تیرا عشق مرہم سا ہے

قسط نمبر 30

از۔"طوبیٰ صدیقی"

 

°°°°°°


💖💖💖


عینی کو اپنی بے بسی پہ رونا آرہا تھا۔ کتنی بے بس تھی وہ اسے پتا تھا کہ اس کا باپ پل پل موت کے قریب جا رہا ہے مگر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی وہ ان کے لیے سوائے دعا کے اور کچھ نہیں کر سکتی تھی۔


عینی نے نور کو گلے لگا یا تو نا چاہتے ہوئے بھی عینی کی آنکھ سے آنسو باڑ توڑ کر نکل آئے تھے۔


عینی نے بڑی بہن کی طرح نور کو سنبھالا ہو اتھا۔


ان دونوں نے سوچ لیا تھا وہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنے ڈیڈ کے ساتھ گزاریں گی انہیں ایک پل کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑیں گی۔


سہیل صاحب کو ہوش آچکا تھا اور اس وقت عینی اور نور اپنے ڈیڈ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔


نور اب بھی رو رہی تھی جبکہ عینی آنکھوں میں خفگی لیے سہیل صاحب کو دیکھ رہی تھی۔


مینی کے اس طرح دیکھنے پر سہیل صاحب بار بار مسکرا رہے تھے۔


نور بیٹا بس کریں میں ٹھیک ہوں نا اب رونا بند کر دیں آپ ایسے مجھے پریشان کر رہی ہیں۔


سہیل صاحب نے نور کے سر پر پیار کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا اور ساتھ عینی کو بھی قریب آنے کا اشارہ کیا۔


عینی ناراضگی سے سہیل صاحب کے پاس جا کر بیٹھی تو انہوں اسے بھی اپنے سینے سے لگایا۔


بس بھی کر دیں عینی بچہ اپنے بابا کو اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے کتنا ڈرائیں گی۔


سہیل صاحب کی بات پہ سب کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھری۔


بس بس ابھی ڈر رہے ہیں آپ مجھ سے آپ تو مجھ سے بات ہی نہیں کریں آپ کو ہمار ازرا احساس نہیں ہے ناجب آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو آپ نے صبح مجھے یا نور کو کیوں نہیں بتایا تھا۔


عینی نے خفگی سے کہا تو سہیل صاحب نے اس کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔


عینی کی آنکھ سے آنسو پھسلا جسے اس نے فورا صاف کیا۔


اچھا بابا غلطی ہو گئی آئیندہ نہیں ہو گا ایسا۔


سہیل صاحب نے کان پکڑ کر کہا تو نور اور عینی دونوں مسکرائیں۔


آپ کو ایسا کرنے کا موقع ملے گا ہی نہیں اب سے آپ صرف آرام کریں گے بہت ہو گیا آفس آفس اب صرف ریسٹ ہو گا۔


مزید کہا کہ صاحب بھی دیکھو تو سہیل مسکر اکر ہمی بھری۔


ان کی زندگی کے کچھ ہی دن باقی تھے وہ یہ دن اپنی بچیوں کے ساتھ ہنسی خوشی گزارنے کے خواہشمند تھے۔


عینی اور نور کی رخصتی کے بارے میں بھی وہ احتشام صاحب سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔


ڈاکٹر نے انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی تھی مگر احتشام صاحب نے انہیں اپنے گھر لے جانا مناسب سمجھا تھا۔


ان کی کنڈیشن ٹھیک نہیں تھی ایسے میں دو بچیاں اکیلے کیسے سب سنبھالتیں۔


اس لیے سہیل صاحب کی ایک بھی نا سنتے ہوئے احتشام صاحب نے انہیں گھر لے جا کر ہی دم لینا تھا۔ 


اماں صاحب حاشر کے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے کمرے کے ایک ایک چیز بکھری پڑی تھی۔


شراب کی بوتلیں جگہ گری ہوئی تھیں اور حاشر خود بیڈ پر آدھا لیٹا نشے میں دھت تھا۔


ارے او و و بد بخت ایک لڑکی کے پیچھے اپنا حال خراب کر رکھا ہے۔


ایسا بھی کیا ہے اس میں جو تو اس کے لیے ایسے مر اجارہا ہے۔


اماں صاحب نے چیختے ہوئے حاشر سے کہا تو اس نے غصے سے اٹھ کر آئینے پر زور دار مکہ مارا جس سے آئینہ چکنا چور ہو گیا۔


اماں صاحب تم نہیں سمجھ سکتی میری حالت کو۔ وہ کل کا آیا لونڈ امر حاکو اڑا کرلے گیا۔


