہر تھا۔
میرے اور مرحا کے ملنے سے پہلے سے تم اس سے محبت کرتے تھے۔
ریان نے پھر سوال کیا تو اس نے مجرموں کی طرح سر جھکا کر ہاں میں گردن ہلائی۔
چٹاخ ۔۔۔
ریان کا زور دار تھپڑ شاہ میر کے گال پہ پڑا تو وہ حیرت اور صدمے میں ریان کو دیکھنے لگا۔
ریان نے شاہ میر کا کالر پکڑا اور اپنے سامنے کیا
کیوں چھپایا تم نے مجھ سے۔ اتنی بڑی بات کیسے چھپائی تم نے مجھ سے۔ تم تینوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھانا تم لوگوں کی لائف میں کبھی بھی کچھ اچھا ہو گا یا برا ہو گا تم لوگ سب سے پہلے مجھے بتاؤ گے پھر تم نے اتنی بڑی بات مجھ سے کیسے چھپائی شاہ میر ۔
ریان کی آنکھوں کی تکلیف دیکھ کر شاہ میر شرمندگی کی گہرائی میں گرا تھا۔
جواب دو مجھے شاہ میر کیوں کیا تم نے ایسا۔ تم نے اپنے بھائی پہ بھروسہ کیوں نہیں کیا۔ کیوں چھپایا تم نے مجھ سے یہ سب۔
ارے میرے دل میں تو مر حا کے لیے جذبات اس سے ملنے کے بعد جاگے تھے تم تو اس سے پہلے ہی مل
چکے اس کی محبت میں پہلے ہی گرفتار ہو چکے تھے کیوں نہیں بتایا تم نے مجھے۔
تمھیں پتا ہے مجھے کیسا لگ رہا ہے ہاں پتا ہے تمھیں میر اول کسی درد سے پھٹ رہا ہے۔
ریان نے شاہ میر کو دیکھ کر سوال کیا تو وہ کچھ بول بھی نہیں پایا۔
مجھے ایسا لگ رہا ہے میں نے اپنے ہی بھائی کی محبت چھین لی میں نے اپنے ہی بھائی کی خوشیوں کو چھین لیا۔
ریان درد سے چیخ کر بولا۔
ریان کی بات پہ شاہ میر تڑپ گیا۔
نہیں بھائی ایسا کچھ نہیں ہے پلیز آپ ایسا نہیں سوچیں۔
شاہ میر نے سمجھانا چاہا
میں کیسے نہیں سوچوں شاہ میر میں ایسا کیسے نہیں سوچوں مجھے اور مرحا کو ساتھ دیکھ کر تم کتنا تڑپے ہو گے صرف اور صرف میری وجہ سے۔
ریان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
با با دادا جان ماما چاچو میں نے اپنے ہی بھائی کی محبت چھین لی ریان حیدر جس نے قسم کھائی تھی کہ اپنے بھائیوں کو کبھی تکلیف نہیں ہونے دے گا کبھی اس کے بھائی اس کے ہوتے ہوئے کسی تکلیف سے
نہیں گزریں گے وہ ریان حید ر خود اپنے بھائی کی تکلیف کا سبب بن گیا۔
اپنے ہی بھائی کی محبت کو چھین لیا میں نے۔
ریان نے درد سے سب کی طرف دیکھ کر کہا۔
اس کی تکلیف اس کی آنکھوں سے صاف چھلک رہی تھی۔
وہ تو اپنے بھائیوں کی ہر خواہش پہ جان تک دینے کو تیار رہتا تھا اور یہاں وہ اپنے ہی بھائی کے جذبات کو سمجھ نہیں سکا۔
ریان غم و غصے کی کیفیت میں تھا۔
ریان کی حالت دیکھ کر ایمان سمیت تینوں بھائی تڑپ گئے تھے
ریان صوفے پہ بیٹھ کر اپنے ہاتھوں میں سر گر ا گیا۔
شاہ میر نے گہری سانس لی اور ریان کے پاس جا کر اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
بھائی ایک بار میری بات سن لیں پلیز۔
شاہ میر نے ریان کے ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما تو ریان نے سرخ نظریں اٹھا کر شاہ میر کو دیکھا۔
ریان کی آنکھوں کا درد اور تڑپ شاہ میر کو تکلیف میں مبتلا کر گئی تھی۔
ریان ناراض نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
بھائی ایک بار صرف ایک بار میری بات سن لیں پلیز۔
شاہ میر کے اصرار پر ریان نے آہستہ سے گردن ہلائی۔
بھائی میں ایمان کو کالج چھوڑنے گیا تھا مر حا اور میری ملاقات وہاں ہوئی تھی اور مجھے اس لمحے مرحا سے محبت ہو گئی تھی۔
مگر اس کے بعد سے مرحا مجھے نہیں دیکھی پھر ایمان کے حوالے سے بھی معاملات ایسے ہو گئے تھے کہ ہم سب کا دھیان اس طرف لگ گیا۔
جس دن میں نے مرحا کو ہسپتال میں دیکھا تھا تب میں نے آپ کو بتایا تھا کہ یہ ایمان کی فرینڈ ہے مگر بھائی اس وقت مرحا یہ خود اتنی بڑی قیامت ٹوٹی تھی کہ مجھے اس بارے میں کچھ بھی بولنا مناسب نہیں لگا۔