میں کچھ بھی نہیں کر سکا۔


یہاں ہم پلان بناتے رہ گئے اور وہ وہاں خاموشی سے مر حا سے نکاح کر گیا۔


نہیں اماں صاحب نہیں اتنی آسانی سے مرحا کو اس کا نہیں ہونے دوں گا میں۔


مرحابے شک اس کے نکاح میں آگئی مگر سب سے پہلے وہ میرے بیڈ کی زینت بنے گی۔ پہلے وہ میرے جذباتوں کو قرار دے گی ورنہ میں اسے ریان کا بھی نہیں ہونے گا۔


یا تو میں مرحا کو جان سے مار دوں گا یا پھر اس ریان کو ہی ہمارے بیچ سے نکال دوں گا۔


لیکن مرحا کو وہ اتنی آسانی سے نہیں جیت سکتا وہ لڑکی میری ہے اس پہ میرا حق ہے میں اسے کبھی ریان کا نہیں ہونے دوں گا۔


حاشر سرخ آنکھیں اماں صاحب کی آنکھوں میں گاڑھتے ہوئے بولا۔


اماں صاحب کو حاشر کی دماغی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس لیے پہ لعنت بھیجتی کمرے سے چلیں گئیں۔


تم مزاق سمجھ رہی ہو اماں صاحب مگر میرے پاس ایک ایسا راستہ ہے جس سے مرحا خود میرے پاس چل کر آئے گی۔


اور ایک بار وہ آگئی تو پھر ریان اسے کبھی نہیں ڈھونڈ پائے گا کبھی بھی نہیں۔


حاشر نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پہ سجا کر دل میں سوچا تھا۔


حاشر مرحا کی زندگی میں اب کون سی نئی مصیبت لانے والا تھا یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا۔


ریان نے مرحا کو اپنے ہاتھوں سے بریک فاسٹ کر وایا تھا۔ اور اب وہ دونوں بیٹھے چائے کے ساتھ لطف اندوز ہو رہے تھے۔


ریان چھوٹی چھوٹی باتوں پر مرحا کو چھیٹر تا جس پر وہ بلش کرنے لگتی اور اس کا یہ سرمایا ہوا روپ ریان اپنے دل میں قید کر رہا تھا۔


ریان ایک بات پوچھوں آپ سے آپ ناراض تو نہیں ہونگے۔


ریان نے مرحا کو اپنے سے سینے سے ٹیک لگائے بیٹھا یا ہوا تھا۔


اور اپنے ایک ہاتھ سے مرحا کو باہوں میں بھرا ہوا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں چائے کا لگ تھا۔


میرا بچہ اجازت کیوں لے رہی ہو جو بھی پوچھنا ہے پورے حق سے پوچھو اور مجھ پہ لازم ہے تمھاری ہر


بات کا صحیح صحیح جواب دینا۔


وہی محبت بھر انرم لہجا۔


ریان وہ عمل اور آپ۔۔ میرا مطلب ہے وہ آپ کو پسند۔۔


مرحا کے دماغ میں آج بھی عمل کے کہے گئے الفاظ نقش تھے جسے وہ ریان سے کلیر کرنا چاہتی تھی۔ مگر اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کس طرح ریان سے پوچھے۔


مگر مرحا کی باتیں تو ریان بنا بولے ہی سمجھ جاتا تھا اب بھی وہ اس کا سوال بخوبی سمجھ گیا تھا۔ 


ریان نے گہری سانس لی۔


مرحا میں تم سے کچھ بھی نہیں چھپاؤں گا۔


یہ سچ ہے عمل مجھے پسند کرتی ہے۔


آج سے تین سال پہلے اس نے مجھے پر پوز کیا تھا۔ مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ میں نے عمل کو ہمیشہ ایمان کی طرح ہی سمجھا تھا۔


ماما کو عمل بہت پسند ہے اور وہ چاہتی تھیں کہ میں عمل سے شادی کرلوں۔ مگر میں نے کبھی عمل کو اس نظر سے دیکھا ہی نہیں تھا اور دوسرا مجھے لڑکیوں سے چڑ ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے بس ان لڑکیوں میں تم شامل نہیں ہو کیونکہ تم میرا ادل ہو میری جان۔ ریان نے کہتے کہتے مرحا کے گالوں پہ اپنے لب رکھے۔


عمل نے جب مجھے پر پوز کیا تھا تو میں نے اسے بہت ڈانٹا تھا اسے سمجھایا تھا کہ وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دے کچھ بنے اپنا کر میر بنائے ان فضول چکروں میں نا پڑے۔ ماما نے مجھے فورس کیا تھا عمل کے لیے لیکن میں نے انہیں بھی یہی سمجھایا تھا کہ عمل میرے لیے بہنوں کی طرح ہے۔


پھر ماما بھی سمجھ گئی تھیں کہ میں عمل کے لیے نہیں مانوں گا تو انھوں نے بھی مجھے فورس کرنا چھوڑ دیا مگر


خالہ جانی اور عمل اپنے ہی دماغ سے پتا نہیں کیا کیا سوچ کر بیٹھ گئیں۔


عمل کو بہت بڑا جھٹکالگا ہے مجھے تمھارے ساتھ دیکھ کر۔


میں نے سنا تھا جس دن سہیل انکل گھر آئے تھے تب اس نے تمھیں کیا کیا بولا تھا۔ مگر تم نے مجھے کچھ نہیں بتایا بس کمرے میں بند ہو گئیں۔ رہو


اس لیے میں نے سب کے سامنے اسپیشلی عمل کے سامنے تمھاری پوزیشن کو کلیئر کیا تھا میں نہیں چاہتا تھا تم کبھی بھی مجھ سے بد گمان ہو۔


مرحا اس سے زیادہ میرے اور عمل کے بیچ کچھ بھی نہیں ہے تو اس لیے بس ایک بات یاد رکھو ریان حیدر پورا کا پورا صرف تمھارا ہے میرے دل میں میری زندگی میں تمھارے سوا کسی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔


ریان نے مرحا کو باہوں میں کستے ہوئے کہا۔


مرحا کا دل مطمئن ہو گیا تھا اس کے دل میں عمل کو لے کر جو تھوڑا بہت شک تھا آج وہ بھی ختم ہو گیا تھا۔


آپ ہمیشہ مجھ سے ایسے ہی پیار کریں گے ناریان۔


مرحانے گردن موڑ کر ریان کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تو ریان نے اس کی ناک سے اپنی ناک میں کی۔


نہیں میں تمھیں ہمیشہ ایسے پیار نہیں کروں گا میرا پیار تو دن بہ دن بڑھتا جائے گا ہر روز دو گنا ہوتا جائے گا۔


ریان نے مسکرا کر کہا تو مر حا کے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ محبت کے کئی رنگ کھلے تھے جو ریان کو بہت حسین لگے تھے۔


بس تم بالش ہی کرتی رہو میری جان اور کچھ نا کرنا۔


ریان نے مصنوعی گھورتے ہوئے کہا تو مر جاکھلکھلا ہی۔


اچھا جی اور کیا کروں میں۔


کتاب نگری پر پوسٹ کیا گیا۔


مر جانے معصومیت سے آنکھیں گھوما کر کہا توریان مسکرایا۔


بے بی آپ کا ریان آپ کے منہ سے آئی لو و یو سننے کو ترس رہا ہے کب آپ اپنے پیارے پیارے لبوں سے پیار کا اظہار کریں گیں۔


ریان نے محبت بھرے لہجے میں مرحا کے سامنے بیٹھ کر کہا۔


ا ہم جس دن آخری دن ہو گا میرا اس دن کروں گی اظہار۔ امج


مرحانے شرارت میں کہا مگر شرارت میں کی گئی یہ بات ریان کے غصے کو ہوا دے گئی تھی۔


ریان کے ماتھے کی رگیں تئی تھیں آنکھوں میں غصے سے لہو اترنے کو تھا۔


اس نے مرحا کو کمر سے پکڑ کر قریب کیا اور دوسرے ہاتھ سے مرحا کے بالوں کو زور سے جکڑا۔


ور ان سے درد ہو رہا ہے مر جانے نم آوز میں کہا۔


ریان کا بدلتا روپ مرحا کو خوفزدہ کر گیا تھا۔


مجھے بھی درد ہو رہا ہو مسز زریان حید ر تمھارے منہ سے اتنی فضول بات نکلی بھی کیسے۔


میں یہاں تمھارے ساتھ اپنی پوری زندگی تصور کر کے بیٹھا ہوں اور تم ایسی باتیں کر رہی ہو۔


ہمت کیسے ہوئی تمھاری یہ بات اپنے منہ سے نکالنے کی۔


ریان نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔


ہاتھ سے مرحا کے سر کو زور سے جھٹکا دے کر اپنے قریب کیا تو مر حاکی آنکھ سے آنسو پھیلا۔


ریان۔۔ میں نے۔۔ مم مذاق میں۔۔ بولا تھا۔


مر جانے توڑ توڑ کر لفظ ادا کیے۔


مذاق میں بھی تم نے کیسے کہہ دیا مر حا تمھیں نہیں پتا کہ اگر تمھیں کچھ ہوا تو ریان بھی مر جائے گا ہاں۔


مرز مر حاریان حیدر تم میری ہو پوری کی پوری میری ہو سر سے پاؤں تک۔ اور میں تمھیں تمھارے بارے کسی قسم کی فضول گوئی کی اجازت نہیں دیتا۔