پھر مر حا ہمارے گھر آگئی۔
میں چاہتا تھا آپ کو بتانا مگر میں نے مرحا کی آنکھوں میں جو اپنائیت آپ کے لیے دیکھی تھی وہ مجھے کبھی کچھ بولنے ہی نہیں دے سکی۔
وہ پہلے دن سے ہی آپ کو اپنا محافظ سمجھنے لگی تھی بھائی۔
میں نے اس نظروں میں آپ کے لیے وہ دیکھا تھا جو میں اس کی آنکھوں میں اپنے لیے دیکھنا چاہتا تھا۔
پھر ایک دن میں نے آپ کو اور مرحا کو ساتھ دیکھا آپ کی باتیں سنی آپ مرحا کو چاہنے لگے تھے۔
مگر بھائی میں چپ رہا مر حا کے جذباتوں کو دیکھ کر۔
وہ آپ کو چاہنے لگی تھی اس کی آنکھوں میں آپ کے لیے چاہت میں نے صاف دیکھی تھی۔
جو کچھ اس کے ساتھ ہو گیا تھا بھائی اس کے بعد مجھے کوئی حق نہیں تھا کہ میں اس سے اس کی محبت چھین لوں۔
میں کیا آپ کو نہیں جانتا اگر آپ کو پتا لگتا کہ میں مرحا سے محبت کرتا ہوں تو آپ ایک لمحہ نہیں لگاتے اس سے دستبردار ہونے میں مگر بھائی مرحا کا کیا اس سے تو اس کی محبت دور ہو جاتی نا۔
کیا یہ اس کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوتی۔
بھائی وہ بہت بڑی تکلیف سہ چکی تھی اس کے حصے میں صرف خوشیاں آنی چاہیں کوئی غم کوئی تکلیف نہیں۔
شاہ میر ریان کا ہاتھ تھامے اسے سب بتا رہا تھا۔
بھائی جب مجھے پتا لگا تھا آپ اور مرحا ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں میں نے اسی لمحے مرحا کی محبت کو اپنے دل سے نکال دیا تھا۔
میں آج نور کے ساتھ خوش ہوں اور وہ اس بارے میں سب جانتی ہے میں نے پوری ایمانداری کے ساتھ نور کو سب بتا کر اس کا ہاتھ تھاما ہے اور یقین کریں نور کو نکاح میں قبول کرتے وقت میں نے اپنے دل و دماغ میں صرف نور کو ہمیشہ کے لیے جگہ دے دی تھی۔
اور اب میری محبت میرے دل میں سوائے نور کے اور کوئی نہیں آسکتا۔
آپ خود کو الزام نہیں دیں آپ نے مجھ سے میری محبت نہیں چھینی بھائی۔
آپ کی محبت میں زیادہ طاقت تھی آپ کی محبت زیادہ معتبر تھی تب ہی تو اللہ نے آپ دونوں کو ہمیشہ کے لیے ایک کر دیا۔
بھائی مرحا میرے لیے کل بھی قابل احترام تھی اور آج اور بھی زیادہ قابل احترام ہے کیونکہ اب وہ میری بھا بھی ہے۔
میں آپ کی قسم کھا کر کہتا ہوں مرحا کے لیے آج میرے دل میں کوئی بھی جذبات نہیں ہیں۔
شاہ میر نے بہت عقیدت سے ریان کے ہاتھوں کو چوما تو اس نے آگے بڑھ کر شاہ میر کو گلے سے لگایا۔
شاہ میر کی باتوں نے اس کے دل کو اندر تک پر سکون کر دیا تھا۔
عمل دونوں بھائیوں میں محبت کے نظارے دیکھ کر تلملا گئی۔
اس نے ان دونوں کو لڑوانا تھا مگر یہاں تو سب الٹا ہو گیا تھا۔
عمل بھول گئی تھی وہ چاروں بھائی ایک دوسرے کی جان ہیں۔
ایک دوسرے کے لیے جان تک دینے کو ہمیشہ تیار رہنے والے بھائی بھلا ایک دوسرے سے بد گمان کیسے ہو سکتے تھے۔
سمینہ بیگم اور احتشام صاحب نے مسکرا کر اپنے بچوں کو دیکھا تھا۔
چاروں بھائی ایک دوسرے کے گلے لگے کھڑے تھے۔
میں بھی ہوں بھئی۔
ایمان بھی بھاگ کر آئے ان کے ساتھ لگی تو ان چاروں نے اسے بھی اپنے ساتھ لگایا۔
یہ سمینہ بیگم کی تربیت تھی جو آج ان کے سامنے باعث فخر بن کر کھڑی تھی۔
عمل اپنے کمرے میں غصے سے ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔
اس نے ریان کے دل میں فتنہ ڈالنے کی کوشش کری تھی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
دروازهہ پر دستک ہوئی تو عمل نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں شاہ میر کھڑا مسکرا رہا تھا۔
ہائے ڈیئر کزن کیسی ہو تم۔
کیا ہوا تمھارا چہرہ تو بہت سرخ ہو رہا ہے۔
ارے تم تو غصے سے لال پیلی ہو رہی ہو پیاری کزن۔
شاہ میر کے چہرے کی مسکراہٹ عمل کو چنگاری لگارہی تھی۔
0 Comments
Post a Comment