آئندہ مزاق میں بھی ایسا مزاق نہیں کرناور نہ تم نے اب تک صرف میری محبت دیکھی ہے میر اجنون محبت بن کر تمھارے سامنے رہے تو بہتر ہے مجھے مجبور مت کرنا میں کبھی بھی اپنا ڈارک سائڈ تمھیں دیکھاؤں ورنہ اس کی تکلیف تمھیں ہی ہو گئی۔ 


آئی بات سمجھ۔


ریان اس وقت بہت غصے میں تھا۔ اس کا غصہ مرحا پہ پہلی بار نکلا تھا مگر پہلی بار میں ہی مر حا کو اس کے تھے سے خوف آنے لگا تھا۔


ریان مرحا کے معاملے میں شدت پسند ہوتا جارہا تھا۔


ریان نے جھٹکے سے مرحا کو چھوڑا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔


وہ کبھی بھی مرحا پہ غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا مگر مر حا کی بات نے اسے مجبور کر دیا تھا غصہ کرنے پر۔


مرحا پہ غصہ کر کے ریان کو خود پر غصہ آنے لگا تھا۔


ریان نے اپنے ہاتھ کا مکا بنایا اور دیوار پہ مارتا چلا گیا۔


مر حاجو ریان کو منانے اس کے پیچھے آرہی تھی ریان کی حرکت پر اندر تک کانپ گئی۔


مرحا تیزی سے ریان کے پاس آئی۔


ریان کیا کر رہے ہیں ادھر دیکھائیں مجھے ہاتھ اپنا۔


آپ خود کو کیسے اتنی چوٹ دے سکتے ہیں۔ جیسے میں آپ کی ہوں ویسے ہی آپ بھی تو میرے ہیں نا اور


میں بھی آپ کو اجازت نہیں دیتی خود کو تکلیف دینے کی سمجھے آپ۔ ادھر آئیں۔


مر حاریان پر غصہ کرتی اسے زبر دستی بیڈ روم میں لائی اور خود بیٹھ کر جلدی سے اس کے ہاتھ پہ مرہم لگانے لگی۔


آنکھوں سے آنسو اب بھی بہہ رہے تھے۔


ریان بس مرحا کا چہرہ دیکھے جارہا تھا جہاں اس وقت صرف ریان کی فکر تھی۔


ریان نے مسکرا کر مر حا کو اپنے قریب کیا اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔


آئی لو ویو مر حاتم مت کرو اپنی محبت کا اظہار ساری زندگی مت کرنا مگر پلیز آئیندہ کبھی مجھ سے دور جانے کی بات مت کرنا میں مر جاؤں گا مر حاتمھارے بنا میں مر جاؤں گا۔


ریان دیوانگی سے کہتا اس کے چہرے کے ایک ایک نقوش کو چوم رہا تھا جبکہ مرحا آنکھیں بند کر کے بس ریان کے لمس کو محسوس کر رہی تھی۔


میں کہیں نہیں جاؤں گی ریان آپ کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گی۔ آپ پلیز مجھے سے ناراض نہیں ہوں۔


مرحانے مدھم آواز میں کہا۔


ریان بے ساختہ مرحا کے لبوں پر جھگا۔ انداز میں بلا کی نرمی تھی۔


ایم سوری میری جان میں آئیندہ کبھی تم پہ غصہ نہیں کروں گا مگر پلیز تمھیں مجھے سمجھنا ہو گا مر حا۔


ریان نے مرحا کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر کہا۔


مر حاریان کی بات سن کر اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی۔


ریان نے مضبوطی سے اسے اپنی باہوں میں بھرا جیسے وہ سچ میں اس دور نا ہو جائے۔


ریان کو مرحا کی دوری برداشت نہیں تھی مگر وقت اسے مرحا کے لیے کتنا تڑ پانے والا تھا یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔


احتشام صاحب سہیل صاحب کو گھر کے کر آگئے تھے۔


اس وقت ان کے پاس ذوالفقار صاحب احتشام صاحب اور شعیب صاحب موجود تھے۔


خیر خیریت کے بعد سہیل صاحب ذوالفقار صاحب سے گویا ہوئے۔


میری زندگی کے کچھ ہی دن بچے ہیں میں چاہتا ہوں آپ لوگ جلد از جلد نور اور عینی کو رخصت کر لیں۔


میں اپنی بچیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے سائے میں رخصت کرنا چاہتا ہوں۔


سہیل صاحب کی بات پہ ذوالفقار صاحب نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔


سہیل بیٹا تم پریشان نہیں ہو تم انشاء اللہ بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے اور مینی اور نور کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کرو گے۔


سمینہ بیٹا تم بھی بیٹھو یہاں اور ساحر کو بھی زر ابلالو مجھے کچھ بات کرنی ہے۔


ذوالفقار صاحب نے سہیل صاحب سے کہتے ہوئے سمینہ بیگم کو مخاطب کیا جو کمرے میں چائے لے کر آئی تھیں۔


ذوالفقار صاحب کی بات یہ سمینہ بیگم نے ساحر کو بلایا اور خود بھی احتشام صاحب کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ دادا جان آپ نے بلایا۔


ساحر سب کو سلام کر تا کمرے میں داخل ہوا تھا۔ ہاں ساحر بیٹا بیٹھو۔


بھی سہیل بھی چاہتا ہے کہ نور اور عینی کی رخصتی ہو جائے اور میرا خود کا بھی اب یہی ارادہ ہے۔


ریان بھی سادگی سے نکاح کر چکا ہے مگر اپنے بڑے پوتے کو لے کر ہمارے بہت ارمان ہیں تو ہم چاہتے ہیں شایان شاہ میر کی شادی کے ساتھ ساتھ ریان کی شادی بھی پورے دھوم دھام سے کر دی جائے۔


اور ساحر ریان کی شادی سے پہلے ہم تمھارا اور ایمان کا نکاح کر دینا چاہتے ہیں۔


ہمارے سارے بچے اپنے اپنے ہمسفر کے ساتھ اپنی نئی زندگی شروع کر دیں اس سے بڑھ کر بھلا


ہمارے لیے خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے۔


ذوالفقار صاحب کی بات سب کو اچھی لگی تھی ساحر کے چہرے پہ تو الگ ہی رونق آگئی تھی۔


ساحر تمھیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے بیٹا۔


ذوالفقار صاحب نے ساحر سے پوچھا تو اس نے مسکرا کر نا میں گردن ہلائی۔


نہیں دادا جان آپ بڑے ہیں آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہو گا بس میری ایک خواہش ہے اگر آپ لوگوں کو مناسب لگے تو۔


‏ ساحر کی بات پہ سب سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔


ہاں ضرور بتاؤ بیٹا کیا خواہش ہے۔


ذوالفقار صاحب نے کہا تو ساحر نے تمہید باندھی۔


دادا جان میں چاہتا ہوں مرحا کی شادی اس کے اپنے گھر سے ہو پورے طور طریقوں کے ساتھ۔ میں اسے اس کے اپنے گھر سے رخصت کرنا چاہتا ہوں۔


مجھے پتا ہے ریان اس بات کے لیے مانے گا نہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے منائیں۔


آصف تایا اب نہیں ہیں مگر میں ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے یہ خواہش آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔


اور سہیل انکل آپ کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ کے لیے شادی کے انتظامات دیکھنا مشکل ہے آپ کو ڈاکٹر نے صرف آرام کا بولا ہے تو آپ نے صرف آرام کرنا ہے عینی اور نور کی شادی کی ذمہ داری بھی میں خود لینا چاہتا ہوں میں بہت دھوم دھام سے اپنی تینوں بہنوں کو رخصت کروں گا۔


ساحر کی بات پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔


یہ تو بہت اچھی بات ہے بیٹا ہمیں اس بات سے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر سب سے پہلے تمھارا نکاحرکھا جائے گا اس کے بعد مرجانور اور عینی تینوں کی مایوں کی رسم ہو گی۔


سهیل صاحب کوئی اعتراض تو نہیں ہے آپ کو۔


ذو الفقار صاحب نے مسکرا کر سہیل صاحب سے پوچھا تو انہوں نے مسکرا کر نا میں گردن ہلائی۔


مجھے کیا اعتراض ہو گا بھلا میں تو اللہ کا جتنا شکر ادا کروں اتنا کم ہے میرے مالک نے میری بچیوں کے لیے اتنے اچھے گھر کو چنا ہے۔


سہیل صاحب نے آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔


بس تو پھر دادا جان مرحا کے واپس آنے کے بعد وہ میرے ساتھ گھر جائے گی اور سہیل انکل آپ نور اور عینی بھی میرے ساتھ چلیں شادی تایا جان کے گھر سے ہو گی۔


ساحر کی بات پہ سب نے ہامی بھری تھی۔


با باریان کو تو آپ ہی سمجھا سکتے ہیں کہ وہ مرحا کو جانے دے۔ وہ تو کچھ زیادہ ہی بے صبر اہوا پھر رہا ہے۔


شعیب صاحب کی بات پر سب کا قہقہہ کمرے میں گونجا تھا۔


اس میں کوئی شک نہیں تھا ریان اتنی آسانی سے تو مرحا کے جانے پہ ماننے والا نہیں تھا۔


مرحا کو دیکھے بنا تو اس کی اپنی صبح نہیں ہوتی تھی اب یہ دوری وہ کیسے برداشت کرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔


ساحر دادا جان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگا مگر سامنے سے آتی ہوئی عمل بری طرح ساحر سے ٹکرائی۔


ساحر نے اسے پکڑ کر سہارا دیا۔


عمل دھیان سے لگی تو نہیں۔


ساحر نے عمل کو سیدھا کھڑا کر کے پوچھا تو اس نے مسکرا کر نا میں گردن ہلائی۔


نہیں ساحر میں ٹھیک ہوں تھینک یو آپ نے مجھے گرنے نہیں دیا۔


عمل نے مسکرا کر کہا تو ساحر بھی مسکرا دیا۔


تبھی ساحر کی نظر سامنے کھڑی ایمان پہ پڑی جو آنکھوں میں غصہ لیے ساحر کو گھور رہی تھی۔


ساحر کو بے ساختہ ایمان کارات والا معصوم سا تھپڑ یاد آیا۔


ایمان غصے سے پاس رکھا گلدان زمین پر گراتی او پر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔


شٹ شٹ۔ ساحر ایمان کے پیچھے بھاگا مگر وہ کمرے میں آکر خود کو کمرے میں بند کر گئی۔


عمل کندھے اچکاتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔


ایمان میری جان میری جان من پلیز دروازہ کھولو۔


ساحر نے دروازہ بجا کر محبت سے کہا۔


ساحر اس وقت آپ یہاں سے چلے جائیں ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔


ایمان کی غصے سے بھری آواز سنائی دی تو ساحر نے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی۔


ایمان کا اس کے لیے اتنا پوزیسو و ہو نا ساحر کو سکون دیتا تھا۔


ایمان میری جان بات تو سن لو نا پلیز عمل گر رہی تھی میں نے بس اسے گرنے سے بچایا ہے۔


ہاں ہاں جائیں ہر گرتی پڑتی لڑکی کو جاکر بچائیں اللہ تعالیٰ نے اسی کام کے لیے تو آپ کو بھیجا ہے اس دنیا میں۔


ساحر کی بات پر ایمان نے جواب دیا تو ساحر کو ہنسی آنے لگی۔


ایمان نے ایسے تو دروازہ کھولنا نہیں تھا۔ اس لیے ساحر نے نیچے سے جاکر سمینہ بیگم سے ایمان کے کمرے کی ڈو بلیکٹ چابی لی۔


سمینہ بیگم کے وجہ پوچھنے پہ ساحر نے انہیں سب بتادیا تو وہ ہنس پڑیں۔


ایمان اپنی چیزوں اور اپنے رشتوں کو لے کر ہمیشہ سے بہت مچی رہی ہے۔ ریان اگر اس سے زیادہ ویلو شاہ میر شایان یا شہیر کو بھی دے دیتا تھا تو ایمان گھنٹوں منہ پھلا کر بیٹھ جاتی تھی۔


سمینہ بیگم کی بات پہ ساحر کے چہرے پر زندگی سے بھر پور مسکراہٹ تھی۔


ایمان کے لیے وہ خاص تھا یہ احساس ہی بہت خاص تھا۔


ساحر نے چابی سے لاک کھولا اور کمرے میں آکر روم اندر سے بند کر دیا۔


ایمان جو غصے سے ادھر اُدھر ٹہل رہی تھی ساحر کو ایسے روم میں آتا دیکھ ایک دم سٹپٹائی تھی۔


آپ۔۔۔ آپ کیوں آئے ہیں یہاں جائیں ۔۔ مجھے کوئی بات نہیں کرنی آپ سے۔۔


ایمان کے لہجے کی ہچکچاہٹ ساحر نے صاف محسوس کی تھی جو اسے محظوظ کر رہی تھی۔


ساحر نے ایمان کے قریب آکر اسے دیوار سے لگایا اور اس کے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر اس کی راہ فرار بند کی۔


ساحر کا یوں پاس آنا ایمان کی دھڑکنیں تیز کر گیا تھا۔


ساحر نے بہت محبت سے ایمان کے ماتھے پر لب رکھے تو اس کی آنکھیں بے ساختہ بند ہوئیں۔


سوری جان من آئیندہ کوئی لڑکی میرے سامنے مر بھی رہی ہو گی تو بھی میں اس کے قریب نہیں جاؤں گا پلیز آخری غلطی سمجھ کر معاف کر دو۔


ساحر نے محبت پاش لہجے میں کہا تو ایمان نے نخرے دیکھاتے ہوئے نظر میں ادھر ادھر گھمائیں۔ اچھا جی نخرے دیکھائے جائیں گے۔


دیکھا لو دیکھا لو بس کچھ دن کی دوری ہے پھر تمھارے سارے نخرے بہت محبت سے اٹھاؤں گا۔


ساحر کی بات پر ایمان نے الجھ کر ساحر کو دیکھا۔ کچھ دن کی دوری کا مطلب یقیناوہ نہیں سمجھی تھی۔ ساحر مسکرایا۔


جان من نکاح ہونے والا ہمارا بہت جلد ۔ خود کو تیار کر لو بہت جلد تم سے تمھاری سانسیں تک چرانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔


ساحر کے گمبھیر لہجے میں ایمان کے لیے جذبات کا ایک الگ ہی سمندر تھا۔ نکاح مگر جب مجھے تو کسی نے نہیں بتایا۔ 


ایمان اپنی ناراضگی بھول کر ساحر سے پوچھنے لگی۔


ریان آجائے پھر دادا جان خود ہی سب کو بتانے والے ہیں۔


تم بس خود کر تیار کر لو میری جان تمھیں تھوڑی سے بے شرمی دیکھائی ہے۔


ساحر ونک کر کے کہتا روم سے باہر چلا گیا۔


ایمان کا دماغ وہ پوری طرح سے شادی کی لگا چکا تھا۔


ایمان کھڑی ساحر کے الفاظوں پہ باش کر رہی تھی۔


ساحر کی بے باک باتیں ایمان کو بری طرح ڈسٹرب کر دیتی تھیں جیسے ابھی ہوا تھا ایمان ساحر کی باتوں کو سوچتے ہوئے اس سے ناراضگی کو ہی بھول گئی تھی۔


ریان گاڑی چلاتے ہوئے بار بار مرحا کو دیکھ رہا تھا جو اس کی نظروں سے پزل ہوتی کبھی اپنی انگلیوں


سے کھیلنے لگتی کبھی باہر دیکھنے لگتی۔


ریان پلیز نہیں کریں نا آپ سامنے فوکس کریں۔


مرحا نے ریان کی شرارتی نظریں خود سے ہٹانے کے لیے کہا۔


میں اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں میڈم آپ کو کیا پریشانی ہے


ریان نے ونک کیا۔


آپ کی بیوی کو آپ کی نظریں پریشان کر رہی ہیں ۔ 


مرحا نے ریان کا چہرہ سامنے کی طرف کر کے کہا تو ریان نے قہقہہ لگایا۔


ارے بیوی صرف نظروں سے پریشان ہو رہی ہے پھر میری محبت میری شد توں پہ تو بیوی بے ہوش ہو جائے گی۔


افففف ریان آپ کتنے بے شرم ہو گئے ہیں آپ پہلے تو ایسے نہیں تھے پہلے آپ کتنے ڈیسنٹ تھے اب آپ بہت زیادہ وہ ہو گئے ہیں۔


مر جانے ریان کی بات پہ گھور کر کہا تو ریان کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔


وہ ہو گیا ہوں۔۔ یہ وہ کیا ہوتا ہے بے بی کھل کر بتاؤ نا۔


ریان نے مرحا کی بات پکڑی تھی۔


بے شرم ۔۔ آپ بہت بے شرم ہو گئے ہیں ریان۔


مر جانے گھور کر کہا۔


بے بی بے شرم نہیں اسے رومانٹک ہونا کہتے ہیں۔


اور تمھیں تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمھارا شوہر بہت رومانٹک ہے۔


ریان نے ونک کرکے کہا تو مرح کا کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کر نے کی۔


مرحا کے اس طرح تو بہ کرنے پر ریان نے قہقہہ لگایا۔


بے بی مائی بیوٹیفل لیڈی مائی سوئیٹ ہارٹ آئی او ویو سوچ۔


ریان نے محبت پاش لہجے میں کہا تو مر حا مسکرا کر نظریں جھکا گئی۔


ریان نے مرحا کو بہت ساری شاپنگ کروائی ایک بہترین سانچ کر وایا پھر اسے لانگ ڈرائیو پہ لے گیا۔


ریان نے مرحا کی ہر تھڑے بہت اسپیشل بنادی تھی۔


مرحا کا ہاتھ تھامے وہ آج کا پورا دن اس کی نظر کر چکا تھا۔


اب وہ لوگ واپس گھر جارہے تھے کیونکہ اندھیرا چھانے لگا تھا اور گھر میں سب ان کا ویٹ کر رہے تھے۔


ریان مرحا کو چھیڑ تا شرارت کرتا جس پہ مر حابلش کرتی کبھی اسے گھورتی۔


ایک خوبصورت دن ان دونوں نے ساتھ گزارا تھا۔


مینی دو پہر سے ہی گھر سے نکلی ہوئی تھی ابھی رات ہونے کو تھی تو وہ گھر میں داخل ہوئی۔


لو مینی بھی آگئی۔ کہاں چلی گئیں تھیں بیٹا۔


سمینہ بیگم نے اسے پیار کرتے ہوئے پوچھا تو وہ ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔


آئی کچھ ضروری کام تھا بس اس لیے دیر ہو گئی۔ بابا کہاں ہیں۔


عینی نے ان کو جواب دیتے ہوئے سہیل صاحب کا پوچھا۔


بیٹا وہ اپنے کمرے میں ہیں نور نے انہیں دوادے دی تھی تم مل لو جا کر۔


سمینہ بیگم کے کہنے پہ عینی جی کہتی سبیل صاحب کی طرف چلی گئی۔


اس نے اپنے بابا سے چھپ کر یہ کام چنا تھا مگر اب وہ چاہتی تھی کہ اس کے بابا کو اس بارے میں علم


ہو جائے۔


ڈیڈ۔۔


عینی نے دروازے سے پکارا تو سہیل صاحب جو نور سے باتیں کر رہے تھے عینی کو دیکھ کر مسکرا کر اسے


اپنے پاس بلایا۔


میر ابچہ کہاں چلا گیا تھا۔


سہیل صاحب نے عینی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔


ڈیڈ مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ بلکہ یوں سمجھیں آپ کو کچھ بتانا ہے۔


عینی نے سہیل صاحب اور نور کو دیکھ کر کہا۔


ہاں میر ابچہ بولو کیا بات ہے۔


سہیل صاحب نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہ


منین نے ایک گہری سانس


عینی: ڈیڈ میں نے آپ سے ایک جھوٹ بولا تھا۔


سهیل صاحب: کیا مطلب بیٹا کیسا جھوٹ۔


مینی: ڈیڈ میں تین سال پہلے باہر پڑھنے نہیں گئی تھی۔ مجھے کوئی اسکالر شپ نہیں ملی تھی۔


سبیل صاحب نے الجھ کر عینی کو دیکھا۔


سهیل صاحب: عینی بیٹا یہ کیا بول رہی ہیں آپ۔ آپ لندن نہیں گئی تھیں۔ تو پھر آپ پورے ڈیرھ دو سال کہاں تھیں۔


عینی نے گہری سانس لی۔


عینی : ڈیڈ میں ایک سیکریٹ ایجنٹ ہوں۔ میرا تعلق حساس ادارے سے ہے اور میں تب اس کی ٹریننگ لے رہی تھی۔


عینی نے آہستہ آہستہ بتایا تو نور اور سہیل صاحب نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔


سهیل صاحب: شکر ہے میڈم صاحبہ نے اپنا راز خود کھول دیا مجھے تو لگا تھا میں ان کے منہ سے کبھی سچ سن ہی نہیں سکوں گا۔

سہیل صاحب کی بات پہ عینی حیرت سے نور اور سہیل صاحب کا چہرہ دیکھنے لگی جو اپنی مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔

ڈیڈ آپ کو سب پتا تھا مگر آپ کو کیسے پتا میں تو ہر چیز اتنی چھپا کر رکھی تھی اور آپ نے کبھی مجھ پہ ظاہر ہی نہیں ہونے دیا۔ اور آپی تمھیں بھی سب پتا تھا۔

عینی حیرانگی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

سہیل صاحب اور نور بننے لگے۔

بیٹا میں آپ کا باپ ہوں مجھ سے کیسے چھپا سکتی تھیں آپ کچھ ۔ جب آپ ٹریننگ لے رہی تھیں مجھے تب ہی پتا لگ گیا تھا مگر ہم دونوں خاموش رہے کیونکہ ہم چاہتے تھے آپ خود ہمیں اس بارے میں بتائیں۔

مجھے فخر ہے اپنی بیٹی پہ۔

سہیل صاحب نے عینی کا ماتھا چوم کر کہا تو عینی کے دل کو سکون ملا تھا۔

وہ ہمیشہ یہ سوچتی تھی کہ وہ ڈیڈ اور آپی کو کیسے اس بارے میں بتائے گی مگر ان کو سب پتا تھا اور کوئی

اعتراض نہیں تھا اس بات نے عینی کو مطمئن کر دیا تھا۔

مینی تم نے شایان کو بتایا ہے اس بارے میں۔

نور نے عینی سے پوچھا۔

مجھے سب پتا ہے بھا بھی آخر بیگم ہیں میری مجھے نہیں پتہ ہو گا تو کے پتا ہو گا۔

عینی کے جواب دینے سے پہلے ہی شایان نے کمرے میں آتے ہی جواب دیا۔

بس ایک مسئلہ ہے ڈیڈ آپ کی بیٹی مجھے بہت ڈراتی ہے۔

شایان نے معصوم شکل بنا کر عینی کو دیکھا جو اسے گھورنے لگی۔

دیکھا دیکھا کیسے گھور رہی ہے مجھے۔